|تحریر: راب سیول اور ایلینا سائمن، ترجمہ: اختر منیر|
عالمی معیشت کے تمام اشاریے غلط سمت میں اشارہ کر رہے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے میں خوف و ہراس بڑھتا جا رہا ہے۔ اس مرتے ہوئے نظام سے چھٹکارہ پانے کا وقت آچکا ہے۔
’’جب لہریں تھم جاتی ہیں تو تب ہی پتہ چلتا ہے کہ کون کون ننگا تیر رہا تھا‘‘، یہ بات بہت عرصہ پہلے ایک ارب پتی وارن بفٹ نے کہی تھی۔ دوسرے لفظوں میں ایک خاص لمحے تک ہی چیزیں خوش کن دکھائی دیتی ہیں۔ جب حالات پلٹا کھاتے ہیں تو سب افشا ہوجاتا ہے۔
یہ بات آج کی عالمی معیشت کی صورتحال کو واضح کرتی ہے۔ لہریں بیٹھ رہی ہیں۔
’’مربوط مندی‘‘
عالمی معیشت ایک ’’مربوط مندی‘‘ میں داخل ہو چکی ہے۔ بروکنگز انسٹیٹیوشن تھنک ٹینک کے مطابق 2019ء میں بھی ان حالات کو تبدیل کرنا مشکل ہوگا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پچھلی خزاں سے پوری دنیا کے معاشی اعداد و شمار ابتری کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر چین، امریکہ اور یورپ پر صادق آتی ہے۔
اس ابتر صورتحال کی وجہ سے آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف اپنی معاشی نمو کی پیش گوئیوں میں کمی کرے گا۔
عالمی سرمایہ داری کے لیے حالات سازگار دکھائی نہیں دے رہے۔ عالمی معاشی بحالی کے لیے بروکنگز ایف ٹی ٹریکنگ انڈیکس حقیقی (معاشی)سرگرمی، مالیاتی منڈیوں اور سرمایہ داروں کے اعتماد کا عالمی معیشت اور ہر ملک کی تاریخی اوسط کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔
ان کے مطابق انڈیکس کے اعداد و شمار ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں کے لیے 2016ء کے بعد کی کم ترین سطح پر ہیں، جو 2008ء کے بحران کے بعد معاشی سرگرمی کے حوالے سے سب سے کمزور ترین سال تھا۔
یورپ میں شرح نمو مایوس کن رہی۔ معیشت دان بتاتے ہیں کہ اٹلی بحران کا شکار ہے اور جرمنی اس سے بال بال بچا ہوا ہے۔
’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘
’’تجارتی کشیدگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے عالمی معیشت پر دیر پا مضر اثرات ہوں گے‘‘، بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر ایشور پرساد نے کہا۔ (معاشی) سست روی ’’بد شگونی‘‘ کی حد تک پہنچ چکی ہے۔
’’عوامی قرضے انتہائی بلند سطح پر پہنچ چکے ہیں، جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ بڑی ترقی یافتہ معیشتیں سست روی سے نمٹنے کے لیے مالیاتی محرک کے استعمال کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جائیں گی‘‘، اس نے مزید کہا۔ ’’روایتی مالیاتی پالیسی ترقی یافتہ معیشتوں میں محدود ہو چکی ہے جہاں شرح سود صفر کے قریب یا اس سے بھی کم ہے، جبکہ مزید کسی بھی غیر روایتی مالیاتی پالیسی کے استعمال سے خطرات اور غیر یقینی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
عالمی سرمایہ داری کی یہ مایوس کن صورتحال براہ راست سرمائے کے منصوبہ سازوں کی طرف سے سننے میں آ رہی ہے۔ وہ آنے والے خطرات کو دیکھ تو سکتے ہیں، مگر ان کو روکنے کے معاملے میں ان کے ہاتھ بندھے ہیں۔ وہ پچھلے بحران میں اپنے تمام حربے استعمال کر چکے ہیں۔ ایک نئے آنے والے ناگزیر بحران کے سامنے وہ بالکل نہتے کھڑے ہیں۔
سرمایہ داروں پر منڈلاتا بھوت
اس وجہ سے عالمی سرمایہ داری کی اہم شخصیات اپنے نظام کے مستقبل کو لے کر خوفزدہ ہیں۔ فرانس میں پیلی واسکٹ والوں کی تحریک کی شدت اور نوجوانوں کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف پوری دنیا میں ہڑتالوں کے نظام بدلنے کے مطالبات کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے حصوں کو انقلاب کے خطرات دکھائی دینے لگے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی رہنما خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف کے سابق چیف اکانومسٹ رگھو رام راجن نے کہا، ’’میرا خیال ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام شدید خطرات سے دوچار ہے، کیونکہ یہ اکثریت کے لیے بے سود ہو چکا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو اکثریت سرمایہ داری کے خلاف بغاوت کر دیتی ہے۔‘‘
فرانس کے وزیر خزانہ برونو لی میری نے بھی انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ سرمایہ داری قائم رہے تو کام کی بہتر اجرت دینا ہوگی۔۔۔ ایک ایسا وقت آتا ہے جب محنت کش مزید برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
اس وقت وہ اپنی سوچ سے بھی زیادہ سچ کے قریب ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے یہ سنجیدہ منصوبہ ساز آج اس حقیقت کو بھانپ رہے ہیں جس کی مارکس وادی سالوں سے وضاحت کرتے آرہے ہیں: سرمایہ داری کا بحران ہر جگہ دیو ہیکل سماجی دھماکوں کی بنیادیں تیار کر رہا ہے۔
ان بورژوا معیشت دانوں کے واویلے کے باوجود حکمران طبقہ اسے ٹالنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔
کینسر کا علاج سردرد سے!
سرمایہ داری کا بحران محنت کے کچھ ثمرات واپس محنت کشوں کو دینے سے حل نہیں ہونے والا۔ چھوٹی موٹی تبدیلیوں سے سرمایہ داری ’’منصفانہ‘‘ نہیں ہو جائے گی۔ کینسر کا علاج سردرد کی گولی سے نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سرمایہ داری کے فکر مند مفکرین کے پاس دینے کے لیے سر درد کی گولیاں ہی ہیں۔
’’سرمایہ داری کا اصلاحی مفکر‘‘ رگھو رام راجن اب اسٹیبلشمنٹ سے کہہ رہا ہے کہ وہ ’’دوبارہ سے توازن بحال کریں‘‘ اور سرمایہ داری سے متاثر ہونے والوں کو پھر سے ’’مواقع‘‘ فراہم کرے۔ لیکن استحصال پر مبنی ایک نظام کے اندر توازن قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ کس طرح ’’توازن‘‘ قائم کر سکتے ہیں جب 26 ارب پتی 3.8 ارب لوگوں سے زیادہ دولت کے مالک ہوں!
سرمایہ داری کا مطلب ہی یہ ہے کہ اکثریت کا استحصال کر کے اقلیت کے منافعوں میں اضافہ کیا جائے۔ اگر کچھ سرمایہ دار اپنے محنت کشوں کو بہتر اجرت دینا بھی چاہیں بھی تو وہ منڈی میں موجود مقابلہ بازی کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے۔ یوں سرمایہ داروں میں کم سے کم اجرت دے کر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ لگی رہتی ہے۔
’’مواقع‘‘ پیدا کرنے کی باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب عالمی نظام بحران میں جاتا ہے تو مالکان فیکٹریاں بند کرنے، لوگوں کو کام سے نکالنے اور اخراجات کم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر سرمایہ کاری کی ایک فرم پمکو کے معیشت دان 2019ء میں صرف 0.8 فیصد بڑھوتری کی پیشگوئیوں کی وجہ سے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ جرمن سیاستدانوں کو ’’ایسی پالیسیاں اپنانی چاہئیں جن سے بزرگوں کے لیے زیادہ مدت تک کام کرنے کے مواقع پیدا ہو سکیں‘‘۔ یہ ایک ایسے ملک کی بات ہے جہاں حال ہی میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 67 سال کی گئی ہے۔
سرمایہ داری اسی طرح کے مواقع پیدا کرتی ہے، مرتے دم تک کام کرتے رہنے کے مواقع!
سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی
معیشت دان اپنے نظام کے مستقبل کو لے کر خوف زدہ ہونے میں حق بجانب ہیں۔ ان کی سرمایہ داروں سے عدم مساوات کم کرنے کی اپیلیں منڈی کی بے رحم منطق میں غرق ہو جائیں گی۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ اس نے اپنی حدوں کو چھو لیا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی بیڑی خود سرمایہ ہے۔ سرمایہ داری کے اپنے قوانین ہی زائد پیداوار کے بحران کی شکل میں اس کی حدود کا تعین کرتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ معیشت دان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ کچھ علامات تو دیکھ سکتے ہیں مگر تضادات کو نہیں سمجھتے۔ سب سے بنیادی تضاد یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اپنی پیدا کی ہوئی پوری قدر واپس خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
سرمایہ دار وقتی طور پر یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کا طریقہ استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ گاڑی کو ہاتھوں سے دھکیلنے کے مترادف ہے۔ زیادہ سرمایہ کاری سے پیداواری قوت میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے عالمی منڈی میں اشیائے صرف کی بہتات ہو جاتی ہے۔ جلد یا بدیر اس کا نتیجہ ایک بحران کی صورت میں نکلتا ہے۔ کیونکہ منڈیاں اشیاء سے بھر جاتی ہیں، نہ بکنے والی اشیاء کے انبار لگنے لگتے ہیں اور سرمایہ دار منافع حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
2008ء میں آنے والا آخری بحران تاریخ کا گہرا ترین بحران تھا۔ آگے نظر آنے والا بحران اس سے بھی گہرا ہو سکتا ہے۔
صرف معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی ہی اس آنے والی تباہی کو روک سکتی ہے۔ صرف منافعوں کے لیے پیداوار کے اس بے ہنگم نظام کو ہٹا کر قومی تحویل میں ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت، جو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں ہو، قائم کرکے ہی پیداوار کو انسانی ضرورت کے تابع کیا جاسکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے، اب اس کی جگہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہے۔