تحریر: |آدم پال|
افغانستان میں سامراجی عزائم میں پسپائی کے بعد پاکستانی ریاست کے چہرے سے منافقانہ سفارتکاری کا نقاب اتر چکا ہے۔ تمام ریاستی اہلکار اب افغانستان کے محنت کشوں اور مہاجرین کے خلاف کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ حکمران جواس دھرتی پر بوجھ ہیں اور یہاں بسنے والے کروڑوں عوام کو آگ اور خون میں دھکیل کر ان کی بربادی کا نظارہ کرتے ہیں، وہ اب ان مہاجرین کو بوجھ قرار دے رہے ہیں اور ان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سے لے کر قوم پرست راہنماؤں نے بھی ان مہاجرین کے خلاف ہتک آمیز بیانات دیے ہیں اور ان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف قومی تعصب کو ابھارنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ نہ صرف پورے ملک میں افغانیوں کے خلاف نفرت کو ابھارا جا رہا ہے بلکہ بلوچوں اور دوسری قومیتوں میں ان کیخلاف تعصب کو ابھار کر محنت کش طبقات کو تقسیم کر کے انہیں نئی لڑائی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ کراچی میں پہلے ہی قومی تعصبات کی مسلط کردہ لڑائیوں میں کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور پورے کراچی کو کشت و خون میں ڈبو دیا گیا ہے۔
لیکن اس سے پہلے یہ سوال ابھرتا ہے کہ افغانستان کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے اور ساتھ ہی یہ کہ یہاں بسنے والے کروڑوں لو گوں کو برباد کر کے اور لاکھوں کو قتل کر کے کس نے فائدہ اٹھایا۔ اس کا سب سے پہلے تو ذمہ دار امریکی سامراج ہے جس نے یہاں ایک سامراجی جنگ مسلط کر کے اس تباہ حال اور پسماندہ ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ 1978ء میں ابھرنے والے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے اور یہاں سوویت یونین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے امریکی سامراج نے افغانستان کو میدان جنگ بنا دیا۔ اپنی سامراجی جنگ کی مالیاتی بنیادیں یہاں سے ہیروئین کی فروخت کی آمدن پر قائم کیں اور پورے ملک کو ملاؤں کی وحشت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ 9/11کے بعد ایک دفعہ پھر اپنے اسلحے کی صنعت کے منافعوں کو تقویت دینے اور اپنے سامراجی عزائم پوری دنیا پر واضح کرنے کے لیے اس ملک کو تاراج کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی اس جنگ پر امریکی سامراج نے 9/11سے اب تک685.6ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیا۔ اگر اس میں بالواسطہ اخراجات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ رقم ایک ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اگر یہ تمام رقم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کی جاتی تو اس پورے خطے سے بھوک، بیماری اور غربت کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں سامراجی عزائم کے تحت عوام کے ٹیکسوں سے جمع کی گئی اتنے بڑی دولت کو بربادی پھیلانے پر خرچ کیا گیا۔ اس جنگ سے پھیلنے والی غربت، بیماری اور بربادی نے لاکھوں افراد کی جان لے لی ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں اور در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
امریکی سامراج کے بعد جس ریاست نے اس بربادی کو پھیلانے میں سب سے زیادہ حصہ لیا وہ پاکستان ہے۔ ’’تزویراتی گہرائی‘‘ کی سامراجی پالیسی کے تحت پاکستانی ریاست نے شروع سے ہی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے اور افغانستان میں اپنے کٹھ پتلی حکمران لانے کی سعی جاری رکھی ہے۔ سوویت یونین کیخلاف امریکی سامراج کی گماشتگی میں بھی پاکستانی ریاست نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیا اور ’’ڈالر جہاد‘‘ کے نام پر کروڑوں ڈالر اینٹھے۔ افغانستان سے برآمد ہونے والی ہیروئین کو امریکی سرپرستی میں پاکستانی ریاست کے مختلف حصوں نے خوب پروان چڑھایا اور اب یہ اس سماج اور اس کی معیشت میں ایسے دوڑ رہی ہے جیسے جسم میں خون۔ اس وقت پاکستانی معیشت کا ایک بڑا حصہ اسی منشیات کی فروخت سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہوں یا بینکوں کے بڑھتے ہوئے منافعے اس تمام معیشت کا ایک کلیدی حصہ اسی منشیات کے کاروبار سے منسلک ہے۔ حکمران طبقے کے تمام حصے خواہ وہ سیاست میں ہوں یا فوج میں اسی معیشت کی دلدل میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ اسی تمام تر معیشت اور سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے امریکی آشیر باد سے بینظیر بھٹو کے دور میں طالبان کو منظم کیا گیا اور ان سے کابل پر قبضہ کروایا گیا۔ اس کا مقصد بھی کابل میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کی موجودگی سے پورے خطے میں اپنے سامراجی عزائم کو تقویت دینا تھا۔ انہی طالبان اور ان سے جڑے دوسرے گروہوں کو پاکستانی ریاست نے اپنے قیمتی اثاثے قرار دیا۔ لیکن 9/11کے بعد ان اثاثوں کی قیمت وصول کرنے کے نئے حربے تخلیق کرنے پڑے۔
امریکہ کو اپنی سامراجی جنگ اور ڈرون حملوں کے لیے ان ’دشمنوں‘ کی ضرورت تھی جبکہ پاکستانی ریاست امریکہ کی افغانستان آمد پر مزید اربوں ڈالر اپنی جیبوں میں بھرنے کے لیے جھولی پھیلائے کھڑی تھی۔ اس جنگ کے دوران 2002ء سے لے کر 2011ء تک امریکہ سے فوجی امداد کی مد میں پاکستان نے 11.74ارب ڈالر حاصل کیے جبکہ معاشی امداد کی مد میں6ارب ڈالر سے زیادہ حاصل کیے۔ اس کے بعد کے پانچ سالوں میں بھی مزید اربوں ڈالر حاصل کیے جا چکے ہیں اور کل رقم لگ بھگ30ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اسی دوران امریکہ کے اہم اتحادی کی حیثیت سے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرضے اور شرائط میں سہولیات حاصل کیں۔ پاکستان میں آنے والی تمام تر امریکی امداد میں یقیناً یہاں کی فوجی اور سول اشرافیہ نے اپنا حصہ بقدر جثہ ضرور وصول کیا۔ خواہ اس کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے قیمتی اثاثوں کی بلی ہی کیوں نہ چڑھانی پڑی اور نجکاری کر کے لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا گیا۔ لیکن اتنے لمبے عرصے میں یہ سارا کاروبار ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ خود کش بمباروں کی تیاری سے لے کر دہشت گردوں کے مختلف گروہوں کے خام مال سے لے کرتیاری تک کا پورا سلسلہ اپنی جگہ موجود ہے اور اسے مختلف مقاصد کے حصول کے لیے جاری رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس عمل میں پاکستان کے حکمران افغانستان کو خون میں ڈبو کر وہاں کے محنت کشوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے۔
اس دوران لاکھوں افغان محنت کش جنگ سے متاثر ہو کر پاکستان آنے پر بھی مجبور ہوئے۔ پاکستانی ریاست نے ان مہاجرین کو بھی اپنے سامراجی عزائم کے لیے استعمال کیا۔ آغاز میں انہیں خوش آمدید کہا گیا، افغان بھائی کہا گیا۔ اس کا مقصد ایک جانب تو یہ تھا کہ انہیں خود افغانستان کی داخلی سیاست کے حوالے سے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، دوسرا پاکستان کو امت مسلمہ اور اسلام کا قلعہ ثابت کرنے کا بھی اچھا موقع ہاتھ ملا ہے۔ ساتھ ہی ان مہاجرین کی غربت اور بربادی کے نام پر دنیا سے مزید ڈالر بٹورے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران جہاں یہ ظالمانہ عزائم پایہ تکمیل تک پہنچاتے رہے اور مہاجرین کے نام پر آنے والے کروڑوں ڈالروں پر ہاتھ صاف کرتے رہے وہیں پر ان مہاجرین کی اکثریت یہاں کی محنت کی منڈی میں اپنے روزگار کی تلاش میں لگی رہی۔ کوڑا چننے، بوٹ پالش سے لے کر ہر کام میں ان محنت کشوں نے روزگار کے لیے زور آزمائی کی۔ کارل مارکس نے درست کہا تھا کہ ’’محنت کشوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا‘‘۔ یہ محنت کش افغانستان میں بھی کٹھن زندگی گزار رہے تھے اور یہاں آکر بھی محنت کی منڈی میں انتہائی کم اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کم اجرت کے محنت کشوں کی سپلائی میں اضافے سے یہاں کے مقامی سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں نے بھی اجرتوں میں کمی کر کے اپنے منافعوں میں خوب اضافہ کیا۔ درحقیقت یہ افغان مہاجرین اور ان کی بربادی ان غلیظ سرمایہ داروں کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔
اب موجودہ صورتحال میں امریکی سامراج کی افغانستان میں پسپائی اور فوجوں کے انخلا کے بعد پاکستانی ریاست تذبذب کا شکار ہے۔ ایک طرف تو امداد کے نام پر آنے والے اربوں ڈالر بند ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب امریکی پشت پناہی سے ہندوستان بھی افغانستان میں اپنے سامراجی عزائم کو فروغ دے رہا ہے۔ افغانستان کی ریاست بھی پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے ہندوستان کی جانب جھک رہی ہے۔ حال ہی میں نریندرا مودی کے دورۂ ایران سے صورتحال میں مزید کشیدگی آئی ہے۔ گوادر سے صرف سو کلومیٹر کے فاصلے پر چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر نو کے معاہدے سے پاکستانی ریاست شدید تشویش میں مبتلا ہے۔ اس سے ہندوستان کو افغانستان میں مال بھیجنے کا ایسا مختصر رستہ میسر ہوگا جس میں پاکستان سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہندوستان وسطی ایشیا کے دیگر ممالک تک بھی رسائی حاصل کر سکے گا۔
ایسی صورتحال میں پاکستانی ریاست واضح طور پر افغانستان کے موجودہ کٹھ پتلی حکمرانوں سے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے۔ طورخم بارڈر پر ہونے والی حالیہ کشیدگی اور افغانستان جانے والوں پر پاکستان کی جانب سے شدید سختی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے پاس افغانستان میں عمل دخل کے لیے جو مہرے بچے ہیں ان میں سے طالبان کے کچھ دھڑے سر فہرست ہیں۔ پاکستانی ریاست کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح امریکی سامراج کو اس جنگ میں دوبارہ گھسیٹا جائے اور یہاں امریکی فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔ گزشتہ سال قندوز میں ہونے والا حملہ بھی اسی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ لیکن امریکہ اپنے شدید معاشی بحران کے باعث ایسا کرنے سے قاصر ہے اور اس خطے میں اس کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستانی حکمران پیچ و تاب کھاتے ہوئے اپنا غصہ افغان مہاجرین پر نکال رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ افغانیوں کے خلاف نئے تعصبات بھڑکا کر اس خطے کے محنت کشوں کی جڑت کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران بھی سامراجی گماشتگی اور اپنی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور منشیات کے کاروبار سے لے کر بیرونی امداد میں گھپلوں کے مختلف اسکینڈلوں میں ان کے نام کئی دفعہ آ چکے ہیں۔ افغانستان کو ایک مستحکم ریاست بنانے کا خواب اس سرمایہ دارانہ نظام میں کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ نام نہاد انتخابات اور افغان فوج سمیت دیگر ریاستی ادارے ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں اور سامراجی جبر تلے کبھی بھی ٹھوس بنیادوں پر تعمیر نہیں ہو سکتے۔ زوال کے جس عہد میں پہلے سے موجود ریاستیں شام، لیبیا، یمن اور یوکرائن جیسے ممالک میں میں ٹوٹ رہی ہوں وہاں سامراجی جنگوں سے برباد ممالک میں نئی سرمایہ دارانہ ریاستوں کا بننا ناقابل عمل ہے۔ افغانستان کے موجودہ حکمران بھی یہ بخوبی جانتے ہیں اورانہیں افغانستا ن کی ریاست کی تعمیر سے زیادہ اپنی مال و دولت کی فکر ہے۔ چین، ہندوستان، روس اور دیگر ممالک بھی یہاں لوٹ مار کے لیے اپنا اثر و رسوخ بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ ہندوستان کی سرمایہ کاری ہو یا چینی سامراج کی لوٹ مار، کسی بھی قسم کی بیرونی سرمایہ کاری سے افغانستان میں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کے حالات زندگی اس نظام کے تحت نہیں بدل سکتے۔ بلکہ اب افغانستان میں غربت اور بھوک میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تیس لاکھ افغان مہاجرین کے علاوہ خود افغانستان کے اندر بارہ لاکھ سے زائد مہاجرین ہیں جو مختلف شہروں سے اجڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ نظام اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم نہیں کر سکتا نہ ہی انہیں روزگار دے سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور ساتھ ہی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھے گی۔
افغانستان میں سامراجی عزائم میں پسپائی کے بعد پاکستانی ریاست کے چہرے سے منافقانہ سفارتکاری کا نقاب اتر چکا ہے۔ تمام ریاستی اہلکار اب افغانستان کے محنت کشوں اور مہاجرین کے خلاف کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ حکمران جواس دھرتی پر بوجھ ہیں اور یہاں بسنے والے کروڑوں عوام کو آگ اور خون میں دھکیل کر ان کی بربادی کا نظارہ کرتے ہیں، وہ اب ان مہاجرین کو بوجھ قرار دے رہے ہیں اور ان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سے لے کر قوم پرست راہنماؤں نے بھی ان مہاجرین کے خلاف ہتک آمیز بیانات دیے ہیں اور ان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف قومی تعصب کو ابھارنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ نہ صرف پورے ملک میں افغانیوں کے خلاف نفرت کو ابھارا جا رہا ہے بلکہ بلوچوں اور دوسری قومیتوں میں ان کیخلاف تعصب کو ابھار کر محنت کش طبقات کو تقسیم کر کے انہیں نئی لڑائی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ کراچی میں پہلے ہی قومی تعصبات کی مسلط کردہ لڑائیوں میں کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور پورے کراچی کو کشت و خون میں ڈبو دیا گیا ہے۔
لیکن اس سے پہلے یہ سوال ابھرتا ہے کہ افغانستان کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے اور ساتھ ہی یہ کہ یہاں بسنے والے کروڑوں لو گوں کو برباد کر کے اور لاکھوں کو قتل کر کے کس نے فائدہ اٹھایا۔ اس کا سب سے پہلے تو ذمہ دار امریکی سامراج ہے جس نے یہاں ایک سامراجی جنگ مسلط کر کے اس تباہ حال اور پسماندہ ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ 1978ء میں ابھرنے والے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے اور یہاں سوویت یونین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے امریکی سامراج نے افغانستان کو میدان جنگ بنا دیا۔ اپنی سامراجی جنگ کی مالیاتی بنیادیں یہاں سے ہیروئین کی فروخت کی آمدن پر قائم کیں اور پورے ملک کو ملاؤں کی وحشت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ 9/11کے بعد ایک دفعہ پھر اپنے اسلحے کی صنعت کے منافعوں کو تقویت دینے اور اپنے سامراجی عزائم پوری دنیا پر واضح کرنے کے لیے اس ملک کو تاراج کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی اس جنگ پر امریکی سامراج نے 9/11سے اب تک685.6ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیا۔ اگر اس میں بالواسطہ اخراجات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ رقم ایک ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اگر یہ تمام رقم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کی جاتی تو اس پورے خطے سے بھوک، بیماری اور غربت کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں سامراجی عزائم کے تحت عوام کے ٹیکسوں سے جمع کی گئی اتنے بڑی دولت کو بربادی پھیلانے پر خرچ کیا گیا۔ اس جنگ سے پھیلنے والی غربت، بیماری اور بربادی نے لاکھوں افراد کی جان لے لی ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں اور در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
امریکی سامراج کے بعد جس ریاست نے اس بربادی کو پھیلانے میں سب سے زیادہ حصہ لیا وہ پاکستان ہے۔ ’’تزویراتی گہرائی‘‘ کی سامراجی پالیسی کے تحت پاکستانی ریاست نے شروع سے ہی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے اور افغانستان میں اپنے کٹھ پتلی حکمران لانے کی سعی جاری رکھی ہے۔ سوویت یونین کیخلاف امریکی سامراج کی گماشتگی میں بھی پاکستانی ریاست نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیا اور ’’ڈالر جہاد‘‘ کے نام پر کروڑوں ڈالر اینٹھے۔ افغانستان سے برآمد ہونے والی ہیروئین کو امریکی سرپرستی میں پاکستانی ریاست کے مختلف حصوں نے خوب پروان چڑھایا اور اب یہ اس سماج اور اس کی معیشت میں ایسے دوڑ رہی ہے جیسے جسم میں خون۔ اس وقت پاکستانی معیشت کا ایک بڑا حصہ اسی منشیات کی فروخت سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہوں یا بینکوں کے بڑھتے ہوئے منافعے اس تمام معیشت کا ایک کلیدی حصہ اسی منشیات کے کاروبار سے منسلک ہے۔ حکمران طبقے کے تمام حصے خواہ وہ سیاست میں ہوں یا فوج میں اسی معیشت کی دلدل میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ اسی تمام تر معیشت اور سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے امریکی آشیر باد سے بینظیر بھٹو کے دور میں طالبان کو منظم کیا گیا اور ان سے کابل پر قبضہ کروایا گیا۔ اس کا مقصد بھی کابل میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کی موجودگی سے پورے خطے میں اپنے سامراجی عزائم کو تقویت دینا تھا۔ انہی طالبان اور ان سے جڑے دوسرے گروہوں کو پاکستانی ریاست نے اپنے قیمتی اثاثے قرار دیا۔ لیکن 9/11کے بعد ان اثاثوں کی قیمت وصول کرنے کے نئے حربے تخلیق کرنے پڑے۔
امریکہ کو اپنی سامراجی جنگ اور ڈرون حملوں کے لیے ان ’دشمنوں‘ کی ضرورت تھی جبکہ پاکستانی ریاست امریکہ کی افغانستان آمد پر مزید اربوں ڈالر اپنی جیبوں میں بھرنے کے لیے جھولی پھیلائے کھڑی تھی۔ اس جنگ کے دوران 2002ء سے لے کر 2011ء تک امریکہ سے فوجی امداد کی مد میں پاکستان نے 11.74ارب ڈالر حاصل کیے جبکہ معاشی امداد کی مد میں6ارب ڈالر سے زیادہ حاصل کیے۔ اس کے بعد کے پانچ سالوں میں بھی مزید اربوں ڈالر حاصل کیے جا چکے ہیں اور کل رقم لگ بھگ30ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اسی دوران امریکہ کے اہم اتحادی کی حیثیت سے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرضے اور شرائط میں سہولیات حاصل کیں۔ پاکستان میں آنے والی تمام تر امریکی امداد میں یقیناً یہاں کی فوجی اور سول اشرافیہ نے اپنا حصہ بقدر جثہ ضرور وصول کیا۔ خواہ اس کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے قیمتی اثاثوں کی بلی ہی کیوں نہ چڑھانی پڑی اور نجکاری کر کے لاکھوں افراد کو بیروزگار کیا گیا۔ لیکن اتنے لمبے عرصے میں یہ سارا کاروبار ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ خود کش بمباروں کی تیاری سے لے کر دہشت گردوں کے مختلف گروہوں کے خام مال سے لے کرتیاری تک کا پورا سلسلہ اپنی جگہ موجود ہے اور اسے مختلف مقاصد کے حصول کے لیے جاری رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس عمل میں پاکستان کے حکمران افغانستان کو خون میں ڈبو کر وہاں کے محنت کشوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے۔
اس دوران لاکھوں افغان محنت کش جنگ سے متاثر ہو کر پاکستان آنے پر بھی مجبور ہوئے۔ پاکستانی ریاست نے ان مہاجرین کو بھی اپنے سامراجی عزائم کے لیے استعمال کیا۔ آغاز میں انہیں خوش آمدید کہا گیا، افغان بھائی کہا گیا۔ اس کا مقصد ایک جانب تو یہ تھا کہ انہیں خود افغانستان کی داخلی سیاست کے حوالے سے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، دوسرا پاکستان کو امت مسلمہ اور اسلام کا قلعہ ثابت کرنے کا بھی اچھا موقع ہاتھ ملا ہے۔ ساتھ ہی ان مہاجرین کی غربت اور بربادی کے نام پر دنیا سے مزید ڈالر بٹورے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران جہاں یہ ظالمانہ عزائم پایہ تکمیل تک پہنچاتے رہے اور مہاجرین کے نام پر آنے والے کروڑوں ڈالروں پر ہاتھ صاف کرتے رہے وہیں پر ان مہاجرین کی اکثریت یہاں کی محنت کی منڈی میں اپنے روزگار کی تلاش میں لگی رہی۔ کوڑا چننے، بوٹ پالش سے لے کر ہر کام میں ان محنت کشوں نے روزگار کے لیے زور آزمائی کی۔ کارل مارکس نے درست کہا تھا کہ ’’محنت کشوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا‘‘۔ یہ محنت کش افغانستان میں بھی کٹھن زندگی گزار رہے تھے اور یہاں آکر بھی محنت کی منڈی میں انتہائی کم اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کم اجرت کے محنت کشوں کی سپلائی میں اضافے سے یہاں کے مقامی سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں نے بھی اجرتوں میں کمی کر کے اپنے منافعوں میں خوب اضافہ کیا۔ درحقیقت یہ افغان مہاجرین اور ان کی بربادی ان غلیظ سرمایہ داروں کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔
اب موجودہ صورتحال میں امریکی سامراج کی افغانستان میں پسپائی اور فوجوں کے انخلا کے بعد پاکستانی ریاست تذبذب کا شکار ہے۔ ایک طرف تو امداد کے نام پر آنے والے اربوں ڈالر بند ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب امریکی پشت پناہی سے ہندوستان بھی افغانستان میں اپنے سامراجی عزائم کو فروغ دے رہا ہے۔ افغانستان کی ریاست بھی پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے ہندوستان کی جانب جھک رہی ہے۔ حال ہی میں نریندرا مودی کے دورۂ ایران سے صورتحال میں مزید کشیدگی آئی ہے۔ گوادر سے صرف سو کلومیٹر کے فاصلے پر چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر نو کے معاہدے سے پاکستانی ریاست شدید تشویش میں مبتلا ہے۔ اس سے ہندوستان کو افغانستان میں مال بھیجنے کا ایسا مختصر رستہ میسر ہوگا جس میں پاکستان سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہندوستان وسطی ایشیا کے دیگر ممالک تک بھی رسائی حاصل کر سکے گا۔
ایسی صورتحال میں پاکستانی ریاست واضح طور پر افغانستان کے موجودہ کٹھ پتلی حکمرانوں سے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے۔ طورخم بارڈر پر ہونے والی حالیہ کشیدگی اور افغانستان جانے والوں پر پاکستان کی جانب سے شدید سختی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے پاس افغانستان میں عمل دخل کے لیے جو مہرے بچے ہیں ان میں سے طالبان کے کچھ دھڑے سر فہرست ہیں۔ پاکستانی ریاست کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح امریکی سامراج کو اس جنگ میں دوبارہ گھسیٹا جائے اور یہاں امریکی فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔ گزشتہ سال قندوز میں ہونے والا حملہ بھی اسی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ لیکن امریکہ اپنے شدید معاشی بحران کے باعث ایسا کرنے سے قاصر ہے اور اس خطے میں اس کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستانی حکمران پیچ و تاب کھاتے ہوئے اپنا غصہ افغان مہاجرین پر نکال رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ افغانیوں کے خلاف نئے تعصبات بھڑکا کر اس خطے کے محنت کشوں کی جڑت کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران بھی سامراجی گماشتگی اور اپنی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور منشیات کے کاروبار سے لے کر بیرونی امداد میں گھپلوں کے مختلف اسکینڈلوں میں ان کے نام کئی دفعہ آ چکے ہیں۔ افغانستان کو ایک مستحکم ریاست بنانے کا خواب اس سرمایہ دارانہ نظام میں کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ نام نہاد انتخابات اور افغان فوج سمیت دیگر ریاستی ادارے ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں اور سامراجی جبر تلے کبھی بھی ٹھوس بنیادوں پر تعمیر نہیں ہو سکتے۔ زوال کے جس عہد میں پہلے سے موجود ریاستیں شام، لیبیا، یمن اور یوکرائن جیسے ممالک میں میں ٹوٹ رہی ہوں وہاں سامراجی جنگوں سے برباد ممالک میں نئی سرمایہ دارانہ ریاستوں کا بننا ناقابل عمل ہے۔ افغانستان کے موجودہ حکمران بھی یہ بخوبی جانتے ہیں اورانہیں افغانستا ن کی ریاست کی تعمیر سے زیادہ اپنی مال و دولت کی فکر ہے۔ چین، ہندوستان، روس اور دیگر ممالک بھی یہاں لوٹ مار کے لیے اپنا اثر و رسوخ بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ ہندوستان کی سرمایہ کاری ہو یا چینی سامراج کی لوٹ مار، کسی بھی قسم کی بیرونی سرمایہ کاری سے افغانستان میں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کے حالات زندگی اس نظام کے تحت نہیں بدل سکتے۔ بلکہ اب افغانستان میں غربت اور بھوک میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تیس لاکھ افغان مہاجرین کے علاوہ خود افغانستان کے اندر بارہ لاکھ سے زائد مہاجرین ہیں جو مختلف شہروں سے اجڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ نظام اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم نہیں کر سکتا نہ ہی انہیں روزگار دے سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور ساتھ ہی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھے گی۔
عالمی معاشی بحران پوری دنیا پر اثرات مرتب کر رہا ہے اور ہر طرف جنگوں، خانہ جنگیوں اور بربریت میں اضافہ ہورہا ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں 30لاکھ افراد نے ہمسایہ ممالک کا رخ کیا ہے جبکہ 65لاکھ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایران اس خانہ جنگی میں براہ راست ملوث ہے اور اس کے اثرات ناگزیر طور پر ایران کی داخلی صورتحال میں مرتب ہوں گے۔ چین کی خطے میں سرمایہ کاری سے بڑے پیمانے پر چینی محنت کش پہلے ہی اس خطے میں موجود ہیں اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہو گا۔ دنیا میں ایک بڑی تعداد پاکستانی تارکین وطن کی بھی ہے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ریاست کو حاصل ہونے والی سب سے بڑی آمدن انہی تارکین وطن محنت کشوں کی بھیجی ہوئی رقوم سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے بدتر ہوتے ہوئے حالات اور صنعتوں کی بندش کے باعث لاکھوں کی تعداد میں محنت کشوں نے بیرونی ممالک کا رخ کیا ہے جبکہ ان کی ایک بڑی تعداد نے مختلف ممالک میں پناہ کے لیے بھی درخواست دے رکھی ہے۔
ایسے میں افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کے محنت کشوں کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ ان پر ہونے والے مظالم اور ان کی بربادی کے ذمہ داری بھی خطے کے تمام حکمران اور سامراجی آقا ہیں اس لیے ان سے نجات کے لیے بھی انہیں مل کر ان تمام کیخلاف جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان موجود برطانوی سامرا ج کی لگائی ہوئی مصنوعی ڈیورنڈ لائن کے باوجود دونوں اطراف کے محنت کشوں کا تاریخی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی رشتہ موجود ہے جسے یہ حکمران تمام کوششوں کے باوجود مٹا نہیں سکے۔ ان مصنوعی سرحدوں کے آر پار زندہ انسانوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ اگر ایک جانب کسی کو دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے تو دوسری جانب کے دلوں میں درد اٹھتا ہے۔ دونوں جانب امریکی سامراج اور مقامی حکمرانوں کے خلاف نفرت بھی عروج پر ہے۔ یہ حکمران ایک لمبے عرصے سے اس سماج کو گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں۔ اس لیے جب بغاوت کے شعلے ایک جانب سے ابھرے تو دوسری جانب بھی تیزی سے پھیلیں گے۔ یہ حکمران نسلی، قومی، لسانی تعصبات کے ذریعے محنت کشوں کی جڑت توڑ کر انہیں آپس میں لڑوانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب یہ لڑائی بھوک اور بیماری کیخلاف ہے۔ اور بھوک کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، بیماری کی کوئی قوم نہیں ہوتی اور غربت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے ابھرنے والی تحریکیں ان مصنوعی سرحدوں کو اکھاڑ نے کی جانب بڑھیں گی۔ اگر ایک حقیقی بالشویک پارٹی مارکسزم کے انٹرنیشنلسٹ نظریات پر موجود ہوئی تو اس پورے خطے سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے سرخ علم لہرایا جا سکتا ہے۔