|تحریر: پارس جان|
پاکستان سے افغان مہاجرین کا جبری انخلا جاری ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اب تک ساڑھے چار لاکھ سے پانچ لاکھ تک افغان مہاجرین سرحد کے اس پار منتقل کیے جا چکے ہیں۔ بہت سے لوگ غیر قانونی طور پر قائم کیے گئے ”عقوبت خانوں“ میں رکھے جانے کی اطلاعات ہیں جبکہ لاکھوں لوگ گرفتاریوں اور جبری انخلا سے بچنے کے لیے مختلف علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ان روپوش افغانوں کی بھاری اکثریت دیہاڑی دار محنت کشوں پر مشتمل ہے، اس لیے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ روزگار سے محروم ہونے کے بعد یہ لاکھوں لوگ اور ان کے خاندان کن حالات میں گزارہ کر رہے ہوں گے۔
دوسری طرف ریاستی اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ اس جابرانہ پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔ اس حوالے سے عدالت عالیہ اور عظمیٰ کا رویہ بھی روایتی تاخیری حربوں پر ہی مشتمل ہے اور اب عدالت عظمیٰ نے مہاجرین سے متعلقہ مقدمے کی کاروائی کو سردیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے پاکستان کے ہنگامی دورے کی خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں، جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ نیٹو افواج اور سابق افغان حکومت کے لئے کام کرنے والے پچیس ہزار افغان مہاجرین کے مغربی ممالک میں انخلا سے متعلقہ امور طے کیے جانے کی غرض سے یہ وزٹ کیا جا رہا ہے تاہم ابھی تک اس دورے میں طے کیے گئے معاملات کے حوالے سے کوئی واضح پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
یوں یہ کہا جا سکتا ہے بنیادی انسانی حقوق کے تمام تر چیمپیئنز جس طرح غزہ کے معصوم عوام کی نسل کشی پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے، ایسے ہی افغان مہاجرین کے انخلا سے منسلک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی محض تماشائی ہی بنے ہوئے ہیں۔ سرحدی علاقوں سے دل دہلا دینے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ بہت سے خاندان جو اپنی ضرورت کا کچھ سامان یا جمع پونجی ساتھ لے کر جانے کے خواہشمند ہیں، ان کو تمام سامان یہیں چھوڑ کر بے سر و سامانی کے عالم میں واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
اسی قسم کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص جو اپنا ٹریکٹر ساتھ لے کر جانا چاہتا ہے، اسے زد و کوب کیا جا رہا ہے اور ٹریکٹر چھوڑ کر جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ وہ خود کو پورے خاندان سمیت جلا دینے کی دھمکی دے رہا ہے (یاد رہے کہ یہ وہی افغان مہاجرین ہیں جن کو پناہ دینے کے نام پر پاکستانی سرکار اپنے مغربی آقاؤں سے اربوں ڈالر وصول کرتی رہی ہے)۔ جو لوگ ابھی تک اس بے سر و سامانی کے عالم میں یہاں سے افغانستان جا چکے ہیں، ان کے حالات کے بارے میں اگرچہ درست اور مکمل اطلاعات کا فقدان ہے، تاہم سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی چند ایک ویڈیوز سے ان لوگوں کی کسمپرسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ بہت سے لوگ برفباری اور شدید سردی کے خوف سے ابھی تک اپنے آبائی علاقوں کی طرف جانے سے گریز کر رہے ہیں اور نسبتاً گرم علاقوں میں ہی مقیم ہیں جہاں انہیں کھانے پینے، ادویات سمیت گرم کپڑوں اور دیگر تمام بنیادی ضروریات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ زیادہ تر لوگ ابھی تک خیموں میں ہی رہنے پر مجبور ہیں جہاں سکول، ڈسپنسریاں اور خواتین کے لیے بیت الخلا جیسی بنیادی ضروریات معدوم ہیں۔ اسی طرح جو لوگ اپنے علاقوں میں واپس گئے ہیں، ان کے گھر بار اور روزگار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ یا تو اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں یا پھر کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں اور انسانی بنیادوں پر امداد کے منتظر ہیں۔
لیکن اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے بھی بہت زیادہ سرگرم دکھائی نہیں دیتے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حال ہی میں افغانستان میں خوفناک زلزلے کے باعث ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور فزیکل انفراسٹرکچر بھی بڑے پیمانے پر برباد ہو گیا تھا اور افغانستان کے مخصوص سیاسی و سٹریٹجک حالات کے باعث عالمی ادارے بہت بڑے پیمانے پر بحالی کے اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے، اب موجودہ حالات میں اتنے بڑے پیمانے کی ہجرت کے بعد یہ مسائل مزید گمبھیر ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی گزشتہ چند ماہ میں تین لاکھ افغان مہاجرین کے انخلا کی اطلاعات ہیں، یوں یہ انسانی المیہ اپنی وسعت اور شدت کے اعتبار سے آئے روز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ جو پہلی دفعہ افغانستان گئے ہیں ان کو ان تمام جسمانی اذیتوں کے ساتھ ساتھ یقیناً شدید ترین نفسیاتی ہیجان اور تناؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا۔ اس لیے یہ موسم سرما ان درماندہ افغان مہاجرین کے لیے بھڑکتی ہوئی دوزخ سے کم نہیں ہو گا۔
نام نہاد عالمی برادری یعنی سامراجیوں نے اپنی عوام کے دباؤ میں ابھی تک اپنی ہی گماشتہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، جس کے باعث صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ طالبان حکومت بلاشبہ وحشی اور درندہ صفت حکومت ہے، جسے عام لوگوں کی ضروریات اور بنیادی انسانی حقوق سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ یہاں سے واپس جانے والے مہاجرین کو تو رہنے ہی دیں جو مقامی لوگ وہاں آباد ہیں، ان کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور وہ حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید نہیں کر سکتے۔ ایسے میں جو تباہ حال مہاجرین یہاں سے واپس جا رہے ہیں، وہ کیسے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں گے۔ صحافیوں کو بھی آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے، اس لیے مہاجرین کو درپیش مسائل کا درست اندازہ لگانا لگ بھگ نا ممکن ہی ہے۔
یہاں اس جبری انخلا کو جواز فراہم کرنے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں حالات پاکستان سے بہت بہتر ہیں جس میں پی ٹی ایم کی مرکزی قیادت سمیت دیگر پشتون قوم پرست بھی شامل ہیں۔ اور کچھ زیادہ سیانے لوگ آج کل یہ دلیل دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ چین نے افغانستان کے معدنیات کے شعبے میں پچاس ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے، اسی لیے یہ افواہیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ چین طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کر کے سفارتی تعلقات کا آغاز کرنے کا سوچ رہا ہے۔ یعنی افغانستان میں خوشحالی کی دلیل کے طور پر چینی سرمایہ کاری کی مثال پیش کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان میں بھی گزشتہ دہائی میں چین تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے تو آیا اس سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت کتنی مستحکم ہوئی؟ اس کے برعکس اس سرمایہ کاری نے پاکستان کی لولی لنگڑی معیشت کے تابوت میں آخری کیل کا کردار ادا کیا ہے۔
یہاں اس بات کی مکمل وضاحت نہیں کی جا سکتی، تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس طرح کی سرمایہ کاری آج کے عہد میں سامراجی لوٹ مار اور مقامی گماشتوں کی دولت میں بڑھوتری کا سبب تو بن سکتی ہے مگر عوامی خوشحالی اور سماجی فلاح و بہبود سے اس کا معکوس تعلق ہوتا ہے۔ بڑے پیمانے کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے یہ سرمایہ کاری مقامی وسائل کی بے رحمانہ لوٹ مار کے باعث مقامی آبادی کی مسابقت اور سا لمیت کو برباد ہی کرتی ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر امریکہ کے دو دہائیوں پر محیط اقتدار میں افغانستان میں فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر تعمیر نہیں ہو سکا تو چین بھی وہاں کوئی معجزہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا بد ترین انفراسٹرکچر، موسم کی شدت اور بے سر و سامانی میں افغان مہاجرین کو درپیش مشکلات ناقابلِ بیان ہیں۔
انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں کی بے حسی سے بھی زیادہ بڑا المیہ سیاسی قیادتوں کے مجرمانہ رویے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ مین سٹریم پارٹیاں تو تمام ریاستی اداروں کی طرح اس پالیسی کے شراکت دار ہیں ہی، قوم پرست اور روایتی بائیں بازو کی پارٹیاں بھی ریاستی پالیسی کی تائید کر رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے قائد ایمل ولی خان نے بھی چند روز قبل کھل کر ”غیر قانونی“ افغان مہاجرین کے انخلا کی ریاستی پالیسی کی تائید کی ہے۔ بائیں بازو کے ایک سیاسی اتحاد نے بھی کھلم کھلا افغان مہاجرین کے انخلا کو تیز تر کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے لیے احتجاج اور مارچ وغیرہ منعقد کیے جا رہے ہیں۔ پنجابی، مہاجر، سندھی ادیب اور انٹیلی جنشیہ کی اکثریت بھی افغان مہاجرین کو ہی تمام مسائل کی جڑ قرار دے کر ریاست کی ہاں میں ہاں ملاتے چلے جا رہے ہیں۔ چند جرائم پیشہ یا مذہبی جنونیوں کی آڑ میں تمام افغانوں کو قابلِ نفرت، قبضہ گیر اور امن دشمن قرار دے دیا گیا ہے۔
یہ نسل پرستانہ رجحان جسے ”افغانوفوبیا“ کہنا بجا ہو گا غیر اخلاقی اور انسان دشمن تو ہے ہی حقائق کے منافی بھی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان کے موجودہ حالات ثور انقلاب کو شکست دینے کی غرض سے افغانستان میں امریکی، سعودی عرب اور پاکستانی ریاست کی سامراجی اور غیر قانونی مداخلت اور اس کی بنیاد پر مذہبی فسطائیت کو افغانستان برآمد کرنے کی وجہ سے ہیں۔ افغانستان میں بائیں بازو کی حکومت پاکستان سمیت پورے خطے کے محنت کشوں اور ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے لیے دوستانہ جذبات رکھتی تھی اور اس نے آمریت اور ریاستی جبر کا شکار اپنے ترقی پسند ساتھیوں کی طویل عرصے تک دل کھول کر مہمان نوازی کی۔ اس لیے افغان مہاجرین کو پاکستان کے تمام جملہ مسائل کا شکار قرار دینا ایک طرح کی وکٹم بلیمنگ ہی ہے اور بدقسمتی سے ہماری انٹیلی جنشیہ اور سیاسی قیادتوں کی اکثریت اس پر کامل یقین رکھتی ہے۔ یوں بظاہر ریاست کو اس پالیسی پر کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔
لیکن یہ پالیسی اس پورے خطے کے لیے مستقبل میں انتہائی اہم اور ناخوشگوار واقعات کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ہم پہلے ہی پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے مابین تحریک طالبان پاکستان کے کردار سے متعلق شدید کشیدگی دیکھ رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے نواح میں گزشتہ چند دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں شدت آتی جا رہی ہے اور یہ صورتحال ملک کے دیگر علاقوں تک پھیل جانے کے اندیشے بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کو مغربی سرحد پر زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا لیکن اب صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور انڈیا کی شکل میں ایک طرف روایتی دشمن کے ہوتے ہوئے اب پاکستانی ریاست کی مہم جوئیوں کے باعث افغانستان بھی ایک دوست کی بجائے دشمن بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان سے نالاں اور ناراض ہے، وہیں افغانستان کی عوام کے اندر بھی پاکستانی ریاست کے خلاف پہلے سے موجود نفرت اب مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ افغان مہاجرین کے جبری انخلا اور خواتین اور بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بعد اس نفرت میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہی متوقع ہے۔ اور پھر پاکستان کی انٹیلی جنشیہ اور مڈل کلاس اور سیاسی قیادتوں کے عمومی رویے کے باعث دونوں ملکوں کے عوام کے مابین بھی برادرانہ تعلقات مفقود ہوتے جا رہے ہیں، جو اس ساری صورتحال کا سب سے دردناک اور خطرناک پہلو ہے۔
پاکستان کے محنت کشوں کی پچھڑی ہوئی پرتیں بھی اس طرح کے حالات میں مڈل کلاس پراپیگنڈے کا شکار ہو سکتی ہیں مگر زیادہ تر محنت کش بہرحال اپنے افغان بہن بھائیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن کسی بھی مضبوط اور توانا سیاسی قیادت اور ٹریڈ یونینوں کے فعال کردار کی عدم موجودگی میں وہ ان افغان مہاجرین کے لیے یکجہتی کے عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن بہرحال انہوں نے قوم پرستوں اور نسل پرستوں کی طرف سے منظم کیے جانے والے ”افغان مخالف“ مارچوں اور ریلیوں سے بھی عملاً قطعی لاتعلقی کا ہی مظاہرہ کیا ہے، جو انتہائی خوش آئند تو ہے ہی بلکہ اس ساری صورتحال میں امید کی واحد کرن بھی ہے۔
در حقیقت پاکستان بھر کے محنت کش عوام بھی اس وقت بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کی چکی میں اس طرح سے پسے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے اپنی سانسوں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل سے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ یہ غیر آئینی عبوری حکومت آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو بے دریغ اور جابرانہ طریقے سے عوام پر مسلط کر رہی ہے۔ ایک طرف ہر قسم کی سبسڈیز کا خاتمہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف قومی اداروں کی نجکاری کے ذریعے بیروزگاروں کی فوج میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جا رہا ہے۔ آئے روز خود کشیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور ان میں کم عمر غریب نوجوانوں کی تعداد چونکا دینے کی حد تک زیادہ ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان بھر کے محنت کش اپنے افغان محنت کش بہنوں اور بھائیوں کے لیے آواز بلند نہیں کر پا رہے تو اس میں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ریاست کے اس بھیانک کھلواڑ کا حصہ ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ کسی دوسری شکل میں ریاست کے جبر کے سامنے افغان مہاجرین کی طرح ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ایسی سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی ہے جو ایک سیاسی پروگرام کے ذریعے حوصلے اور ولولے کو بیدار کرتے ہوئے عوامی تحریک کی راہیں ہموار کر سکے اور مختلف اقسام کے استحصال اور جبر کا شکار لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرتے ہوئے ناقابلِ تسخیر عوامی مزاحمت تعمیر کر سکے۔
ایسی صورتحال میں بہت سے قنوطیت کا شکار لوگ محنت کش طبقے کے تاریخی کردار کو ہی رد کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں طبقاتی کشمکش کا بیانیہ مسترد ہو چکا ہے اور اس لیے یکجہتی کا تصور ہی غلط ہے لہٰذا سب کو اپنی اپنی لڑائی ہی لڑنی ہو گی۔ یہ بیانیہ ریاستی نقطہ نظر کو جواز اور تقویت فراہم کرنے کا باعث بنتا ہے کیونکہ علیحدہ علیحدہ لڑی جانے والی کوئی بھی لڑائی، بھلے قومی ہو یا طبقاتی، ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس وقت سیاسی افق پر مکمل سکتہ ہے۔
پی ٹی ایم کی شکل میں جمہوری حقوق کی ایک توانا آواز موجود ہے جسے ریاست جبر کے ذریعے چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے اگرچہ کہ اس کی قیادت بھی بورژوا قوم پرستی کی محدودیت کے کارن تحریک کو کوئی معیاری جست دینے سے قاصر ہے۔ ایسے ہی چمن میں ریاست کی سرحد سے متعلق پالیسی کے خلاف ایک عوامی سرکشی موجود ہے۔ مکران کی غیور بلوچ خواتین ہزاروں کی تعداد میں متحرک ہیں اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار اور جبری گمشدگیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کشمیر کے عوام گزشتہ کئی ماہ سے بڑی بہادری سے ایک انقلابی مزاحمت کر رہے ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف اپنی پینشنرز اور نوکریوں کے تحفظ کے لیے پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کی جدوجہد بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سندھ میں اغوا کاری کے خلاف کشمور کی عوام کا غم و غصہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ نجی صنعتوں کے محنت کش بھی آئے روز اپنے معاشی مطالبات کے گرد شور و غل کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح افغان مہاجرین میں بھی غم و غصہ اور اشتعال پنپ رہا ہے۔
لیکن یہ تمام جدوجہدیں الگ الگ کتنی موثر ہو سکتی ہیں، یہ سب سے اہم سوال ہے؟ ان تمام تحریکوں کے مقدر کا فیصلہ ان کے باہمی اشتراک کے ہی مرہون منت ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کی نامیاتی ساخت کے باعث اس کے علاوہ کوئی دوسری سماجی قوت ایسی نہیں جو اس اشتراک کو عملی جامہ پہنا سکے۔ افغان مہاجرین کی بھاری اکثریت محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ ان کے مفادات آخری تجزیئے میں محنت کش طبقے کے عمومی مفادات کا ہی حصہ ہیں اور ان کی لڑائی مشترک ہے۔ موجودہ حالات میں محنت کشوں کے مابین تناؤ اور کشیدگی جو کہ ریاست کی منصوبہ بند حکمت عملی ہے، اس کے خلاف جدوجہد ہر باشعور سیاسی اور انقلابی کارکن، رجحان اور جماعت پر فرض ہے۔ نہ صرف یہ ریاست بلکہ علاقائی و عالمی سامراجی طاقتیں اپنے اس مردار نظام کو مصنوعی سانسیں فراہم کرنے کے لیے اس خطے میں پھر گھناؤنا کھیل کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف منظم مزاحمت صرف اور صرف طبقاتی یکجہتی کے ذریعے ہی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
ہم مارکس وادی دکھ، مصیبت اور اس قیامت خیز صورتحال میں اپنے افغان بہن بھائیوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم اس جبری انخلا کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اور اس کی فوری روک تھام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کی دیوالیہ معیشت اور امن و امان کی بدترین صورتحال کی ذمہ دار یہاں کے حکمران طبقات ہیں اور اب لوگ ان کو پہچان رہے ہیں۔ اس سفاک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت اور اشتعال بڑھ رہا ہے جسے حکمران لسانی و نسلی فسادات میں زائل کر دینا چاہتے ہیں۔ اس دیوالیہ معیشت اور بد امنی سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے سے اس غیر انسانی اور وحشی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا جائے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پورے خطے کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی جدوجہد تیز کی جائے جس کے لیے ہمارا نعرہ آج بھی وہی ہے جو ڈیڑھ سو سال قبل کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کا تھا، ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ“۔