خیبر پختونخوا: عام سرکاری ملازمین کی پنشن کا خاتمہ!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبر پختونخوا|

کے پی حکومت نے سول سرونٹ ایکٹ 1973ء میں ترمیم کر کے کنٹری بیوٹری فنڈ کی پالیسی نافذ کر دی ہے۔ جس کی رو سے 2022ء کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین کو پنشن اور گریجوٹی نہیں ملے گی بلکہ سی پی فنڈ ملے گا جس میں ہر ماہ ملازم کی تنخواہ سے مخصوص رقم کاٹی جائے گی اور اس میں حکومت بھی کچھ حصہ ڈالے گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ فنڈ ملازم کو ملے گا جبکہ ملازم کو یک مشت پنشن اور ماہانہ پنشن نہیں ملے گی۔

حکومت کا یہ اقدام دراصل پنشن ریفارمز کا حصہ ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ ملازمین کی پنشن صوبائی خزانے پر بوجھ ہے اور بجٹ کا بڑا حصہ پنشن کی مد میں چلا جاتا ہے۔ یہ حکومت کا ملازمین دشمن اقدام ہے۔ جب ایک ملازم ساری زندگی حکومت کو سروسز مہیا کر کے ریٹائر ہو جاتا ہے تو وہ عمر کے اس حصے میں ہوتا ہے جس میں کوئی اور کام کرنے کی صلاحیت نہیں بچتی۔ لہٰذا اس وقت حکومت سے ملنے والے پنشن پر ہی اس کا گزر بسر چلتا ہے، جسے حکومت چھین رہی ہے۔

خیبرپختونخوا میں 2018ء سے 2021ء تک تقریباً 58 ہزار اساتذہ کو ایڈہاک بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ہے جو تاحال ریگولر نہیں کئے گئے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ان ملازمین کو جولائی 2022ء کے بعد ریگولر کیا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ ان پر سی پی فنڈ کی پالیسی لاگو ہوگی، ان کی پچھلی ملازمت کی مدت کو بھی شمار نہیں کیا جائے گا اور انہیں ایرئیرز بھی نہیں ملیں گے۔

تاریخ تقرری سے ریگولرائیزیشن اور سی پی فنڈ کے خاتمے کیلئے ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے 19 جون کو بنی گالا میں دھرنا دیا۔ حکومت نے دھرنے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ینگ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر کو ملازمت سے بر طرف کیا اور دوسرے ملازمین کو شوکاز نوٹس بھیجے۔ 19 جون کو ایڈہاک اساتذہ نے ہزاروں کی تعداد میں بنی گالا میں دھرنا شروع کر دیا۔ خراب موسم، بارش، اور خوراک اور پانی کی عدم موجودگی کے باوجود ایڈہاک ملازمین نے دو دن دھرنا جاری رکھا اور آخر کار حکومت سے مذاکرات کے کئی راؤنڈ ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کر دیا گیا۔ جس میں تاریخ تقرری سے ریگولرائزیشن، صدر کی ملازمت کی بحالی اور شوکاز نوٹسز کے خاتمے کے مطالبات تو مانے گئے لیکن سی پی فنڈ کا مسئلہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔ اس حوالے سے اب فنانس منسٹر تیمور جھگڑا کے متنازعہ بیانات سامنے آرہے ہیں۔

تمام ملازمین کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ حکومت خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، وہ پنشن ریفارمز ہر صورت کرے گی۔ اس وقت پاکستان کا حکمران طبقہ معاشی بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈال رہا ہے۔ پنشن ریفارمز بھی درحقیقت اسی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ 19 جون 2022ء کے دھرنے میں وفاقی حکومت نے بڑی تعداد میں پولیس نفری، جس کے پاس واٹر کینن اور پرزنز وین بھی تھے، بنی گالا میں تعینات کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پنشن کے مسئلہ پر وفاقی اور صوبائی حکومت میں کوئی اختلاف نہیں۔

مستقبل میں آئی ایم ایف کی ایما پر پاکستان کے حکمرانوں کے محنت کشوں و ملازمین پر حملوں میں مزید شدت آئے گی، اور حکمرانوں کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ پنشن کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے اور تنخواہوں میں مزید کٹوتیاں کی جائیں۔ صرف محنت کشوں و ملازمین کا متحد و منظم جوابی حملہ ہی اسے روک سکتا ہے۔

بہر حال پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان کا محنت کش طبقہ اپنے حقوق کیلئے سرگرم ضرور ہوا ہے۔ مثلاً ملک گیر سطح پر تمام سرکاری اداروں کے ملازمین کا آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) کے نام سے الائنس بھی بنا ہے جس کے تحت پورے ملک میں بڑے احتجاج اور دھرنے منعقد کیے گئے۔ 10 فروری 2021ء کو اگیگا نے اسلام آباد میں دھرنا دیا جس میں ہزاروں ملازمین نے شرکت کی۔ حکومت نے ان مظاہرین پر بد ترین تشدد کیا، آنسو گیس استعمال کی، لاٹھی چارج کیا اور ملازمین کو گرفتار کیا۔ مگر اس سب کے باوجود ملازمین کی جرات اور استقامت کے باعث بالآخر حکومت کو اگیگا کی قیادت کے ساتھ مزاکرات کرنے پڑے۔ جس میں حکومت نے انہیں یقین دہانیاں کرائیں کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔

لیکن احتجاجوں اور دھرنوں کے ذریعے ایک حد تک تو جدوجہد کی جاسکتی ہیں لیکن دھرنوں کو زیادہ وقت تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ ملازمین احتجاجوں اور دھرنوں سے آگے کا قدم اٹھائیں۔ اب ملازمین و محنت کشوں کو ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا۔ یہ محنت کش و ملازمین ہی ہیں جو پورے ملک کو چلا رہے ہیں، لہٰذا اگر وہ چلا سکتے ہیں تو بند بھی کر سکتے ہیں۔ جس دن انہوں نے ملک بند کر دیا تو پھر انہیں اپنی حقیقی طاقت کا بھی اندازہ ہوگا کہ یہ ملک درحقیقت چلانے والے تو تھے ہی وہ۔ باقی سرمایہ دار، جاگیردار، منسٹر، جرنیل، پولیس، بیوروکریٹ، جج وغیرہ تو بس ٹی وی پر بیان بازیاں ہی کرتے تھے۔ اس وقت پھر یہ سوال بھی اٹھے گا کہ اگر ملک چلاتے محنت کش و ملازمین ہیں تو پھر اس پر حکمرانی کا حق بھی ان کا ہی ہونا چاہئیے۔ یہ سوچ پھر پاکستان کے محنت کش طبقے کو ایک سوشلسٹ انقلاب کی جانب لے جائے گی۔

Comments are closed.