|تحریر: ولید خان|
آج دنیا دیو ہیکل تبدیلیوں کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نیم مردہ حالت میں تاریخ کی قبر میں اتر رہا ہے۔ تیز ترین واقعات کی بھٹی میں حکمران طبقے کے صدیوں میں بنائے ریاستی ادارے، سیاسی پارٹیاں، مروجہ سیاست، مذہبی روایات، مسلط کردہ اخلاقیات اور معاشی نظام کے تحت بننے والے سماجی رشتے سب پگھل رہے ہیں۔ ہر جھوٹ بے نقاب ہو رہا ہے اور ہر راز افشاں۔ حالات کے جبر نے اس طبقاتی نظام کو ننگا کر کے بیچ چوراہے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ٹوٹتے بکھرتے استحصالی نظام اور اپنی دولت کو بچانے کی کوششوں میں حکمران طبقے کے جبر نے عوامی شعور کو دہائیوں کا سفر مہینوں اور ہفتوں میں طے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب کوئی سوال ممنوع نہیں، کوئی بت مقدس نہیں۔ پوری دنیا میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سرمایہ داری کو ڈبونے کے درپے ہے۔ اس شدید کشمکش میں سماج کی نظروں سے اوجھل کئی سوال اب پوری شدت کے ساتھ اپنا اظہار کر تے ہوئے حل طلب ہیں۔ ان میں سے ایک خواتین کاسوال ہے جو سماجی، معاشی اور سیاسی ہر حوالے سے انتہائی اہم ہو چکا ہے۔
8مارچ کو محنت کش خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 111 سال پہلے 1910ء میں سوشلسٹ انٹرنیشنل سے منسلک عالمی خواتین کانفرنس میں کلارا زیٹکن نے محنت کش خواتین کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی۔ 17 ممالک سے 100 خواتین مندوبین نے عالمی دن کو ایک سوشلسٹ تقریب کے طور پر منظم کیا تاکہ مساوی حقوق، حقِ رائے دہی اور روزگار میں صنفی امتیاز کی مخالفت کو فروغ اور آزادیِ نسواں کو سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑا جائے۔ 19 مارچ 1911ء کو آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزز لینڈ میں ہزاروں افراد نے محنت کش خواتین کا عالمی دن منایا۔ ویانا میں خواتین نے بینر اٹھا کر 1871ء کے پیرس کمیون کو سلام پیش کیا جب تاریخ میں پہلی مرتبہ محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ درحقیقت، پیرس کمیون کی روح پرور جدوجہد میں خواتین نے شاندار بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقِ رائے دہی، ریاست سے مذہب کی علیحدگی، طلاق کا حق، تعلیم اور یہاں تک کہ ہتھیار رکھنے کے حق میں بے باک مطالبات پیش کیے۔ 1917ء میں یہ محنت کش خواتین کا عالمی دن ہی تھا جب پیٹروگراڈ کی ٹیکسٹائل صنعت کی محنت کش خواتین نے کئی فیکٹریوں میں کام چھوڑ کر اپنے ساتھی مرد محنت کشوں سے حمایت کی اپیل کی اور انسانی تاریخ کا دھارا ہمیشہ کے لئے بدل دیا۔ زار شاہی روس میں انقلاب پھٹ چکا تھا جسے تاریخ میں فروری انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پانچ دن بعد زار کو شاہی تخت چھوڑنا پڑا اور 9 ماہ بعد بالشویک پارٹی نے محنت کش طبقے کی قیادت کرتے ہوئے اکتوبر میں اقتدار پر قبضہ کر کے ایک مزدور ریاست کی بنیاد رکھی اور نئے سماج کی تعمیر کا عمل شروع کیا۔ بالشویک پارٹی خواتین کے سوال پر انتہائی سنجیدہ تھی اور پہلی مرتبہ خواتین کو حقِ رائے دہی، طلاق کا حق اور حقِ اسقاطِ حمل دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کے لئے دیوہیکل سماجی پروگرام شروع کئے گئے تاکہ صحت و تعلیم سے لے کر امورِ ریاست، سائنس و ٹیکنالوجی، صنعت، آرٹ، سیاست غرض یہ کہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت پرجوش، مساوی اور یقینی بنائے جا سکے۔ صنفی امتیاز پر مبنی تمام قوانین یک جنبشِ قلم ختم کر دیئے گئے، اجرتوں میں تفریق ختم کر دی گئی اور دورانِ حمل و زچگی اجرت سمیت ہر قسم کی سہولت کو یقینی بنایا گیا۔ نتیجتاً خواتین کی اوسط عمر میں 1970ء کی دہائی تک 30 سال کا اضافہ ہو گیا (اوسط عمر 74 سال)، نومولود کی اموات میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی اور ہائر ایجوکیشن میں خواتین کی شرح 49 فیصد ہو گئی۔ اس وقت پوری دنیا میں خواتین کی ہائر ایجوکیشن میں 40 فیصد سے زیادہ شرح رکھنے والے صرف چار ممالک فن لینڈ، فرانس، سویڈن اور امریکہ تھے۔ پہلی خاتون خلاء باز کو خلاء میں بھیجنے کا سہرا بھی سوویت یونین کے سر ہے۔ اگر آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے یہ کام اس نہج پر کیا جا سکتا تھا تو قارئین بہتر سوچ سکتے ہیں کہ آج کی سائنس و ٹیکنالوجی اور وسائل سے کیا کچھ ممکن نہیں۔
یہ مختصر تاریخ بینی اس لئے اہم ہے کیونکہ دانستہ طور پر پچھلی چند دہائیوں میں محنت کش خواتین کے عالمی دن میں سے اس کا انقلابی پہلو ختم کر کے اسے نرم و ملائم، سرمایہ دار دوست اور سطحی حقوق کا علمبردار بنا دیا گیا ہے۔ یہ کاوش 1960ء کی دہائی میں شروع ہوئی اور اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ غلیظ سٹالنسٹ بیو روکریسی کا ردِ انقلاب مکمل ہوئے عرصہ گزر چکا تھا، انقلاب کے ابتدائی سالوں میں خواتین کے حوالے سے بیشتر حاصلات واپس چھینی جا چکی تھیں، مرحلہ وار انقلاب کا مکروہ نظریہ یکے بعد دیگرے پوری دنیا میں انقلابات کو برباد کر رہا تھا اور محنت کش خواتین کا عالمی دن محض ایک چھٹی اور نسوانیت کے جشن کا دن بنا دیا گیا تھا۔ مغربی ممالک میں حقوقِ نسواں کی سیاسی تحریک میں سے ترقی پسند نظریات کا انخلا ہو چکا تھا اور بورژوا فیمنسٹ خیالات تیزی سے یونیورسٹیوں اور کام کی جگہوں پر پھیل رہے تھے۔ فیمنسٹوں اور لبرلوں نے خواتین کے عالمی دن کو کار آمد جانتے ہوئے ایک تہوار بنا دیا جس میں خواتین کی سرمایہ دارانہ سماج میں ترقی اور نام نہاد آزادی کو ہی ہدف بنا لیا گیا اور رنگ برنگے نعرے اور تقریبات جدوجہد کا ذریعہ۔ کارپوریٹ سیکٹر، شو بز اور کھیل کی دنیا، ماڈلنگ اور اسی طرح کے دیگر شعبوں میں مشہور خواتین کو کامیاب اور قابلِ تقلید مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتیوں اور سماجی مواقع میں کمی کا سارا الزام مردوں کی مخصوص پدرشاہانہ سوچ بتایا جاتا ہے اور پرچار کیا جاتا ہے کہ اگر سوچ تبدیل کر لی جائے، قوانین اچھے بنا دیئے جائیں یا مخصوص روز مرہ استعمال کے الفاظ تبدیل کر دیئے جائیں تو سماج میں خواتین کی ثانوی حیثیت راتوں رات تبدیل ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس سوچ کے حامل خواتین و حضرات خود متوسط طبقے اور اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے یہ کبھی بھی سرمایہ دارانہ نظام اور تمام تر جبر کی بنیاد نجی ملکیت اور منافعوں پر بات نہیں کرتے اور نہ ہی اس پہلو کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں کہ نجی ملکیت کی موجودگی کا اس سارے مسئلے میں کیا کردار ہے۔ اب یہ کام اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ آج این جی اوز، فیمنسٹ اور لبرلز انتہائی خوفناک انداز میں سرمایہ داری کا دفاع کرتے ہوئے اپنا زہر پھیلا رہے ہیں۔ ایک طرف یونیورسٹیوں میں طلبہ میں لبرل ازم اور فیمنزم کو بے تحاشا پھیلایا جاتا ہے تاکہ خواتین کو مردوں سے متنفر کر کے اپنے مخصوص حقوق کی سطحی جدوجہد پر راغب کرتے ہوئے اپنے طبقاتی نصف سے کاٹ دیا جائے اور دوسری طرف اپنی تشہیر کر کے اپنی تصانیف کی سیل، ٹی وی اور اسٹیج پر گفتگو کو یقینی بناتے ہوئے مخصوص دانشورانہ تسکین حاصل کی جائے اور سارے عمل میں سرمایہ داری کا ذکر تک نہ کیا جائے کیونکہ حتمی تجزیئے میں اسی نظام کے ساتھ ان کے مالی اور طبقاتی مفادات جڑے ہیں۔ دوسری طرف این جی اوز کا بھی یہی کام ہے۔ ریاست تمام عوامی فلاح و بہبود کے کاموں سے اپنا ہاتھ کھینچ چکی ہے، یونین سازی اور سرگرمیاں ناممکن ہو چکی ہیں اور متبادل کے طور پر سماج کے امیر رنگیلے خواتین و حضرات کو سول سوسائٹی بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے کہ یہ عقل مند مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے بے چین ہیں۔ یہ افراد اپنی این جی اوز کے ذریعے مزدور تحریک کے لئے زہرِ قاتل ہیں کیونکہ یہ مزدور سیاست کو پراگندہ کرتے ہوئے جدوجہد کے بجائے محنت کشوں کو عدالتی نظام اور سرمایہ دار سے رحم کی بھیک مانگنے کی ترغیب دیتے ہیں اور دوسری طرف انہی لبرل اور فیمنسٹ خیالات کے تحت محنت کشوں کو صنفی بنیادوں پر ایک دوسرے سے توڑکر طبقاتی طور پر کمزور کرتے ہیں۔
پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے جنم سے عوامی شعور کو مسخ کرنے کے لئے مذہب کا بے دریغ استعمال کرتا آیا ہے۔ جہاں ایک طرف اس کو مزدور تحریک کو فرقہ ورانہ بنیادوں پر کاٹنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہیں مخصوص نظریات اور کالے قوانین کے ذریعے پہلے سے پسی خواتین کو مزید زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ شیریں دہن ملاں متوسط طبقے کو دنیا میں کچھ صدقہ خیرات کر کے آخرت سنوارنے کا مشورہ دیتے ہیں اور دوسری طرف محنت کش طبقے کو دنیا کے بجائے آخرت میں ناقابلِ یقین دائمی زندگی کے خواب دکھا کر جدوجہد کا راستہ ترک کرنے کا درس دیتے رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر احساسِ گناہ، عورت کی وفاداری اور تابعداری اور چادروچار دیواری کے تقدس کا ڈھونگ رچا کر پوری کر لی جاتی ہے۔ حتمی طور پر یہ تمام سرمایہ دار طبقے کے مختلف اوزار ہیں تاکہ محنت کش طبقہ نہ صرف صنفی بنیادوں پر بٹا رہے بلکہ ایک طبقاتی جڑت بناکر جدوجہد کرنے کے حوالے سے مسلسل گمراہ بھی ہوتا رہے۔ اس سارے کھلواڑ کا مقصد معاشی نظام کا دوام، محنت کش طبقے کا خوفناک استحصال اور ہوشرباء منافعوں کی لوٹ مار ہے۔
دہائیوں کے بلند و بانگ دعووں کے برعکس اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین کا پوری دنیا میں مزدوری کے اوقات کار میں دو تہائی حصہ ہے اور تمام اشیائے خوردونوش کی 50 فیصد پیداوار خواتین کرتی ہیں لیکن پوری دنیا کی اجرت میں ان کا حصہ 10 فیصد اور ملکیت میں 1 فیصد حصہ ہے۔ دنیا کے 70 فیصد غربا خواتین اور لڑکیوں پر مشتمل ہیں۔ جنسی ہراسانی اور ریپ خوفناک وباء بن چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ ہے کہ 65 ممالک کے اعدادوشمار کے مطابق ہر سال 2 لاکھ 50 ہزار خواتین ریپ یا ریپ کی کوشش کا شکار ہوتی ہیں۔ 35 فیصد خواتین زندگی میں ایک مرتبہ جنسی ہراسانی یا تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ پچھلے ایک سال میں خواتین کی مدد کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں ہیلپ لائنز پر پانچ گنا کالز بڑھ چکی ہیں۔ پوری دنیا میں ہر روز 137 خواتین اپنے خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ 40 فیصد سے کم خواتین تشدد کے بعد کسی قسم کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پوری دنیا میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں میں 50 فیصد خواتین ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک خاتون کی شادی زبردستی 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے۔ کم از کم 60 فیصد سے زیادہ خواتین کو سڑکوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا رہا ہے۔ یہ بھیانک اعدادوشمار اس لئے پورے نہیں کیونکہ اقوام متحدہ کو تمام اعدادوشمار مختلف ایجنسیاں، ادارے اور ممالک فراہم کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مکمل حقائق کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ رپورٹس میں بس یہ کہا جاتا ہے کہ رپورٹنگ کے حالات بہتر ہو رہے ہیں، مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ یہ ان مغربی سحر میں گرفتار خواتین و حضرات کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جو ہر مسئلے کا تریاق مغربی جمہوریت اور اخلاقیات کو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک اس کرہ ارض پر شاید ہی موجود ہو جہاں کمسن بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی، خواتین پر تیزاب گردی، ریپ اور جنسی ہراسانی معمول بن چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 ریپ کیس رپورٹ ہو رہے ہیں اور پچھلے چھ سالوں میں 22 ہزار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ان میں سے اب تک صرف 77 مجرمان یعنی 0.3 فیصد کو ہی سزا ہوئی ہے! کُل کیسوں کی تعداد 60 ہزار سے زائد ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی انتہائی محتاط اندازہ ہے۔
لیکن انقلابی نظریات رکھنے والے سنجیدہ سیاسی کارکنان کے لئے یہ حقائق محض بیماری کی علامت ہیں۔ جب تک بیماری کی جڑ تک نہیں پہنچا جاتا اس وقت تک اس کی بے رحم جراحی نہیں کی جا سکتی۔ انسانی سماج میں قائم مروجہ سماجی رشتوں کی بنیاد وہ معاشی نظام ہوتا ہے جو اسے قوتِ محرکہ فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ مختلف طبقات، طبقات میں موجود افراد اور دونوں صنفوں کے آپسی تعلق کو سمجھنے کے لئے آج کے معاشی نظام سرمایہ داری کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ اس معاشی نظام کی دو بنیادیں ہیں یعنی نجی ملکیت اور منافع۔ نجی ملکیت، منافعوں کے تحفظ اور ان کے مالک سرمایہ دار طبقے کی حفاظت کے لئے ریاست اور دیگر ادارے مثلاً بیورووکریسی، عدلیہ، پولیس، فوج، سیاسی پارٹیاں وغیرہ موجود ہیں جو محنت کش طبقے کے استحصال کو یقینی بناتے ہیں۔ تمام قوانین، تعلیم، ذرائع ابلاغ، دانشوری، مذہب، اخلاقیات اور روایات اسی مقصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کارِ خیر میں متوسط طبقے کے دانشور اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اس کے ساتھ منیجری کے نام پر محنت کش طبقے کا استحصال کر کے اپنے لئے اور اپنے آقاؤں کے لئے کمائی کرتے ہیں۔ یہی آج ملاؤں، این جی اوز، فیمنسٹوں اور لبرلز کا کردار ہے۔ لیکن پورے سماج سے کشیدی گئی دولت جب چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے تو پھر سوال کھڑا ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ دولت کہاں جائے گی، اس کا کیا ہو گا؟ اس کے لئے ایک قانونی وارث درکار ہے اور اس قانونی وارث کی پیدائش کرنے والی ایک جنس، ایک اوزار۔ اسی طرح محنت کش طبقے کی محنت سے سماج میں دولت پیدا ہوتی ہے لیکن ایک وقت آنے پر ہر مزدور نے بوڑھا ہو کر یا حادثے کا شکار ہو کر ناکارہ ہو جانا ہے اور ایک نیا مزدور تخلیق کر کے اس کی پرورش کرنا لازمی ہے تاکہ منڈی کو نیا مزدور دستیاب ہو اور نظامِ زر چلتا رہے۔۔اس کے لئے بھی ایک جنس، ایک اوزار کی ضرورت ہے۔ یہاں ہمیں نجی ملکیت، اس سے منسلک عورت کی گھریلو غلامی، ثانوی سماجی حیثیت اور دہرے استحصال کے تانے بانے وضع ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایک جنس یا اوزار کی کوئی حیثیت اور کوئی حقوق نہیں ہوتے، صرف استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے اسے ہوس کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، دست درازی کی جا سکتی ہے، عبرت کا نشان بنایا جا سکتا ہے، اس کے ذریعے دشمنی اور نفرت کا اظہار کیا جا سکتا ہے، کم سے کم اجرت میں زیادہ سے زیادہ استحصال کیا جا سکتا ہے اور یہ سب کچھ ”حق“ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ یہی سماجی رشتہ ہمیں ہر طبقے اور ہر پرت میں نظر آتا ہے البتہ اس کی شدت اور اظہار مختلف جگہوں پر مختلف ہے لیکن بنیاد یکساں ہے۔ اگرچہ انقلابِ روس، مزدور نظریات، عمومی مزدور تحریکوں اور دہائیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں خواتین نے بہت ساری حاصلات جیتی بھی ہیں لیکن حقیقی شخصی و سماجی آزادی آج بھی کوسوں دور ہے۔ اگر خواتین کی حقیقی آزادی پر کوئی شخص سنجیدہ ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے لئے اس کی پیروں میں پڑی غلامی کی اصل وجہ۔۔نجی ملکیت۔۔کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
اس سے انکار نہیں کہ کسی بھی بنیادی سماجی تبدیلی کے لئے انقلاب درکار ہے اور کوئی بھی انقلاب آبادی کی نصف صنف۔۔خواتین۔۔کی بھرپور شمولیت کے بغیر ناممکن ہے۔ زندگی وہ درسگاہ ہے جس کے اسباق کبھی نہیں بھولتے اور شعور کی تبدیلی میں معیاری کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنی جوانی میں سرمایہ داری نے انسانیت کو ترقی دی، سائنس اور ٹیکنالوجی کو حیران کن جدت دی، معیارِ زندگی کو بلند تر کر دیاا ور ذرائع پیداوار کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔ لیکن اب سرمایہ داری قریب المرگ ہے جس کا اظہار روزانہ کے آلام و مصائب، جبر و استحصال اور زندگیوں کی تباہی میں ہو رہا ہے۔ عالمی معاشی بحران حکمران طبقے کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ محنت کش طبقے پر بحران کا بوجھ ڈالتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جبر و استحصال کرے یعنی یہ نظام جس طبقے پر دولت کی پیداوار کے لئے منحصر ہے اسی کو زندہ رکھنے کی اہلیت کھو چکا ہے۔ اس کا اظہار بے قابو مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، عوامی سہولیات کے خاتمے، انفراسٹرکچر کی تباہی، آرٹ اور ادب میں تعفن زدہ غلاظت اور عمومی سماجی انتشار میں ہو رہا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ پچھلی ایک دہائی میں محنت کش طبقہ بھی تجربات کی بھٹی میں پک کر کندن ہوا ہے۔ تحریکوں، احتجاجوں، مزاحمت اور انقلابات کا ایک سلسلہ ہے جو پچھلی ایک دہائی سے شدت اختیار کر رہا ہے اور طبقاتی لڑائی کھل کر سڑکوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں شروع ہو چکی ہے۔ صرف 2019ء میں 35 ممالک میں انقلابات برپا ہوئے۔ اس وقت بھی کیٹالونیا، میانماراور روس میں عوامی تحریکیں جاری ہیں۔ پوری دنیا میں جنسی ہراسانی اور ریپ کے خلاف اور اسقاطِ حمل کے حق کے لئے یورپ سے امریکہ اور لاطینی امریکہ تک خواتین تحریکوں میں اتریں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 2016ء میں حلف برداری کے دن لاکھوں خواتین نے پورے ملک میں احتجاج کئے۔ 2019ء میں سوڈان کے انقلاب میں ایک خاتون کی گاڑی پر کھڑے ہو کر نعرے بازی کی ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہوئی جبکہ اس انقلابی تحریک میں خواتین نے شاندار کردار ادا کیا۔ اسی سال لبنان کے انقلاب میں ایک خاتون نے شاندار ترانہ ”ثورہ بی کل البلدان“ (تمام ممالک میں انقلاب) گایا جو انقلاب کی روح بن گیا۔ کینیڈا سے لے کر برطانیہ، ہانگ کانگ سے لے میانمار تک تحریکوں اور انقلابات میں خواتین کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس وقت انڈیا کی تاریخ کا سب سے بڑا کسان احتجاج جاری ہے جس میں کسان خواتین بھاری تعداد میں انتہائی پرجوش انداز میں شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی پچھلے چند سالوں میں مختلف قومی اداروں میں نجکاری مخالف تحریکیں بنی ہیں اور ان میں خواتین قابلِ ذکر کردار ادا کرنے کی طرف گئی ہیں جن میں نرسز، لیڈی ہیلتھ ورکرزا ور اساتذہ نمایاں ہیں۔ جنسی ہراسانی کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی اور پشاور میں اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبات نے بھرپور احتجاج کئے ہیں اور آنے والے عرصے میں ہمیں تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت اور تحرک دیکھنے کو ملے گا۔ تمام غلیظ پروپیگنڈہ کے برعکس محنت کش خواتین و مرد اور نوجوان فطری طور پر سمجھتے ہیں کہ اگر سماج کی انقلابی تبدیلی ضروری ہے تو اس کے لئے خواتین کی شمولیت ناگزیر ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معاشی نظام اپنی تاریخی عمر پوری کر کے اب قصہ ماضی بننے جا رہا ہے۔ ہمیں پوری دنیا میں جو تباہی و بربادی اور اس میں پنپنے والی تحریکیں اور انقلابات نظر آ رہے ہیں وہ درحقیقت اس سماج کی کوکھ میں پلتا نیا سماج ہے جو اب پیدائش کے لئے بے قرار ہے۔ حتمی سماجی تفریق سرمایہ دار اور محنت کش طبقات کی ہے جو اب طبقاتی جنگ میں اتر رہے ہیں۔ یہ دور کٹھن ضرور ہے لیکن مایوس کن ہر گز نہیں۔ اسی طبقاتی جدوجہد میں محنت کش مرد و خواتین اور نوجوانوں کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے کیونکہ دونوں کی مشترکہ جدوجہد میں ہی دونوں کی انفرادی اور اجتماعی آزادی پنہاں ہے۔ خواتین کو منڈی اور گھریلو غلامی سے آزاد کرانے کے لئے لازم ہے کہ گھریلو کام کو سماجی ذمہ داری میں تبدیل کرتے ہوئے تمام گھریلو کام مثلاً بچوں کی دیکھ بھال، کھانا پینا، صفائی ستھرائی وغیرہ اجتماعی کر دیا جائے، خواتین مخالف تمام امتیازی قوانین فوری طور پر منسوخ کئے جائیں اور حقیقی آزادی کے لئے مساوی اجرتوں کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو میں خواتین کی شمولیت کے لئے راستہ کھول دیا جائے۔ ان سب کے لئے لازم ہے کہ خواتین منظم ہو کر اپنے محنت کش مرد ساتھیوں اور نوجوانوں کے ساتھ شانہ بشانہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر طبقات، منافع اور نجی ملکیت سے پاک ایک ایسے سماج کی جدوجہد کریں جس میں پیداواراور وسائل انسانی ضروریات کے لئے ہوں تاکہ حقیقی طور پر مرد اور عورت کے درمیان ہمدردی، محبت، برابری اور مساوات کا سماجی رشتہ قائم ہو اور کسی فرد کی دوسرے پر حاکمیت نہ ہو۔ ہم تمام قارئین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس عظیم تاریخی فریضے میں ہمارا ساتھ دیں۔ یہی محنت کش خواتین کے عالمی دن 8 مارچ کا حقیقی پیغام ہے۔