|تحریر: زلمی پاسون|
اس وقت ریاست پاکستان کی حالیہ پالیسی کے باعث خطے میں افغان مہاجرین کا مسئلہ انتہائی اہم بنا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر سیاسی رجحانات افغان مہاجرین کے حق اور خلاف میں بول رہے ہیں۔ اسی مسئلے پر اقوام متحدہ سے جاری ہونے والے بیان میں عالمی ادارے نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ فقط یہ کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو ”زبردستی“ اپنے ملک نہ بھیجا جائے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں افغان مہاجرین کو لے کر ایک ایسا ایشو بنا دیا گیا ہے، کہ جس سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی جڑ افغان مہاجرین ہی ہیں۔ واضح رہے کہ 1980ء میں پاکستان میں پہلی بار افغان مہاجرین کے سیلاب کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے منسٹری آف اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز (سیفرون) تشکیل دی۔ جس کے تحت چاروں صوبوں میں چیف کمشنر فارافغان رفیوجیز تعینات کئے گئے۔ اس کا مقصد افغان مہاجرین کی مدد کیلئے کام کرنے والے اداروں کو ترتیب سے کام کرنے میں مدد دینا تھا۔
جب پہلی بار پاکستان میں افغانوں کو مہاجرین کے طور پر رجسٹر کرنے کی شروعات ہوئی، تو اس کیلئے (غیر اعلانیہ) بنیادی شرط یہ تھی کہ ان کا تعلق ان سات مجاہدین گروپس سے ہونا ضروری ہے جو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے میں مشغول تھے۔ ان افغان مجاہدین کو پاکستان اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ اس کی بنیادی وجہ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے ان سات گروپس کو افرادی قوت کا فراہم کیا جانا تھا۔ لیکن جیسے ہی 1989ء میں سوویت یونین کا افغانستان سے انخلاء ہوا، پاکستان نے افغان مہاجرین کی رجسٹریشن روک دی۔ 1992ء میں افغان مہاجرین کے انخلاء کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ افغان مہاجرین کے کیمپس بند کر دیئے گئے۔ اس کے بعد سے لے کر 1996 ء میں طالبان کے اقتدار پر قبضے اور پھر 2001ء میں نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کے بعد افغان مہاجرین کی بے تحاشہ تعداد پاکستان، ایران اور دیگر ممالک جانے لگی۔ امریکی سامراج کی مداخلت کے دوران پاکستان کی ان افغان مہاجرین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے ساتھ کئی معاہدے ہوئے جس میں 2016ء کا معاہدہ قابل ذکر ہے، جہاں اس ادارے فی مہاجر 400 امریکی ڈالر دینے تھے لیکن یہ معائدہ عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی فلاپ ہو گیا۔
اگست 2021ء میں کابل پر امریکی سامراج کی رضامندی کے ساتھ طالبان کے دوبارہ اقتدار پر مسلط ہونے کے بعد افغان مہاجرین کی ایک نئی لہر پاکستان سمیت ایران اور دیگر ممالک میں داخل ہوئی۔ جس کے بعد ان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے نام نہاد سامراجی ممالک نے کچھ رقم ان مہاجرین کے حوالے سے ریاست پاکستان کو دی۔ لیکن طالبان کی واپسی کے بعد ان گزشتہ دو سالوں میں افغان مہاجرین نے پاکستان اور ایران میں جبر اور ظلم کے جن حالات کا سامنا کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے جس میں افغان محنت کش مہاجرین کو ہر جگہ پر ہراساں کیا جانا، جہاں پر وہ محنت مزدوری کرتے ہیں وہاں ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ان سے نسلی اور قومی تعصبات کا برتا جانا اور ریاستی سیکورٹی اداروں کی طرف سے انہیں بے جا ذلیل کرنے تک کے واقعات سرفہرست ہیں۔
افغان مہاجرین پر موجودہ ریاستی موقف
رواں مہینے کے پہلے ہفتے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کا وقت دیا، نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ یکم نومبر کے بعد اس دائرہ کار میں آنے والے تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ یہ بتاتے ہوئے کہ پاکستانی عوام کی حفاظت ان کی ترجیح ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوری سے اب تک ملک بھر میں 24 خودکش حملے ہو چکے ہیں اور 14 حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ علاوہ ازیں اس نے کہا کہ پاکستان میں 1.73 ملین افغان شہری قانونی دستاویزات کے بغیر رہتے ہیں اور ملک میں مجموعی طور پر 4.4 ملین افغان ہیں۔
نگران وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس میں اہم سوالات اٹھتے ہیں جو کہ افغان مہاجرین کے ساتھ بالواسطہ طور پر جڑے ہوئے ہیں جس پر آگے جا کر بحث ہوگی۔ لیکن ریاست پاکستان کا افغان مہاجرین کے حوالے سے جو موقف روز اول سے موجود رہا ہے، اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اس ریاست نے افغان مہاجرین کو اپنے آغاز سے لے کر آج تک بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خطیر بیرونی امداد بٹورنے سے لے کر ان افغان مہاجرین کو دہشت گردی کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کیا گیا، جبکہ پورے پاکستان میں انہی افغان مہاجرین نے انتہائی سستی لیبر مہیا کی۔ اور افغان مہاجرین کی سستی لیبر کا بھرپور استحصال کرتے ہوئے پاکستان بھر کے سرمایہ داروں نے اپنی تجوریاں خوب بھریں۔
مگر اس بار پاکستانی ریاست کے حکمرانوں اور فوجی اشرافیہ کی جانب سے افغان مہاجرین کو ریاست کے تمام تر اندرونی و بیرونی بحرانات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف ایک زہریلا پروپیگنڈا شروع کیا گیا ہے۔ بالخصوص مستونگ واقعہ کے بعد جب پریس کانفرنس کی گئی تو اس میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں افغان مہاجرین کے ملوث ہونے کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہاں پر چند اہم چیزیں زیر بحث لانا اس لیے ضروری ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان جن حالات کا سامنا کر رہا ہے وہ اپنی تاریخی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی غیر معمولی ہیں۔
سب سے پہلے اگر ریاست پاکستان کی معاشی تباہ حالی کے حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت پاکستانی معیشت ہر حوالے سے زوال پذیری کا شکار ہے جوکہ حتمی تجزئیے میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کا ہی شاخسانہ ہے۔ اس معاشی بحران کی وجہ سے لگ بھگ پچھلے پانچ سالوں سے ملک بھر کا محنت کش طبقہ ایک ناگزیر تحریک کی جانب انگڑائی لے رہا ہے۔ جس کے کئی سارے ٹریلرز پچھلے کچھ عرصے میں ملک گیر طور پر چل چکے ہیں۔ اور نام نہاد آزاد کشمیر میں بھی اس وقت مہنگی بجلی کے خلاف ایک عوامی تحریک موجود ہے جس میں پورے کشمیر کے عوام، خواتین، بچے، نوجوان اور بوڑھے سب مل کر اس تحریک کو شکتی دے رہے ہیں۔ اور کئی سارے (پہیہ جام و شٹر ڈاؤن) ہڑتالیں بھی کی گئی ہیں۔ اس پوری صورتحال سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت طبقاتی سوال انتہائی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جوکہ پاکستان کی فوجی و سویلین اشرافیہ کے لیے درد سر بنتا جا رہا ہے۔ اور اس درد سر کو کاؤنٹر کرنے کے لیے پورے ملک میں مذہبی دہشت گردی، وحشت، لا قانونیت، نسلی اور قومی تعصبات کو ہوا دینے جیسے ہتھکنڈے ریاستی اشرافیہ ماضی سے بھی بڑھ کر استعمال کر رہی ہے۔ مگر ان روایتی ہتھکنڈوں کو اب پاکستان بھر کے محنت کش عوام جان چکے ہیں۔ اسی لیے ملک بھر کے محنت کش طبقے کی ممکنہ اٹھان کو مصنوعی طور پر روکنے کے لیے اور پورے ملک کے محنت کش طبقے کے درمیان نسلی و قومی بنیادوں پر پھوٹ ڈالنے کے لیے افغان مہاجرین کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔ جس کے ذریعے اس وقت پورے ملک میں افغان مہاجرین مخالف فوبیا پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اور ملک میں ہونے والی تمام تر تباہیوں اور بربادیوں کا ذمہ دار افغان مہاجرین کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اور ایسا سب کچھ صرف ریاست پاکستان اور یہاں کا حکمران طبقہ ہی نہیں کر رہے بلکہ مہاجرین مخالفت ایک عالمی مظہر بن چکی ہے۔ اور نام نہاد یورپ سمیت امریکہ کا حکمران طبقہ بھی محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے اور معاشی بحران کیخلاف عوامی غم وغصے کا رُخ موڑنے کے لئے غلیظ ترین مہاجرین مخالف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔
پاکستان کی سول و فوجی ریاستی اشرافیہ اور سرمایہ دار حکمران طبقے کو بخوبی پتا ہے کہ پچیس کروڑ عوام میں بھرا غم و غصہ ایک آتش فشاں کی طرح ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اور اسی سماجی دھماکے کو روکنے کی غرض سے پاکستانی (سول و فوجی) اشرافیہ نے افغان مہاجرین کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے تاکہ پاکستان کے محنت کش عوام کی زمینی حقائق سے توجہ ہٹائی جا سکے جبکہ درحقیقت یہ پاکستانی (سول و فوجی) اشرافیہ کی بھول ہے، کیونکہ اب حالات مزید ان کے کنٹرول میں نہیں رہے ہیں۔ اور پوری محنت کش عوام اس برباد حالت میں دو وقت کی روٹی کی تلاش میں مگن ہے مگر ریاستی پراپیگنڈے کی بنیاد پر ان کے غم وغصے کا رُخ افغان مہاجرین کی طرف موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے حلانکہ افغان مہاجرین کی بھاری اکثریت محنت مزدوری کر کے دو وقت کی روٹی کماتی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی ریاست کی معاشی حالت کو وینٹی لیٹر مہیا کرنے کے لیے عالمی اداروں کیساتھ بارگیننگ چپ کے طور پر افغان مہاجرین کو استعمال کرنے کے نکتے کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ افغان مہاجرین کے لئے امداد میں ملنے والے ڈالرز کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے سرمایہ دار حکمران طبقے اور خاص کر فوجی اشرافیہ کی تجوریوں میں جاتے ہیں لہٰذا اس مقصد کے لئے تمام عالمی اداروں کو مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اور درحقیقت اس طریقہ واردات میں پاکستانی (سول و فوجی) اشرافیہ بہت تجربہ کار ہے۔
جبکہ ایک اور اہم عنصر یہ بھی ہے کہ اس وقت افغانستان پر سامراجی پشت پناہی میں مسلط طالبان کے ساتھ پاکستانی ریاست کے تعلقات میں سرد مہری کا عنصر اب تک نہ صرف برقرار ہے، بلکہ تعلقات کی ابتری میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس میں ایک بڑی وجہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے۔ کیونکہ دو سال قبل جب سے افغانستان پر امریکی سامراج اور ریاست پاکستان کی پشت پناہی کے ساتھ ان مذہبی غنڈوں نے قبضہ جمایا ہے تب سے لے کر پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں تیزی آئی ہے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان مہاجرین کو جوڑنا ریاست پاکستان کے لیے انتہائی آسان کام ہے۔ اس آڑ میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کے خلاف جو عوامی غم و غصہ موجود ہے اس کا رُخ افغان مہاجرین کی جانب موڑا جا رہا ہے حالانکہ اس ساری سیکورٹی صورتحال کی ذمہ داری امریکہ و دیگر مغربی سامراجی طاقتوں اور پاکستانی جرنیلوں کی چالیس سال سے جاری نام نہاد سٹریٹیجک ڈیپتھ کی تباہ کن سامراجی پالیسی پر عائد ہوتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ریاست پاکستان کی (سول و فوجی) اشرافیہ اور سرمایہ دار حکمران طبقے نے افغان مہاجرین کے نام پر پچھلے 40 سالوں سے اربوں ڈالر کھانے کے بعد اپنی لوٹ مار، استحصال، کرپشن اور نا اہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے معاشی بحران اور سیکورٹی صورتحال کا سارا ملبہ افغان مہاجرین پر ڈال دیا ہے جس کی ہم سخت ترین الفاظ میں بھرپور مذمت کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دیگر علاقوں میں پیٹی بورژوا متعصب قوم پرستوں کے ہاں پائے جانے والے غلیظ قسم کے مزدور دشمن نظریات اور افغان مہاجرین مخالف رجحانات پر بھی مختصراً بات کرنا لازمی ہے۔
اس وقت پورے پاکستان میں جہاں ریاستی بیانیے کے طور پر افغان مہاجرین کے خلاف فوبیا کھڑا کر دیا گیا ہے وہاں پر بالخصوص سندھ کے قوم پرستوں نے ایک اُدھم مچایا ہوا ہے اور وہ اس ریاستی پراپیگنڈے کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے ریاست سے بھی دو قدم آگے کھڑے ہیں۔ سندھی و افغان تعصبات کو فروغ دینے میں جہاں ریاست کلیدی کردار ادا کرتی ہے وہیں اس چنگاری کو آگ کے شعلوں میں تبدیل کرنے کے لیے سندھ کے قوم پرست (سندھی اور اردو سپیکنگ مہاجر دونوں) سب سے آگے کھڑے ہوتے ہیں جن میں پیٹی بورژوا نوجوانوں کی اکثریت قابلِ ذکر ہے، جوکہ بالخصوص سوشل میڈیا پر ”گو افغان گو“ کیمپین کا حصہ ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان نوجوانوں کے تمام تحفظات غلط اور ناجائز ہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ غیر قانونی سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث افغان مہاجرین سمیت کسی بھی قومیت کے افراد کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے لیکن دوسری طرف یہ ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایسے اقلیتی جرائم پیشہ عناصر ہر قومیت اور کمیونٹی میں موجود ہوتے ہیں لیکن ان کے جرائم کی سزا اس قومیت یا کمیونٹی کی مزدور پیشہ اکثریت کو ہر گز نہیں ملنی چاہئے۔
لیکن اس کے ساتھ ایک اور اہم چیز بھی جڑی ہوئی ہے کہ اکثر و بیشتر اوقات یہ بحث سننے میں ملتی ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی کی وجہ سے مقامی آبادی سے روزگار کے مواقع چھن گئے ہیں۔ یہ بات رسمی منطق کے حوالے سے درست دکھائی دیتی ہے مگر درحقیقت یہ انتہائی غلط ہے۔ اور اسی بات کا پورے مغرب میں بھی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہاں پر مختلف غریب ممالک سے مہاجرین آ کر اپنی سستی لیبر کے ذریعے مقامی آبادی کے روزگار کے مواقع مکمل طور پر تباہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ پاکستان یا مغربی ممالک میں بے روزگاری کی وجہ مہاجرین نہیں بلکہ یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہے جو کہ اپنی زوال پذیری کی انتہا کو پہنچ چکا ہے جہاں پر وہ پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے لہٰذا عالمی سرمایہ دار طبقہ اپنے سرمائے کی حفاظت کے لیے اس طرح مزدور دشمن پراپیگنڈوں کا سہارا لیتا ہے۔ اور یہ بحث تو ابھی تک ہم نے چھیڑی ہی نہیں ہے کہ مہاجرین چاہے وہ افغان مہاجرین ہوں یا پورے یورپ اور امریکہ میں جانے والے مہاجرین ہوں وہ کیوں کر اپنے ملک کو چھوڑ کر دیگر ممالک میں محنت مزدوری یا اپنی زندگی بچانے کی خاطر وہاں پر جا نے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس پر ہم پھر کبھی تفصیل سے بحث کریں گے۔
ابھی بحث کو سمیٹنے کے لیے ہمیں پاکستان کے تناظر میں ایک اور چیز کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ افغان مہاجرین کے حوالے سے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اب ان کے ملک میں امن ہے تو یہاں پر چالیس سال کی ”مہمان نوازی“ کے بعد ان کو واپس چلے جانا چاہیے۔ اب اس سوال کے دو حصے ہیں، ایک حصہ امن کا ہے دوسرا حصہ روزگار کا ہے۔ اس وقت پاکستان میں گو کہ ظاہری طور پر کوئی جنگ نہیں چھڑی ہوئی ہے مگر پھر بھی لوگ روزگار کی خاطر قانونی و غیر قانونی طریقوں سے دیگر ممالک میں جاتے رہتے ہیں، تو افغان مہاجرین کو تو اپنے ملک میں اس سے کہیں زیادہ بھیانک حالات کا سامنا تھا۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق اس وقت افغانستان میں 97 فیصد عوام غذائی قلت کا شکار ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ جبکہ بنیادی ترین ضروریات زندگی کے لیے انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی تو اتنی واضح ہے کہ ہمارے خیال میں اس پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ریاستی (سول و فوجی اشرافیہ) سے ہٹ کر افغان مہاجرین کی مخالفت کن نظریات کی بنیاد پر سماج کی کون سی پرتیں کر رہی ہیں؟ اس کا تعین کرنا انتہائی لازمی ہے۔ اور اس پوری صورتحال کے اندر یہ چیز بھی طے ہو چکی ہے کہ پاکستان میں پیٹی بورژوا عناصر کی جانب سے افغان مہاجرین کی حمایت یا مخالفت ”قوم پرست“ نظریات کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور دونوں صورتوں میں قوم پرست ان افغان مہاجرین کی اپنی مفادات کے تحت مخالفت یا حمایت کرتے ہیں جبکہ آج تک افغان مہاجرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کسی بھی ایک قوم پرست نے بات نہیں کی کیونکہ قوم پرست نظریات درحقیقت مزدور دشمن نظریات ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا دو ٹوک موقف ہے کہ حتمی تجزئیے میں تمام قوم پرست پرلے درجے کے مزدور دشمن، جرنیلوں کے بوٹ چاٹ اور ریاست و حکمران طبقے کے دلال ثابت ہوتے ہیں۔ آج افغان مہاجرین کر مسئلے پر سندھ کے قوم پرستوں کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ آنے والے وقت میں دیگر معاملات پر پختون، بلوچ، کشمیری اور دیگر قوم پرستوں کی اوقات بھی کھل کر سب کے سامنے آ جائے گی۔ قوم پرستی ایک مزدور دشمن نظریہ ہے اور محنت کش طبقے کی مخالفت میں سرمایہ دارانہ ریاست اور ہر قسم کے قوم پرست ہمیشہ ایک پیج پر ہوں گے۔
سرمایہ داری کے تحت، حکمران طبقے کے نزدیک مہاجرین محض استحصال و جبر کے لئے خام مال ہوتے ہیں جنہیں کبھی تو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، کبھی سیاسی و سٹریٹیجک کھیلوں میں مہرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید برآں سامراجیت کی حامی دائیں بازو کی پارٹیاں ان کے خلاف نفرت بھڑکا کر اپنے ووٹ بنک میں اضافہ کرنے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ ہم عالمی سامراجیوں سے افغان مہاجرین کی حمایت کرنے کی توقع نہیں کر سکتے جو پوری دنیا میں لاکھوں افراد کو مارنے، اپاہج اور بے گھر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ممالک کے محنت کشوں کی زندگی اور کام کے حالات کو بھی بد سے بد تر بناتے جا رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں پناہ لینے والی تمام محنت کش مہاجرین کو بلا رنگ و نسل، قوم و مذہب کی تفریق کے ان کو پاکستانی شہریت دی جائے۔ پاکستان کے حکمران طبقے اور عالمی سامراج کی وجہ سے ہی مرد، خواتین اور بچے افغانستان سے فرار ہو رہے ہیں اور کسی اور جگہ میں سکون کی سانس لینے کے متلاشی ہیں۔ افغان محنت کش عوام کے طبقاتی دشمن ہمارے بھی طبقاتی دشمن ہیں۔ پاکستان اور عالمی سامراجی ممالک کے محنت کشوں کا یہ بین الاقوامی فریضہ ہے کہ وہ اپنی نجات اور افغانستان کے اپنے طبقاتی بہن بھائیوں کی خاطر اپنے اپنے حکمران طبقے کا تختہ الٹنے کی لڑائی لڑیں اور سرمایہ داری، سامراجیت، سرحدوں اور جنگوں سے پاک ایک غیر طبقاتی سوشلسٹ معاشرہ تخلیق کریں جس میں تمام نوع انسان صحیح معنوں میں انسانی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے گی۔