افغانستان: سامراجی طاقتوں کی منافقت اور طالبان کا جبر؛ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے!

|تحریر: زلمی پاسون|

افغانستان کو تاریخ کا عجائب گھر کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ جہاں سرمایہ دارانہ رشتے موجود ہیں، جو امریکی جارحیت کے ذریعے مزید سرایت کرائے گئے، وہیں غالب سماجی ڈھانچہ قبائلیت پر مبنی ہے۔ امریکی سامراج کی آمد کے وقت کچھ لبرل دانشوروں کو یہ خوش فہمی تھی کہ شاید امریکی افغانستان کو جدید قومی ریاست بنائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اے این پی سمیت دیگر لبرل سیکولر پارٹیاں اور حتی کہ بائیں بازو کے لوگ سب امریکہ نواز افغان حکومت کے گرویدہ ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ پی ٹی ایم کی قیادت کی بھی اس حکومت میں خوش فہمیاں تھیں۔ مارکس وادیوں نے عہد کے عمومی کردار کے پیش نظر اس تناظر کو یکسر رد کر دیا تھا اور مارکس وادیوں کا تناظر درست ثابت ہوا۔ جدید قوم بننا تو درکنار آج افغانستان بربریت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جہاں ایک طرف مذہب کے نام پر وحشی ملاؤں کا راج ہے وہیں مظلوم اقوام کا احساس محرومی بھی سلگ رہا ہے اور سماجی تانا بانا شدید انتشار کا شکار ہے۔

اس صورتحال میں سامراجی طاقتوں کے کٹھ پتلی ادارے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دوحہ مذاکرات کا تیسرا راؤنڈ 29، 30 جون 2024ء کو قطری درالحکومت دوحہ میں منعقد ہوا۔ اس راؤنڈ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نہ صرف طالبان کو مدعو کیا گیا تھا بلکہ طالبان کی ہی شرائط پر مذاکرات کے اس راؤنڈ سے افغان خواتین اور دیگر انسانی حقوق کے علمبردار کارکنان کو شرکت سے منع کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں طالبان نے اپنی شرائط منوا کر خود کو کامیاب تصور کیا جبکہ دوسری جانب اقوام متحدہ کی اس منافقانہ پالیسی پر افغان خواتین و انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی۔

واضح رہے کہ افغانستان پر سامراجی پشت پناہی سے تخت نشین ہونے کے بعد طالبان کی نام نہاد بین الاقوامی برادری کے ساتھ پہلی نشست ہوئی ہے گو کہ یہ واضح ہے کہ اس طرح کی نام نہاد مذاکراتی نشستیں افغان عوام کے مسائل کرنے کو حل کرنا تو دور کی بات بلکہ ان کو ٹھیک سے جان بھی نہیں پاتیں۔ مگر سامراجیت کے منافقانہ عزائم اور زوال پذیری کو محض عالمگیر محنت کش طبقے سے چھپانے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈوں کا استعمال ناگزیر عمل بن چکا ہے تاکہ افغانستان میں شرمناک شکست کا سامنا کرنے والی عالمی سامراجی قوت امریکہ اور سب سے بڑے سامراجی فوجی اتحاد نیٹو کی ہزیمت اور شرمندگی پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی جا سکے۔

دوحہ مذاکرات اور طالبان

سب سے پہلے تو یہ بات انتہائی اہم ہے کہ طالبان نے دوحہ مذاکرات کے حوالے سے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا اس وقت شروع کیا جب مذاکرات کے تیسرے راؤنڈ میں ان کی شرکت کو یقینی بنانے کی لیے طالبان کی خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی عدم شرکت کے مطالبات کو قبول کر لیا گیا۔ طالبان نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ بین الاقوامی برادری افغانستان پر لگی پابندیوں کو ختم کرے گی، طالبان قیادت کو بلیک لسٹ سے نکال دے گی جبکہ دیگر اہم امور پر بھی بات چیت ہو گی۔

اس کے علاوہ طالبان ترجمان نے مذاکرات کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا مؤقف بین الاقوامی برادری تک پہنچایا گیا، جبکہ بین الاقوامی برادری نے افغانستان سے متعلق مختلف امور بشمول منشیات کی روک تھام، نجی شعبے میں مدد، افغان بینکنگ سسٹم سے پابندیاں ہٹانے اور کابل حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تبادلہ خیال ہوا مگر مذاکرات کے اختتام پر طالبان کی جانب سے افغانستان میں نہ تو کسی قسم کی اصلاحات کی یقین دہانی کرائی گئی اور نہ ہی وہ بین الاقوامی برادری سے کسی قسم کے مراعات کے حصول میں کامیاب ہو سکے۔

اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری روز میری ڈکارلوس نے اپنے منافقانہ بیان میں طالبان حکومت کو اس وقت تک تسلیم کرنے کے امکان کو مسترد کر دیا، جب تک طالبان خواتین کی تعلیم سمیت، خواتین و دیگر انسانی حقوق پر عائد پابندیاں ختم نہیں کر دیتے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں اس وقت 16 ممالک کے سفارت خانے فعال ہیں لیکن بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ خواتین و انسانی حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کے حصول پر پابندی قرار دی جا رہی ہے مگر دوسری جانب طالبان نے خواتین و دیگر انسانی حقوق کو افغانستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کو شریعت کے مطابق قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے نام نہاد مذاکرات کے ڈراموں سے افغانستان کے مفلوک الحال عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ طالبان کی شرائط تسلیم کیے جانے سے بظاہر انہیں فائدہ ملا ہے اور وہ اس کامیابی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں کہ نام نہاد بین الاقوامی برادری طالبان سے مراسم بنانے کے لیے مجبور ہے۔ طالبان کے جابرانہ رویوں میں اس کا اظہار ہونا ایک ناگزیر عمل ہے جس کے ذریعے وہ مزید بنیادی انسانی و جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے سمیت افغان سماج کو پتھر کے زمانے میں مزید دھکیلنے سے گریزاں نہیں ہوں گے۔

افغانستان کی اصل تصویر اور جھوٹا پروپیگنڈا

افغانستان پر طالبان کی سامراجی پشت پناہی پر مبنی اقتدار کو تقریباً تین سال پورے ہونے کو ہیں اور ان تین سالوں میں طالبان نے افغان سماج پر ظلم اور جبر کی انتہا کر دی ہے اور پورے ملک کو محض بندوق کی نوک پر کنٹرول میں رکھا ہوا ہے جبکہ زندگی کے تمام اشاریے منفی میں جا رہے ہیں۔ گو کہ افغان سماج کی موجودہ بدحالی کے ذمہ دار تن تنہا طالبان نہیں ہیں، بلکہ اس سے پہلے جو سامراجی گدھ تخت اقتدار پر مسند تھے وہ، ان کے سامراجی آقا اور بالعموم سرمایہ دارانہ نظام اس تمام تر مفلوک الحالی کے ذمہ دار ہیں۔ مگر طالبان کے حوالے سے موجودہ حالات میں بات کرنا اس لیے ضروری ہے کہ طالبان پچھلے تین سالوں سے برسر اقتدار ہیں اور وہ محض گفتار کے غازی بنے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں اقتدار میں موجود طالبان کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو چکا ہے مگر حالات زندگی کی ابتری میں وہاں پر روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور امن کے بارے میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ امن کو برباد کرنے والے آج ہی کے درندہ صفت دہشت گرد حکمران ہی تھے جنہوں نے امن کو سامراجی عزائم کے تحت تاراج کیا تھا۔ حبیب جالب کے الفاظ میں، ”ظلم رہے اور امن بھی ہو! کیا ممکن ہے تم ہی کہو“

طالبان حکومت کی جانب سے پچھلے تین سالوں میں انفراسٹرکچر کی مد میں جو پروجیکٹس سابقہ ادوار حکومت میں زیر تعمیر تھے، ان میں سے چند کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا شور و غوغا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے چار کروڑ کی مظلوم عوام کی زندگی کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ افغانستان کی مجموعی صورتحال کا اندازہ ان چند شواہد و حقائق سے لگایا جا سکتا ہے جہاں لوگ بنیادی ضروریات زندگی کے لیے ترس رہے ہیں بالخصوص وہ لوگ جن کے طالبان کے ساتھ کوئی مراسم نہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ طالبان اس وقت لوٹ مار میں مگن ہیں اور وہ اس لوٹ مار میں اپنے پرانے ساتھیوں اور ہمدردوں کو بھرپور نواز رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی (UNDP) نے 2023ء کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں 85 فیصد آبادی غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور 75 فیصد عوام غذائی قلت کا سامنا کر رہی ہے۔ 61.6 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ اکتوبر 2021ء میں 61 فیصد روزگار کا خاتمہ کر دیا گیا جس میں 48 فیصد مرد اور 75 فیصد خواتین متاثر ہوئے۔ خواتین کو بے روزگار کرنے کے عمل نے جی ڈی پی کو تین سے پانچ فیصد تک کم کر دیا اور یہ رقم 600 ملین ڈالر سے ایک بلین ڈالر تک بنتی ہے۔

طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جی ڈی پی 35 فیصد سے 50 فیصد تک سکڑ گیا ہے، کابل یونیورسٹی کے پروفیسر فہیم چاکری کے مطابق اگست 2021ء سے بے روزگاری 50 فیصد سے بڑھ کر 74 فیصد ہو گئی ہے۔ زیادہ تر پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوان ملک چھوڑ کر جانے کی کوشش کر رہے ہیں، صرف گزشتہ دو برسوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پروفیسر ملک چھوڑ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ روزگار کے 77 فیصد مواقع ختم کیے جا چکے ہیں، معاشی بدحالی کی وجہ سے تعلیم پر 45 فیصد آبادی نے پیسے خرچ کرنا بند کر دیے ہیں، 28 ملین آبادی کو ہر قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ 31.5 فیصد آبادی کو بنیادی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ علاج معالجہ کے حوالے سے تو صورتحال ویسے بھی دگرگوں ہے اور افغانستان کی اکثریت آبادی اپنا علاج کروانے کے لیے پاکستان آتی ہے، جبکہ بارڈر پر پاکستان کی سامراجی اور غریب دشمن پالیسی کی وجہ سے مریضوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

صرف 37 فیصد لوگ گرڈ کی بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ 43 فیصد سولر پینل اور 14 فیصد بیٹری وغیرہ پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ حالانکہ افغانستان اپنے ہمسایہ ممالک سے جو بجلی خریدتا ہے اس کی ادائیگی بین الاقوامی فنڈ سے کی جاتی ہے بالخصوص جب امریکی انتظامیہ نے 3.5 ارب ڈالر افغان فنڈ میں جمع کروائے، اس وقت اس فنڈ پر یہ پابندی عائد کی گئی تھی کہ اس فنڈ کو افغانستان کے عوام کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ مگر اس کے باوجود عوام کی اکثریت کو بجلی میسر نہیں۔

جنگی حالات کی وجہ سے 31.9 فیصد گھرانے اپنی چھت اور مکان کھو چکے ہیں جبکہ صحت خوراک اور روزگار کے حوالے سے اشاریے بھی منفی میں ہیں۔ 21 مئی 2024ء کو 2024-25ء کے بجٹ کا اعلامیہ صرف پریس کانفرنس کی شکل میں مرکزی ترجمان نے پیش کیا، جس میں کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے گئے کہ بجٹ کے مندرجات کیا ہیں۔ واضح رہے کہ مئی 2022ء میں طالبان نے 44 ارب افغانی (500 ملین ڈالر) کے خسارے پر مشتمل 231.4 ارب افغانی (2.6 بلین ڈالر) کا بجٹ پیش کیا تھا جو کہ 2021ء کے مقابلے میں چھ گنا کم تھا۔ بجٹ کو پورا کرنے کے لیے طالبان عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لیتے ہیں اور بجٹ کا بیشتر حصہ دفاعی امور پر خرچ کیا جاتا ہے۔

طالبان اور علاقائی طاقتیں

رواں سال کے آغاز میں چین طالبان کے سفیر کو سرکاری سطح پر قبول کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ گرچہ دنیا کے بیشتر ممالک طالبان کو اب بھی دہشت گرد سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار نہیں کیے ہیں، لیکن چینی سامراج افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے جس کی اپنی وجوہات ہیں۔ افغانستان میں خواتین و دیگر جمہوری حقوق پر قدغن کو چین اپنے تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں سمجھتا۔ چین اس وقت افغانستان میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے اور افغانستان کے معدنی وسائل کی لوٹ مار میں خوب مگن ہے۔

افغانستان کے وسیع قدرتی وسائل مثلاً تانبا اور لیتھیم چین کے لیے اہم اقتصادی اہمیت رکھتے ہیں۔ کابل سے 40 کلو میٹر دور ’مس عینک‘ کے مقام پر چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ چینی سامراج افغانستان سے تیل نکالنے میں خاصی دلچسپی رکھتا ہے، جہاں افغانستان کے شمال مغرب میں واقع دریا آمو میں 18 کنوؤں میں چینی کھدائی کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیوں کی جانب سے شمسی توانائی کے شعبے میں نصف بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان ہوا ہے، بدخشاں کو چینی سرحد سے ملانے والی 300 کلو میٹر لمبی سڑک زیر تعمیر ہے۔ چینی کمپنیاں جہاں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہیں وہاں ان کو سیکیورٹی کی ضمانت طالبان فراہم کر چکے ہیں۔

طالبان کا چینی سامراج کے ساتھ تعلقات استوار کرنا کوئی انہونی بات نہیں۔ ان کے آپسی تعلقات کا آغاز 2014ء میں ہوا تھا اور ان تعلقات میں چینی سرمایہ کاری کے تحفظ اور چین کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے والی ”ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ“ کے خلاف طالبان کی حمایت حاصل کرنا مقصود تھا۔ اب جب عالمی سطح پر حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں طالبان کے ساتھ تعلقات بنانا چین کے لیے ضرورت بن گیا ہے وہیں امریکی سامراج کے مقابلے میں طالبان پر کنٹرول حاصل کرنا بھی چین کی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین اپنی سرمایہ کاری کو خطے کے اندر محفوظ بنانے کے لیے طالبان کے ساتھ تعلقات بنانے کو بہتر سمجھتا ہے۔

روس بھی خطے میں اپنے سامراجی اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے طالبان کو بطور بارگیننگ چپ استعمال کرنا چاہتا ہے (بطور دہشت گرد جتھے کے نہیں) بلکہ امریکی سامراج پر دباؤ ڈالنے اور داعش کے خلاف بطور قوت لڑانے میں طالبان کو دہشت گردی کے خلاف اتحادی سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ 2 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ میں روسی مندوب نے اشارہ دیا تھا کہ، ”ماسکو طالبان پر سے پابندیاں ہٹا سکتا ہے، چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ یہ تحریک اب ملک چلا رہی ہے آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔“ بالخصوص ماسکو میں جب داعش نے حملہ کر دیا تھا اس کے بعد روسی حکام نے طالبان کے ساتھ روابط مزید استوار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ایران کے ساتھ تعلقات میں 1996ء کی نسبت کافی زیادہ تبدیلی آ چکی ہے اور یہ تبدیلی بھی چین کے ساتھ تعلقات کی طرح اچانک سے نہیں آئی۔ بلکہ 2016ء میں ایران کے ساتھ تعلقات طے کرنے کے لیے جانے والے طالبان کے سابقہ امیر ملا اختر منصور کو واپسی پر پاکستان میں ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایرانی ملا اشرافیہ اور افغانستان کے ملا اشرافیہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں، تاکہ خطے میں اپنے حکمران طبقے کے مفادات اور عوامی بغاوتوں کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔

سامراجی پشت پناہی سے چلنے والے ایک اور شدت پسند گروہ داعش کے خلاف بھی دونوں ایک پیج پر ہیں۔ ایران اور طالبان امریکہ دشمن کاروائیوں میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں لیکن طالبان امریکی سامراج کی پہلے بھی کئی دفعہ گماشتگی کر چکے ہیں اور اب بھی انہیں جیسے ہی موقع ملے گا، ڈالروں کے عوض امریکی سامراجی کی کاسہ لیسی سے گریز نہیں کریں گے۔ درحقیقت طالبان دوحہ مذاکرات سمیت دنیا بھر میں ہر جگہ یہی منتیں کرتے پھر رہے ہیں کہ امریکی سامراج انہیں دوبارہ گود لے لے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اور چین ان پر پوری طرح اعتماد بھی نہیں کرتے اور موجودہ سامراجی یتیمی کی صورتحال میں انہیں اپنا واضح دشمن بھی نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال قندھار میں ایران کی جانب سے 500 بستر پر مشتمل ہسپتال بنانے کا اعلان کیا گیا۔

طالبان، پاکستان اور ٹی ٹی پی

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد جب کسی واضح متبادل اور سامراج مخالف منظم سیاسی قوت کی عدم موجودگی کے باعث طالبان نے اگست 2021ء کے اواخر میں کابل کا کنٹرول سنبھال لیا تو پاکستانی حکام اور فوجی حلقوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی یہ کہا کہ افغان عوام نے ”غلامی کی زنجیریں“ توڑ دی ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے حوالے سے راولپنڈی میں افواجِ پاکستان کے ہیڈ کوارٹر سے لے کر اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں کی جانب سے عوام کو یہ امید دلائی جا رہی تھی کہ افغانستان کے سابق حکمرانوں اشرف غنی اور حامد کرزئی کے مقابلے میں افغان طالبان پاکستان نواز ہیں اور وہاں اُن کی حکومت قائم ہونے سے افغانستان میں روپوش کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں سے نمٹنا آسان ہو گا۔

مگر افغان طالبان سے وابستہ یہ تمام امیدیں اُن کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی ختم ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ کمیونسٹوں نے اس وقت ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی باقاعدہ ایک صنعت بن چکی ہے اور اس ملک کے حکمرانوں اور ریاست کا ایک حصہ اس کے ذریعے نہ صرف بڑے پیمانے پر لوٹ مار کرتا ہے بلکہ ملک میں جاری عوامی تحریکوں اور مزدور طبقے کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے تاکہ سماج پر اپنی ظالمانہ گرفت قائم رکھ سکے۔ اس لیے اگر کسی کو بد امنی اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی کی کوئی خوش فہمی ہے تو وہ جلد دور ہو جائے گی۔ اسی طرح کابل میں پاکستان کی ریاست اور حکمران طبقے کے نظریاتی اور سیاسی ہم آہنگ افراد کے قابض ہو جانے کے باوجود ان ممالک میں کشیدگی کم نہیں ہو گی جس کی وجوہات ڈیورنڈ لائن کی سامراجی لکیر اور پاکستان کی مصنوعی ریاست کی بنیادوں میں تاریخی طور پر موجود ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے اب نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی بلکہ حافظ گل بہادر گروپ سمیت نئے تشکیل پانے والے گروہ مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں کالعدم تنظمیوں کی حالیہ کارروائیوں کے بعد اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بھی خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ سرحد پر بھی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ جبکہ پکتیکا، خوست اور کنڑ میں فضائی حملے کیے گئے، جس کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان نے باقاعدہ طور پر کبھی قبول نہیں کی۔

پاکستان کا سرکاری مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری تنظیموں کے جنگجو حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ افغان طالبان حملوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہتے ہیں۔ پاکستان میں 15 جولائی کو بنوں چھاؤنی پر ہونے والے حملے پر پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے شدید احتجاج کیا اور ڈیمارش دیتے ہوئے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے 13 جولائی 2024ء کو رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروپ تسلیم نہیں کرتے اور ان کے آپسی تعلقات انتہائی قریبی ہیں اور افغان طالبان پر ٹی ٹی پی کی امداد کا قرض ہے۔ بین الاقوامی طور پر دہشت گرد قرار دیے گئے اس گروپ کے افغانستان میں چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے ارکان جن کے افغان طالبان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔

2021ء میں کیے گئے 573 حملے 2023ء میں بڑھ کر 1203 ہو گئے، اور یہ رجحان 2024ء تک جاری ہے۔ طالبان کی جانب سے ابھی تک اس رپورٹ کے بارے میں کوئی بیان نہیں آیا، لیکن ماضی میں جتنی بھی رپورٹس پیش کی گئیں ان کو طالبان نے مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ان تمام تر رپورٹس کو طالبان کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیا۔

طالبان اور پاکستان کے موجودہ تعلقات کی تمام تر ابتری کا ملبہ مظلوم افغان مہاجرین پر ڈال دیا گیا، جنہیں لاکھوں کی تعداد میں گزشتہ سال در بدری کی صورت میں پاکستان سے جبری طور پر بے دخل کر دیا گیا۔ ٹی ٹی پی کے ایشو کو حل کرنے کے لیے طالبان کے نمائندہ وفد نے دوحہ میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک عشائیہ کے دوران پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کیے جبکہ اس کے بعد وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے افغانستان کا دورہ کرنے کے حوالے سے بھی بات ہوئی ہے۔ طالبان قیادت متعدد بار ٹی ٹی پی کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تجاویز دے چکی ہے۔

طالبان اور ٹی ٹی پی

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس وقت ٹی ٹی پی کی قیادت کی اکثریت افغانستان میں موجود ہے اور وہ افغانستان سے ہی پاکستانی ریاست کی سیکیورٹی فورسز اور چینی سامراج کے پاکستان میں موجود انسٹالیشنز پر حملے کرنے میں ملوث ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے حوالے سے ریاست پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ ان دونوں دہشت گرد گروہوں کو بنانے اور ان کو ایک تناور درخت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے پاکستانی ریاست کے سامراجی عزائم کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے یہ ہر کسی کو علم ہے کہ ان دونوں گروہوں کو امریکی ڈالروں کے عوض کب کیوں اور کس طرح بنایا گیا۔

ان عوام دشمن قوتوں اور ان کی ریاست کے آلہ کار کے طور پر موجودگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سمیت پاکستان کے تمام حصوں بالخصوص پشتون علاقوں میں ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے۔ اگر ماضی میں سماج کے پسماندہ حصوں میں ان کے لیے کوئی حمایت تھی تو اب وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ اسی لیے 2021ء میں ٹی ٹی پی کو جب ریاست کے ایک حصے کی پشت پناہی سے خیبر پختون خواہ کے علاقوں میں انسٹال کرنے کی کوشش کی گئی تو عوامی سطح پر ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصے نے عوامی تحریکوں کی صورت میں اپنا اظہار کیا جس کی بنیاد پر ٹی ٹی پی اور ان کے آقاؤں کو منہ کی شکست کھانی پڑی۔

لیکن آج بھی یہی دہشت گرد گروپ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ریاست کے مختلف دھڑوں کی پشت پناہی سے دوبارہ دہشت گردی کے واقعات کروانے میں مصروفِ عمل ہیں۔

ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں اور انہیں پاکستان میں اپنی مداخلت کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت اس وقت تنازعہ یہی ہے کہ یہ دہشت گرد دونوں ممالک کے حکمرانوں کے کس حصے کے مفادات کے لیے کام کرے گا۔ اسی ایشو پر جہاں پاکستان کے حکمران طبقے میں پھوٹ موجود ہے وہیں افغان طالبان میں بھی آپسی لڑائی کی ایک وجہ اس قوت پر کنٹرول اور اس کی لوٹ مار میں حصہ ہے۔

افغان طالبان کا ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ان کی تحریک اور عالمی جہادی تحریک کا ایک حصہ ہیں۔ یہ گروہ عددی اعتبار سے کافی بڑا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور قربانیوں کو بھولنے کو تیار نہیں۔ بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان کے قریبی روابط رہے ہیں اور حقانی نیٹ ورک ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی کاروائی کے حق میں نہیں ہے۔

اس کے علاوہ طالبان کے قندھاری دھڑے اور کابل دھڑے کے آپسی اختلافات بھی موجود ہیں اور وہ لوٹ مار میں زیادہ حصہ بٹورنے اور ٹی ٹی پی پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ یہ تضادات موجود صورتحال میں کسی طور پر بھی حل نہیں ہوں گے بلکہ لوٹ مار پر یہ لڑائی شدت اختیار کرتی چلی جائے گی۔

طالبان اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور عوامی مزاحمت

ایک بات واضح ہے کہ اس وقت طالبان کی صفوں میں تین واضح گروپس موجود ہیں، جن میں حقانی نیٹ ورک، کابل فیکشن اورقندھار فیکشن شامل ہیں۔ ان تین گروپوں کی یہ تقسیم مختلف وجوہات کی بنیاد پر ہے، گو کہ اقتدار کے حصول تک بظاہر وہ ایک پیج پر تھے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد لوٹ مار کے حصول پر ان کی گروپ بندیاں واضح ہو گئیں۔ زیادہ تفصیل میں یہاں پر بات ممکن نہیں ہے مگر دو باتوں پر اکتفا کرنا ضروری ہے۔ جس میں سب سے پہلے حقانی نیٹ ورک کا سربراہ اور طالبان کا موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی پچھلے ماہ عرب امارات گئے اور وہاں سے پھر حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے سعودی عرب گئے اور یہ اجازت امریکی سامراج یا سی آئی اے کے احکامات کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ حالانکہ سراج الدین حقانی کے حوالے سے ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ امریکی سامراج کی لسٹ میں ایک دہشت گرد تھا جس کے سر پر کئی ملین ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا۔

جبکہ طالبان کا دوسرا گروپ، کابل دھڑا، جس کی قیادت ملا غنی برادر اور طالبان کا وزیر خارجہ امیر متقی کر رہا ہے اور اسی گروپ نے امریکی سامراج کے ساتھ دوحہ کے مذاکرات بھی کیے تھے۔ تیسرا گروپ قندھاری دھڑا ہے، جس کی قیادت ہیبت اللہ اخوند زادہ کر رہا ہے۔ وہ اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنے کے لیے روزانہ وزراء کو تبدیل کرنے اور اپنے قریبی ساتھیوں کو اقتدار دینے میں مگن ہے۔

ان تمام تر تقسیموں کے باوجود اس وقت طالبان کی تمام تر دھڑے بندیوں میں (منقسم ہونے کے ڈر سے) ایک چیز پر مکمل اتفاق ہے اور وہ افغانستان میں جبر کے سلسلے کو جاری رکھا جائے کیونکہ طالبان کے پاس اس وقت جبر سے ہٹ کے ان کے پاس افغانستان کے چار کروڑ عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک طرف اگر طالبان جبر کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوامی مزاحمت بھی اپنا اظہار کر رہی ہے۔

طالبان کے نام نہاد امر بالمعروف گروپ کی آمرانہ کاروائیاں جاری ہیں، جس میں انتہائی ظالمانہ اور پر تشدد انداز میں لوگوں کی چیکنگ، داڑھی بال بنانے پر اعتراضات، موسیقی پر پابندی، کپڑے پہننے اور دیگر امور پر لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ مگر افغانستان کے شہری علاقوں میں اس گروپ کے خلاف لوگوں میں مزاحمت کا عنصر زور پکڑ رہا ہے جس میں بالخصوص افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی سیمی فائنل میں پہنچنے کے دوران پورے افغانستان میں نوجوانوں نے موسیقی پر رقص کیا اور انہوں نے انتہائی دھوم دھام سے جیت کے اس جشن کو منایا۔

جس پر طالبان کی جانب سے پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئی مگر عوامی مزاحمت کے سامنے طالبان بے بس رہے۔ اس کے ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما گیلامن وزیر کے ریاستی قتل کے خلاف افغانستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی کو طالبان نے پیشگی اطلاعات پر ان پر پابندی لگانے کی کوشش کی مگر افغانستان کے کئی شہروں اور دیہاتوں میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے ان تمام تر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور مختلف چھوٹے بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا۔ گو کہ یہ تمام تر واقعات بظاہر چھوٹے نظر آتے ہیں مگر افغانستان کے اندر ملا اشرافیہ کے جبر کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنا انتہائی جرت مندانہ اقدام ہے۔

اس کے علاوہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں خواتین ہی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے مغربی سامراجی طاقتوں سے امید لگانے والے مایوس ہو چکے ہیں حالانکہ ان طالبان کو بنانے والی اور انہیں پہلی دفعہ اقتدار میں لانے والی وہی مغربی سامراجی طاقتیں ہی تھیں اور اب بھی وہ ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہیں۔

اس صورتحال میں افغانستان کی جرات مند خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے خود ہی نیٹ ورک بنا رہی ہیں جو ایک درست سمت میں اٹھایا جانے والا جرأت مندانہ قدم ہے اور دنیا بھر کی انقلابی قوتیں ان کی حمایت کرتی ہیں۔ مریم معروف ارون ”شنبہ ہائے ارغوانی“ تحریک کی شریک بانی ہیں۔ خواتین کے حقوق کا علمبردار یہ گروپ افغانستان میں خواتین کی آزادی پر بڑے پیمانے پر قدغنیں لگانے کے خلاف ہر ہفتے پُرامن احتجاج کا اہتمام کرتا ہے۔

یہ گروپ افغان معاشرے میں شہری حقوق اور جمہوریت کے متعلق شعور بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی بنیاد دارالحکومت کابل میں اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد رکھی گئی تھی۔ وہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے اب بھی سرگرم کئی کارکنوں میں سے ایک ہیں جو شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مریم معروف اور ان کے نیٹ ورک میں شامل دیگر خواتین صرف احتجاج تک ہی سرگرم نہیں ہیں۔ چونکہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اب اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے یہ خواتین ان لڑکیوں کو ان کے گھروں میں جا کر چھپ کر پڑھاتی ہیں۔ وہ اکیلی ماؤں اور ضرورت مند خاندانوں اور یتیموں کی دیکھ بھال کے لیے بھی امداد جمع کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ افغانستان میں ریٹائرڈ ملازمین کی ایک کثیر تعداد روزانہ کی بنیاد پر پینشنز کے حصول کے لیے سراپا احتجاج ہوتی ہے مگر قندھار کے نام نہاد امیر المومنین اور اس کی پوری کابینہ کے پاس ان تمام تر پینشنرز کو ان کا بنیادی حق دینے کے لیے رقم نہیں ہے جس کی بنیاد پر ان کے حق اور احتجاج کو مختلف فتوے لگا کر کاؤنٹر کیا جا رہا ہے۔

اس کے ساتھ افغانستان کے شمالی صوبے بدخشاں میں گزشتہ مہینے افیون کی کاشت پر پابندی کے خلاف کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرے کیے اور طالبان نے ان کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں دو افراد کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ مگر اس کے بعد طالبان کے آرمی چیف نے کمیٹی تشکیل دی جنہوں نے بدخشاں کے ان کسانوں کے ساتھ مذاکرات کیے۔ ان کسانوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اگر طالبان افیون کی کاشت پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو ہمیں متبادل ذریعہ معاش فراہم کریں، ورنہ ہم کسی بھی صورت میں افیون کی کاشت کو نہیں روکیں گے۔

افیون کی کاشت پر پابندی کے حوالے سے بھی متضاد اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔ گو کہ مغربی میڈیا طالبان کی پابندیوں کو کامیابی سے پیش کر رہا ہے مگر افغانستان میں یہ ایشو انتہائی متضاد بنتا جا رہا ہے۔ جہاں پر لوگوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں افیون کی کاشت میں طالبان کی اشرافیہ بلاواسطہ نہ صرف ملوث ہے بلکہ وہ افیون کی کاشت کے مسئلے کو عام لوگوں سے زیادہ پیسے بٹورنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

افغانستان میں قومی سوال

افغانستان میں مختلف قومیتیں آباد ہیں اور یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ گو کہ پشتون افغانستان کی سب سے بڑی قومیت ہیں لیکن دری زبان کو بھی سرکاری درجہ حاصل ہے اور آبادی کا بڑا حصہ دری اور دیگر مقامی زبانیں بولتا ہے۔ افغانستان میں پشتونوں کے علاوہ تاجک، ہزارہ، ازبک، عرب، ترکمان، بلوچ، پشائی، نورستانی، ایمق، کرغز، قزلباش، گوجر، براہوی، دیگر قبائل اور قومیتیں موجود ہیں اور سرکاری دستاویزات میں ان سب پر لفظ افغان کا اطلاق ہوتا ہے۔

عالمی بینک کے 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی آبادی تین کروڑ 89 لاکھ سے زائد ہے۔ مختلف جائزوں کے مطابق افغانستان میں 45 فیصد آبادی پشتون ہے جبکہ دوسری بڑی قومیت تاجک ہے۔

اقلیتی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ’مائنورٹی رائٹس‘ کے مطابق افغانستان کی آبادی میں 27 فیصد تاجک ہیں۔ اسی طرح ہزارہ اور ازبک 9 فیصد، ترکمان 3 فیصد، بلوچ 2 فیصد اور دیگر نسلی اور لسانی گروہ آبادی کا 8 فیصد ہیں۔ ’مائنورٹی رائٹس‘ کے مطابق افغانستان کی 50 فیصد آبادی کی زبان دری ہے۔ 45 فیصد کی زبان پشتو جب کہ دیگر زبانوں میں ایمق، بلوچی، اشکون، گوجری، ہزارگی، مغلی، پشئی، نورستانی اور پامیری زبانیں شامل ہیں۔

یہاں قائم ہونے والی اکثر بادشاہتیں اور حکومتیں بھی زیادہ تر پشتونوں کے پاس رہی ہیں۔ بیس برس بعد دوسری بار کابل کا کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان کی مرکزی قیادت بھی پشتونوں کے ہاتھ میں ہے اور اس سے قبل ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد یہاں صدر رہنے والے حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں پشتون ہی تھے۔

افغانستان میں دوسری بڑی قومیت تاجک ہے۔ ملک کی ایک چوتھائی آبادی انہی پر مشتمل ہے۔ عام طور پر افغانستان کی سیاست و حکومت میں تاجکوں کا کردار ثانوی رہا ہے لیکن 2002ء میں امریکی سامراج کے تحت بننے والی پہلی کٹھ پتلی حکومت میں ان کا سیاسی کردار نمایاں ہوا۔

ہزارہ افغانستان کی تیسری بڑی قومیت ہے۔ ان کی آبادی وسطی افغانستان کے علاقوں میں آباد ہے جسے ”ہزارہ جات“ بھی کہا جاتا ہے۔ ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کو افغانستان میں سب سے زیادہ جبر کا سامنا رہا ہے۔

اس تمام تر بحث کا محض یہی مقصد ہے کہ قاری کو سب سے پہلے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے واضح علم حاصل ہو جائے کہ افغانستان میں صرف پشتون آباد نہیں ہیں مگر جس طرح اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ افغانستان میں پشتون بحیثیت حاکم قوم رہے ہیں اور ان کی وجہ سے افغانستان میں دیگر مظلوم اقوام کا قومی سوال کا وجود ایک اہم فیکٹر گردانا جاتا ہے جو کہ درحقیقت موجود بھی ہے۔ طالبان نے بھی جہاں پورے سماج پر بد ترین جبر مسلط کر رکھا ہے وہاں مظلوم قومیتوں کے لیے زندگی جہنم بن چکی ہے اور وہ مسلسل اس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔

امریکی سامراج کے ظالمانہ قبضے کے دوران بھی یہ قومی جبر ختم نہیں ہوا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود اور سامراجی طاقتوں کے ذریعے یہ کبھی ختم ہو بھی نہیں سکتا۔ افغانستان سمیت دنیا کے کسی بھی کونے میں قومی سوال ہو یا دیگر جمہوری سوالات، ان تمام تر سوالات کا حل محض اس نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

ان جمہوری سوالات کو حل کرنے کے لیے ہمیں انقلابی نظریات سے پورے افغانستان کے انقلابی نوجوانوں کو مسلح کرنا ہو گا۔ افغانستان میں تقسیم در تقسیم کی سیاست اِس وقت کے حکمرانوں سمیت تاریخی طور پر پرانے حکمرانوں کے حق میں ہی رہی ہے۔ دوسری جانب قوم پرستی کے نظریات اس وقت تاریخی طور پر متروک ہو چکے ہیں جو کہ اب نسل پرستی کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ یہ نظریات ایک طرف اگر حکمران طبقے کے نظریات ہیں تو دوسری جانب انہی نظریات کو عملی جامہ پہنانا حکمران طبقے کی خدمت کرنے کے مترادف ہے۔

اس وقت افغانستان میں امریکی سامراج، علاقائی سامراجی قوتیں، وار لارڈز اور پرانے نام نہاد مجاہدین موجودہ نام نہاد سامراجی پشت پناہی میں مسلط حکمران طالبان میں اپنا مجسم اظہار کر رہے ہیں اور یہی ایک وقت ہے کہ طالبان کے خلاف تمام مصنوعی نفرت اور تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر افغانستان میں جدوجہد کو فروغ دیا جائے۔

راہِ نجات کیا ہے؟

اس وقت افغانستان میں کوئی سیاسی متبادل نہیں اور نہ ہی موجودہ جابرانہ خطے کے اندر کوئی علی العلان طور پر انقلابی متبادل کو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ مگر سطح کے نیچے ایسے بے شمار تضادات موجود ہیں جن کی بنیاد پر ان تضادات کی روشنی میں لوگوں کا شعور ایک انقلابی متبادل پلیٹ فارم کی جانب راغب ہو گا۔

اس وقت افغانستان میں موجودہ جابر حکمران طبقے کے خلاف بے تہاشہ عوامی غم و غصہ اور نفرت موجود ہے، مگر اس کا اظہار ایک کُل کی شکل میں سطح پر نہیں ہو رہا۔ اس کے علاوہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے وقت بھی افغانستان میں کوئی متبادل سیاسی پلیٹ فارم نہیں تھا اگر کوئی محدود پیمانے پر بھی سیاسی پلیٹ فارم ہوتا تو وہ طالبان کا راستہ روک سکتے تھے۔

اس وقت ضرورت ہے کہ افغانستان کے نوجوان اور بالخصوص جرات مند خواتین کمیونسٹ نظریات کے تحت منظم ہوں اور ایک انقلابی متبادل کی تعمیر کا آغاز کریں۔ اس کے لیے جہاں طالبان سے موجود شدید نفرت عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے میں مدد دے گی وہاں امریکہ سے لے کر چین، روس اور پاکستان تک سامراجی طاقتوں کے ظالمانہ کردار اور عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت پر بھی واضح نظریاتی مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔

صرف کمیونزم کے انقلابی نظریات کے تحت ہی ایک ایسی سیاسی قوت تعمیر کی جا سکتی ہے جو افغانستان سمیت پورے خطے سے ہر قسم کے ظلم اور بربریت کا خاتمہ کر سکے۔ اس صورتحال میں اگر یہ قوت ایک عوامی تحریک کے ذریعے کابل پر براجمان وحشی ملاؤں کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان اور ایران سمیت پورے خطے پر مرتب ہوں گے اور انقلابی قوتیں ہر جگہ مضبوط ہوں گی اور آگے بڑھیں گی۔

دوسری جانب پاکستان اور ایران میں ابھرنے والی عوامی تحریکیں افغانستان کے عوام پر اہم اثرات مرتب کر رہی ہیں اورا نہیں حوصلہ اور امید فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں ممالک میں کسی بھی عوامی مزاحمت کی کامیابی افغانستان میں جابر حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کو طاقت بخش سکتی ہے۔

اس خطے سمیت دنیا بھر کے محنت کش طبقے کو متحد کرنے اور انہیں دنیا بھر کے حکمران طبقات کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد کے لیے منظم کرنے والا انقلابی نظریہ صرف اور صرف کمیونزم کا نظریہ ہی ہے۔ اس انقلابی نظریے کے تحت تعمیر ہونے والی انقلابی قوتیں ہی آنے والے عرصے میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کر سکیں گی اور انہیں حتمی کامیابی کی جانب لے جاتے ہوئے یہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکے کی جانب بڑھیں گی۔

صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی طالبان کی وحشت اور سامراجی بربریت کا حتمی طور پر خاتمہ کر سکتا ہے اور خطے کی مصنوعی لکیروں کا صفایا کرتے ہوئے جنگ، خون اور بربادی کے اس نظام کی جگہ امن، خوشحالی اور ترقی کے سماج کی تعمیر کا آغاز کر سکتا ہے۔

سامراجیت مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!
سامراجی دلال مردہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

 

Comments are closed.