|تحریر: پارس جان|
برِ صغیر کے خونی بٹوارے کو 71 سال ہو گئے ۔سرحد کے آر پار ان زخموں سے آج بھی خون رس رہا ہے۔کیا ہی حسین اتفاق ہے کہ پاکستان کی نئی پارلیمان میں حلف برداری کی تقریب نام نہاد ’جشنِ آزادی‘سے صرف ایک روز قبل منعقد کی گئی۔ بلند و بانگ دعوؤں کے بعد منصبِ اقتدار پر فائز ہونے والے حکمران طبقے کے نئے ٹولے کو رتی برابر بھی اندازہ نہیں ہے کہ ان کے مسحور کن تخت کے نیچے کتنی چنگاریاں دبی ہوئی ہیں اور طوفانی جھونکے انہیں ہوا دے رہے ہیں۔ یوں تو سرمایہ دارانہ معاشروں کا بالعموم اور تیسری دنیا کا بالخصوص حکمران طبقہ جاہل اور کسی بھی سائنسی سمجھ بوجھ سے نابلد ہی ہوتا ہے، مگر پاکستان کے جنم سے لے کر اب تک یہاں کے گماشتہ حکمران طبقات کی جہالت اس عمومی معیار سے بھی کئی گنا زیادہ رہی ہے۔ یہاں سول یا فوجی اقتدار کے ادوار میں صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں رہی اور سب نے ایک سے بڑھ کر ایک تاریخی جرائم کا ارتکاب کیا اور ملک کو اس مقام پر لا کھڑا کر دیا کہ جہاں بحران ، زوال اور حتیٰ کہ انہدام جیسے الفاظ بھی عاجز اور بے وقعت معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ان تمام کے اوسط ذہنی معیار کے مقابلے میں اس حالیہ بننے والی حکومت کے سربراہان کی ذہنی کیفیات اس سے بھی کئی گنا زیادہ پست اور متعفن ہیں۔ حقیقت میں ان کے مقابلے میں تو پرویز مشرف جیسا خبطی بھی افلاطون دکھائی دیتا ہے۔ جاہل تو سارے ہی تھے مگر اپنی جہالت پر ایسا تفاخر، اتنا غرور، خدا کی پناہ، اس کا تو تصور ہی کرب آلود قہقہوں کا موجب بن جاتا ہے۔ 71 ویں جشنِ آزادی کے موقع پر حلف اٹھانے والے وزیرِ اعظم کی شخصیت ہی اس نام نہاد آزادی کی منافقت کا پردہ فاش کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ ٹولہ جیسے اس سیارے کی مخلوق ہی نہیں۔ زمین کے مسائل ، عوام کے حالات اور خطے کی صورتِ حال سے یہ مکمل طور پر لا علم اور لا تعلق نظر آتے ہیں۔ اس کی سب سے درست عکاسی انتخابات سے قبل حکمران پارٹی کی طرف سے پیش کیے گئے سو روزہ پروگرام میں ہوتی ہے جس میں ایک کروڑ نوکریوں سے لے کر دیگر مزید کئی مضحکہ خیز بڑھک بازیاں سننے کو ملیں۔ اور حلف اٹھانے سے پہلے ہی خود اس پروگرام کو لولی پاپ قرار دینا پڑا۔ اور ان انتخابات کے انعقاد کے دوران جو دھونس دھاندلی کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے وہ اس آزادی کے منہ پر زور دار طمانچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس ملک میں کوئی آزادی نہیں ہے۔ یہ واقعی ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ یہاں حکمران طبقے اور ریاستی مشینری کو عوام کا بہیمانہ استحصال کرنے ، مظلوم اقوام اور اقلیتوں پر بھیانک ترین جبر کرنے، مذہب کی تجارت کرنے، جھوٹ اور منافقت کی انتہا کرنے اور ضرورت پڑنے پر کسی کی بھی جان تک لے لینے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس حوالے سے تو شاید پاکستان کرۂ ارض کا سب سے زیادہ آزاد ملک ہے۔ لیکن مزدوروں، کسانوں اور آبادی کی اکثریت کو تعلیم حاصل کرنے ، علاج کروانے ، حکمرانوں سے سوال کرنے اور دیگر بنیادی انسانی حقوق سے استفادہ کرنے کی آزادی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حکمران طبقے کی آزادی ، عوام کی بربادی ہے۔ ان حکمرانوں کی پرتعیش زندگی کو دیکھ کر عرب کے شیوخ اور ان کے سامراجی آقا بھی شرماجائیں۔ کئی کئی کنالوں اور ایکڑوں کے محلوں میں رہنے والے یہ شہزادے جب ، جہاں اور جو چاہے حاصل کر لیتے ہیں اور عوام کے لیے پینے کے قابل صاف پانی کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 71 سالوں میں عوام کو پینے کا صاف پانی تک فراہم نہ کر سکنے والا حکمران طبقہ کس منہ سے عوام کو آزادی کا جشن منانے کی تلقین کرتا ہے۔ عوامی مسائل سے مکمل طور پر لاتعلق اور جھوٹ کا کاروبار کرنے والا کارپوریٹ میڈیا اب مہینے بھر ہر چینل پر ہر پانچ منٹ بعد آزادی آزادی کی تکرار کرتا ہوا اور چیختا، چلاتا ہوا نظر آئے گا۔ ان کو آزادی منانی بھی چاہیے کیونکہ ان کو رات کو دن اور دن کو رات قرار دے دینے کی بھی مکمل آزادی ہے۔ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی مگر مچھوں کی طرف سے ہر چینل پر اشتہاروں کی بھرمار ہو گی کہ ہماری طرف سے عوام کو جشنِ آزادی مبارک ہو۔ سیاسی ورکروں کے بھیس میں چھپے ٹھیکیداروں نے پہلے ہی سیوریج کے غلیظ پانی سے بھری گلیوں اور شاہراہوں پر بڑے بڑے پینا فلیکس اور سبز ہلالی جھنڈوں اور جھنڈیوں کے انبار لگا دیئے ہیں۔ عوام میں جو تھوڑا بہت جوش یا ولولہ ہوا کرتا تھا ، اس بار اس کی کہیں بھی جھلک دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ عوام مہنگائی ، غربت ، بیماری، لوڈ شیڈنگ اور بیروزگاری سے پہلے ہی اتنے نڈھال ہیں کہ وہ اس بے جان آزادی کا بوجھ سہار ہی نہیں سکتے۔ حکمران طبقے اور اس کے نمک حلال درمیانے طبقے کی مبینہ حب الوطنی کے شور شرابے سے بچ بچا کر اگر سماج کی حقیقی صورتحال پر سرسری سی بھی نظر ڈالی جائے توکسی بھی اعصابی طور پر مضبوط ترین اور جذباتی طور پر مستحکم شخص کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔
آزادی کی سالگرہ سے صرف تین روز قبل ہی ایک مقامی اخبار نے عالمی بینک کی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کی رو سے پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس نصف آبادی کی یومیہ آمدن 205 روپے سے بھی کم ہے ۔12.5 فیصد آبادی کی یومیہ آمدن ایک ڈالر 25 سینٹس سے بھی کم ہے۔ اس سے قبل بھی عالمی تحقیقاتی ادارے پاکستان کے بارے میں چشم کشا انکشافات کرتے رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھے شخص کو ذیابطیس کا عارضہ لاحق ہے۔ اور بہت بڑی تعداد کو تو پتہ بھی نہیں کہ وہ اس خطرناک ، خاموش قاتل کی جکڑ میں آ چکے ہیں۔ کل بچوں کی ایک تہائی سے زیادہ تعداد وزن کی کمی کا شکار ہیں۔ 44 فیصد سے زائد بچوں کی جسمانی نشوونما تعطل پذیری سے دوچار ہے۔ بہت بڑی تعداد کوغذائی قلت اور خون کی کمی کا سامناہے۔ 60 فیصد سے زیادہ ماؤں میں زنک اور دیگر لازمی عناصر کی شدید کمی ہے۔ لاکھوں خواتین سالانہ زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں ہر ایک سو میں سے 8 بچے تو پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گردوں کی فروخت کے بڑھتے ہوئے رجحان میں پاکستان دنیا میں چوتھے یا پانچویں نمبر پر ہے۔ 60 فیصد کے قریب بچے کبھی سکول جاتے ہی نہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں نوجوانوں کی خود کشیوں کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اخلاقی گراوٹ کا عالم یہ ہے کہ چار پانچ سال کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل جیسے دل دہلا دینے والے واقعات سماجی معمول کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہر دوسری عورت کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک کے کچھ علاقوں میں بچیوں کے سکول جلائے جانے کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح کے اقدامت کو جواز فراہم کرنے والے مذہبی جنونیوں کو کھلے عام اپنی سوچ کا پرچار کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ انفراسٹرکچر کی بوسیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہر سال ایک طرف تو گرمی سے سینکڑوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف سیلابوں میں لاکھوں لوگوں کو داخلی طور پر بے گھری اور ہجرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری طور پر 6 فیصد کے اعدادو شمار کے برعکس ایک غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق بیروزگاری 50 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ 70 فیصد کے لگ بھگ آبادی کو ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض کی شکایات ہیں۔ افراطِ زر کے باعث اشیائے خوردو نوش، ادویات،ٹرانسپورٹ اوردیگر بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جبکہ محنت کشوں کی حقیقی اجرتوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ فیکٹریوں اور کان کنی کے شعبے میں محنت کشوں کی ہلاکتوں کی خبریں آئے روز اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں اور بہت سے واقعات کو تو اخبارات میں بھی جگہ نہیں ملتی۔ اس دفعہ بھی جب سرکاری میڈیا جشنِ آزادی میں بدمست ہے تو بلوچستان میں درجن بھر مزدور ایک کان میں ہونے والے دھماکے کے بعد ملبے نیچے دبے ہوئے ہیں جن میں سے چند ایک کی لاشیں نکالی گئی ہیں اور باقی ابھی نکالی جا رہی ہیں۔ یہاں بیان کیا گیا کوئی ایک مسئلہ بھی حکومتی پارٹی سمیت کسی بھی پارٹی کے منشور یا ایجنڈے میں شامل نہیں۔ کیا مذکورہ بالا صورتحال بھڑکتے ہوئے دوزخ کی تصویر نہیں ہے۔ لوگ مکمل طور پر آزاد ہیں کہ وہ اس دوزخ سے بھر پور استفادہ حاصل کریں۔ درمیانے طبقے کے دانشوروں کو عوام سے شدید گلہ ہے کہ وہ مثبت سوچ نہیں رکھتے ، اگر وہ اچھا سوچیں گے تو سب اچھا ہو جائے گا۔ ان کو آزادی جیسی نعمت کی قدر کا اندازہ ہی نہیں ۔ اگر وہ بھوک اور نفرت کی آگ کے شعلوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے اپنے آزاد ہونے پر فخر محسوس کریں گے تو رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب ان عظیم دماغوں پر ہنسنا بنتا ہے یا رونا ، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس تمام تر سماجی ابتری کی بڑھتی ہوئی شدت کی بنیادیں دیوالیہ ہوتی ہوئی معیشت میں پیوست ہیں۔ ملکی معیشت کے قرضے 93 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اس حساب سے اس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کا مقروض ہوتا ہے۔ ہر گزرتے مہینے اور سال کے ساتھ قرض کی مقدار اورقرض لینے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی صورتحال رہی تو آئندہ چند سالوں تک کل بجٹ کا نصف سے بھی زائد ان قرضوں کے سود کی نذر ہو جایا کرے گا۔ ایک طرف تو اس سود کی ادائیگی کے لیے آئندہ بھی نئے قرضے لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اور دوسری طرف روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ ، جس کا ابھی محض آغاز ہوا ہے اور انجام نا قابلِ تصور حد تک پریشان کن بھی ہو سکتا ہے، کے باعث قرضوں کا یہ حجم کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بہت جلد پاکستان ان ادائیگیوں کے قابل ہی نہ رہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی کے علاوہ کوئی حل بھی نہیں اور یہی کاسہ لیسی اس تمام صورتحال کی اصل وجہ بھی ہے۔ یہ ایک بند گلی کی صورتحال ہے۔ چین اور سعودیہ کے اسلامی بینکوں سے ملنے والی قرضے کی مد میں خطیر رقم کے باوجود بہت جلد IMF کے آگے ہی گڑگڑانا ہو گا۔ اب کی بار اس سامراجی ادارے کی طرف سے لگنے والی ممکنہ شرائط اس آزادی کے ناٹک کو مکمل طور پر ایکسپوز کر دیں گے۔پاکستان معاشی طور پر آج 71 سال قبل سے بھی زیادہ غلام ہے۔ سر سے لے کر پیر تک مالیاتی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ’ہم زندہ قوم ہیں ‘ پر والہانہ رقص شرمناک بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔ معیشت کے باقی تمام اعشاریئے بھی تباہ کن منظر پیش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سی پیک کے معاہدے کی شکل میں جدید تاریخ کا سب سے بڑا غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا گیا ہے۔ حقیقت میں سارا ملک پلیٹ میں رکھ کر نئے آقاؤں کے دستر خوان پر سجا دیا گیا ہے۔ یہ سامراجی منصوبہ اس مرتی ہوئی معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔
بحیثیت ریاست چین کی طرف اتنا واضح اور واشگاف جھکاؤ سفارتی سطح پر نئے بحرانوں کا آغاز بن رہا ہے۔ اپنے جنم سے لے کر حالیہ سالوں تک پاکستان امریکی اور سعودی سامراج کی کالونی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرنے کے باعث امریکہ نے یہاں کے اشرافیہ پر خوب ڈالر نچھاور کیے۔ لیکن جہاں ان کی ڈالروں کی ہوس مسلسل بڑھتی چلی گئی، وہیں ان آقاؤں کی نوازنے کی گنجائش کم ہوتی رہی اور اس صورتحال نے اس گماشتہ ریاستی مشینری کو نئے آقا کی آ غوش میں پناہ لینے پر اکسایا۔ لیکن اب یہ ریاست چکی کے دو پاٹوں کی طرح نئے اور پرانے آقاؤں کے بیچ میں پس رہی ہے۔ خطے کی مجموعی صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور پراکسی جنگیں سطح پر نمودار ہو رہی ہیں۔ افغانستان کے سرحدی صوبے کے شہر غزنی میں گزشتہ دو دنوں سے ہونے والی خونی لڑائی صورتحال کی نزاکت کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے جس میں اب تک 200 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور ایک دفعہ پھر طالبان کنٹرول سنبھال رہے ہیں جنہیں یقینی طور پر امریکہ کی مخالف سامراجی قوتوں کی آشیرباد حاصل ہے ۔ ابھی حال ہی میں چینی سامراجیوں کے طالبان کے ساتھ درپردہ مذاکرات کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔ امریکی سامراج کے روایتی رقیب روس نے بھی اس خطے میں دوبارہ بڑے پیمانے کی مداخلت شروع کر دی ہے۔ امریکہ اس ساری صورتحال میں سرحد کے آر پار بڑے پیمانے کے ڈرون حملوں کی شکل میں جوابی کاروائی کر سکتا ہے۔ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن بارہا پیغام دے چکی ہے کہ امریکہ اس خطے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے یا مکمل انخلا کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ کسی بھی فوجی کاروائی سے زیادہ خطرناک حملہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر معاشی پابندیوں کی شکل میں ہو سکتا ہے جس کے بعد شاید پاکستان کوخانہ جنگی کے دوران افغانستان جیسی معاشی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔FATF کی جانب سے پابندیوں کے ذریعے اس سلسلے کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ اسی لیے چین کی جانب سے پاکستان کومشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات گہرے کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات استوار رکھے۔لیکن یہ توازن قائم رکھنا اب دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ کے اونچے سروں کے باوجود ریاستی اداروں کی تقسیم اور دراڑیں کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ یہ انتشار اور خلفشار اب سٹرکچرل اور نامیاتی کردار اپنا چکا ہے۔ امریکہ اور انڈیا کے ساتھ تعلقات ، بنیاد پرستوں کی افزائشِ نسل ، ایران اور سعودی عرب کے دو مختلف قطبین کی رسہ کشی اور دیگر بہت سے اہم ایشوز کے گرد حکمران طبقے میں واضح گروہ بندی موجود ہے۔ حتیٰ کہ فرقہ واراریت بھی ریاست کے تمام اداروں کی رگ و پے تک سرایت کر چکی ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ایک انتہائی دائیں بازو کے جج شوکت صدیقی کی طرف سے کھلم کھلا عسکری اداروں پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے اور کوئی اسکی تردید بھی نہیں کر رہا ۔عوام کی طرف سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کے بغیر بھی اس بار حکومت کی تشکیل ایک بہت بڑا چیلنج بن گئی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے ریاستی اداروں کی جکڑ بظاہر جتنی توانا نظر آتی ہے در حقیقت اتنی ہی لاغر ہوتی جا رہی ہے۔ عدلیہ کو حکومت کی مطلوبہ تشکیل کے لئے براہِ راست اور جانبدانہ فعال کردار ادا کرنا پڑا۔ آدھی کے قریب فوج کو انتخابات میں تعینات کرنا پڑا۔ اس کے باوجود بھی صورتحال یہ ہے کہ حکومت چلتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ مولانا فضل الرحمان جیسے پرانے ریاستی مہرے بھی اپنے آقاؤں کو للکار رہے ہیں۔ یہ کس نے سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ مولانا فضل الرحمان کی تقریر اور انٹرویو کو بھی بلیک آؤٹ کرنا پڑ جائے گا۔ یہ سیاسی عدم استحکام کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ تین دفعہ ریاستی اداروں کی آشیرباد سے بننے والا وزیرِ اعظم جیل میں ہے ۔ یہ سارا عدم استحکام ریاستی ٹوٹ پھوٹ کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔عمران خان جو ابھی لاڈلا ہے، بہت جلد باغی کا روپ دھار سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ اداروں کا تصادم جو ابھی کسی نہ کسی طرح ایک نازک توازن پر اپنے آپ کو برقرار رکھے ہوئے ہے بے قابو ہو کر خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طاقت کا توازن تبدیل ہونے کے باعث دوبارہ زرداری اور نواز شریف کے تجربے سے ہی استفادہ حاصل کرنا پڑ جائے۔ کچھ بھی کر لیں اس صورتحال میں بہتری کی گنجائش ناپید ہو چکی ہے۔
اس تمام تر معاشی ، سفارتی اور سیاسی عدم استحکام کا سارا ملبہ پھر ہمیشہ کی طرح محنت کش عوام پر ہی ڈالا جائے گا۔ بڑے پیمانے پر مختلف قسم کے نئے ٹیکس متعارف کروائے جائیں گے۔ 200 سرکاری اداروں کی نجکاری کا پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے۔ خانہ جنگیوں اور ریاستی اداروں کی کراس فائرنگ میں بھی عام شہری ہی لقمہ اجل بنیں گے۔ مگر اب عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے خاموشی اور جمود کا شکار روٹین بدل رہی ہے۔ریاست کے سب سے زیادہ وفادار اور اطاعت شعار قبائلیوں کی بغاوت ایک نئے عہد کا طبل بجا چکی ہے۔پنجاب کا معاشرہ بھی اپنی بنیادوں سے لرز رہا ہے۔یہ زلزلہ اب شعور کو جھنجھوڑے بغیر ختم ہونے والا نہیں ہے۔ بچیوں کے ریپ اور قتل پر ہونے والا سماجی ردِ عمل شعور کی اسی نئی کیفیت کا اظہار ہے ۔اصل میں لوگ غم و غصے کا اظہار کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے لگے ہیں سوال ان کی رہنمائی کا ہے ۔حکمران طبقہ عوام کے سامنے مکمل طور پر ایکسپوز ہو چکا ہے اور اس کے کسی بھی حصے اور ادارے پر عوام کا اعتماد نہیں۔اس صورتحال میں محنت کش اپنی قیادت ضرور تراشیں گے اورحکمران طبقے کی جارحیت کا جواب مزاحمت سے دیں گے۔ نجکاری سے لے کر امن و امان اور دیگر جمہوری مطالبات کے گرد وقتاً فوقتاً تحریکیں بھی ابھرتی رہیں گی۔ اگر وہ تحریکیں ایک دوسرے کے قریب آ گئیں تو ایک انقلابی صورتحال بھی جنم لے سکتی ہے۔ حقیقی آزادی کا سوال پھر سیاسی افق کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ فی الوقت این جی اوز زدہ ٹریڈ یونینیں نا قابلِ شناخت حد تک اپنے الٹ میں بدل جائیں گی اورمحنت کش طبقے کی ایک نئی اور تازہ دم قیادت کا ابھار ہو گا۔ طلبہ ماضی کی عظیم انقلابی روایات کو کہیں بلند پیمانے پر دہرائیں گے ۔اور اگر وہ کامیاب ہو گئے تو پھر ہو گا واقعی پرانے پاکستان کا خاتمہ اور نئی مزدور ریاست کا جنم ۔اس وقت ہی ہو گا حقیقی ، سچی آزادی کا جشن۔