افغانستان کا ثور انقلاب

|تحریر: رزاق غورزنگ|

انسانی معاشرے کے لاکھوں سال کے تاریخی ارتقا میں انقلابات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس تاریخی عمل کے دوران انسانی معاشرے نے مختلف معاشی اور سماجی نظام اختیار کرکے پیداواری قوتوں اور معیارِ زندگی کو آگے بڑھایا ہے۔ جب بھی کوئی معاشی و سماجی نظام پیداواری قوتوں کو ترقی دینے سے قاصر ہوجاتا ہے تو وہ اپنی تاریخی حیثیت کھوکر انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، تب اس دم توڑتے نظام کے خلاف بغاوتیں اور انقلابات جنم لیتے ہیں۔ انقلابات کو کارل مارکس نے تاریخ کا انجن کہا ہے۔

حکمران طبقات کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جھوٹی تاریخ اور پراپیگنڈے کے ذریعے ان بغاوتوں اور انقلابات کو مسخ کر کے ان کو المیے کے طور پر پیش کریں تاکہ عوام کو ڈراکر ان کے شعور میں انقلابات سے نفرت اور بیزاری پیدا کی جاسکے۔ اپنے زرخرید دانشوروں کے ذریعے حکمران طبقات ایسی تاریخ لکھتے ہیں جس میں نہ صرف انقلابات کو مسخ کیا جاتا ہے بلکہ ان انقلابات کے انقلابی کرداروں اور قائدین کی منظم کردارکشی کی جاتی ہے۔

ایسا ہی ایک انقلاب اس خطے کی تاریخ میں افغانستان کی سرزمین پر آج سے اکتالیس سال پہلے برپا ہوا تھا،جس نے افغانستان اور اس پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس انقلاب نے خطے کے محنت کش و مظلوم طبقات کی آزادی کے حوالے سے امید کی نئی کرن پیدا کی تھی۔ آج کارپوریٹ میڈیا میں افغانستان کو مذہبی بنیاد پرستی، جہاد، طالبان، وارلارڈز اور منشیات کے مرکز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بربریت افغانستان کے مظلوم عوام کو ایک لمبے عرصے سے تاراج کررہی ہے لیکن یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس انقلاب کو عالمی اور علاقائی سامراجی قوتوں کی براہ راست مداخلت کے نتیجے میں مذہبی بنیاد پرستی کے رجعتی ردانقلابی وار کے ذریعے تباہ کیا گیا اور افغانستان کے معاشرے کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا گیا۔ افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں ان رجعتی قوتوں کے ابھار اور موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ افغان ثور انقلاب کے عروج وزوال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔

تاریخی پس منظر

اپنے اسٹرٹیجک محل وقوع کے اعتبار سے افغانستان اس خطے کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جیسا کہ فریڈرک اینگلز نے لکھا تھا:

”افغانستان کی جغرافیائی موقعیت اور اس میں بسنے والے لوگوں کا مخصوص کردار اس ملک کو وہ سیاسی اہمیت عطا کرتا ہے جس کو وسطی ایشیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔“

افغانستان وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے ملاتا ہے اور اسی جغرافیائی موقعیت نے اس ملک کے سیاسی و تاریخی معاملات میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے جو آج تک مسلمہ ہے۔ 19ویں صدی میں یہ ملک انگریز سامراج اور زار شاہی روس کے درمیان بفرزون تھا۔ انگریز سامراج نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں جزوی طور پر ناکام رہا جس کے نتیجے میں انگریز سامراج نے ڈیورنڈ لائن کے خونی خنجر سے ایک ہی ثقافت رکھنے اور زبان بولنے والی قوم کو تقسیم کرکے افغانستان کے بڑے حصے کو برٹش انڈیا کی عملداری میں شامل کیا۔ پشتونوں کی اس سامراجی تقسیم کے زخموں کو عالمی سامراج اور اس کی کٹھ پتلی ریاستیں آج تک کرید رہیں ہیں خاص طور پر پچھلے 40 سال سے امریکی سامراج اور پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کی خونی سرحد کو رد انقلاب اور رجعت کے مرکز کے طور پر استعمال کیا ہے۔

بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں افغانستان کے سامراج مخالف اور آزادی پسند رہنما امیر امان اللہ خان نے افغان معاشرے کو جدید، سیکولر اور صنعتی بنانے کی انتہائی سنجیدہ کوشش کی۔ امیر امان اللہ خان ترکی کے رہنما مصطفی کمال اتاترک سے شدید متاثر تھا۔ اس نے افغانستان میں مصطفی کمال اتاترک کی طرز پر ریڈیکل اصلاحات متعارف کروائیں۔ لیکن انگریز سامراج کی مسلسل جارحیت اور بعض مخصوص تاریخی اور معروضی عوامل کی بناء پر وہ ان اصلاحات کو کامیابی سے ہمکنار نہ کرسکا۔

بالشویک انقلاب کے رہنما ٹراٹسکی نے افغانستان کی اس وقت کی صورتحال کا تذکرہ یوں کیا ہے:

”یہاں پر مشرق میں ایک اور قوم ہے جو آج محنت کش طبقے کے عالمی یکجہتی کے دن کے حوالے سے خاص توجہ کی متقاضی ہے۔ یہ افغانستان ہے۔ وہاں پر ڈرامائی واقعات رونما ہورہے ہیں اور ان واقعات میں انگریز سامراج براہ راست ملوث ہے۔ افغانستان ایک پسماندہ ملک ہے۔ اپنے آپ کو یورپینائز کرنے اور اپنی آزادی کو بلند ثقافتی بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب افغانستان پہلا قدم اٹھا رہا ہے۔ افغانستان میں ترقی پسند قوم پرست عناصر اقتدار میں ہیں لیکن انگریز سامراج کابل کے ترقی پسند عناصر کے خلاف ہر اس چیز کو مسلح کررہے ہیں جو نہ صرف اس ملک میں رجعتی ہے بلکہ اس ملک کے سرحد پر واقع ہندوستان کے حوالے سے بھی رجعتی ہے۔ جرمنی میں نا صرف بورژوازی بلکہ سوشل ڈیموکریٹک اتھارٹیز کے یوم مئی کی تقریبات پر پابندی کے احکامات سے لے کر افغانستان اور چین میں ہونے والے واقعات؛ ہر جگہ ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ اس ظلم و جبر کے پیچھے دوسری انٹرنیشنل کی پارٹیاں ملوث ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کابل کی ترقی پسند حکومت کے خلاف چڑھائی برطانوی وسائل کی مدد سے میکڈونلڈ کی امن پسند حکومت کی سرپرستی میں ہورہی ہے۔“(مغرب اور مشرق میں یومِ مئی، یومِ مئی کی تعطیل کی 35ویں سالگرہ کے موقع پر تقریر، اپریل1923ء)

اپریل 1924ء میں کمیونسٹ یونیورسٹی کی تیسری سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹراٹسکی افغانستان کے بارے میں کہتا ہے:

”افغانستان میں واقعی اس وقت ڈرامائی واقعات رونما ہورہے ہیں۔ میکڈونلڈ کا برطانیہ، افغانستان میں قومی بورژوازی کی لیفٹ ونگ حکومت کو گرانا چاہتا ہے جو آزاد افغانستان کو یورپینائز کرنا چاہتے ہیں لیکن میکڈونلڈ ایسے لوگوں کو اقتدار میں لانا چاہتا ہے جو کہ انتہائی رجعتی اور ردِانقلابی تعصبات جیساکہ پین اسلام ازم،خلافت وغیرہ سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ان دو زندہ قوتوں کے ٹکراؤ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرق کا جھکاؤ ہماری،سوویت یونین اور تیسری انٹرنیشنل کی طرف اور بھی زیادہ ہوگا۔“

انگریز سامراج کی جارحیت کے علاوہ امیر امان اللہ خان کی جدیدیت کے راستے میں ایک بڑی معروضی رکاوٹ افغانستان کے اندر قومی سرمایہ دار طبقے کا معاشی طور پر انتہائی لاغر، نحیف اور تکنیکی طور پر پسماندہ کردار تھا جس کی وجہ سے وہ سامراج مخالف بورژوا جمہوری انقلاب کا فریضہ ادا نہیں کر سکتے تھے، جس طرح یورپی سرمایہ دار طبقے نے 18 ویں اور 19 ویں صدی میں جاگیرداری کے خلاف سرمایہ دارانہ انقلابات کی قیادت کرتے ہوئے جدید صنعتی اور قومی سیکولر ریاستیں قائم کی تھیں۔

خلق پارٹی (پی ڈی پی اے)کی تشکیل اور تقسیم

60ء اور 70ء کی دہائی میں عالمی طور پر بائیں بازو کی تحریک عروج پر تھی۔ یورپ، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں نوجوان اور طالبعلم ان انقلابی تحریکوں میں انتہائی متحرک کردار ادا کر رہے تھے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سب سے مضبوط طلبہ تنظیمیں بائیں بازو سے تعلق رکھتی تھیں۔ افغانستان میں بھی کالجز اور یونیورسٹیوں کے اندر غالب نظریاتی رجحان بائیں بازو کا تھا۔ اس کے علاوہ دانشوروں، ادیبوں، پروفیشنلز اور لوئر مڈل کلاس کی اکثریت بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ تھی۔ افغانستان میں بادشاہت کی وجہ سے سیاسی تنظیم کی تشکیل بشمول دوسری جمہوری آزادیوں پر مکمل قدغن تھی لیکن اس کے باوجود تعلیمی اداروں اور شہروں کے اندر گروپوں اور بکھری ہوئی شکل میں انقلابی نظریات کے علاوہ یہ بحث بھی موجود تھی کہ ان بکھری اور منتشر انقلابی قوتوں کو ایک پارٹی کے اندر منظم ہونے کی ضرورت ہے۔

1964ء میں افغانستان کے حکمران طبقات نے افغان معاشرے کے اندر بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کو ٹھنڈا کرنے کیلئے سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کی تشکیل کے حوالے سے پارلیمنٹ سے بل پاس کیا جس میں سیاسی تنظیم اور پارٹی کی تشکیل پر عائد پابندی ہٹادی گئی۔ سیاسی تنظیموں اور پارٹیوں کی تشکیل کی اجازت دے دی گئی۔ افغانستان کی بکھرئی ہوئی انقلابی قوتوں کیلئے یہ بہت اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی منتشر قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کریں۔

خلق پارٹی کے بانی رکن صالح محمد زیری اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں:

”اس بل کے بعد سیاسی پارٹی بنانا ہمارا قانونی حق تھا۔ اس حوالے سے ہم نے کام کو اور بھی تیز کردیا۔ میں نے میڈیکل سائنس کے پانچویں سال کا امتحان دے کر ہاؤس جاب شروع کی تھی۔ چونکہ ہاؤس جاب میں حاضری کا اتنا مسئلہ نہیں تھا تو میں اپنا زیادہ تر وقت یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اپنے کامریڈز کے ساتھ بحثوں اور برانچز بنانے میں گزارتا تھا۔ میں نے یونیورسٹی میں گیارہ برانچز بنائیں اور ہفتے میں ایک بارہر برانچ میٹنگ میں شرکت کرتا تھا۔“ (صالح محمد زیری، آدھی صدی کی یادیں)

مختلف گروپوں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بحثوں کے بعد بالآخر یہ طے پایا کہ یکم جنوری 1965ء کو نور محمد ترکئی کے گھر پر پارٹی کی تشکیل کے حوالے سے ابتدائی میٹنگ کی جائے گی۔

صالح محمد زیری اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے:

”وہ یکم جنوری 1965ء کا دن تھا۔ میں دن کے ڈیڑھ بجے نور محمد ترکئی کے گھر پہنچا۔ وہاں پر مزید کامریڈز بھی وقفے وقفے سے آرہے تھے۔ کچھ لوگ پہلے اور کچھ بعد میں پہنچے۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ کامریڈز ایک ساتھ نہیں جائیں گے بلکہ علیحدہ علیحدہ جائیں گے تاکہ ریاست کو ہماری سرگرمی کا پتہ نہ چل سکے۔ پارٹی کی پہلی کانگریس کی میٹنگ کا آغاز دن کے 2 بجے ہوا اور یہ ابتدائی میٹنگ رات کے 2 بجے تک چلتی رہی۔ اس میٹنگ میں بنیادی بحث پارٹی کی تشکیل، اس کے اصول اور اہداف، طبقاتی جدوجہد اور دوسرے مسائل کے اوپر رہی۔ آخر میں مرکزی کمیٹی کا انتخاب کیا گیاجس میں نور محمد ترکئی، ببرک کارمل، محمدطاہر بدخشی، شیراللہ شہیر، غلام دستگیر پنجشیری، سلطان علی کشتمند، صالح محمد زیری مرکزی کمیٹی کے رکن اور ڈاکٹر شاہ ولی،عبدالکریم میثاق، عبدالوہاب ساپی اور ڈاکٹر محمد توتاخیل مرکزی کمیٹی کے متبادل رکن منتخب کئے گئے۔ نور محمد ترکئی کو مرکزی کمیٹی اور پارٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔“(صالح زیری، آدھی صدی کی یادیں)

نور محمد ترکئی، خلق پارٹی کے پہلے جنرل سیکرٹری

سنٹرل کمیٹی کو فوری طور پر جو کام کرنا تھا وہ پارٹی کے پروگرام اور منشور کا مسودہ لکھنا تھا۔ اس مسودے کو لکھنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس مسودے کو تیار کیا۔ منشور و پروگرام کے اس مسودے کو بعد میں اپریل 1966ء میں خلق جریدے کے دو شماروں میں قسط وار شائع کیا گیا۔

خلق پارٹی کے پروگرام و منشور کے حوالے سے بیورلے میل اپنی کتاب ’انقلابی افغانستان‘ میں لکھتی ہیں:

”منشور میں افغانستان کی محرومی اور پسماندگی کی بنیادی وجہ جاگیرداری اور جاگیر دار طبقات کو قرار دیا گیا تھا۔ اور اس کا حل ایک قومی جمہوری حکومت پر مشتمل ہو گا جس کی سیاسی بنیادیں محنت کشوں، کسانوں، دانشوروں اور پیٹی بورژوازی پر مشتمل ہوں گی جوکہ افغانستان کی قومی آزادی، سامراج اور جاگیرداری مخالف جدوجہد کو کامیاب بنائیں گے۔ خلق پارٹی افغانستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں سے اپنے آپ کو اس لئے ممتاز کرتی تھی کہ دوسری سیاسی پارٹیاں اور گروپ افغانستان کے مسائل کا حل آزاد انتخابات، پریس کی آزادی، بیوروکریسی کی اصلاحات اور دوسری قانونی اصلاحات کے ذریعے چاہتے ہیں جبکہ خلق پارٹی کا نقطہ نظر تھا کہ افغانستان کے مسائل کا حل اس نظام کو اکھاڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔“

پارٹی کی ابتدائی کانگریس کے دو سال بعد 1967ء میں بادشاہت کے سوال پر پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی جس میں خلق دھڑے کی قیادت نور محمد ترکئی کررہے تھے اور اسی نام سے اپنا نظریاتی پرچہ بھی چلاتے تھے جبکہ پرچم دھڑے کی قیادت ببرک کارمل کے ہاتھ میں تھی اور پرچم ہی کے نام سے ان کا پرچہ بھی نکلتا تھا۔ عمومی طور پر دونوں دھڑے سوویت یونین کے سٹالنسٹ نظریات سے اخذ کردہ سیاسی و نظریاتی پوزیشن رکھتے تھے۔ لیکن بادشاہت اور اس کی بنیادوں میں استوار جاگیردارانہ سماجی ڈھانچوں کے حوالے سے پرچم دھڑے کی پوزیشن موقع پرستی پر مبنی تھی کیونکہ پرچم دھڑے کی سماجی بنیادیں اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے نوجوانوں کے اندر تھیں جبکہ خلق پارٹی کی زیادہ تر حمایت نچلے درمیانے طبقات اور کسانوں کے اندر تھیں،جس کی وجہ سے بادشاہت پر ان کی پوزیشن پرچم کے مقابلے میں ریڈیکل تھی۔ بادشاہت پر پرچم قیادت کی پوزیشن کے حوالے سے بیورلے میل اپنی کتاب ’انقلابی افغانستان‘ میں لکھتی ہیں:
”ببرک کارمل کا تجویز کردہ حل مصالحت پر مبنی تھا۔ان کا کہنا تھا کہ خلق جریدے کو اپنے اداریے میں بادشاہ کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ ہم کمیونسٹ نہیں ہیں۔“

1968ء کی عالمی تحریکیں اور افغانستان

1968ء کا سال عالمی سطح پر مزدور تحریک اور طلبہ تحریک کے حوالے سے انتہائی ہنگامہ خیز سال تھا۔ ہڑتالوں، احتجاجوں اور انقلابی جدوجہد سے بھر پور سال۔ فرانس، برطانیہ، سپین، ویتنام سے لے کر پاکستان تک میں مزدوروں اور طلبہ کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ افغانستان میں بھی مزدوروں اور طلبہ کی بھرپور تحریکیں چل رہی تھیں۔ اگرچہ افغانستان میں مزدوروں کے پاس ٹریڈ یونین بنانے کا کوئی حق نہیں تھا لیکن اس کے باوجود 1968ء میں کابل کی تمام فیکٹریوں کے مزدور اپنے مطالبات کیلئے احتجاج پر تھے۔ دوسری طرف طلبہ بھی تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم، ہاسٹل، ٹرانسپورٹ کی فراہمی، نصاب اور دوسرے حقوق کے حصول کیلئے احتجاج پر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ طلبہ مزدوروں کے احتجاج کی نہ صرف حمایت کرتے تھے بلکہ اس میں شرکت بھی کرتے تھے۔

افغانستان کی تاریخ پر کام کے حوالے سے مشہور تاریخ دان لوئس ڈوپری اس وقت کے حالات کے متعلق لکھتے ہیں:

”طلبہ اور بعض صورتوں میں گرامر سکول کے طلبہ کی طرف سے مزدوروں کے احتجاجوں کی حمایت نے کابل میں بہت سے لوگوں کو حیران کیا تھا۔کلاسوں کے اندر طلبہ مارکسزم کے خلاف بحث سننے سے انکار کردیتے تھے۔“

افغانستان اور دنیا میں مزدوروں اور طلبہ تحریک کے حوالے سے لوئس ڈوپری لکھتے ہیں:

”افغانستان میں ابھرنے والی طلبہ کی حالیہ ہلچل کو پوری دنیا کے اندر پھیلی طلبہ کی عالمی تحریک کی توسیع کے طور پر دیکھنا چاہیے۔“

1978ء کی بغاوت اور اقتدار پر خلق پارٹی کا قبضہ

1973ء میں سردارداؤد نے اپنے کزن ظاہر شاہ کے خلاف پرچم دھڑے کے حمایت یافتہ فوجی افسران کی مدد سے کُوکے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے بادشاہت کے خاتمے اور افغانستان کو ایک جمہوریہ بنانے کا اعلان کردیا۔ سردار داؤد نے اقتدار سنبھالتے ہی تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگادی اور اپنی قیادت میں ایک خود ساختہ پارٹی بناکر اپوزیشن کی دوسری تمام پارٹیوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں اور تنظیموں کو ختم کرکے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کریں۔ سردار داؤد کی حکومت ایک بورژوا بوناپارٹسٹ حکومت تھی جس کا سربراہ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان توازن قائم کرتے ہوئے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ اپنی ذات میں مرتکز کرکے حکمرانی کو طول دینا چاہتا تھا۔ اپوزیشن کی اہم پارٹی خلق پارٹی نے داؤد کی اس تجویز کو رد کرتے ہوئے انڈر گراؤنڈ سیاسی کام کے ذریعے فوج،طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کے اندر اپنی جڑیں مزید گہری کرنا شروع کر دیں جبکہ دوسری طرف پرچم دھڑے نے نہ صرف داؤد کی تجویز کی حمایت کی بلکہ داؤد کی حکومت میں بعض اہم وزارتیں بھی پرچم پارٹی کو دی گئیں۔ لیکن 1975ء میں سردار داؤد اور پرچم کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے۔ تمام وزارتوں اور اہم ریاستی عہدوں سے پرچم پارٹی کے لوگوں کو ہٹا کر داؤد نے اپنے خاندان کے لوگوں کو بٹھادیا۔ اسی طرح عالمی طاقتوں کے درمیان داؤد نے جو توازن قائم رکھا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا اور 1977ء میں داؤد کے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات شدید بگڑ گئے۔ امریکہ اور پاکستان سے تعلقات بڑھانے کیلئے اس نے ایران، سعودی عرب اور امریکہ کے حمایت یافتہ کیمپ سے تعلق رکھنے والے بہت سے ممالک کا دورہ کیا۔ داخلی طور پر افغانستان میں فوج، طلبہ اور نوجوانوں کے اندر خلق پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور 1977ء میں پرچم اور خلق دھڑے کے دوبارہ انضمام نے سردار داؤد کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا تھا۔ اس صورتحال میں 18 اپریل 1978ء کو ایک انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ 18اپریل کی شام ٹریڈ یونینسٹ اور پرچم دھڑے کے مرکزی رہنما میر اکبر خیبر جب گھر جارہے تھے تو راستے میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے انہیں قتل کر دیا۔ میر اکبر خیبر کے اس بہیمانہ قتل نے خلق پارٹی کے کارکنان کے اندر شدید اشتعال پیدا کیا۔ اکبرخیبر کے جنازے میں دس ہزار سے زائد کارکنان نے شرکت کی۔ان کے جنازے کو ریلی کی شکل میں کابل شہر کی اہم شاہراہوں سے گزارتے ہوئے ”سامراج مردہ باد!“، ”انقلاب زندہ باد!“، ”قاتل حکومت مردہ باد!“ کے پرجوش نعروں میں تدفین کیلئے قبرستان پہنچایا گیا۔ ایسے میں حالات داؤد کے کنٹرول سے باہر ہوچکے تھے۔ حالات کو قابو میں لانے اور اپنی بحران زدہ حکومت کو بچانے کی خاطر سردار داؤد کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ خلق پارٹی اور اس سے جڑے ریڈیکل فوجی افسران و سیاسی کارکنان کو راستے سے ہٹانا ضروری ہے۔

اس وقت کابل کا چیف سیکورٹی آفیسر جنرل عمرزئی اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے:

”24اپریل 1978ء کی شام کو میں اپنے دفتری کام کے سلسلے میں بحث و مشورے کیلئے واحدی کے دفتر گیا۔ ہماری بحث کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اس کو فون آیا اور وہ فوری اپنے دفتر سے نکل گیا اور جاتے ہوئے مجھے صرف یہ کہا کہ ارگ میں کابینہ کی ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی ہے اور مجھے بھی مدعو کیا گیا ہے۔ وہ ارگ کی طرف اور میں گاڑی میں اپنے گھر کی طرف نکل گیا۔ آج میں معمول کے برخلاف اپنے دفتر جانے کی بجائے تھکاوٹ کی وجہ سے سیدھا اپنے گھر چلا گیا۔ میں جوں ہی گاڑی سے اترا تو میرے ہمسائے حاجی غلام حسین نے بتایا کہ کابل کے امنیے قوماندان نے ٹیلیفون کیا اور کہا کہ عمرزئی سے کہہ دیں کہ وہ جلد از جلد قوماندانی پہنچ جائیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قوماندانی کے صحن میں بہت سی پولیس کی گاڑیاں، پولیس افسر اور اہلکار کھڑے ہیں۔ بہت سے سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی کھڑے تھے۔ حالات سے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بڑا اور انتہائی اہم کام کرنا ہے۔ میں بھی سلام کرنے کے بعد کرسی پر بیٹھ گیا۔ حالات کو معلوم کرنے کے بعد خلق پارٹی کے قائدین کو پکڑنے، تلاشی لینے اور ڈھونڈنے کیلئے مختلف افسران کی قیادت میں آٹھ گرو پ بن گئے۔ مجھے ڈاکٹر شاہ ولی کو گرفتار کرنے اور ان کے گھر کی تلاشی لینے کیلئے آٹھویں گروپ کی سربراہی دے دی گئی۔“ (جنرل عمرزئی، کابل کی راتیں)

یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ خلق پارٹی کے کسی بھی دھڑے نے فوری طور پر انقلاب اور اقتدار پر قبضے کا تناظر نہیں دیا تھا۔ سوویت یونین کا بھی ایسا کوئی تناظر نہیں تھا بلکہ وہ تو انقلاب کے دن تک داؤد حکومت کی حمایت کررہے تھے۔

25 اور 26 اپریل کی رات کو داؤد حکومت نے خلق پارٹی کی تمام قیادت کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا لیکن 26 اپریل کی رات کو خلق پارٹی کے مرکزی رہنما حفیظ اللہ امین نے اپنی گرفتاری سے قبل فوج میں پارٹی سے جڑے افسران تک یہ ہدایات پہنچادی تھیں کہ وہ فوری طور پر بغاوت کرکے داؤد حکومت کو گرائیں اور اقتدار پر قبضہ کریں۔ اس سے اگلی صبح پارٹی سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران نے بغاوت شروع کی۔ اس فوجی بغاوت میں لگ بھگ 250 ٹینکوں اور مسلح گاڑیوں نے حصہ لیا۔ شام کے 5 بجکر 30 منٹ تک انہوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ پارٹی کے اسیر رہنماؤں کو رہا کیا گیا۔ کابل ریڈیو، بگرام اور کابل ایئرپورٹ کو آرمی نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اسی شام کو ریڈیو کابل سے انقلاب کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔ یہاں پر یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ خلق پارٹی کے کسی بھی دھڑے نے فوری طور پر انقلاب اور اقتدار پر قبضے کا تناظر نہیں دیا تھا۔ سوویت یونین کا بھی ایسا کوئی تناظر نہیں تھا بلکہ وہ تو انقلاب کے دن تک داؤد حکومت کی حمایت کررہے تھے۔ جب خلق پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اس نے سوویت بیوروکریسی کو حیرت میں ڈال دیا۔ ثور انقلاب کو داؤد حکومت نے خلق پارٹی کے اوپر مسلط کیا تھا۔ انقلاب خلق پارٹی کیلئے اپنے وجود کی بقا کا سوال بن گیا تھا۔

افغانستان اور نوآبادیاتی انقلابات

دوسری عالمی جنگ کے بعد افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں سامراجی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے بہت بڑی خلقت بغاوت کے میدان میں اتر آئی تھی۔ انسانی تاریخ میں مظلوم انسانوں کی اپنی آزادی کے لئے یہ بہت بڑی بغاوت تھی۔ چین، کیوبا، ویتنام، شام، موزمبیق، افغانستان، یمن اور دیگر سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں سامراجی تسلط، جاگیرداری اور سرمایہ داری کو انقلابی بغاوتوں کے ذریعے اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ منصوبہ بند معیشتیں قائم کی گئیں۔ ان ممالک میں بیشتر انقلابات میں فوجی بغاوتوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا گیا لیکن ان سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں جو ریاستی اور سیاسی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا وہ نہ تو یورپ میں 17ویں اور 18ویں صدی کے دوران تشکیل پانے والی سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست کی طرز پر تھا اور نہ ہی روس کے اندر 1917ء میں بالشویک پارٹی کی قیادت میں بننے والی مزدور ریاست کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت تھی۔ ان ممالک میں ریاستی اور سیاسی اقتدار کے حوالے سے جس ماڈل کو اپنایا گیا وہ اسٹالن کی قیادت میں زوال پذیر افسر شاہانہ سوویت ماڈل تھا جس میں معیشت اور سیاست کے اندر محنت کش طبقے کی جمہوری و فعال شمولیت کے بجائے آمرانہ بیوروکریسی کے ذریعے سماج کے سارے معاملات کو چلایا جاتا ہے۔ سٹالنزم کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ سوشلزم کو ایک ملک کے اندر قومی بنیادوں پر تعمیر کیا جاسکتا ہے جو مارکسزم کی بنیاد یعنی بین الاقوامیت سے مکمل طور پر متصادم تھا۔ سٹالنسٹ افسر شاہی کے اسی محدود قومی تناظر کی بنیاد پر نوآبادیاتی انقلابات ہوئے جو بعد میں اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے ناگزیر طور پر انہدام پذیر بھی ہوئے۔

افغانستان اور دوسرے سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں عالمی سامراج اور ان ممالک کے اندر کرپٹ اور پسماندہ سرمایہ دارانہ حکومتیں اور جاگیر داری کی باقیات سماج کی کایا پلٹ تبدیلی کے رستے میں بڑی رکاوٹ تھیں اور ایک جدید صنعتی سماج تعمیر کرنے کے حوالے سے کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے سے قاصر تھیں۔ ان ممالک کا سرمایہ دار طبقہ جہاں ایک طرف عالمی سامراج کا گماشتہ تھا تو دوسری جانب کئی تانوں بانوں سے جاگیردارانہ باقیات سے جڑا ہوا تھا۔ تکنیکی پسماندگی اور تاریخی تاخیر زدگی، اس طفیلیہ بورژوازی کے رجعتی کردار کی بنیادی وجوہات تھیں۔ ان ممالک کے اندر عوام شدید غربت اور جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ ایسے میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی ناممکن تھی۔ اپنے ممالک کے اندر بربریت کے ایسے حالات دیکھ کر انٹیلی جنسیہ کی مختلف پرتوں جیسے دانشوروں،آرمی افسران،پروفیشنلز، وکلا،ڈاکٹرز،اساتذہ اور طلبہ کے ذہنوں میں ہیجانی تبدیلیاں جنم لینے لگیں۔ ان کے اندر معاشرے کو تبدیل کرنے کی خواہش بیدار ہوئی۔ دوسری طرف وہ سٹالنسٹ ریاستوں کو دیکھتے تھے جنہوں نے افسر شاہانہ جکڑ بندی کے باوجود منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر انتہائی کم مدت میں اپنے معاشروں کو پسماندگی سے نکال کر جدید صنعتی معاشرے میں تبدیل کیا تھا۔ ایسے میں ان کا سٹالنسٹ ماڈل سے متاثر ہونا ناگزیر تھا۔

ٹیڈ گرانٹ اپنی تحریر ”نوآبادیاتی انقلابات اور مسخ شدہ مزدور ریاستیں“ میں لکھتے ہیں:

”محنت کش طبقہ اپنی نجات کو ماضی کے تمام تر قومی، لسانی، ذات پات، جنس اور دوسرے تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر حاصل کرسکتاہے۔ لیکن محنت کش طبقہ یہ کام صرف اور صرف ایک مارکسی قیادت کی موجودگی میں ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ تاہم محنت کشوں کے ساتھ پیٹی بورژوازی بھی محنت کش طبقے کی قیادت میں اور صرف اسی صورت میں نجات حاصل کرسکتی ہے۔

پیٹی بورژوازی اور دانشور اپنی طبقاتی بنیادوں اور نقطہ نظر سے ناطہ توڑ کر پرولتاریہ کا نقطہ نظر اختیار کرسکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں یہ انتہائی مشکل ہے جہاں پر سنجیدہ مارکسسٹ، مارکس اور اینگلز کے وقت کی طرح محدود تعداد میں ہیں۔ خصوصی طور پر آج کے حالات میں جہاں پر نظریاتی جدوجہد کی بجائے فوری مسئلہ ایک ملک کے بعد دوسرے ملک میں سماج کو ٹرانسفارم کرنے کا ہے۔ ایسی صورتحال میں دانشوروں کیلئے آسان ہوتا ہے کہ وہ سٹالنزم کے مختلف نظریات کے زیرِاثر آجائیں۔ صرف مضبوط مزدور تحریک مارکسزم کی قیادت میں دانشوروں کی اس لفاظی کو ممکن بناسکتی ہے۔ یہ خصوصی طور پر کالونیل اور نیو کالونیل ممالک میں مشکل ہے جہاں پرمسائل فوری نوعیت کے ہیں۔ جہاں کے عوام جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں پر جدیدیت اور معاشرے کی ترقی کی راہ میں نیم جاگیردارانہ، لینڈلارڈز اور سرمایہ دارانہ حکومت بڑی رکاوٹ ہیں، ایسے میں دانشوروں، ریڈیکل افسران حتیٰ کہ سول ملازم، پروفیشنلز، مڈل کلاس کی بالائی پرتوں،ڈاکٹرز،ڈینٹسٹس اور وکیلوں کیلئے آسان ہے کہ وہ مارکسزم کی محدود قوتوں کی بجائے سٹالنسٹ بوناپارٹزم کی حمایت کرکے وہی راستہ اختیار کریں۔ خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں پر مارکسزم ایک منظم رجحان کی شکل میں موجود نہیں ہے۔ افغانستان کی تازہ مثال ماضی میں نوآبادیاتی انقلاب کے حوالے سے ہمارے تجزیے کو درست ثابت کرتی ہے۔“

افغانستان کے اپریل انقلاب کے بارے میں ٹیڈ گرانٹ نے لکھا:

”یہ بغاوت داؤدحکومت کی طرف سے تمام اپوزیشن کو ختم کرنے کے خلاف ردعمل ہے۔ داؤد کی حکومت ایک پارٹی پر مشتمل جاگیردارانہ بیوروکریٹک حکومت تھی جس میں قلیل تعداد پر مشتمل محنت کش طبقے کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ اگر افغان انقلاب پاپولر عوامی تحریک کی وجہ سے صحت مند بنیادوں پر رونما ہوتا تو شاید انقلاب کا کردار مختلف ہوتا۔

اپریل 1978ء کی بغاوت فوجی افسران، دانشوروں اور شہروں میں رہنے والی پروفیشنل مڈل کلاس کی حمایت اور شمولیت سے وقوع پذیر ہوئی۔ یہ منظم بغاوت سب سے پہلے فوجی افسران کی طرف سے اپنے خاندان اور اپنے آپ کو بچانے کا دفاعی اقدام تھا۔ انہوں نے یہ بغاوت اپنے آپ کو بچانے کے نقطہ نظر سے کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے جذبات اور نظریات بھی اس میں موجود تھے۔“

انقلابی حکومت کی ریڈیکل اصلاحات

خلق پارٹی نے جس وقت اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت افغانستان کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ افغانستان کے سماجی مسائل انتہائی گہرے اور وسیع تھے۔ انقلاب کے وقت افغانستان ایک انتہائی پسماندہ ملک تھا۔ انقلاب کے وقت ملک کی آبادی 1 کروڑ 51 لاکھ تھی جس میں صرف چودہ فیصد آبادی شہروں کے اندر رہتی تھی۔ 1 کروڑ 30 لاکھ آبادی دیہاتوں کے اندر رہتی تھی۔ 15 لاکھ آبادی خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی۔ 95 فیصد آبادی ناخواندہ تھی۔ ساحل سمندر سے کٹا ہوا ملک جس کے 16 کروڑ ایکڑ پر مشتمل رقبے میں سے صرف 12 فیصد زمین قابل کاشت تھی۔ اس 12 فیصد قابل کاشت زمین میں سے بھی 60فیصد زمین جاگیرداری کے فرسودہ ڈھانچوں اور پانی کے قلت کی وجہ سے کاشت سے محروم رہتی تھی۔ سامراج اور جاگیردار طبقات کے گٹھ جوڑ پر مشتمل یہ وہ جابرانہ ڈھانچہ تھا جو افغانستان کی سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا۔
خلق پارٹی کے اندازوں کے مطابق افغانستان کی قابل کاشت زمین کا 45 فیصد آبادی کے پانچ فیصد خوانین اور جاگیرداروں کے پاس تھا۔ افغانستان کا اکثریتی کسان طبقہ بڑے بڑے جاگیرداروں کے قرضوں میں جکڑا انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا۔ فزیکل انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1978ء تک افغانستان کے کسی بھی دیہات میں بجلی کی سہولت نہیں تھی۔ تعلیم، صحت، مواصلات اور دوسرا سماجی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا۔

افغانستان کی صنعت بھی بہت کمزور تھی اور کل جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ 17 فیصد تھا جو کہ صرف 10 سے 15 فیصد صارفین کی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ صنعتی محنت کشوں کی تعداد 40 سے 50 ہزار پر مشتمل تھی جوکہ 3 سے 4 شہروں میں موجود تھے جس میں سب سے بڑا صنعتی شہر کابل تھا۔ صنعتی مزدوروں کی آدھی سے زیادہ تعداد ایسی فیکٹریوں میں کام کرتی تھی جہاں مزدوروں کی تعداد 1ہزار سے زیادہ تھی۔ اگرچہ ٹریڈ یونین پر پابندی عائد تھی لیکن 1968-69ء کی ہڑتالوں کے دوران تقریباً تمام بڑی فیکٹریوں میں ہڑتالیں ہوئی جس سے مزدور طبقے کے انقلابی کردار کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔

انقلاب ثور کے بعد خواتین کی آزادی کے حوالے سے کئی اہم اصلاحات کی گئیں اور ان کو مساوی حقوق دییے گئے

اتنے کٹھن حالات کے باوجود خلق پارٹی نے اقتدار ہاتھ میں لینے کے ساتھ ہی افغانستان کی قسمت بدلنے کی انتہائی مخلصانہ اور پرعزم جدوجہد شروع کی۔ اسی سلسلے میں خلق پارٹی نے بہت سی ریڈیکل اصلاحات کو متعارف کروایا۔ اس سلسلے کا اہم اقدام تمام صنعت کی نیشنلائزیشن تھا۔ اس کے انتہائی بہترین نتائج نکلے مثلاً 1978ء میں پروسیسنگ اور مائننگ کا قومی آمدنی میں حصہ تین فیصد تھا لیکن 1983ء میں یہ 10فیصد پر پہنچ گیا۔ اس طرح ایک اور اہم اقدام غریب کسانوں کے قرضوں کی معافی تھا جس کے ذریعے صدیوں سے جابر جاگیرداروں کے سودی قرضوں میں جکڑے کسانوں پر موجود بہت بڑے بوجھ کا خاتمہ کیا گیا۔ عورتوں کی خریدوفروخت پر پابندی لگائی گئی۔ اجتماعی کاشت کاری کو متعارف کرایا گیا۔ زمین کی ملکیت کی حد مقرر کی گئی۔ سماجی اور معاشی حوالے سے یہ انتہائی اہم اقدامات تھے لیکن اس سے بھی بڑھ کر زرعی زمینوں کی غریب کسانوں میں تقسیم پیداوار میں اضافہ کے حوالے سے بھی اہمیت کی حامل تھی۔ اقتدار کے پہلے سال تقریباً 8 لاکھ 22 ہزار ایکڑ زمین کو1 لاکھ32 ہزار خاندانوں میں تقسیم کیا گیا۔ پانی کی تقسیم انقلاب سے پہلے ایک فرد یا خاندان کی ملکیت تھی جس کو ریاست نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ناخواندگی کو ختم کرنے کے حوالے سے بہت سی اصلاحات کی گئیں جس میں ایک اہم اقدام پرنٹنگ کی صنعت کی نیشنلائزیشن تھی۔ یہ اقدام تعلیمی اور تربیتی مواد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چھوٹی اور علاقائی زبانوں میں تعلیمی لٹریچر کے حوالے سے بھی اہم تھا۔ خواتین کو آئینی برابری کے ساتھ ساتھ تنخواہ سمیت زچگی کی چھٹیاں بھی میسر ہوئیں جس کی اس پورے خطے میں مثال نہیں ملتی۔

قومیائی گئی معیشت کے اثرات مختلف شعبوں پر جلد ہی نمودار ہونے لگے مثلاً 1983ء تک ایک سو نئے کارخانوں کو قائم کیا گیا۔ صحت کے شعبے میں ہسپتالوں کے اندر مریضوں کیلئے بیڈز کی گنجائش میں 84 فیصد اضافہ کیا گیا اور 45 فیصد نئے ڈاکٹرز بھرتی کیے گئے۔

سوویت یونین کی مداخلت اور انقلاب کی مشکلات

سوویت بیوروکریسی نے افغانستان کے انقلابی صدر حفیظ اللہ امین کو قتل کرکے ببرک کارمل کو ٹینکوں پر لاکر صدارت پر بٹھایا۔

تمام تر خلوص اور جرأت کے باوجود افغان ثور انقلاب کی اپنی مشکلات اور داخلی کمزوریاں بھی تھیں۔ معروضی طور پر افغان انقلاب کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ افغانستان معاشی اور سماجی طور پر انتہائی پسماندہ ملک تھا اور افغانستان کے انتہائی قلیل تعداد پر مشتمل محنت کش طبقے نے انقلاب کے اندر آزادانہ سیاسی کردار ادا نہیں کیا جو کہ کسی بھی کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب کے لئے بنیادی شرط ہے۔ دوسری طرف انقلاب کے اپنی سرحدوں میں مقید رہ جانے کے سبب اسے تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اس کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ سوویت بیورو کریسی کی فوجی مداخلت نے معاملات کو اور بھی بگاڑ دیا۔ سوویت بیوروکریسی کی فوجی مداخلت مارکسی بین الاقوامیت، مظلوم قوموں کے حق خودارادیت اور اپنے آزاد سیاسی فیصلوں کرنے کے حق جیسے اصولوں سے مکمل طور پر متصادم تھی۔ سوویت بیوروکریسی نے افغانستان میں روسی ماڈل پر ایک مسخ شدہ مزدور ریاست تعمیر کرنے کی کوشش کی جس کا حتمی مقدر سٹالنزم کے گہرے معاشی بحران میں ناکامی تھی۔ سوویت بیوروکریسی نے افغانستان کے انقلابی صدر حفیظ اللہ امین کو قتل کرکے ببرک کارمل کو ٹینکوں پر لاکر صدارت پر بٹھایا۔ اس عمل سے افغان آرمی کے مورال پر بہت برا اثر پڑا۔ دوسری طرف سوویت یونین کی اس مداخلت نے عالمی محنت کش طبقے پر بھی بہت برا اثر ڈالا بلکہ اگر عالمی مزدور تحریک کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو افغانستان میں سوویت بیوروکریسی کی مداخلت ایک تباہ کن عمل تھا جس کی شدید مخالفت اس وقت کے سنجیدہ مارکسی رہنماؤں نے کی تھی۔عالمی سامراج اور اس کے کارپوریٹ میڈیا نے لوگوں کو سوشلزم سے متنفر کرنے کیلئے اس فوجی مداخلت کو جواز بناکر غلیظ پروپیگنڈا کیا۔

اس کے علاوہ خلق پارٹی کی داخلی محاذ آرائی اور مختلف دھڑوں میں تقسیم نے بھی پارٹی کی سیاست اور ریاست پر کنٹرول کو کمزور کرتے ہوئے انقلاب کو کافی نقصان پہنچایا جس سے یہ واضح سبق ملتا ہے کہ انقلاب اور ردِانقلاب کے حالات میں مضبوط ڈھانچوں کے ساتھ نظریاتی طور پر تربیت یافتہ کیڈرز پر مشتمل اور جمہوری مرکزیت کے اصول پر مبنی انقلابی پارٹی کا ہونا کتنا لازمی ہوتا ہے تاکہ ردِانقلاب کے خلاف لڑتے ہوئے انقلاب کو مضبوط کیا جاسکے۔

ردِانقلاب

افغانستان میں عالمی سرمایہ داری کی زنجیر اپنی کمزو ر ترین کڑی سے ٹوٹی تھی۔ اس لئے اپنی کمزور ترین کڑی کو بچانے اور افغانستان میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کی بربریت کو بحال کرنے کے لیے عالمی سامراج اور پوری دنیا میں اس کے حواریوں نے افغان انقلاب کو ناکام کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ردِانقلاب کا آغاز کیا۔ انقلاب کا پہلا سال نسبتاً پرامن رہا۔ اس انقلاب کے خلاف امریکی سامراج کی مداخلت کے حوالے سے ایک مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد مداخلت کرنا شروع کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سامراج نے سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے بہت پہلے افغانستان میں مداخلت شروع کر دی تھی۔ امریکی مداخلت کے وقت امریکہ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ سوویت یونین افغانستان کے اندر فوجی مداخلت کرے گا۔ سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے 9 مہینے پہلے امریکی سی آئی اے نے

آج کل مغربی میڈیا میں مذہبی بنیاد پرستی کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ مغرب کے حکمرانوں کا بنیاد پرستی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی مغربی سامراج کی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔

مارچ 1979ء کو امریکی صدر جمی کارٹر کو کلاسیفائیڈ تار بھیجا جس میں ثور انقلاب کے خلاف ردِانقلابی آپریشن کو منظم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ امریکی سامراج نے سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ مل کر ردانقلاب کی حکمت عملی ترتیب دی۔ ڈالر اور مغربی لبرلزم نے سعودی عرب کی وہابیت اور پاکستان کی سفاک آمر یت کے ساتھ غیر مقدس اتحاد کے ذریعے افغانستان کے نوخیز انقلاب کے خلاف خونی ردانقلاب کو تیز کردیا۔ جمی کارٹر انتظامیہ نے سال 1979ء کی گرمیوں میں ثور انقلاب کے خلاف رجعتی اور مذہبی بنیاد پرست قوتوں کو منظم کرنے کے لیے سی آئی اے کو پانچ لاکھ ڈالرز دینے کی منظوری دی۔ وقت کے ساتھ دنیا کے دیگر سرمایہ دار ممالک نے بھی ثور انقلاب کے خلاف مذہبی بنیاد پرستی کو مسلح کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ آج کل مغربی میڈیا میں مذہبی بنیاد پرستی کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ مغرب کے حکمرانوں کا بنیاد پرستی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی مغربی سامراج کی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔

1989ء میں سوویت یونین کے انخلاء کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت نے رد انقلابی قوتوں اور وحشی مجاہدین کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے مصالحت کی خاطر افغان ثور انقلاب کی زیادہ تر ریڈیکل اصلاحات کو آہستہ آہستہ ختم کردیا۔ ڈاکٹر نجیب کی یہ ایک تاریخی غلطی تھی کہ وہ نام نہاد مصالحت کے ذریعے امن لانا چاہتے تھے۔ اسی بنیاد پر نجیب کو 1992ء میں اقتدار سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد علاقائی سامراجوں اور خصوصاً پاکستان کی مداخلت کی بدولت کابل پر وحشی اور درندہ صفت مجاہدین نے قبضہ کر کے افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ ہر کلومیٹر پر الگ ریاست بنا لی گئی اور پورے افغانستان پر ایک بار پھر ظالم وارلارڈز کی وحشت اور بربریت قائم ہو گئی۔ بربادی کے اس گھناؤنے عمل میں سعودی سامراج اور پاکستان کے ریاستی اداروں نے 1994ء میں طالبان کے نام سے ایک اور رجعتی اور رد انقلابی قوت کو منظم کر نا شروع کیا جس نے دو سال بعد کابل پر قبضہ کر لیا۔ رجعت کے ان مسلح دستوں نے کابل کے اندر داخل ہوتے ہی اقوام متحدہ کے دفتر سے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ اور اس کے بھائی کو نکال کر انتہائی بیدردی سے قتل کیا اور ان کی لاشوں کو کابل کے آریانہ چوک پر لٹکادیا گیا۔ اس عمل نے وحشت اور بربریت کی ایک نئی مثال قائم کی۔ عالمی سامراج اور ان کی کٹھ پتلی ریاستوں نے مذہبی بنیادپرست پراکسیوں کے ذریعے اس پورے خطے کو آگ اور خون میں دھکیل دیا۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو متعارف کروایا گیا۔ لاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا۔ ایک پوری نسل کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ پورے افغان معاشرے کے تانے بانے کو بکھیر دیا گیا۔

نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ

سوویت یونین کی مداخلت کو خوش آمدید کہنا اگر نظریاتی دیوالیہ پن یا ایک تاریخی المیہ تھا تو امریکہ کو نجات دہندہ تسلیم کرنا اور اس سے افغانستان کا امن اور استحکام منسلک کرنا تاریخ کا مضحکہ ہے۔

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ عالمی سامراج نے افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں انقلابات اور تحریکوں کو کچلنے کے لیے بنیادپرستی کے جس دیو کو تخلیق کیا تھا وہ ان کے گلے کا طوق بن گیا۔ 9 ستمبر 2001ء میں سامراج کے ان پالے ہوئے بنیاد پرستوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا جس کے ردعمل میں امریکہ کی سربراہی میں نیٹو نے افغانستان پر لشکر کشی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد سامراجی جنگ کا اعلان کر دیا۔ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی پاکستان کے لبرل حضرات اور پشتون قوم پرستوں نے بھی بھرپور حمایت کی۔ ان حلقوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ امریکہ افغانستان کو ایک مضبوط سرمایہ دارانہ ریاست کے طور پر استوار کرے گا اور پاکستان پر دباؤ ڈال کر یہاں سے بھی بنیادپرستی کا خاتمہ کرے گا۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، پہلے المیے کی شکل میں اور دوسری بار ڈھونگ کی شکل میں۔ یہی کچھ ہمیں یہاں بھی نظر آیا۔ سوویت یونین کی مداخلت کو خوش آمدید کہنا اگر نظریاتی دیوالیہ پن یا ایک تاریخی المیہ تھا تو امریکہ کو نجات دہندہ تسلیم کرنا اور اس سے افغانستان کا امن اور استحکام منسلک کرنا تاریخ کا مضحکہ ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اپنے اپنے ملکوں کے اندر بھی عوام کے جمہوری حقوق پر شدید حملے کئے۔ پچھلی دو دہائیوں پر محیط دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی اگر بیلنس شیٹ نکالی جائے تو یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑکر بھی افغانستان میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ اربوں ڈالر خرچ کر کے وہ افغانستان میں امن و استحکام نہیں لاسکے بلکہ افغانستان کے ساتھ ساتھ پورے خطے کو بھی عدم استحکام سے دو چار کر دیا۔

براؤن یونیورسٹی کے ولسن انسٹیٹیوٹ فار پیس اینڈ پبلک نے وار آن ٹیرر کے حوالے سے کچھ عرصہ پہلے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ امریکہ نے نائن الیون سے لے کر اب تک اس نام نہاد جنگ پر لگ بھگ 6 ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں اوراس نام نہاد جنگ میں 5لاکھ کے قریب بے گناہ لوگ قتل کئے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو شام میں سامراجی مداخلت کے نتیجے میں برپا ہونے والی بربادی اور اس کے ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرجانے کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

nationalinterest.org کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اس وقت افغانستان کی معیشت کا بیشتر حصہ منشیات اور اس کی اسمگلنگ پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کالی معیشت سے 354,000 لوگوں کا مستقل روزگار وابستہ ہے۔ اس کالی معیشت کی مالیت ایک اندازے کے مطابق 60 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے جو افغانستان کے جی ڈی پی کے تین گنا کے برابر ہے۔

سامراج کی دلال ریاست پاکستان نے بھی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے سابقہ فاٹا اور پشتونخوا میں بد ترین فوجی آپریشن کرتے ہوئے امریکہ سے خوب ڈالر بٹورے۔ ان فوجی آپریشنوں میں پورے علاقے کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنی بنیاد پرست پراکسیوں کا تحفظ بھی کیا جاتا رہا اور افغانستان میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کے تحت ان کی وہاں ترسیل بھی شدت سے جاری رہی۔

افغانستان میں امریکہ کی ناکامی و شکست کی وجہ یہ نہیں ہے کہ طالبان بہت طاقتور ہیں اور طالبان نے امریکہ کو شکست دی ہے بلکہ امریکہ کی ناکامی کی بنیادیں آج کے شدت اختیار کرجانے والے نامیاتی عالمی معاشی بحران میں ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کی عالمی سیاست پر گرفت کمزور ہورہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی معاشی برتری کی بنیاد پر امریکہ نے عالمی سیاست پر قابض ہونے کیلئے پوری دنیا میں جیو پولیٹیکل اتحادوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے جو ورلڈ آرڈر تشکیل دیا تھا وہی ورلڈ آرڈر 2008ء کے معاشی بحران کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہا ہے۔ 2008ء کے سرمایہ داری کے معاشی بحران کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ عوامی تحریکوں اور انقلابات کا ایک ایسا عہد جس میں امریکہ کے سامراجی کردار کو زوال کا سامنا ہے۔ امریکہ کی پرانی کٹھ پتلی ریاستوں کا اپنے آقا کے مفادات کے ساتھ تصادم بڑھ رہا ہے۔اس ٹوٹتے ہوئے ورلڈ آرڈر اور بدلتی ہوئی عالمی سیاست میں امریکہ کی کمزوری سے ایک خلاء جنم لے رہا ہے اور روس اور چین جیسی سامراجی طاقتیں اس خلا کو پر کر نے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور کمزوری کے نتیجے میں پاکستان، روس، ایران، قطر اور چین کی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ ان قوتوں کی مداخلت نے افغانستان کو پہلے سے پیچیدہ گریٹ گیم کا میدان بنایا ہوا ہے۔

ثور انقلاب کی میراث اور افغان عوام کی نجات

محنت کش عوام کی تاریخی بغاوتوں اور جدوجہد کو یاد کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم ان تاریخی واقعات کو یاد کرکے ان کی پرستش کریں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ ان تاریخی واقعات سے اسباق لیتے ہوئے مستقبل کی جدوجہد کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ آج کل حکمران طبقات کے دانشوروں میں یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ تاریخ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ تاریخ کے کوئی معروضی قوانین نہیں ہیں۔ لہٰذا تاریخ اور اس کے مطالعے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ اور تاریخی واقعات کو سمجھے بغیر حال اور مستقبل پر بات ہی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے لئے تاریخ محنت کش اور مظلوم عوام کی جدوجہد اور بغاوتوں کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ ان تاریخی تجربات سے رہنمائی لئے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

ہم مارکسسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ افغان ثور انقلاب آج بھی اس خطے کے مظلوم عوام کیلئے سامراج، بنیادپرستی اور سرمایہ داری کے خلاف جاری جدوجہد میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کی نوجوان نسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ثور انقلاب سے سنجیدہ اسباق لیتے ہوئے منظم بنیادوں پر واضح انقلابی نظریات اور انقلابی حکمت عملی کیساتھ جدوجہد کو استوار کریں۔ پچھلے چالیس سال کی بربادیوں کا سبق یہی ہے کہ افغانستان اور اس کے عوام کو نہ تو سامراج کی پشت پناہی میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوشنما فریب کے تحت لبرلزم کے ڈھانچوں میں امن و آسودگی میسر آسکتی ہے اور نہ ہی مذہبی بنیاد پرستی کے رجعتی عوام دشمن نظریات کی بنیاد پر افغانستان کی آزادی و خوشحالی ممکن ہے۔ افغان عوام کی ان بربادیوں سے نجات ایران،ہندوستان، پاکستان اور چین کے عوام کی طبقاتی و انقلابی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ اس خطے میں انقلابی جدوجہد کے ذریعے ایک سوشلسٹ سماج کا قیام ہی افغان عوام کو ان بربادیوں سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔

Comments are closed.