|تحریر: عالمی مارکسی رجحان|
ہم تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ ایسے وقتوں میں یہ ایک فطری امر ہے کہ تاریخی مثالیں یا موازنے تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن جو کچھ آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بینک آف انگلینڈ کے مطابق پچھلے 300 سالوں میں موجودہ بحران سب سے زیادہ خوفناک ہو گالیکن یہ بھی حقیقت کی درست عکاسی نہیں۔ درحقیقت اس وقت ہم بے نظیر عہد سے گزر رہے ہیں۔ اگر قریب ترین موازنہ بھی تلاش کیا جائے تو وہ چودھویں صدی کی طاعون کی وباء ہے جس نے یورپ کی ایک تہائی سے آدھی آبادی کو نگل لیا۔
لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دنیا کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ دنیا کا خاتمہ نہیں ہو رہا تھا بلکہ ایک مخصوص سماجی و معاشی نظام یعنی جاگیرداری ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔ اس عہد میں ایک نئے انقلابی طبقے کا جنم ہوا، نومولود سرمایہ دار طبقہ، اور ہالینڈ اور برطانیہ میں سرمایہ دارانہ انقلابات کا آغاز ہوا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ وباء فی الحال اس سطح کو نہیں پہنچی۔ لیکن حتمی تجزیے میں یہ طاعون کی تاریخی وباء سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو گی۔
وباء مسلسل پھیل رہی ہے اور خاص طور پر ان غریب ممالک میں تباہی مچا رہی ہے جہاں اس سے مقابلہ کرنے کے کوئی وسائل موجود نہیں۔ وباء امریکہ اور خاص طور پر افریقہ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں بے قابو ہو چکی ہے۔ ستمبر کے آخر تک اموات 10 لاکھ سے تجاوز کر جائیں گی۔ تا دم تحریر، پوری دنیا میں 2 کروڑ 40 لاکھ سے زائد مثبت کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔
کچھ حکومتوں کی جانب سے حوصلہ مند چہ مگوئیوں کے باوجود ہم تاحال کسی بھی کارآمد ویکسین سے کوسوں دور ہیں۔ ہمیشہ کی طرح بربادی کا شکار بننے والوں کی ایک بھاری اکثریت مفلوک الحال اور غریبوں کی ہے۔ کروڑوں لوگ زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہیں اور منڈی کی معیشت کسی بھی قسم کا کوئی حل دینے سے قاصر ہے اور اس حقیقت کا ادراک لوگوں کو سرمایہ دارانہ نظام پر سوال اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے۔
یہاں یہ نشاندہی کرنا انتہائی اہم ہے کہ موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار کورونا وباء نہیں ہے۔ بحران کا آغاز کورونا وباء سے بہت عرصہ پہلے شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وباء نے پوری صورتحال انتہائی پیچیدہ اور بحران کو گھمبیر تر کر دیا ہے۔ جدلیات کی زبان میں، علت معلول بن جاتی ہے اور نتیجتاًمعلول علت۔
تیز ترین واقعات
اینگلز نے نشاندہی کی تھی کہ تاریخ میں ایسے ادوار آتے ہیں جب بیس سال گزر جاتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا لیکن پھر ایسے ادوار بھی آتے ہیں جب بیس سال کا سفر ایک دن میں طے ہو جاتا ہے۔ یہ الفاظ موجودہ صورتحال کی درست عکاسی کر رہے ہیں جس کا خاصہ یہ ہے کہ واقعات کی حرکت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اچانک اور تندو تیز تبدیلیاں موجودہ صورتحال میں مضمر ہیں۔
اگر جنوری میں کوئی شخص پیش گوئی کرتا کہ اگلے چھ مہینوں میں کیا ہونے والا ہے تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتابلکہ یہ سمجھا جاتا کہ یہ شخص پاگل ہو گیا ہے۔
سب سے پہلے تو معاشی انہدام کی رفتار ہی حیران کن ہے۔ کورونا وباء کی وجہ سے عالمی معیشت کو لگنے والا دھچکا 2008ء کے معاشی بحران، یہاں تک کہ ’عظیم کساد بازاری‘ سے بھی زیادہ شدیدتر ہے۔
امریکہ میں معاشی انہدام عظیم کساد بازاری کی مانند شدید تر ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ 1929ء کے بعد پیدا ہونے والا معاشی سکڑاؤ چار سال کے عرصے پر محیط تھا جبکہ وباء نے یہ عرصہ کھینچ کر چار ماہ تک محدود کردیا۔
1929ء کے وال سٹریٹ انہدام کے نتیجے میں 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی اور، قرض منڈی منجمد ہوگئی۔ اس سب کے نتیجے میں کئی بڑے پیمانے پر کاروبار دیوالیہ اور بیروزگاری آسمانوں کو چھونے لگی۔ جی ڈی پی میں بھی تیز سکڑاؤ دیکھنے کو ملا۔ لیکن اس سارے عمل میں تین سال کا عرصہ لگا۔
موجودہ بحران میں، محض تین ہفتوں میں اس سے مماثل معاشی و مالیاتی انہدام دیکھنے کو ملا۔ صرف پندرہ دنوں میں امریکی اسٹاک مارکیٹ اپنی 20 فیصد قدر کھو چکی تھی۔۔یہ تاریخ کا تیز ترین انہدام تھا۔ اور چند ہفتوں یا مہینوں میں امریکہ میں بیروزگار ہونے والوں کی تعداد 4 کروڑ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی۔ کھپت، سرمایہ کاری اور برآمدات سب ڈوب گئے۔ نوریئل روبینی کے الفاظ میں:
”عظیم کساد بازاری اور دوسری عالمی جنگ میں بھی معاشی سرگرمیاں اس طرح بند نہیں ہوئیں جس طرح اس وقت چین، امریکہ اور یورپ میں بند پڑی ہیں“۔
ایک عالمی بحران
یہ حقیقی معنوں میں سرمایہ داری کا ایک عالمی بحران ہے۔
ٹرمپ نے ”سب سے پہلے امریکہ“ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور وہ تندہی سے اس پر عمل پیرا ہے۔ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی کوششیں کر رہا ہے لیکن وہ یہ بتانا بھول گیا ہے کہ یہ کام باقی دنیا کی قیمت پر ہو گا۔ اس کی سوچ کا نچوڑ معاشی قوم پرستی ہے۔۔اگر اس میں سوچنے کی کوئی اہلیت ہے تو۔ وہ ببانگِ دہل اعلان کر رہا ہے کہ تجارتی جنگ ”اچھی“ ہے۔ اس سے بحران مزید شدید تر ہی ہو گا۔
چین پر اس کے تابڑ توڑ حملوں سے عالمی تجارت اور عالمگیریت کا کمزور پردہ چاک ہونے کا خطرہ ہے۔ لیکن یہ صورتحال کا ایک پہلو ہے۔ اس نے دیگر ممالک پر محصولات بھی لاگو کر دی ہیں جن میں اتحادی یورپی یونین، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں۔ وباء نے بحران کو اور بھی شدید کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نئے تحفظاتی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور اب تک عالمی تجارت میں اندازاً 13 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔
ا س کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک گہری کساد بازاری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ دو عالمی جنگوں کے درمیان رونما ہونے والی عظیم کساد بازاری کی وجہ 1929ء کا معاشی انہدام نہیں تھا بلکہ تحفظاتی پالیسیاں، مسابقتی کرنسیوں کی قدر میں کمی اور ”ہمسائے کو غریب کر دو“ جیسی پالیسیاں تھیں جن کے ذریعے کوشش کی گئی کہ اپنے ملک کی بیروزگاری کو دیگر ممالک میں برآمد کیا جائے۔
دیو ہیکل مالیاتی امداد
فوری انہدام سے بچنے کے لئے حکومتوں نے خزانے کا منہ کھول دیا اور معیشت کو کھربوں ڈالر کا انجکشن لگایا۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی چند دنوں میں ہی امریکی کانگریس نے ایک بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دے دی جو امن کے دنوں میں امریکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکج ہے۔ جون کے اختتام تک G20 ممالک نے مجموعی طور پر 10 ٹریلین ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیایعنی عالمی معیشت کے 12 فیصد کے برابر مالی امداد۔ لیکن اس کے بعد یورپی یونین مزید 850 بلین ڈالر کے پیکج کا اعلان کر چکا ہے جبکہ امریکی کانگریس مزید 1 ٹریلین ڈالر کا پیکج منظور کرنے جا رہی ہے۔
لاک ڈاؤن کے دیو ہیکل اثرات سے بچنے کے لئے فیڈرل ریزرو نے معیشت میں گردشی پیسے میں بے مثال اضافہ کیا۔ 2008ء کے بحران کے بعد اگلے سات سالوں میں فیڈرل ریزرو نے 3.5 ٹریلین ڈالر کے اثاثے خریدے۔ اس بحران کے صرف تین مہینوں میں سنٹرل بینک 3 ٹریلین ڈالر کے اثاثے خرید چکا ہے۔ ان میں سے آدھے پیسے حکومتی قرضے خریدنے کے لئے استعمال ہوئے تاکہ بیل آؤٹ پیکج کو فعال بنایا جائے اور آدھے پیسے کارپوریٹ بانڈ اور رہن مارکیٹ پر خرچ کئے گئے۔
بڑے کاروباروں کو بے مثال مالیاتی امداد کے ذریعے اس بحران سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ دیو ہیکل امداد، جس کے سامنے مارشل پلان بھی حقیر معلوم ہوتا ہے، معاشی تباہی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔
سادہ حقیقت یہ ہے کہ آج سرمایہ دارانہ نظام حکومتوں کے کثیر مالیاتی انجکشن کے ذریعے ہی زندہ ہے۔ اس کا نتیجہ قرضوں کے پہاڑ کی صورت میں نکلا ہے اور جلد یا بدیر قرضے واپس کرنے ہوتے ہیں۔
کیا معاشی بحالی ہو گی؟
اپنے زخم چاٹتے معیشت دان تیز تر معاشی بحالی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ یہ ایک سراب ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومتوں نے فوری انہدام کو ہر ممکن روکنے کے لئے کئی ہزار کھرب ڈالر جھونک دیے ہیں۔
9 اپریل 2020ء کو فارن پالیسی ویب سائٹ نے کچھ دلچسپ اعدادوشمار شائع کئے جن کے مطابق:
”اس فوری دیو ہیکل اقدام نے وقتی طور پر عالمی انہدام کو روک لیا ہے لیکن اب ایک ایسا دور شروع ہو رہا ہے جس میں کھپت اور سرمایہ کاری میں گراوٹ معاشی سکڑاؤ کو مہمیز دے گی۔“
نیو یارک یونیورسٹی کے سٹیرن سکول آف بزنس کے نوریئل روبینی نے لکھا ہے کہ
”صرف مرکزی حکومتوں کے پاس ہی وہ دیو ہیکل مالیاتی قوت موجود ہوتی ہے جس کے ذریعے نجی سیکٹر کے انہدام کو روکا جا سکتا ہے۔۔لیکن قرضوں پر یہ فنانسنگ پیسے کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ اگر انہیں عمومی سرکاری قرضوں کے ذریعے فنانس کیا جائے تو شرحِ سود تیزی سے بڑھے گی اور بحالی شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دے گی“۔
فوری تباہی سے بچنے کیلئے معیشتوں میں اربوں ڈالر انڈیلے گئے۔
یعنی مرکزی بینک حکومتی اخراجات کے لئے مسلسل پیسہ چھاپتے رہے۔
روبینی ’V‘ کی شکل میں بحالی کی پیش گوئیوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے لکھتا ہے کہ
”اس وقت جو سکڑاؤ ہو رہا ہے وہ نہ ’V‘ شکل کا ہے نہ ’U‘ اور نہ ہی ’L‘ شکل کا، بلکہ اس کی شکل اس وقت ’I‘ ہے، ایک عمودی لکیر جس کے مطابق مالیاتی منڈیاں اور حقیقی معیشت تیزی سے منہدم ہو رہی ہے“۔
وباء کی ایک نئی لہر کے بنا بھی یہی تناظر ہے، حالانکہ اسے بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معاشی بحالی کے دعووں کے برعکس تمام ممالک کی عوام کو دہائیاں معیارِ زندگی میں گراوٹ، بیروزگاری اور جبری کٹوتیوں کا سامنا ہو گا۔
قیمت کون ادا کرے گا؟
قیمت کون ادا کرے گا؟ اس وقت کوئی بھی یہ سوال تک پوچھنے کو تیار نہیں، جواب تو دور کی بات ہے۔ فنانشل ٹائمز کے چیف معیشت دان مارٹن وولف کے مطابق:
”وباء نے معاشی بحران سے بھی زیادہ مالیاتی اخراجات کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں اب یہ سوال کھڑا ہو جاتا ہے کہ اس کا بندوبست کیسے کیا جائے گا اور اسے کون ادا کرے گا؟“ (فنانشل ٹائمز، 5جولائی2020ء)
لیکن جواب واضح ہے۔ اس بحران کا سار بوجھ ان ناتواں کندھوں پر ڈالا جائے گا جو اس کی قیمت ادا کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے یعنی غرباء، ضعیف، بیمار، بے روزگااور اور بالعموم محنت کش طبقے پر۔ لیکن درمیانہ طبقہ بھی اس سے بچ نہیں پائے گا۔
بائیں بازو کے کچھ اصلاح پسندوں (جیسے اسپین میں پوڈیموس) نے انتہائی بیوقوفانہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کمپنیوں کی طرف سے چھٹی پر بھیجے جانے والے ملازمین کی تنخواہوں کے اخراجات قومی فنڈ سے پورے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام کی خصلت میں بنیادی تبدیلی آ گئی ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب ”نیو لبرل ماڈل“ کا خاتمہ اور کھلے دل سے مسکراتی سرمایہ داری (کینیشیئن پالیسیاں) کی جانب واپسی ہے۔
ذرا ان کی ڈھٹائی کا اندازہ لگائیے، یہ پھر بھی مارکس وادیوں پر یوٹوپیائی ہونے کا الزام لگاتے ہیں! جب حکومتیں وہ پیسہ، جو ان کے پاس کبھی تھا ہی نہیں، عوام کی ہڈیوں سے بھاری بھرکم ٹیکسوں اور خوفناک کٹوتیوں کے ذریعے نچوڑیں گی تو ان کا راگ ہی بدل جائے گا۔
اس دیو ہیکل مالیاتی بوجھ کا وزن آنے والے سالوں یا شاید دہائیوں محسوس ہوتا رہے گا اور اس وجہ سے کوئی خاص بحالی بھی ممکن نہیں ہو گی۔ اور جلد یا بدیر ہولناک خسارے تباہ کن افراطِ زر کو جنم دیں گے، قرضوں کی فراہمی کا دم گھٹ جائے گا، قرضے لینے کی سکت ختم ہو جائے گی اور ایک نیا انہدام نمودار ہو گا۔ مستقبل قریب کا یہی حقیقی تناظر ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب دنیا کے تمام ممالک میں طبقاتی جنگ کا آغاز ہے۔
حکمران طبقے کے سنجیدہ نمائندوں کو اس ساری صورتحال کا ادراک ہے جیسا کہ فنانشل ٹائمز 9 مارچ کو لکھتا ہے کہ:
”وباء کی قیمت ادا کرنے کا سوال انہی سوالوں کو پھر لاکھڑا کرے گا۔ جبری کٹوتیوں کی طرف واپسی پاگل پن ہو گا۔۔یہ اگر انقلاب نہیں تو کم از کم وسیع پیمانے پر سماجی بے چینی کو دعوت دینے کے مترادف اور پاپولسٹوں کے لیے غیبی امداد ثابت ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ۔۔ایک طویل عرصے میں۔۔مالیاتی بلوں کی ادائیگی کرنی ہو گی۔ لبرل جمہوریت کے پاس اس دوسرے خوفناک معاشی دھچکے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام تر اصلاحات ایک نئے عمرانی معاہدے کے تناظر میں کی جائیں جو اکثریت کی فلاح و بہبود کو اقلیت کے مفادات پر ترجیح کو تسلیم کرتا ہو۔“ (فنانشل ٹائمز 9مارچ 2020ء)
لیکن یہ معجزہ کیسے رونما ہو گا، فنانشل ٹائمز اس کی وضاحت نہیں کرتا۔ لیکن یہ تحریر آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمائے کے حکمت کار مارکس وادیوں کے اخذ کردہ نتائج تک پہنچ رہے ہیں۔ سرمایہ دار حکمران طبقہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے۔ انہیں نظر آ رہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انقلابی امکانات مضمر ہیں۔ اور وہ درست ہیں۔
’تباہی کی جانب لڑکھتے“
1938ء میں لیون ٹراٹسکی نے عالمی حکمران طبقے کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ ”آنکھیں موندے تباہی کی جانب لڑکھتے جارہے ہیں“۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ الفاظ آج لکھے گئے ہیں۔ کورونا وباء کی طرف حکمران طبقے اور اس کے وظیفہ خوار سیاست دانوں کا ردِ عمل ناگہانی خوف سے عبارت ہے۔
ماضی میں شدید بحران یا جنگی صورتحال میں بھی عوام کو کم از کم ایک احساس رہتا تھا کہ اگر ان کی حکومتیں صورتحال کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر پا رہیں تو بھی ان کے پاس اس بحران سے باہر نکلنے کا کوئی نا کوئی منصوبہ ضرور ہوگا۔
آج ایسا نہیں ہے۔ سرمائے کے بڑے بڑے جغادری اس وقت سکتے کے عالم میں ہیں۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ ذرائع ابلاغ اگر مکمل ہیجان میں نہیں تو کم از کم مسلسل پریشانی اور تذبذب کا آئینہ بنے ہوئے ہیں۔
دنیا اس وقت تاریخ کے شدید ترین بحران میں دھنستی چلی جا رہی ہے اور ماضی کی تمام معاشی کتب راتوں رات تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بن چکی ہیں۔ کمپنیاں مستقبل کی پیش بینی کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں، سرمایہ کاری مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور معیشت 1930ء کی دہائی کے بحران سے زیادہ تیزی سے ڈوب رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی معاشی پیش گوئیاں سب بیکار ہیں کیونکہ ابھی تک تو کسی کو یہی نہیں معلوم کہ موجودہ بحران کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
سیاست دانوں کے حوالے سے تو صورتحال اور بھی گھمبیر ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران۔ خیر یہ بالکل درست تو نہیں ہے لیکن یہ بات ضرور درست ہے کہ موجودہ بحران میں حکمران طبقے کے پاس وہی حکومت ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ، برطانیہ میں بورس جانسن اور برازیل میں بولسونارو سرمایہ داری کے تاریخی زوال کے عہد میں حکمران طبقے کی ذہنی اور اخلاقی تباہ حالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ اچھلتے کودتے اپنی عوام کو تباہی کے دہانے پر لے جاتے ہیں اور پھر وہاں سے دھکا دے دیتے ہیں۔ حکمران طبقہ شوروغوغا مچاتے صورتحال پر نالاں ہے لیکن کچھ کرنے سے عار ی ہے۔
امریکہ
اس زوال پذیری کی سب سے واضح تصویر دنیا کا امیر ترین ملک امریکہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو اس وقت شہنشاہ نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ اب ’شہنشاہ ٹرمپ‘ اپنے بدنامِ زمانہ پیر کی تقلید میں یہی کام کر رہا ہے اگرچہ اس نے اب منہ پر ماسک پہن لیا ہے۔۔کم از کم یہ تو کچھ بہتری ہے!
کروڑوں امریکیوں کو یا تو ملازمتوں سے برطرف یا جبری رخصت پر بھیجا جا چکا ہے۔ فاسٹ فوڈ اور ریٹیل سٹور کے ملازمین کم از کم اجرت کے لیے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ وباء بے قابو ہو چکی ہے جس سے کروڑوں لوگ بے جا تکلیف اور موت کا شکار ہیں۔
امریکہ میں بیروزگاری الاؤنس کے لئے موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد ناقابل تصور حد تک جاپہنچی ہے جو کہ ہوش ربا جبری برطرفیوں اور محنت کی سکڑتی منڈی کی غمازی کرتی ہیں۔
اچانک اور تیز تر انہدام نے کروڑوں امریکی محنت کشوں کے اوسان خطا کر کے رکھ دئیے ہیں۔ حکومت کی مالی امداد سے صورتحال عارضی طور پر مستحکم ہوئی لیکن وباء کے ہولناک نتائج مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
اور سب سے زیادہ تباہی کا شکار وہ پسماندہ علاقے ہیں جہاں زیادہ تر غیر سفید فام اور دیگر نسلی اقلیتوں کے غرباء رہ رہے ہیں جس کی وجہ سے نسل پرستانہ عدم مساوات کا دیرینہ مسئلہ اور بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔
بغاوت
کروڑوں غرباء بالخصوص سیاہ فاموں میں پنپتی بے چینی اور غصہ جارج فلوئیڈ کے بہیمانہ قتل پر آتش فشاں بن کر پھٹ پڑا۔ یہ تحریک آسمان سے نہیں گری۔ یہ دہائیوں کے ظلم و جبر، استحصال، غربت، تباہ حال رہائش، نسل پرستی اور پولیس گردی کا نتیجہ تھی۔
تاریخ دان اور رائس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈگلس برنکلے نے صورتحال کی خوبصورت وضاحت کرتے ہوئے کہا ”ہماری سماجی زندگی کا ہر تانا بانابکھر سکتا ہے کیونکہ ہر شخص کی زندگی جہنم ہو چکی ہے“۔
دہائیوں سے اس نوعیت کے قتل جاری و ساری ہیں، جس کا کبھی اس پیمانے پر ردِ عمل نہیں ہوا لیکن امریکہ کے کروڑوں غرباء کے لئے جارج فلوئیڈ کا قتل آخری تنکا ثابت ہوا۔ پولیس تشدد کے ہولناک مناظر بارود کی ڈھیری پر چنگاری ثابت ہوئے۔
منیاپولس میں شروع ہونے والی تحریک کے سامنے پولیس مشتعل مظاہرین کے آگے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گئی جنہوں نے ایک پولیس تھانے کو نذر آتش کر ڈالا۔ یہ مناظر ایک بغاوت کی تصویر تھے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم، حیران کن تیزی کے ساتھ واقعات کا رونما ہونا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا تھا جیسا کوئی خفیہ ہاتھ ہے جو امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہر شہر میں عوام کو احتجاجوں میں دھکیل رہا ہے۔ کم از کم 10 فیصد آبادی نے ان مظاہروں میں حصہ لیا اور اس سے زیادہ نے ان کی حمایت کی۔ حیران کن طور پر امریکیوں کی اکثریت (54 فیصد) کا کہنا تھا کہ منیاپولس میں تھانے کا جلایا جانا درست تھا۔ اس سے بھی زیاہ سیاسی اہمیت یہ ہے کہ 29 بندرگاہوں نے یکجہتی میں ہڑتال کی جبکہ کچھ شہروں میں بس ڈرائیوروں نے پولیس کی جانب سے گرفتار مظاہرین کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔
ریاست نے پوری قوت کے ساتھ ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھا دیے اور 200 شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا۔ لیکن مظاہرے کئی ہفتے چلتے رہے۔ یہ صورتحال آنے والے دنوں میں امریکی انقلاب کی نوید ہے۔
امریکی تاریخ کے حوالے سے یہ واقعات بے مثال ہیں۔ یہ تحریک حتمی طور پر ان مایوس عناصر کو منہ توڑ جواب ہے جو ہمیشہ محنت کش طبقے کی تحریک اور خاص طور پر امریکی محنت کش طبقے کے تحرک کو ناممکن قرار دیتے تھے۔
حکمران طبقے میں دراڑیں
کسی بھی انقلابی صوتحال کی سب سے پہلی علامت حکمران طبقے میں دراڑوں کا نمودار ہونا ہے۔ ٹرمپ فوج کو استعمال کر کے اس بغاوت کو کچلنا چاہتا تھا۔ لیکن اس ارادے پر فوجی افسران اوریہاں تک کہ کچھ ریپبلیکنز نے بغاوت کر دی۔
سی این این نے وزارتِ دفاع کے افسران کا حوالہ دیا جن کے مطابق صدر ٹرمپ کے امریکی شہروں میں فوج تعینات کرنے کے اعلان سے پہلے ہی پینٹاگون میں ”بڑھتا ہوا گہرا اضطراب“ موجود تھا۔ وال سٹریٹ جرنل نے سرخی شائع کی کہ ”فوجیں تعینات نہ کرو“۔ ان کے مطابق ”موجودہ صورتحال میں امریکی سڑکوں پر فوجیوں کی تعیناتی صورتحال کو مزید بھڑکا سکتی ہے“۔
بعد میں ٹرمپ نے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے کارندے بھیج کر پورٹ لینڈ میں احتجاجوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ جیسے وال سٹریٹ جرنل نے پیش گوئی کی تھی اس اقدام کے بعد تحریک اور بھی زیادہ شدت سے بھڑک اٹھی۔ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ بڑی کامیابی سے انقلاب کے تمام لوازمات پورے کر رہا ہے! یہاں ریاستی طاقت کی حدود واضح ہو جاتی ہیں۔ یہی آنے والے دنوں کی نوید ہے۔
خودرو تحریکوں کی محدودیت
1938ء میں لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ حتمی تجزیے میں انسانیت کا بحران محنت کش طبقے کی قیادت کا بحران ہے۔ ہمیں بغور ان الفاظ کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہاں یہ بات دہرانا غیر ضروری ہے کہ عوامی تحریک ہی انقلاب کی حقیقی قوتِ محرکہ ہوتی ہے۔ یہاں تک ہم انارکسٹوں سے متفق ہیں۔ لیکن جہاں ان کے اخذ کردہ نتائج ختم ہوتے ہیں انقلاب کے حقیقی مسائل وہاں سے جنم لیتے ہیں۔
امریکی واقعات کیا وضاحت کرتے ہیں؟ ان واقعات نے عوام کی دیو ہیکل قوت کو عیاں کیا ہے۔ ہمیں ادراک ہوا ہے کہ سماج میں ایک ایسی قوت موجود ہے جو کسی بھی ریاست، فوج یا پولیس سے زیادہ طاقت ور ہے۔ ہاں یہ سو فیصد درست ہے۔ عوام کا خودرو تحرک سوشلسٹ انقلاب کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنے تئیں اور اپنے اندر ہی کامیابی کی ضمانت نہیں۔
جس طرح بھاپ میں دیو ہیکل قوت ہوتی ہے۔ یہ وہ قوت ہے جس نے صنعتی انقلاب برپا کر دیا اور آج بھی معاشی زندگی میں اس کا کلیدی کردار ہے۔ لیکن بھاپ اس وقت تک ایک دیو ہیکل قوت ہے جب تک وہ ایک پسٹن باکس میں مقید ہے جو اس کی قوت کو مجتمع کرتے ہوئے ہزاروں گنا بڑھا دیتا ہے۔ اس کے بغیر بھاپ کسی فائدے یا نقصان کے بغیر محض ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔
یہی صورتحال انقلاب کی ہے۔ (انقلاب کے لیے درکار) لازمی تنظیم اور قیادت کے بغیر محنت کش طبقے کی دیو ہیکل قوت صرف ایک امکان ہے، حقیقی قوت نہیں۔
جنگوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں بہادر فوجیوں کی ایک بڑی فوج کو کس طرح ایک چھوٹی منظم فوج نے شکست فاش سے دوچار کیا جس کی قیادت تجربہ کار افسران کر رہے تھے۔ اور طبقاتی جنگ کی قوموں کے درمیان جنگ سے کافی مماثلت ہے۔
ہم نے امریکہ میں دیکھا کہ عوامی بغاوت کے سامنے ریاستی قوت کتنی محدود ہو جاتی ہے۔ عوام کا خودرو تحرک سوشلسٹ انقلاب کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنے تئیں اور اپنے اندر ہی کامیابی کی ضمانت نہیں۔ کسی (لازمی) چیز کی کمی تھی اور وہ تھی ایک تنظیم اور ایک ایسی قیادت جس میں آگے کا راستہ دکھانے کی اہلیت موجود ہوتی۔
ضروری تنظیم اور قیادت کے بغیر احتجاجوں کا جلد یا بدیر ختم ہو جانا ناگزیر تھا۔ لیکن حیرانی یہ ہے کہ یہ احتجاج پھر بھی اتنی دیر چلتے رہے۔ کیا یہ ایک انقلاب تھا؟ یقینا یہ ایک انقلاب نہیں تھا۔ لیکن اسے مستقبل میں ایک انقلاب کی تیاری کے طور پر ضرور دیکھنا چاہیے۔
کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا
امریکہ میں شعور میں ایک دیو ہیکل تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ رائے شماریوں میں سوشلزم کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 67 فیصد نوجوان ایک سوشلسٹ صدر کے لئے ووٹ دینے کو تیار ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ ہے کہ 65 سال کی عمر سے زائد 30 فیصد افراد کو بھی اگر موقع ملا تو وہ یہی کریں گے۔ لیکن یہ موقع نہیں دیا گیا۔
کروڑوں افراد کے دلوں کی دھڑکن بننے کے باوجود برنی سینڈرز نے فیصلہ کن لمحات میں بطور سوشلسٹ قائم رہنے سے انکار کر دیا حالانکہ ایک نئی پارٹی کے قیام کی بہت زیادہ حمایت موجود تھی۔ اس کے برعکس اس نے جو بائڈن کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا اور منطق یہ پیش کی کہ ٹرمپ کو شکست دینا انتہائی ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے لئے یہ دلیل کافی ہے جو ٹرمپ سے جان چھڑانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ لیکن کئی افراد نے نفرت و مایوسی میں منہ موڑ لیا۔
انتخابات نومبر میں ہوں گے اور اب سے لے کر تب تک بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن بہرحال انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ ٹرمپ نے ”امن و امان“ کا پتہ کھیلنے کی کوشش کی لیکن اس کا بھیانک نتیجہ نکلا۔ اب وہ مسلسل ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ پوسٹل بیلٹ انتخابات میں دھاندلی کی راہ ہموارکرے گا۔ اس سے صاف واضح ہے کہ اسے شکست کا خوف لاحق ہے۔ رائے شماریوں کے مطابق بھی وہ تیزی سے عوام میں اپنی حمایت کھو رہا ہے۔ تاہم اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ وہ واقعی ہار جائے گا۔
کئی لوگوں نے درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کے درمیان آپشن کوئی آپشن نہیں۔ اور اس کے ساتھ سوشلزم یہاں تک کہ کمیونزم میں دلچسپی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا عکس ہمارے امریکی سیکشن کی تیز تر بڑھوتری میں ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ پورے ملک میں DSA کی ممبر شپ میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اندرونی اعدادوشمار کے مطابق مارچ سے لے کر اب تک 10 ہزار نئی ممبرشپ کے ساتھ DSA کی کل ممبرشپ 66 ہزار ہو چکی ہے۔
ایک بات واضح ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگلے سال وائٹ ہاؤس میں کون ہو گا کیونکہ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ امریکہ ایک پر انتشار دور میں داخل ہو رہا ہے۔ کئی فتوحات اور کئی شکستیں ہوں گی۔ لیکن ایک پورے دور کے لئے پنڈولم کا جھکاؤ واضح طور پر بائیں بازو کی جانب ہوگا۔
جدلیات کی ضرورت
صرف مارکسی جدلیاتی میتھڈ کے ذریعے ہی سطح (نام نہاد حقائق) سے نیچے پنپتے سست رو عوامل کی پختگی کا عمیق مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
سطحی تجربیت پسند اور تاثر پسند مشاہدین ان تحریکوں سے حیران پریشان تھے کیونکہ ان کے لئے یہ تحریکیں اچانک ہی آسمان سے بجلی کی مانند نمودار ہوئی تھیں۔ لیکن حالیہ سماجی ابھار عدم سے وجود میں نہیں آئے۔ یہ پچھلے پورے عہد میں پک کر تیار ہوئے ہیں۔
جدلیاتی سوچ کی عدم موجودگی ہی وہ واحد وجہ ہے جس نے سرمائے کے بڑے بڑے سورما منصوبہ سازوں کو موجودہ بحران کی تشریح یا اس کا حل پیش کرنے کے حوالے سے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق درمیانے طبقے اور دانشوروں پر بھی ہوتا ہے جو ما بعدجدیدیت کی غلیظ لعنت کے زیرِ اثر شدید مایوسی کا شکار ہو کر ترقی کے کسی بھی امکان کو رد کر دیتے ہیں کیونکہ سرمایہ داری میں ترقی منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔
جدلیاتی طور، پر جلد یا بدیر ہر عمل اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کا شعوری سفر ایک سیدھی لکیر میں نہیں ہوتا۔ ایک طویل عرصے تک یہ واقعات کے پیچھے لڑکھڑاتا رہتا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر یہ ایک معیاری جست کے ساتھ واقعات سے آ ٹکراتا ہے۔ آج یہی عمل پوری دنیا میں کارفرما ہے۔
پچھلے سال سوڈان، لبنان، عراق، ایکواڈور، چلی وغیرہ میں شروع ہونے والی انقلابی تحریکیں ہمیں یاد ہیں۔ سب سے بڑھ کر ریڈیکلائزیشن کا عمل عوامی شعور میں تیز تر تبدیلی کی عکاسی کر رہا ہے۔
شعور کیسے تبدیل ہوتا ہے
ماضی میں ہم جس پچھڑے ہوئے شعور کی نشاندہی کرتے تھے، اب اس کی جگہ تند وتیز عوامی دھماکوں نے لے لی ہے۔ ہر جگہ موجودہ نظام کے خلاف غم و غصہ، نفرت اور عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔
مختلف ممالک میں اس کا اظہار مختلف انداز سے ہو رہا ہے۔ لیکن ہر جگہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تحرک میں اترے ہوئے عوام، محنت کش اور نوجوان پرانے نظام کو للکار رہے ہیں اور اس کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ محض اس وقت رونما ہونے والے واقعات کی نشاندہی اس عمل کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔
یہاں ہم دو انتہائی اہم مثالیں لیتے ہیں۔۔۔اسرائیل اور لبنان۔ اگر دنیا میں کوئی ایسا ملک تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں طبقاتی جدوجہد مر چکی ہے تو وہ اسرائیل تھا۔ زیادہ تر لوگوں کو لگتا تھا کہ صورتحال نیتن یاہو کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ لیکن اب بحران اسرائیل کو گرفت میں لے چکا ہے، معیارِ زندگی تیزی سے گر رہا ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ اور عوام سڑکوں پر آ کر نیتن یاہو حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لبنان میں اس سے بھی بڑی مثال موجود ہے۔ پچھلے سال کے اختتام پر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والی انقلابی تحریک کے بعد، بیروت بندرگاہ میں ہونے والے ہولناک دھماکے نے، جس میں پورا شہر برباد ہو گیا اور 3 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے، اب ایک نئی اور پہلے سے بھی زیادہ شدید انقلابی تحریک کو جنم دیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب فرقہ ورانہ تقسیم کے پیشِ نظر لبنان میں ایسی کسی تحریک کا تصور بھی محال دکھائی دیتا تھا۔ لیکن اب ہم لبنانی انقلاب میں ایک دیوہیکل ابھار دیکھ رہے ہیں، جس میں محنت کش طبقے کے تمام حصے جدوجہد میں متحد ہیں۔
عوامی غم و غصے کے یہ دھماکے عدم سے وجود میں نہیں آئے۔ یہ پچھلے پورے ایک عہد میں پک کر تیار ہوئے ہیں جس میں خاص طور پر پچھلے دس سالوں کی جبری کٹوتیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
بیلاروس اور روس
بیلاروس میں بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ڈرامائی تبدیلی رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہے جہاں لوکاشینکو کے خلاف ابھرنے والی احتجاجی تحریک ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس تحریک کا کردار متضاد اور متذبذب ہے۔
پیٹی بورژوا قیادت بیلاروس میں نجکاری کے عمل کو مزید تیز کرتے ہوئے یورپی یونین کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کا ایک اہم قوت کے طور پر ابھار اور عام ہڑتال کی کال کے بعد محنت کش طبقہ اس ساری صورتحال میں ایک اہم عنصر کے طور پر موجود ہے۔ قومی صنعتوں کے مزدور نجکاری اور منڈی کی معیشت کے لیے لبرل گرمجوشی سے بالکل متفق نہیں ہیں۔
بیلا روس میں صورتحال یوکرائن سے مختلف ہے جہاں تحریک میں شدت پسند قوم پرست اور فسطائیوں کا اثرورسوخ بہت زیادہ تھا۔ یہاں عوام میں کوئی خاص روس مخالف جذبات موجود نہیں ہیں۔ بیلاروس، روس کے ساتھ معاشی، لسانی اور تاریخی طور پر اتنا جڑا ہوا ہے کہ ماسکو سے منہ موڑ کر مغرب کی طرف مائل ہونے کی کوئی خاص امید موجود نہیں۔
یہ پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کہ موجودہ تحریک کا انجام کیا ہو گا۔ پیوٹن رونما ہوتے واقعات کا پریشانی سے مشاہدہ کر رہا ہو گا۔ لیکن بیلاروس میں پیوٹن کے پاس محدود آپشن ہیں۔ فوجی مداخلت پاگل پن ہو گا۔ اس سے عوام میں روس مخالف جذبات بھڑک سکتے ہیں جس سے ان کا جھکاؤ مغرب کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال، اس کے بالکل بر عکس، پیوٹن کا لوکاشینکو کو بچانے کا کوئی خاص موڈ نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماسکو میں بیٹھے حکمران منسک میں بیوروکریٹوں کے ساتھ مل کر پوری کوشش کر رہے ہوں گے کہ کسی ایک موزوں ”اصلاح پسند“ کو سامنے لا کر بدنام لوکاشینکو سے جان چھڑائی جائے اور ماسکو کے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی معاہدے تک پہنچا جائے۔ کیا ایسی کوئی چالبازی کامیاب ہو گی، اس کا انحصار تحریک کے ارتقاء پر ہے۔
بیلاروس کی تحریک کے روس پر سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔ پیوٹن کو درست طور پر خوف ہے کہ ایسی ہی کوئی تحریک روس میں پھٹ سکتی ہے۔ خباروفسک میں رونما ہونے والے واقعات واضح اشارہ ہیں کہ یہ خوف بے بنیاد نہیں۔ لبرل حزبِ مخالف نوالنی کو زہر دینا اسی خوف کی عکاسی ہو سکتا ہے۔ بہرحال روس میں پنپنے والے تمام تضادات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دھماکہ خیز صورتحال پک کر تیار ہوچکی ہے۔
یورپ
موجودہ دور کی غالب خصوصیت عالمی تعاون کے برعکس قوم پرستی ہے۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ دارانہ حکمران طبقے کی دہائیوں محنت سے وضع کردہ عالمی تجارتی نظام کے لئے موت کا پیغام ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ اس عمل کا ایک اظہار ہے۔ لیکن یورپ اور امریکہ کے درمیان بھی ایک تجارتی جنگ چل رہی ہے۔ اور یورپی ممالک کے درمیان بھی خوفناک تضادات مسلسل جنم لے رہے ہیں۔
ہم نے بہت عرصہ قبل اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ یورپی بورژوازی کچھ وقت کے لیے تو اتحادبرقرار رکھ سکتی ہے مگر ایک گہرے بحران کی صورتحال میں یہ تمام تر عمل اپنے الٹ میں بدل جائے گا۔ اب یہی صورتحال ہے۔
جرمنی
جرمنی یورپی معیشت کا کلیدی انجن تھا لیکن اب بحران نے اسے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کی بنیادی طاقت بر آمدات ہیں۔ لیکن اب یہی قوت سب سے بڑی کمزوری بن چکی ہے۔ چین میں سست روی اور باقی یورپ میں بحران سے برآمدات اور خاص طور پر کار سازی صنعت میں شدید گراوٹ آئی ہے۔
پہلے ہی 2019ء کی آخری سہ ماہی میں جرمن جی ڈی پی گراؤٹ کا شکار تھا۔ اب پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ جرمنی کا جی ڈی پی امریکہ سے بھی زیادہ گرے گا کیونکہ اس کاتقریباً سارا دارومدار برآمدات پر ہے۔ کار سازی صنعت میں زائد پیداوار کا بحران ہے جس سے فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، برطرفیاں کی جا رہی ہیں اور معیشت کے دیگر سیکٹروں میں نوکریوں کی تباہی جاری ہے۔ تیس لاکھ افراد بیروزگار ہیں اور ان میں چھوٹا موٹا کاروبا ر کرنے والے یا طلبہ شامل نہیں۔
اس ساری صوتحال نے یورپی یونین کا شیرازہ بکھیرتے تضادات کو ننگا کر دیا ہے۔
تقسیم کا شکار یورپی یونین
مشرقی یورپی ریاستوں کے ساتھ خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔ برسلز میں بیٹھے بہت سارے افراد کا خیال ہے کہ پولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک کو اسی وقت پیسہ ملنا چاہیے جب وہ عدالتی اصلاحات کی پالیسیاں ترک کر دیں کیونکہ یہ قانون کی بالادستی کے خلاف ہے۔
لیکن اس وقت سب سے زیادہ تقسیم وباء کا بدترین نشانہ بنے والے ممالک۔۔جیسے اٹلی اور اسپین۔۔اور کچھ یورپی یونین ممبران کے درمیان ہے جو اپنا پیسہ دبائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اٹلی خاص طور پر شدید متاثر ہے اور اب تک وہاں 35 ہزار اموات ریکارڈ کی جا چکی ہیں جو دنیا میں سب سے بلند شرح میں سے ایک ہے۔ یہ تناؤ حالیہ یورپی یونین قائدین کی میٹنگ میں بھی واضح تھا جب ایک سٹیمولس پیکج (Stimulus Package) اور یورپی یونین کے سات سالہ 1 ٹریلین یورو بجٹ کے حوالے سے مذاکرات کئے جا رہے تھے تاکہ ممبر ممالک وباء کے اثرات سے باہر نکل سکیں۔
سویڈن، ڈنمارک، آسٹریا، ہالینڈ اور فن لینڈ بضد تھے کہ سب سے زیادہ متاثر ممالک کو 500 ارب یورو گرانٹ کی شکل میں نہ دیے جائیں۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ پیکج بہت زیادہ فراخدلانہ ہے اور ویسے بھی محض مفت میں پیسے حوالے کرنے کے بجائے قرضہ دینا چاہیے۔ یہ نام نہاد قائدین، جن میں سے اکثر سوشل ڈیموکریٹس تھے، مچھلی منڈی میں کھڑے بیوپاریوں کی طرح لڑ جھگڑ رہے تھے۔
اشتعال انگیز اور طویل میٹنگ کے بعد جس میں یورپی قائدین ایک دوسرے کی بے عزتی کرتے رہے اور میکرون ٹیبل بجا بجا کر مذاکرات سے واک آؤٹ کی دھمکیاں دیتا رہا، بالآخر ایک ڈیل تک پہنچ گئے۔ ان کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں یورپی یکجہتی کا روشن خیال خاکستر ہو گیا۔
اٹلی
اس سارے جھگڑے کا مرکز اطالوی سوال تھا۔ کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صوررت میں اٹلی میں مخلوط حکومت کا تختہ دھڑن ہو نے کے ساتھ ساوینی اور یورپ مخالف لیگ کے ابھار کے واضح امکانات تھے۔
یورپی بحران کا مرکز یونان سے اب اٹلی منتقل ہو چکا ہے۔ یہ یورپی سرمایہ داری کی سب سے کمزور کڑی ہے۔ اٹلی کا بحران یورپی یونین کے مستقبل کے لئے یونان سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ یونان ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اٹلی ایک بڑی معیشت ہے جس کا یورپی یونین کے جی ڈی پی میں 11 فیصد حصہ ہے۔ 2500 بلین یورو کا دیو ہیکل اطالوی قرضہ یورپی فنانس کو برباد کرتے ہوئے خود یورپی یونین کو خاک میں ملا سکتا ہے۔ اس لئے مرکل بہت محتاط ہے۔ وہ اٹلی کے ساتھ وہ سب کچھ نہیں کر سکتی جو یونان کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اسے مجبوراً اپنا لہجہ تبدیل کرنا پڑا۔ فرانسیسی صدر کے غصے کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی مسئلہ تھا۔
کورونا وباء نے اطالوی سرمایہ داری کی شدید کمزوری کو ننگا اور حکومتی نااہلی اور کرپشن کو واضح کر دیا ہے۔ اٹلی کا شمالی علاقہ کورونا وباء سے بری طرح متاثر ہوا جس کا اطالوی جی ڈی پی میں 50 فیصد حصہ ہے۔ لیکن ایک زمانے میں یہ خوشحال علاقہ اس وقت موت اور تباہی کا ایسا منظر بنا ہوا ہے جو عام طور پر تیسری دنیا کے غریب ممالک کا مقدر ہے۔
کورونا بحران پر حکومتی ردعمل نے نے عوام میں شدید غم و غصے کو بھڑکا دیا۔ مزدوروں کو روزانہ بشمول ہفتے کے دن 12 سے14 گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا گیا اور وہ بھی بغیر کسی اضافی تنخواہ کے۔ سب سے زیادہ پرخطر حالات میں شعبہئ صحت کے ملازمین تھے۔ یہ سب مزدوروں کی جان اور صحت کی جانب مالکان کی بے حسی اورلاپرواہی کو عیاں کرتا ہے۔
شعور میں برپا ہونے والی تندو تیز اور اچانک تبدیلیوں کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ ریڈیکلائز ہو چکے ہیں اور جدوجہد کے لئے تیار ہیں۔ غیر اعلانیہ ہڑتالوں کی ایک لہر نیچے سے اٹھی لیکن اصلاح پسندوں اور یونین قیادت نے پوری کوشش کر کے تحریک کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ مالکان کے جارحانہ رویے کے باوجود یونین قیادت ایک نیا سماجی معاہدہ تلاش کرنے کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ اس کے لئے درکار موافق حالات ہی موجود نہیں۔
یہ تضاد تیزی سے یونین قیادت کی ساکھ کو مجروح کر رہا ہے جس کا مطلب آنے والے دور میں زیادہ شدید سماجی دھماکے ہیں۔ صورتحال پک کر تیا ر ہوچکی ہے اور 1970ء کی دہائی سے بھی کہیں بڑے پیمانے پر طبقاتی جدوجہد کے دھماکے دیکھنے کو ملیں گے۔ یورپ کے تناظر میں اس کے سنجیدہ مضمرات ہیں۔
اگلی باری۔۔فرانس
اگرچہ اس وقت اٹلی سب سے زیادہ بحران کا شکار ہے لیکن خود فرانس کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اس وجہ سے ایمانوئل میکرون شمالی یورپیوں کی ہٹ دھرمی سے شدید نالاں تھا۔ خبر آئی کہ وہ غصے میں میز پر ہاتھ مارتا رہا اور مذاکرات چھوڑ جانے کی دھمکیاں بھی دیتا رہا۔ اس نے الزام لگایا کہ ”چارکنجوس“ پورے یورپ کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ اس کے علاوہ اور ”کوئی متبادل نہیں“ کہ ایک فنڈ قائم کیا جائے جس کے ذریعے ”مشترکہ قرضے جاری کئے جائیں جن کی مشترکہ گارنٹی ہو“تاکہ ممبر ریاستوں کی معیشت کے حجم کے بجائے ان کی ضروریات کے مطابق مالیاتی امداد کی جا سکے۔ لیکن جرمنی اور ہالینڈ اس تجویز کے مخالف تھے۔
فرانسیسی وزیر خزانہ برونو لا میئر نے درپیش چیلنج کو واضح طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ:
”یا تویورو زون معاشی بحران کا متحد ہوکر مقابلہ کرتے ہوئے زیادہ مضبوط بن کے ابھرے گا یا پھر آپسی اختلافات میں اس کے تحلیل ہونے کا خطرہ موجود ہے“۔ (فنانشل ٹائمز 23مارچ 2020ء)
لیکن یورپ کا ردعمل کسی طور متحد نہیں۔ اس کے برعکس معاشی بحران نے قومی تضادات کو شدید کر دیا ہے اور مختلف ممالک کے حکمران طبقات مختلف راستوں پر چل رہے ہیں۔ بریگزٹ، یونین کا شیرازہ بکھرنے کا آغاز تھا اور اب ایک کے بعد دوسرا بڑا بحران نمودار ہوتا رہے گا۔
برطانیہ
بریگزٹ کا فوری اثر یورپ کے لئے تباہ کن اور برطانیہ کے لیے قیامت خیز ہو گا۔ یورپی یونین سے اخراج کے بعد برطانوی حکمران طبقے کو ناقابل تصور صورتحال کا سامنا ہوگا۔ گھٹیا قوم پرستانہ سراب کی حقیقت عیاں ہوجائے گی جو کہ اپنی بنیاد میں ہی ایک دھوکہ تھا۔ برطانیہ کا کردار یورپ کے ساحل سے پرے واقع ایک غیر اہم جزیرے جتنا رہ جائے گا۔ امریکہ کے ساتھ مشہورِ زمانہ ”خاص تعلق“ مالک اور غلام کے درمیان ذلت آمیز تعلق کے طور پر واضح ہو جائے گا۔ ماضی کی شان و شوکت ریت کے کسی گھروندے کی مانند ڈھے جائے گی۔
فنانشل ٹائمز میں مارٹن وولف لکھتا ہے کہ:
”ایک ’عالمی برطانیہ‘ کا آغاز نہیں ہو گا بلکہ ایک ایسا ملک سامنے آئے گا جو زیادہ طاقتور تجارتی قوتوں سے چند ٹکڑوں کی بھیک مانگے گا جو خود شدید لڑائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں“۔ (فنانشل ٹائمز21 مئی 2020ء)
ابھی سے قومی تضادات برطانیہ کے تانے بانے کو چاک کر رہے ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں ٹوری حکومت سے نفرت میں اضافے کے ساتھ آزادی کی حمایت میں 7-9 فیصد بڑھوتری ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بورس جانسن ’برطانیہ عظمیٰ‘ کی بجائے ’لٹل انگلینڈ‘ کا وزیر اعظم بن کر رہ جائے۔
چین
ماضی قریب میں چین، عالمی معیشت کو آگے دھکیلنے میں انجن کا کردار ادا کر رہا تھا۔ لیکن جدلیاتی طور پر ہر چیز اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ چین اب مسئلے کے حل کے بجائے بذات خود مسئلے کا حصہ بن چکا ہے۔ چین نے کامیابی سے ایک وسیع صنعتی بنیاد تعمیر کی جو کہ دیو ہیکل پیداواری صلاحیت کی حامل ہے۔ لیکن اندرونی منڈی اس دیوہیکل پیداواری قوت کو جذب نہیں کر سکتی۔ چین کی بقا برآمدات کے ساتھ جڑی ہے۔ لیکن برآمدات کی میدان میں کامیابی نے نا صرف حریف امریکہ بلکہ یورپ کی جانب سے بھی شدید ردعمل کو جنم دیا۔
موجودہ بحران سے پہلے ہی چین کی معیشت سست روی کا شکار ہو رہی تھی لیکن بحران نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا۔ JP Morgan Chase کی پیش گوئی تھی کہ پچھلے تین مہینوں کے مقابلے میں پہلی سہ ماہی میں چینی جی ڈی پی میں 40 فیصد گراوٹ ہو گی جو پچھلے 50 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
حالیہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بیروزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے جو 1990ء کی دہائی میں اعدادوشمار کا ریکارڈ شروع کرنے کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ اعدادوشمار بھی بحران کی شدت کی درست تصویر کشی نہیں کرتے کیونکہ ان میں مہاجرمحنت کشوں کو شمار ہی نہیں کیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ شی جن پنگ اپنی آمرانہ قوتوں میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے ہانگ کانگ تحریک کو کچلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہ اقدامات آنے والے دنوں میں چین میں پنپتی طبقاتی جنگ کی تیاریاں ہیں۔
”لامتناہی دہشت“
لینن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سرمایہ داری لامتناہی دہشت ہے۔ اب ہمیں اس بات کی حقیقت واضح نظر آ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ساڑھے 26 کروڑ سے زائد افراد شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کورنا وباء کے سماجی اثرات بدتر ہیں لیکن غریب ممالک کو اس وقت تباہی کا سامنا ہے۔
امریکہ جیسے امیر ترین ملک میں بھی وباء کے سماج کی غریب ترین پرتوں پر خوفناک اثرات پڑ رہے ہیں۔ لیکن انسانیت کی بھاری اکثریت کے لئے یہ بحران ایک اور ہی سطح پر بربادی پھیلا رہا ہے۔
کورونا وباء نے انتہائی خوفناک انداز میں عالمی طور پر عدم مساوات کو ننگا کر دیا ہے۔ اس سیارے پر ہر د و میں سے ایک انسان محض زندہ رہنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر جدوجہد کر رہا ہے۔ آدھی آبادی کو بنیادی سہولیات صحت میسر نہیں۔ غربت میں بیماری، موت کا پیغام ہے۔ پوری دنیا میں 2 ارب افراد غیر رسمی سیکٹر میں کام کرتے ہیں جس میں بیماری میں تنخواہ کے ساتھ رخصتی کا کوئی تصور نہیں اور ان میں سے اکثریت غریب ممالک میں رہائش پذیر ہے۔
وباء کے سب سے زیادہ خوفناک اثرات غرباء، اجرتی اور غیر رسمی مزدوروں پر پڑ رہے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے جن کے پاس مالی یا سماجی تحفظ موجود نہیں۔ کروڑوں افراد قاتل وائرس کی موجودگی میں نوکریوں پر جانے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ بغیر تنخواہ کے مہنگی اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروریات زندگی پوری نہیں کر سکتے۔ ان ممالک میں عوام کی اکثریت کچی آبادیوں یا جھگیوں میں رہتی ہے جو گنجان آباد اور بنیادی سہولیات سے عاری ہیں۔ جب 250 افراد ایک پانی کا نلکا استعمال کرنے پر مجبور ہیں تو ان سے سماجی تفاصل، ہاتھوں کو بار بار دھونا اور وائرس کی بڑھوتری روکنے کے لئے کھوج لگانے کے مطالبات کیسے کئے جا سکتے ہیں؟
لیکن وباء کے تباہ کن حملے کے خلاف اپنے شعبہ صحت میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ان ممالک نے اپنے قیمتی وسائل، قرضے اتارنے کے لئے استعمال کئے۔ 2020ء میں 77 غریب ترین ممالک نے کم ازکم 40 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں۔ یعنی آدھی دنیا وباء کے حملوں میں بدحال ہے اور کروڑوں لوگوں کو بھوک یا بیماری سے موت کا سامنا ہے لیکن خون آشام سامراجی مسلسل خون چوس رہے ہیں۔
افریقہ
براعظم افریقہ میں جنوبی افریقہ وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، جہاں ایک دن میں مثبت کیسوں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مصر میں مئی سے وباء کی زد میں آنے والے متاثرین میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے۔ لیسوتھو اور نمیبیا میں بھی حالیہ دنوں میں متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔
نائجیریا کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے جو براعظم پر سب سے زیادہ کیسوں کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ سب سے زیادہ اموات چاڈ، سوڈان، نائجر، لائبیریا اور برکینا فاسو میں ہو رہی ہیں۔ ملاوی میں 1.8 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 25 انتہائی نگہداشت بستر اور 16 وینٹی لیٹر موجود ہیں۔ زیمبیا میں 12 ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔
کئی ممالک میں منڈیاں برباد ہو چکی ہیں اور لاک ڈاؤن کے اقدامات سے اجرتوں میں شدید کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کروڑوں مزدوروں کو بغیر اجرت کے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ کم ترین اجرتوں اور غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے محنت کش اپنے آپ کو وائرس سے بچانے کے لئے قرنطینہ نہیں ہو سکتے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افریقہ میں آدھی سے زیادہ نوکریاں خطرے میں ہیں۔
انڈیا اور پاکستان
کورونا وباء کے پاکستان پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن انڈیا میں صورتحال انتہائی بھیانک ہو چکی ہے۔ وباء کے پھیلاؤ اور اموات کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداوشمار کے مطابق تا دم تحریر 20 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ یقینا اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ انڈیا ابھی بھی وبائی پھیلاؤ کی انتہا سے مہینوں دور ہے حالانکہ یہ ملک متاثرین کے حوالے سے پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ممبئی اور بنگلور جیسے شہروں سمیت ہر جگہ ہسپتال مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے وباء کا مسئلہ ”حل“ کرنے کے لئے دہلی، ممبئی اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر رہنے والے کروڑوں افراد کو شہر بدر کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وباء دیگر صوبوں اور دیہاتوں تک پھیل گئی جہاں صحت کی بنیادی ترین سہولیات بھی موجود نہیں۔ ان اقدامات کی انسانی قیمت یقینا دل دہلا دے گی۔
انڈیا کی 47.1 کروڑ لیبر فورس میں سے صرف 9 فیصد کے پاس سوشل سکیورٹی ہے، 90 فیصد کے پاس کوئی کنٹریکٹ نہیں اور 13.9 کروڑ تارکینِ وطن مزدور ہیں۔ ان میں سے کئی اپنے دیہات واپس جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ مخدوش صورتحال 1947ء کے خونی بٹوارے کے بعد پہلے مرتبہ دیکھی جار ہی ہے۔ مودی اور اس کے ہندو انتہا پسند غنڈے اس بحران سے توجہ ہٹانے کے لئے ہندو شاونزم اور فرقہ پرستی کو ہو ا د رہے ہیں جس سے انڈیا کی سسکتی بلکتی عوام کی مشکلات اور بربادی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ مودی کے کشمیر میں ہولناک مظالم اور پاکستان کے ساتھ چپقلش سے جی نہیں بھرا اور اب اس نے چین کے ساتھ ایک محدود سرحدی جنگ شروع کر دی ہے جس کا نتیجہ شرمناک رسوائی ہو گا۔
لاطینی امریکہ
لاطینی امریکہ میں کورونا وائرس وباء نے خوفناک شکل اختیار کرلی ہے۔ برازیل، چلی، ایکواڈور اور پیرو جیسے ممالک میں یہ وائرس بے قابو ہو چکا ہے۔ ایکواڈور کے کچھ شہروں میں قبرستان بھر چکے ہیں اور اب لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوئی ہیں۔
دائیں بازو کی حکومتیں ثابت کر چکی ہیں کہ عوامی زندگیوں کو لاحق اس جان لیوا خطرے سے مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہیں۔ اس کے برعکس وہ انتہائی سفاکی اور غیر ذمہ داری سے اس بحران میں ہزاروں گنا اضافہ کر رہے ہیں۔ لیکن لاطینی امریکہ میں موڈ امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات کے زیرِ اثر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
عوامی احتجاجوں اوربلیک لائیوز میٹر تحریک نے لاطینی امریکی عوام کو بہت زیادہ ہمت و حوصلہ دیا ہے جن میں سے اکثریت کو یقین ہی نہیں تھا کی سامراج کی کوکھ میں اتنی دیو ہیکل تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ عوام جدوجہد کے لئے تیار ہے۔ لیکن ایک مرتبہ پھر قیادت کا فقدان ہے۔
برازیل اور چلی
برازیل میں بولسونارو کی انتخابی فتح کے بعد فسطائیت کے غلبے سے متعلق نام نہاد بائیں بازو اور فرقہ پرستوں کے بیوقوفانہ ہیجان کے برعکس بولسونارو کی حمایت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس کی پارٹی میں شدید دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ برازیل میں تقریباً 40 لاکھ افراد وباء کا شکار ہو چکے ہیں جن میں صدر بھی شامل ہے اگرچہ اس خبر پر اس کے لئے پورے ملک میں ایک آنسو کا قطرہ نہیں گرا۔ اس کو ملک کے بہترین ڈاکٹر میسر ہیں۔ لیکن برازیل کی اکثریت غریب عوام کے لئے یہ بیماری موت کا پیغام ہے۔
کورونا وائرس بحرا ن کی وجہ سے عوامی تحریک تعطل کا شکار ہے لیکن سطح سے نیچے حکومت کے خلاف دیو ہیکل غم و غصے کے طوفان پنپ رہے ہیں اور جس لمحے لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی یہ طوفان پوری قوت کے ساتھ پھٹیں گے۔
برازیل کی صورتحال سب پر واضح ہے۔ لیکن چلی میں بھی ریاست کے حالات کچھ بہتر نہیں۔ پنیرا کی دائیں بازو کی حکومت کے سائے میں ایک قومی بربادی نے جنم لیا ہے۔ 2019ء خزاں میں چلی میں عوامی بغاوت عروج پر تھی اور اب ایک نئی تحریک جنم لے رہی ہے جس کی توجہ کا مرکز نجی پنشن سروس ہے۔۔پینوشے آمریت کی میراث۔ عوام کو اس وقت زندہ رہنے کے لئے پیسوں کی اشد ضرورت ہے اور وہ نجی AFP سے پیسے نکالنے کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
حکومت اس دباؤ کو برداشت کر رہی ہے لیکن پارلیمنٹ میں اسے دو مرتبہ شکست ہو چکی ہے۔ ایک نئی تحریک آسانی سے حکومت ختم کر سکتی ہے۔ اس شرمناک اسکینڈل کے خلاف حال ہی میں بندرگاہ کے مزدوروں نے ایک ہڑتال کی ہے۔ اب کان کن ہڑتال کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ پنیرا حکومت کو AFP پر گھٹنے ٹیکنے پڑے اور عوام کو اپنے پیسوں کا 10 فیصد نکالنے کا حق دے دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کتنی کمزور ہے۔ حکومت اس وجہ سے قائم ہے کیونکہ پارلیمانی بایاں بازو اور ٹریڈ یونین قیادت سمجھوتے کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی ایک بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو سکا اور نئے سماجی دھماکے افق پر منڈلا رہے ہیں۔
اصلاح پسندی کا بحران
پوری صورتحال انقلابی امکانات سے لبریز ہے۔ اس کی عکاسی سماج کی ایک وسیع پرت، بالخصوص نوجوانوں کی ریڈیکلائزیشن میں ہوتی نظر آتی ہے۔ سرمائے کے حکمت کار، اس رجحان کا انتہائی پریشانی سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ فنانشل ٹائمز نے تبصرہ کیا کہ:
”معاشی بحران نے میلینیئلز (Millennials) کی جو ذہنی نشونما کی ہے اس نے ابھی سے بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف کی سیاست پر اثرات ڈالنے شروع کر دیے ہیں اور کئی نوجوان اب اپنے آپ کو سوشلسٹ کہنا شروع ہو چکے ہیں۔۔میلینیئلز نے کوربن کو لیبر پارٹی کی قیادت دلائی اور برنی سینڈرز کو ڈیموکریٹک پارٹی کے بطور صدارتی امیدوار تک پہنچا دیا۔ کورونا وائرس کے اثرات سے یقینا یہ خیالات مزید شدت اختیار کریں گے“۔
یہ مضمون انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمائے کے سنجیدہ حکمت کار انہی نتائج تک جا پہنچے ہیں جنہیں مارکس وادیوں سے پہلے ہی واضح کر دیا تھا۔ انہیں یہ بھی سمجھ آ رہی ہے سیاسی طور پر نئی بیدار پرتیں سب سے پہلے بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کی جانب مائل ہوں گی۔ موجودہ صورتحال میں ایسے کئی امکانات موجود ہیں۔
بائیں بازو کی اصلاح پسندی
حقیقی مارکسی قوتوں کی کمزوری کی وجہ سے، پہلے مرحلے میں یہ ریڈیکل پرتیں بائیں بازو کے اصلاح پسند سیاست دانوں کی طرف مائل ہوں گی جن کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ ان کے پاس بحران کا حل موجود ہے۔
عوام کے دباؤ میں وہ انتہائی ریڈیکل لفاظی پر اتر سکتے ہیں۔ لیکن حتمی تجزیے میں ان کا سرمایہ داری کے خاتمے کا کوئی تناظر موجود نہیں۔ ان کا یقین ہے کہ سرمایہ داری کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔۔اسے زیادہ انسان دوست، زیادہ جمہوری وغیرہ بنایا جا سکتا ہے۔ واقعات کا دھارا ان سرابوں کو ننگا کر کے رکھ دے گا، جیسا ہم نے یونان میں سپراس کے حوالے سے دیکھا۔
اصلاح پسندوں کے لئے انقلاب ہمیشہ ناقابلِ قبول ہوتا ہے چاہے وہ بائیں بازو یا دائیں بازو یا پھر کسی بھی طرز کے اصلاح پسند ہوں۔ ان کے پاس ایک ہزار ایک دلائل موجود ہوتے ہیں کہ انقلاب کیوں ناممکن ہے، یوٹوپیائی ہے وغیرہ وغیرہ۔
عوام کو اب حقیقی صورتحال کا ادراک ہو رہا ہے۔ وہ اب ضروری اسباق حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہماری سب سے بڑی قوت اور سرمایہ داری اور اصلاح پسندوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ وقت لگے گا لیکن جلد یا بدیر پرانے ان پرانے سرابوں کے نقش محنت کش طبقے کے شعور سے غائب ہو جائیں گے۔
ریڈیکل محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی پرت سپراس، سینڈرز اور جیرمی کاربن کے مدارس میں تعلیم حاصل کر چکی ہے۔ بہترین عناصر ان مدارس میں انمول اسباق حاصل کر چکے ہیں۔ اب گریجویٹ کرنے کے بعد ان کا شعور ایک نئی سطح پر پہنچ چکا ہے اور اب وہ انقلابی مارکسزم کے سکول میں داخلہ لینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ہمیں اس عبوری دور میں ان کی ہر ممکن مدد کرنی ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا؟ یہاں دو غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔
موقع پرست بائیں بازو کے مختلف رجحانات پر تنقید کرنے کے بجائے در حقیقت ان کے مداحوں کا ایک کلب بن کر رہ جاتے ہیں۔ دوسری انتہاء پر خالی دماغ فرقہ پرست سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان سے بڑا کوئی انقلابی موجود نہیں کیونکہ انہوں نے ٹراٹسکی کی چار سطور پڑھ لی ہیں جبکہ حقیقت میں ایک لفظ بھی نہیں سمجھ پائے اور ہر وقت شور مچاتے رہتے ہیں کہ فلاں فلاں بائیں بازو کا قائد دھوکہ دے گا۔ IMT میں ایسے عناصر کی کوئی جگہ موجود نہیں۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ دونوں میں سے کون حقیقی مارکسزم کا پرچم داغدار کرنے میں زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔
بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کے حوالے سے ہمیں ہوشیاری اور ہنر مندی کے ساتھ اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے ضروری لچک اور موقع شناسی کے ساتھ اپنی تنقید رکھنی چاہیے۔ مارکس کے الفاظ میں ہمارا ”رویہ نرم اور مواد جرات مند ہونا چاہیے“۔ اسی طریقہ کار سے ہم نوجوانوں اور مزدوروں کے بہترین عناصر کو جیت سکتے ہیں جن کی بائیں بازو کے مختلف رجحانات میں ایماندارانہ خوش فہمیاں موجود ہیں۔
ہمیں بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کا جواب ہیجانی چیخ و پکار سے نہیں بلکہ صبر کے ساتھ وضاحت سے دینا ہے۔ تجربات کی روشنی میں عوام کی وہ پرتیں جو انقلابی راستے کی طرف مائل ہو رہی ہیں نہ صرف دائیں بازو بلکہ بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کی محدودیت کو بھی سمجھ جائیں گے۔
جاں بلب سرمایہ داری
ہم جہاں بھی نظر دوڑائیں ہمیں پیداواری قوتوں کا انہدام، بڑھتی بیروزگاری، غربت اور اذیت، جنگیں، بحران، بیماری اور موت کا رقص نظر آتا ہے۔ لیکن یہ حقیقی مسئلہ کی محض علامات ہیں۔ اور کسی بھی ہنر مند ڈاکٹر کی طرح ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم علامات کا تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی مرض کی تشخیص کریں۔
جو افراد تاریخ کو سائنسی مارکسی بنیادوں پر نہیں سمجھ سکتے وہ صرف مایوس کن نتائج ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے تاریخ میں یہ علامات پہلے بھی دیکھی ہیں۔
رومی سلطنت کا زوال صدیوں میں ہوا اور اس دوران خوفناک معاشی، سماجی، اخلاقی اور فلسفیانہ انحطاط عہد کا خاصہ تھا۔ لیکن زوال کا طویل عرصہ ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتا رہا۔ درمیان میں بحالی کے دوور آئے، جس طرح ایک قریب المرگ انسان میں اچانک صحت مندی کی علامات نمودار ہو جاتی ہیں جو موت سے پہلے زیادہ شدید اور ناگزیر انحطاط ثابت ہوتا ہے۔
اس طرح کی بحالی کے ادوار سرمایہ داری میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن عمومی رجحان زوال پذیری کا ہے۔ ٹراٹسکی کے ایک مشہور مقولے کے مطابق یہ سرمایہ داری کی موت کی ہچکیاں ہیں۔ اور یہ موت کی ہچکیاں پوری انسانیت کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔
جمود کی قوت (Force of Inertia)
کسی مظہر کے تجزیے میں مارکس وادیوں کو انتہائی باریک بینی سے تمام پہلوؤں کی جانچ پرکھ کرتے ہوئے ان متضاد قوتوں کو سمجھنا چاہیے جو مختلف اطراف میں کھینچا تانی کر رہی ہوتی ہیں۔
ہم انسانی تاریخ کے سب سے پر آشوب دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ موجودہ معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کا حل موجودہ نظام میں قطعی موجود نہیں۔ یقینا اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مخصوص لمحات میں شدید عدم استحکام کے شکار توازن پیدا نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس عارضی بحالی کے ادوار ناگزیر ہوں گے۔ لیکن ان کا دورانیہ مختصر ہو گا اور یہ ایک نئے اور زیادہ گہرے بحران کو جنم دیں گے۔
موجودہ صورتحال میں کئی پیچیدہ قوتیں کارفرما ہیں۔ ایک طرف عوام بحران سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی شدت سے تگ و دو کر رہی ہے۔ وہ انقلابی راستہ اختیار کرنے کو تیار ہیں لیکن اس راستے پر چلنے کے لئے ان کے پاس ایک واضح پروگرام اور تناظر موجود نہیں۔
نتیجتاً، خودرو باغیانہ سرکشیاں موجودہ مسائل کو حل نہیں کر سکتیں۔ اس لئے ایک مخصوص مرحلے میں وہ اسی طرح ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں جیسے ایک سمندری لہر چٹان سے ٹکرانے کے بعد ٹھہر جاتی ہے۔
موجودہ نظام طاقتور قوتِ مزاحمت سے لیس ہے۔ اس وجہ سے حکمران طبقے کے کچھ حکمت کاروں میں اعتماد بھی بحال ہے۔ ایک امریکی تاریخ دان ایرک فونر نے اس حوالے سے کہا کہ:
”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک انتہائی طاقتور مخالف قوت ہے جو ہمیں واپس معمول کی طرف کھینچ رہی ہے۔ میں ان کے حوالے سے شکی ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس سب کچھ بدل کر رکھ دے گا“۔
انتہائی ضروری ہے کہ ان خیالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے کیونکہ ان میں کچھ نہ کچھ سچ موجود ہے۔
یقینا اس وقت ہمارے لئے امریکہ اور دیگر ممالک میں ہونے والی جدوجہدیں دیو ہیکل اہمیت کی حامل ہیں۔ ہم ان کا پورے جوش و خروش سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ علامات مستقبل کے دیو ہیکل واقعات کی محض عکاسی ہیں۔
درست تناظر اور درست لائحہ عمل کے لئے ہمیں سوال کا دوسرا پہلو بھی دیکھنا چاہیے۔ میکینکس میں فورس آف انرشیا کی سمجھ عام فہم اور بنیادی ہے۔ لیکن یہ قوت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو ایک مخصوص قوت کی ضرب سے بالآخر ٹوٹ ہی جاتا ہے۔
سب سے طاقتور انرشیا عادات، روایات اوررسم و رواج کی قوت ہے جو انسانی شعور پر ایک بھاری بھر کم بوجھ ہے۔ ماضی بعید سے میراث میں ملنے والی جبلی عادات انسانوں کو تبدیلی سے خوفزدہ رکھتی ہیں اور وہ اس کی مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ آگے کی طرف جست لگانے کے لئے اس رکاوٹ کو توڑنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ عمل دیو ہیکل سماجی اور معاشی بحرانات کے ادوار میں ہی ممکن ہوتا ہے جب مرد اور زن ازلی و ابدی سمجھی جانے والی چیزوں پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔
انقلابیوں کا فریضہ
سرمایہ داری اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے۔ اس کا تمام تر دارومدار اب ریاست کی جانب سے ملنے والی دیو ہیکل امداد پر ہے۔ لیکن منڈی کی معیشت کے نظریات کے مطابق ریاست کا تومعاشی امور میں کوئی کردار نہیں بنتا۔ اس لئے یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ اگر سرمایہ داری ریاست کی مالی امداد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تو پھر اسے مکمل طور پر ختم کیوں نہ کر دیا جائے اور ریاست معیشت کا مکمل نظام اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے مکمل تباہی و بربادی سے بچا لے؟
موجودہ صورتحال مکمل طور پر سرمایہ داری کی مذمت کرتی ہے جو اپنا تاریخی کردار پورا کر چکی ہے اور اب اس کا مقدر تاریخ کا کوڑا دان ہی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ داری محض اپنے ہی تضادات کے بوجھ تلے دب نہیں جائے گی۔ یہ عمیق ترین بحران میں سے بھی باہر آ سکتی ہے اور یہ موجودہ بحران میں سے بھی باہر نکل ہی آئے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے بچ نکلے گی اور انسانیت کو اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟
اگرچہ عارضی اور جزوی بحالی کے ادوار کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن عمومی رجحان زوال کا ہے۔ اگلی بحالی بھی عارضی ہو گی جو پیداواری قوتوں کی زیادہ تباہی و بربادی کا موجب بنے گی۔ سرمایہ داری میں کوئی حل ممکن نہیں ہے۔
سرمایہ داری ایک ایسا دائمی بیمار، غلیظ اور گلنے سڑنے والا خون آشام عفریت بن چکی ہے جو کھڑے پاؤں مر رہا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی مرنے سے انکاری ہے۔ اور موت میں اس دوام کی انسانیت بھیانک قیمت چکا رہی ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اس موت کی کشمکش کی علامات میں نیا سماج پیدا ہونے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس دردناک موت کا دورانیہ کم سے کم کیا جائے اور ایک نئے نظام کے جنم میں معاونت کی جائے تاکہ یہ عمل جلد از جلد کم سے کم درد اور اذیت سے بچ کر وجود میں آئے۔
جبریت تقدیر پرستی نہیں ہے
مارکسزم کی بنیاد تاریخی مادیت ہے۔ ہم تاریخ کی غلیظ مابعد جدید (عینیت پرستانہ) تشریح کو رد کرتے ہیں جس کے مطابق تاریخ محض بے معنی حادثات کا دوسرا نام ہے۔ تاریخ کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور ہمارا فرض انہیں سمجھنا ہے۔
ہم اس حد تک ہی تاریخی جبریت کے قائل ہیں جس کے مطابق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ کی حرکت مخصوص قوانین کے تحت ہوتی ہے۔ لیکن جبریت اور تقدیر پرستی ایک ہی چیز ہرگز نہیں۔ مارکس نے کئی مرتبہ وضاحت کی کہ مرد و زن اپنی تاریخ خود بناتے ہیں۔ جب ایک سماجی و معاشی نظام انحطاط پذیر ہو جاتا ہے تو سماجی انقلابات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔
لیکن کیا انقلاب کامیاب ہو گا یا ناکام اس کا دارومدار موضوعی عنصر پر ہے اور جدید دور میں اس کا مطلب ایک انقلابی پارٹی اور اس کی قیادت ہے۔
سترھویں صدی میں انگلستان میں پہلا سرمایہ دارانہ انقلاب مذہب کے جھنڈے تلے لڑا گیا تھا۔ راسخ العقیدہ عیسائی سمجھتے تھے کہ دنیا ختم ہو رہی ہے اور خدا کی سلطنت جنم لے رہی ہے۔ ان کے خیال میں یہ ناگزیر تھا۔
کیلوِن اسٹ تقدیر پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ ہر عمل خدا کی منشاء سے تقدیر میں لکھا جا چکا تھا اور ہر مرد اور عورت کی مرضی اس کے تابع تھی۔ لیکن اس یقین نے کسی طرح بھی ان کے انقلابی جذبات اور ثابت قدمی کو ماند نہیں کیا بلکہ اس نئی دنیا کے جنم کے لئے انہوں نے ہر ممکن بھرپور کوشش کی۔
اس کے برعکس انہوں نے بہادری اور جرات کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ یہی فرائض آج انقلابیوں کے سامنے موجود ہیں۔ اور ہم انقلابی ثابت قدمی کے ساتھ ان فرائض کو سر انجام دیں گے۔ لیکن ان کے برعکس آج ہمارے ہتھیار انقلابی مارکسزم کے سائنسی نظریات ہیں۔
عالمی انقلاب
موجودہ صورتحال کی حقیقی معنوں میں کیا اہمیت ہے؟ یہ انقلاب کی تیاری کا دور ہے۔ عالمگیریت اور عالمی تقسیمِ محنت کی شدت نے ماضی کے برعکس عالمی روابط کو عروج تک پہنچا دیا ہے۔
ماضی قریب تک عالمگیریت سرمایہ داری کی ترقی میں انجن کا کردار ادا کر رہی تھی۔ اب یہی محرک انقلاب کو عالمی سطح پر پھیلا دے گا۔
مستقبل میں رونما ہونے والی دیو ہیکل تبدیلیوں میں محنت کش طبقے کے پاس اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے کئی مواقع ہوں گے۔ جلد یا بدیر کسی ایک ملک میں یہ فریضہ سرانجام ہو کر رہے گا۔ اور یہ ایک تبدیلی، یہ ایک واقعہ پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دے گا۔
یہ کہنا ناممکن ہے کہ عالمی نظام کہاں پر سب سے پہلے ختم ہو گا۔ برازیل، اٹلی، لبنان، یونان، روس، چین۔۔یہاں تک کہ امریکہ میں بھی یہ تاریخ ساز تبدیلی سب سے پہلے رونما ہو سکتی ہے۔ لیکن جب ایک مرتبہ یہ واقعہ ہو جائے گا تو اس کے اثرات ماضی کے برعکس برق رفتاری سے پوری دنیا میں چھا جائیں گے۔
1848-49ء کے انقلابات یورپ تک محدود تھے اور پوری دنیا میں ان کی بازگشت انتہائی خفیف تھی۔ 1917ء کے عظیم اکتوبر انقلاب نے نہ صرف یورپ بلکہ ایشیاء کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور غلام نو آبادیاتی عوام نے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کر دی۔ لیکن آج ہمیں پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں نظر آ رہی ہیں۔۔فرانس سے لبنان، بیلاروس سے تھائی لینڈ، امریکہ سے چلی۔ دوسرے الفاظ میں ہم ابھی سے عالمی انقلاب کے خدوخال وضع ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
انقلابی صبر
ماضی میں قبل از انقلابی صورتحال زیادہ طویل نہیں ہوتی تھی۔ بحران کا حل چند ماہ میں ہو جاتا تھا۔۔انقلاب یا ردِ انقلاب کی کامیابی میں جس کی شکل فسطائیت یا بوناپارٹ ازم (Bonapartism) ہوتی تھی۔ لیکن موجودہ طبقاتی قوتوں کا توازن جلد حل کی طرف نہیں جا رہا۔ سماج میں رجعتی بنیادوں کی موت (کسان وغیرہ) کا مطلب ہے کہ بیشتر ممالک میں حکمران طبقہ فوری طور پر فسطائیت یا بوناپارٹ ازم مسلط نہیں کر سکتا۔
دوسری طرف محنت کش طبقہ اقتدار پر اس لئے قبضہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی اپنی عوامی تنظیموں کے قائد غدار ہیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر سرمایہ داری کا بحران کچھ عرصہ چلتا رہے گا۔۔چند سال یا شاید چند دہائیاں جن میں کئی مدوجزر آئیں گے۔
اس دور میں عوامی رائے میں شدید تبدیلیاں رونما ہوں گی۔۔دائیں اور بائیں دونوں جانب، جو بحران سے باہر نکلنے کے راستے کی تلاش کی علامت ہے۔ ایک غیر مستحکم اتحاد کے بعد دوسرا بنتا چلاجائے گا۔ تمام موجودہ پارٹیوں اور قیادت کو امتحان میں ڈالا جائے گا۔ عوام ایک کے بعد دوسری آپشن آزمائے گی، ایک کے بعد دوسری پارٹی رد کرے گی اور بالآخر انقلابی نتائج تک پہنچ جائے گی۔
یقینا یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔ یہ سب سے اہم حقیقت ہے۔ لیکن شروع ہونے کا مطلب محض آغاز ہے۔ اس عمل کو پختہ ہونے اور مکمل طور پر ارتقاء پذیر ہونے کے لئے تجربات کی بھٹی میں سے گزرنا ناگزیر ہے کیونکہ عوام تجربات سے ہی سیکھتی ہے۔ اور وہ سیکھیں گے۔ منزل ابھی بہت دور ہے۔
مارکس وادی باصبر لوگ ہیں۔ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں اگر یہ عمل کچھ طوالت اختیار کرتا ہے کیونکہ سادہ بات یہ ہے کہ ابھی ہماری تیاریاں مکمل نہیں ہیں۔ ماضی کے برعکس آج عوام ہمارے نظریات کی طرف جس قدر مائل ہو رہی ہے وہ بے مثال ہے۔ ہر جگہ سرمایہ داری کے خلاف نفرت پنپ رہی ہے۔ ہمارے نظریات کو اس لئے پذیرائی مل رہی ہے کیونکہ انہیں حقیقت کی درست عکاسی سمجھا جا رہا ہے۔
جیسا ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے لئے معروضی حالات نہ صرف پک کر تیار ہو چکے ہیں بلکہ گلنا سڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن معروضی حالات کے ساتھ موضوعی عنصر کا بھی کلیدی کردار ہے۔ ہمارا فریضہ اس کلیدی عنصر کی تعمیر ہے۔
عالمی مارکسی رجحان (IMT) کو تعمیر کرو!
کچھ وجوہات کی بناء پر جن کا ذکر فی الحال زیرِ بحث نہیں، حقیقی مارکسزم کی قوتیں ایک پورے تاریخی دور میں پسپا رہیں۔ یہ عالمی سطح پر مارکسی قوتوں کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے عوام فوری طور پر ہماری صفوں میں شامل نہیں ہو رہی۔
اس مرحلے پر ہمارا مطمع نظر محنت کشوں اور نوجوانوں کی سب سے زیادہ شعور یافتہ پرتیں ہوں گی کیونکہ سادہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری اتنی قوتیں ہی موجود نہیں کہ ہم براہِ راست عوام میں مداخلت کر سکیں۔ لیکن یہی وہ پرت ہے جس کے ذریعے ہم عوام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں۔
یقینا جب بڑے مواقع ہمارے سامنے آئیں تو ہمیں جرات مندی سے ان کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اکثر اوقات ہمارے ایک کامریڈ کی جرات مندانہ مداخلت ہڑتال کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے جرات مندانہ اقدامات کے نتیجے میں ہم اہم تحریکوں کی قیادت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اور ایسے مواقع ہم ضائع نہیں کریں گے۔ لیکن ہر لمحے پر ہمیں توازن کا احساس ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی قوتوں کے حوالے سے خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی لمحے پر ممکنات اور نا ممکنات پر کڑی نظر ہونی چاہیے۔
لینن نے کئی مرتبہ انقلابی صبر کی ضرورت پر زور دیا۔ ہم محنت کش طبقے کے اوپر سے چھلانگ مار کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم اپنے حلق کی قوت سے زیادہ اونچی چیخ و پکار نہیں کر سکتے۔ ٹراٹسکی نے اپنے پیروکاروں کو خبردار کیا تھا کہ آپ وہ فصل کاٹ ہی نہیں سکتے جسے آپ نے بویا نہ ہو۔ کامیابی کے لئے کوئی چور راستے نہیں ہوتے۔ چور راستوں کی تلاش یقینا موقع پرستی یا انتہائی بائیں بازو کی کھائی میں دھکیل دے گی۔ دونوں ہمارے لئے موت ہیں۔
ہم پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے اور اپنے لئے وہ اہداف متعین کریں گے جو بلند ہمت لیکن حقیقی ہیں اور پھر جانچ پڑتال کریں گے کہ ہم نے انہیں حاصل کر لیا ہے۔ ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر چھوٹے چھوٹے اقدامات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لیکن چھوٹے اقدامات ہمیں مستقبل کی بڑی چھلانگوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔
IMT ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کا اعتراف ہمارے دوست اور دشمن دونوں کرتے ہیں۔ عالمی سکول میں ہمیں ادراک ہو چکا ہے کہ سب سے زیادہ شعور یافتہ محنت کش اور نوجوان ہمارے نظریات کے لئے بے چین ہیں اور انقلابی راہ پر چلنے کو مستعد ہیں۔
یہ ایک دیو ہیکل قدم تھا لیکن یہ محض آغاز ہے۔ ہزاروں لاکھوں میں تبدیل ہوں گے اور وقت آنے پر کروڑوں ہماری صفوں میں شامل ہوں گے۔ عالمی انقلاب میں بیس اور ایک ہزار کے ساتھ مداخلت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ناگزیر ہے۔
سب سے مشکل کام پہلے سو افراد کو ممبر بناناہے۔ پہلے سو سے پہلے ہزار تک پہنچنا بھی کوئی سادہ کام نہیں لیکن قدرے آسان ہے۔ لیکن ایک ہزار سے دس ہزار تک پہنچنا اور بھی آسان ہے۔ اور دس ہزار سے ایک لاکھ تک پہنچا محض ایک قدم دور ہے۔
فزکس کے ایک اصول کے مطابق ہمیں کریٹیکل ماس (Critical Mass) حاصل کرنا ہے۔۔وہ مرحلہ جہاں IMT پوری صورتحال میں ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر مداخلت کر سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمیں کیڈرز کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینی ہے۔ ہم معیار سے آغاز کریں جو ایک مرحلے پر مقدار میں تبدیل ہو جائے گی اور پھر وہ مقدار معیار میں تبدیل ہو گی۔
یہ فرائض ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ان کے حصول کے لئے سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک نئی اور بہتر دنیا کا قیام ناگزیر ہے۔
لندن 27 اگست 2020ء