تحریر: لیون ٹراٹسکی:-
(مترجم: جاوید شاہین)
جدلیات نہ تو فکشن ہے اور نہ ہی تصوف۔ اگر اسے زندگی کے عام مسائل تک محدود نہ رکھا جائے تو یہ ایک سائنس ہے جس کے ذریعے پیچیدہ اور طویل اعمال کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جدلیات اور رسمی منطق میں وہی رشتہ ہے جو بالائی اور زیریں ریاضیات میں ہوتا ہے۔
ارسطو کی عام قضیے کی منطق یوں شروع ہوتی ہے کہ الف برابر ہے الف کے۔ اس مفروضے کو بے شمار انسانی اعمال کیلئے قبول کر لیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں الف الف کے برابر نہیں ہوتا۔ اگر ان دونوں حرفوں کو محدث شیشے کے نیچے رکھ کر دیکھا جائے تو مذکورہ بالابات آسانی سے ثابت ہو جائے گی ۔ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اعتراض کیاجاسکتا ہے کہ فقط ایک جیسی مقدار کا استعادہ ہیں۔ مثلاً ایک پونڈچینی۔ اصل میں ایک پونڈ چینی ایک پونڈ نہیں ہوتی۔ ایک زیادہ عمدہ پیمانہ فرق کو واضح کر دے گا۔ یہ بھی درست ہے کہ تمام اجسام مداخلت کے بغیر اپنا حجم ‘وزن اور رنگ وغیرہ بدل دیتے ہیں ۔ وہ خود میں برابر نہیں ہوتے۔ ایک سوفطائی کہے گا کہ ایک خاص لمحے میں ایک پونڈ چینی ایک پونڈ وزن کے برابر ہوتی ہے۔
اگر اس انتہائی مشکوک قضیے کی عملی قدر کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو پھر بھی یہ نظریاتی تنقید کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ مثلاً ہم لفظ’’لمحہ‘‘ کو حقیقی طورپر کیسے تصور میں لا سکیں گے۔ اگر یہ وقت کا ایک لامتناہی عرصہ ہے تو پھر اس مدت میں وہ ’’لمحہ‘‘ ناگزیر طورپر تغیر کا مرہون منت ہو گا۔ یا پھر کیا’’لمحہ‘‘ کوئی خالص ریاضیاتی تجرید ہے؟ یعنی وقت کا صفر۔ لیکن ہر شے وقت کے اندر موجود ہے۔ اور موجودگی بذات خود تبدیلی کا مداخلت کے بغیر ایک عمل ہے۔ نتیجے کے طور پر ہروقت موجودگی کا ایک بنیادی عنصر ہے ۔ لہذا الف برابر الف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز اپنے ہی برابر ہوتی ہے بشرطیکہ وہ تبدیل نہ ہو لیکن اگر وہ تغیر پذیر نہیں ہوگی تو موجود بھی نہیں ہوگی ۔
پہلی نظر میں یہ ’’باریکیاں‘‘ بے سودلگتی ہیں مگر حقیقت میں یہ فیصلہ کن اہمیت کی مالک ہوتی ہیں ایک طرف الف برابر الف کا قضیہ ہمارے تمام علم سے جدا ہونے کا نکتہ لگتا ہے مگر دوسری طرف یہ نکتہ ہمارے علم کی تمام غلطیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی غلطی کے بغیر الف برابر الف کے قضیے کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر بعض حدود کے اندر رہ کر جب زبردست کام کے دوران الف میں مقداری تبدیلیاں نہ ہونے کے برابر ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ الف برابر الف کے ہے۔ مثال کے طور پر اسی طریقے سے ایک پونڈ چینی فروخت کرنے اور خریدنے والے کے مابین لین دین طے ہوتا ہے اسی طرح سورج کا درجہ حرارت متعین کیا جاتا ہے کچھ عرصہ پہلے تک ڈالر کی قوت خرید کا تعین بھی یونہی ہوتا تھا۔ لیکن مقداری تبدیلیاں بعض حدود سے پر ے معیاری تبدیلیوں میں بدل جاتی ہیں ایک پونڈ چینی پانی یا مٹی کے تیل سے مل کر ایک پونڈ چینی نہیں رہتی۔جب ایک ڈالر صدرکی جیب میں ہوتا ہے تو وہ ایک ڈالر نہیں رہتا۔ کس نازک وقت پر مقدار معیار میں تبدیل ہوجاتی ہے اس لمحے کا تعین عمرانیات سمیت علوم کے تمام شعبوں کیلئے بے حد اہم اور مشکل کام ہے ۔
ہر کاریگر جانتا ہے کہ وہ دو چیزیں ایک جیسی نہیں بنا سکتا۔پیتل کی سلاخ میں کچھ ردو بدل کرکے اس سے کون بنائی جاتی ہے یہ ردوبدل ایک حد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے ۔ ( اسے برداشت کہتے ہیں) اس برداشت کومد نظر رکھتے ہوئے خیال کیا جاتا ہے کہ تمام کونیں ایک جیسی ہیں(یعنی الف برابر ہے الف کے) جب یہ ’’ برداشت ‘‘ بڑھ جاتی ہے تو مقدار معیار میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کون خراب ہو کر بے قیمت رہ جاتی ہے۔
ہماری سائنسی سوچ ہمارے عام عمل کا ایک حصہ ہوتی ہے جس میں تیکنیک بھی شامل ہے جہاں تک نظریات کا تعلق ہے اس کیلئے بھی ’’برداشت‘‘ کی ضرورت ہے جو الف برابر کے قضیے سے معرض وجود میں نہیں آتی بلکہ اس قضیے کی جدلیاتی منطق سے جنم لیتی ہے کہ ہر چیز ہر وقت بدلتی رہتی ہے ۔ عقل عامہ کی خوبی اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ یہ بتدریج ’’ برداشت ‘‘ سے آگے نکل جاتی ہے۔
سرمایہ داری ‘ اخلاقیات‘ آزادی ‘ مزدور ریاست جیسے نظریات کے ساتھ کوئی بیہودہ قسم کا خیال بھی گہری تجریدات کی طرح بندھا ہوتا ہے ۔ یعنی سرمایہ داری سرمایہ داری کے برابر ہے ۔ اخلاقیات اخلاقیات کے برابر ہے وغیرہ۔لیکن جدلیاتی سوچ چیزوں کو ان کے مسلسل تغیرکے تناظر میں دیکھتی ہے اور مادی حالات میں ان تبدیلیوں کا تعین کرتی ہے جن کی حد سے ماورا الف الف نہیں رہتا ۔ ایک مزدور ریاست ریاست نہیں رہتی۔
بیہودہ خیال کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ حقیقت کو بے حرکت سمجھتا ہے حالانکہ حقیقت ازلی حرکت پر مشتمل ہے ۔ جدلیاتی سوچ ممکن حد تک نظریات کو درستگی ‘ جامعیت‘ لچک اور بہتر مواد مہیا کرتی ہے بلکہ ایک شادابی جو نظریات کو ایک حد تک عملی زندگی کے قریب لے آتی ہے ۔ عام سرمایہ داری نہیں بلکہ ترقی کے کسی خاص مرحلے کی سرمایہ داری ‘ عام مزدور ریاست نہیں بلکہ سامراجی گردوبیش میں کسی پسماندہ ملک میں مزدور ریاست۔
جدلیاتی سوچ کا بیہودگی سے وہی رشتہ ہے جو چلتی تصویرکا ساکت تصویر سے ہوتا ہے۔چلتی تصویر ساکت تصویر کے خلاف نہیں جاتی بلکہ وہ حرکت کے اصول کے تحت ساکت تصویروں کو ایک تسلسل میں پرو دیتی ہے ۔ جدلیات سچ سے انکار نہیں کرتی بلکہ بہت سے سچ اس طرح جوڑ دیتی ہے کہ ہم ازلی طور پر تغیر پذیر حقیقت کو زیادہ قریب سے دیکھ سکتے ہیں ۔ ہیگل اپنی کتاب’’ منطق‘‘ میں قوانین کا ایک سلسلہ قائم کرتا ہے ۔ مثلاً مقدار کا معیار میں بدل جانا ‘ تضادات کے ذریعے آگے بڑھنا‘ ہیت اور مواد کا تصادم ‘تسلسل میں مداخلت ‘ امکان کا ناگزیر یت میں تبدیل ہو جانا وغیرہ۔نظریاتی سوچ کیلئے یہ سب کچھ اتنا ہی ضروی ہے جتنے قضیے ابتدائی کاموں کے لئے۔
ہیگل نے ڈارون او رمارکس سے پہلے لکھا تھا ۔ انقلاب فرانس نے سوچ کو جو زبردست تحریک دی تھی اسکی بدولت ہیگل نے سائنس کی ترقی کو پیشگی دیکھ لیا تھا۔ اگرچہ یہ ایک بڑے آدمی کی پیش بینی تھی مگر ہیگل نے اسے خیال پرستانہ کردار دے دیا اس نے خیالی سایوں کو حتمی حقیقت قرار دے ڈالا ۔ لیکن مارکس نے کہا کہ یہ خیالی سائے مادی اجسام کی حرکت کا عکس ہیں۔
ہم اپنے جدلیاتی مادہ پرست سے کہتے ہیں کہ اس کی جڑیں نہ تو آسمان میں ہیں او رنہ ہی ہماری ’’ آزادانہ مرضی‘‘کی گہرائیوں میں ہیں بلکہ معروضی حقیقت یعنی فطرت میں ہیں ۔ شعور لاشعور سے جنم لیتا ہے‘ نفسیات جسمانی علم سے ‘ نامیاتی دنیا غیر نامیاتی سے ‘ نظام شمسی ستاروں کے جھرمٹ یا بادلوں سے۔ ترقی کے اس زینے کے ہر قدم پر مقداری تبدیلیاں معیاروں میں بدلتی رہیں۔ ہماری سوچ بشمول جدلیاتی سوچ تغیر پذیر مادے کے مختلف رنگ اور روپ ہیں۔اس نظام کے اندر خدا‘ شیطان ‘ غیر فانی روح‘ قوانین کی ابدی قدروں اور اخلاقیات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جدلیاتی سوچ فطرت کی جدلیات سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کا کردار مکمل طورپر مادی ہے۔
ڈارون ازم جو مختلف صنفوں کی مقدار سے معیار میں تبدیلی کی وضاحت کرتا ہے‘ نامیاتی مادے کی دنیا میں جدلیات کی بہت بڑی فتح تھی۔دوسری بڑی دریافت کیمیاوی عناصر کے ایٹمی اوزان کا ٹیبل ہے۔ اس سے آگے کی دریافت ایک عنصر کا دوسرے عنصر میں تبدیل ہو جانا تھا۔
ان ہیئت کذائیوں کے ساتھ درجہ بندی کا سوال قریبی طورپر وابستہ ہے جو فطری اور سماجی سائنس میں برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔ اٹھارویں صدی کے سویڈش ماہر نباتات نے چیزوں کی عدم تبدیلی کے متعلق جو بات کی تھی اس میں پودوں کی خارجی خاصیتوں کے مطابق تشریح اور درجہ بندی کی گئی تھی۔ علم نباتات کا وہ طفلانہ زمانہ منطق کے طفلانہ زمانے سے مشابہ تھا۔کیونکہ ہماری سوچ اسی طرح ترقی کرتی ہے جیسے دوسری زندہ چیزیں۔ عدم تبدیلی کا خیال اسی وقت فیصلہ کن انداز میں جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے جب پودوں کے ارتقاء کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور یوں حقیقی سائنسی درجہ بندی کی بنیاد تیار کی جائے۔
مارکس جو ڈارون سے امتیازی طورپر ایک باشعور جدلیات پسند تھا‘ اس نے انسانی سماجوں کی ان کی پیداواری طاقتوں کی روشنی میں سائنسی درجہ بندی دریافت کی تھی۔ اس نے ملکیت کے تعلقات کا ڈھانچہ بھی معلوم کیا جو معاشرے کی جراحی پر مشتمل تھا۔ ریاست اور سماجوں کی بیہودہ درجہ بندی کی جگہ مارکسزم نے لے لی جو جدلیاتی مادیت کی درجہ بندی ہے۔ مارکس کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد ہی مزدور ریاست کے نظریے اور اس کے زوال کے لمحے کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور جیسا کہ فریب خوردہ جہالت اور بے خبری تصدیق کرے گی‘ اس میں کہیں بھی کوئی مابعد الطبعیاتی یا عالمانہ بات نہیں ہے۔معاصر سائنسی سوچ میں جدلیاتی منطق حرکت کے قوانین کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس کے برعکس جدلیاتی مادیت کے خلاف جدوجہد ایک دور افتادہ ماضی‘ پیٹی بورژوازی کی قدامت پسندی‘خود فریبی کے مارے ہوئے یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کا واویلا اور کسی بعد کی ندگی کی امیدکرنے والوں کی ترجمانی کرتی ہے۔
جدلیات نہ تو فکشن ہے اور نہ ہی تصوف۔ اگر اسے زندگی کے عام مسائل تک محدود نہ رکھا جائے تو یہ ایک سائنس ہے جس کے ذریعے پیچیدہ اور طویل اعمال کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ جدلیات اور رسمی منطق میں وہی رشتہ ہے جو بالائی اور زیریں ریاضیات میں ہوتا ہے۔
ارسطو کی عام قضیے کی منطق یوں شروع ہوتی ہے کہ الف برابر ہے الف کے۔ اس مفروضے کو بے شمار انسانی اعمال کیلئے قبول کر لیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں الف الف کے برابر نہیں ہوتا۔ اگر ان دونوں حرفوں کو محدث شیشے کے نیچے رکھ کر دیکھا جائے تو مذکورہ بالابات آسانی سے ثابت ہو جائے گی ۔ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اعتراض کیاجاسکتا ہے کہ فقط ایک جیسی مقدار کا استعادہ ہیں۔ مثلاً ایک پونڈچینی۔ اصل میں ایک پونڈ چینی ایک پونڈ نہیں ہوتی۔ ایک زیادہ عمدہ پیمانہ فرق کو واضح کر دے گا۔ یہ بھی درست ہے کہ تمام اجسام مداخلت کے بغیر اپنا حجم ‘وزن اور رنگ وغیرہ بدل دیتے ہیں ۔ وہ خود میں برابر نہیں ہوتے۔ ایک سوفطائی کہے گا کہ ایک خاص لمحے میں ایک پونڈ چینی ایک پونڈ وزن کے برابر ہوتی ہے۔
اگر اس انتہائی مشکوک قضیے کی عملی قدر کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو پھر بھی یہ نظریاتی تنقید کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ مثلاً ہم لفظ’’لمحہ‘‘ کو حقیقی طورپر کیسے تصور میں لا سکیں گے۔ اگر یہ وقت کا ایک لامتناہی عرصہ ہے تو پھر اس مدت میں وہ ’’لمحہ‘‘ ناگزیر طورپر تغیر کا مرہون منت ہو گا۔ یا پھر کیا’’لمحہ‘‘ کوئی خالص ریاضیاتی تجرید ہے؟ یعنی وقت کا صفر۔ لیکن ہر شے وقت کے اندر موجود ہے۔ اور موجودگی بذات خود تبدیلی کا مداخلت کے بغیر ایک عمل ہے۔ نتیجے کے طور پر ہروقت موجودگی کا ایک بنیادی عنصر ہے ۔ لہذا الف برابر الف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز اپنے ہی برابر ہوتی ہے بشرطیکہ وہ تبدیل نہ ہو لیکن اگر وہ تغیر پذیر نہیں ہوگی تو موجود بھی نہیں ہوگی ۔
پہلی نظر میں یہ ’’باریکیاں‘‘ بے سودلگتی ہیں مگر حقیقت میں یہ فیصلہ کن اہمیت کی مالک ہوتی ہیں ایک طرف الف برابر الف کا قضیہ ہمارے تمام علم سے جدا ہونے کا نکتہ لگتا ہے مگر دوسری طرف یہ نکتہ ہمارے علم کی تمام غلطیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی غلطی کے بغیر الف برابر الف کے قضیے کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر بعض حدود کے اندر رہ کر جب زبردست کام کے دوران الف میں مقداری تبدیلیاں نہ ہونے کے برابر ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ الف برابر الف کے ہے۔ مثال کے طور پر اسی طریقے سے ایک پونڈ چینی فروخت کرنے اور خریدنے والے کے مابین لین دین طے ہوتا ہے اسی طرح سورج کا درجہ حرارت متعین کیا جاتا ہے کچھ عرصہ پہلے تک ڈالر کی قوت خرید کا تعین بھی یونہی ہوتا تھا۔ لیکن مقداری تبدیلیاں بعض حدود سے پر ے معیاری تبدیلیوں میں بدل جاتی ہیں ایک پونڈ چینی پانی یا مٹی کے تیل سے مل کر ایک پونڈ چینی نہیں رہتی۔جب ایک ڈالر صد رکی جیب میں ہوتا ہے تو وہ ایک ڈالر نہیں رہتا۔ کس نازک وقت پر مقدار معیار میں تبدیل ہوجاتی ہے اس لمحے کا تعین عمرانیات سمیت علوم کے تمام شعبوں کیلئے بے حد اہم اور مشکل کام ہے ۔
ہر کاریگر جانتا ہے کہ وہ دو چیزیں ایک جیسی نہیں بنا سکتا۔پیتل کی سلاخ میں کچھ ردو بدل کرکے اس سے کون بنائی جاتی ہے یہ ردوبدل ایک حد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے ۔ ( اسے برداشت کہتے ہیں) اس برداشت کومد نظر رکھتے ہوئے خیال کیا جاتا ہے کہ تمام کونیں ایک جیسی ہیں(یعنی الف برابر ہے الف کے) جب یہ ’’ برداشت ‘‘ بڑھ جاتی ہے تو مقدار معیار میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کون خراب ہو کر بے قیمت رہ جاتی ہے۔
ہماری سائنسی سوچ ہمارے عام عمل کا ایک حصہ ہوتی ہے جس میں تیکنیک بھی شامل ہے جہاں تک نظریات کا تعلق ہے اس کیلئے بھی ’’برداشت‘‘ کی ضرورت ہے جو الف برابر کے قضیے سے معرض وجود میں نہیں آتی بلکہ اس قضیے کی جدلیاتی منطق سے جنم لیتی ہے کہ ہر چیز ہر وقت بدلتی رہتی ہے ۔ عقل عامہ کی خوبی اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ یہ بتدریج ’’ برداشت ‘‘ سے آگے نکل جاتی ہے۔
سرمایہ داری ‘ اخلاقیات‘ آزادی ‘ مزدور ریاست جیسے نظریات کے ساتھ کوئی بیہودہ قسم کا خیال بھی گہری تجریدات کی طرح بندھا ہوتا ہے ۔ یعنی سرمایہ داری سرمایہ داری کے برابر ہے ۔ اخلاقیات اخلاقیات کے برابر ہے وغیرہ۔لیکن جدلیاتی سوچ چیزوں کو ان کے مسلسل تغیرکے تناظر میں دیکھتی ہے اور مادی حالات میں ان تبدیلیوں کا تعین کرتی ہے جن کی حد سے ماورا الف الف نہیں رہتا ۔ ایک مزدور ریاست ریاست نہیں رہتی۔
بیہودہ خیال کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ حقیقت کو بے حرکت سمجھتا ہے حالانکہ حقیقت ازلی حرکت پر مشتمل ہے ۔ جدلیاتی سوچ ممکن حد تک نظریات کو درستگی ‘ جامعیت‘ لچک اور بہتر مواد مہیا کرتی ہے بلکہ ایک شادابی جو نظریات کو ایک حد تک عملی زندگی کے قریب لے آتی ہے ۔ عام سرمایہ داری نہیں بلکہ ترقی کے کسی خاص مرحلے کی سرمایہ داری ‘ عام مزدور ریاست نہیں بلکہ سامراجی گردوبیش میں کسی پسماندہ ملک میں مزدور ریاست۔
جدلیاتی سوچ کا بیہودگی سے وہی رشتہ ہے جو چلتی تصویرکا ساکت تصویر سے ہوتا ہے۔چلتی تصویر ساکت تصویر کے خلاف نہیں جاتی بلکہ وہ حرکت کے اصول کے تحت ساکت تصویروں کو ایک تسلسل میں پرو دیتی ہے ۔ جدلیات سچ سے انکار نہیں کرتی بلکہ بہت سے سچ اس طرح جوڑ دیتی ہے کہ ہم ازلی طور پر تغیر پذیر حقیقت کو زیادہ قریب سے دیکھ سکتے ہیں ۔ ہیگل اپنی کتاب’’ منطق‘‘ میں قوانین کا ایک سلسلہ قائم کرتا ہے ۔ مثلاً مقدار کا معیار میں بدل جانا ‘ تضادات کے ذریعے آگے بڑھنا‘ ہیت اور مواد کا تصادم ‘تسلسل میں مداخلت ‘ امکان کا ناگزیر یت میں تبدیل ہو جانا وغیرہ۔نظریاتی سوچ کیلئے یہ سب کچھ اتنا ہی ضروی ہے جتنے قضیے ابتدائی کاموں کے لئے۔
ہیگل نے ڈارون او رمارکس سے پہلے لکھا تھا ۔ انقلاب فرانس نے سوچ کو جو زبردست تحریک دی تھی اسکی بدولت ہیگل نے سائنس کی ترقی کو پیشگی دیکھ لیا تھا۔ اگرچہ یہ ایک بڑے آدمی کی پیش بینی تھی مگر ہیگل نے اسے خیال پرستانہ کردار دے دیا اس نے خیالی سایوں کو حتمی حقیقت قرار دے ڈالا ۔ لیکن مارکس نے کہا کہ یہ خیالی سائے مادی اجسام کی حرکت کا عکس ہیں۔
ہم اپنے جدلیاتی مادہ پرست سے کہتے ہیں کہ اس کی جڑیں نہ تو آسمان میں ہیں او رنہ ہی ہماری ’’ آزادانہ مرضی‘‘کی گہرائیوں میں ہیں بلکہ معروضی حقیقت یعنی فطرت میں ہیں ۔ شعور لاشعور سے جنم لیتا ہے‘ نفسیات جسمانی علم سے ‘ نامیاتی دنیا غیر نامیاتی سے ‘ نظام شمسی ستاروں کے جھرمٹ یا بادلوں سے۔ ترقی کے اس زینے کے ہر قدم پر مقداری تبدیلیاں معیاروں میں بدلتی رہیں۔ ہماری سوچ بشمول جدلیاتی سوچ تغیر پذیر مادے کے مختلف رنگ اور روپ ہیں۔اس نظام کے اندر خدا‘ شیطان ‘ غیر فانی روح‘ قوانین کی ابدی قدروں اور اخلاقیات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جدلیاتی سوچ فطرت کی جدلیات سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کا کردار مکمل طورپر مادی ہے۔
ڈارون ازم جو مختلف صنفوں کی مقدار سے معیار میں تبدیلی کی وضاحت کرتا ہے‘ نامیاتی مادے کی دنیا میں جدلیات کی بہت بڑی فتح تھی۔دوسری بڑی دریافت کیمیاوی عناصر کے ایٹمی اوزان کا ٹیبل ہے۔ اس سے آگے کی دریافت ایک عنصر کا دوسرے عنصر میں تبدیل ہو جانا تھا۔
ان ہیئت کذائیوں کے ساتھ درجہ بندی کا سوال قریبی طورپر وابستہ ہے جو فطری اور سماجی سائنس میں برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔ اٹھارویں صدی کے سویڈش ماہر نباتات نے چیزوں کی عدم تبدیلی کے متعلق جو بات کی تھی اس میں پودوں کی خارجی خاصیتوں کے مطابق تشریح اور درجہ بندی کی گئی تھی۔ علم نباتات کا وہ طفلانہ زمانہ منطق کے طفلانہ زمانے سے مشابہ تھا۔کیونکہ ہماری سوچ اسی طرح ترقی کرتی ہے جیسے دوسری زندہ چیزیں۔ عدم تبدیلی کا خیال اسی وقت فیصلہ کن انداز میں جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے جب پودوں کے ارتقاء کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور یوں حقیقی سائنسی درجہ بندی کی بنیاد تیار کی جائے۔
مارکس جو ڈارون سے امتیازی طورپر ایک باشعور جدلیات پسند تھا‘ اس نے انسانی سماجوں کی ان کی پیداواری طاقتوں کی روشنی میں سائنسی درجہ بندی دریافت کی تھی۔ اس نے ملکیت کے تعلقات کا ڈھانچہ بھی معلوم کیا جو معاشرے کی جراحی پر مشتمل تھا۔ ریاست اور سماجوں کی بیہودہ درجہ بندی کی جگہ مارکسزم نے لے لی جو جدلیاتی مادیت کی درجہ بندی ہے۔ مارکس کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد ہی مزدور ریاست کے نظریے اور اس کے زوال کے لمحے کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور جیسا کہ فریب خوردہ جہالت اور بے خبری تصدیق کرے گی‘ اس میں کہیں بھی کوئی مابعد الطبعیاتی یا عالمانہ بات نہیں ہے۔معاصر سائنسی سوچ میں جدلیاتی منطق حرکت کے قوانین کی ترجمانی کرتی ہے۔ اس کے برعکس جدلیاتی مادیت کے خلاف جدوجہد ایک دور افتادہ ماضی‘ پیٹی بورژوازی کی قدامت پسندی‘خود فریبی کے مارے ہوئے یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کا واویلا اور کسی بعد کی زندگی کی امیدکرنے والوں کی ترجمانی کرتی ہے۔