|تحریر: یاسر ارشاد|
نام نہاد آزاد کشمیر کے پونچھ ڈویژن میں ایک بار پھر لوڈ شیڈنگ، بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے، ظالمانہ ٹیکسوں اور مہنگائی کے خلاف عوامی مزاحمت کی نئی لہر ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ تقریباً ایک ماہ سے جاری اس احتجاجی سلسلے کا آغاز 2 جولائی 2022ء کو راولاکوٹ کے قریب ٹائیں کے علاقے کی عوامی ایکشن کمیٹی کی ایک چار روزہ ہڑتال سے ہوا جس کے دوران ٹائیں کے عوام نے ایک مرکزی، ٹائیں ڈھلکوٹ، شاہراہ کو ہر قسم کی آمدو رفت کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ اس ہڑتال کے دوران انتظامیہ کے نمائندگان نے بارہا ہڑتالی عوام کے نمائندوں سے مذاکرات کیے لیکن انہوں نے ہر بار عوام کے مطالبات کے حوالے سے یہ موقف اپنایا کہ کشمیر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی پر ناجائز ٹیکسوں کا خاتمہ کرنا ان کے تو کیا حکومت آزاد کشمیر کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ ٹائیں کی عوامی ایکشن کمیٹی کی اس ہڑتال کے حق میں تھوراڑ سمیت کچھ دیگر علاقوں کی عوامی ایکشن کمیٹیوں نے بھی ایک روزہ ہڑتالیں کیں۔ ٹائیں کی عوامی ایکشن کمیٹی نے عید کے موقع کو مد نظر رکھتے ہوئے چار دن کے بعد اپنی ہڑتال کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا اور حکومت کو اپنے ان دو بنیادی مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے پندرہ دن کا وقت دیا۔ اس عمل کے دوران انتظامیہ کے جو سربراہان ہڑتالی عوام کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے انہوں نے عوامی نمائندوں سے یہ درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ مذاکرات کے بعد ہڑتال کو مؤخر یا ختم کرنے کا اعلان کریں تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ انتظامیہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں بہت سنجیدہ ہے مگر ہڑتالی عوام نے انتظامیہ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کو مسترد کر دیا اور عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے تئیں ہڑتال کو موخر کرنے کا اعلان کیا۔
اس کے بعد انتظامیہ کے سربراہان نے عوام کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے درجنوں معلوم اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کر دیے جن میں ٹائیں کے ساتھ تھوراڑ کے علاقے میں احتجاج کرنے والے بے شمار افراد بھی شامل تھے۔ عوام نے ان مقدمات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج جاری رکھے۔ اسی دوران وزیر اعظم آزادکشمیر نے تمام قوم پرستوں پر ہندوستان کا ایجنٹ ہونے جیسا گھناؤنا الزام عائد کیا اور کہا کہ یہ لوگ انڈیا سے پیسے لے کر یہاں انتشار پھیلاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے حلقے میں اس الزام کے خلاف ایک قوم پرست جماعت نے بھی احتجاج کیا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور گرفتاریوں کا عمل شروع کر دیا۔
حکمرانوں اور انتظامیہ نے ان عوامی احتجاجوں کو ریاستی جبرکے جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں جیسے ہتھکنڈوں کی پالیسی اپناتے ہوئے روکنے کی کوشش کی جس کے خلاف پھر تھوراڑ کے انجمن تاجران اور عوامی ایکشن کمیٹی نے ہڑتال کرتے ہوئے راولاکوٹ کو پنڈی سے ملانے والی شاہراہِ غازی ملت کو بند کردیا۔ اس ہڑتال میں بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ گرفتار مظاہرین پر قائم کیے گیے جھوٹے مقدمات واپس لے کر انہیں غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔ مظاہرین نے شدید بارش کے باوجود سارا دن اپنا احتجاج جاری رکھا اور شام کو باہمی مشاورت کے ذریعے انتظامیہ کو دو دن کا وقت دے کر ہڑتال کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
احتجاج کے خاتمے کے بعد پولیس نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے منتشر ہوتے ہوئے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ شروع کردی۔ اس اشتعال انگیزی کے نتیجے میں پہاڑوں میں چھپے کچھ لوگوں نے پولیس پر فائرنگ کی جن کے بارے میں مظاہرین کا مؤقف یہی ہے کہ وہ پولیس کے ایجنٹ تھے۔ اس تصادم کے دوران پولیس کی دو بسوں کو آگ لگا دی گئی اور ان واقعات کو بنیاد بنا کر پولیس نے سینکڑوں مظاہرین پر دہشت گردی کے مقدمات درج کیے۔ تھوراڑ میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی اور ایک قسم کا کرفیو نافذ کر کے گھروں میں چھاپے مارے گئے اور مزید لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس ریاستی دہشت گردی کے خلاف ضلع پونچھ کے درجنوں مقامات پر احتجاجوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ مختلف علاقوں میں عوامی کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے ان احتجاجوں کو وسعت دینے کا عمل جاری بھی جاری رہا جس کے باعث یہ تحریک پورے کشمیر تک پھیل گئی تھی۔
آل پارٹیز پیپلز رائٹس فورم اور مجوزہ آئینی ترامیم
گزشتہ دنوں ضلع پونچھ کی پارلیمانی سیاست کرنے والی تمام حزب مخالف کی اور چند قوم پرست پارٹیوں کے قائدین نے آل پارٹیز پیپلز رائٹس فورم کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا تھا۔ اس فورم نے بھی ان عوامی مسائل پر احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بار بار اپنی احتجاج کی کال کو ملتوی کرتے رہے۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ان تمام بڑے بڑے احتجاجوں سے حوصلہ پا کر اس اتحاد نے بھی راولاکوٹ میں 28 جولائی کو ایک احتجاج کیا اور اس کے بعد احاطہ کچہری میں ایک دھرنے کا آغاز کیا ہے جو گیارہ روز جاری رہا۔ اس احتجاجی دھرنے میں شریک پارٹیاں بھی گرفتار مظاہرین کی رہائی، لوڈ شیڈنگ اور ظالمانہ ٹیکسز کے خاتمے سمیت ان آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔
نئی مجوزہ آئینی ترامیم میں سے ایک ٹورازم ایکٹ نامی قانون ہے جس کے ذریعے کشمیر کے تمام تفریخی مقامات اور اس سے ملحقہ علاقوں کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے کر مختلف سرمایہ داروں کو بیچنے اور بعض مقامات کو مکمل طور پر فوج کے حوالے کرنے کے درپے ہے۔ اس قانون کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کے نتیجے میں ان تفریخی مقامات پر چھوٹے کاروباروں سے منسلک نہ صرف ہزاروں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے بلکہ ان تفریخی مقامات سے ملحقہ علاقوں میں مقامی لوگ اپنی چراگاہوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ پندرہویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل کا مسودہ بھی خبروں کی زینت بنا ہوا ہے جس میں کشمیر کے انتظامی ڈھانچے کی نیم آزادانہ حیثیت کا خاتمے کرتے ہوئے اس کو دیگر صوبوں کی طرز پر لانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ یوں ایک جانب عوامی مسائل کے حل کی جدوجہد کے ساتھ ان نئی ترامیم کو بھی دھرنے سمیت تمام احتجاجوں میں مسترد کیا جانے لگا جن کو 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جو شب خون مارا تھا، اسی کے جیسا ایک غاصبانہ اقدام قرار دیا گیا۔ قانون ساز اسمبلی کے حزب مخالف کے اراکین اور پارٹیاں بھی ان ترامیم کی مخالفت کر رہی تھیں بلکہ قائد حزب اختلاف اور سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سمیت چند اسمبلی ممبران نے راولاکوٹ دھرنے میں شرکت بھی کی۔
مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کا سوال
6 اگست 2022ء کو آل پارٹیز فورم کی کال پر پونچھ ڈویژن میں مکمل شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال رہی لیکن ساتھ ہی کشمیر کے دیگر اضلاع کے درجنوں مقامات پر مکمل شٹرڈاؤن اور احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس ہڑتال کے ذریعے احتجاجی تحریک کا سلسلہ پورے کشمیر تک پھیل گیا جس نے کشمیر کے حکمرانوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ حکومت آزادکشمیر کے دو وزراء پر مشتمل ایک مذاکراتی کمیٹی نے 7 اگست کو آل پارٹیز فورم کے ساتھ مذاکرات کیے اور ایک تحریری معاہدہ کرتے ہوئے دھرنے اور احتجاجی تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔
حکومت نے پندرہویں ترمیم اور ٹورازم ایکٹ کے موجودہ مجوزہ مسودے کو پارلیمان میں نہ پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کو آل پارٹیز کی جانب سے بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کشمیر کی اپنی شناخت کو مٹنے سے بچا لیا گیا ہے۔ کشمیر کے حکمران طبقات کی تمام جماعتوں نے بھی سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی میزبانی میں اسلام آباد میں 7 اگست کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے کے ذریعے اس پر اپنے تحفظا ت کا اظہار کیا۔ پندرہویں آئینی ترمیم اور ٹورازم ایکٹ کے ذریعے پاکستان کے حکمران طبقات کشمیر پر اپنے تسلط کو جس حد تک بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس حوالے سے قوی امکانات یہی ہیں کہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور الگ شناخت کو ظاہر کرنے والی علامات کو شاید وقتی طور پر چھوڑ دیا جائے گا لیکن باقی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک نیا مسودہ جلد یا بدیر ضرور سامنے لایا جائے گا۔ اس حوالے سے حالیہ مذاکرات کی سب سے بڑی کامیابی کی نوعیت بھی انتہائی عارضی ہی ہے۔ دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹیوں نے جن بنیادی مطالبات پر اس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا ان کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومت نے دو ماہ کا وقت مانگا ہے جس کے دوران وہ اسلام آباد میں اپنے آقاؤں سے ان عوامی مطالبات پر بات چیت کریں گے۔ بجلی کے بلوں سے صرف ایک ٹیکس کا خاتمہ ہوا ہے وہ بھی احتجاجی تحریک کے دباؤ پر ہائی کورٹ کے عارضی حکم کے ذریعے ہوا تھا۔ اس لیے بنیادی عوامی مطالبات پر مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ بنیادی مطالبات درج ذیل ہیں:
1۔ کشمیر کو لوڈ شیڈنگ فری زون قرار دیتے ہوئے بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے۔
2۔ کشمیر میں اس کے اپنے دریاؤں سے پیدا ہونے والی پن بجلی فراہم کی جائے اور اس پر تمام ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے۔
3۔ کشمیر میں آٹے سمیت تمام اشیائے خوردونوش پر سبسڈی فراہم کی جائے۔
ان تینوں مطالبات کے لیے ہی عوامی ایکشن کمیٹیوں کے پلیٹ فارم سے اس خطے کے عام لوگوں نے نہ صرف ایک شاندار جدوجہد کی بلکہ قید و بند کی صعوبتیں اور پولیس کا وحشیانہ جبر بھی برداشت کیا۔ مذاکرات میں ان مطالبات پر غور و فکر کرنے اور پاکستان کی حکومت کو ان کی تحریک پیش کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت لینے کو اگر کامیابی قرار دیا جا رہا ہے تو یہ اس خطے کی تاریخ میں عوام کے ساتھ ہونے والے ہزاروں دھوکوں جیسا ہی ایک نیا دھوکہ ہے۔ مذاکرات میں تمام اسیران کی غیر مشروط رہائی اور مقدمات کا خاتمہ واحد کا میابی ہے جس کو عوام نے اپنی احتجاجی طاقت کی بنیاد پر حاصل کیا۔ اس تمام احتجاجی تحریک نے جس حد تک جو بھی کامیابی حاصل کی ہے اس کا سہرا صرف اور صرف عوام کو جاتا ہے اور اس کی تمام تر ناکامیوں کی وجہ آل پارٹیز فورم کی قیادت ہے جس میں شامل تمام پارٹیاں عوامی احتجاج کی بنیاد پراپنے گروہی مفادات اور ذاتی تشہیرحاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ عوام کی تحریک کے لیے بھی عملی جدوجہد، ریاستی جبر اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ عارضی اتحاد کا تجربہ بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
آل پارٹیز فورم اور عوامی ایکشن کمیٹیاں
اس احتجاجی تحریک کے دوران اور اس کے خاتمے کے بعد بھی عوامی ایکشن کمیٹیوں اور آل پارٹیز فورم کے مابین تعلق اور تعاون کی نوعیت کے حوالے سے ایک نہایت اہم بحث و مباحثہ جاری ہے۔ یہ بحث و مباحثہ عوام کی اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد اور عوام کی اپنی تنظیموں یعنی عوامی ایکشن کمیٹیوں کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کی فتح یہ ہے کہ ان کے ذریعے عوام نے نچلی سطح پر پارٹیوں کی تفریق اور تقسیم کو ختم کرتے ہوئے ہر علاقے کی حد تک عوام کے وسیع تر اتحاد کو یقینی بنا یا اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ جدوجہد کا ایک وسیع جمہوری پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل کے وسیع تر عمل کا آغاز 2019ء میں آٹا تحریک کے دوران ہو ا تھا اور اس تحریک کے تجربے کے ذریعے ہی عوام اور تمام پارٹیوں کے نچلی سطح کے کارکنان نے ان وسیع تنظیموں کی عملی افادیت کی اہمیت کا ادراک حاصل کیا۔ اسی لیے اس احتجاجی تحریک میں بھی ایک بار پھر عوامی کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل تیزی سے پھیلتا رہا اور ساتھ ہی ان کمیٹیوں کی باہمی جڑت کی کو ششیں بھی جاری رہیں۔ دوسری جانب ان کمیٹیوں کی اہمیت کا احساس روایتی سیاسی قائدین کو بھی متاثر کر رہا ہے جنہیں اپنے پاؤں تلے زمین سرکتی محسوس ہو رہی ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ماضی کی ناکامیوں کا ازالہ کرنے کی خاطر آل پارٹیز فورم کے پلیٹ فارم پر متحدہو کر احتجاجی عوام کو یہ یقین دلانے کی کوششوں میں مصروف رہے کہ ہم آپ کے مسائل کی جدوجہد کرنے کے لیے بہت سنجیدہ ہیں۔ اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ ایک جانب ان پارٹیوں کے عام کارکنان پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ عوامی ایکشن کمیٹیوں میں عوامی مسائل کے حل کی جدوجہد میں شامل ہیں۔ لیکن ان کی بالا قیادت اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام پر مسلط کی جانے والی اس ظالمانہ مہنگائی اور ریاستی تشدد میں برابر کی شریک ہے۔ ساتھ ہی ان پارٹیوں کی ضلعی قیادت آل پارٹیز فورم کے ذریعے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسی لیے عوامی کمیٹیوں میں بھی اتحاد کے نام پر آل پارٹیز فورم کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بناتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کرنے کی رائے بھی مضبوط ہو ئی۔
تمام پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی بحث کو آگے بڑھانے کے لیے چند بنیادی حقائق کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ اول یہ کہ یہ تمام روایتی پارٹیاں ہی باری باری اس خطے پر حکومت یا حکومت کی سہولت کاری کرتی آئی ہیں اور ان سب کا کردار ہمیشہ سے عوام دشمن رہا ہے اور ہمیشہ عوام دشمن ہی رہے گا۔ اس خطے کے عوام کے لیے جو مسائل آج ناقابل برداشت ہو چکے ہیں یہ راتوں رات پیدا نہیں ہوئے بلکہ دہائیوں سے ان تمام پارٹیوں کی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی بڑھتے بڑھتے آج اتنے شدید تر ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کی ان پارٹیوں کو آج اچانک عوام کے مسائل سے دلچسپی اس لیے پیدا ہو گئی ہے چونکہ یہ حکومت سے باہر ہیں اور شدت سے اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ کب ان کے آقا موجودہ حکمرانوں کو ہٹا کر ان کو حکومت میں لائیں گے۔ اسی قسم کی صورتحال ہم نے گزشتہ دنوں میں پاکستان کے اندر بھی دیکھی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ اور دیگر جماعتیں مہنگائی مارچ کر رہی تھیں مگر جب انہیں حکومت میں لایا گیا تو انہوں نے مہنگائی کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس لیے اپوزیشن کی کوئی پارٹی یا کوئی لیڈر اگر عوامی مسائل کی بات کرتا ہے تو وہ صرف اس لیے کہ ایک جانب وہ اپنے اصل آقاؤں کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکمران مسائل کو حل نہیں کر سکتے آپ ان کی جگہ ہمیں نوکری دیں ہم آپ کی بہتر غلامی کر سکتے ہیں اور دوسری جانب عوام کے ساتھ منافقانہ ہمدردی کا ناٹک کیا جا تا ہے تا کہ اس کے ذریعے بھی عوام کی ہمدردی حاصل کی جائے اور اپنے آقاؤں کو یہ یقین دلایا جائے کہ آپ ہمیں نوکری دیں ہم عوام کو بھی کنٹرول کر لیں گے۔
اس لیے سب سے بنیادی سچائی یہ ہے کہ حکمرانوں اور سہولت کاروں کی کوئی بھی جماعت عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتی نہ ہی ان پارٹیوں کی سیاست کا یہ مقصد ہے۔ ان تمام پارٹیوں کی سیاست کا صرف ایک مقصد ہے کہ عوام سے جھوٹے وعدے کر کے انہیں بیوقوف بنا کے ان سے ووٹ حاصل کیے جائیں اور اپنی عیاشیاں جاری رکھی جائیں۔
دوسری جانب ان حکمرانوں کا نظام اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں دھنستا جا رہا ہے اور یہ حکمران اس بحران کا تمام تر بوجھ عام لوگوں کے کاندھوں پر لادنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے خلاف روایتی پارٹیاں اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو ان سب کو احتجاجاً اسمبلی سے استعفے دے کر عوام کے احتجاج میں شامل ہونا چاہیے تھالیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ منافقانہ طور پر عوام سے ہمدردی کی گئی، ان کے حق میں بیا نات جاری کیے گیے اور اپنی عیاشیاں جاری رکھی گئیں۔
عوام نے آج تک ہر سہولت اپنی اجتماعی جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کی ہے۔ آج ایک بار پھر غریب عوام متحد ہو کر اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں اسی لیے حکومت کی بی ٹیم یعنی اپوزیشن کی پارٹیوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ ان عوامی کمیٹیوں کے بننے اور پھیلنے کے عمل کو روکیں۔ اپوزیشن کی پارٹیوں کو یہ احساس ہے کہ کل جب وہ حکومت میں آ کر اسی قسم کی ظالمانہ پالیسیاں لاگو کریں گے تو یہی عوامی کمیٹیاں ان کے خلاف بھی احتجاج کریں گی اسی لیے وہ آج ہی ان عوامی کمیٹیوں پر اپنی ضلعی قیادتوں کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس کام میں مدد کے لیے ان کے مرکزی قائدین اور پارلیمانی ممبران بھی آل پارٹیز فورم کے دھرنے میں دورے کرنے آ تے رہے۔ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی عوامی ایکشن کمیٹیوں میں متحرک سیاسی کارکنان اور عوام کو اس آل پارٹیز فورم کے ساتھ کسی اتحاد یا تعاون کے معاملے کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل طاقت عوام ہیں اور عوام ایکشن کمیٹیوں میں متحد ہیں۔ ایکشن کمیٹیوں کو ہر صورت میں اپنی آزادی اور خودمختاری برقرار رکھنے اور اسے مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
آل پارٹیز کو عوام اور ایکشن کمیٹیوں کی ضرورت ہے جبکہ عوام اور ایکشن کمیٹیوں کو آل پارٹیز کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ آل پارٹیز فورم کے ذریعے یہ سیاسی گدھ عوام کی تحریک اور ایکشن کمیٹیوں کی جدوجہد پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ عوام کو گھٹیا اور نیچ ہو نے کا یقین دلانا چاہتے ہیں کہ آپ سیاست نہیں کر سکتے، آپ جتنی مرضی ہڑتالیں کر لو مگر دیکھو انتظامیہ سے مذاکرات ہم ہی کریں گے۔ انتظامیہ بھی ان کے ساتھ مذاکرات اسی لیے کر رہی ہے کہ وہ بھی نہیں چاہتے کہ عوامی ایکشن کمیٹیاں مضبوط ہوں۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے تحریک چلانے کے تجربے سے گزر کر عوام کا اپنی اجتماعی طاقت پر یقین اور اعتماد بڑھتا ہے اور یہی بات انتظامیہ اور ان تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے اسی لیے ان سب کی مشترکہ کوشش یہی ہے کہ عوام اپنی اجتماعی طاقت پر اعتماد کرنا نہ سیکھیں۔ چونکہ جس دن اس خطے کی اکثریتی عوام اور بالخصوص محنت کشوں نے یہ یقین اور اعتماد حاصل کر لیا کہ وہ نہ صرف اس سماج کی سب سے بڑی طاقت ہیں بلکہ وہی اس سماج کو چلاتے بھی اور اس پر اپنی حاکمیت بھی قائم کر سکتے ہیں، وہ دن ان حکمرانوں اور ان کی سیاسی پارٹیوں کا آخری دن ہوگا۔ عوام اور محنت کشوں کو نہ صرف اپنی اجتماعی طاقت بلکہ اپنی اجتماعی قیادت پر بھی یقین اور اعتماد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
احتجاجی تحریک کا مستقبل
حالیہ احتجاجی تحریک بھی 2019ء میں ابھرنے والی آٹے کی تحریک کی طرح ہی بنیادی مسائل کے گرد اُبھری تھی۔ لوڈ شیڈنگ، بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور بھاری ٹیکسوں سمیت بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے مسائل اس نظام کے بحران کے باعث مسلسل بڑھتے جائیں گے اس لیے ان کے خلاف اس طرح کی تحریکیں وقتاً فوقتاً ابھرتی رہیں گی۔ ان تحریکوں کے ابھار اور پسپائی کا یہ عمل اپنے اندر ایک زبردست پیش رفت، ترقی اور نشوونما کے تیز تر عمل کا رحجان رکھتا ہے۔ حالیہ تحریک کا دائرہ کار 2019ء کی تحریک کے مقابلے میں بہت وسیع تھا، اگرچہ اس کی بھی زیادہ شدت پونچھ ڈویژن میں رہی۔ لیکن موجودہ تحریک کا پھیلاؤ تقریباً پورے کشمیر تک تھا اگرچہ مختلف علاقوں میں اس کی شدت مختلف تھی۔ اس لیے عمومی طور پر یہ ایک زبردست پیش رفت ہے جو آنے والی تحریکوں کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ دوسری جانب روایتی سیاسی پارٹیوں اور قیادتوں کے ساتھ عوامی ایکشن کمیٹیوں کا اتحاد اور ان پر اعتماد بھی عوامی تحریک کے ابتدائی مرحلے کے سیاسی شعور اور اتحاد کی خوش فہمیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ عوامی تحریک ان لازمی تاریخی مراحل سے گزرتے ہوئے ہی عوام دوست اور عوام دشمن سیاسی پارٹیوں، قیادتوں اور ان کے پروگرام میں فرق قائم کرنا سیکھے گی۔ حقیقی انقلابی قوتوں کی اس عمل میں مداخلت اور صبر کے وضاحت عوام کو ان لازمی اسباق کو سیکھنے میں معاونت فراہم کر ے گی۔
محنت کش طبقہ
کشمیر میں محنت کش طبقہ بھی ایک اہم قوت ہے جو اس سماج میں ریاستی انتظام اور خدمات کے تمام تر شعبے کو چلا رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریکیں بھی گزشتہ چند سالوں کے دوران تعطل کا شکار رہی ہیں لیکن اب ان میں ایک نیا تحرک جنم لے رہا ہے۔ تنخواہوں کے اعلان پر عملدرآمد میں تاخیر کے خلاف ایپکا کی کال پر پورے کشمیر میں احتجاجوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسی طرح تنظیم اساتذہ بھی اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے متحرک ہے۔ آنے والے عرصے میں محنت کشوں کی ان تحریکوں میں بھی اضافہ ہوگا اور یہی محنت کش عوامی ایکشن کمیٹیوں میں متحرک غریب عوام کے حقیقی اتحادی ہیں۔ غریب عوام اور محنت کشوں کا یہی اتحاد اس خطے کے تمام مسائل کا انقلابی حل فراہم کر سکتا ہے۔ کشمیر میں عوام اور محنت کشوں کے اتحاد پر مبنی ایسی تحریک اس پورے خطے کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کے انقلاب کے ذریعے خاتمے کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہی اس خطے کے تمام مظلوم محنت کشوں اور عوام کو استحصال اور جبر سے نجات دلا سکتا ہے اور ساتھ ہی تمام مظلوم قومیتوں کوان کے اپنے خطوں پر مکمل اختیار اور حقیقی حق خودارادیت کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔