|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں گزشتہ شب سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے ڈیزل لانے والا ایک ڈرائیور ہلاک ہو گیا۔ اس واقعہ کے خلاف ضلع چاغی کے اکثر علاقوں میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کیے جارہے ہیں۔ دالبندین میں مظاہرین نے آر سی ڈی شاہراہ بند کرکے ریلوے ٹریک پر بھی احتجاج کیا جس کے نتیجے میں ریلوے سروس معطل ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ شب ڈرائیور کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرین پر فورسز کی فائرنگ سے مزید 8 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پرنس فہد ہسپتال دالبندین میں موجود زخمیوں نے بتایا کہ دو سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے ان پر اندھادھند فائرنگ کی۔ اس موقع پر ان افراد پر بھی گولیاں چلائی گئیں جو احتجاج میں شامل نہیں تھے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں ڈیزل اور پٹرول کے کاروبار سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا روزگار منسلک ہے، اور اس میں چھوٹی سطح پر کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جوکہ انتہائی سخت ترین حالات میں اپنے گھر کا چھولہا جلانے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ کل شب پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے سرحدی علاقوں میں کاروبار کرنے والے چھوٹے گاڑی ڈرائیوروں کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں نے ویران سرحدی علاقے میں 200 کے قریب گاڑیوں کے ریڈیئٹرز میں ریت ڈال کر بیٹریاں اتار دیں اور ڈرائیوروں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ان کا مزید کہنا تھا کہ چھ گھنٹے پیدل سفر کرنے کے بعد جا کر کوئی گاڑی ملی جس نے نوکنڈی پہنچایا۔ وہاں سرحد پر اس گرمی میں چار افراد بھوک و پیاس کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گئے۔
#چاغی_بلوچستان
— Red Workers Front (@rwf1917) April 15, 2022
بلوچستان کے ضلع چاغی سے متصل پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے جن لوگوں کے گاڑیوں کو ناکارہ بناکر انھیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ان میں کم از کم تین افراد پیاس اور بھوک کی شدت کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔
1/2 pic.twitter.com/Bnnm8G1dAk
سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں زخمیوں کو لانے کے لیے موقع پر صرف ایک ایمبولینس دستیاب تھی جس کی وجہ سے اکثر زخمیوں کو پرائیویٹ گاڑیوں میں دالبندین اور کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ خیال رہے کہ نوکنڈی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا آبائی علاقہ ہے جہاں ہنگامی حالات میں انسانی جانوں کو بچانے کے لیے صرف ایک رورل ہیلتھ کیئر سنٹر موجودہے جس میں طبی سہولیات، ڈاکٹروں اور دیگر عملے کا شدید فقدان ہے۔ جبکہ دالبندین ہسپتال میں بھی آپریشن کی سہولت نہ ہونے کے سبب زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ آج ریاستی اداروں کی جانب سے لوگوں کا نہ صرف روزگار چھینا جارہا ہے، بلکہ اُنہیں انتہائی سفاکی کے ساتھ قتل بھی کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں سمیت بڑے شہروں میں بھی صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ نوکنڈی میں پیش آنے والے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے میں ہلاک و زخمی ہونے والے محنت کشوں کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو فی الفور گرفتار کرکے قانونی کاروائی کرتے ہوئے اُنہیں کڑی سزا دی جائے۔ بصورتِ دیگر بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں اس واقعے کے خلاف شدید احتجاج کیا جائیگا۔ اس کے علاوہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بارڈر پر ہونے والی تجارت کو حکومتی سرپرستی میں لے کر لوگوں کے روزگار کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ عبوری طور پر ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بارڈر پر ہونے والے چھوٹی سطح کے روزگار سے منسلک محنت کشوں کے روزگار کو قانونی قرار دیا جائے تا کہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے لوٹ مار کا سلسلہ بند ہوسکے۔ بڑی سطح پر سمگلنگ کرنے والے تو ہر وقت آزاد ہوتے ہیں، جن کو انہی سیکورٹی اداروں کی چیک پوسٹوں پر پروٹوکول دیا جاتا ہے اور انہی اداروں کی سرپرستی میں وہ ہرقسم کی غیر اخلاقی کاروباری سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں۔ جبکہ غریب محنت کش ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں آبادی کا بہت بڑا حصہ غیر رسمی شعبے سے منسلک ہے جو افغانستان اور ایران سے ملحقہ سرحد کے ذریعے جاری ہے۔
ان تمام کاروباری سرگرمیوں کو صوبے کے غریب محنت کش عوام سے چھیننے اور چند سرمایہ داروں کی جھولیوں میں دینے کے حوالے سے ریاستی اداروں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان کے محنت کشوں اور بالخصوص ان بے روزگار نوجوانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے، جو آئے روز ڈگریوں کے انبار کو گلے میں ڈال کر بے روزگاری کی منڈی میں داخل ہورہے ہیں۔ ان کے پاس بارڈر ٹریڈ سے منسلک غیر رسمی معیشت کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ لہٰذا ریاست اول تو فی الفور روزگار کے مواقع پیدا کرے، اور دوم بارڈر پر جاری تجارت میں بدمعاشی کے ساتھ غریبوں سے بھتہ لے کر اور انہیں ذلیل و رسوا کر کے ان کے منہ سے نوالہ نہ چھینے۔