|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
پی آئی اے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں 74 ملازمین کو جعلی ڈگریوں، ڈیوٹی پر غیر ذمہ داری، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، اسمگلنگ اور نشہ کرنے کے الزامات پر برخاست کر دیا گیا ہے۔ پچھلے تین مہینوں میں مجموعی طور پر 177 ملازمین کو مختلف الزامات پر برخاست کیا جا چکا ہے۔ 4 ملازمین کو ڈیموٹ کیا گیا ہے اور 11 پر مختلف تادیبی کاروائیاں کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ اگست کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 22 پائلٹس کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے جن میں سے 17 کپتان اور باقی فرسٹ آفیسر ہیں۔ یاد رہے کہ یہ برخاستگیاں ان 1 ہزار ملازمین کے علاوہ ہیں جنہیں پچھلے تقریباً دو سالوں میں نئی انتظامیہ نوکریوں سے نکال چکی ہے۔
تبدیلی سرکار نے اقتدار سنبھالتے ہی IMF کے مزدور دشمن ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا تھا جس میں تمام عوامی اداروں کی نجکاری، ملازمین کی مستقل نوکریوں کا خاتمہ، بڑے پیمانے پر جبری بر طرفیاں، تنخواہوں میں اضافے کا منجمد کیا جانا اور اب پنشنوں کا خاتمہ بھی شامل ہو چکا ہے۔ صوبہ پنجاب اور کے پی کے، کے سرکاری ہسپتالوں کے بعد اسٹیل ملز، ریلوے، اسٹیٹ لائف، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے حوالے سے بھی ان اقدامات پر تیزی سے کام جاری ہے جبکہ فوری طور نشانے پر سب سے زیادہ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی ہیں کیونکہ یہ کھربوں روپے کی سرکاری زمین ہتھیانے، بیرون ملک قیمتی اثاثوں کی لوٹ کھسوٹ اور مستقبل میں بلند ترین شرح منافع کے حصول کا معاملہ ہے۔ قومی ائر لائن کے ملازمین کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے 2016ء میں نجکاری کے خوفناک حملے کے خلاف دو جانثار ملازمین کی شہادت دیتے ہوئے 8 دن کی مکمل ملک گیر ہڑتال کی تھی اور نتیجتاً ریاست کو وقتی طور پر اپنے مذموم مقاصد سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ پی آئی اے کی نجکاری کو اس مرتبہ یقینی بنانے کے لئے پہلے حاضر سروس ائر فورس افسران کی ایڈمنسٹریشن مسلط کی گئی اور اس کے بعد چھانٹیوں وجبری برطرفیوں کا خوفناک عمل شروع کر دیا گیا جس میں 30 اپریل 2020ء کو پوری ائر لائن کی یونینز اور ایسوسی ایشنز کو غیر قانونی قرار دینا ایک کلیدی مرحلہ تھا۔ پھر کراچی میں حالیہ طیارہ حادثے نے اس مذموم حکومتی پالیسی کو ایک بہانہ فراہم کرتے ہوئے تیز تر کر دیا۔ انتہائی بھونڈے، جھوٹے اور بے تکے الزامات لگا کر، جن میں شنوائی یا اپیل کا حق بھی نہیں دیا جاتا، ملازمین کو برخاست کیا جا رہا ہے۔ اس سارے عمل پر تمام سیاسی پارٹیوں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ سی بی اے یونین اور دیگر تنظیموں کی قیادتیں بھی محض اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات نکالنے کی کوششیں کر رہی ہیں جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کے زر خرید میڈیا کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے۔
ائر پورٹس، جہازوں، سرحدوں اور بندرگاہوں پر ریاست کی معمور کردہ تمام تر ایجنسیوں اور فورسز کی موجودگی میں اسمگلنگ کا ہونا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ آخر ریاست میں کون اس کی سرپرستی کر رہا ہے؟ ریاستی امور پر معمور جو فوجی وسول عہدیدار اس ملک و قوم کی خدمت کرنے کی قسمیں اٹھا کر منصب پر بیٹھتے ساتھ ہی عالمی مالیاتی اداروں، سامراجی آقاؤں اور سرمایہ داروں کی غلامی شروع کر دیتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرنے لگتے ہیں، کیاانہیں اپنے فرائض سے غفلت برتنے، کرپشن کرنے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر انصاف کے کٹہروں میں کھڑا نہیں کرنا چاہیے؟ چھوٹے ملازمین پر کرپشن کا الزام بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس وقت ائر لائن کی انتظامیہ سمیت ریاست کی بڑی بڑی جنتر منتر شخصیات خود اپنی ہوشرباء کرپشن کی وجہ سے پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اگر الزام تراشی ہی ملازمتوں سے فارغ کرانے کے لئے کافی ہے تو پھر جتنے ثبوت اس وقت موجود ہیں ان کی روشنی میں شائد ہی ریاست اور اس کے کسی بھی ادارے کا کوئی سابق یا حاضر سروس ”صادق اور امین“ دیوتا بچے گا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ پی آئی اے ملازمین کے اس آمرانہ اور جابرانہ معاشی قتل عام کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ برطرف کئے گئے تمام ملازمین کو فوری طور پر بحال کیا جائے، تمام یونینز اور ایسوسی ایشنز کی قانونی حیثیت دوبارہ بحال کی جائے اور ان تادیبی کاروائیوں کے پسِ پردہ موجود نجکاری کے حملے کا فوری طور پر خاتمہ کیا جائے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ، پی آئی اے کے محنت کشوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ انہیں آپس میں متحد ہو کر اور دیگر عوامی اداروں و نجی صنعتوں کے محنت کشوں کیساتھ طبقاتی اتحاد بناتے ہوئے اپنی بقا کی خاطر سر بکف ہونا پڑے گا ورنہ یہ ظالم حکمران انہیں ان کے بال بچوں سمیت بھوکوں مار دیں گے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس جدوجہد کے ہر قدم پر محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کرتا ہے۔