|تحریر: خالد جمالی|
2018 ء کا الیکشن بہت ہی پر انتشار، مبہم اور غیر یقینی سیاسی اور سماجی صورتحال میں 25 جولائی کو ہونے جا رہے ہیں۔ کوئی ایک ایسی سیاسی پارٹی اس وقت پاکستان میں وجود نہیں رکھتی جس کی ساکھ ہو اورجو عوام کے لیے اپنے گزشتہ دور حکومت میں کسی طرح کی اصلاح کر پائی ہو! عوام میں بھی اس الیکشن کے لئے کوئی جوش و خروش نہیں ہے بلکہ ایک انتقامی غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 2008ء سے مخلوط حکومتیں چل رہی ہیں اور اس بار بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے اور بہت سارے زاویوں میں بہت ہی کمزور اتحادی حکومت بننے کے امکان ہیں۔ ان ساری بڑی صوبائی اور وفاقی پارٹیوں میں کسی ایک بھی پارٹی میں اتنی سکت اور صلاحیت نہیں کہ اکیلے کوئی حکومت بنا پائیں۔ سچ یہ ہے کہ شاید یہ پارٹیاں اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہیں۔
سندھ میں بھی عمومی صورتحال باقی ملک کی طرح ہی ہے۔ تمام پارٹیاں الیکشن 2018ء میں جیت کر ملک کو لوٹنے کی تگ و دو میں مگن ہونا چاہتی ہیں۔ سندھ میں سب سے زیادہ امکان پی پی پی کے جیت کر آنے کے ہیں۔ مگر اور بھی پارٹیاں مختلف ہتھکنڈوں سے الیکشن جیت کراقتدار میں آنا چاہتی ہیں جن میں ایک ’’گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس‘‘ہے اس اتحاد میں یہ پارٹیاں شامل ہیں : مسلم لیگ فنکشل، قومی عوامی تحریک(ایاز لطیف پلیجو)، پاکستان تحریک انصاف (جس میں بہت سارے حکمران طبقے کے لوگ جن کا تعلق مسلم لیگ ن/ق سے تھا اور سندھ نیشنل فرنٹ جس کی قیادت ممتاز بھٹو تھے وغیرہ شامل ہیں)،پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان مسلم لیگ ایل۔ایم، پاکستان پیپلز پارٹی۔ ورکرز(صفدر عباسی) اور آزاد امیدوار شامل ہیں۔ اور اب ان کے اتحاد میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی شامل ہو گئی ہے۔ کچھ قوم پرست پارٹیاں بھی ہیں جو الیکشن لڑنے جا رہی ہیں۔ قادر مگسی (سندھ ترقی پسند پارٹی) شدید خواہش رکھتا ہے کہ پی پی کو شکست ہو اور اس نے’’الائنس‘‘سے کہا ہے کہ میرے حق میں الیکشن سے دستبردار ہو جائیں تا کہ وہ زرداری کو شکست دے سکے۔ ان سب کی کوشش اور خواہش ہے کے پی پی پی کو شکست دی جائے۔۔افسوس! کہ ان کی یہ خواہش صرف ایک خوش فہمی ہی ہے۔صرف اور صرف ایم کیو ایم کراچی (میں سب سے زیادہ)، حیدرآباد، سکھر اور چند شہروں میں چند نشستیں جیت سکتی ہے۔ سندھ بھر میں’’مہاجر‘‘اپنے آپ کو ایک قلعے میں قید محسوس کرتے ہیں گو کہ وہ ایم کیو ایم کے منتخب نمائندوں سے نفرت کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ انہیں اپنا یا اپنے مشکل وقت میں مددگار سمجھ کر انہیں ووٹ دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے منتخب نمائندوں کے خلاف سخت نفرت اور غصہ سب سے زیادہ کراچی میں پایا جاتا ہے۔سندھ اسمبلی کی 168 نشستوں میں سے 51 نشستیں ایم کیو ایم پچھلی الیکشن میں جیتی تھی۔ 11 مسلم لیگ فنکشل اور91 پاکستان پیپلز پارٹی کو ملی تھیں۔ مجموعی طور پر سندھ میں پیپلز پارٹی کے متبادل میں محنت کش طبقے اور عوام کے لئے کوئی حقیقی پارٹی نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی مزدور طبقے اور عوام کی پارٹی ہے یا عوام کے لئے بہت کچھ کر چکی ہے یا کر رہی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کے محنت کش طبقے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ تعلیم صحت روزگار پینے کا پانی روڈ راستے امن سب تباہ ہیں۔ ناانصافی، جبر، ظلم، قتل و غارت، روڈ حادثات روز کا معمول ہیں۔
2018 ء کے اس سال کی الیکشن کے علاوہ ایک یہ خصوصیت بھی ہے کہ 50 سال قبل 69-1968ء میں ایک انقلاب ہوا تھا جس کی بدولت پاکستان پیپلز پارٹی راتوں رات پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بن کر 1970ء کے الیکشن میں کامیاب ہو کر اقتدار میں آئی تھی۔ بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ دیا اور عوام کے درد اور مسائل کی بات کی اور یہ عین وہ وقت تھا جب مزدور طبقہ اور نوجوان سڑکوں پر تھے۔ اس انقلاب نے اپنے لیے قیادت تعمیر کی جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں تھی۔ مارکسی تجزیے کے مطابق 69-1968ء میں دسیوں مرتبہ معیشت کو مکمل طور پر مزدور طبقے کے جمہوری کنٹرول ( جو سوشلزم کی بنیاد ہے) میں دیا جا سکتا تھا اور سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ مگر بھٹو ایسی قیادت نہ تھا جو یہ فریضہ سرانجام دے سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو حکمران طبقے کا ذہین و فطین شخص تھا۔ وہ 8 سال ایوب کی حکومت میں اس کے ساتھ رہا 1966ء میں وہ ایوبی حکومت کو چھوڑ کر باہر ہوا۔ 1967ء میں اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ایک سال بعد پاکستان کی تاریخ کا واحد اور پہلا انقلاب شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کوئی مارکسسٹ یا انقلابی شخص نہیں تھا اس نے صرف سوشلزم کے لفظ کو استعمال کیا اور عوام کے مزاج کو جان کر نعرے دے گیا۔ چند اصلاحات کے عوض ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں حکومت چاہتا تھا۔ سرمایہ داری میں مدتوں پہلے یہ سکت ختم ہو چکی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں جب آیا تو اس کے ساتھ مزدور طبقے کی طاقت تھی اور جب مزدور طبقے کے لئے معیشت اور سماج کو تبدیل کرنے کا وقت آیا تو وہ سب منشور اور وعدے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس طرح سرمایہ داری اور سامراج کی مدد کر رہا تھا اور وہ دو کشتیوں میں سوار ہوا۔ یہ ناممکن تھا کے دو متضاد طبقوں کو ایک ساتھ چلا کر خوش کر پاتا۔ جب مزدور طبقے کی بھٹو کے لیے حمایت کم ہوئی تو سرمایہ دار، سامراج اور حکمران طبقے نے اس کی جان لینے میں ایک پل کے لئے بھی نہیں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لیکن جس طبقے سے ذوالفقار علی بھٹو نے دغا کیا وہ طبقہ نصف صدی تک اس سے وفا کرتا رہا ہے۔ کیا مارشل لا، کیا ضیاء الحق کی ڈکٹیٹرشپ، کیا بینظیر بھٹو کی سامراج اور سرمایہ داری کی غلامی اور کیا زرداری کی پی پی پی کی حکومت! مزدور طبقے نے مسلسل اس کا ساتھ دیا لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس طبقے کی پیٹھ میں ہمیشہ چھرا گھونپا اور حکمران طبقے کی دلالی کی۔
وقت ایک سا نہیں رہتا۔ ہر چیز اپنے الٹ میں بدل جاتی ہے۔ 50 سال قبل محنت کش طبقے نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے سر اور آنکھو ں پہ بٹھایا تھا اور اس کے لئے جانیں قربان کی تھیں مگر اب وہی مزدور طبقہ اپنی حقارت اور کراہت کا اظہار پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسوں میں اپنا غصہ دکھا کہ احتجاج کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنا الیکشن منشور شائع کر کے بہت خوش اور مطمئن تھی کہ اب وہ آسانی سے الیکشن میں داخل ہو کر الیکشن جیت لیں گے۔ مگر زمینی حقائق ان کو گلے پڑ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مختلف سابقہ وزرا، ایم این ایز اور ایم پی ایز کو محنت کش طبقے کے نالاں افراد کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیاری کراچی میں، سکھر میں ، شکارپور میں سب جگہ ان کے خلاف احتجاج اور غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم کوئی جوش و جذبہ نہیں رکھتی۔ بلکہ پیپلز پارٹی کی علاقائی قیادت اپنے تئیں تو الیکشن مہم کر ہی نہیں پا رہی۔ انہوں نے بلاول بھٹو کو اپنے آگے لگا کر عوام کے ساتھ ایک بار پھر فریب کرنا چاہ رہے ہیں۔ اپنے جبر اور لوٹ کے راج کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ڈھال اس عوامی غصے کی تیغ برداشت ہی نہیں کر پائے گی جو مزدور طبقہ اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
اس 2018ء کے الیکشن سے سارا حکمران طبقہ بشمول سامراجی خوف زدہ ہیں انہیں سمجھ نہیں آرہی کی کہ ایسی کسی قیادت کو کہاں سے لائیں جو بڑی مدت تک ان کے لئے کارآمد ہو۔ مسلم لیگ (ن)کو ریاستی ادارے خود پاش پاش کرتے جا رہے ہیں۔ عمران نام کے غبارے میں ہوا سوراخوں کی وجہ سے بھر نہیں پا رہی۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں بہت عرصہ پہلے اپنی جڑیں کھوچکی ہے اب ان کے لئے وہاں کوئی خاطرخواہ نمائندے اور قیادت نہیں ہے۔ حکمران طبقے کے ’’الیکٹیبل‘‘ لوگ اس جماعت کے پیچھے لگ رہے ہیں جو خود ریاست کے پیچھے ہے۔ ن لیگ کے ریاستی خادم امیدوار آزاد الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔مختصر یہکہ ایک ایسی حکومت اس الیکشن کے بعد بننے جا رہی ہے جس کا کوئی ایک رنگ اور ایکذائقہ نہیں ہوگا۔ اس طرح کی حکومت میں وزیر اعظم غیر متوقع شخص ہی بن سکتا ہے۔ یہ الیکشن اور اس کے بعد کے سماجی سیاسی اور معاشی حالات محنت کش طبقے کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہی کریں گے۔ اس لمحے کا تعین ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتے کے محنت کش طبقہ پھر کب69- 1968ء کی طرح انقلاب کے میدان میں جنگ لڑے گا مگر یہ احساس ضرور ہو رہا ہے کہ وہ وقت اب دور نہیں۔ محنت کش طبقہ سوشلزم کی پیاس رکھتا ہے وہ نظریہ اس تک پہنچانا ایک انقلابی پارٹی کا اولین فریضہ ہے۔ سوشلزم کو محنت کش طبقے تک لے جاؤ! عالمی مزدور طبقے کی جڑت بناؤ!