نائن ایلیون کے بیس سال: شکست خوردہ امریکی سامراج اور بکھرتا ورلڈ آرڈر

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: یار یوسفزئی|

بیس سال قبل آج کے دن، امریکہ نے اپنی جدید تاریخ میں اپنے اوپر سب سے بڑا اور خونریز حملہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ دہشتگرد گروہ نے نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں پر دو مسافر طیاروں کے ذریعے حملہ کیا، جس میں 2 ہزار 977 مرد و خواتین مارے گئے اور کم از کم 25 ہزار افراد زخمی ہوئے، جسے دیکھ کر امریکی لوگ صدمے اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ دنیا بھر میں، کروڑوں افراد خوف کی حالت میں اوپری منزلوں میں پھنسے ہوئے بے چین لوگوں کے چونکا دینے والے مناظر دیکھتے رہے، جن میں سے بعض نے زندہ جل جانے کی بجائے چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے کو بہتر سمجھا، جس کی تھوڑی دیر بعد عمارتیں منہدم ہو گئیں اور اپنے ملبے تلے ہزاروں کو دفن کر دیا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مگر اس المیے کے بعد جو کچھ دیکھنے کو ملا، وہ اس دن زندگی سے ہاتھ دھونے والے تمام معصوم لوگوں کی یاد کے ساتھ بے حرمتی تھی۔ دھول ابھی بمشکل چَھٹی تھی اور مقتولین کا خون ابھی بمشکل خشک ہوا تھا، جب پر پھیلائے ہوئے گدھ بھی اترنے لگے۔ عوامی غم و غصّے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، انہوں نے جھوٹ اور جنگی پراپیگنڈے کا طوفان برپا کر دیا تاکہ امریکی آبادی کو سوچنے کا موقع دیے بغیر ان کے سامنے امریکہ کا جنگ میں جانا صحیح قرار دے سکیں، جس کا مقصد ان کے مطابق حملے کا بدلہ لینا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ”یو ایس اے پیٹرِیاٹ ایکٹ“ اور دیگر قوانین کو کانگریس سے منظور کرایا گیا، جس کے ذریعے شہریوں کے حقوق میں شدید تخفیف کی گئی اور ریاستی نگرانی (سرویلینس) کے اختیارات میں کافی بڑا اضافہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ نام نہاد ’وار آن ٹیرر‘ (دہشت مخالف جنگ) اور ’جمہوریت کے دفاع‘ کے نام پر کیا گیا۔

Bin Laden Image Hamid Mir

حملہ کرنے والے 19 ہائی جیکروں (جہازوں کے قبضہ گیر) میں سے 15 سعودی عرب کے شہری تھے، جن میں ایک اسامہ بن لادن بھی تھا۔ مگر امریکی ریاست نے جان بوجھ کر سعودی عرب کو محفوظ کیا اور باقی ریاستوں پر دھاوا بول دیا تا کہ اپنا جاہ و جلال دکھایا جا سکے۔

کئی دنوں تک صدر جارج ڈبلیو بش اور نائب صدر ڈِک چینی جیسے لوگوں سمیت سرکاری افسران، فوجی کمانڈروں اور ’تجزیہ کار ماہرین‘ کی نہ ختم ہونے والی تعداد ٹی وی پر آ کر اسلام کی ”شیطانی قوتوں“ کی جانب سے ”آزادی“ کے اوپر کیے گئے حملے کی مذمت کرتے رہے۔ سابقہ وزیرِ تعلیم ولیم بینیٹ اور متعدد ’نیو کنزرویٹیوز‘ کی بڑی تعداد نے حکومت سے ”شر پسند اسلام کے خلاف جنگ کا آغاز“ کرنے کی تاکید کی، جن کا کہنا تھا، ”امریکہ کو وہ اقدامات اٹھانے چاہئیں جو جنگ میں اٹھائے جاتے ہیں، کیونکہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔“ بینیٹ اور اس کا گروہ عراق، ایران، شام اور لیبیا کے خلاف جنگ کے حق میں بولنے لگے، اس حقیقت کے باوجود کہ اس حملے یا اس کو کرنے والی رجعتی تنظیم القاعدہ سے ان ممالک کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

حملہ کرنے والے 19 ہائی جیکروں (جہازوں کے قبضہ گیر) میں سے 15 سعودی عرب کے شہری تھے، پھر بھی سرکاری بیانات میں نمایاں طور پر سعودی عرب کا کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا تھا۔ در حقیقت، ہر ممکنہ طریقے سے سعودی مفادات کا تحفظ کیا گیا، حتیٰ کہ 13 ستمبر سے ہی، جب امریکہ میں ہوائی جہازوں کے آنے جانے پر ابھی پابندی تھی، آٹھ خصوصی جہازوں کے ذریعے سعودی عرب کے چند مالدار اشخاص کو ملک سے باہر با حفاظت منتقل کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان افراد میں سعودی شہزادہ احمد سلمان بھی شامل تھا، جو القاعدہ کے ساتھ منسلک تھا اور جس کے بارے بعد میں پتہ چلا کہ اسے اس حملے کا پہلے سے علم تھا۔ جب دیوانہ وار انداز میں مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف ہراسانی کی نسل پرستانہ مہم شروع کی جا رہی تھی، اسی وقت دنیا کی سب سے رجعتی حکومت سے وابستہ شہزاوں جیسے لوگوں کو حفاظتی مقامات تک منتقل کیا گیا۔

تمام ثبوت حملے کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہونے کی طرف اشارہ کر رہے تھے، جو ایک لمبے عرصے سے پوری دنیا میں اسلامی بنیاد پرستی کا سب سے بڑا معاون رہا ہے۔ در حقیقت، یہ سعودی بادشاہت ہی تھی جس نے 80ء کی دہائی میں سی آئی اے کے ساتھ مل کر پہلی دفعہ القاعدہ کی بنیاد ڈالی تھی، جس کا مقصد افغانستان میں موجود سوویت افواج کے خلاف اسلام پرست ہنگامہ کھڑا کرنا تھا۔ بعد میں سامراجیت کا بنایا ہوا دیو اس کے اپنے قابو سے باہر ہو گیا اور امریکہ اور مغرب کے لیے سنجیدہ مسئلہ بن گیا۔ دن رات ’وار آن ٹیرر‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود، کسی بھی ٹی وی چینل نے اس حقیقت کا ذکر نہیں کیا۔ امریکی حکمران طبقہ دنیا پر اپنا غلبہ مسلط کرنے اور اپنے بعض دشمنوں کو سبق سکھانے کی تاک میں بیٹھا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ اس نے یہ دشمن خود ہی بنائے تھے۔

گھمنڈ

بائیں بازو سے وابستہ سطحی سوچ رکھنے والے بعض افراد اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ غلطیوں سے پاک ہوتا ہے، اور ان کی جانب سے لیے گئے تمام فیصلے ان کے بڑے منصوبے کا حصہ ہوتے ہیں، جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر بہت تفصیل کے ساتھ ترتیب دیے جاتے ہیں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تاریخ غلطیوں اور حادثات سے بھری پڑی ہے۔ 90ء کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد، امریکہ عالمی سطح پر واحد سُپر پاور کے طور پر ابھرا۔ اب اس کو رجعتی مذہبی جنونیوں کے ایک چھوٹے گروہ نے للکارا تھا۔ یہ ایسا واقعہ نہیں تھا جسے برداشت کیا جا سکتا۔

11 ستمبر کی شام فاکس نیوز پر آ کر ایک جذباتی کرنل ڈیوڈ ہنٹ نے اس رویے کا اظہار دو ٹوک انداز میں کیا جب اس نے میزبان بِل اوریلی سے کہا، اب وقت آ چکا ہے کہ امریکہ ”جنگی کتوں کی رسیاں کھول دے۔“ فوجی اشرافیہ کے کتے، جو شدید غصّے کی حالت میں بھونک رہے تھے، اپنی عزت بحال کرنے کی خاطر اپنی رسیاں کھلنے کے لیے بیتاب تھے۔ حملے کا اصل ذمہ دار تو سعودی عرب تھا مگر اس کے ساتھ چونکہ مشترکہ مفادات تھے، اس لیے ان سنکیوں نے افغانستان پر چڑھائی کرنے کا فیصلہ کیا، جو اسے امریکی سامراجیت کے انتقام کے ظالمانہ مظاہرے کے لیے آسان ہدف سمجھ رہے تھے۔ مگر جیسا کہ انجیل میں کہا گیا ہے، ”تکبر کے بعد زوال کی باری ہے۔“

ایک دفعہ جب یہ فیصلہ لیا گیا، اس کے تباہ کن اثرات ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ افغانستان کے خلاف جنگ ایک ایسی مہم تھی، ناکامی جس کا مقدر تھا۔ نومبر 2001ء کی شام جب کابل پر امریکی افواج نے قبضہ کر لیا، ایلن ووڈز نے لکھا:

”ایک دفعہ پھر، ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ امریکیوں نے کس طرح نتائج کے بارے میں سوچ بچار کیے بغیر قدم اٹھایا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک دفعہ جب وہ طالبان کو کابل سے نکال باہر کریں گے، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ (۔۔۔) طالبان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، مگر وہ جنگ کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوئے۔ پہاڑوں میں گوریلا جنگ لڑنا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ وہ پہلے بھی اس طرح لڑتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اسے جاری رکھ سکتے ہیں۔ (۔۔۔) آنے والے عرصے میں کئی سالوں پر محیط طویل مدتی گوریلا مہم جوئی کے امکانات موجود ہیں۔ اتحادی افواج کے لیے جنگ کا پہلا مرحلہ قدرے آسان تھا۔ دوسرا مرحلہ آسان نہیں ہوگا۔

”(۔۔۔) اگر اس مشق کا مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہے تو مستقبل میں اس کے الٹ نتائج سامنے آئیں گے۔ ان واقعات سے قبل، سامراجیوں کے لیے دنیا کے اس حصے کے ہنگاموں اور جنگوں سے خود کو محفوظ رکھنا ممکن تھا، مگر اب وہ مکمل طور پر اس میں پھنس چکے ہیں۔ 11 ستمبر کے بعد اپنی حرکتوں کے باعث امریکہ اور برطانیہ نے خود کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے، جس سے خود کو باہر نکالنا مشکل ہوگا۔“

ان الفاظ کی سچائی آج واضح ہے۔ افغانستان کے نتائج سے مطمئن نہ ہو کر بش، چینے اور اس کے ٹولے، اور ان کے وفادار برطانوی ماتحتوں نے مزید خطرہ مول لینے کا فیصلہ کر کے عراق میں نیا محاذ کھول دیا، یہ دعویٰ کر کے کہ عراق اسلامی بنیاد پرستوں کو پناہ دے رہا ہے اور خفیہ طور پر بڑی تباہی کے ہتھیار (ایٹمی یا کیمیائی ہتھیار وغیرہ) کا مالک ہے۔ بلاشبہ، یہ الزامات واضح جھوٹ پر مبنی تھے۔ عراق میں سامراجیوں کے آنے تک کوئی خاص اسلامی بنیاد پرستی موجود نہیں تھی۔ نہ ہی صدام حکومت بڑی تباہی کے ہتھیار کی مالک تھی۔ اس جنگ کا حقیقی مقصد عراقی تیل تک رسائی حاصل کرنا، ایرانی حکومت پر دباؤ بڑھانا، اور ماضی میں سوویت یونین کے حلقہ اثر میں موجود علاقوں کے اندر مزید پیش قدمی کرنا تھا۔

Bush White House Image White House

بش، چینے اور اس کے ٹولے، اور ان کے وفادار برطانوی ماتحتوں نے مزید خطرہ مول لینے کا فیصلہ کر کے عراق میں نیا محاذ کھول دیا، یہ دعویٰ کر کے کہ عراق اسلامی بنیاد پرستوں کو پناہ دے رہا ہے اور خفیہ طور پر بڑی تباہی کے ہتھیار (ایٹمی یا کیمیائی ہتھیار وغیرہ) کا مالک ہے۔ درحقیقت امریکہ نے ہی داعش جیسے خونخوار درندے کو جنم دیا۔

امریکی سوچ رہے تھے کہ یہ سب کچھ ہموار طریقے سے ہو گا۔ اس دفعہ بھی ان کا اندازہ غلط نکلا۔ عراقی فوج کو تباہ کر کے، جسے دو دہائیوں تک ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، انہوں نے نہ صرف عراق بلکہ پورے خطے کو غیر مستحکم کر دیا۔ ایک طرف، یہ چڑھائی ایرانیوں کو مضبوط کرنے کا باعث بنی جنہوں نے عراق میں موجود اکثریتی شیعہ آبادی کے بیچ بڑی حمایت حاصل کی۔ دوسری جانب اس چڑھائی نے سُنّی بنیاد پرستی کے لیے بنیادیں فراہم کیں، جس کے اوپر ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک حد تک امریکہ کا انحصار بھی رہا، جس کا مجسم اظہار 2014ء میں داعش کے ابھار کی صورت دیکھنے کو ملا۔

آج کل طالبان کے قبضے کے بعد افغانی خواتین کو درپیش خوفناک صورتحال کی مذمت کرنے کے لیے سیاستدان اور نام نہاد ماہرین مغربی میڈیا کے سامنے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ یہ مگرمچھ کے منافقانہ آنسو ہیں۔ سعودی عرب کی خواتین کے حقوق کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کر رہا۔ امریکی قبضے کے تحت افغانستان میں کوئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں، جیسا کہ آج کہا جا رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی ایئر وارز کے مطابق، نائن ایلیون کے بعد امریکی ڈرون حملوں میں کم از کم 22 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 48 ہزار شہری مارے جا چکے ہیں۔ 2015ء میں فزیشنز فار سوشل رسپانسیبلٹی کی رپورٹ کے مطابق عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی مہم جوئیوں کے سبب 13 لاکھ اموات واقع ہوئی ہیں! رپورٹ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ ”یہ فقط ایک تنگ نظر اندازہ ہے۔ اموات کی مجموعی تعداد۔۔۔20 لاکھ بھی ہو سکتی ہے، جبکہ 10 لاکھ سے کم ہونے کے امکانات تو انتہائی کم ہیں۔“

وہی ’آزادی پسند‘ لوگ جنہوں نے بڑی تباہی کے ہتھیار کا رونا رو کر چیخ و پکار کی تھی، عراقی شہر الفلوجۃ کے محلّوں میں وائٹ فاسفورس جیسے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے۔ اس دوران، عراق اور افغانستان دونوں میں، امریکی پشت پناہی میں تعمیر کی گئی حکومتیں انتہائی رجعتی و بد عنوان غنڈوں اور فرقہ پرستوں پر مشتمل تھیں۔ امریکی سامراج ان ممالک میں جمہوریت اور انسانی حقوق نہیں بلکہ بے مثال نوعیت کی فرقہ پرستی، بد عنوانی، موت اور تباہی لے کر آیا۔

عوامی رویے میں تبدیلی

اگرچہ شروع سے ہی امریکہ کے اندر جنگ مخالف احتجاج ہو رہے تھے، مگر بحیثیت مجموعی امریکی عوام کو نائن ایلیون حملوں کے صدمے کی حالت میں دھوکا دے کر جنگ کی حمایت حاصل کروائی گئی۔ البتہ عوامی رویہ بہت جلد تبدیل ہو گیا۔ گیلپ کے مطابق، 2002ء میں افغانستان کی جنگ کی حمایت اپنے عروج پر 93 فیصد تھی۔ البتہ اس کے بعد یہ تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ 2019ء میں، ہزاروں امریکی جانوں کی قربانی اور ایک ٹریلین سے زائد ڈالر کے سہارے 18 سال تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد، ہر 10 میں سے 6 امریکیوں کا کہنا تھا کہ افغانستان سے لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں نکلا۔ آج امریکی محنت کش بیرونِ ملک نہ ختم ہونے والی جنگوں کی قیمت چکانے کی بجائے اپنے حالاتِ زندگی بہتر بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ رویے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کے اہم سیاسی نتائج نکلے ہیں۔

2012ء میں، جب اوباما حکومت نے شام پر بمباری کی تجویز پیش کی تو وہ کانگریس میں منظور نہیں ہو پائی، کیونکہ امریکی آبادی میں اسے محض 9 فیصد کی حمایت حاصل تھی۔ 2016ء میں، جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوا تھا، اس کی انتخابات کی مہم کے سب سے مشہور وعدوں میں ایک امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں سے باہر نکالنا تھا۔ جنگ کی مخالفت نے امریکی سامراج کو شدید مفلوج کر کے رکھ دیا اور وہ ماضی کی طرح دوڑنے کے قابل نہیں رہا۔ کسی بھی حکومت کو کسی بھی بڑی فوجی مہم، جس میں پیدل دستے شامل ہوں، کی بھاری سیاسی قیمت چکانی پڑتی ہے، اور اس بارے میں پہلے سے سوچا نہیں گیا تھا۔ فوجی مداخلت کی معاشی قیمت اس کے علاوہ تھی۔ 2019ء تک، مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مداخلت کی مجموعی قیمت کا اندازہ 6.4 ٹریلین ڈالر لگایا گیا، جو نئی فوجی مہم جوئیاں شروع کرنے کے راستے میں ایک اور رکاوٹ ہے۔

سامراجیت کا بحران

عراقی اور افغانی جنگ کا انجام شروع سے واضح تھا، مگر اوباما اور ٹرمپ کی حکومتیں کوئی حتمی فیصلہ لینے میں تاخیر کرتی رہیں، کیونکہ انہیں شکست کی ذلت قبول کرنا گوارا نہیں تھا۔ بہرحال جلد یا بدیر، کسی نہ کسی کو تو ہتھیار ڈالنے تھے۔ جو بائیڈن کے اوپر پچھلے مہینے افغانستان سے انخلاء کرنے کے حوالے سے بجا طور پر تنقید کی جا رہی ہے۔ طالبان کی تیز پیش قدمی اور امریکی افواج کا افراتفری کے عالم میں کابل سے انخلاء اس کی اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر مامور اس کے ساتھیوں کی نا اہلی کا براہِ راست نتیجہ تھا۔ مگر انخلاء چاہے جس طرح بھی کیا جاتا، امریکہ کی شکست کئی سالوں سے یقینی تھی۔ انخلاء محض اس حقیقت کا آخری اعتراف تھا۔ آنے والے عرصے میں اس کے اہم نتائج برآمد ہوں گے۔

US Army Afghanistan Image US Army

تمام تر امریکی گھمنڈ کے باوجود، افغانستان میں جنگ کا فیصلہ انتہائی احمقانہ ثابت ہوا۔ یہاں امریکہ کی شکست ناگزیر تھی۔

اگلی باری عراق کی ہے۔ جہاں سے یا افغانستان کی طرح افراتفری کے عالم میں انخلاء کیا جائے گا یا پھر ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے، مگر موجودہ بنیادوں پر عراق میں امریکہ کی موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ معاملات یہاں آ کر نہیں رکتے۔ کلاشنکوف اٹھائے چند جنونی طالبان کے ہاتھوں امریکی فوج کو شکست کھاتا دیکھ کر دیگر ممالک کو بھی امریکہ کو للکارنے کا حوصلہ ملے گا، جیسا کہ چین اور روس، حتیٰ کہ ایران جیسے نسبتاً کمزور ممالک بھی۔ من چلے جرنیلوں نے جب نائن ایلیون کے بعد اپنی قوت کے مظاہرے کا فیصلہ کیا تھا، وہ جس طرح توقع کر رہے تھے، نتیجہ اس کے الٹ نکلا۔ امریکی فوجی قوت کے مظاہرے کی بجائے، ساری دنیا کے سامنے امریکی سامراجیت کی نا اہلی، محدودیت اور کمزوری کا مظاہرہ ہوا ہے۔ اب دنیا بھر کے امریکی اتحادی واشنگٹن کی حمایت پر انحصار کرنے کے حوالے سے سنجیدہ شکوک و شبہات کا شکار ہوں گے۔

امریکی سامراج اب بھی کرہ ارض کی سب سے طاقتور عسکری و معاشی قوت ہے۔ البتہ، جیسا کہ ہم نے وضاحت کی، وہ ماضی کی چال اپنا کر بالکل نہیں چل سکتا۔ نتیجتاً، ابھی کے لیے کسی بڑی امریکی فوجی مہم کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ اس کی بجائے، اس کا جھکاؤ معاشی جنگوں، خصوصی محدود کارروائیوں اور پراکسی مہم جوئیوں تک محدود رہے گا۔ اس عمل سے دنیا کا پُر امن بننا تو دور، بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں عدم استحکام اور دباؤ مزید بڑھے گا۔ امریکی حکمران طبقہ اب ان مسائل کو نمٹانے کے حوالے سے سوچنے پر مجبور ہے جو اس نے خود ہی پیدا کیے تھے، بالکل کسی شرابی کی طرح جس کا نشہ اتر گیا ہو۔

امریکی حکمران طبقے کا بحران

ان واقعات کے نتائج محض بین الاقوامی تعلقات تک محدود نہیں، بلکہ یہ امریکہ کے اندر موجود طبقات کے آپسی تعلقات کے اوپر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں تقریباً 8 لاکھ امریکی سپاہیوں نے حصہ لیا۔ ان کی اکثریت میں سے اگر کوئی گھر واپس آیا بھی ہے تو گہرے ذہنی و جسمانی زخم ساتھ لے کر۔ ایک سابقہ سپاہی کی جانب سے، جو افغانستان کی بعض سخت ترین جنگوں میں شریک رہا، ’وائس‘ کو دیے گئے انٹرویو میں اس رویے کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے جو فوج کی اس پرت میں موجود ہے۔ جب انٹرویو لینے والا سوال کرتا ہے کہ کیا اس کے خیال میں یہ جنگ فضول تھی، وہ جواب دیتا ہے:

”ہاں، میں یہی سمجھتا ہوں۔ ایک ایسا شخص ہونے کے ناتے جس کا باقی تمام ساتھیوں کی طرح جنگ میں خون بہا، میں سوال کرتا ہوں۔۔۔وہ بندے جو گھر نہیں لوٹے۔۔۔کیوں نہیں لوٹے؟ وہ کیوں اپنے گھروں کو نہیں لوٹے؟ یہ انیس بیس سال کی عمر رکھنے والے بچے تھے جو اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے۔ وہ ابھی اپنی زندگی شروع بھی نہیں کر پائے تھے کہ ہم نے ان سے اپنا منہ پھیر لیا۔ ہم نے ان بندوں سے اپنا منہ پھیر لیا۔ ایسا ہونا اذیت ناک ہے۔“

اس بیان کے ہر لفظ سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ اس غصے کو تصور کرنا مشکل نہیں جو ان عام امریکیوں میں سرایت کر چکا ہے، جو ماضی میں افغانستان اور عراق کے خلاف امریکی جنگوں کی حمایت کرتے رہے تھے اور جن کو اب پتہ چلا ہے کہ انہیں دھوکہ دیا گیا تھا۔ بیس سالہ جنگ کے بعد، ان سے کیے گئے وعدوں میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہو سکا۔ امریکی سامراجیت نے دنیا کو مزید پُر امن اور جمہوری بنانے کی بجائے، اس کے لیے بربریت اور اذیتوں کا ورثہ چھوڑا ہے۔

اسلامی بنیاد پرستی کو شکست نہیں دی گئی ہے، بلکہ اس کی بجائے امریکی امداد کے ذریعے یہ عراق، شام اور لیبیا میں ماضی کی نسبت زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ عراق اور افغانستان اب بھی جمہوریت سے اتنا ہی دور کھڑے ہیں جتنا کہ ماضی میں تھے۔ نام نہاد جمہوری امریکی اقدار؛ ’قومی ترقی‘؛ ’وار آن ٹیرر‘، اور امریکی مخصوصیت (ایکسیپشنلزم) کی بنیاد پر ’نیا ورلڈ آرڈر‘ تعمیر کرنے کی ساری باتیں محض ہوائی ثابت ہوئی ہیں۔ یہ اشرافیہ کو درپیش سنجیدہ مسئلہ ہے، جن کو امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نا اہل جھوٹے لوگوں، موقع پرستوں اور بہروپیوں کے ٹولے کے طور پر دیکھتی ہے۔ قدامت پسند تنظیم ’کاٹو‘ سے وابستہ کرسٹوفر پریبل نے ’نیٹ اسسمنٹ پوڈکاسٹ‘ پر بات کرتے ہوئے خبردار کیا:

”افغان سیکیورٹی فورسز کی اہلیت کے حوالے سے گمراہ کن، غلط یا بعض مواقعوں پر سفید جھوٹ پر مبنی بیانات دیے گئے۔۔۔’کریڈیبلیٹی گیپ‘ (عوامی عدم اعتماد) کا مسئلہ تب سے چلا آ رہا ہے جب ویتنام جنگ کے عرصے میں امریکی حکومت جنگ کی پیش رفت کے متعلق بیانات دیتے تھے، مثال کے طور پر جنوبی ویتنام کی حکومت کے استحکام یا اس کی فوج کے لڑنے کی صلاحیت کے متعلق، جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوا۔ یہی ’کریڈیبلیٹی گیپ‘ تھا۔ اور یوں امریکی افسروں کی باتوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا گیا۔۔۔میری بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عدم اعتماد کا مسئلہ محض بیرونی جنگوں تک محدود نہیں ہوتا۔ آج کل اس ملک کے اداروں پر کیا جانے والا اعتماد منہدم ہو رہا ہے۔ اور کروڑوں امریکی حقیقت اور افسانے کے بیچ تفریق نہیں کر پا رہے۔۔۔عدم اعتماد کا مسئلہ موجود ہے اور یہ بد تر ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی لوگ سرکاری افسران پر یقین نہیں رکھتے۔“

یہ ہوش دلانے والے تنبیہی الفاظ امریکی سرمایہ داری کے نسبتاً ذہین مدبرین میں سے ایک نے ادا کیے ہیں۔ 11 ستمبر 2001ء کے المیے سمیت بعد ازاں عراق اور افغانستان میں ہونے والی جنگوں نے اگرچہ شروع میں حب الوطنی اور قومی جڑت کے جذبات ابھارے تھے، مگر ان جنگوں کی شکست نے حکمران طبقے کے بارے میں موجود نفرت اور شکوک و شبہات میں اضافہ کیا ہے۔ عالمی سطح پر امریکی سامراجیت کے بحران کا مطلب امریکہ کا داخلی بحران بھی ہے۔ کرونا وباء کے دوران مجرمانہ بدنظمی، گرتا ہوا معیارِ زندگی، وسیع پیمانے پر موجود معاشی غیر یقینی، اور نسل پرستی کے بلا جیسے عناصر کے ساتھ ساتھ سامراجیت بھی سطح کے نیچے جاری انقلاب کے سالماتی (Molecular) عمل کی ضد میں آ رہا ہے۔ امریکی سامراجیت کا پالا ہوا سانپ اسی کو ڈسنے لگا ہے۔ امریکی سرمایہ دار طبقے کے لیے روزِ جزا کا دن قریب آتا جا رہا ہے، جن کا حساب کتاب ان کے اپنے پالے ہوئے اسلامی جنونی نہیں، بلکہ انقلابی عوام کریں گے۔

Comments are closed.