|تحریر: آدم پال|
بھگت سنگھ کی پھانسی کو آج 90 سال گزر چکے ہیں لیکن اتنے طویل عرصے کے بعد بھی برصغیر کے اس عظیم انقلابی کے نظریات اور جدوجہد کو تاریخ سے مٹایا نہیں جا سکا۔ برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہزاروں لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا جبکہ لاکھوں لوگوں نے سامراجی جبر سے آزادی کی جدوجہد میں صعوبتیں اور تکلیفیں اٹھائیں اور بد ترین جبر و تشدد کا نشانہ بننے کے باوجود آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔ لیکن ان میں بھگت سنگھ کو آج بھی نمایاں مقام حاصل ہونے کی وجہ اس کی بلند ہمتی، جرأت، دلیری اور بے باکی کے ساتھ ساتھ اس کے انقلابی نظریات ہیں جو اس کی تحریروں کی شکل میں موجود ہیں۔ یہ نظریات نو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آج کی نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ان میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ سب سے بڑھ کر جس عزم اور حوصلے سے بھگت سنگھ نے اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت برطانوی سامراج کو للکارا، اس کی گونج پورے برصغیر کے طول وعرض میں پھیل گئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بھگت سنگھ لاکھوں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا۔ یہ صورتحال نہ صرف یہاں پر قابض برطانوی حکمرانوں کے لیے ناقابل قبول تھی بلکہ یہاں پر موجود ان کے گماشتوں کے لیے بھی انتہائی پریشان کن اور خطرے کا باعث تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بھگت سنگھ کے مقدمے کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے انتہائی اقدام کیے گئے اور برطانیہ سے ایسی قانون سازی کروانے کی کوشش کی گئی کہ یہ مقدمہ جلد ختم ہو اور بھگت سنگھ کو ساتھیوں کے ساتھ پھانسی دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ اس کے لیے سامراجی طاقت نے اپنے ہی بنائے ہوئے انتہائی جابرانہ قوانین کو بھی روند ڈالا اور تمام قانونی، اخلاقی اور انسانی حدود کو پار کرتے ہوئے 23 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کو رات کی تاریکی میں لاہور کی سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی۔ بھگت سنگھ کی نعش بھی اس کے ورثا کے حوالے کرنے کی بجائے جیل حکام نے ہی نا معلوم مقام پرتلف کرنے کی ناکام کوشش کی تاکہ اس پھانسی سے بھڑکنے والی عوامی بغاوت کو روکا جا سکے۔
لیکن بھگت سنگھ شہادت کے بعد ان حکمرانوں کے لیے پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہوگیا اور نہ صرف اس کی جرأت اور بہادری کی کہانی پورے ملک میں ایک لوک داستان کی طرح گھر گھر پھیل گئی بلکہ اس کی تحریریں اور نظریات بھی مقبولیت حاصل کرنے لگے۔ 90 سال گزرنے کے بعد آج بھی اس کا نام کروڑوں دلوں میں بغاوت کی سلگتی آگ بھڑکاتا ہے اور اس کے نظریات انقلابیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس کے نظریات کو بھی مسخ کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں، لہٰذا انہیں درست انداز میں منظر عام پر لانا انتہائی ضروری ہے تاکہ آج کے عہد کے انقلابی تاریخ کے ضروری اسباق سے درست نتائج اخذ کر سکیں اور اپنی منزل کی تلاش میں بھٹکنے کی بجائے درست رستے پر گامزن ہو سکیں۔
پھانسی کے بعد ابھرتی تحریکیں
بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت پوری آب و تاب کے ساتھ دوبارہ ابھرنی شروع ہوئی ا ور سب سے بڑھ کر بائیں بازو کے وہ نظریات تیزی سے مقبولیت حاصل کرنا شروع ہو گئے جنہیں کچلنے کے لیے ان سامراجی حکمرانوں نے اب تک جبر کے تمام ہتھکنڈے اپنائے تھے۔ مارکسزم کے نظریات کو پہلی دفعہ عوامی مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی اور کمیونسٹ پارٹی کو انڈیا میں ایک وسیع عوامی بنیاد ملنا شروع ہوئی۔ اس دوران ریلوے سمیت بہت سے اداروں اور صنعتوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور نہ صرف برطانوی حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوئیں بلکہ ان کے مسلط کردہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں بھی ہلنا شروع ہو گئیں۔ بائیں بازو کے نظریات کانگریس پارٹی کے اندر بھی تیزی سے سرایت کر رہے تھے اور وہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ صورتحال مقامی سرمایہ دار طبقے کے لیے بھی خطرناک تھی کیونکہ وہ برطانوی حکمرانوں کی آشیر باد کے تحت پروان چڑھنے کے بعد اب یہاں پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن اس کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھنا لازمی تھا۔ اس مقصد کے لیے اس کے آزمودہ لیڈر گاندھی اور نہرو تھے اور انہی کے ذریعے آزادی کی تحریک میں دائیں بازو کے نظریات پر مبنی سیاست کو مسلط کیا جاتا تھا اور اس آزادی کی تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں قیدرکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
بھگت سنگھ کی پھانسی سے قبل ہی ملک گیر سطح پر عوامی نفرت کا لاوا ابلنا شروع ہو گیا تھا اور اس 23 سالہ نوجوان کے ساتھ ہمدردی پورے ملک میں پھیلنے کے ساتھ ملک سے باہر یورپ میں بھی اثرات مرتب کر رہی تھی۔ لیکن پھانسی کے بعد یہ لاوا پھٹنا شروع ہو گیا تھا اور یکے بعد دیگرے تحریکوں کا آغاز ہو گیا۔ اس موقع پر اپنے ڈولتے ہوئے اقتدار کو سہارا دینے کے لیے برطانوی حکمران 1935ء کانیا قانون یہاں نافذ کر کے اور اس کے تحت کچھ صوبوں میں کنٹرولڈ قسم کے انتخابات کروا کر تحریک کو روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن یہ آزادی سے قبل کے تمام عرصے میں کی جانے والی سب سے بڑی اورریڈیکل اصلاحات تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکمران طبقے نے ہمیشہ کوئی بھی ریڈیکل اصلاحات اسی وقت ہی کی ہیں جب اسے انقلاب کا خطرہ محسوس ہوا ہے اور اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا ہے۔ یہی کچھ یہاں بھی کیا گیا اور اصلاحات کا لالی پاپ دے کے کر آزادی کی جدوجہد کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تمام صورتحال میں یہاں کی سیاسی قیادتوں کی غداریوں نے بھی اہم کردار ادا کیا جنہوں نے مکمل آزادی حاصل کرنے کی بجائے جدوجہد کو متعدد بار چند اصلاحات کی خاطر بیچ دیا۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ یہاں کے سرمایہ دار طبقے کے خصی پن کو بھی عیاں کرتا ہے جو اتنی وسیع عوامی تحریکوں سے خود ہی خوفزدہ ہوجاتا تھا اور انہیں کچلنے کے لیے اور نظام کی حدود میں مقید کرنے کے لیے برطانوی سامراج کے گماشتے کا کردار ادا کرتا تھا۔
گاندھی کی غداریاں اور بھگت سنگھ
اس کردار کی غمازی گاندھی کی تمام تر سیاسی قلابازیوں اور غداریوں سے ہوتی ہے۔ اس کا سب سے پہلا کھلا اظہار 1919ء سے 1922ء تک جاری رہنے والی عوامی تحریک میں ہوتا ہے جس میں ملک کے طول و عرض سے لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا تھا اورتحریک کے دوران برطانوی سامراج کے یہاں سے پاؤں اکھڑ چکے تھے لیکن گاندھی، جسے اس وقت اس تحریک کی قیادت حادثاتی طور پر میسر آئی تھی، نے انتہائی غدارانہ کردار ادا کرتے ہوئے عدم تعاون کے نام سے چلنے والی اس تحریک کی انتہا پر اس کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا اور برطانوی سامراج کو دوبارہ یہاں پر قدم جمانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ اس موقع پر اگر درست نظریات سے لیس قیادت موجود ہوتی تو اس وقت یہاں پر نہ صرف انگریز سامراج سے مکمل آزادی حاصل کی جا سکتی تھی بلکہ بٹوارے کی خونریزی سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ اس تحریک سے حاصل ہونے والی آزادی یہاں پر سرمایہ دارانہ نظام کو بھی چیلنج کرنے کی جانب بڑھ سکتی تھی خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب روس کا انقلاب پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا اور وہاں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں سوویت یونین بے تحاشا حاصلات لیتا ہوا سماج کو ان دیکھی ترقی کی منازل طے کروا رہا تھا۔
درحقیقت، برطانوی حکمران بھی اس صورتحال کو بھانپ چکے تھے اور پوری قوت کے ساتھ ہندوستان میں مارکسی نظریات کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ یہاں پر روس کی بالشویک پارٹی یا اس سے متعلق کسی بھی لٹریچر کی اشاعت پر سخت ترین سزائیں دی جاتی تھیں او ر کمیونزم کے نظریات کے گرد منظم ہونے کی کوشش کو غداری جیسے سنگین الزامات لگا کر پوری طرح کچل دیا جاتا تھا۔ اس دوران پشاور سازش کیس یا بالشویک سازش کیس جیسے مقدمات اسی پالیسی کے تحت بنائے گئے تھے۔ دوسری جانب، ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے کو بھی چند مراعات دے کر اپنا مطیع بنانے کا عمل بھی جاری تھا جس میں اس دوران یہاں پر انہیں صنعتیں لگانے کی بھی اجازت دے دی گئی تھی۔ اسی طرح، سیاسی میدان میں گاندھی اور نہروکے ساتھ گٹھ جوڑ کا بھی آغاز ہو چکا تھا اور وہ آزادی کی لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں قید کرنے اور برطانوی سامراج کے اشاروں پر چلانے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔
اسی صورتحال میں ہمیں بھگت سنگھ کی لڑائی کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے اور اس کے نظریات ترتیب پانا شروع ہوتے ہیں۔ بھگت سنگھ اور گاندھی درحقیقت دو سیاسی پارٹیوں کی ہی نہیں بلکہ دو مختلف نظریاتی دھاروں اور دو نظاموں کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ نظریاتی لڑائی 90 سال گزرنے کے بعد بھی اس پورے خطے میں موجود ہے اور اس کا انت اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک یہاں طبقاتی نظام موجود رہے گا۔ اسی لیے آج کے عہد کے نوجوان انقلابیوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ اس فیصلہ کن لڑائی کی تاریخ سے نہ صرف واقفیت حاصل کریں بلکہ اس ادھورے انقلاب کو مکمل کرنے کے لیے جرأت اور دلیری کے ساتھ ساتھ اس نظریے کو بھی اپنے رگ و پے میں جذب کر لیں جس کا علم بھگت سنگھ نے بلند کیا تھا۔
بھگت سنگھ کا انقلابی سفر
بھگت سنگھ اور اس کی نسل جن انقلابی حالات میں پروان چڑھی تھی اس میں یہاں کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سے نئے سوالوں نے جنم لیا تھا۔ اس دوران انقلابِ روس 1917ء نے ان سوالوں کے تمام جوابوں کے لیے مشعلِ راہ بھی فراہم کی تھی اور پوری دنیا کی طرح اس خطے کے انقلابیوں کو بھی جوش اور ولولہ فراہم کیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی سامراج نے برصغیر کی بد ترین لوٹ مار کی تھی اور یہاں پر کروڑوں عوام کے خون اور پسینے کو اپنے سامراجی مقاصد کے تحت نچوڑ لیا تھا۔ دس لاکھ کے قریب ہندوستان فوجیوں نے جنگ کے دوران برطانوی سامراج کے لیے لڑائی لڑی تھی جبکہ 60 ہزار سے زائد زخمی یا ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ رسد کا سامان فراہم کرنے لیے یہاں کی کپڑے، چمڑے کی صنعت کے ساتھ ساتھ اجناس کی بھی بے انتہا لوٹ مار کی گئی تھی اور پوری برطانوی فوج کو رسد پہنچانے کے لیے ہندوستان کے ریشے ریشے کو نوچ لیا گیا تھا۔ اس دوران یہاں پر قحط سالی بھی پھیل گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں جبکہ آٹے کی قیمت چند سالوں میں دگنی ہو گئیں تھی۔ اسی طرح، وبائیں اور دیگر بیماریاں بھی لاکھوں افراد کی ہلاکتوں کا باعث بنی تھیں جبکہ برطانوی آقاؤں اور مقامی حکمرانوں کی لوٹ مار بڑھتی جا رہی تھی اور ہر ابھرنے والی بغاوت کو خون میں نہلا دیا جاتا تھا۔
اپریل 1919ء میں امرتسر میں جب جلیانوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا تو اس وقت بھگت سنگھ بارہ برس کا تھا۔ واقعہ کے وقت تو وہ وہاں پر موجود نہیں تھا لیکن جیسے ہی اس تک یہ خبر پہنچی تو وہ فوراًوہاں روانہ ہوا اور وہاں پر چاروں طرف خون میں لت پت سینکڑوں لاشیں دیکھ کر اس کا بھی خون دوسرے لوگوں کی طرح کھولنے لگا۔ ایک انقلابی بغاوت کو کچلنے کی کوشش میں جنرل ڈائر کی طرف سے کیے جانے والے اس قتلِ عام نے اسے مزید بھڑکا دیا تھا جس میں بھگت سنگھ نے کم عمری کے باوجود بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بھگت سنگھ لائل پور، موجودہ فیصل آباد، کے قریب جس خاندان میں پیدا ہوا تھا وہ پورا خاندان ہی انقلابی سرگرمیوں میں سرگرم تھا اور اسی لیے اسے پہلی سیاسی تربیت گھر سے ہی ملی تھی۔ اس کے خاندان کے افراد ”غدر پارٹی“ کی تشکیل میں بھی شامل تھے، جس نے پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے قبل ہی ہندوستان میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف ایک مسلح جنگ کا آغاز کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ امریکہ میں جلاوطن ہندوستانیوں کی جانب سے قائم کی جانے والی اس پارٹی کے لیڈر امریکہ کے انقلاب اور 1861ء کی خانہ جنگی سے متاثر تھے اور اسی طرز پر یہاں انقلاب کرنے کے خواہش مند تھے۔ لیکن ان کا طریقہ کار پہلے ہی ہلے میں ناکامی سے دوچار ہوا اور برطانوی فوج نے امریکہ سے آنے والے باغیوں کے بحری جہاز کو سمندر میں ہی دبوچ لیا تھا۔ یہ تجربات بھی بھگت سنگھ کے خاندان کے تمام افراد کے ذہنوں میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ بھگت سنگھ کا چچااجیت سنگھ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں کانگریس میں سرگرم رہا تھا اورآزادی کی تحریک کے حوالے سے پنجاب کی اہم سیاسی شخصیت تھا۔ انہی سرگرمیوں کے باعث اسے جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور وہ کبھی بھی بھگت سنگھ سے ملاقات نہیں کر سکا۔
اس پس منظر میں جب نو عمر بھگت سنگھ نے عدم تعاون کی تحریک میں شمولیت کی تو پورے جوش و جذبے سے اس تحریک کو کامیاب کروانے کے لیے سرگرم ہوگیا۔ یہی جذبات لاکھوں دیگر نوجوانوں کے بھی تھے جو آزادی کی تڑپ لیے اس عوامی تحریک میں سرگرم تھے اور برطانوی سامراج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھے۔ لیکن تحریک کی انتہا پر 1922ء میں گاندھی نے چورا چوری گاؤں کے ایک واقعے کو بنیاد بنا کر تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس نے کہا کہ چونکہ اس واقعے کے دوران مظاہرین نے پولیس کے خلاف تشدد کو اپنا یا ہے اس لیے وہ اس تحریک کو جاری نہیں رکھ سکتا کیونکہ تحریک نے عدم تشدد کا رستہ چھوڑ دیا ہے اور اب وہ گمراہ ہو چکی ہے۔ یہ سب ایک ڈھکوسلہ تھا۔ اس گاؤں میں ہونے والے مظاہرے پر پہلے پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی تھی جس سے مظاہرین میں شامل کئی افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس کے بعد مشتعل مظاہرین نے تھانے پر حملہ کیا تھا جس سے چند پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی نے یہ جھوٹا بہانہ بنا کراس وسیع عوامی تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا جس کا تما م تر فائدہ برطانوی حکمرانوں کو ہوا۔ اس موقع پر ہی بھگت سنگھ اور اس جیسے ہزاروں نوجوانوں پر واضح ہو گیا کہ گاندھی آزادی کی تحریک کا لیڈر نہیں بلکہ غدار ہے اور انہیں اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے ایک درست رستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریک کی پسپائی کے بعد کانگریس میں شدید بحث ہوئی اور قیادت سے اختلافات کے بعد ناگزیر طور پر سپلٹ بھی ہوئی اور سواراج پارٹی کے نام سے ایک نئی پارٹی بھی تشکیل پائی جس کی قیادت سی۔ آر۔ داس کر رہا تھا۔ لیکن اس کے علاہ ہندوستان ریپبلکن آرمی (HRA) کے نام سے بھی ایک نئی زیادہ ریڈیکل مگر حجم میں چھوٹی پارٹی اسی دوران قائم ہوئی جس کی قیادت رام پرشاد بسمل کر رہا تھا۔ یہ وہ نوجوان تھے جو گاندھی سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عدم تشدد کے نعرے کے بھی شدید مخالف ہو گئے تھے اور اب پر تشدد طریقوں سے آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے انقلاب کے نام سے اپنی تاسیسی دستاویز بھی ترتیب دی تھی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ان کا مقصد آزادی کا حصول ہے اور اس کے لیے وہ پر تشدد طریقہ کار اپنائیں گے۔ جہاں گاندھی اپنے عدم تشدد کے نظریے کو حکمران طبقات کے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہوا ایک انتہا پر لے گیا تھا وہاں نوجوان باغیوں کا یہ گروپ تشددکے طریقہ کار کو دوسری انتہا پر لے گئے اور سیاسی جدوجہداور اس کی کلیدی اہمیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اسی ایک طریقے کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔
بھگت سنگھ اس دوران لاہور میں نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھا جسے لالہ لجپت رائے جیسے آزادی پسند لیڈروں نے قائم کیا تھا۔ عدم تعاون کی تحریک کے دوران جن نوجوانوں نے جوش و جذبے سے اس تحریک میں حصہ لیا تھا ان سب کی تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے یہ کالج قائم کیا گیا تھا۔ یہاں پر نصاب ترتیب دینے والے اور تعلیم دینے والے سب ہی آزادی پسند تھے اور یہ کالج درحقیقت آزادی کی تحریک کا گڑھ بن گیا تھا۔ یہاں پر ہی بھگت سنگھ نے مختلف رسالوں کے لیے لکھنے کا آغاز کیا اور آزادی کی تحریک میں موجود نظریاتی بحثوں میں بھی شریک ہو نے لگا۔ اسی دوران اس کا تعارف HRA سے ہوا اور اس نے اس میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ اپنی سیاسی پختگی اورآزادی کے لیے اپنے جوش اور جنون کے باعث نہ صرف وہ بہت جلد اس پارٹی کی قیادت میں شامل ہو گیابلکہ یہاں اس کے انقلابی نظریات بہت تیزی سے پروان چڑھنا شروع ہوئے۔ یہاں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ اس دور کی آزادی کی تحریک کے سب سے ریڈیکل حصے سے وابستہ تھا اور اس میں بھی بہت جلد قیادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
بھگت سنگھ اور سوشلسٹ انقلاب
بھگت سنگھ اپنی مختصر انقلابی زندگی میں جن نظریاتی بحثوں میں شریک رہا اور پھانسی سے پہلے تک اس نے جو نتائج اخذ کیے، وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ درحقیقت اس پورے عہد کی نظریاتی بحثوں اور سیاسی سرگرمیوں کا نچوڑ تھے اوران اہم سوالوں کا جواب دیتے تھے جن کا سامنا اس وقت کے انقلابیوں کو کرنا پڑ رہا تھا۔ بھگت سنگھ کے ان نتائج تک پہنچنے میں یقینا اس کی عملی سرگرمی کا بھی کلیدی کردار ہے جس میں اس نے HRA کے پلیٹ فارم سے انتہائی دلیرانہ اقدام اٹھائے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنی جان تک بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قربا ن کر دی۔ لیکن ساتھ ہی اس وقت آزادی کی لڑائی میں شریک دیگر سیاسی پارٹیوں اور رجحانات کا جواب دینا بھی ضروری تھی اور جدوجہد کی سمت کو درست کرنا کلیدی حیثیت کا حامل تھا۔
لالہ لجپت رائے سے لے کر گاندھی تک اور مولانا حسرت موہانی سے لے کر نہرو تک، اس وقت کی سیاست میں دائیں بازو سے لے کر بائیں بازو تک بہت بڑے بڑے نام تھے جبکہ ملک میں ہر طرف بہت سی تحریکیں بھی جاری تھیں۔ بمبئی کی ٹیکسٹائل ملوں کی ہڑتال سے لے کر ریلوے میں ٹریڈ یونین کے قیام اور ہڑتالوں تک اور یوپی سے لے کر جنوبی ریاستوں تک کسانوں کی بغاوتوں تک، بہت سی تحریکیں پورے سماج کو اوپر سے نیچے تک جھنجھوڑ رہی تھیں۔ ایسے میں پورے سماج کا درست سائنسی تجزیہ کرتے ہوئے اس کے انقلاب کے کردار کا درست تعین کرنا انتہائی ضروری تھا جو برصغیر میں کوئی اور نہیں کر سکا۔
بھگت سنگھ نے 1928ء میں HRA کا نام تبدیل کر کے ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی (HSRA) رکھنے کی قرار داد ایک اجلاس میں پیش کی تو اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اس کے بعد اس کو آرمی سے بدل کر ایک ایسوسی ایشن بھی بنا دیا گیا لیکن سب سے بڑھ کر اس کے نام میں سوشلسٹ واضح کر دیا گیا۔ اس موقع پر تقریر میں بھگت سنگھ نے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا اور واضح کیا کہ ہمارا مقصد ایسی آزادی حاصل کرنا نہیں جس کے بعد یہاں پر طبقات پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام قائم رہے بلکہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنا اور یہاں پر ایک سوشلسٹ سماج قائم کرنا بھی ہمارا اولین مقصد ہے۔ پھانسی کے تختے تک بھگت سنگھ انہی نظریات پر مضبوطی سے قائم رہا اور اس مؤقف سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹا۔
لیکن اس کے مقابلے میں کمیونسٹ پارٹی کا کردار نظر آتا ہے جس کی نظریاتی بنیادیں درست طور پر استوار نہ ہو سکیں جس کے باعث انقلاب کرنے کے کئی مواقع گنوا دیے گئے۔ 1925ء میں کمیونسٹ پارٹی کا تاسیسی اجلاس ہندوستان کی سرزمین پر منعقد ہوا تو اس کے جنرل سیکرٹری مولانا حسرت موہانی منتخب ہوئے۔ حسرت موہانی کو ”انقلاب زندہ باد“ نعرے کے موجد کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے لیکن اس نعرے کو پورے ملک میں مقبول کروانے کا سہرا بھگت سنگھ کو ہی جاتا ہے۔ اپنے مقدمے کی پیشی کے دوران وہ اور اس کے ساتھی یہ نعرہ بلند آواز میں لگاتے تھے اور وہیں سے یہ نعرہ پورے ملک میں مقبول ہوگیا اور آج تک اسی جوش و جذبے سے لگایا جاتا ہے جس سے بھگت سنگھ لگایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک مقامی اخبار میں اس نعرے پر تنقید بھی ہوئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ نعرہ غیر واضح ہے لیکن بھگت سنگھ نے درست طور پراس کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ کسی بھی سماج میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف بغاوت کے طور پر اس نعرے کو استعمال کرنا بالکل درست ہے اور یہ رکے ہوئے، تعفن زدہ سماج کو آگے بڑھنے کے لیے اکساتا ہے۔
اس نعرے کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور بھگت سنگھ کے ساتھ جڑی اس کی انقلابی تاریخ اس کو مزید ولولہ اور جوش بھی فراہم کرتی ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ اس کی نظریاتی وضاحت نہیں کر سکی۔ حسرت موہانی اور اس وقت پارٹی کے دیگر اراکین کے لیے آزادی کے نعرے سے آگے بڑھ کر ایک انقلاب کا نعرہ لگانا واقعی ایک اہم پیش رفت تھی جس میں انقلابِ روس کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کی معاشی بنیادوں کی جس طرح وضاحت لینن اور ٹراٹسکی نے روس میں کی تھی اس طرح کی یہاں کوئی کاوش موجود نہیں تھی اور نہ ہی ہندوستان کے انقلاب کے کردار اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لیے اس طرح سنجیدہ بحثیں کی گئیں جیسے روس کے بائیں بازو میں ہوئی تھیں جن کی قیادت لینن اور ٹراٹسکی نے کی تھی۔
کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے وقت بہت سے آزادی پسند انقلابِ روس سے متاثر تھے اور جس طرح مزدوروں اور کسانوں نے زار شاہی کی ظالم ریاست کا خاتمہ کیا تھا اس نے ان کے دل میں ایک امید روشن کی تھی کہ وہ بھی اسی طرح برطانوی سامراج کے ظلم سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ نظریاتی طور پر مختلف رجحانات میں بکھرے ہوئے تھے اور ان کی کوئی واضح سمت نہیں تھی۔ لیکن انقلابِ روس نے ان کو سمت دینے کے ساتھ ساتھ مارکسزم کے جدید سائنسی نظریات سے بھی متعارف کروایا تھا۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ جب اس خطے میں کمیونسٹ پارٹی کی تنظیم سازی کا باقاعدہ آغاز ہوا تو اس وقت سوویت یونین میں سٹالنسٹ زوال پذیری کا آغاز ہو چکا تھااورلینن اور ٹراٹسکی کے درست نظریات کی جگہ زوال پذیر سٹالنسٹ نظریات حاوی ہو رہے تھے۔ اس دوران ’مرحلہ وار انقلاب‘ کے انقلاب دشمن سٹالنسٹ نظریے کے تحت ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کو بھی مقامی سرمایہ دار طبقے اور گاندھی کے ساتھ تعاون پر آمادہ کیا جا رہا تھا۔ اس سارے عرصے میں ٹراٹسکی کی ان انقلاب دشمن کاروائیوں کے خلاف جدوجہد انتہائی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ خاص طور پر ہندوستان کے انقلاب کے کردار کے حوالے سے ٹراٹسکی کا نظریہئ انقلابِ مسلسل فیصلہ کن اہمیت کاحامل تھا۔ اس نظریے کے مطابق یہاں کے مقامی سرمایہ دار طبقے سے جھوٹی امیدیں باندھنا اور اس طبقے کے ذریعے یہاں پر کسی بھی قسم کا بورژوا انقلاب کرنا درحقیقت انقلاب سے غداری کرنا تھا۔ جبکہ سوویت یونین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی یہی نظریہ مسلط کر رہی تھی کہ ہندوستان ابھی ایک پسماندہ سماج ہے اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے تیار نہیں اس لیے یہاں پر ابھی ایک سرمایہ دارانہ انقلاب کی ضرورت ہے جس کی قیادت ہندوستان کا مقامی سرمایہ دار طبقہ کرے گا۔ اس لیے کمیونسٹ پارٹی کو ہدایت کی گئی کہ وہ مقامی سرمایہ دار طبقے سے ہر ممکن تعاون کرے اور سوشلزم کی بجائے سرمایہ داری کو مضبوط بنانے کی کوششیں کرے۔
بھگت سنگھ تک ٹراٹسکی کی تمام تربحثیں تو نہیں پہنچ سکیں لیکن وہ اپنے طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ چور اور لٹیرا ہے اور آزادی کے لئے انقلابی جدوجہد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کی جیل کی تحریروں میں واضح ہوتا ہے کہ وہ مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی قوت پر وشواس رکھتا تھا اور انہی کے ذریعے یہاں پر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک آزاد غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی کی نظریاتی زوال پذیری اور مرحلہ وار انقلاب کے غلط سٹالنسٹ نظریے نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ آج 90 سال گزرنے کے بعد بھی یہ نظریہ اس خطے کی بائیں بازو کی سیاست پر حاوی ہے جس کے باعث اس نظام کے خلاف چلنے والی کئی عوامی تحریکیں آگے بڑھنے کی بجائے پسپائی میں دھکیل دی جاتی ہیں۔
انڈیا میں اس وقت لاکھوں کسانوں کی تحریک جاری ہے جس میں مودی حکومت کے نئے زرعی قوانین کیخلاف کسان پورے ملک میں سڑکوں پر ہیں۔ کسانوں نے اپنی جدوجہد سے دارالحکومت دہلی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور کئی مہینوں سے جاری اس لڑائی میں انتہائی بلند سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے مودی کی پالیسیوں کے پیچھے موجود ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کے بھیانک کردار کو بھی واضح طور پر پہچان لیا ہے اور انہیں ہی اپنا اصل دشمن قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں مقدس سمجھے جانے والے آئین اور یومِ جمہوریہ کو بھی اپنے پیروں تلے روند ڈالا ہے جو اس سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیاد ہیں۔ تمام تر ریاسی جبر اور مشکلات کے باوجود یہ تحریک پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ لیکن انڈیا کی کمیونسٹ پارٹیاں کھل کر اس تحریک کی حمایت نہیں کر رہیں بلکہ ان کے بہت سے عناصر اس تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں اور اسے سماج کے پسماندہ حصوں کی تحریک کہا جا رہا ہے۔ اسی طرح، لاکھوں کسانوں کے ساتھ ٹریڈ یونینز میں منظم کروڑوں مزدوروں کی تحریک کو جوڑ کر اس عوامی بغاوت کو مضبوط کیا جا سکتا تھا اور ایک غیر معینہ مدت کی ملک گیر عام ہڑتال کا اعلان کیا جاسکتا تھا۔ اس سے نہ صرف مودی حکومت کا بآسانی خاتمہ ہو سکتا تھا بلکہ انڈیا کے سرمایہ دارانہ نظام اور اس پر کھڑی ریاست کیخلاف فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ اہم ترین موقع گنوایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ کمیونسٹ پارٹیوں کی تاریخی زوال پذیری اور ان کی بنیادمیں موجود مرحلہ وار انقلاب کا سٹالنسٹ نظریہ ہے جس کی مخالفت بھگت سنگھ نے اس وقت ہی کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا کے کسانوں میں آج بھی کمیونسٹ پارٹیوں سے زیادہ بھگت سنگھ مقبول ہے اور اس کے پوسٹر، تحریریں اور نعرے آج بھی تحریک کی قیادت میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان نظریات کے تحت ایک بالشویک پارٹی کی طرز پر پارٹی موجود نہیں اور انڈیا میں موجود تمام پارٹیوں اور مزدور و کسان تنظیموں کی قیادت پر سٹالنزم حاوی ہے۔
یہی المیہ ماضی میں آزادی کی تحریک کے دوران بھی موجود تھا۔ آزادی کی تحریک میں اگر سٹالنسٹ زوال پذیر نظریات کی بجائے بھگت سنگھ کے نظریات کو اپنا لیا جاتا تو آزادی کے ساتھ ساتھ اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا تھا۔ کانگریس اورگاندھی کے کردار کے حوالے سے بھگت سنگھ میں کوئی ابہام موجود نہیں تھا اور وہ عدم تعاون تحریک میں اس کی غداری کے بعد سے کبھی اس کے دھوکے میں نہیں آیا۔ اس نے لکھا تھا کہ،
”وہ (گاندھی) آغاز سے ہی جانتا تھا کہ یہ تحریک کسی نہ کسی مصالحت پر ختم ہوگی۔ ہم اس طرح کی قیادت سے نفرت کرتے ہیں۔“
”کانگریس کا مقصد کیا ہے؟ میں نے کہا تھا کہ موجودہ تحریک کا انجام کسی نہ کسی مصالحت یا مکمل ناکامی پر ہوگا۔ میں نے یہ اس لیے کہا کیونکہ اصل انقلابی قوتوں کو اس تحریک میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اس تحریک کو صرف درمیانے طبقے کے دکانداروں اور چند سرمایہ داروں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ یہ دونوں طبقے، بالخصوص سرمایہ دار، اپنی جائیداد کو کبھی خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ انقلاب کی اصل فوج دیہاتوں اور فیکٹریوں میں ہے۔۔۔کسان اور مزدور۔ لیکن ہمارے بورژوا لیڈر انہیں ساتھ لے کر نہیں چلتے نہ ہی وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ یہ سوئے ہوئے شیر جب اپنی نیند سے جاگے تو ہمارے لیڈروں کے مشن کی تکمیل کے بعد بھی نہیں رکیں گے۔“
یہاں پر اور دیگر مختلف جگہوں پر ہندوستان کے سرمایہ دارطبقے کے گماشتہ کردار کے بارے میں بھگت سنگھ کے نظریات واضح ہیں۔ جیل میں لکھے گئے اپنے آخری مضمون ”نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام“ میں وہ واضح کرتا ہے کہ اگر انگریزوں کے جانے کے بعد مقامی سرمایہ دار یہاں پر حکمران بن گئے تو مزدوروں اور کسانوں کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور وہ اسی طرح ظلم اور استحصال کا شکار رہیں گے۔ اسی لیے اس نے سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد منظم کرنے پر زور دیا۔ جبکہ اس وقت کی کمیونسٹ پارٹی نے سوشلسٹ انقلاب کا نظریہ مکمل طور پر ترک کر دیا تھا اور کانگریس کے ساتھ گٹھ جوڑ میں شامل ہو گئی تھی۔ اس سے بھی بدتر صورتحال دوسری عالمی جنگ کے آغا زکے وقت پیدا ہو گئی جب سٹالن نے پہلے نازی جرمنی کے ساتھ اتحاد کر لیا لیکن بعد ازاں جب ہٹلر نے معاہدہ توڑتے ہوئے روس پر حملہ کر دیا تو سٹالن نے یوٹرن لیتے ہوئے اتحادی قوتوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے کے تحت ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کو ہدایت کی گئی کہ وہ دوسری عالمی جنگ میں برطانوی سامراج کی حمایت کرے۔ اس پالیسی نے آزادی کی تحریک کے بائیں بازو کو برباد کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایسے وقت میں جب آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچ رہی تھی اس وقت یہاں کی کمیونسٹ پارٹی برطانوی فوج کے لیے بھرتیاں کروا رہی تھی۔ سٹالنزم کی اس تاریخی غداری نے ہی یہاں پر اس خونی بٹوارے کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے برطانوی سامراج اپنے مسلط کردہ سرمایہ دارانہ نظام کو یہاں پر بچانے میں کامیاب ہو گیااور بھگت سنگھ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
بھگت سنگھ اور سرمایہ دارانہ ریاست
بھگت سنگھ کے نظریات اور جدوجہد کو کچلنے کے لیے جہاں انگریز حکمرانوں نے ہر ممکن حربہ استعمال کیا اور گاندھی اور نہرو کی قیادت میں کانگریس بھی اس سے خوفزدہ تھی وہاں کمیونسٹ پارٹی بھی اس کے انقلاب کے نعرے کی گونج اور اس کے سوشلسٹ انقلاب کے نظریات سے ہمیشہ خائف رہی ہے اور اس کو مسخ کرنے کی کوششیں پہلے دن سے جاری ہیں۔ بھگت سنگھ کواس کے نظریات سے الگ کرکے ایک قومی ہیرو بنا کر پیش کیے جانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے ابتدائی عرصے کی تحریروں کو بنیاد بنا کر اس کی وطن سے محبت اوربیرونی دشمن سے آزادی کی خواہش کو آج بھی انڈیا میں ریاستی سطح پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور کمیونسٹ پارٹیوں کے لیے بھی یہ قابلِ قبول ہے۔
اسی طرح، اس کے مقدمے میں عدالتی کاروائی کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے برطانوی سامراج کے عدالتی نظام پر تنقید کی جاتی ہے اور آزادی کے گن گائے جاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت پرپردہ ڈال جاتا ہے کہ آج بھی اس خطے کے تمام ممالک میں موجود عدالتی نظام کی بنیادی انگریز سامراج کے بنائے گئے عدالتی نظام پرہی موجود ہے اور اس میں تمام قوانین اسی طرز پر موجود ہیں جس طرح انگریزوں نے یہاں کی مقامی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائے تھے۔ آج بھی پولیس کا وحشیانہ تشدد اسی طرح موجود ہے جس طرح بھگت سنگھ کے دور میں تھا بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ گیا ہے جبکہ جیلوں کے حالات بھی پہلے کی نسبت بد تر ہوئے ہیں۔ بھگت سنگھ کی جیل میں کی گئی تاریخ کی چندطویل ترین بھوک ہڑتالوں کا ایک مقصد بد ترین تشدد کیخلاف احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود قیدیوں کے لیے کچھ حاصلات لینا تھا لیکن نام نہاد آزادی کے بعد حالات پہلے سے بد تر ہو گئے ہیں اور جیلیں، تھانے، عدالتیں اور دیگر ریاستی جبر کے ادارے ماضی کی نسبت عوام پر کہیں زیادہ مظالم ڈھا رہے ہیں جبکہ موجود حکمرانوں کی عیاشی اور لوٹ مارانگریز وائسرائے سے بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ بلکہ یہاں تو اب عدالتی کاروائی کی زحمت بھی اکثر گوارا نہیں کی جاتی اور چند بڑے فوجی افسروں کی خواہش پر سیاسی کارکنوں کو قید کر کے بد ترین جبر کیا جاتا ہے اور مرنے پر ان کی لاشیں گمنام مقام پر پھینک دی جاتی ہیں۔ اسی طرح، عدالتوں کی نام نہاد غیر جانبداری کا پردہ بھی مکمل طور پر چاک ہوگیا ہے اور وہ کھل کر عوام دشمن فیصلوں کو مسلط کر رہی ہیں اور رجعتی قوتوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن چکی ہیں۔ یہ سب اس نظام کے بحران کی شدت کی بھی غمازی کرتا ہے۔
بھگت سنگھ سرمایہ دارانہ ریاست کے کردار پر بھی واضح مارکسی مؤقف رکھتا تھاجسے اس نے لینن کی عظیم تصنیف ”ریاست اور انقلاب“ اور اینگلز کی تصنیف ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ سے اخذ کیا تھا۔ اسے یہ یقین تھا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کو کسی بھی طرح عوام کی فلاح کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو اکھاڑ کر ایک مزدور ریاست کی تشکیل کے ذریعے ہی مزدور اور کسان سکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست سے اس کی نفرت کی وجہ جہاں جلیانوالہ باغ کا واقعہ اور روز مرہ کی بنیاد پرپولیس اور جیل حکام کا عوام پر بد ترین تشدد تھی وہیں درست نتائج اخذ کرنے میں اسے مارکسی استادوں کی نظریاتی راہنمائی بھی حاصل تھی۔ اس کی جیل کی نوٹ بک میں ریاست کے کردار کے حوالے سے کئی اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پرولتاریہ کی آمریت اور اس کے مزدور ریاست میں کلیدی کردار پر بھی اس کی نظریاتی گرفت واضح نظر آتی ہے۔
انقلابی پارٹی اور تشد د کا نظریہ
پارٹی کی تشکیل اور انقلاب برپا کرنے کے عمل کے حوالے سے بھی اس کے نظریات واضح تھے۔ جیل میں وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا تھا کہ پر تشددکاروائیوں کے ذریعے انقلاب نہیں لایا جا سکتا اور اس کے لیے ایک طویل عرصے تک سوشلزم کے سائنسی نظریات سے لیس کیڈر کی تربیت کے عمل سے گزرنا ضروری ہے۔ اسی طرح وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا تھا کہ انقلاب میں مزدوروں اور کسانوں کی شمولیت کے بغیر اسے محض مسلح انقلابیوں کے گروہ پر مبنی پارٹی کے ذریعے برپا نہیں کیا جاسکتا۔ محنت کش طبقے کی بطور طبقہ اس میں شمولیت لازمی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن دوسری جانب وہ گاندھی کی طرح بالکل عدم تشدد کی انتہا پر بھی نہیں گیا جہاں اسے ایک مذہبی عقیدہ بنا لیا گیا تھا بلکہ وہ اس پر واضح تھا کہ محنت کش طبقے کے اس انقلابی عمل میں اگر اجتماعی طور پر مخالف طبقے کے خلاف تشدد کی ضرورت پڑے تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ یہ تمام اسباق ہندوستان کی ماؤسٹ تحریک کے لیے اہمیت کے حامل تھے لیکن انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا اور بھگت سنگھ کی شخصیت کو ایک مسخ شدہ شکل میں انفرادی دہشت گردی کے نمائندے کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی گئی جو خود اس کے ساتھ بہت بڑی زیادتی تھی۔
مذہبی منافرت اور طبقاتی جڑت
اسی طرح مذہب کے حوالے سے اس کے نظریات بھی بالکل واضح تھے جو اس کے ایک مشہور مضمون میں کھل کر بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسے دائیں بازو کے سکھ مذہبی لیڈروں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جبکہ ہندوستان کی ریاست نے اسے اپنے بورژوا سیکولرازم کی منافقت کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ آج وہ سیکولر ازم کا نقاب بھی اتر چکا ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست کھل کر اسی طرح مذہبی جبر کو استعمال کر رہی ہے جیسے اس کی ہمسایہ ریاست پاکستان میں ہوتا آیا ہے۔ درحقیقت برطانوی سامراج کی تخلیق کی گئی یہ دونوں ریاستیں مذہبی منافرت کے زہر پر ہی پلتی آئی ہیں اور محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے اسی تعصب کو شروع سے ہی استعمال کرتی آئی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے باعث ہندوستان کی ریاست کا مکروہ چہرہ بھی کھل کر نظر آرہا ہے جہاں مودی سرکاراس کے بھیانک کردار کو سطح پر لے آئی ہے۔ اس مذہبی منافرت کا مقابلہ مذہبی بھائی چارے اور ہم آہنگی کے کھوکھلے نعرے سے نہیں کیا جا سکتا جسے یورپی اور امریکی سامراجیوں کے گماشتہ لبرل بڑی چابک دستی سے مسلط کرتے ہیں۔ برطانوی سامراج کا گماشتہ میڈیا بالخصوص بی بی سی بھی اکثر یہاں مذہبی رواداری کا درس دیتا ہوا نظر آتا ہے اور مذہب کے نام پر ہونے والے فسادات پرانتہائی منافقت سے افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن درحقیقت وہ طبقاتی تقسیم کو نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے مذہبی تعصب کو سطح پر ابھارتے ہیں اور مذہبی بھائی چارے کا نعرہ ان کے لیے سود مند ہوتا ہے۔ اس مذہبی منافرت کا مقابلہ محنت کشوں کی ایک طبقاتی جڑت سے ہی کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے پڑے گا۔ بھگت سنگھ نے بھی یہی درست طریقہ اپنایا تھا لیکن اسے آج مسخ کر کے اس کے الٹ میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔
تاریخی اہمیت کی حامل دیگر شخصیات کے ساتھ بھی اسی طرح کی کاروائیاں ہوتی رہی ہیں اور مختلف طبقات اور رجحانات انہیں اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس سارے عمل میں اس شخصیت کی زندگی کے کسی ایک حصے کو غلط طور پر ابھارا جاتا ہے اور کبھی دوسرے حصے کو۔ اسی طرح اس کی کسی ایک تحریر یا اس کے کسی ایک حصے کو استعمال کیا جاتا ہے اور باقی سب کچھ فراموش کر دیا جاتاہے۔ لیکن کسی بھی شخصیت کو آغاز سے انجام تک ایک مسلسل عمل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس شخصیت کی جدوجہد اور اس کے معروضی حالات کیسے اس کو تبدیل کر رہے ہیں اور کیسے وہ اہم نتائج اخذ کرتا ہوا نظریاتی طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کی خامیوں کی نشاندہی انتہائی ضروری ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی تاریخی شخصیت پر تقدس کا ہالہ بنا دینے سے اس کی خامیوں کو یا تو غائب کر دیا جاتا ہے یا پھر ان کو بھی ایک خوبی بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب بھگت سنگھ کے ساتھ بھی گزشتہ 90 سال میں ہوا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کی حقیقی جدوجہد اور اس کے نظریات آج کی نوجوان نسل کے سامنے لائیں جائیں تا کہ وہ ان سے جوش اور جذبہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے نظریاتی تربیت بھی حاصل کر سکے۔
انقلابی مارکسزم کے نظریات کا مطالعہ
بھگت سنگھ نے جیل میں ٹراٹسکی کی تصنیفات کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ خاص طور پر برطانیہ کی مزدور تحریک اور سیاسی حالات کو جاننے کے لیے اس نے ٹراٹسکی کی اس موضوع پر کتاب کو غور سے پڑھا تھا۔ اسی طرح انقلابِ روس 1917ء کے تاریخی واقعات کو جاننے کے لیے بھی اس نے ٹراٹسکی سے ہی رجوع کیا تھا۔ لیکن بعد ازاں کمیونسٹ پارٹیوں نے ٹراٹسکی کی تصنیفات کو شجرِ ممنوعہ بنا دیا اور انقلابیوں کی کئی نسلوں کو ان اہم مارکسی نظریات سے دور کر تے ہوئے اپنے غلط نظریات ان پر مسلط کیے۔
اسی طرح، کارل مارکس کی داس کیپیٹل کا مطالعہ بھی اس کی نوٹ بک میں واضح طور پر نظر آتا ہے جہاں وہ قدرِ زائد کی پیداوار اور محنت کے کردار کے حوالے سے کافی دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس عظیم تصنیف کو بھی ایک مقدس کتاب کا درجہ دے کر یہاں کئی نسلوں کواس کے مطالعے سے دور رکھا گیا ہے۔ یہی کہا جاتا رہا ہے کہ اس کتاب کو پڑھنا نوجوانوں کے لیے ممکن نہیں اور وہ اس کا خیال ترک کر دیں اور صرف مقامی لیڈروں کی تقریروں اور اخباری کالموں پر ہی توجہ دیں۔ اس بنیادی تصنیف کو سمجھے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کا درست ادراک حاصل کرنا ممکن نہیں اور اس خطے کا المیہ یہ رہا ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتوں نے بھی اس کا مطالعہ نہیں کیا ہوا تھا۔ ایسے میں انقلابی پارٹی کو درست بنیادوں پر قائم کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
آخر میں بھگت سنگھ کی تحریروں میں انٹرنیشنلزم واضح طور پر نظر آتا ہے اور دنیا بھر کی تحریکوں سے جڑنے کی خواہش موجزن نظر آتی ہے۔ لینن کی برسی کے موقع پر اپنے خط میں اس نے سرمایہ داری کے خاتمے اور دنیا بھر کے محنت کشوں سے جڑت کی بات کی جبکہ عالمی سوشلزم کے حوالے سے اس کی دلچسپی بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ تیسری انٹرنیشنل کی کاروائیوں میں بھی اس کی خاص دلچسپی تھی جبکہ وہ آئرلینڈ کی آزادی کی جدوجہد کا بھی مطالعہ کرتا تھا اوراٹلی میں جاری انقلابی تحریکوں سے بھی متاثر تھا۔ اس حوالے سے سٹالنزم کے ”ایک ملک میں سوشلزم“ کے غیر مارکسی نظریے کی جانب اس کا کوئی رجحان نظر نہیں آتا۔ اسی طرح اس کو ایک ہندوستانی قوم پرست بنا کر پیش کرنے کی کوششیں بھی ایک دھوکہ اور فراڈ کے سوا کچھ نہیں۔
بھگت سنگھ کے ”بارے میں“ لکھنے والوں کی بجائے اگر اس کی اپنی تحریروں اور جدوجہد کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس وقت کی جابر ریاست اور سامراجی طاقت سے باغی ایک نوجوان جب انتہائی دیانت داری اور بلند حوصلے کے ساتھ جدوجہد کا آغاز کرتا ہے تو وہ انتہائی مشکل مراحل سے گزرتے ہوئے اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ یہاں کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس کے مطابق اس انقلاب کے ذریعے ہی یہاں پر ایک ایسی مزدور ریاست بنائی جا سکتی ہے جس میں عوام پر ظلم اور جبر نہ ہو۔ جیل کی اصلاحات کی ایک بحث میں وہ سوویت یونین کی مثال دیتا ہے۔ اسی طرح، اپنے وطن کے سارے افراد کو ایک ہی رنگ میں دیکھنے کی بجائے وہ ان کا ایک درست طبقاتی تجزیہ کرتا ہے اور ان میں مقامی حکمرانوں کے عوام دشمن کردار کو عیاں کرتا ہے۔آج کے عہد میں بھی یہی تمام نتائج قابل عمل ہیں اور انہی کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
آج دنیا بھر کی طرح اس خطے میں بھی انقلابی تحریکیں ابھر رہی ہیں جو نظام کے زوال کی شدت کے باعث آنے والے عرصے میں مزید پھیلتے ہوئے پیش قدمی کریں گی۔ ا س صورتحال میں اس خطے کے کسی ایک بھی ملک سے ابھرنے والا سوشلسٹ انقلاب بجلی کی سی تیزی سے پورے خطے میں پھیلے گا اور برطانوی سامراج کی مسلط کردہ ریاستوں، سرحدوں اور سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑتا ہو ا برصغیر کی ایک رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جانب بڑھے گا جو یہاں ہونے والے بٹوارے کے رستے زخموں کو ایک انقلابی جراحی کے ذریعے بند کرے گی۔ یہ درحقیقت عالمی سوشلسٹ سماج کی تشکیل کا آغاز ہو گا۔ اس تمام عمل میں بھگت سنگھ کے حقیقی نظریات اور کردار انقلابیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جس طرح اس نے ریاستی جبر کا مقابلہ کیا اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنے نظریات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پھانسی کے پھندے کو جس خوشی اورمسکراہٹ سے اس نے چوما تھا اس نے بھگت سنگھ کو تاریخ میں امر کر دیا ہے۔ یہ حوصلہ اور اعتماد صرف مارکسزم کے نظریات کے باعث ہی ممکن ہوا تھا جو آج بھی ہر انقلابی کو یہ یقین دیتے ہیں کہ نوعِ انسان اس ظلم اور بربریت سے لازمی طور پر چھٹکارا حاصل کرے گی اور سوشلسٹ انقلاب کی منزل نسلِ انسانی کا مقدر ضروربنے گی۔