|انٹرویو: آئی ایم ٹی کی عالمی ویب سائٹ، ترجمہ: ولید خان|
مندرجہ ذیل انٹرویو عالمی مارکسی رجحان (IMT) کی عالمی ویب سائٹ پر شائع کیا جا رہا ہے جو مغربی کنارے میں رہنے والے ایک فلسطینی استاد نے دیا ہے۔ یہ انٹرویو اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کی حمایت سے غیر قانونی اسرائیلی آبادکاروں کی معصوم فلسطینی عوام پر وحشت ناک بربریت کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ یہ فلسطینی اتھارٹی (PA) اور مشرق وسطیٰ کے حکمران طبقات سے شدید نفرت کا بھی اظہار ہے جنہوں نے فلسطین کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے جبکہ خطے میں دیوہیکل عوامی احتجاجوں نے فلسطینیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ انٹرویو دینے والے نے سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر گمنام رہنے کی درخواست کی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سوال: ہیلو اور خوش آمدید۔ ہمیں اپنے بارے میں بتائیں۔
جواب: جی۔ شکریہ آپ نے مجھے دعوت دی۔ میں ایک ہائی سکول میں پڑھاتا ہوں۔ اور میں آج مغربی کنارے میں موجودہ صورتحال پر بات کروں گا۔
سوال: 7 اکتوبر سے اب تک صورتحال میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں؟
جواب: اگر فلسطینی اتھارٹی، (اسرائیلی) فوجیوں اور مغربی کنارے میں ہر گاؤں اور قصبے کا گھیراؤ کیے آبادکاروں کے رویوں سے متعلق بات کی جائے تو کافی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔
پیسوں اور ہتھیاروں کی مد میں (آبادکاروں کے لئے) اسرائیلی حکومت کی حمایت میں دیوہیکل اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کی قومی سیکورٹی، وہاں اس کا یہی نام ہے، آبادکاروں کو 10 ہزار سے زیادہ نئے ہتھیاروں سے مسلح کر رہی ہے جنہیں فلسطینیوں پر حملوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ حملے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
میں یہاں نیتن یاہو (اسرائیلی وزیراعظم) کے اعلان کا ذکر کروں گا کہ وہ حالت جنگ میں ہیں اور اسرائیلیوں کو فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کی کھلی اجازت دی جا چکی ہے، یعنی کہ انہیں باقائدہ قانونی جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔
آبادکار نہ صرف مرکزی سڑکوں پر فلسطینیوں پر حملے کا کوئی بہانہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ جب سے اس جنگ کا آغاز ہوا ہے مغربی کنارے میں زیتون چننے کے موسم کو بھی اس کام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس موسم میں گاؤں کے رہائشی فلسطینی اپنے زیتون کے کھیتوں میں زیتون چننے جاتے ہیں اور وہاں اسرائیلی حمایت کے ساتھ موجود آبادکاروں سے ان کا ٹاکرا ہونے کے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا جس گاؤں کے رہائشی فلسطینی سے سامنا ہوتا ہے وہ اس پر حملہ کر دیتے ہیں جن کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں ہے اور صرف زیتون چننے کے اوزار موجود ہیں۔
اگر میں فلسطین کا صدر ہوتا تو میں جنگ کا اعلان کر دیتا کیونکہ دشمن نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور پھر صورتحال میں کچھ توازن ہوتا۔ لیکن یہاں صدر عباس نے ایمرجنسی تک کا اعلان نہیں کیا ہے۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ مغربی کنارے میں سب اچھا ہے۔
بدقسمتی سے فلسطین میں وزراء کی کونسل ہر ملازم، ہر استاد، ہر نرس، ہر ڈاکٹر سب کو یہی کہہ رہی ہے کہ اپنے کام کی جگہوں پر پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرو۔ انہوں نے تحریری اعلامیے بھی جاری کئے ہیں کہ مغربی کنارے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن دو دن پہلے اساتذہ پر اپنے سکولوں سے گھر جاتے ہوئے گولیاں چلائی گئیں اور وہ زخمی ہو گئے۔
سوال: گولیاں چلانے والے سپاہی تھے یا آبادکار؟
جواب: آبادکار۔
سوال: ہاں 7 اکتوبر سے اب تک 100 سے کہیں زیادہ فلسطینیوں کو مغربی کنارے میں قتل کر دیا گیا ہے۔ کیا آپ اس بڑھتے جبروتشدد کے عینی شاہد ہیں؟
جواب: ہاں میں گواہ ہوں کہ میں نے شہداء کی لاشوں کی منتقلی دیکھی ہے کیونکہ میری رہائش کے قریب ایک گاؤں کی نرس نے مجھے بلایا تھا اور جب میں وہاں دوائیاں لے کر ان کی مدد کو پہنچا تو میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مجھے وہاں لوگوں نے بتایا کہ کئی آبادکاروں نے، 10 سے زیادہ آبادکار جن کی اسرائیلی فوجی حفاظت کر رہے تھے، گاؤں کے مضافات میں ایک گھر پر حملہ کیا۔
جب لوگ چھپنے کی کوشش کر رہے تھے تو اسرائیلی آبادکار گھر میں داخل ہوئے اور رہائشیوں پر حملہ کر دیا۔ وہ لوگ جو قریب رہتے ہیں اور جو علاقے سے گزر رہے تھے انہوں نے اپنے ہمسایوں کی چیخیں سنیں۔ وہ ان کی مدد کو دوڑے لیکن اسرائیلی فوجیوں اور آبادکاروں نے ان پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ یہ ربڑ کی گولیاں یا آنسو گیس بم نہیں تھے۔
وہ گولیاں چلا رہے تھے اور حساس اعضاء کو نشانہ بنا رہے تھے۔
میں جس سکول میں پڑھاتا ہوں وہاں کے ایک طالبعلم بچے کو ایک زیتون کے درخت کے نیچے گولی ماری گئی لیکن وہ فوراً نہیں مرا۔ جب اس کا دوست اس کی مدد اور کسی محفوظ مقام، ایک ایمبولینس تک لے جانے کے لئے اس کے قریب پہنچا تو اسے بھی گولی مار دی گئی۔ ان دونوں کو زیتون کے درخت کے نیچے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا جب تک وہ مر نہیں گئے۔
سوال: ان کو آبادکاروں نے قتل کیا؟
جواب: عینی شاہدین کے مطابق، ہاں۔ یہ ایک آبادکار تھا جو ایک سنائپر ہے۔ وہ کئی گولیوں کے بجائے ایک گولی سے فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے کیونکہ وہ بندوق استعمال کرنے میں بہت ماہر ہے۔
پھر لاشوں کو ایک سرکاری اہلکار کے پاس اور ہسپتال لے کر جانا ایک پورا عمل تھا جس کے دو دن بعد لاش یا لاشوں کو دفنایا گیا۔ فلسطینی وزارت نے اعلان کیا ہے کہ لوگوں کو ان شہیدوں کی لاشیں واپس لے جانے کی اجازت ہے۔ لیکن واپس گاؤں کے راستے پر اسرائیلی آبادکاروں کے ایک گروہ نے اعلان کر دیا کہ وہ سڑک بند کر کے ان فلسطینیوں کو سبق سیکھائیں گے۔
انہوں نے سڑک بند کر دی، ایمبولینسوں اور پیچھے آنے والی کچھ گاڑیوں پر حملہ کیا اور انہیں سڑک پر پھینک دیا۔ رشتہ داروں میں سے ایک غم و غصے میں باہر نکلا تاکہ شہداء کو واپس ایمبولینس میں ڈالا جائے لیکن آبادکاروں نے اسے موقعے پر گولی مار کر قتل کر دیا۔ اس کا بیٹا فوراً چیک کرنے کے لئے دوڑا کہ وہ ٹھیک ہے کہ نہیں لیکن اسے بھی گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور یوں دو مزید لاشوں کا اضافہ ہو گیا۔
یہ المیہ ہے کہ اسی گاؤں کے رہائشیوں، مقتولوں کے رشتہ دار، کو مزید شہداء کو دفنانا پڑا۔
سوال: آپ نے بتایا ہے کہ آبادکاروں کا رویہ زیادہ پرتشدد ہو چکا ہے اور وہ زیادہ حملے کر رہے ہیں۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں کا رویہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ ان کے رویے میں کیا تبدیلی آئی ہے؟
جواب: پچھلے 20 سالوں میں، یا یوں کہوں کہ جتنا مجھے یاد ہے، جب آبادکار فلسطینی دیہاتوں پر حملہ کرنے یا مرکزی سڑکوں پر گاڑیوں میں آتے تھے تو اسرائیلی فوجیوں کو انہیں روکنے کی ضرورت پڑتی تھی، اور وہ ان کا گھیراؤ کرتے تھے۔ لیکن اب اسرائیلی آبادکار اسرائیلی فوجیوں کی طاقت اور سامان کو اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
آبادکاروں کی منصوبہ بندی ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف زیادہ پرتشدد ہوں اور جو دل چاہے کرتے پھریں۔
سوال: اس ریکارڈنگ کے آغاز سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہ آپ نے اسرائیلی فوجیوں کو ماضی میں ربڑ کی گولیوں اور نسبتاً کم پرُتشدد طریقہ کار کے برعکس اس بار اصلی گولیوں کو استعمال کرتے دیکھا ہے لیکن کیا اس میں پچھلے چند ہفتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے؟
جواب: جی ہاں۔ میں اسی سکول میں پڑھا رہا ہوں جہاں مغربی کنارے میں آبادکاروں یا فوجیوں کی جانب سے ہراسانی کے آدھے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ تشدد کا گڑھ تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اسرائیلی فوجیوں اور آبادکاروں کی جانب سے اصلی گولیاں استعمال کرنے کے کتنے واقعات ہوئے، میرے خیال میں تقریباً 10 واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن ان دنوں رات کو ہر جگہ اصلی گولیاں چل رہی ہیں۔ اگر کوئی بھی فلسطینی ایسی سڑک پر جائے گا یا جائے گی جہاں اس کے گزرنے کے امکانات نہیں ہیں تو اس پر اسرائیلی آبادکار یا کبھی اسرائیلی فوجی حملہ کریں گے۔
وہ اصلی گولیاں قتل کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور یہ میرا ذاتی خیال ہے، میرا عاجزانہ خیال۔ میں کوئی تجزیہ کار یا سیاست دان نہیں ہوں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قتل کرنے، کسی بھی فلسطینی پر حملہ کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔ ان کا مقصد زخمی کرنا نہیں قتل کرنا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اس موقعے کو اپنی طاقت دکھانے اور زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
سوال: ظاہر ہے اسرائیلی حکومت اور فوج غزہ میں ہزاروں شہریوں کو قتل کرنے کے لئے بہانہ کر رہی ہے کہ وہ حماس سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ یقینا غزہ کو مجموعی سزا دینے کے لئے یہ ایک انتہائی بھونڈا بہانہ ہے۔ لیکن مغربی کنارے کو حماس کنٹرول نہیں کرتا۔ اس لئے یہ حملے خالصتاً دہشت پھیلانے کے لئے ہیں۔ ان کا مقصد دہشت پھیلانا، ڈرانا دھمکانا اور فلسطینیوں پر اپنا تسلط جتانا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: جی ہاں۔ یقینا۔ میں آپ سے 100 فیصد اتفاق کرتا ہوں۔
سوال: آپ ایک استاد ہیں اس لئے آپ مغربی کنارے میں نوجوانوں، فلسطینی نوجوانوں کے رویوں سے واقف ہوں گے۔ ان کا رویہ کیا ہے؟ آپ کے طلبہ میں اس وقت کیا موڈ ہے؟
جواب: ہم اپنے آپ کو بے یارومددگار اور بانجھ محسوس کرتے ہیں۔ ہم یہاں کچھ نہیں کر سکتے، کچھ بھی نہیں۔ مثلاً اگر ہم پر ہمارے گھروں میں حملہ ہوتا ہے تو ہم اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی غائب ہے۔ عباس کچھ نہیں کر رہا۔ اس کے پاس ایک قومی فوج ہے، وہ اسے ایک قومی سیکورٹی فوج کہتا ہے لیکن وہ سب اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے ہیں۔ وہ کچھ نہیں کر رہے۔ وہ کسی کا دفاع نہیں کر رہے۔ وہ دیہاتوں، قصبوں، شہروں اور کیمپوں کے داخلی راستوں پر موجود نہیں ہیں۔ وہ وہاں نہیں ہیں۔
میں ایک میونسپل ممبر بھی ہوں اور مجھے ہمیشہ کسی نہ کسی طرح احساس رہا ہے کہ میں ذمہ دار ہوں، علاقے میں موجود بحران کا حصہ ہوں۔ اس لئے مجھے دیگر دیہات میں طبی امداد کے لئے بلایا جاتا ہے کیونکہ میں یہاں متحرک ہوں۔
میں کئی نوجوانوں سے بات کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے دیہات یا قصبوں کے داخلی اور خارجی راستوں کی خود حفاظت کرنی چاہیے۔ جواب بہت منطقی ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ہم کیسے داخلی راستوں پر جائیں جب ایک پاگل آبادکار، ایک پاگل آبادکار نوجوان وہاں پہنچ کر ہم پر گولیاں برسانی شروع کر دے اور پھر ہم سب مارے جائیں کیونکہ ہمارے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں ہے؟ اس لئے یہ غیر منطقی ہے۔ یہاں رہنا قید خانے میں رہنا ہے۔
یعنی ہمارے پاس دفاع کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس ایک فوج ہے لیکن ہم بے یارومددگار ہیں۔ اگرچہ یہاں ایک حکومت ہے اور یہ بات کرنا بہت عجیب لگے گا، میرے خیال میں دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔
سوال: آپ کا مطلب اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی ہے؟
جواب: جی ہاں، یہ دونوں اکٹھے کام کر رہی ہیں اور دونوں میں ایک ہی فرق ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنے شہریوں کا اچھا خیال رکھ رہی ہے۔ مثلاً جدید ٹیکنالوجی جیسے آئرن ڈوم اور دیگر کئی جدید چیزیں خرید کر اور انہیں ہتھیار دے کر جن کے ذریعے یہ اپنے دفاع کے ساتھ فلسطینیوں پر حملے بھی کر رہے ہیں۔
دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی ہر اس فلسطینی کو قید کر دیتی ہے جو اس پر تنقید کرتا ہے اور ان کی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ”تم کس کے ساتھ کام کر رہے ہو؟“ پچھلے دنوں میرے ایک دوست کو بلایا گیا اور وہ پہنچا، اگرچہ اس وقت سڑکیں انتہائی خطرناک ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ سنٹر فلسطینیوں سے بھرا پڑا ہے۔ پھر اس نے ان سے بات کی اور اسے پتا چلا کہ ان سب کو اس لئے بلایا گیا کیونکہ انہوں نے حکومت کے خلاف کچھ نہ کچھ مواد (آن لائن) لگایا ہے۔
میں ان سے کہتا ہوں کہ ”تم کچھ نہیں کر رہے، ہمارا یا ہماری زمینوں کا یا ہماری جانوں کا تم کوئی دفاع نہیں کر رہے۔ تم کچھ نہیں کر رہے اور تم کچھ نہیں کہہ رہے۔ تم بانجھ ہو، ناکارہ ہو اور تمہیں حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے“۔
سوال: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ مغربی کنارے میں عوام شدید غم و غصے میں ہے، ظاہر ہے اسرائیل کے خلاف، لیکن فلسطینی اتھارٹی سے بھی شدید نفرت ہے؟
جواب: اس مسئلے کو ایسے دیکھتے ہیں۔ میرے خیال میں فلسطینی اتھارٹی کیا ہے؟ مثلاً اگر میں ایک ماہر نفسیات کے پاس جاؤں تو شاید مجھے معلوم ہو کہ میں ان دنوں کئی بیماریوں کا شکار ہوں کیونکہ میں نے اپنے ناخن چبانے شروع کر دیے ہیں اور کبھی کبھی اپنے بال بھی کھینچتا ہوں۔ یہ سب کچھ لاشعوری طور پر ہو رہا ہے کیونکہ حالات ہی ایسے ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں ہر وقت غصے سے بھرا رہتا ہوں۔ مثلاً میں سوشل میڈیا پر نظر رکھتا ہوں کہ سارا غزہ۔۔۔ جو فلسطین کا ایک حصہ ہے۔۔۔ نیست و نابود تو نہیں ہو گیا۔ فلسطین کا آزاد حصہ کہاں ہے؟ ہم سب محکوم ہیں لیکن غزہ وہ واحد حصہ ہے یا رہا ہے جو اپنی آزادی، الاقصیٰ مسجد کی آزادی کے لئے لڑ رہا ہے، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، اپنے لئے نہیں لڑ رہا۔
ان کے پاس پانی، بجلی، کئی اشیائے ضرورت نہیں ہیں اور ہم کچھ چیزوں کے مزے لے رہے ہیں، ہمارا جب دل کرے ہمیں پانی پینے کی راحت ہے جبکہ ان میں سے کئی، شائد ہزاروں اپنے دن تباہ و برباد گھروں میں گزار رہے ہیں۔ میں جب یہ سب سوچتا ہوں تو میں پاگل ہو جاتا ہوں کیونکہ یہ سب ناقابل یقین ہے اور میں ایک کرسی پر ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں بیٹھ سکتا۔
ذرا سوچو کہ کئی دن تاریکی میں گزر جائیں اور زندہ رہنے کی کوئی امید باقی نہ رہے۔ یہ پاگل پن ہے اور ہمارا غم و غصہ بھی صرف اسرائیلی حکومت یا فوجیوں یا آبادکاروں یا فلسطینی اتھارٹی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہمسایہ عرب ممالک کے خلاف بھی ہے۔ ان کے پاس افواج ہیں اور وہ کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ فلسطین کو آزاد کرا سکتے ہیں لیکن وہ بے حس ہیں۔
شاید یہ آپ اور ہمارے درمیان تہذیبی فرق ہو لیکن ہم عرب ہیں اور مثلاً جب ہماری ملاقات ہوتی ہے۔۔۔ میں آپ کو ایک حقیقی کہانی سناتا ہوں۔ 2020ء میں مجھے امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ میں سیدھا ایک کافی کی دکان پر حقہ پینے گیا۔ جب میں وہاں داخل ہوا تو کسی نے پہچان لیا کہ میں عرب ہوں اور وہ میرے پاس آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ ”تم کہاں سے ہو؟“ میں نے جواب دیا کہ ”میں فلسطین سے ہوں اور تم؟“ اس نے جواب دیا کہ ”میں شام سے ہوں، زبردست ہو گیا“۔
وہ اس دکان کا مالک تھا۔ ہم اکٹھے بیٹھ گئے اور اس نے مجھے اپنی ٹیم سے ملایا جو پتے کھیل رہے تھے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں ہمارا بہت مضبوط تعلق ہوتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے لئے کچھ محسوس کرتے ہیں، ایک طرح کی ذمہ داری یا ڈیوٹی کہ دوسرے کی حفاظت کرنی ہے، ہم جہاں کہیں بھی جائیں، یا ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔
یہ آج بھی درست ہے لیکن عوام کی حد تک، حکومتوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ شاید آپ نے سنا ہو کہ لاکھوں اردنی شہریوں نے سرحد کی طرف مارچ کیا کیونکہ وہ حفاظتی حصار توڑ کر فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہتے تھے یا فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے تھے؟ پھر کئی مصری عوام، یہاں اور وہاں، مشرق میں اور مغرب میں ہمارے مقصد کا دفاع کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر وضاحتیں دے رہے ہیں۔ کیا وہ بی بی سی یا سی این این وغیرہ جیسے سرکاری چینلوں پر وضاحتیں دے رہے ہیں؟
سارا الزام مصر میں السیسی اور شاہ عبداللہ پر جاتا ہے (عام لوگوں پر نہیں)۔ حکمرانوں کے پاس افواج ہیں۔ وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ کچھ نہیں کر رہے۔
سوال: ہاں، اس سے پتا چلتا ہے کہ فلسطینی عوام کے حقیقی دوست کون ہیں۔ یہ رجعتی حکمران نہیں بلکہ عام محنت کش ہیں، غریب عوام ہے، نوجوان ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں، جیسے آپ نے کہا شدید غم و غصے میں، فلسطین پر ہونے والے مظالم اور اپنی حکومتوں کے حوالے سے شدید جذباتی ہیں۔ اس لئے ہم اور IMT کہتے ہیں کہ آج ایک نئے عرب انقلاب کی اشد ضرورت ہے، ایک نئی انقلابی لہر جو پورے مشرق وسطیٰ میں پھیل کر نہ صرف فلسطین کو آزاد کرے گی بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی عوام کو غربت، آمریت اور جنگ سے آزادی دلائے گی۔
یکجہتی کا یہ سوال مشرق وسطیٰ کے علاوہ سامراجی ممالک کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ ظاہر ہے کہ میری حکومت، برطانوی حکومت، کا فلسطین کے حوالے سے انتہائی غلیظ اور قابل مذمت رویہ ہے۔ وہ ہر اسرائیلی جرم کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا سامراجی حامی ہے اور وہ اس کے ہر جرم کی مکمل پردہ داری کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ، لندن اور دیگر کئی ممالک میں دیوہیکل احتجاج ہوئے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے 5 لاکھ عوام سڑکوں پر دیکھی ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ فرانس اور برلن میں فلسطین کی حمایت میں احتجاجوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس لئے فلسطین صرف مشرق وسطیٰ میں ہی جدوجہد کی مشعل راہ نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور جبر کے شکار عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔ آخر میں آپ کے پاس عام عوام، عام محنت کشوں، نوجوانوں اور پوری دنیا میں غرباء کے لئے کوئی پیغام ہے جو اپنی حکومتوں کے تمام تر پراپیگنڈے اور اور جبر کے باوجود فلسطین کے لئے آوازبلند کر رہے ہیں؟
جواب: جی ہاں۔ سب سے پہلے ایک ٹی وی چینل پر انحصار نہ کرو کہ حقیقت کیا ہے اور ہمیشہ چیزوں کے بارے میں باربار سوچو کیونکہ حقائق واضح ہیں۔ کوئی بھی معلوم کر سکتا ہے کہ حقیقت اور جھوٹ کیا ہے۔ یہ ایک پیغام ہے اور دوسرا پیغام ہے کہ آواز پہنچانے کا کام کم تر نہ سمجھو۔
میزبان: ٹھیک ہے۔ ہمیں وقت دینے کا بہت شکریہ۔۔۔ یکجہتی زندہ باد! آزاد فلسطین زندہ باد! فتح تک انتفادہ زندہ باد! فتح تک انقلاب زندہ باد!
مہمان: آپ کا بہت شکریہ۔ ہم بہت شکرگزار ہیں۔ شکریہ۔