|تحریر: پارس جان|
آج کل بین الاقوامی میڈیا پر ہونے والے اہم ترین مباحث میں افغانستان سرِفہرست ہے۔ گزشتہ برس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں طالبان کے ساتھ فروری میں ہونے والے نیم معاہدے کی رو سے رواں برس مئی کے اوائل میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے عمل کی تکمیل کرنی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق امریکہ پہلے ہی بڑی تعداد میں اپنے فوجی افغانستان سے واپس بلا چکا ہے اور سرکاری رپورٹس کے مطابق اس وقت لگ بھگ ڈھائی ہزار کے قریب امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں جبکہ نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق حقیقی تعداد کچھ زیادہ ہے۔ لیکن ایک دہائی قبل یہ تعداد ایک لاکھ امریکی افواج پر مشتمل تھی جو اب بڑے پیمانے پر کم ہو چکی ہے۔ گزشتہ برس فروری میں ہونے والے معاہدے کو بھی بجا طور پر امریکی سامراج کی شرمناک شکست سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور اس کے بعد سے اب تک معاشی بحران سے لے کر سفارتی افراتفری تک، امریکی سامراج کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکا بلکہ ہر مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو کر مضحکہ خیز شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کو درپیش اہم ترین چیلنجوں میں سے افغانستان سب سے نمایاں ہے۔ صدر جوبائیڈن کے سامنے اس وقت بظاہر تین آپشن ہیں۔ اول تو یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے کیے گئے معاہدے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نتائج سے بے نیاز ہو کر افغانستان سے تمام امریکی فوجی فی الفور واپس بلا لیے جائیں۔ دوم یہ کہ طالبان سے کیے گئے اس شرمناک معاہدے کی تنسیخ کرتے ہوئے جنگ کو واقعی جیتنے کی حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ اور آخری آپشن بے بسی سے موجودہ صورتحال کو جاری رکھنے پر ہی اکتفا کرنا اور کسی خوشگوار معجزے کی شکل میں کسی فیصلہ کن اقدام کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرنے کی بچتی ہے۔ آئیے اب ان تینوں آپشنز کا تمام تر معروضی امکانات کی روشنی میں تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
امریکہ کی افغانستان میں سامراجی جنگ گزشتہ 20 برس سے جاری ہے۔ اس اعتبار سے اس کا شمار دنیا کی طویل ترین جنگوں میں کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکی سامراج اس جنگ پر کم ازکم سالانہ پچاس ارب ڈالر کی اوسط سے خرچ کر رہا ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کی بحالی اور استحکام کی غرض سے لگ بھگ 143 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کر چکا ہے جبکہ افغانستان کی کٹھ پتلی فوج کی تعمیر و تربیت کے لیے خرچ کیے گئے 88 ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔ امریکی افواج اور اسلحے پر ہونے والے سینکڑوں ارب ڈالر کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود امریکہ اپنے اہداف کے حصول سے کوسوں دور ہے اور اسے بلاشبہ امریکہ کی سب سے عبرت انگیز شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شروع کی گئی تھی تو کیا آج دنیا 2002ء کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ محفوظ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ آج امریکہ خود انہی دہشت گردوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہو چکا ہے۔ جن کو پھانسیاں دی جانی چاہیے تھیں ان کو خزانے کی کنجیوں کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ جن کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھے ان کے منجمد اثاثے بحال کر کے ان کو فیصلہ سازی کی کلید سونپنے کی بات کی جا رہی ہے۔ پوست کی کاشت بھی کم ہونے کی بجائے بڑھ چکی ہے اور دہشت گردی کی مستقل مالیاتی کمک کے پائیدار ذریعے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آج خطے میں امریکی سامراج کا سٹریٹجک پنجہ مضبوط ہونے کی بجائے ڈھیلا ہو چکا ہے اور روس، چین اور ایران کی شکل میں امریکہ کے رقیب افغانستان سمیت پورے خطے میں اہم کھلاڑی بن کر سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں افغانستان کو طاقتوں کے موجودہ توازن کی موجودگی میں چھوڑ کر جانا پورے خطے میں امریکی مفادات کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا اور چین کے عالمی اثر و رسوخ میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پینٹاگون کے ایک مؤثر حلقے میں جنگ کو بڑھاوا دیتے ہوئے حقیقی فتح کے لیے نو منتخب صدر پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ان انتہا پسندوں کے پاس حقیقی فتح کا کوئی قابلِ عمل پروگرام موجود نہیں۔ سوائے اس کے کہ طالبان کو یکطرفہ طور پر جنگ بندی پر مجبور کیا جائے۔ امریکی ریاست کے سنجیدہ حلقے اپنی شکست کا ملبہ مسلسل پاکستانی ریاست پر ڈالتے رہے ہیں اور آج بھی وہ پاکستان پر ”ڈو مور“ کے لیے دباؤ بڑھاتے رہتے ہیں تاکہ پاکستان طالبان کو مجبور کرے اور امریکہ کے باعزت انخلا کی راہ ہموار ہو سکے لیکن افغانستان میں اب پاکستان کی پہلے جیسی دھاک اور اثر و رسوخ موجود نہیں ہے۔ یوں مقررہ تاریخ یعنی رواں برس مئی کے مہینے میں امریکی انخلا کسی حد تک ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔
انخلا کے حوالے سے جو فارمولا امریکی سامراج کی طرف سے گزشتہ کئی ماہ سے پیش کیا جا رہا ہے وہ نام نہاد عبوری حکومت کا فارمولا ہے جس میں طالبان بھی شامل ہوں اور طالبان کو راضی کرنے کے لیے نئے اسلامی آئین کی تشکیل و ترویج کی جائے گی اور پھر اس کے بعد انتخابات کروائے جائیں گے۔ امریکہ کے لیے مضحکہ خیز صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت اس مجوزہ فارمولے کو قبول کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ ہفتے تاجکستان میں منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس میں افغان صدر اشرف غنی نے دو ٹوک انداز میں اس فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں افغانستان میں انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ماہ ترکی میں ممکنہ طور پر منعقد ہونے والے مذاکرات سے قبل اشرف غنی اس فارمولے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے یا نہیں۔ روس نے بھی عبوری حکومت میں طالبان کی شمولیت کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ دراصل اشرف غنی کی حکومت عملًا سراسر ہوا میں معلق ہے اور اب امریکہ کے لیے بھی اس کو زیادہ عرصے تک وینٹی لیٹر پر قائم رکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ دوسری طرف طالبان امریکہ پر معاہدے کے مطابق مقررہ وقت پر انخلا کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے حالیہ بیان کے بعد، جس میں اس نے اشارہ دیا تھا کہ مئی میں انخلا قابلِ عمل دکھائی نہیں دیتا، طالبان نے دھمکی آمیز بیان جاری کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو طالبان امریکی فوجیوں کو پہلے سے زیادہ نشانہ بنائیں گے اور ان کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی۔ درحقیقت طالبان بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ امریکی چالاکی سے مزید وقت حاصل کر کے زمین پر داعش کو طالبان کے مقابلے میں ایک مؤثر ملیشیا کے طور پر تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ طالبان کو کمزور کر کے کسی حد تک امریکہ کے لیے باعزت معاہدے پر راضی کیا جا سکے۔ ایران اور روس کی طالبان کو براہ راست حمایت کی صورت میں امریکہ کے لیے یہ پراجیکٹ بھی اتنا آسان نہیں ہو گا اور اگر امریکہ تاخیری حربوں میں کامیاب ہو بھی جائے تو بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائے گا۔
ان حالات میں قوی امکان یہی ہے کہ مئی کے آغاز میں ہی یا اس سے بھی قبل افغانستان میں پہلے سے کہیں بڑے پیمانے کی خونخوار لڑائی شروع ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں پینٹاگون افغانستان سے انخلا کی بجائے مزید فوجی بھیجنے کا مطالبہ کرے گا اور مذاکرات کے اگلے دور تک مزید فوجی بھیجنے کی آپشن کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستانی ریاست بھی درپردہ اسی آپشن کے لیے راہ ہموار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان کئی ماہ قبل ہی امریکی حکام بالا کو ایک کھلے خط کے ذریعے آگاہ کر چکے ہیں کہ جلدبازی میں امریکی انخلاء کے پورے خطے میں بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں مزید فوجی بھیجنے سے امریکہ کے اندر نو منتخب صدر کے لیے معاشی و سیاسی پیچیدگیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے جہاں پہلے ہی سامراجی جنگوں کے خلاف نفرت انتہاؤں تک پہنچ چکی ہے جبکہ امریکی حکمرانوں کے خلاف عوامی بغاوتوں کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ کا مالیاتی بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے اور ریاستی قرضوں میں گزشتہ صرف ایک سال میں پانچ ہزار ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یوں افغانستان امریکی سامراج کے گلے کی وہ ہڈی بن چکا ہے جسے نہ تو نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُگلا جا سکتا ہے۔
طالبان کا پلڑا اس وقت بظاہر بھاری دکھائی دے رہا ہے اور پاکستان میں بھی ان کے حمایتی سینے بجا کر کہتے نہیں تھکتے کہ ہم نے تاریخ کی سب سے بڑی فوجی طاقت کو عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ جب نیب نے مولانا فضل الرحمان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں طلب کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے تو مولانا فضل الرحمان نے بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست دھمکی دے ڈالی تھی کہ تمہارا بھی وہی حال کریں گے جو ہم نے افغانستان میں امریکہ کا کیا ہے۔ کیا یہ درست ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو طالبان نے شکست دی ہے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ مبینہ امریکی انخلا کے بعد طالبان پھر سارے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیں گے اور پھر نوے کی دہائی کے دوسرے نصف جیسا نام نہاد امن قائم کر پائیں گے؟ ان دونوں سوالات کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ طالبان نے محض اپنے دم پر امریکہ کو شکست نہیں دی ہے بلکہ بہت سے دیگر مقامی جنگی گروہوں نے اور علاقائی سامراجی طاقتوں نے اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول میں روڑے اٹکائے ہیں۔ سب سے بڑھ کر افغان عوام امریکیوں کو بیرونی قابض سمجھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ مٹھی بھر ریڈی میڈ درمیانے طبقے اور لبرل اور نام نہاد لیفٹ انٹیلی جنسیہ کے علاوہ افغانستان میں عوام کے کسی حصے میں بھی امریکی حمایت پروان نہیں چڑھ سکی اور امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر وسائل اور بے پناہ فوجی طاقت کے باوجود شکست امریکہ کا مقدر بنی۔ یہ طالبان سمیت امریکہ مخالفین کی معجزانہ طاقت نہیں تھی بلکہ خود امریکی سامراج کا اپنا تاریخی نامیاتی زوال تھا جس نے امریکہ کی تاریخی خجالت کی راہ ہموار کی۔ دوسری طرف امریکی انخلا کی صورت میں طالبان کے لیے بھی افغانستان کو موجودہ ریاستی شکل میں برقرار رکھتے ہوئے چلانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ سماج کی انتہائی پچھڑی ہوئی پرت کے علاوہ طالبان کی حمایت بھی افغانستان میں بڑھنے کی بجائے مسلسل کم ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر طالبان کے پاس اتنے مالی وسائل ہی موجود نہیں کہ سماجی تانے بانے کو موجودہ شکل میں ہی برقرار رکھا جا سکے۔ ایران پہلے ہی اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ روس بھی عالمی منڈی میں تیل کی طلب میں اضافہ نہ ہونے کی صورت میں شدید معاشی دباؤ کا شکار ہو گا۔ دوسری طرف چین کے قرضے پہلے ہی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں چینی قرضے ڈوبنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے انخلا کی صورت میں امریکہ سے آنے والے سالانہ پچاس ارب ڈالر بند ہو جائیں گے تو اتنی خطیر رقم کا خلا پورا کرنا علاقائی سامراجی قوتوں کے بس کی بات نہیں ہو گی بلکہ امریکہ کے چھوڑے گئے سامراجی خلا کو پُر کرنے کے لیے ان علاقائی سامراجی قوتوں کی داخلی رسہ کشی شدت اختیار کرے گی۔ نئی دوستیاں اور نئی دشمنیاں معرض وجود میں آئیں گی جو صورتحال کی گمبھیرتا میں مزید اضافہ کریں گی اور داخلی طور پر بھی مختلف مذہبی و قبائلی گروہوں کی لڑائی وسائل کی قلت کی صورت میں ایک دفعہ پھر خانہ جنگی جیسی کیفیت کے جنم کا باعث بن سکتی ہے۔ یوں مبینہ انخلا کے بعد بھی افغانستان میں امن اور استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
موجودہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی کوششیں بھی مسلسل ناکام ہو رہی ہیں اور پورا سماج تیزی سے بربریت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ معاشی و سماجی بحران کے ساتھ ساتھ سامراجی طاقتوں اور رجعتی بنیاد پرست قوتوں کے درمیان جنگ پورے سماج کو بربادی میں دھکیل رہی ہے۔ امریکی سامراج پسپائی کے دوران مزید وحشیانہ انداز میں عام لوگوں پر حملے کر رہا ہے جبکہ طالبان بھی عام لوگوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکی سامراج کی گزشتہ چار دہائیوں کی مداخلت نے یہاں پر بربادی اور خونریزی کے سوا کچھ نہیں دیا اور آئندہ بھی اس کے سوا عوام کو اس سے کوئی توقع نہیں۔ اگر امریکی سامراج اپنی موجودگی یہاں برقرار رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ وحشت اور بربریت پھیلانی پڑے گی جبکہ اسے کبھی بھی یہاں استحکام اور پائیداری نہیں مل سکے گی۔ اپنی تاریخ کے بد ترین مالیاتی بحران میں جکڑا یہ سامراج اب دو دہائیوں پہلے جیسی طاقت اور رعونت بھی نہیں رکھ سکتا اور اس کا زوال گہرا ہو چکا ہے۔ ایسے میں یہاں پر امریکی سامراج کی موجودگی میں اضافہ یا اسٹیٹس کو کا قائم رہنا بھی خطے کے محنت کش عوام کے لیے زہرِ قاتل ہی ہے۔ صرف خطے کے دیگر ممالک کے حکمران طبقات اپنے مفادات اور اسٹیٹس کو قائم رکھنے کے لیے امریکہ کو یہاں رہنے پر مجبور کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایران اور چین کے حکمرانوں کے بھی مفاد میں یہی ہے کہ امریکہ یہاں موجود رہے اور اپنی کٹھ پتلی حکومت پر اخرجات کرتا رہے، بصورت دیگر انہیں یہ اخراجات کرنے پڑیں گے یا خانہ جنگیوں اور خونی انتشار کا اکیلے سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں مذکورہ بالا تمام تر جارحیت کے خلاف افغانستان کے عوام اور حتیٰ کہ افغان خواتین کی بھی بے مثال مزاحمت دیکھنے میں آئی ہے۔ دو سال قبل طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبے ہلمند کے علاقے لشکرگاہ میں مقامی خواتین نے امن کیمپ کا انعقاد کر کے سب کو فرطِ حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ افغان عوام میں سیاسی بیداری کی ایک لہر بہرحال موجود ہے اور اس بیداری کی لہر نے سرحد کے اس طرف گہرے اثرات مرتب بھی کیے ہیں۔ مگر ابھی تک براہ راست عوامی سیاسی انقلاب کے لیے درکار سماجی مواد محض ابتدائی شکل میں ہی موجود ہے اور دوسری طرف اوپر سے ترقی پسند قوتوں کے ریاست پر قبضے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتے ہیں۔ اور اگر ایسا کوئی تجربہ ایک دفعہ پھر کیا بھی جاتا ہے تو اسے بھی خطے سے محنت کش طبقے کی سیاسی حمایت کی کمک کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت پڑے گی۔ یوں کہہ لیں کہ ایران اور پاکستان کے انقلاب کے ساتھ افغانستان کی انقلابی تبدیلی، امن اور دیرپا استحکام کا مقدر نامیاتی طور پر ناقابل علیحدگی انداز میں منسلک ہو چکا ہے۔ ایسے میں افغانستان کی آزادی کی سیاسی لڑائی کو ابھی سے خطے کی سوشلسٹ فیڈریشن کی لڑائی سے جوڑنے کے سیاسی پروگرام پر منظم کرنا ہوگا۔ ہم مارکس وادی پاکستانی اور ایرانی ریاستوں کے افغانستان میں مذموم عزائم اور سامراجی مداخلت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان سامراجی گدھوں کی طرف نفرت آمیز رویہ رکھنے میں افغانستان کے عوام حق بجانب ہیں مگر پاکستان اور ایران کے عوام اور بالخصوص محنت کشوں کے دل کابل یا افغانستان کے کسی بھی علاقے میں ہونے والے دھماکوں اور ان کے نتیجے میں مرنے والے معصوم بچوں اور خواتین یا نہتے شہریوں کے غم میں ہلکان ہو جاتے ہیں اور اگر ایران یا پاکستان کے محنت کش اقتدار میں آتے ہیں تو وہ افغانستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے سے ہر گز گریز نہیں کریں گے۔ پاکستان سے افغان محنت کشوں کی جبری بے دخلیوں کے مطالبے کی بھی یہاں کے محنت کشوں میں خاطر خواہ حمایت موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف موجودہ نظام میں رہتے ہوئے امریکی آشیرباد سے آزاد اور عظیم پشتونخوا کا قوم پرست قیادتوں کا خواب ناقابل عمل دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ اگر یہی نظام کچھ عرصہ قائم رہا تو گریٹر پختونخوا تو درکنار افغانستان کو موجودہ شکل میں برقرار رکھنا بھی مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا اور افغانستان کی بلقانائزیشن کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تو پھر کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران اور پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی تک افغانستان کے عوام اور محنت کش ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ افغان عوام کی ہر سیاسی اٹھان خطے میں نہ صرف امریکی سامراج بلکہ بنیادپرستوں اور ان کے پروردگار سرمایہ دارانہ نظام کو مزید کمزور کرے گی۔ ایران، پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ افغانستان کی ہر ترقی پسند سیاسی پیش رفت سے بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور افغان عوام کا مقدمہ اپنے اپنے سیاسی معرکوں میں بھی لڑیں اور اپنے اپنے حکمران طبقات اور ریاستوں کے سامراجی عزائم کے خلاف عملی سیاسی جدوجہد کو منظم کریں۔ اس وقت امریکہ سمیت دنیا بھر کے تمام خطوں میں سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف بہت بڑی بڑی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے محنت کشوں نے افغانستان کی سامراجی جنگ کے آغاز پر بھی اس کی شدید مخالفت کی تھی اور لاکھوں افراد کے جلوس یورپ اور امریکہ میں اس جنگ کی مخالفت میں نکلے تھے۔ دو دہائی بعد یہ نفرت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھی ہے اور سامراجی جنگوں کے خلاف اپنے اپنے ممالک کے حکمرانوں پر عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے ان ممالک کی حکومتوں کو بھی مزید کمزور کر دیا ہے اور وہاں کے حکمران بھی عوامی غیض و غضب سے بچنے کے لیے مختلف بیل آؤٹ پیکج دے رہے ہیں۔ لیکن ان کا حتمی مقصد اس نظام کو قائم رکھنا ہے جس کے خلاف عوام کی نفرت ہر خطے میں بڑھ رہی ہے۔ اس خطے میں بھی بھارتی کسانوں اور میانمار کے انقلابی عوام کی شاندار تحریکیں ہمیں یہ بتا رہی ہیں کہ ایک نیا، متلاطم اور انقلابی عہد شروع ہوا چاہتا ہے۔ اس ظالم اور وحشیانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز میں آواز ملاتے ہوئے عالمی مزدور تحریک کو ایک ناقابلِ تسخیر قوت میں بدلا جا سکتا ہے اور افغانستان سمیت ساری دنیا سے بربریت، افلاس اور درندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔