|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان کے زیرِ اہتمام یکم اگست کو جناح ہال میونسپل کارپوریشن کوئٹہ میں ایک کامیاب مزدور کنونشن منعقد ہوا۔ اس کنونشن میں مختلف ٹریذ یونینز اور ایسوسی ایشنز سے 100 کے قریب محنت کشوں اور طلبہ نے شرکت کی۔ کنونشن کی صدارت ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان سے رزاق غورزنگ نے کی۔
تقریب کے آغاز پر ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے صوبائی آرگنائزر کریم پرہر نے سب سے پہلے آئے ہوئے سب مزدور ساتھیوں، طلبہ اور ٹریڈ یونینز قیادتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس مزدور کنونشن کا انعقاد ہم ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جہاں پورے ملک کے اندر معاشی بحران کا خمیازہ ملک بھر کا محنت کش طبقہ مہنگائی، بیروزگاری، ٹیکسز، نجکاری اور دیگر کٹوتیوں کی صورت میں بھگت رہا ہے مگر دوسری طرف حکمران طبقے کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ محنت کش طبقے کی اذیتوں اور تکلیفوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکمران طبقے نے پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں صحت کے محکمے کی نجکاری کرنے کا منصوبہ پیش کیا، مگر محکمہ صحت کے مزدوروں کی آپسی جڑت نے انکے منصوبے کو اب تک ناکام بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان ہائیکورٹ نے بلوچستان بھر کے 62 ٹریڈیونینز پر پابندی کے متنازعہ اور مزدوروں کے بنیادی انسانی اور جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالنے کا فیصلہ سنا دیا۔ مگر ہم نہ صرف اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف محنت کش طبقے کت شانہ بشانہ جدوجہد کریں گے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایپکا ٹیکنیکل ایسوسی ایشن کے ساتھی کامریڈ حبیب نے کہا کہ ہم ریڈورکرزفرنٹ کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے یہ عہد کرتے ہیں کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے ہر اٹھتی ہوئی آواز کا ساتھ دینگے اور ہم ریڈورکرزفرنٹ کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں کہ اْنہوں نے بلوچستان کے محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پرائیویٹ سکلز اساتذہ سے محترمہ زاہدہ نے کہا کہ پرائیویٹ سکولز میں استاد کے نام پر نوجوان مزدوروں کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے جس کا اندازہ ان کی تنخواہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان نجی سکول ٹیچرز کی تنخواہیں 4 ہزار سے 7 ہزار ماہانہ ہے جوکہ حکومت کی متعین کردہ کم از کم اجرت 17,500 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ مگر یہاں پر قانون کا کسی کو احساس نہیں ہے۔
بیروزگار فارماسسٹس الائنس کے رہنماء ڈاکٹر قطب ساگر نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اپنے 51 دن سے جاری احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پورے بلوچستان میں 1500 کے قریب بیروزگار فاماسسٹس ہیں مگر پچھلے 6 سال سے کوئی خالی آسامی اعلان نہیں کی گئی ہے، جبکہ صوبے کے حکمران صرف جھوٹی اور طفل تسلیاں دے رہے ہیں، عملی اقدامات نہیں ہورہے۔ مزید برآں، انہوں نے اپنے 3 اگست کو صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے کنونشن میں شریک شرکاء سے شرکت کرنے کی ہمدردانہ اپیل کی۔
پیرامیڈیکس ایسوسی ایشن کے شفاء مینگل نے کہا کہ ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کو کامیاب کنونشن منعقد کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، کہ انہوں نے بلوچستان کے محنت کش طبقے کے مسائل پر سنجیدگی کیساتھ عملی اقدامات کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سال سے ہماری منظور شدہ سمری کا نوٹیفیکیشن جاری نہ کرنا نہ صرف حکمران طبقے کی نااہلی ہے بلکہ اس میں ہمارے مزدور قیادتوں کی بھی نااہلی اور غداری ہے کہ جس کی وجہ سے مختلف گروپس میں بٹے مزدوروں کو نشانہ بنانا حکمران طبقے کے لیے ہر حوالے سے آسان ہے۔
ایپکا ٹیکنیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری شمس اللہ کاکڑ نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے ریڈورکرزفرنٹ کے مشکور رہے ہیں کہ انہوں نے بلوچستان بھر کے محنت کشوں کی آواز کو یکجا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مزدور طبقے کی جیت مزدور طبقے کے اتحاد اور اتفاق میں ہے۔ جب تک مزدور متحد نہیں ہوتے تب تک یہاں کے ظالم حکمرانوں سے حق چھیننا ناممکن ہے۔ ہم سب مزدورں بالخصوص مزدور قیادتوں کو اس سلسلے میں اپنی غداریوں کو ختم کرنا ہوگا اور نئی مزدور قیادت کو موقع دینا ہوگا۔ اس کے بعد
پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکرٹری امیر ایاز نے اپنے خطاب میں کہاکہ مزدور کنونشن ایک ایسے وقت میں منعقد کیا جارہا ہے جب ملک اپنی تاریخ کے سب سے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور حکمرانوں کی جانب سے محنت کش طبقے پر پے در پے حملے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طبقاتی نظام میں سماج کے ایک مٹھی بھر حصے میں بے تہاشا دولت کا ارتکاز ہوتا ہے تو اسی وقت سماج کے دوسرے حصے میں ذلت اور غربت کا ارتکاز ہوتا ہے۔ یہاں مزدور طبقے کے حصے میں غربت اور ذلت آئی ہے جبکہ حکمرانوں کی دولت اور عیاشیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ امیر ایاز نے حکومت کے حالیہ تعلیم دشمن بجٹ پر بات کرتے ہوے کہا کہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کی وجہ سے تعلیم مہنگی ہوچکی ہے اور حکومت نے محنت کش اور غریب کے بچے کو تعلیم سے محروم کردیا ہے۔ مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب طلبہ عملی میدان میں آتے ہیں تو اْنہیں بیروزگاری کے دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ہم اس کنونشن کے ذریعے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مزدور کے بچوں کو مفت تعلیم کا حق دیا جائے اور ہر سطح پر مفت اور معاری تعلیم فراہم کی جائے۔
واپڈا ہائیڈرو یونین ایکشن کمیٹی کے رہنماء فرید لونی نے کہا کہ ہم ریڈورکرزفرنٹ کے ساتھیوں کے مشکور ہیں کہ اْنہوں نے ہمیں موقع دیا کہ ہم بلوچستان میں مزدوروں کی حالتِ زار پر بات کرسکیں، اس وقت پورے ملک میں معاشی بحران کا سب سے بڑا نشانہ محنت کش طبقہ ہے۔ فرید نے واپڈا ہائیڈرو یونین کے اندر قیادت کیساتھ حالیہ اختلافات کا ذکر کیا مگر ساتھ ہی اْنہوں نے کہا کہ ہم نے ایک قدم اٹھایا ہے اور کوشش کررہے ہیں کہ مزدوروں کے جائز حقوق کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور بلوچستان سمیت پاکستان بھر کے محنت کش طبقے کو ایک ساتھ ہونا ہوگا تاکہ دلال ٹریڈیونینز قیادتوں کیساتھ ساتھ حکمران طبقے کے ظلم اور جبر سے چھٹکارا پاسکیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈبلیو ڈی ایمپلائز یونین کے صدر قاسم کاکڑ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی ہر تقریب کو اپنی تقریب سمجھتے ہیں اور یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم مزدوروں کے لیے اْٹھنے والی آواز، ہر حق کی آواز پر لبیک کہیں۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پورے ملک کے اندر کوئی سیاسی نمائندہ جماعت یا پارٹی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ٹریڈ یونین کی کوئی ایسی قیادت موجود ہے کہ وہ ملک بھر کے مزدور طبقے کے لیے آواز اٹھا سکیں یا ملک بھر میں مزدور طبقے کے مسائل پر بات کرسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے بلوچستان کے اندر محنت کش طبقے کے لیے ہر فورم پر بھرپور آواز اٹھائی ہے اور کبھی مزدوروں کے حق پر کوئی سودے بازی کا سوچا تک نہیں۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ کہ مزدور کی آواز صرف مزدور ہے یہ تمام سیاسی پارٹیاں صرف کرسی کے لیے لڑ رہی ہیں اور ان کا عوامی مسائل کیساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آخر میں انہوں نے ملک بھر میں مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے عام ہڑتال کو ہی مناسب حل سمجھا کہ عام ہڑتال کے ذریعے ہم اپنے مسائل کو حل کرسکتے ہیں تاکہ ان نااہل حکمرانوں کو مزدور طبقے کی طاقت کا پتہ چل جائے۔
تقریب کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی آرگنائزر آفتاب اشرف نے کہا کہ بلوچستان میں مزدور طبقہ انتہائی شاندار جدوجہد کررہا ہے، اور حکمران طبقہ اس جدوجہد سے خوف محسوس کر رہا ہے جس کا واضح اظہار بلوچستان کی عدلیہ اور حکومت کے گٹھ جوڑ سے محنت کش طبقے کے یونین سازی کے بنیادی حق، اظہارِ رائے اور احتجاج پر پابندی سے ہوتا ہے۔ اس پابندی کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں ان کو ہم کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کرسکتے، کیونکہ اس وقت پورا ملک معاشی بحران کی گہری دلدل میں پھنس چکا ہے اور حالیہ بجٹ کے پیش ہونے کے بعد محنت کش طبقے پر معاشی بحران کا سارا بوجھ ڈال دیا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں حکمران طبقے کے پاس معاشی بحران کو ٹالنے کے لیے کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے سوائے محنت کشوں کے اوپر ٹیکسز کا نفاذ، نجکاری، مہنگائی، بیروزگاری اور لاعلاجی کے حملے کرنے کا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پوری دنیا سمیت پاکستان بھر میں طبقاتی تضاد انتہائی شدت اختیار کررہا ہے جس کی واضح مثال دنیا بھر میں اٹھنے والی انقلابی تحریکیں ہیں۔ ان انقلابی تحریکوں کی بنیادی وجہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی ہے۔ آفتاب نے پاکستان بھر میں محنت کش طبقے کے مشکلات، مصائب اور تکلیفوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ان سب مشکلات اور تکالیف کے خلاف جدوجہد میں ملک گیر عام ہڑتال کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا۔ کراچی سے لے کر کشمیر اور کوئٹہ سے خیبر تک محنت کش طبقے کی ایک عام ہڑتال طاقت کے ایوانوں کو لرزا کر رکھ دے گی۔ مزید برآں، اْنہوں نے پاکستان بھر میں مزدور تحریک کے مستقبل کے تناظر پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ آخر میں انہوں نے بلوچستان میں ہائیکورٹ کی طرف سے ٹریڈ یونینز پر لگنے والی پابندی پر روایتی ٹریڈ یونینز قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ قانونی راستہ اختیار کرنے کیساتھ ساتھ عملی جدوجہد انتہائی لازمی ہے۔ کنونشن کے آخر میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے صوبائی آرگنائزر کریم پرہر نے قراردادیں پیش کیں جن کو بھاری اکثریت پاس کیا گیا۔