|تحریر: آدم پال، ترجمہ: یار یوسفزئی|
امریکی اور اتحادی افواج کے دو دہائیوں پر محیط خونی قبضے کے بعد انخلا کے ساتھ ہی افغانستان انتہائی تیزی سے ایک اور خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق سامراجی فوجوں کا انخلا 31 اگست تک مکمل ہو جائے گا، اگرچہ امریکی افواج کی بڑی اکثریت یا تو پہلے ہی ملک چھوڑ کر جا چکی ہے یا جلد بازی میں ملک چھوڑ کر رفو چکر ہونے کے عمل میں ہے جبکہ دوسری جانب کئی علاقوں میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
امریکی سامراج اور دیگر اتحادی افواج کے ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے کی وجہ صرف اور صرف طالبان بتائی جا رہی ہے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں پر مشتمل امریکی مداخلت اور افغانستان پر قبضے کو مقامی آبادی کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سامراجی جنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر شدید نفرت پائی جاتی ہے، جس میں اب تک ہزاروں معصوم جانیں لقمئہ اجل بن چکی ہیں اور پورا ملک تباہی، عدم استحکام اور بربریت سے دوچار ہوچکا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کئی مواقعوں پر، خصوصاً دیہی پشتون علاقوں میں، مغربی سامراج سے نفرت کے اظہار میں یا تو مقامی آبادی نے چپ چاپ طالبان کو قبول کر لیا یا بعض اوقات انہیں حملے کرنے میں مدد کی۔ تاہم، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آبادی کی اکثریت طالبان جیسی انتہائی رجعتی اور تنگ نظر قوتوں کے لیے کسی قسم کی گہری ہمدردی رکھتی تھی یا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ امریکی انخلا سے جنم لینے والے خلا کو کئی علاقوں میں طالبان اپنے ہزاروں مسلح جنگجوؤں کے ساتھ پُر کر رہے ہیں، اور جنہیں متعدد بیرونی قوتوں کی خفیہ پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
دو دہائیوں پر محیط جنگ اور 2 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد کی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد، امریکی حکمران طبقہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے جس کا اعلان اس نے جنگ کی شروعات میں دنیا کے سامنے کیا تھا۔ ان گنت شہریوں کے قتل عام، کئی علاقوں پر کارپٹ بمباری اور لاکھوں زندگیاں برباد کرنے کے بعد، امریکہ طالبان کے ساتھ ذلت آمیز معاہدہ کر کے واپس نکل رہا ہے۔ اس نام نہاد امن معاہدے میں، جو پچھلے سال قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ٹرمپ حکومت اور طالبان قیادت کے بیچ طے پایا تھا، امریکہ نے طالبان کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔
امریکہ اور اتحادی افواج کی حمایت یافتہ کمزور اور کرپٹ کابل حکومت، جس کی باگ ڈور اس وقت صدر اشرف غنی کے ہاتھوں میں ہے، امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی تیزی سے ٹوٹ کر بکھر رہی ہے۔ کیونکہ عوام کی ایک بھاری اکثریت سامراجی کٹھ پتلی ہونے کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کی اطلاعات کے مطابق یہ حکومت انخلاء کے بعد بمشکل چھے مہینے برقرار رہ پائے گی۔ جنگ کے آغاز پر سامراجیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بالآخر افغانستان کو جدید جمہوری ریاست میں تبدیل کر دیں گے۔ لیکن نتیجہ بدترین ناکامی کی صورت میں نکلا۔
20 سال قبل عالمی مارکسی رجحان (IMT) نے وضاحت کی تھی کہ یہ مہم جوئی محض افغانی عوام کی اذیتوں اور تباہ حالی میں اضافہ کرے گی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ تمام خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردے گی۔ جیسا کہ ہم نے نومبر 2001ء میں کابل پر امریکی افواج کے قبضے کے فوری بعد وضاحت کی تھی:
”طالبان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، مگر وہ جنگ کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوئے۔ پہاڑوں میں گوریلا جنگ لڑنا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ وہ پہلے بھی اس طرح لڑتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اسے جاری رکھ سکتے ہیں۔ شمال میں، وہ بیگانے علاقے اور مشکل حالات میں لڑ رہے تھے۔ مگر پشتون علاقے کے گاؤں اور پہاڑ ان کا اپنا وطن ہے۔ آنے والے عرصے میں کئی سالوں پر مبنی طویل مدتی گوریلا مہم جوئی کے امکانات موجود ہیں۔ اتحادی افواج کے لیے جنگ کا پہلا مرحلہ قدرے آسان تھا۔ دوسرا مرحلہ آسان نہیں ہوگا۔ برطانوی اور امریکی دستوں کو طالبان کی تلاش اور انہیں نشانہ بنانے کے لیے پشتون علاقوں کے اندر جانا پڑے گا، جہاں وہ گوریلوں کے لیے آسان ہدف ثابت ہوں گے۔ ہلاکتیں اور زخمی ہونا ناگزیر ہوگا۔ ایک مرحلے پر جا کر یہ عمل برطانیہ اور امریکہ میں رائے عامہ پر اثر انداز ہوگا۔
”امریکی امید کر رہے تھے کہ وہ، زیادہ تر اپنی فضائی قوت پر انحصار کرتے ہوئے، بن لادن کے خلاف مختصر سرجیکل سٹرائیک کرنے کے اہل ہوں گے۔ اس کے برعکس، یہ تصادم پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہوتا جا رہا ہے، اور اس کے اختتام کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ امریکہ کو اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف افغانستان میں بلکہ پاکستان اور دیگر ممالک کے اندر بھی اپنے دستے تعینات کرنے پڑیں گے۔ (۔۔۔)
”یہ صورتحال اس سے کئی گنا بد تر اور خطرناک ہے جس کا سامنا امریکیوں کو 11 ستمبر کے بعد کرنا پڑا تھا۔ اب واشنگٹن پاکستان کی دیوالیہ اور غیر مستحکم حکومت کے ساتھ معاہدے کرنے پر مجبور ہوگا، بشمول خطے کی دیگر ”دوستانہ“ ریاستوں کے ساتھ، جو اس کے اقدامات سے غیر مستحکم ہو رہی ہیں۔ اگر اس مشق کا مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہے تو مستقبل میں اس کے الٹ نتائج سامنے آئیں گے۔ ان واقعات سے قبل، سامراجیوں کے لیے دنیا کے اس حصے کے ہنگاموں اور جنگوں سے خود کو محفوظ رکھنا ممکن تھا، مگر اب وہ مکمل طور پر اس میں پھنس چکے ہیں۔ 11 ستمبر کے بعد اپنی حرکتوں کے باعث امریکہ اور برطانیہ نے خود کو دلدل میں دھکیل دیا ہے، جس سے خود کو باہر نکالنا مشکل ہوگا۔“
2008ء میں ہم نے دوبارہ وضاحت کی تھی کہ سامراجیت کے لیے یہ جنگ جیتنا نا ممکن ہے۔ طویل مدتی جنگ کے بعد، سامراجی ہار کر واپس جانے پر مجبور ہوں گے، جو اپنے پیچھے تباہی کا ایک سلسلہ چھوڑ کر جائیں گے:
”آخر میں اتحادی افواج، افغانستان پر قبضے کی کوشش ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ وہ اپنے پیچھے موت اور تباہی کا ایسا سلسلہ اور نفرت اور غصّے کا ایسا ورثہ چھوڑ کر جائیں گے جو دہائیوں تک جاری رہے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ مخالف گروہوں میں سے کون کابل میں اگلی حکومت قائم کرے گا۔ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ، ہمیشہ کی طرح، عام لوگوں کو ہی سب سے بھاری قیمت چکانی پڑے گی، جن میں مزدور، کسان، غریب، عمر رسیدہ، بیمار، خواتین اور بچے شامل ہیں۔
”افغانی لوگوں کی بھیانک قسمت امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کے بے شمار جرائم میں سے ایک ہے۔ بد نامِ زمانہ ’وار آن ٹیرر‘ کے لیے اپنے مقاصد حاصل کرنا تو دور، اس کے الٹ نتائج نکلے ہیں۔ سامراجیوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کے وجود کو بڑی توانائی بخشی ہے۔ انہوں نے (مذہبی) جنونیت کے شعلوں پر تیل انڈیلنے کا کام کیا ہے اور یوں القاعدہ اور طالبان کی بھرتیوں کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ انہوں نے افغانستان کو مکمل طور پر برباد کر دیا ہے اور اس عمل میں پاکستان کو غیر مستحکم کیا ہے۔ رومن تاریخ دان تاسیتس کے لافانی الفاظ میں، جن کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے: ’اور جب وہ بیابان تخلیق کرتے ہیں، وہ اسے امن کا نام دیتے ہیں‘۔“
یہ تجزیہ وقت نے درست ثابت کر دیا ہے، جبکہ سامراجیوں کے بلند و بانگ دعوے ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں۔ وہ لبرلز اور نام نہاد ’بایاں بازو‘ اور ’قوم پرست‘ جو امریکی سامراج کی حمایت کرتے رہے تھے، ان کا مکمل دیوالیہ پن بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔
امریکی مداخلت کی چار دہائیاں
افغانستان میں امریکی مداخلت کو اب چار دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ نور محمد ترکئی کی قیادت میں برپا ہونے والا 1978ء کا ثور انقلاب، ایک تاریخی موڑ تھا، جس کے ذریعے افغانستان کو سوشلسٹ بنیادوں پر تعمیر کرتے ہوئے اس وقت دنیا بھر کی تمام قوتوں کو للکارا جا سکتا تھا۔
افغانستان میں ہونے والی سوویت یونین کی مداخلت کے بعد، جس پر ٹیڈ گرانٹ (جو اس وقت مارکسی رجحان کا قائد تھا) نے شدید تنقید کی، امریکی سامراجیوں نے بد نامِ زمانہ ’ڈالر جہاد‘ کی امداد کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے، جس میں پاکستان کو طالبان اور امریکہ کے اتحادی دیگر جنگجوؤں (جن کو مجاہدین کا نام دیا گیا) کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، جہاں سے وہ سوویت افواج پر حملے کرتے رہے۔
پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی ظالمانہ آمریت نے محنت کش طبقے پر پُر تشدد حملے کیے اور اسلامی بنیاد پرست گروہوں کے ابھار کے لیے راہ ہموار کی، جن کو سعودی عرب اور امریکہ سے ملنے والی امداد کے بلبوتے پر خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد، سامراجیوں کا بنایا ہوا دیو ان کے قابو سے باہر ہو گیا۔ اس کا نتیجہ وحشیانہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلا، اور 1990ء کی پوری دہائی میں افغانستان تاراج ہوتا رہا۔ سارا ملک بربریت میں دھکیلا گیا اور مختلف جہادی دھڑوں کی کابل پر قبضے کی لڑائی میں ہزاروں معصوم افرادکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
نئی صدی کے آغاز پر، امریکی سامراج کے بدلتے مفادات کے ساتھ، ان ”مجاہدین“ کو اچانک دہشت گرد قرار دے دیا گیا، جو اب اپنے سابقہ مالک کو ہی کاٹنے لگے تھے۔ تاریخ کی سب سے بڑی سامراجی قوت نے کرہئ ارض پر موجود پسماندہ ترین اور تباہ حال قوم کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا، اور افغانستان کو پوری دنیا کے لیے خطرہ قرار دے دیا گیا جو کسی مضحکہ سے کم نہیں تھا۔ اس جنگ کے اختتام پر، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انہی دہشت گردوں کے ساتھ ’امن‘ معاہدے پر دستخط کیے، ان کی تمام شرائط و ضوابط کو تسلیم کیا گیا، جن میں افغان جیلوں سے ہزاروں طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل ہے، اور عالمی سفارتکاری میں طالبان کو شراکت دار تسلیم کر لیا گیا۔
اس دوران، طالبان کی بربریت اور مذہب کے نام پر جبر نے ملک بھر کی خاطر خواہ آبادی، بالخصوص غیر پشتون اور شہری علاقوں میں، ان کے خلاف شدید نفرت کو جنم دیا۔ یہ محض ایران، پاکستان اور دیگر سامراجی قوتوں کی حمایت ہی تھی جس کے بلبوتے پر طالبان منظم ہونے اور جنگ لڑنے کے قابل تھے۔ اس عمل میں امریکی پشت پناہی میں قائم کی گئی حکومت کی کرپشن اور جبر نے بھی معاونت کی ہے، جس کی وجہ سے، خصوصاً پشتون علاقوں میں، دیہی آبادی کی ایک پرت کو طالبان کی جانب دھکیل دیا۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں خود امریکی سامراج ان رجعتی اسلامی بنیاد پرست قوتوں کی پشت پناہی اور مدد کرتا رہا ہے۔ اور جیسے ہی یہ رجعتی امریکی سامراج کے خلاف جا کھڑے ہوئے، تو اپنے ہی تخلیق کردہ اس عفریت کو خطے میں امریکی فوجی مداخلت کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
آج سامراجی جنگ ترک کر کے جا رہے ہیں، جسے بس شرمناک شکست ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ پینٹاگون میں موجود جنگ جاری رکھنے کے خواہشمند جرنیلوں کے تمام اعتراضات کے باوجود، یہ شکست امریکی سرمایہ داری کے گلے کا کانٹا بن گئی ہے، جو تاریخ کے بڑے معاشی، سماجی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے، اور جس کی آبادی نہ ختم ہونے والی جنگوں سے بے حد بیزار ہے۔ جو افغانستان وہ اپنے پیچھے چھوڑے جا رہے ہیں وہ پسماندگی، بدحالی اور تباہی کی داستان سناتا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ، ان قوتوں کی امداد کے باوجود، کابل حکومت ملک گیر عوامی حمایت جیتنے میں بالکل ناکام ہوئی ہے۔ دو دہائیوں تک اربوں ڈالر کی دیوہیکل امداد حاصل کرنے کے بعد، اب یہ حکومت ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی ہے۔ اب جبکہ نفرت انگیز جنگ اختتام پذیر ہو رہی ہے، کٹھ پتلی حکومت اور اس کے تمام تر ادارے زمین بوس ہونے جا رہے ہیں۔ افغانستان پر سامراجی قوتوں کی جانب سے مسلط کی گئی مصنوعی ریاستی مشینری منہدم ہو رہی ہے، جبکہ 2 لاکھ قومی افغانی فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز تیزی کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔
سامراجی قوتوں کی مسلط کی ہوئی کوئی بھی حکومت خود کو لا امتناعی طور پر قائم نہیں رکھ سکتی جب عوام اس سے شدید نفرت کرتے ہوں۔ پچھلی دو دہائیوں کے تمام نام نہاد انتخابات، حکومتی کرپشن اور عوام کے خلاف اس کے جرائم، اب ساری دنیا کے سامنے بالکل واضح ہیں۔
کابل حکومت کی یہ شدید کمزوری سامراجی قوتوں سے ڈھکی چھپی نہیں تھی بلکہ وہ کئی سالوں سے اس حقیقت سے واقف تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے دنیا کے سامنے کامیابی کی ایک فرضی کہانی گھڑنے کی کوشش کی، اور افغانستان میں ’فتح‘ کا اعلان کیا۔ مگر پچھلے کچھ سالوں کے دوران، ہلاکتوں اور دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر قابض افواج مزید وہاں پر رہتی تو انہیں مزید ذلت و رسوائی کا ہی سامنا کرنا پڑتا۔
اطلاعات کے مطابق طالبان اس وقت ملک کے طول و عرض میں کئی علاقوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں، اور وہ افغان علاقے کے 85 فیصد حصے پر قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ یہ مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ کم از کم 40 فیصد اضلاع پر قابض ہیں، جبکہ لگ بھگ دیگر 42 فیصد اضلاع پر قبضے کے لیے افغان نیشنل آرمی کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ کئی شہروں میں، افغان نیشنل آرمی اپنی چھاؤنیاں چھوڑ کر بھاگ رہی ہے، کہیں لڑے بغیر، اور کہیں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال کر اور حتیٰ کہ طالبان کے ساتھ شامل ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ طالبان ترک کی گئیں چھاؤنیوں کی اکثریت پر قبضہ جما رہے ہیں، جو رخصت ہوتی امریکی افواج کے ہتھیار اور توپ خانے اپنے قبضے میں لے رہے ہیں، اور ان کے دیگر سامان پر بھی قبضہ کر رہے ہیں، البتہ ان کے پاس کئی بڑے علاقوں کو اپنے زیرِ نگرانی رکھنے کے لیے اب بھی تعداد کم ہے۔
بہرحال، نظر ڈالنے پر محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ لوگ بیرونی مداخلت کے اختتام پر خوش ہیں، وہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پریشان ہیں۔ عوام کے بیچ خونریزی اور خانہ جنگی کے حوالے سے خوف پایا جا رہا ہے، جبکہ ہزاروں افراد طالبان کے قبضے میں آنے والے علاقوں سے فرار ہو رہے ہیں۔ طالبان کی حمایت میں کمی کا مزید اظہار اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھرتیوں کا سلسلہ شروع کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، جنہیں اس عمل میں پاکستانی ریاست کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوؤں کی سینکڑوں لاشیں روزانہ کی بنیاد پر تدفین کے لیے پاکستان لائی جا رہی ہیں۔
علاقائی قوتوں کی مداخلت
امریکہ کی شکست کو قریب آتے دیکھ کر اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں عدم استحکام کے باعث جنم لینے والی ممکنہ خانہ جنگی کے امکانات کے پیشِ نظر، ایرانی حکومت، روس اور چین کے تعاون کے ساتھ، طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کر رہی ہے۔
مستقبل کی ملکی حکومت پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کی امید میں، ایران نے پچھلے کچھ برسوں کے دوران طالبان کو اس شرط پر دوبارہ منظم ہونے میں مدد فراہم کی ہے کہ وہ امریکی افواج کے اوپر حملوں میں اضافہ کریں اور داعش، جو افغان اسلام پرستوں میں زور پکڑ رہی تھی، کے خلاف جنگ کی حمایت کریں۔ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران، طالبان کے وفد نے تہران کا دورہ بھی کیا ہے، جو ایران کی خونخوار ملّا حکومت کا تحفظ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ایرانی حکمران نہ صرف تربیتی کیمپ اور ہتھیار مہیا کر کے طالبان کی حمایت کر رہے ہیں، بلکہ نسلی و فرقہ وارانہ تفریق کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان میں موجود شیعہ آبادی کو بھی طالبان کی حمایت کا درس دے رہے ہیں۔
ایران کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں فرقہ وارانہ اور قومی وار لارڈز اور مقامی اشرافیہ کی بننے والی مخلوط حکومت کی حمایت کرتے ہوئے اپنا اثرورسوخ قائم رکھے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرے، جس میں اولین مقصد عدم استحکام کو کم کرنا ہے تاکہ اس کے اثرات ایران کے اندر مرتب نہ ہوں۔ اس کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب طالبان نے اسلام قلعہ کے مقام پر قبضہ کر لیا، جو ایران کو داخل ہونے والی بڑے تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ یہاں طالبان کے قبضے کے مناظر وسیع پیمانے پر ایرانی میڈیا میں دکھائے جاتے رہے، جہاں پر انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کیا۔ یہ راستہ ایرانی حکومت کے لیے ماہانہ 2 کروڑ ڈالر آمدنی کا ذریعہ ہے۔
ظاہر ہے کہ طالبان، جن کی اکثریت پشتون وہابیوں پر مشتمل ہے، کو شیعہ حکومت کے ساتھ ہاتھ ملانے سے کوئی مسئلہ نہیں، گو کہ یہ دشمن تصور کیے جاتے ہیں لیکن جب تک پیسہ اور ہتھیار مہیا ہوتے رہیں، یہ تمام تفریقیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
اسی طرح، روس اور چین کے مفادات بھی ایران سے ملتے جلتے ہیں، جو طالبان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں، تاکہ مستقبل کی ایسی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرسکیں جس میں طالبان ممکنہ طور پر غالب قوت ہوں گے۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے، وہ طالبان سے اس امر کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ افغانستان کی شمالی سرحدوں کو سابقہ سوویت جمہوریہ ممالک پر حملے کرنے کے لیے بطورِ لانچنگ پیڈ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ بھارت نے بھی حالیہ عرصے میں دوحہ میں موجود طالبان کی ایمبیسی میں اپنے نمائندے بھیجے، تاکہ مستقبل کی افغان قیادت کے ساتھ معاہدہ کر سکے۔ یہ ستم ظریفی سے کم نہیں ہے کہ بھارت، جو ہندو بنیاد پرست مودی کی قیادت میں ہے، اسلامی بنیاد پرست طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے، مگر یہ اس حوالے سے ایک منطقی بات ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ بھی اس قوت پر اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے جو اس کے خیال میں ملک پر حکومت کرے گی۔
پچھلے کچھ ہفتوں میں، طالبان نے ملک کے شمال میں کچھ علاقوں پر قبضے کیے ہیں، جن میں مغربی چین کی سرحدوں پر واقع بدخشان صوبے کے کچھ اضلاع بھی شامل ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر غیر پشتون قومیتیں آباد ہیں، جو ماضی میں طالبان مخالف قوتوں کے مضبوط گڑھ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان چند فتوحات کو طالبان کے حامی بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، بشمول پاکستان، جو انہیں بڑی پیشرفت کہہ کر کابل پر طالبان کے قبضے کا پیش خیمہ ثابت کر رہے ہیں۔ مگر طالبان کی مکمل فتح نا ممکن دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ وہ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر عوامی حمایت سے محروم ہیں۔ اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ طالبان دیگر متنوع گروہوں کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت بنائیں۔
البتہ ایسا ہونا بھی یقینی نہیں۔ عدم استحکام درپیش صورتحال کا خاصہ ہے۔ افغانستان کی مظلوم برادریاں، جیسا کہ ہزارہ شیعہ، تاجک اور ازبک، طالبان کا خیر مقدم نہیں کر رہے، اور خانہ جنگی کی صورت میں اپنا دفاع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ طالبان کی جانب سے دھاوا بول دینے کی صورت میں کابل حکومت نے مقامی قبائلی افواج، وار لارڈز اور ملیشیاؤں کو اپنے دفاع کے لیے منظم اور اکٹھا ہونے کی اجازت بھی دی ہے۔ در حقیقت، یہ کابل حکومت اور افغان نیشنل آرمی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مقامی وار لارڈز، قبائلی عمائدین، اور چھوٹی قومیتیں اپنے علاقوں کے دفاع کے لیے خود کو مسلح کریں گے، اور اس کا نتیجہ بالآخر ملک بھر میں خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اس صورتحال میں، امریکہ دیوانہ وار اپنی عزت بچانے کے چکر میں ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے افغانستان میں حالات کو قابو میں کرنے کے لیے روس اور چین سے بھی اپیل کی ہے، تاکہ امریکہ اس خونی جنگ کو ترک کرتے ہوئے کم از کم جزوی ’فتح‘ کا دعویٰ تو کر سکے۔ در حقیقت، بائیڈن اور پیوٹن کے بیچ حالیہ ملاقاتوں میں افغانستان زیرِ بحث لائے جانے والے موضوعات میں سے ایک تھا۔ بہرحال، روس، چین، ترکی اور دیگر قوتوں کی کوششوں کے باوجود، کوئی خاطرخواہ مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکے۔ جنگ کا اختتام اور سامراجی قوتوں کی واپسی عدم استحکام کا خاتمہ نہیں کرے گی، اس کے برعکس اس کی شدت میں اضافہ ہوگا۔
پچھلے کچھ سالوں کے دوران ماسکو اور بیجنگ نے بھی کابل حکومت اور طالبان کے بیچ کئی مذاکرات کا اہتمام کیا ہے، مگر اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے ہیں۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ہر طرف کمزور قوتیں ہیں، اور علاقائی قوتوں کی حمایت کے باوجود، کوئی بھی مکمل فتح حاصل نہیں کر پا رہا۔ چین نے معدنی وسائل لوٹنے کی منافع بخش پالیسی اپنانے اور جغرافیائی اعتبار سے اہمیت کے حامل افغانستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر وہ ساری صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے درکار مالی و عسکری وسائل وقف کرنے کے حوالے سے خاصا محتاط ہے۔
چین، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرح طاقتور نہیں ہے۔ اگر کرہئ ارض پر موجود سب سے بڑی اور امیر ترین قوت کی دو دہائیوں پر مشتمل فوجی مداخلت افغانستان میں استحکام نہیں لا پائی، تو چین، روس یا کسی اور علاقائی قوت سے کیسے اس کی توقع کی جا سکتی ہے؟ بہرحال، اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے، افغانستان کے اندر چین کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے اور اس نے بھی طالبان کے ساتھ امن معاہدے کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اپنی موجودہ اور ممکنہ طور پر مستقبل کی سرمایہ کاری کی حفاظت کر سکے، خصوصاً بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے۔ ایرانی ذرائع کے مطابق، اس مقصد کے لیے بیجنگ نے طالبان کے ساتھ افغانستان کے منہدم ہوتے انفراسٹرکچر کو تعمیر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ چین اس کوشش میں بھی ہے کہ سنکیانگ صوبے میں موجود علیحدگی پسندوں کو سرحد پار موجود جہادی گروہوں کی حمایت سے محروم رکھ سکے۔
پاکستان
افغانستان میں دہائیوں سے جاری امریکی سامراج کی مداخلت کے پاکستان کے اوپر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، ایک ایسا ملک جس نے اپنی 73 سالہ تاریخ میں امریکی سامراج کی سرپرستی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ دہائیوں تک خطے کے اندر امریکی سامراجیت کے گماشتے کا کردار ادا کرتے ہوئے یہ افغانستان میں خونریزی کی حمایت کرتا رہا، پہلے 80ء کی دہائی میں ’ڈالر جہاد‘ کے دوران، اور بعد میں نام نہاد ’وار آن ٹیرر‘ کے دوران۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اس خونی کاروبار سے مکروہ حد تک مال بنایا ہے اور طالبان جیسی رجعتی قوتوں کو پاکستانی محنت کش طبقے کے بیچ خوف و ہراس پھیلانے کی خاطر بھی استعمال کیا ہے۔
مگر افغانستان کے اندر حالیہ واقعات نے پاکستانی ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ امریکہ اپنی پچھلی دو دہائیوں کی ناکامیوں کا موردِ الزام پاکستان کو ٹھہرا رہا ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرنے میں درست ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں دوغلا کردار نبھایا ہے۔ وہ پاکستان پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے امریکہ کی نام نہاد ’وار آن ٹیرر‘ کی حمایت کے عوض بے تحاشا دولت (ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق 33 ارب ڈالر) اینٹھی ہے، جبکہ دوسری جانب پاکستان کے اندر طالبان کی قیادت کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ اب، امریکہ خطے میں موجود اپنے اس سابقہ گماشتے کو سبق سکھانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
امریکی سامراج کی اپنے اس دہائیوں کے گماشتے کو مکمل قابو میں رکھنے میں ناکامی خود اس کے اپنے بحران کا ایک اور اظہار ہے۔ بہرحال، اب امریکہ عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پاکستانی ریاست کے پر کتر رہا ہے، اور خطے میں اس کے کردار کو محدود کر رہا ہے۔
امریکہ کے ایما پر، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے پاکستان کو پچھلے تین سالوں سے گرے لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور اسے بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکی دے رہا ہے اگر وہ اس کے قواعد و ضوابط کے مطابق دہشت گردی کو مالی معاونت فراہم کرنا اور منی لانڈرنگ کرنا روک نہ دے۔ در حقیقت، یہ سارے جرائم، جن میں عالمی سطح پر ہیروئن کی تجارت بھی شامل ہے، 80ء کی دہائی کے ’ڈالر جہاد‘ کا حصہ تھے، جب سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج کی جنگ میں پاکستان پہلی صفوں میں شامل تھا۔ آج، یہ مجرمانہ سرگرمیاں پاکستانی ریاست کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہیں۔
امریکی سامراج آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں پر بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کا گلا دبا رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کا انحصار آغاز سے ہی آئی ایم ایف کے اوپر رہا ہے، جو اس کی تمام پالیسیاں اور بجٹ ترتیب دیتی ہے۔ امریکی ریاست نے آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کو قرض اور سود کے ذریعے اس ملک کے محنت کشوں کی پیدا کی گئی دولت نچوڑنے کی خاطر استعمال کیا ہے، جبکہ یہاں کے حکمران طبقے کو بھی اپنے قابو میں رکھا ہے۔
ان سامراجی مالیاتی پالیسیوں کے تحت، 7 لاکھ کی پاکستانی فوج، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہے، کا بوجھ کرہئ ارض کے غریب ترین لوگوں کے کندھوں پر ڈالا جاتا ہے۔ پچھلی سات دہائیوں سے، پاکستان کی اس حیثیت کو سامراجی قوتوں کے مفادات حاصل کرنے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جہاں پاکستان نے افغانستان کے اندر ”سٹریٹیجک ڈیپتھ“ کی پالیسی اپنائی ہے، تاکہ کابل میں اپنی فرمانبردار حکومت قائم کر سکے۔
پاکستان نے بار ہا امریکی حکمران طبقے سے جنگ جاری رکھنے کی درخواستیں کی ہیں۔ اس لیے کیونکہ انخلاء کا مطلب پاکستان کے اوپر امریکہ کے انحصار کا خاتمہ ہوگا، اور یوں پاکستانی حکمران طبقے کے خزانوں میں ڈالر کا بہاؤ بھی رک جائے گا۔ مگر تمام گزارشات کے باوجود، ابھی کے لیے، امریکی بالآخر پورا خطہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران امریکی حکمران طبقے نے بھارت کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے ہیں، جس کی ایک وجہ چین کے ساتھ تصادم بھی ہے، جبکہ اس عمل میں پاکستان کی حیثیت کم ہوئی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے بیچ تبدیل شدہ تعلقات کی ایک جھلک اس حقیقت میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ پچھلے ہفتے، امریکیوں نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جو جنگ میں کم عمر سپاہیوں کو استعمال کرتا ہے، جس کے باعث کئی ممالک سے عسکری و مالی امداد حاصل کرنے کے حوالے سے پاکستان پر پابندی لگا دی جائے گی۔ محض اس اقدام سے پاکستان کے سامراجی آقاؤں کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے، جو اپنی پسندیدہ کٹھ پتلی کو چھوڑ کر خطے میں موجود بہتر آپشنز کو استعمال کرنے لگی ہے۔
البتہ پاکستانی حکمران طبقہ، امریکی حکمران طبقے کو رام کرنے کوشش میں ہے، جبکہ دوسری جانب کابل پر طالبان کے قبضے کی حمایت بھی کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ بٹور سکے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی حربہ کارگر ثابت نہیں ہو پائے گا، کیونکہ سارے تضادات سے بھرے پڑے ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقے کا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ افغانستان میں موجود طالبان قیادت محض پاکستان کے اوپر انحصار نہیں کر رہی، جو ایران، روس اور دیگر قوتوں کی حمایت کے بغیر برقرار نہیں رہ پائے گی۔ اور ان تمام قوتوں کی حمایت کے باوجود بھی، وہ پورے ملک کو اپنے قابو میں کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
نہ ختم ہونے والی وحشت
اگر طالبان کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو یہ انتہائی کمزور اور غیر مستحکم حکومت ہوگی۔ آپس کی لڑائیوں اور ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوگا، جس کے ساتھ مخالف قوتوں کی مزاحمت کا بھی سامنا ہوگا، جن میں مقامی جاگیردار اور قبائلی قائدین شامل ہیں۔
سماجی عدم استحکام اس غریب ملک کی بنیادوں میں شامل ہے، اور یہ مسئلہ ہیروئن کی تجارت یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی چین، روس، ایران، پاکستان اور دیگر ممالک کی مالیاتی امداد عدم استحکام کی اہم ترین وجہ یعنی شدید غربت اور عوام کی اذیتوں کو مٹانے کے لیے کافی ہوگی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے آنے والے اربوں ڈالر محض وار لارڈز، قبائلی سرداروں، این جی اوز اور بلاشبہ امریکی سویلین ٹھیکیداروں کے خزانے بھرتے رہے۔
ایران، روس اور چین سارے اپنے تنگ نظر مفادات کے حصول کی خاطر افغانستان میں استحکام چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے اپنے ممالک میں عدم استحکام داخل ہو اور وہ ایک ایسی نئی حکومت کے خواہشمند ہیں جو ان کے مفادات کی معاون ثابت ہو۔ مگر آنے والے عرصے میں افغانستان کے اندر حقیقی استحکام لوٹ آنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ فرقہ وارانہ تصادم، مقامی ملیشیاؤں کی تعداد میں تیز رفتار اضافہ اور پراکسی جنگیں کسی ایک یا دوسری صورت جاری رہیں گی، جو خونریزی اور ہلاکتوں کے تسلسل اور افغانی عوام کی اذیتوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس کا نتیجہ ہمسائے ممالک میں بڑے پیمانے پر افغانی مہاجرین کی منتقلی کی صورت میں نکلے گا۔ مغربی سامراجی قوتیں، جو اس تمام تر فساد کے ذمہ دار ہیں، ابھی سے افغانیوں کو ویزے فراہم کرنے سے انکاری ہیں اور انہیں سامراج کے اپنے تخلیق کردہ خونریز جہنم میں زندگی گزارنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
پچھلی چار دہائیوں کے دوران پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک نے بے رحمی سے افغانی مہاجرین کا استحصال کیا ہے۔ ایک جانب، ان مہاجرین کا بہانہ بنا کر امیر ممالک سے امداد وصول کی جاتی رہی، جس سے بالآخر امیروں ہی کی جیبیں بھرتی رہی، تو دوسری جانب مقامی سرمایہ دار ان غیر قانونی مہاجرین کی سستی محنت کا استحصال کرتے ہوئے بے تحاشا منافعے کماتے رہے اور اوسط تنخواہوں کو کم سطح پر رکھا گیا۔ ماضی کے اندر، مہاجرین رجعتی قوتوں کے لیے بھرتیوں کا بھی اہم ذریعہ رہے ہیں، جو ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث رہے۔ مگر اب، صورتحال بڑے پیمانے پر تبدیل ہو چکی ہے، اور طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر نفرت پائی جاتی ہے۔
افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع وہ پاکستانی علاقے جن کو 80ء کی دہائی میں جہادی اڈوں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا، اور جہاں رجعت کا غلبہ تھا، آج وہاں پر حکمران طبقے کی پالیسیوں کے خلاف ایک ابلتا ہوا غصّہ موجود ہے۔ نام نہاد فوجی آپریشنوں، جنگ اور مذہب کے نام پر دہشت گردی اور سامراجی حربوں کے خلاف ایک طاقتور تحریک (پشتون تحفظ موومنٹ) ابھر چکی ہے۔ بد قسمتی سے، اس تحریک کی قیادت پورے خطے کے محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت قائم کر کے طبقاتی بنیادوں پر تحریک کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی بجائے، انہوں نے طالبان کی جارحیت کے خلاف امریکی سامراج پر انحصار کیا ہے، بالکل اس طرح جیسا کہ دنبہ بھیڑیے سے مدد طلب کرتا ہے۔
اس صورتحال نے خطے بھر کے نام نہاد ’بائیں بازو‘ اور ’قوم پرستوں‘ کے حقیقی کردار کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے، جو پچھلی دو دہائیوں سے امریکی سامراج کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اگر 20 سال قبل امریکی سامراج اور طالبان کی رجعت کے خلاف بیک وقت طبقاتی جنگ کا آغاز کیا جاتا، جیسا کہ مارکس وادی وضاحت کرتے رہے، تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔ افغانی عوام کے سامنے ایک انقلابی متبادل موجود ہوتا۔ طبقاتی جنگ ہمسائے ممالک، خاص کر ایران اور پاکستان میں موجود محنت کش طبقے کی مدد سے لڑی جا سکتی تھی۔ بالآخر، وہ دنیا بھر کے محنت کشوں کی حمایت حاصل کر پاتے، بشمول امریکی محنت کشوں کے۔ مگر سابقہ بائیں بازو اور قوم پرستوں نے ان ممکنات کا راستہ روکے رکھا، جو کسی ایک یا دوسری سامراجی قوت کے خون آلود ہاتھ پکڑتے رہے، جس کے باعث پورا ملک تباہی کے دلدل میں پھنس گیا۔
یہی وقت ہے کہ موجودہ انتشار سے ضروری اسباق اخذ کرتے ہوئے انقلابی مارکسزم کے حقیقی خیالات کی بنیادوں پر ایک انقلابی متبادل تعمیر کیا جائے۔ یہ صرف خطے کا محنت کش طبقہ ہی ہے جو افغانستان میں تمام رجعتی قوتوں کو شکست دینے اور جنگ سے اجڑے ہوئے اس خطے میں امن و خوشحالی قائم کرنے کی صلاحیت اور جستجو رکھتا ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر، تمام راستے تباہی و بربادی کی طرف نکلتے ہیں، جو افغانیوں کی آئندہ نسلوں کو جنگ اور تباہی کے گھن چکر میں پھنسا دیں گے۔
آگے بڑھنے کا واحد راستہ افغانستان کی سوشلسٹ بنیادوں پر تبدیلی ہے، اور یہ عمل ایران، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے انقلابات پر منحصر ہے۔ ان نظریات کی بنیادوں پر ایک انقلابی قوت تعمیر کرنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے اس خونریزی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔