|تحریر: رزاق غورزنگ|
افغانستان میں امریکہ کی ذلت آمیز شکست اور انخلا کے بعد طالبان کی وحشت مسلط ہو چکی ہے جو افغانستان کے محنت کش عوام کومزید بربادی اور ہولناکی میں دھکیل رہی ہے۔ لاکھوں افراد ہجرت کر رہے ہیں جبکہ آبادی کی بہت بڑی اکثریت اس وقت بھوک، بیماری اور ذلت کا شکار ہے۔ کابل میں موجود نئے حکمران افغانستان کے وسائل کی لوٹ مار میں بندر بانٹ میں مصروف ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹنے اور اپنی دولت میں اضافے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ عوام گھر کا ساز وسامان بیچ کر اپنی بھوک ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران احتجاجوں کے سلسلے کا بھی آغاز ہو چکا ہے جس میں تمام تر وحشت، جبر اور قتل و غارت کے باوجود خواتین انتہائی جرات اور دلیری سے اپنے بنیادی حقوق کے لیے کابل سمیت دیگر شہروں میں احتجاج کر رہی ہیں۔ ان احتجاجوں پر طالبان کی جانب سے تشدد اور فائرنگ کے واقعات کی بھی ویڈیوز منظر عام پر آرہی ہیں لیکن اس کے باوجود احتجاج ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت کوئی ایسی نظریاتی یا سیاسی قوت وہاں موجود نہیں جو اس تمام تر نفرت اور غم و غصے کو ایک سیاسی جدوجہد میں منظم کر سکے اور اسے ایران اور خطے کے دیگر ممالک میں جاری تحریکوں کے ساتھ جوڑ سکے لیکن آنے والے عرصے میں یہاں طالبان اور دیگر تمام مذہبی بنیاد پرست قوتوں کے خلاف تحریکیں نظر آئیں گی۔ سامراجی قوتوں کی پشت پناہی سے چلنے والی مزاحمت پہلے ہی بکھر چکی ہے اور سابقہ کرپٹ، بد عنوان اور عوام دشمن قیادتیں پہلے ہی رد ہو چکی ہیں۔ ایسے میں نوجوانوں کے اندر سے نئی انقلابی قوت کے پروان چڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کا کردار بھی واضح ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے جس نے طالبان کی حکومت تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جب تک امریکی سامراج کی قوتیں یہاں موجود تھیں اس وقت تک ایران، روس اور خطے کے دیگر سامراجی ممالک بھی امریکہ مخالف قوتوں کی پشت پناہی اور امداد کر رہے تھے لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور مکمل طور پر ایک نئی کیفیت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پہلے یہ لگ رہا تھا کہ طالبان کی حکومت بنتے ہی اسے روس، چین اور ایران کی جانب سے تسلیم کر لیا جائے گا اور پھر عالمی سطح پردیگر ممالک کی جانب سے تسلیم کیے جانے کا عمل شروع ہو گا لیکن اب اس نئی کیفیت میں کوئی بھی ملک اس نئی حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل نہیں کر رہا بلکہ روس اور چین نے واضح طور اپنے خدشات کا اظہار کر دیا ہے۔ اسی طرح ایران نے بھی اپنے تعلقات کو سرد مہری کی جانب لے جانا زیادہ مناسب سمجھا ہے جس کے باعث طالبان اور ایران کے اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں۔
مالی امداد کے لیے بھی طالبان کی نئی حکومت امریکہ سمیت پوری دنیا سے بھیک مانگتی نظر آرہی ہے لیکن کوئی بھی اس کی مدد کے لیے ٹھوس اقدام نہیں اٹھا رہا۔ پہلے ایسا لگتا تھا کہ طالبان اور سابقہ کابل حکومت کے اہم افراد پر مشتمل مخلوط حکومت بنائی جائے گی جس کے باعث امریکہ کو دنیا بھر میں ذلت سے بھی بچایا جا سکے گااور دوسری جانب نئی حکومت کو امریکی امداد کا سلسلہ بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گا۔ لیکن گزشتہ دو ماہ کے واقعات جس طرح وقوع پذیر ہوئے، جس میں اشرف غنی کا ڈالر لے کر بھاگنے سمیت پوری افغان فوج کا انہدام شامل ہے، اس نے صورتحال کو سنبھلنے کی بجائے مزید بحران زدہ کر دیا ہے اور امریکی سامراج کا خصی پن اور نااہلی کھل کر دنیا پر عیاں ہوئی ہے۔ اس تمام بحران کا خمیازہ افغانستان کے عوام بھگت رہے ہیں جبکہ افغانستان سمیت پورے خطے میں استحکام، امن اور معاشی ترقی دور دور تک نظر نہیں آ رہی جبکہ خطے کے حکمران طبقات کی باہمی کشمکش بھی شدت اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔
اس تمام صورتحال کے دوران پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کی کابل آمد اور اس کی موجودگی میں دو دن کے اندر طالبان کی طرف سے عبوری کابینہ کے اعلان نے بہت سی چہ میگوئیوں اور بحثوں کو جنم دیا۔ سوشل میڈیا پر طالب کمانڈر کی طرف سے ایک آڈیو کلپ بہت وائرل ہوا جس میں وہ جنرل فیض اور طالبان کی کابینہ کے تشکیل کے حوالے سے اس میٹنگ کے حوالے سے بتارہا ہے کہ مختلف وزارتوں کے حصول پر لڑائی میں طالبان قائدین کے درمیان فائرنگ سے لے کر ایک دوسرے پر چائے کے تھرموس بھی پھینکے گئے۔ اسی طرح وہ اس کلپ میں کہہ ہا ہے کہ بالآخر جنرل فیض کی مداخلت پر موجودہ کابینہ کو تشکیل دیا گیا اور اس پر فی الحال اتفاق کیا گیا، جبکہ اس طرح کی خبریں بھی آرہی ہیں کہ ہلمند سے تعلق رکھنے والے طالبان کے مرکزی فوجی کمانڈرز اور سٹریٹجسٹ ابراہیم صدر اور ملا ذاکر ناراض ہوکر اسی دن کابل چھوڑ کر ہلمند روانہ ہوگئے۔ ابراہیم صدر اور مولوی ذاکر کے دھڑے کو ایران کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے اور اس دھڑے نے ایران کی لاجسٹک اور مالیاتی مدد سے ہلمند کو پچھلے عشرے میں طالبان کی مسلح تربیت اور گوریلا کاروائیوں کے ایک بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا تھا۔ طالبان کی نئی کابینہ کا اعلان ہوتے ہی ایران نے پنجشیر میں طالبان کی فوجی کاروائیوں پر تنقید کرنا شروع کر دی اور ان کا یہ مؤقف آرہا تھا کہ ایران کے افغان دوستوں کو تشویش ہے کہ طالبان بیرونی فوجی مداخلت اور مشترکہ حکومت بنانے میں ناکام رہا ہے۔ ایران کے ایک رکنِ پارلیمنٹ نے پنج شیر میں فوجی کاروائی اور نئی کابینہ پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پنج شیر میں فوجی کاروائی اور طالبان کی نئی کابینہ بنانے میں مرکزی کردار پاکستانی آئی ایس آئی نے ادا کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایرانی دھڑے کو مکمل طور پر اس لئے سائڈ لائن کیا گیا تاکہ امریکی سامراج کو سگنل دیا جائے کہ ہم دوبارہ سے آپ لوگوں کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال اس تمام تر پیش رفت سے یہ واضح ہوتاہے کہ ایران کے مبالغہ آمیز کردار کی بجائے ابھی تک پاکستان ہی اس رجعتی جیوپولیٹیکل شطرنج پر مرکزی کھلاڑی بن کے ابھرا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کی منافقت سے بھری سفارتکاری طالبان کو دوسرے ممالک سے تسلیم کروانے کے لیے اس وقت پورے آب وتاب سے فعال ہے اور اس معاملے میں خطے کے وزرائے خارجہ سے لے کر خفیہ اداروں کے سربراہان کی کانفرنسیں کروا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ خطے کی دوسری سامراجی طاقتیں چین، روس اور ترکی بھی کوئی بھی نقصان اٹھائے بغیر اور کم سے کم قیمت پر اپنی خواہش کے مطابق ایسا نام نہاد استحکام چاہتے ہیں جس میں ان کے تنگ نظر سامراجی قومی مفادات کی تکمیل ہو۔ اس کا اظہار حال ہی میں تاجکستان میں ہونے والی SCOکی سربراہی کانفرنس میں بھی نظر آیا جس میں چین اور روس نے افغانستان کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا اور اس فورم کے ذریعے افغانستان میں مشترکہ طور پراثر و رسوخ بڑھانے کی بھی بات کی لیکن مالی امداد کے لیے آئی ایم ایف اور امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا۔
اسی طرح، قطر جس کی آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ ہے اور جغرافیہ کوئٹہ شہر سے بھی کم ہے، گیس اور تیل سے مالا مال اس رجعتی عرب بادشاہت نے پچھلے عرصے میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے فعال کردار ادا کیاہے اور اپنے پرتعیش ہوٹلوں میں طالبان کی گزشتہ کئی سالوں سے انتہائی فیاضی سے میزبانی کرتا رہا ہے۔ طالبان کو ایک سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرنے میں قطر دفتر کا مرکزی کردار رہا ہے اور اب اپنی قیمت وصول کرنے کے لیے جنرل فیض حمید کے بعد کابل کا دوسرا دورہ قطر کے وزیرخارجہ نے کیا۔ طالبان کے رجعتی اقدامات اور جنرل فیض کی کابل کے سرینا ہوٹل میں فتح سے سرشار تصویر جس میں وہ چائے کا کپ پی رہاہے، نے افغان آبادی کو شدید اشتعال دلایا۔ اس خبر کے وائرل ہونے کے بعدکابل سے لے کر ہرات اور شمالی افغانستان کے تمام مرکزی شہروں میں سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کے خلاف احتجاج کیے اور طالبان کی وحشی ملائیت اور اس ملائیت کو پاکستان کی کٹھ پتلی قرار دے کر اس کو مسترد کیا۔ کابل میں ہزاروں مظاہرین طالبان کے شدید تشدد اور فائرنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے انتہائی جرات کے ساتھ احتجاجی مظاہرے کو پاکستان کے سفارت خانے تک لے کے چلے گئے۔ مظاہرین جہاں ان مذہبی درندوں اور ان کے وحشیانہ اقدامات کے خلاف نعرے لگارہے تھے تو وہاں وہ اس استبدادی رجیم کو پاکستان کی کٹھ پتلی سمجھ کر پاکستان کی سامراجی مداخلت اور ان کے داخلی مہروں سے آزادی کا مطالبہ بھی کررہے تھے۔ ان تمام مظاہروں میں خواتین فرنٹ لائن پر موجود تھیں جنہوں نے طالبان کی تمام تر ظالمانہ رکاوٹوں کا انتہائی جرات اور دلیری کے ساتھ سینہ تان کر مقابلہ کیا۔ طالبان کے خلاف یہ ابتدائی مظاہرے اور نفرت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مذہبی جتھے تمام تر جبر کے باوجود اس طرح سے اپنے آپ کو مسلط نہیں کرسکتے جس طرح ماضی میں انہوں نے کیا تھا۔
90 کی دہائی میں پٹرو ڈالر جہاد پر پلنے والے خونی وارلاڈز کے درمیان جب سول وار چل رہی تھی جس میں کابل کو ان درندہ صفت وار لارڈز نے راکٹوں کے حملوں سے دوزخ کی آگ میں جلا کر راکھ کردیا تھا۔ اس وقت افغانستان میں ہر کلومیٹرپر وارلارڈز نے اپنی ریاست بنائی اور پورے افغانستان کو ایک قتل گاہ میں تبدیل کیا گیا جس میں لاکھوں معصوم لوگ مرگئے اور لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ لوگ اپنے وطن اور گھروں سے اجڑ کر دیارِ غیر میں مہاجر بن کر انتہائی ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبورہوگئے۔ خطے کے حکمران طبقات اور ان سے جڑی بورژوا سیاست نے ان مہاجرین کی سستی لیبر کا شدید استحصال کرکے بے پناہ منافعے نچوڑے اوردوسری طرف ان کو شدید تعصب کا نشانہ بناکر ان کے ساتھ ہر طرح کا امتیازی سلوک کرکے ان کے بنیادی انسانی حقوق بھی چھین لیے۔ جنگوں سے مفلوک الحال اور اپنے برباد گھروں سے مہاجر بننے والے ان افغان عوام کی دونسلیں انتہائی ذلت آمیز اورہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم ہمسایہ ریاستوں میں جوان ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ افغانستان میں اسی بربادی کے کھنڈرات پر 1994ء میں طالبان کے نام پر ایک مذہبی قوت نمودارہوتی ہے جنہوں نے قندھار میں ایک وارلارڈ کو اپنے ٹینک پر پھانسی دی اور اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے طالبان نے پاکستان کی لاجسٹک اور فوجی کمک جبکہ امریکی سامراج کے ڈالروں کے ذریعے دو سال میں پورے افغانستان پر قبضہ جمایا اور وہ یہاں پرننگے جبر کے ذریعے قبرستان کا امن لانے میں کامیاب ہوئے۔ طالبان کی سماجی بنیادیں جنگوں سے بربادہونے والی پیٹی پورژوازی، ان کے شدید اشتعال اور دیہاتوں میں رہنے والی سماج کی پچھڑی ہوئی پرتوں میں پیوست تھیں۔ افغانستان پر مستند سمجھنے والے ایک جرنلسٹ کا کہنا تھا کہ جب 1980ء میں، رپورٹنگ کیلئے میں جن افغان مہاجرین سے ملتا تھا تو وہ اپنے کھیتوں کو، اپنی گلیوں کو اور چراگاہوں کو بہت افسوس کے ساتھ یاد کرتے تھے لیکن 1990ء کے بعد میں افغانوں کی اس نسل سے ملا جو اپنی تمام سماجی و معاشی بنیادوں سے محروم ہوگئے تھے اور افغانستان میں مسلسل جنگوں اور بربادی کی وجہ سے ان کی طبقاتی ساخت تبدیل ہوگئی تھی۔ طالبان کی فوجی قوت اور قیادت زیادہ تر سماج کے لمپنائزعناصر پر مشتمل تھی جن کی اکثریت نے پڑوسی ملک میں پٹرو ڈالر جہاد کے تناظر میں بنائے ہوئے مدرسوں میں ابتدائی مذہبی تعلیم حاصل کی تھی جس کا نصاب امریکی سامراج کے اشاروں پر ترتیب دیا گیا تھا۔ اس نصاب کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کی مالیاتی بنیادوں پر کوئی تنقید نہیں کی جاتی اور نہ ہی اسے کوئی خطرہ سمجھا جاتا ہے اور تمام تر توجہ بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے پر مرکوز کی جاتی ہے تاکہ محنت کش سرمایہ داروں کے خلاف منظم ہو کر آواز بلند کرنے کی کوشش نہ کر سکیں۔ یہی کچھ آج بھی طالبان کی حکومت میں نظر آ رہا ہے جہاں بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں پر کوئی تنقید اور مخالفت موجود نہیں اور نہ ہی امیر اور غریب کی تقسیم پرکوئی اختلاف ہے۔ پہلے سے موجود سرمایہ دارانہ نظام کو ہی برقعہ پہنا کر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پسماندگی کے زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ امتزاج کے باعث طالبان کے نظریات میں جدید اربنائز ثقافت سے شدید نفرت، ہر قسم کے ترقی پسند مظہر، موسیقی اور تہذیب سے دشمنی نظر آتی ہے جس کا اظہار گوتم بدھ کے مجسمے گرانے، عورتوں پر شدید جبر کرنے اور ہر قسم کے بنیادی جمہوری حقوق پر قدغن لگانے میں نظرآتا ہے اور ایک طرح سے قرونِ وسطی کے جابرانہ سیاسی ڈھانچے کے ذریعے نارکوٹیکس پر مشتمل معیشت کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چلانا چاہتے ہیں جس کا مقدر ناکام ہونا ہی ہے اور افغان عوام کو مزید برباد کرنا ہے۔
نائن الیون کے بعد جب امریکی سامراج نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر افغانستان میں لشکرکشی کرتے ہوئے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کیا تو افغانستان میں سامراج کے اتحاد میں وہی وارلارڈز، جنگی مجرم اور مجاہدین تھے جنہوں نے پٹرو ڈالر جہاد میں افغانستان کوکھنڈر بنایا تھا۔ ان مجاہدین اور وارلارڈز نے راتوں رات فیشن ایبل داڑھیاں بناکر اور نکٹائی پہن کر سامراج کی خونخوار اور جنگی مشین کے سنگینوں کے سائے میں نام نہاد لبرل جمہوری فراڈ اور انسانی حقوق کے جھوٹے نعروں پر دنیا کی کرپٹ ترین رجیم کو تشکیل دیا۔ نام نہاد دہشت گردوں کے تعاقب میں امریکہ اور اس کی اتحادی قوتوں نے مسلسل فضائی بمباری، کارپٹ بمبنگ اور جنگی جرائم میں ملوث ہوکر بڑے پیمانے پر افغان عوام کا قتل عام کیا جس نے امریکہ اور اس کی بنائی ہوئی فوج اور ریاست کے خلاف شدید عوامی نفرت کو جنم دیا اور افغان عوام کی زیادہ تر آبادی امریکی سامراج اور اس کی بنائی فوج کو ایک بیرونی اور قابض قوت کے طور پر دیکھتی تھی جس کی جنگی تباہ کاریوں نے ان کی زندگی اجیرن بنادی تھی۔ افغانستان میں سامراج کی جنگی مشین نے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے منافعوں میں ہوشربا اضافہ کرنے کیلئے ہر قسم کے اسلحوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ بموں کے استعمال کیلئے افغان سرزمین کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیاگیا۔ امریکہ کی چند اسلحہ ساز کمپنیوں نے انتہائی کم اخراجات پر ٹریلین ڈالرز کمائے۔ وکی لیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق سویڈن نے اپنے نئے بنائے ہوئے میزائل کی مارکیٹ بڑھانے کیلئے افغان سرزمین پر اس کا استعمال کیا۔ افغانستان میں سامراج کے اتحادی اور ماضی کے ان بدنما کرداروں نے اس جنگی مشین کے نتیجے میں ملٹری کنٹریکٹس اور اپنی فوجی ملیشیاء کے ذریعے بے پناہ پیسے لوٹ کر دبئی اور کابل میں پرتعیش محلوں کے اندر آرام دہ زندگی گزار رہے تھے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف اس بیس سالہ جنگ میں افغانستان کا یہی اقلیتی طبقہ تھا جو اس جنگ کے مسلسل پھیلاؤ سے مالا مال ہورہا تھا اور امریکی ڈالرز کے علاوہ یہ اقلیتی پرت افیون اور نارکوٹکس کی تجارت سے بے پناہ مال بنارہی تھی جبکہ دوسری طرف افغان عوام کی اکثریت کے مقدر میں بمباریاں، چھاپے، بدترین ٹارچر اور شدید غربت تھی۔ ان عوامل کی بنیاد پر افغانستان میں امریکہ کی پشت پناہی میں جو ریاستی ڈھانچہ اور سیاسی نظام بنایا گیا وہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں تھا جس کی کوئی عوامی بنیادیں نہیں تھیں۔ اس لئے جب سامراجی طاقتوں نے اپنا انخلاء شروع کیا تو انخلاء سے پہلے ہی بلین ڈالرز سے بنایاہوا ریاستی ڈھانچہ طالبان جیسے غیر منظم لشکر کے سامنے ریت کے ذروں کی طرح اڑ گیا اور اس مصنوعی سیٹ اپ کی ساری قیادت راتوں رات اڑان بھر کربھاگ گئی اور افغانستان اور اس کے عوام کو مذہبی دہشت گردوں کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ سامراج اور اس کی کٹھ پتلیوں کے خلاف شدید نفرت اور افغانستان کے سیاسی افق پر خلاء کو طالبان جیسی رجعتی اور عوام دشمن قوت نے پر کیا۔
سامراج کی براہ راست فوجی مہم جوئی ایک ایسے ملک کے اندر تھی جس کے اردگرد ریاستیں امریکی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی تھیں اور یوں انہوں نے طالبان کو مسلح کرتے ہوئے افغان سرزمین کو ان متضاد سامراجی طاقتوں کی گریٹ گیم اور جیو پولیٹیکل شطرنج کا تختہ مشق بنایا۔ ایسے میں یہ تصادم اور لڑائی دونوں طرف سے رجعتی کردار کی حامل تھی۔ بنیاد پرستوں کا بنیادپرستوں سے اور دہشت گردوں کا دہشت گردوں سے تصادم تھاجس کی بھاری قیمت مظلوم افغان عوام نے ادا کی۔ افغان عوام بربادہوتے رہے جبکہ یہ جنگوں کے بیوپاری مالامال ہوتے رہے۔
اس ساری صورتحال میں سب سے المناک پوزیشن افغان لیفٹ اور قوم پرستوں کی رہی جنہوں نے آزادانہ بنیادوں پر تنظیم کاری کرتے ہوئے عوام کو منظم کرنے کی بجائے سامراج کی حمایت میں آسمان سر پر اٹھایا اور آج جب ان کی امیدوں کے کعبے ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں تو وہ اندر سے ٹوٹ کر مایوسی کے دلدل میں غرق ہوکر تاریخ کا کوڑا دن بن رہے ہیں اور یہی مقدر ڈیورنڈ لائن کے اس پار رہنے والے پشتون قوم پرستوں اور پاکستانی لبرلز کا بھی ہے جن پر امریکی سامراج کی ناکامی اور اس کی کٹھ پتلی رجیم کا خاتمہ ایک قیامت بن کرنازل ہوا ہے اور آج وہ اس خطے کے قابل رحم سیاسی یتیموں کی مجسم شکل اختیار کرچکے ہیں۔
کابل پر طالبان قبضے کے بعد افغانستان میں اس وقت ایک انسانی المیہ جنم لے رہاہے۔ کرونا وباء اور خشک سالی کی وجہ سے ستر لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی 72 فیصد آبادی کو شدید غربت اور غذائی قلت کا سامنا ہے اور اگلے سال یہ شرح 97 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی پورا کرنے کیلئے اپنے گھر کاضروری ساز و سامان بیچ رہے ہیں۔ پچھلے چند دنوں کے اندر قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ بینکوں کے سامنے لوگوں کی قطاریں کھڑی نظر آتی ہیں لیکن اے ٹی ایم مشینوں کے اندر کوئی کیش نہیں ہے۔ افغان جی ڈی پی کا 70 سے 75 فیصد حصہ بیرونی امداد پر مشتمل تھا جو اب ختم ہوچکی ہے۔ افغانستان کی ریاست کو چلانے کیلئے سالانہ کم از کم 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس کو پورا کرنا افغانستان کی موجودہ معیشت اور نظام کی وساطت سے باہرہے۔ طالبان کے نام پر اقتدار میں آنے والے اس وحشی مذہبی ٹولے کے پاس افغانستان کو اس دلدل سے نکالنے کیلئے کوئی سیاسی و نظریاتی پروگرام نہیں۔ اس مذہبی ٹولے کی سیاسی معیشت اور ریونیو کا انحصار زیادہ تر پوست کی کاشت اور مجرمانہ سرگرمیوں سے جنم لینے والی آمدن پر تھا جس کی کل مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ اس قلیل رقم پر افغانستان تو کیا وہ اپنے حواریوں کو بھی نہیں چلاسکتے۔ افغانستان میں موجود بے پناہ قدرتی وسائل کو بھی جواز بناکر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چین کی سرمایہ کاری سے وہاں پر بہت بڑی معاشی سرگرمی جنم لے سکتی ہے۔ طالبان نے اپنے پالیسی بیانات میں چین کی سرمایہ کاری کو فیصلہ کن قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی سرمایہ کاری سے افغانستان کی آمدن میں بڑا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں وہ 2001ء کے بعد لاطینی امریکہ میں چین کی تیل اور دوسرے خام مال کے ذرائع میں سرمایہ کاری کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک کی آمدن میں بڑا اضافہ ہوا اور انہوں نے اس آمدن کے بلبوتے پر کچھ سماجی بہتری کی اصلاحات کیں، تو گزارش یہ ہے کہ 2001ء کے بعد عالمی معیشت کے اندر گروتھ کی گنجائش تھی اور عالمی منڈی کے اندر طلب موجود تھی جس کی بنیاد پر چین کو بہت بڑے پیمانے پر خام مال اور تیل کی ضرورت تھی تاکہ وہ ان کو صنعتی پیداوار میں تبدیل کرکے کھپا سکے جبکہ آج کی عالمی معیشت تاریخ کے بد ترین زوال کی شکل میں موجودہے۔ جن منڈیوں میں چین کی پیداوار کی طلب موجود تھی وہ منڈیاں اس معاشی زوال کے نتیجے میں سکڑ گئی ہیں اور اس بحران کی وجہ سے تجارتی جنگ اور تحفظاتی پالیسیاں شدت اختیار کر چکی ہیں اور مجموعی طور پر عالمی تجارت سکڑ چکی ہے۔ نتیجتاً چین کی پیداوار بیکار پڑی ہوئی ہے اور ان کو زائد پیداوار اور زائد صلاحیت کے بحران کا سامناہے جس کی وجہ سے لاطینی امریکہ میں تیل اور دوسرے خام مال کی سپلائی بڑے پیمانے پر گرگئی ہے اوریہ ریاستیں مالیاتی حوالے سے شدید بحران کا سامنا کررہی ہیں۔ ایسے میں افغانستان جیسے عدم استحکام سے دو چار اور انفراسٹرکچر سے محروم ملک کے اندر چین سے اتنی بڑی سرمایہ کاری کی توقع کرنا دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔
طالبان کی نئی کابینہ کے تناظر میں ان کے طرزِ حکومت کے بنیادی خدوخال سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ ایران کی طرز پر سنی فرقہ پرست تھیوکریٹک ریاست بنانا چاہتے ہیں جسے وہ تمام تر جبر کے ذریعے افغان عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کریں گے اور ایک مجرمانہ ریاست اور اس کی وحشت کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن جتناہی وحشت سے وہ اپنے آپ کو مسلط کریں گے اتنا ہی اس رجیم کے اندر دراڑیں تیز ہوں گی اور ان کے درمیان اقتدار اور لوٹ مار کے اوپر دھڑے بندیوں کی کشمکش شدت اختیار کرے گی۔ ان کے پاس ایرانی ملا اشرافیہ کی طرح کی سماج کی پسماندہ پرتوں کی حمایت بھی موجود نہیں اور نہ ہی ان کے پاس تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ ایسے میں وہ افغان عوام کو مزید غربت، استحصال، بے روزگاری اورہجرتوں کی طرف دھکیلیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ جمہوری حقوق پر شدید حملے کریں گے جس کاآغاز انہوں نے بڑے پیمانے پر پہلے سے ہی کیا ہے جس کی دل دہلا دینے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔ لیکن طالبان کے لیے اس جبر اور وحشت کو قائم رکھنا لمبے عرصے تک ممکن نہیں۔ آج وہ جس افغانستان پر حکمرانی کررہے ہیں وہ نوے کی دہائی سے بہت مختلف افغانستان ہے۔ آج افغانستان کی 70 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع سے واقف ہیں اور پوری دنیا سے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں اور دنیا کی تمام سیاسی تحریکوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی صورت میں اس مذہبی ٹولے کے سامنے اپنے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ افغانستان کے اندر مظلوم قومیتوں اور عورتوں کا سوال ایک دھماکہ خیز شکل میں اپنا اظہار کرے گا اور ان کے ساتھ ساتھ روٹی، روزگار، چھت اور دوسرے جمہوری سوالات وہ بنیادی اور ٹھوس مطالبات ہوں گے جن کے گرد بڑی بڑی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں جبکہ ایک نئی خانہ جنگی بھی جنم لے سکتی ہے۔ ایسے میں افغانستان کا مقدر خطے کے دیگر مما کے محنت کشوں اور مظلوموں سے نامیاتی طور پر منسلک ہونا فطری امر ہے اور واقعات کی اس بھٹی میں بالشویک نظریات پر مشتمل ایک انقلابی قوت کی تعمیر وہ طاقتور ضمانت بن سکتی ہے جو خطے سے اس سامراجی نظام اور اس کی نمائندہ قوتوں کا قلع قمع کرتے ہوئے ایک انسان دوست معاشرہ قائم کرے جس کی بنیاد بھائی چارے، برابری اور عظیم انسانی جذبات پر ہو۔