ہندوستان کے خوانی بٹوارے کے 70سال بعد بھی گدھ نیم مردہ لاشوں کو نوچتے چلے جا رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ برطانوی سامراج کی مسلط کردہ تقسیم کے بعد برپا ہونے والے خونی مناظر آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہیں۔ اس وقت ہاتھوں میں برچھیاں اور خنجر لیے جنونی وحشیوں کے جتھے مذہب کے نام پر بے گناہوں کے گلے کاٹ رہے تھے اور عصمتیں لوٹ رہے تھے ۔چہرے پرشدید غصہ اور ہوس تھی ‘ماتھے پر تیوریاں اور منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور پورا بدن خون آلودتھا۔ 70سال بعد ان وحشی درندوں کے ہاتھوں میں جوہری ہتھیار ہیں جو اس برصغیر جنوبی ایشیا کی تہذیب کو مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خونی لکیر کے دونوں جانب حکمرانوں کے تیور وہی ہیں مگر ان کے ہاتھ اپنے ہی ملک کے محنت کشوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔خونی بٹوارے میں اگر 27لاکھ بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا اور لاکھوں عورتوں کی عصمت دری کی گئی تو اس کے بعد کے عرصے میں اس سے بھی بڑے پیمانے پریہ عمل جاری و ساری رہا۔
70سال قبل ایک مذہب کے ماننے والوں نے دوسروں کے ساتھ یہ سلوک کیا اور اس کے بعد کے عرصے میں ہم مذہب افراد نے ایک دوسرے کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا۔صرف گزشتہ چند سالوں میں اس مملکتِ خداداد میں اپنے ہی مذہب کے ماننے والوں کے خود کش حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس سے کئی زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔اس سے بھی زیادہ ظلم صنعتی اداروں میں کیا جاتا ہے جہاں فیکٹری حادثات میں سرمایہ داروں کی مجرمانہ غفلت کے باعث لاکھوں محنت کش زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔دیہاتوں میں جاگیردار، خان اور وڈیرے ہاریوں اور غریبوں سے بد ترین مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔اپنے مزارعوں پر کتے چھوڑنے سے لے کر زندہ درگور کر دینے کے واقعات اور غیرت کے نام پر قتل روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔اب تمام بڑے شہروں میں غلامی کی ایک نئی قسم لوٹ آئی ہے جس میں گھریلو ملازم کی شکل میں انتہائی کم عمر بچے اور بچیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ جب یہ ظلم انتہائیں پھلانگ کر کسی قتل کا باعث بنتا ہے تو چھوٹی سی خبر آ جاتی ہے لیکن لاکھوں محنت کش بچے روزانہ جس اذیت اور بربریت کامسلسل سامنا کرتے ہیں وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔یہ مظالم ڈھانے والے زیادہ تر درمیانے طبقے کے افراد ہیں جو اپنے محدود ذرائع آمدن کے باجود ان غلاموں کی خرید و فروخت کی سکت رکھتے ہیں۔اس سے ملک میں موجود غربت اور ذلت کی انتہا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ والدین غربت کی کتنی گہرائی میں رہتے ہوں گے جو اپنے ان پھول جیسے بچوں کو انتہائی کم قیمت پر وحشیانہ مظالم کی بھینٹ چڑھانے پر مجبور ہیں۔
نام نہاد آزادی کی ان سات دہائیوں نے یہاں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کے بڑے حصے کو محرومی، غربت اور ذلت کے سوا کچھ نہیں دیا۔صرف ایک چھوٹا سا اقلیتی طبقہ اس خونی بٹوارے سے فیض یاب ہوا ہے جس نے برطانیہ کے بعد امریکہ ، سعودی عرب اور دیگر ممالک میں اپنے آقاؤں کو تلاش کیا اور ہنسی خوشی ان کی غلامی کا طوق گلے میں پہن کر دم ہلاتا رہا۔آج بھی یہاں کے حکمران طبقات ان سامراجی آقاؤں کے غلام ہیں اور ان ہی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ ان ہی کے احکامات کے تحت یہاں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو سودی قرضوں کی زنجیریں پہنائی جا چکی ہیں اور آنے والی کئی نسلوں کو گروی رکھا جا چکا ہے۔آغاز سے لے کر انجام تک تمام حکمرانوں نے انہی سامراجی آقاؤ ں اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کو جاری رکھا ہے اور اس کے بدلے اپنے طبقے کے مفاد کی چند ہڈیاں حاصل کی ہیں۔
70سال پہلے جو جھوٹے خواب دکھائے گئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ بلکہ خود زندگی ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔ہر طرف بھوک ‘بیماری‘لا علاجی‘ جہالت اور ذلت ہے جبکہ کروڑوں محنت کشوں کے گھروں میں موت کا رقص جاری ہے۔ کہیں دوائی نہ ہونے کے باعث‘کہیں بھوک سے اور کہیں قدرتی آفت یا حادثے سے یہ محنت کش کیڑے مکوڑوں کی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں لیکن حکمران طبقات کی پرتعیش زندگیوں کا سفر جاری رہتا ہے۔ وہ نسل در نسل محنت کشوں کا خون نچوڑتے چلے جاتے ہیں ‘ان پر مظالم کی انتہا کر دیتے ہیں اور قانون،ریاست اور تمام ادارے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ اب ایک بغاوت دوبارہ پک کر تیار ہو رہی ہے۔سماج کی کوکھ میں ایک بہت بڑا طوفان پنپ رہا ہے جو محنت کشوں کے بہنے والے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لے گا۔حکمران طبقے کی سیاست‘ ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والی یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے اسی طوفان کے خوف سے لرز رہے ہیں۔محنت کشوں کے غم و غصے اور تحریکوں کو زائل کرنے کے لیے یہ حکمران مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔اکثر ان کے لیڈروں کو خرید لیا جاتا ہے یا پھر خوف اور دہشت کا ایسا بازار گرم کیا جاتا ہے کہ تحریکوں کو ابھرنے سے پہلے ہی کچل دیا جائے۔ تمام تر ذرائع ابلاغ، نصابی کتب اور دیگر ذرائع سے سرمایہ داروں کی حاکمیت کو ازلی اور ابدی ثابت کیا جاتا ہے اور ان کی باہمی لوٹ مار کی لڑائیوں کو اہم ترین بنا کر پیش کیا جاتاہے۔ جبکہ سماج میں جاری سب سے اہم لڑائی، امیر اور غریب کی لڑائی، ظالم اور مظلوم کی لڑائی، سرمایہ داراور مزدور کی لڑائی کو غیر اہم بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ جب مائیں غربت کے باعث بچوں کو قتل کرنے پر مجبور ہوں اس وقت عدالتوں میں جاری دو وکیلوں کی اپنے لیڈر نما مؤکلوں کے لیے بے معنی اور منافقانہ تکرار کی جانب تمام تر توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ان تکراروں سے پیٹ نہیں بھرتا‘ بیماری کی تکلیف میں کمی نہیں ہوتی‘گرمی اور حبس کی اذیت ختم نہیں ہوتی بلکہ غصے اور نفرت میں مزید شدت آتی ہے۔
یہی غصہ اور نفرت مجتمع ہوتے ہوئے ایک دہکتا اور ابلتا ہوا لاوا بن جاتا ہے جواب آتش فشاں کے دہانے کے قریب پہنچتا جا رہا ہے۔ لیکن اب کی بار جو طوفان ابھرنے والا ہے اس کی شدت ماضی میں ابھرنے والے تمام تر طوفانوں سے کہیں زیادہ ہو گی۔جتنا محنت کشوں کا خون اس دھرتی پر بہایا گیا ہے وہ ایک سیلاب کی مانند یہاں کے حکمران طبقات کی تمام فصیلوں اور اداروں کو بہا لے جانے کی سکت رکھتا ہے۔جب یہ طوفان ابھرے گا تو اس خونی لکیر اور اس کے گرد ہونے والے قومی ناٹک کا بھی انت کرے گا جس کے ذریعے یہاں کے محنت کشوں کو نسل در نسل محکوم بنایا گیاہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ اس طوفان کو درست سمت دینے کے لیے مزدور طبقے کے نظریات پر ایک انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے جو سیاسی افق پر مسلط اس وقت موجود تمام پارٹیوں کو چیرتے ہوئے یہاں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک سرخ سویرے کو روشن کرے اور سات دہائیوں سے جاری ان رِستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھے۔