پوسٹ کلونیل ازم کا جمالیاتی ابجد، ایمے سیزائر کے کتابچے ’نو آبادیات پر گفتگو‘ کا تنقیدی جائزہ

|تحریر: پارس جان|


محنت کش طبقے کی انقلابی قائدانہ صلاحیتوں سے بدظن موقع پرست بائیں بازو کی پیٹی بورژوا انٹیلی جنشیہ فرینکفرٹ سکول کے زمانے سے ہی مسلسل مارکسزم کے نت نئے مفاہیم و توضیحات کی تلاش میں سرگرداں رہی ہے۔ جب یہ لوگ اپنے سامراجی آقاؤں کی براہِ راست یا بالواسطہ آشیرواد اور اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود مارکسزم کا کوئی متبادل پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو بالآخر مارکسزم کی توڑ مروڑ سے ہی کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ایک ایسا مارکسی بیانیہ تشکیل دیا جائے جس سے عملاً سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی مفادات کو کوئی بھی خطرات لاحق نہ ہوں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے جہاں ایک طرف ان کے لیے یہ کام قدرے آسان ہو گیا تھا وہیں وہ بے لگام خود اعتمادی کا شکار ہو کر بے معنویت کی دلدل میں غرق ہونے لگے اور ان کی مضحکہ خیزیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی۔

سب سے دلچسپ اور عبرتناک حالت تیسری دنیا یا سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے بائیں بازو کی ہوئی جو مداری کی ڈگڈگی پر ناچنے والے بندر سے بھی بدتر ہیں کیونکہ اب مداری کے ہاتھ سے ڈگڈگی بھی کب کی گر چکی ہے مگر یہ ابھی تک بے سر و پا ناچتے چلے جا رہے ہیں اور تماش بینوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ناچ رہے ہیں یا پٹھوں کی کسی انتہائی تکلیف دہ لاعلاج بیماری میں مبتلا ہونے کے باعث خود پر قابو نہیں رکھ پا رہے۔ ان میں سے جو کوئی بھی چار لفظ حفظ کر لیتا ہے وہ فکری نرگسیت کے عارضے میں مبتلا ہو جاتا ہے اور باقی ٹولہ مریدین کی طرح اس کا طواف کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس حلقے میں مشہور ہونے کا ایک ہی نسخہ ہے کہ کسی طرح کوئی ایسی نئی اصطلاح یا توضیح گھڑ لی جائے کہ مارکسزم کے انقلابی جوہر کی از سرِ نو تنسیخ کی راہ ہموار ہو جائے اور گھسی پٹی طبقاتی کشمکش سے جان چھوٹے اور بغیر مزاحمت کے ذہنی عیاشی کا یہ تھیٹر یونہی چلتا رہے۔ ایسا کچھ بھی نیا سامنے آتے ہی فوراً ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ لو جی کمال ہو گیا، فلاں علامہ صاحب نے تو گتھی ہی سلجھا دی ہے اور اب اس نئے ٹوٹکے سے پرانی ساری بیماریوں کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ تھوڑا سا ہی کھنگالنے سے ان کا کچا چٹھا سامنے آ جاتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ یہ نیا چورن تو پہلے بھی کئی بار استعمال کیا جا چکا ہے اور یہ پہلے بھی کئی دانشوروں کے اعصابی خلیوں کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ المختصر یہ کہ اس بار بار کی مشق سے یہ بار ہا ثابت ہو چکا ہے کہ انقلاب اور محنت کش طبقے کی قیادت کے علاوہ سامراجی وحشت سے نجات کسی صورت ممکن ہی نہیں ہے۔

اگر پاکستان کی پیٹی بورژوا نٹیلی جنشیہ کی بالعموم اور بائیں بازو کی بالخصوص بات کی جائے تو ان بیچاروں پر غصہ کم اور ترس زیادہ آتا ہے۔ جس طرح اولادِ نرینہ کی خواہش میں گاؤں کی ان پڑھ خواتین ہر پیر، عامل کے چکرویو میں پھنس جاتی ہیں کہ اس سے ہمیں ’پتر‘ مل جائے گا اور پھر اپنی عزتِ نفس اور آبرو سمیت سب کچھ گنوا بیٹھتی ہیں، یہ ہماری انٹیلی جنشیہ بھی اسی طرح ہر کچھ عرصے بعد کسی نئے پیر یا عامل کے تلوے چاٹنے شروع کر دیتی ہے۔ حقیقی مارکسزم یعنی لینن ازم کے رد کے لیے انہوں نے کس کس دہلیز پر سجدہ نہیں کیا۔ ایرک فرام سے لے کر دریدا تک اور فوکو سے لے کر ارون دتی رائے تک انہوں نے سب کو اپنا روحانی پیشوا بنایا۔ حتیٰ کہ یہ ہراری اور نوم چومسکی کے بھی دلدادہ بن گئے کہ کسی طرح لینن نام کے سر پھرے اور اس کے ثابت قدم شاگردوں کے بالشویک طرز کے انقلاب سے پہلو تہی کرنے کا موقع مل جائے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اب ان کی اکثریت مابعد نو آبادیاتی فکر (post colonialism) کے یکطرفہ عشق میں مبتلا ہو چکی ہے اور مارکسزم کو یورو سنٹرک کہہ کر رد کرنا آج کل فیشن میں ہے۔ مزدور تحریک میں تو اگرچہ ابھی تک یہ نظریاتی وائرس مکمل طور پر سرایت نہیں کر پایا ہے اور این جی اوز کی اصلاح پسندی سے ہی انسدادِ مارکسزم کی مہم زوروں پر ہے البتہ قومی اور طلبہ کی دیگر جمہوری تحریکوں میں کافی حد تک یہ وبا پھیل چکی ہے اور مارکسزم کے خلاف ایک غیر اعلانیہ گٹھ جوڑ ملک کی لگ بھگ تمام اہم جامعات اور تعلیمی مراکز میں متحرک ہے جس کا مقصد اپنا کچھ تعمیر کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ ہر قیمت پر مارکسی تحریک کو سبوتاژ کرنا مقصود ہے۔ یوں اپنے جوہر میں یہ ایک خالصتاً تخریبی رجحان ہے جس کا تدارک مارکسزم کے ہر دیانتدار طالبِ علم پر فرض ہے۔

ان خواتین و حضرات کی اپروچ مکمل طور پر عملیت پسندانہ ہے اور جب لینن ازم سے لڑنے کے لیے دریدا اور فوکو جیسے مابعد جدیدیوں کے نظریاتی مورچے کارگر نہیں رہتے تو پھر یہ اپنی بندوقیں گرامچی اور فینن جیسے انقلابی رہنماؤں کے کندھوں پر رکھ کر مزدور تحریک پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور مخصوص معروضی وجوہات کی بنا پر (جن پر ہم پہلے کہیں تفصیلی بات کر بھی چکے ہیں) ان انقلابی رہنماؤں کے نظریات میں پائے جانے والے ابہام اور کجیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے اور ان کی سوفسطائیانہ تشریحات کے ذریعے یہ خواتین و حضرات ان کے ذریعے لینن ازم کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ گرامچی کے بنیادی تصورات لینن ازم سے کسی صورت بھی متصادم نہیں ہیں جبکہ فینن جتنا لینن ازم کے بنیادی تصورات بالخصوص پرولتاریہ کی آمریت کا انکاری ہے، اتنی ہی شدت سے وہ پیٹی بورژوا اصلاح پسندی اور نو آبادیاتی ممالک کی بورژوازی کی قیادت میں کسی بھی قسم کے انقلاب کے امکان کو ہی سرے سے رد کر دیتا ہے اور صرف مسلح جدوجہد کو ہی آزادی حاصل کرنے کا واحد طریقہ کار قرار دیتا ہے۔ پیٹی بورژوا انٹیلی جنشیہ کے زیادہ سیانے کوے آج کل فینن کے دوست اور استاد ایمے سیزائر کے پرستار بنے ہوئے ہیں اور اس کے نظریات کا برملا پرچار کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ انہوں نے ایمے سیزائر کے کتابچے ”نو آبادیات پر گفتگو“ کی شکل میں تیسری دنیا کے تمام مسائل کا حل اور مکمل ضابطہ ِحیات دریافت کر لیا ہے۔ اس کتابچے کے اب بائیں بازو کے قارئین میں کافی مقبول ہونے کی ایک وجہ اس کا انتہائی مختصر ہونا بھی ہے کیونکہ شارٹ کٹ کی نفسیات کا شکار یہ پیٹی بورژوا بایاں بازو اب ضخیم اور ’موٹی موٹی‘ کتابوں کا تمسخر اڑاتا ہے اور چھوٹے کتابچوں کا شوقین ہے۔ اس کتاب پر دیباچے کے طور پر لکھے گئے اپنے مضمون ’استعمار مخالف مزاحمت کی شعریت‘ میں Robin D.G. Kelley نے اسے ’تیسری دنیا کے مینی فیسٹو‘ کا نام بھی دیا ہے۔ اصطلاحات کے استصنام میں مبتلا یہ بایاں بازو اب اسے واقعی مینی فیسٹو اس لیے بھی تسلیم کرنے اور کروانے پر مصر ہے کیونکہ اس امریکی دانشور اور نقاد کی بات بھی ان کے لیے سند کا درجہ رکھتی ہے۔ دراصل پوسٹ کلونیل ازم کے سحر میں مبتلا اس انٹیلی جنشیہ کا تشخص کا بحران اور احساسِ کمتری چھپائے نہیں چھپتا اور یہ آج بھی مغربی جامعات کے مقالوں اور ان سامراجی اداروں کے سند یافتہ نظریات کو کوئی آسمانی صحیفہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ آج کل مذکورہ کتابچہ ان کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ اس کے ذریعے نوجوانوں کو فکری سطح پر زد و کوب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا اس کتابچے کامارکسی نقطہِ نظر سے تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہو چکا ہے۔

مصنف اور اس کے نظریات

ایمے سیزائر 26 جون 1913ء کو کیریبین کے ایک جزیرے مارٹینیق کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا۔ ا س کا خاندان اگرچہ پیٹی بورژوا تھا مگر اسے سخت مالی مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ سیاسی حوالے سے بھی یہ ایک انتہائی تلاطم خیز دور تھا۔ پہلی عالمی جنگ نے پوری دنیا اور اس کے عمومی تصورات کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک عہد خاکستر ہو رہا تھا اور اس کی راکھ سے ایک مختلف عہد نمودار ہو رہا تھا۔ عمومی سوچ اور فکر میں تغیر و تبدل نیا سماجی معمول بن رہا تھا۔ ایسے ماحول میں ایمے کے بچپن کو بھی غیر معمولی تجربات کا سامنا رہا ہو گا، یہی وجہ ہے کہ وہ سکول کے زمانے سے ہی بہت سوچ وچار کرنے والے اور سنجیدہ طالبِ علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ سکول میں ہی اسے بہت سے ایسے رفقاء ملے جو اسی کی طرح سوچتے تھے اور وہ مستقبل میں اس کے نظریاتی ساتھی بھی بنے۔ اس کا وطن مارٹینیق فرانس کی کالونی تھا، جہاں فرانسیسی زبان ہی رائج تھی مگر ایمے کو زمانہ طالبِ علمی سے ہی لاطینی اور انگریزی زبانوں میں بھی گہری دلچسپی تھی اور اس نے بہت جلد ان زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ تعلیم کے سلسلے میں نو عمری میں ہی اسے فرانس میں مقیم ہونا پڑا جہاں ایک طرف مارٹینیق اور فرانس کے معیارِ زندگی کے امتیاز نے اسے جذباتی اور ثقافتی دھچکے سے ہمکنار کیا وہیں بہت سے سینی گالی دانشوروں سے رفاقت نے اسے افریقہ کی عمومی مشکلات سے بھی آگاہ کیا۔ اس کے ان رفقاء میں سے بہت سے شعر و ادب سے شغف رکھنے والے نوجوان تھے جن میں سے کچھ بعد میں بڑے نامی گرامی شاعر قرار پائے۔ اس عہدکی عمومی اتھل پتھل اور ادیبوں اور شعرائے کرام کی صحبت نے ایمے سیزائر کو بھی شاعر بنا دیا۔

جی ہاں، وہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہی تھا۔ زبان و بیان پر قدرت اور عمیق مشاہدے نے اسے ایک بلند قامت اور اعلیٰ پائے کے شاعر کا درجہ دے دیا۔ ویسے تو کوئی بھی ادب اپنی سرشت میں کبھی غیر سیاسی یا غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتا لیکن اس مخصوص عہد میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایمے سیزائر شروع سے ہی ایک نظریاتی شاعر تھا، جس نے اپنے لوگوں کے روزمرہ کے مصائب اور ان کے حل کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ اسی ادبی سفر نے محض 22 سال کی عمر میں اسے ایک نئے فکری رجحان کا موجد بنا دیا۔ وہ ایک جریدے سے وابستہ تھا جس میں 1935ء میں شائع ہونے والے اس کے قطعات میں پہلی دفعہ ’سیاہ فامیت‘ (Negritude) کی اصطلاح استعمال کی گئی جس نے بعد ازاں دیکھتے ہی دیکھتے ایک باقاعدہ فکری رجحان کی شکل اختیار کر لی۔ یہ رجحان ہمیشہ نظریاتی ابہام کا شکار رہا، تاہم اس کا عمومی جھکاؤ بائیں بازو کی طرف ہی تھا۔

یہ در اصل مغربی سرمایہ داری بالعموم اور فرانسیسی سامراج کی بالخصوص انسانیت سوز نسل پرستانہ روش کا ردِعمل تھا جس کی ایمے سیزائر کے ہاں سیاسی سے زیادہ جمالیاتی تشکیل ہوئی۔ اس کی ہر نظم نے اس تصور کے خد و خال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی مشہور نظم ’آبائی وطن کی طرف واپسی کی نوٹ بک‘ نے اس کے خیالات کی ترویج و تدوین کو مزید مہمیز دی۔ وطن واپسی سے قبل اس نے مختلف افریقی نو آبادیوں کی سیر کی تھی جس نے اسے افریقہ کے سیاہ فام تشخص کی کلیت سے روشناس کرایا۔ اس کے خیال میں فرانسیسی ثقافت نے سیاہ فاموں کے تشخص کو مجروح کر دیا تھا اور اس تشخص کے بحران کا واحد حل ’سیاہ فامیت‘ کی بنیاد پر اپنے اصل مقام کے حصول کی جدوجہد ہی ہے۔ سینی گال کے معروف شاعر سنگھر (Sebghor) اور دیگر نے بھی اس فکری رجحان کی افزودگی میں کلیدی کردار ادا کیا مگر سوزین (Suzanne) نے سیزائر کے سیاسی اور ادبی نظریات کی تعمیر و تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ وہ سیزائر کی شریکِ حیات بھی بنی، اسے تعجیب پسندی (Surrealism) کے اہم ترین اساتذہ میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔

سیاہ فامیت، تعجیب پسندی اور کمیونزم

اکیسویں صدی کے اوائل کا زمانہ بلاشبہ ایک نیا تاریخی عہد تھا۔ سامراجیت کے ظہور پر مبنی عہد کی اس تبدیلی کا سیاسی اظہار جہاں بین الاقوامی تعلقات میں بھونچال کی سی کیفیت میں ہو رہا تھا، وہیں شعور کی اتھل پتھل یکے بعد دیگرے نئی ادبی تحاریک کی شکل میں بھی اپنا اظہار کر رہی تھی۔ جس طرح ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ادب میں ہر نئے مکتب اور رجحان کا ظہور ایک باغیانہ روش کا علمبردار ہوتا ہے، بعد ازاں عہد کے حاوی عوامل اس کے ارتقائی مراحل کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ اس عہد میں فیوچر ازم اور دادا ازم جیسی ادبی تحریکیں بھی سماجی بندھنوں اور بندشوں اور فرسودہ فنی اسلوب کا اپنے اپنے طریقے سے مذاق اڑا رہی تھیں لیکن ان میں سب سے مربوط، مؤثر اور دل پذیر ادبی تحریک تعجیب پسندی کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔ یہ اپنی طرز کا ایک منفرد مکتب تھا جو ایک طرح کی حقیقت پسندی ہی تھی۔ لیکن یہاں حقیقت کو ایک عجیب و غریب شکل میں ایسے مسخ کر کے پیش کیا جاتا تھا کہ پڑھنے اور دیکھنے والے فرطِ حیرت میں مبتلا ہو جائیں اور ان کے ضمیر کی لتاڑ پچھاڑ اس طرح سے ہو کہ وہ باعمل اور باکردار بن جائیں۔ یہ اگرچہ جمالیات کی سطح پر بڑی سرکشی تھی مگر یہ اپنے جوہر میں کوئی سیاسی نظریہ نہیں تھا، محض ایک جمالیاتی میتھڈ تھا جسے مختلف نظریات کے لوگوں نے اپنے اپنے مافیہہ کی تشکیل کے لیے استعمال کیا۔ سلواڈر ڈالی جیسے شاہ پرست فنکار بھی اس مکتب سے وابستہ رہے لیکن انارکسٹوں اور کمیونسٹوں نے بھی اس سے بھرپور استفادہ حاصل کیا۔

ایمے سیزائر بھی اپنی انقلابی سرشت کے باعث تعجیب پسندی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ سماجی و سیاسی حقائق کو مسلسل تغیر اور اکھاڑ پچھاڑ میں دیکھنے کا جمالیاتی میتھڈ تھا۔ اس کا جدلیاتی پہلو یہ تھا کہ اس میں معروضی حقیقت کی ظاہریت پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کی موضوعی تشکیل کر کے اس کے باطنی عوامل کو سطح پر لانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ سیاہ فامیت کے علمبرداروں نے اس میتھڈ کو بورژوا اور سامراجی تہذیب کے پرکشش لبادے کو چاک کر کے اس کے غیر انسانی جوہر کو عریاں کرنے، اس کی تضحیک کرنے اور اسے مسخ کر کے اپنے من پسند جمالیاتی خاکوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے استعمال کیا۔ مگر اس تعجیب پسندی کے ساتھ منسلک ہو جانے سے سیاہ فامیت کی جمالیاتی تشکیل تو مکمل ہو گئی مگر اس کی نظریاتی پیاس بجھنے کی بجائے اور بھی شدت سے بھڑک اٹھی۔ اس پیاس کو کمیونسٹ نظریات ہی بجھا سکتے تھے۔ ایک سفید فام تعجیب پسند اینڈرے بریٹن کی وساطت سے سیاہ فامیت نہ صرف تعجیب پسندی سے لیس ہو گئی بلکہ اسے کمیونزم کی شکل میں جاندار نظریاتی بنیادیں بھی میسر آ گئیں۔ بریٹن کو تعجیب پسندی کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر ساتھ ہی وہ ایک باعمل کمیونسٹ بھی تھا جسے سوویت بیوروکریسی پر تنقیدکرنے کے باعث فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں وہ لیون ٹراٹسکی کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس نے ٹراٹسکی کے ساتھ مل کر ’آزاد اور انقلابی فن کے لیے مینی فیسٹو‘ بھی تحریر کیا۔ اس مینی فیسٹو کے اختتامی کلمات یہ تھے، ”ہمارا مقصد ہے انقلاب کے لیے فن کی آزادی اور فن کی مکمل اور حقیقی آزادی کے لیے انقلاب۔“ ایمے سیزائر پر بالخصوص اور سیاہ فامیت پر بالعموم بریٹن کی تعجیب پسندی نے اَن مِٹ نقوش ثبت کیے۔ اس کے متوازی دوسری عالمی جنگ جیسے دیوہیکل سیاسی واقعات نے بھی ایمے سیزائر اور اس کے ساتھیوں کے نظریاتی ارتقا کی رفتار تیز کر دی تھی۔ ہٹلر کی افواج نے مارٹینیق سمیت فرانس کا کافی بڑا حصہ ہتھیا لیا تھا اور یوں فاشزم مخالف تحریک نے سماج کی بنیادوں کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ان تمام تجربات سے گزر کر دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے دنوں میں ایمے سیزائر نے فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کی باقاعدہ رکنیت اختیار کر لی اور وہ ممبر پارلیمان بھی منتخب ہو گیا۔

ایمے سیزائر کے سیاسی سفر میں نظریاتی استحکام کا دورانیہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ رابن ڈی جی کیلے اپنے مذکورہ بالا مضمون میں لکھتے ہیں کہ، ”انہوں نے ذہنی انقلاب کے لیے تعجیب پسندی کا سہارا لیا اور پیداواری قوتوں کے انقلاب کے لیے مارکسزم کی طرف رجوع کیا۔ یہ تعجیب پسندی، سیاہ فامیت اور کمیونزم تینوں کے مابین شادی کی طرح کا بندھن تھا۔“ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کا رکن بننے کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ ایمے سیزائر کو مارکسزم کے بنیادی فلسفے یعنی جدلیاتی مادیت کے فلسفے پر گرفت یا عبور حاصل ہو چکا تھا۔ بلکہ اپنے کامریڈ اور دوست فرانز فینن کی طرح اس کا اصل میدان فلسفہ نہیں بلکہ نفسیات ہی تھا۔ اس کے نزدیک تعجیب پسندی لاشعوری قوتوں کے ارتکاز کا ایک ہتھیار تھا۔ ایمے کا انقلابی شعور بہرحال مارکسی جدلیات سے زیادہ تعجیب پسندی کی جمالیات سے متاثر تھا اور وہ اسی پر استوار اور مستحکم رہا۔ سوزین سیزائر کے بقول تعجیب پسندی ”حیرت انگیزی (Marvellous) کے لیے مستقل مستعدی (readiness)“ کا نام ہے، وہ اپنی کتاب ’تعجیب پسندی اور ہم‘ میں لکھتی ہے کہ، ”زندگی کی طرف ہمارے انقلابی رویے سے متصادم ہونے، اسے کم یا زائل کرنے کے برعکس تعجیب پسندی اسے تقویت پہنچاتی ہے۔ یہ ہمارے اندر ایک بے صبر اور جلد باز طاقت بھر دیتی ہے جو ہمیں انکار اور ٹکراؤ کی ان تھک توانائی دیتی ہے۔ میں آنے والے کل کا بھی سوچتی ہوں جب عالمی جنگ کے غصیلے افق پر لاکھوں سیاہ فام ہاتھ اپنی پوری طاقت سے ابھریں گے، وہ طویل سکتہ پرور نیند سے بیدار ہوں گے، راکھ کے ڈھیر سے سب سے لاچار اور غیر مؤثر لوگ اٹھ کر کھڑے ہو جائیں گے۔ اس وقت ان بیدار ہونے والی روحوں کو ہماری یہی تعجیب پسندی ایک شکتی مہیا کرے گی۔“

ایک انٹرویو میں سیزائر نے کہا تھا کہ، ”تعجیب پسندی مجھے اس لیے پسند تھی کیونکہ یہ میرے لیے آزاد کرنے والا عنصر تھا۔ اس میں آزادی کی طرف میلان موجود ہے۔ یہ لاشعور کو جھنجھوڑ کر متحرک کر دیتی ہے۔ میں تعجیب پسندی کے ذریعے اپنی لاشعوری قوتوں کومجتمع کر سکتا ہوں، یہ میرے لیے پورے افریقہ کو ایک کال ہے، میں خود سے کہتا ہوں کہ یہ درست ہے کہ ظاہری طور پر ہم فرانسیسی ہیں، ہم ڈیکارٹ (Cartesian) کے فلسفے اور فرانسیسی گردان سے مغلوب ہیں لیکن اگر ہم اس سب سے تعلق توڑ لیں اور اپنی گہرائیوں میں اتریں تو ہم اپنی بنیاد میں سیاہ فام ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تعجیب پسندی مغائرت کی تنسیخ (disalienation) اور آلودگی کے ازالے (detoxification) کا عمل ہے۔“ ایمے سیزائر کے ہاں تعجیب پسندی کا جو مفہوم پایا جاتا ہے، اس کی روشنی میں اگر اس کا ترجمہ ”لاشعوریت پسندی“ بھی کیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ جبکہ مارکسی جدلیات فرد، سماج اور فطرت اور ان کے باہمی تعلق کی شعوری تفہیم کا اوزار ہے۔ یوں ایمے سیزائر بنیادی طور پر ایک نظریہ ساز یا محقق نہیں تھا بلکہ وہ ایک اعلیٰ ظرف شاعر تھا، اسے نظریہ ساز ثابت کرنے یا ایک سیاسی رہنما بنا کر پیش کرنے کی ہر کوشش خود اس کے ساتھ زیادتی اور بد دیانتی ہی کہلائی جائے گی۔

اسی بنیاد پر ”نو آبادیات پر گفتگو“ کو بھی اگر ایک طویل نثری نظم کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ ایک ایسی نظم جو بلاشبہ ادبی سچائی کا شاہکار ہے۔ اس کا اسلوب اتنا جاندار ہے کہ ہر قاری جذباتی طور پر اس سے جڑ کر سیزائر کا ہمنوا بن جاتا ہے۔ لیکن اس میں سرمایہ داری کے خاتمے اور سامراج سے آزادی کا کوئی پروگرام سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایمے سیزائر سماجی ناہمواریوں اور عدم مساوات کے خاتمے کی جدوجہد میں کمیونزم تک پہنچ تو گیا تھا مگر بدقسمتی سے فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کی سٹالنسٹ پالیسیوں نے اسے کمیونزم سے بدظن کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی سیاہ فاموں کی آزادی کی تحریک کے نہ صرف خلاف تھی بلکہ یہ نام نہاد کمیونسٹ حریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنوں میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے اور ان کے لیے عبرتناک سزاؤں کے مطالبے پر مبنی پمفلٹس شائع کرتے تھے۔ ایمے سیزائر نے کمیونسٹ پارٹی کو ایک خط کے ذریعے اپنا استعفیٰ بھیج دیا تھا جس میں سٹالنسٹ افسر شاہی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ تاہم اس بھیانک تجربے کے ردِ عمل میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ پہلے سے بھی زیادہ شناخت کی سیاست کی طرف مائل ہو گیا اور اس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ، ”ہمیں مارکسزم کو مکمل کرنا ہے۔“ وہ مارکسی فلسفے کی عمومیت سے فرار ہو کر شناخت کی مخصوصیت میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ فرانز فینن کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں لیکن اس پر بریٹن سے زیادہ سارتر کے نظریات کی چھاپ ہے۔ ایمے سیزائر کی اسی ترمیم پسندی کے باعث آج کل کے موقع پرست اسے ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں اور تیسری دنیا میں اسے یا اس کے دوست اور شاگرد فینن کو لینن سے زیادہ قابلِ تقلید لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

سامراجیت کا سدِباب

قارئین کے ذہن میں یقینا یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ اگر اس کتابچے میں نجات اور جدوجہد کا کوئی واضح پروگرام موجود ہی نہیں تو پھر مزاحمتی لٹریچر میں اس کا مقام آخر ہے کیا اور کیا یہ واقعی انقلابی کارکنوں کی توجہ اور مطالعے کا مستحق ہے بھی یا نہیں؟ بلاشبہ یہ کتابچہ جدوجہد کا کوئی منظم منصوبہ اور پروگرام پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم سامراجی نظام کی پروردہ مغربی تہذیب کی اندوہناک اور انسان دشمن حقیقت کو اجاگر کرنے اور قابلِ فہم انداز میں پیش کر کے نوجوانوں میں اس کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بیدار کرنے میں اس کتابچے کا اسلوب کار آمد اور کامیاب ثابت ہوا ہے۔ جہاں نو آبادیات کے عوام میں اپنی آزادی کی جدوجہد کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے وہیں یہ کتابچہ سامراجی ممالک کے نوجوانوں کو اپنے ہی حکمران طبقے کی اصلیت سے روشناس کروا کر ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے پر اکساتا ہے۔ تاہم اس کی کمزوری یہ ہے کہ یہ سامراجی ممالک کے نوجوانوں اور نو آبادیاتی ممالک کے عوام کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے کی بجائے ان میں کسی حد تک تفاوت کو بڑھانے کا موجب بھی بنتا ہے۔

اس کتابچے کے اس قدرے رجعتی پہلو پر ہم آگے چل کر مزید روشنی ڈالیں گے لیکن اس سے قبل اس کے متن کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیسے مصنف کے الفاظ قارئین کے دلوں میں اتر کر ان کی زندگیاں بدلنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ ذرا اس پیراگراف پر غور کیجیے، ”نو آبادکاری بہترین اور مہذب ترین شخص کو بھی انسانیت کے درجے سے گرا دیتی ہے۔ نو آبادکاری سے متعلق ہر سرگرمی، ہر طریقہ، ہر تسخیر کی بنیاد ہی مقامی باشندوں کی تحقیر پر ہوتی ہے اور اسی تحقیر سے ہی انہیں جواز بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تمام تر سرگرمی اور تسخیر اپنے بروئے کار لانے والے یعنی نو آبادکار کو بھی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ نو آبادکار اپنے ضمیر کی ملامت کو کم کرنے کے لیے دوسرے فرد کو ایک جانور کے طور پر دیکھنے کا خود کو عادی بنا لیتا ہے، وہ خود کو دوسرے فرد کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور یوں وہ معروضی طور پر خود کو ہی جانور میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ نو آبادکاری کا ناگزیر نتیجہ ہے“۔

کیا یہ غلط ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ ہمارے بلوچ اور پشتون سیاسی کارکنان آج بھی اسی قسم کے تجربات سے آئے روز گزرتے ہیں جہاں ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرنے والے خود اپنی درندگی کا برملا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔ یہ سطور سامراجیت کی آفاقیت کا پُر مغز جمالیاتی خاکہ پیش کر رہی ہیں۔ پھر وہ ان سامراجی تہذیبوں کے انہدام کا تناظر پیش کرتا ہے۔ ”وہ تہذیب جو اپنے ہی پیدا کردہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہو، جمود کا شکار ہو چکی ہے، وہ تہذیب جو اپنے سب سے بنیادی مسئلے سے آنکھیں موند کر گریز کرے، فرسودہ ہو چکی ہے، وہ تہذیب جو اپنے اصولوں کو فریب اور دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرے، ایک مرتی ہوئی تہذیب ہے۔“

جن دو مسائل یا سوالات کی طرف ایمے سیزائر اپنے قارئین کی توجہ مبذول کروا رہا ہے وہ پرولتاریہ کی نجات اور نو آبادیاتی سوال ہیں اور اس کے خیال میں مغربی تہذیب ان دونوں مسائل کو حل کرنے کا کوئی ارادہ اور صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور یہی دو مسائل اسے اس کے انہدام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یہاں ایمے سیزائر کے اپنے تجزیے سے ہی یہ سوال ابھرتا ہے کہ ان دونوں مسائل کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ایمے اس کا واضح جواب نہیں دے پاتا۔ وہ درست طور پر یہ تو بتاتا ہے کہ یہ دونوں مسائل مغربی تہذیب یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے مگر پھر یہ حل کیسے ہوں گے، اس کی طرف وہ علامتی انداز میں ہی گفتگو کرتا ہے۔ تاہم وہ انتہائی رجعتی قوم پرستوں کی طرح پرولتاریہ کے وجود اور انقلابی پوٹینشل سے یکسر انکار نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی ’گفتگو‘ کے اختتام پر واضح اعلان کرتا ہے کہ مغربی تہذیب کو انہدام سے بچانے کی کنجی ان ممالک کے پرولتاریہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔ یعنی یہ مغربی ممالک کا پرولتاریہ ہی مشرقی نو آبادیات کو اپنے حکمران طبقات کی سامراجی جکڑ سے نجات دلا کر مغربی تہذیب کو اس کا انسانی جوہر واپس فراہم کر سکتا ہے۔

کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز بہت پہلے آزادی کے اس عالمگیر انقلابی تصور کی وضاحت کر چکے تھے۔ 1847ء میں پولینڈ کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے اینگلز نے کہا تھا کہ، ”ایک قوم کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ آزاد ہو جائے اور ساتھ ہی دوسری اقوام پر جبر بھی کرتی رہے۔ اسی لیے جرمنی کی آزادی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پولینڈ جرمن تسلط سے آزاد نہیں ہو جاتا۔“ لیکن اینگلز کا یہ تجزیہ جدوجہد کی عالمگیریت کے تصور پر مبنی تھا، یعنی اس تصور پر کہ ظالم اور مظلوم اقوام کے محنت کشوں کے مفادات آخری تجزیے میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں جبکہ ایمے سیزائر طبقاتی شعور اور مزدور تحریک کی اس عالمگیریت کو ایک کلیت میں سمجھنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک وجہ سامراجیت کی معاشی بنیادوں کی سمجھ بوجھ کا فقدان بھی ہے۔

فینن اور ایمے سیزائر کے پرستار لینن کے سامراجیت کے تصور اور تشریح پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ لینن نے سامراجیت کے صرف معاشی پہلوؤں کا ہی احاطہ کیا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ ان دوستوں کو لینن کی کتاب ’سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل‘ کا از سرِ نو مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ کتاب کا مرکزی خیال سرمایہ دارانہ سامراجیت کے تصور کی معاشی بنیادوں کی ہی نشاندہی ہے لیکن لینن کو کسی طور پر معاشی تخفیف پسند قرار نہیں دیا جا سکتا اور وہ سامراجیت کے ثقافتی اور نفسیاتی مضمرات کو کبھی بھی پسِ پشت نہیں ڈالتا۔ بالخصوص کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی چار کانگریسوں میں نو آبادیاتی مسئلے پر ہونے والی بحثوں اور قرار دادوں میں لینن اور ٹراٹسکی نے ان ممالک کی قومی آزادی کی تحریکوں کی حمایت (مجرد نہیں بلکہ ٹھوس) کو عالمی مزدور تحریک کی کامیابی کی کنجی قرار دیا تھا اور ہر قسم کے سامراجی جبر کی بھرپور مذمت کو مارکسیوں کے لازمی فریضے کے طور پر پیش کیا تھا۔

لینن کے ان پیٹی بورژوا نقادوں کے اعتراضات کے برعکس خود فینن اور ایمے سیزائر کسی حد تک ثقافتی تخفیف پسندی کا شکار نظر آتے ہیں۔ بلکہ فینن تو سرمایہ دارانہ معاشی رشتوں (سرمائے اور محنت کا تضاد) کا ہی یکسر انکار کر دیتا ہے اور اس کے خیال میں نو آبادیاتی ممالک کا پرولتاریہ حکمران طبقے یعنی بورژوازی کا ہی حصہ ہے۔ یعنی مارکس جس پرولتاریہ کو بورژوازی کا گورکن قرار دیتا ہے، فینن اسے اس کا سہولت کار ہی نہیں بلکہ اس کے جسم کا حصہ قرار دے دیتا ہے اوراس کے نام لیوا پیٹی بورژوا دانشور انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہہ کر اس کے نظریات کو اکسیر قرار دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ فینن اور اس کے استاد نے مارکسزم کو تیسری دنیا کے معروضی تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے اس کی تکمیل کی ہے۔

’نو آبادیات پر گفتگو‘ کرتے ہوئے ایمے سیزائر نے سامراجیت کی معاشی بنیادوں کا تفصیلی احاطہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اینگلز اور لینن کی طرح ظالم اور مظلوم اقوام کے محنت کشوں کی جدوجہدوں کی نامیاتی جڑت کی لازمیت کا کبھی ادراک ہی نہیں کر سکا۔ اس کا نو آبادکار کے وحشیانہ طرزِ عمل کی وجہ سے مقامی باشندوں کی شے کی حیثیت (thingification) کا تصور جو کہ بظاہر قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے مگر وہ ایک الگ تھلگ سماجی مظہر کے طور پر یعنی اپنی میکانیات میں حقیقی انقلابی مغز (substance) سے محروم ہی رہتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نو آبادکار مقامی باشندوں کے ساتھ واقعی غیر انسانی یا شے کی طرز کا سلوک کرنے کا مرتکب نہیں ہوتا۔ ان سامراجیوں کا برتاؤ یقینا ایسا وحشیانہ ہی ہوتا ہے لیکن اسے سرمایہ دارانہ نظام کی عمومیت سے کاٹ کر دیکھنا درست نہیں۔

مظلوم اقوام کی اپنی ذات، تاریخ اور ثقافت سے بیگانگی کو وہاں کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ سامراجی ممالک کے محنت کشوں کی بیگانگی کی عمومی کلیت میں سمجھنے کے لیے کارل مارکس کا فلسفہِ بیگانگی سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ کارل مارکس نے اس بیگانگی کی بنیادیں محنت کشوں کی اپنی تخلیقی صلاحیت اور پیداوار سے مغائرت یعنی اشیا کے استصنام (fetishism of commodities) کے تصور کے ذریعے سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار (mode of production) میں تلاش کی تھیں۔ سامراجیت کے عہد میں سرمایہ دار طبقے کی شرحِ منافع میں مطلوبہ اضافے کے لیے جہاں محنت کش طبقے کی پیدا کردہ قدرِ زائد کا بڑا حصہ ہڑپ کرنا یعنی محنت کا استحصال ضروری ہوتا ہے وہیں پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے خام مال اور تجارتی راستوں تک رسائی اور مال کی کھپت کے لیے منڈیوں پر سامراجی تسلط اور جبر ناگزیر ہوتا ہے۔

ہمارے کوڑھ مغز پوسٹ کلونیل اسٹ اپنی روایتی ذہنی کاہلی کے باعث سرمایہ دارانہ استحصال (exploitation) اور قومی و ثقافتی جبر (oppression) میں باہمی نامیاتی لازمیت پر مبنی تعلق کی تفہیم کی اہلیت سے عاری ہوتے ہیں۔ یوں وہ اس نامیاتی تعلق پر استوار مظلوم اقوام اور محنت کش طبقات کے یکساں مفادات سے صرفِ نظر کرنے کی فاش غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مگر یہ اصل المیہ نہیں ہوتا، یہ نا اہلیت تو مضحکہ خیز صورتحال کو جنم دیتی ہے۔ المیہ تو یہ ہوتا ہے کہ یہ خواتین و حضرات اپنی اس سیاسی جہالت کو ثقافتی تعظیم کی پوشاک پہنا کر اس پرفخر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بائیں بازو کی پیٹی بورژوا انٹیلی جنشیہ اور زیادہ تر تنگ نظر سندھی، بلوچ، پشتون اور دیگر قوم پرستوں کی اکثریت شعوری یا لاشعوری طور پر پوسٹ کلونیل اسٹ اور مابعد جدیدیت کے تعصبات سے لتھڑی ہوئی ہے اور طبقاتی بنیادوں پر کسی بھی ممکنہ اتحاد کے تصور کو ہی رد کر دیتی ہے جبکہ اس طبقاتی یکجہتی (بشمول پنجابی محنت کش) کے بغیر پاکستانی ریاست کو شکست دینا محال ہے۔

فاشزم اور لبرل نسل پرستی

فاشزم کو بلاشبہ نسلِ انسانی کے تمام تر تجربات میں سے سب سے بھیانک تجربہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس نے تہذیب و تمدن کی بنیادوں میں لرزا طاری کر دیا تھا۔ لیکن عام طور پر اسے لبرل ڈیموکریسی سے متضاد اور ’غیر سرمایہ دارانہ‘ مظہر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی سرمایہ دارانہ معمول تو ہرگز نہیں ہے۔ لیکن عام طور پر یہی کہا اور پڑھایا جاتا ہے کہ سرمایہ داری کا اصل جوہر تو جمہوریت ہے جس میں تحریر و تقریر کی آزادی، فردکی انفرادیت کا تقدس، سب کے لیے مساوی مواقع، آئین اور قانون کی پاسداری اور اجتماعی فلاح کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے۔ جبکہ فسطائیت نے یہ ساری ضمانتیں چھین لی تھیں اور قانون کی حاکمیت کی جگہ ایک شخصی آمریت مسلط کر دی تھی، لہٰذا یہ سرمایہ داری کا بھی خاتمہ تھا اور بعد ازاں فسطائیت کو لبرل سرمایہ داری نے شکست دے کر جمہوریت کو بحال کر دیا۔ یہ نری بکواس ہے جو سیاسیات اور تاریخ کے پروفیسر صاحبان عام طور پر ابدی اور قطعی سچائی سمجھ کر طلبہ کے دماغوں میں انڈیلتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں ہم نے فلسطین کے معصوم اور نہتے عوام سے یکجہتی کی تحریک کے کارکنوں کے ساتھ نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کا جو سلوک دیکھا ہے اس سے ہر دیانتدار شخص کی جمہوریت میں خوش فہمیاں ختم ہو جانی چاہیئں۔ لیکن ’نو آبادیات پر گفتگو‘ میں جس طرح ایمے سیزائر نے اس بظاہر قطعی سچائی کا پردہ فاش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف کاتعجیب نگاری کی تکنیک پر عبور سراہے جانے کے قابل ہے۔ اس نے نہ صرف اپنے اسلوب بلکہ تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ فسطائیت کے بیج لبرل ڈیموکریسی میں پہلے سے ہی موجود تھے۔ لیکن اسی ادبی مبالغے سے مصنف وہ باریک لائن بھی پامال کر جاتا ہے جہاں یہ سچائی اپنی تاریخی منطق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ ہم آگے چل کر اس کی وضاحت کریں گے۔

ایمے سیزائر ہٹلر کو نقل کرتے ہوئے فسطائیت کے مافیہہ کی تعریف کچھ یوں کرتا ہے کہ، ”ہمیں مساوات نہیں غلبہ چاہیے، ایک بیرونی نسل کے ملک کو پھر غلاموں، زرعی اور صنعتی مزدوروں کا ملک بن جانا چاہیے۔ انسانوں کے مابین عدم مساوات کو ختم کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ ہم نے اسے وسعت دے کر ایک قانون کا درجہ دینا ہے۔“ ایمے سیزائر مخصوص طنزیہ انداز میں وضاحت کرتا ہے کہ فسطائیت در حقیقت مغربی تہذیب میں سفید فاموں کے ساتھ سامراجی ہوس کا وہ برتاؤ ہے جو مشرقی اور نو آبادیاتی عوام کے ساتھ کئی نسلوں سے جاری تھا۔ یہ نو آبادکاری نظام کا وہ معمول ہے جو اب مغربی عوام کو پہلی بار دیکھنا پڑ رہا ہے۔ مغربی تہذیب کی سرشت میں خون بن کر دوڑنے والی نسل پرستی کے باعث جب تک ریپ، قتلِ عام اور مار دھاڑ غیر مغربی اقوام کے ساتھ تھی، تب تک وہ جائز اور معمول کی بات تھی لیکن جب اس آگ میں خود جلانے والوں کے گھر جلنے لگے تو اسے غیر انسانی یا غیر سرمایہ دارانہ نظام قرار دے دیا گیا۔ ایمے سیزائر نے ثابت کیا کہ یہ سامراجی نظام ہی اپنی اصل میں غیر انسانی ہے جو مغربی تہذیب کی روح اور ضمیر کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ یہ فاشزم نہیں تھا جس نے عالمی جنگ جیسی عفریت کو جنم دیا بلکہ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی تھی جو پہلے ہی عالمی جنگ کی بنیادیں استوار کر چکی تھی۔

ایمے سیزائر ہٹلر سے بہت پہلے کے لبرل مفکرین کی آرا کو نقل کرتا ہے اور دکھاتا ہے کہ کیسے نسل پرستی اور سرمایہ داری لازم و ملزوم ہیں۔ نامور مفکر رینن کے الفاظ دیکھیے جو سیزائر نے نقل کیے ہیں، ”کسی کمتر یا معدوم ہوتی ہوئی نسل کی کسی برتر نسل کے ہاتھوں از سرِ نو ترتیب و تشکیل انسانیت کے لازمی نظم و نسق کی پیشگی شرط ہے۔“ ریو ملر (Rev Muller) کہتا ہے کہ، ”انسانیت کو کسی صورت بھی غیر مہذب لوگوں کی نا اہلی، غفلت اور سستی کو یہ مہلت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اس دولت کو جو خدا نے انہیں ودیعت کی ہے، ناکارہ بنا دیں بلکہ اس تمام دولت کو اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے فوراً استعمال میں لانا چاہیے۔“ اس کتابچے میں دیگر بے شمار نامور دانشوروں کی آرا درج ہیں جو در حقیقت سیاہ فام یا مشرقی اقوام کی زمینوں اور وسائل کی لوٹ مار کو انسانیت کا ایک مقدس فریضہ قرار دیتے ہیں اور اس مقدس فریضے کی تکمیل کے لیے ظاہر ہے کہ ہر قسم کا خون خرابہ بھی جائز اور عین فطری سی بات ہو گی۔ ایمے سیزائر کے الفاظ میں لبرلز کا تخلیق کردہ ”عوام کے لیے چھین لو“ کا سامراجی نعرہ ہی دراصل فسطائیت کی تاریخی تمہید ثابت ہوا۔ وہ مزیدلکھتا ہے کہ، ”وہ قوم جو قبضہ گیری میں ملوث ہو، وہ تہذیب جو نو آبادکاری اور اس کے جبر کو جواز فراہم کرے، وہ پہلے ہی بیمار تہذیب ہے، وہ اخلاق باختہ ہے اور وہ بے اختیاری سے ایک کے بعد دوسری گراوٹ، ایک کے بعد دوسرے زوال کی طرف لڑھک رہی ہے اور اپنے ہٹلر یعنی اپنی تعزیر کو صدائیں لگا رہی ہے“۔

ایمے سیزائر کے الفاظ کی مدد سے کھینچی گئی ایک سرمایہ دار کی تصویر دیکھیے جس میں اس کے خد و خال اور نقوش ہی نہیں بلکہ اس کا آفاقی تشخص بھی ابھر کر سامنے آتا ہے: ”آدم خور، دماغی طور پر اپاہج خالق، ایک sadist جو انسانی فضلے اور سونے (gold) سے بنے تخت پر بیٹھا ہو، منافق، عیاش، ایسا نکما جو دوسروں کی کمائی پر پلتا ہو اور جو بسا اوقات نشے میں دھت پایا جائے، اس کھٹمل کی طرح جو رات بھر خون کے تین بیرل چڑھا کر دھت ہو جائے۔ یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ ایسے خالق کو بادلوں سے پرے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ہمیں کسی بزنس ڈائریکٹری یا کسی پرسکون ایگزیکٹو بورڈ میں بآسانی مل جائے گا۔ لیکن ایسے ہی چلنے دو، اخلاقی مبلغین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے“۔ یہ اسی طبقے کی حاکمیت تھی جس نے ناگزیر طور پر فاشزم کی شکل میں اپنا اظہار کرنا ہی تھا۔ جس طرح ایک اور سیاہ فام لیڈر میلکم ایکس نے وضاحت کی تھی کہ، ”نسل پرستی کے بغیر سرمایہ داری ناممکن ہے۔“ ٹراٹسکی کا بھی فاشزم پر یہی مؤقف تھا کہ یہ سرمایہ داری کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ یوں فاشزم کا ایمے سیزائر کا تجزیہ اگرچہ کافی حد تک درست ہے کہ ایک ایسا نظام جو سماج کے اجتماعی اور مشترکہ مفادات پر انفرادیت کو ترجیح دے، اس کے خمیر میں ہی شخصی آمریت کے امکانات موجود ہوں گے۔ لیکن وہ فسطائیت کو سرمایہ داری کے نظام کے ارتقائی عمل کے تسلسل میں سمجھنے سے قاصر ہی رہا۔ کیسے؟ آئیے اس اہم ترین نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی بات کو اختتام کی طرف لے کر جائیں۔

رومانویت اور تاریخی مادیت

تاریخ آخر ہے کیا؟ کیا اس کے اپنے مخصوص قوانین ہیں یا یہ انسانوں کے صوابدیدی افعال و کردار سے ترتیب پاتی ہے؟ یہ تمام انسانی علم کے بنیادی سوالات میں سے ایک ہے۔ ایمے سیزائر سرمایہ دارانہ تہذیب کی جو منظر کشی کرتا ہے وہ کسی حد تک جامد اور یکسانیت کا شکار ہے۔ اس کے خیال میں جدید سامراجیت سرمایہ داری کی ارتقا پذیر شکل نہیں بلکہ سرمایہ داری اپنے آغاز سے ہی سامراجی کردار کی حامل تھی۔ دراصل سرمایہ داری کا سامراجی کردار ذرائع پیداوار کی ترقی کا نتیجہ تھا۔ سامراجیت اور فاشزم دونوں بلاشبہ سرمایہ دارانہ مظاہر ہی ہیں لیکن یہ سب زمان و مکاں کی قید سے آزاد ایک ہی مظہر کی مختلف اشکال نہیں ہیں بلکہ الگ الگ سیاسی مظاہر بھی ہیں جن میں سے ہر ایک مخصوص عہد میں مخصوص عوامل کے مرہونِ منت تھا۔ ایمے سیزائر کا طرزِ فکر اس سے قدرے مختلف ہے۔

اس حوالے سے تہذیبوں کے تقابلی جائزے کے سوال پر ایمے سیزائر کی ’نو آبادیات پر گفتگو‘ خاص طور پر توجہ کی مستحق ہے۔ سچ کہیں تو ایمے سیزائر نے سرمایہ دارانہ تہذیب کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں۔ بورژوازی کی اتنی تضحیک شاید ہی اور کسی دستاویز میں اتنے شاعرانہ حظ کے ساتھ پڑھنے کو ملتی ہو۔ ذرا یہ سطور ملاحظہ فرمائیے، ”سرمایہ دار مجبور ہیں کہ وہ آئے دن پہلے سے زیادہ غرائیں (snarling)، پہلے سے زیادہ کھلے عام درندگی کریں، زیادہ بے شرمی کا مظاہرہ کریں، زیادہ ننگی بربریت پر اتر آئیں اور یہ ایک نا قابلِ تردید قانون ہے کہ ہر زوال پذیر طبقہ خود کو اس گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس میں تاریخ کا سارا فضلہ اور غلیظ پانی جمع ہوتا ہے۔ یہ ایک آفاقی قانون ہے کہ ختم ہونے سے قبل ہر طبقے کو ہر محاذ پر اور ہر میدان میں خود کو ناگزیر طور پر ذلیل و رسوا ہوتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ہر مرتے ہوئے سماج کو اپنا سر گوبر میں دھنسا کر اپنا آخری گیت (swan song) گانا اور اپنا آخری کارنامہ سر انجام دینا ہوتا ہے“۔ کیا خوبصورت اور سحر انگیز منظر کشی ہے۔ ایک ایک لفظ سے مصنف کی اس غیر انسانی معاشرے سے نفرت اور اشتعال کا لاوا پھوٹ رہا ہے۔ مصنف کے الفاظ اور اسلوب میں یہ کاٹ اور یہ تیز دھار جہاں زندگی کے تلخ تجربات، اپنے وطن کی زبوں حالی کے مشاہدے اور اپنے لوگوں کے کرب کی سانجھ کی دین ہے وہیں یہ سرمایہ دارانہ تہذیبی نرگسیت کا ردِعمل بھی ہے۔ یہ مغرب کے ان سرمایہ دارانہ دانشوروں کی خود پسندی کا ردِعمل ہے جو ایمے سیزائر کے الفاظ میں یہ سمجھتے ہیں کہ، ”سائنس کو مغرب نے ایجاد کیا، کہ صرف مغرب والوں کو ہی سوچنا آتا ہے، کہ مغرب کی سرحد کے اس پار جہالت اور فرسودگی کا راج ہے، جہاں اجتماعیت (participation) کے تصور کا غلبہ ہے، منطقی سوچ کی نا اہلیت ہے، اغلاط پر مبنی تصورات کا راج ہے“۔

مشرق میں مغرب کی سامراجی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے ایمے سیزائر قدیم مشرقی تہذیبوں کی رومانویت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ وہ ماضی کی ستائش کرتا ہے۔ اگرچہ وہ اور سوزین سیزائر دونوں اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا مقصدماضی کی طرف مراجعت ہرگز نہیں۔ اس کتابچے میں بھی ایمے نے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ ایک بالکل نئی اور جدید تہذیب کی تعمیر و تشکیل کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں جو سوویت یونین کی تقلید کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن رابن ڈی جی کیلے کے بقول یہ الفاظ کتابچے کے عمومی مزاج سے میل نہیں کھاتے اور یہ بات واقعی کسی حد تک درست بھی ہے کہ کتابچے میں اول سے لے کر آخر تک تیسری دنیا کی داخلی سطح پر طبقاتی کشمکش کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور نو آبادکار اور نو آبادیاتی عوام کے تضاد کو ہی بنیادی تضاد بنا کر پیش کیا گیا ہے، جبکہ سوویت یونین کی مثال کی اس سے موافقت اور مطابقت سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سطور کتابچے کے مباحث کا منطقی نتیجہ نہیں ہیں بلکہ صرف فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے تحریر کی گئی ہیں اور اس کتابچے کی اشاعت کے چھ سال بعد جب سیزائر نے کمیونسٹ پارٹی کو خیر باد کہہ دیا تھا تو اسے اس قسم کے کسی تکلف کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سیزائر اور فینن کے پرستار جدید پوسٹ کلونیل اسٹ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر مغرب کی سامراجی مداخلت نہ ہوتی تو مشرق کی قدیم تہذیبیں خود ترقی کر کے مغرب سے آگے نکل جاتیں اور یہاں استحصال سے پاک معاشرہ کب کا تعمیر ہو چکا ہوتا۔

کسی بھی معروضی تجزیے میں حسِ تناسب فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ مغرب کے شاونسٹ دانشوروں کا یہ مؤقف سراسر غلط ہے کہ وہ جینیاتی طور پرمشرقی اقوام سے افضل ہیں اور وہ اگر مشرق کو مہذب کرنے کا تاریخی فریضہ سر انجام نہ دیتے تو مشرقی اقوام آج بھی عرب کے بدوؤں جیسی زندگی گزار رہے ہوتے۔ جیسا کہ اس کتابچے میں ایمے سیزائر خود رقمطراز ہے کہ، ”بلاشبہ ایسے بہت سے حقائق ہیں جو ان مغربی مفکرین کی مذکورہ بالا سوچ کو ٹھکراتے ہیں، جیسا کہ مصریوں کے ہاں ریاضی اور جیومیٹری کی ایجاد، اسیرین (Assyrian) لوگوں کے ہاں فلکیات کی دریافت، عربوں کے ہاں کیمسٹری کا جنم اور جب مغربی فکر شدت کے ساتھ قبل از منطق گھٹا ٹوپ تاریکی میں غرق تھی، اس وقت مسلمانوں کے ہاں عقلیت پسندی کا ظہور“۔ لیکن پھر پوسٹ کلونیل دانشوروں کا دوسری انتہا پر جا کر یہ دعویٰ بھی سراسر غلط ہے کہ سامراجی مداخلت کی عدم موجودگی میں یہ قدیم تہذیبیں خود بخود ایک مساوات پر مبنی معاشرے کو جنم دے سکتی تھیں۔

درحقیقت ان قدیم تہذیبوں میں بھی یہ ذہنی اور جسمانی محنت کی تقسیم ہی تھی جس کی بنیاد پر ریاضی، فلکیات اور فلسفے میں پیشرفت اور ترقی ممکن ہو رہی تھی اور محنت کی یہ تقسیم ناگزیر طور پر طبقاتی خلیج کو وسعت دینے کا سبب بنتی۔ پیداواری صلاحیت کی افزودگی ناگزیر طور پر حاکم طبقات کو دنیا کے دیگر خطوں کے وسائل کی لوٹ مار پر مجبور کرتی اور بالآخر آج انقلابی مفکرین مغربی سامراجیت کی بجائے مشرقی سامراجیت کا رونا رو رہے ہوتے اور مغرب کی آزادی کا راگ الاپ رہے ہوتے۔ لیکن یہ سوالات اور طرزِ فکر ہی اپنی بنیاد میں غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے۔ تاریخ کو اگر مگر کی بنیادپر نہیں بلکہ ٹھوس حقائق اور نامیاتی عوامل کی بنیادپر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جو دنیا ہے، یہی اصل، واحد اور حقیقی دنیا ہے اور یہ ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ یہ مختلف ارتقائی مراحل طے کر کے موجودہ شکل میں آج ہمارے سامنے ہے۔ یہ ارتقائی مراحل صوابدیدی ہرگز نہیں تھے بلکہ ہر ایک تاریخی مظہر کے پیچھے ٹھوس محرکات اور عوامل کار فرما تھے، ہمارا کام ان عوامل اور محرکات کا مطالعہ کرنا ہے۔ اس کے برعکس فرضی، ممکنہ اور تصوراتی دنیا کی منطقی توضیح میں سر کھپانا سراسر لغو اور مابعد الطبیعاتی نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

یہ ذہنی اور جسمانی محنت کی تقسیم ہی تھی جس نے ذرائع پیداوار کو بے پناہ ترقی دی اور خود اپنے خاتمے کے معروضی امکانات کو جنم دیا۔ قدیم تہذیبوں سے براہِ راست سوشلزم کی طرف سفر کے تصور اور امکان کو ایک یوٹوپیا ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں اس کی سائنسی وضاحت پیش کر دی تھی اور پھر روس میں نرودنکس کے ساتھ بحثوں میں پلیخانوف اور لینن بھی اس یوٹوپیائی تصورکا بھرپور پوسٹ مارٹم کر چکے ہیں۔ غار کے زمانے سے لے کرسرمایہ دارانہ معاشرے تک انسانیت نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ ایمے سیزائر اور اس کے بعدکے مابعد جدیدیے کسی حد تک آج کی دنیا میں جاری ظلم، جبر اور خون ریزی کے باعث ترقی کے عمومی قانون اور حاصلات کو ہی رد کر دیتے ہیں۔ تاریخ کے تمام نظام ظہور پذیر ہی اس لیے ہوئے تاکہ ذرائع پیداوار کے پاؤں کی زنجیروں کو توڑ سکیں اور پھر اپنا تاریخی پوٹینشل بروئے کار لا کر وہ اپنی ہی موت کا سامان پیدا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ خود سرمایہ داری پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے جسے ایمے سیزائر سمجھنے سے قاصر ہے۔

وہ اس کتابچے میں لکھتا ہے کہ، ”کوئی پسند کرے یا نہ کرے بورژوازی کو اکیلے ہی ایک طبقے کے طور پر تاریخ کی ساری بربریت کی ذمہ داری لینی ہو گی، قرونِ وسطیٰ کے دور کے تمام تشدد اور تمام جنگی تباہ کاریوں کی، نسل پرستی اور غلامی کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ چیز جس کے خلاف اس نے خود نا قابلِ فراموش احتجاج اس وقت کیا تھا جب یہ حملہ آور طبقے کے طور پر انسانی ترقی کا اوتار ہونے کا دعویدار طبقہ تھا۔“ سچ اس کے برعکس ہے۔ یعنی قرونِ وسطیٰ کے دور میں تمام تر خونریزی کی ذمہ داری کلیسا اور اس وقت کی جاگیردار اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنا تمام تر تاریخی پوٹینشل زائل ہو جانے کے باوجود بھی اقتدار سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام نے جاگیر دارانہ نظام کی لاش کو دفنا کر ترقی پسندانہ کردار ادا کیا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے امریکہ میں ابراہام لنکن کی قیادت میں سرمایہ داروں نے غلامی کے خلاف انقلابی جنگ لڑی تھی۔ جبکہ آج کی تمام تر جنگوں، بربریت، قومی و ثقافتی جبر اور انتشار کی تمام تر ذمہ داری اسی سرمایہ دار طبقے پر عائد ہوتی ہے جس نے اب تاریخی عمل میں اپنی نفی تو کر دی ہے لیکن اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔

آج اس نظام کو دفنانے کا تاریخی فریضہ اس کے اپنے تخلیق کردہ گورکن یعنی پرولتاریہ نے ادا کرنا ہے جو مشرق اور مغرب میں بیک وقت ایک عالمگیر طبقے کے طور پر موجود ہے اور اس نظام کے خاتمے کے لیے ان کی مشترکہ اور مسلسل انقلابی کاوشیں درکار ہیں جبکہ پوسٹ کلونیل ازم کے نظریات ان اجتماعی جدوجہدوں اور طبقاتی یکجہتی کے رستے کی رکاوٹ بن کر سامنے آئے ہیں۔ کیونکہ وہ طبقاتی کشمکش کی بجائے میکانکی طرزِ فکر کے باعث مشرق اور مغرب کو مجرد بلاکوں کی شکل میں دیکھتے ہیں اور ان کے مطابق لڑائی غریب اور امیر، مزدور اور سرمایہ دار کے مابین نہیں ہے بلکہ مشرق اور مغرب کے مابین ہے۔ یہ نظریہ آخری تجزیے میں بورژوازی کے تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کی ہی ایک شکل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے، اسے اپنے رستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے ہنر میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ مارکسزم اور لینن ازم میں اسے تاریخی مادیت کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آج سامراجیت کا بحران کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایمے سیزائر نے خود مغربی تہذیب کے زوال کو سلطنتِ روم کے زوال سے تشبیہہ دی تھی لیکن یہ مماثلت آج پہلے کی نسبت کہیں زیادہ درست ہے۔ لیکن یہ نظام تمام تر بحران کے باوجود خود نہیں مرے گا۔ اسے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نیست و نابود کر کے اس کے ملبے پر حقیقی انسانی کمیونسٹ مستقبل کی تعمیر کا آغاز کرنا ہو گا۔

 

 

Comments are closed.