|لال سلام|
گزشتہ رات لاہور تا گوجرانوالہ موٹروے پر ایک دل دہلا دینے والا واقع پیش آیا جب ایک خاتون کی گاڑی میں پیٹرول ختم ہو گیا اور وہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی کہ کچھ درندوں نے گاڑی کا شیشہ توڑ کر اسے باہر گھسیٹا اور قریبی جھاڑیوں میں لے جا کر اس کے بچوں کے سامنے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ یقینا یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقع نہیں ہے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں، کھیتوں، کھلیانوں اور حتیٰ کہ گھروں میں بھی آئے روز اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ یقینا انتہائی غلیظ اور تعفن زدہ سماج کی عکاسی ہے۔
اس واقع کے رونما ہونے کے بعد جہاں پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑی وہیں سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا انتہائی غلیظ بیان سامنے آیا جس میں وہ اس واقع کا قصوروار بذات خود اس خاتون کو قرار دے رہا ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ یہ سی سی پی او موجودہ ریاستی آقاوں کا چہیتا ہے جس سے موجودہ ریاستی مشینری اور حکومت کا عمومی غلیظ اور انسان دشمن چہرہ بھی واضح ہوتا ہے۔ یہ سوچ کسی ایک ریاستی اہلکار کی نہیں بلکہ یہاں کے محنت کشوں کا خون چوسنے والے حکمران طبقے کی عمومی سوچ ہے۔ ریاست شہریوں کے جان، مال اور عزت کی محافظ سمجھی جاتی ہے اور اسے یقینی بنانے کیلئے عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے، مگر آج یہ ریاست اس قدر گل سڑ کر تعفن زدہ ہو چکی ہے کہ اب کھلے عام مظلوموں کو ہی قصور وار ٹھہرا رہی ہے۔ یہاں کے حکمران انسان کی کھال میں چھپے بھیڑیے ہیں۔ ان حرام زادوں کو کروڑوں محنت کشوں کی بھوک، ننگ، افلاس، جہالت، ذلت، محرومی اور جنسی استحصال کر کے اطمینان ملتا ہے۔
اس طرح کے ان گنت واقعات کے نتیجے میں آج عوام پر عدلیہ کا گھناونہ کردار بھی واضح ہو چکا ہے جہاں سالہا سال مجبور خواتین انصاف کی امید لیے در در ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں لیکن شہادتوں، غلیظ سوالات اور میڈیکل رپورٹس کی درستگی کا گھن چکر ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ عدالتیں اسی ریاست اور آئین کی محافظ ہیں جس کا مقصد عوام پر جبر اور استحصال کو قائم رکھنا ہے۔
مملکت خداداد میں بنیاد پرستوں کو یہاں کا حکمران طبقہ اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے ہمیشہ سے استعمال کرتا آیا ہے۔ اسی سلسلے میں ان حرام زادوں نے سماج کی ہر پرت تک ایسی غلیظ سوچ پھیلائی ہے۔ اس لیے اس طرح کے اندوہناک واقعات کے رونما ہوتے ہی ان بنیاد پرستوں کی جانب سے فوراً یہ باتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ اس واقع میں عورت کا ہی قصور ہوگا، اس نے فلاں کپڑے پہنے ہونگے، یا فلاں طرح چل رہی ہوگی اس لیے اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ آج جب ریاستی نمائندے کی زبان سے یہ الفاظ نکل رہے ہیں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ پردے، چار دیواری اور محرم و نامحرم کی بحث کو بنیاد بنانے والے بنیاد پرستوں کا غلیظ چہرہ بھی بار بار عیاں ہوتا آرہا ہے، کبھی زینب جیسی معصوم بچی کے کیس میں تو کبھی ”بلی“ کے جنسی حوس کا نشانہ بننے میں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان انسان دشمن مجرموں کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی ہرزہ سرائی کرنے والے پولیس افسروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
یہ درحقیقت گلتے سڑتے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج جس رفتار سے یہ نظام گل سڑ رہا ہے اسی رفتار سے یہ سماجی تعفن اور غلاظت میں بھی اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات کی تعداد اور شدت مستقبل میں مزید بڑھے گی۔ خواتین کو درپیش مسائل سمیت تمام تر غلاظتوں کا خاتمہ صرف اس نظام کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ صرف طبقات سے پاک سماج میں ہی عورت کو حقیقی انسان کا رتبہ مل سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد تیز ہو!