|تحریر: یاسر ارشاد|
نام نہاد آزاد کشمیر میں دس ماہ سے جاری عوامی تحریک 5 فروری کی شاندار ہڑتال کے ساتھ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ 5 فروری کی ہڑتال دو حوالوں سے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی ہے۔ اول یہ کہ تاریخی طور پر 5 فروری پاکستان اور نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمرانوں کا بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ ایک منافقانہ یوم یکجہتی کا دن ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے چند ہفتے قبل جب 5 فروری کے دن ایک روزہ پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی تھی اس کے ساتھ ہی حکمرانوں اور ان کے گماشتوں نے اس ہڑتال کی کال کو جواز بنا کر دس ماہ سے جاری اس عوامی تحریک کو ہی بیرونی ایجنڈا ثابت کرنے کے لیے انتہائی غلیظ پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی تھی۔ مذہبی انتہا پسندوں اور سبھی پارلیمانی پارٹیوں نے ریاستی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کھلم کھلا عوام کو دھمکانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ 5 فروری کی ہڑتال کی حمایت کرنے والوں پر غدار، بیرونی ایجنٹ اور اسی جیسے دیگر گھناؤنے الزامات لگائے گئے۔
اس تمام تر مہم کا اصل مقصد درحقیقت جھوٹے الزامات اور بہتان تراشی کے ذریعے عوامی تحریک میں پھوٹ ڈالنااور عوام کو تحریک سے دور کرنا تھا۔ لیکن حکمرانوں اور ان کے گماشتوں کی تمام تر غلیظ مہم کے جواب میں تمام علاقائی عوامی ایکشن کمیٹیوں نے اپنے اجلاس منعقد کرتے ہوئے 5 فروری کی ہڑتال کو کشمیر کی تاریخ کی سب سے کامیاب ہڑتال بنانے کا اعلان کیا اور عوام نے پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس ہڑتال کی تیاریوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔
عوام نے حکومت کے منافقانہ یوم یکجہتی کے موقف اور تمام الزامات کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ یہ حکمران اگر ہمیں سستی بجلی اور روٹی نہیں دے سکتے تو یہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کس قسم کی یکجہتی کرنا چاہتے ہیں؟
عوامی رد عمل سے خوفزدہ ہو کر حکمرانوں نے اس ہڑتال کو روکنے کے لیے ایک دوسرا حربہ اپنایا اور 4 فروری کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دے دی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اکثریتی کمزور اور مصلحت پسند حصوں کے دباؤ میں حکومت کے ساتھ 4 فروری کو مذاکرات کیے گئے جن میں رات گئے عوامی ایکشن کمیٹی کے دس میں سے نو مطالبات پر جلد عملدرآمد کا ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے 5 فروری کو پہیہ جام ہڑتال کی کال واپس لینے کا اعلان کیا گیا۔ نوٹیفکیشن کی کاپی سوشل میڈیا پر مشتہر کی گئی جس نے نہ صرف حکومت کے خلاف بلکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کمزوریوں کے خلاف بھی غم و غصے کو مزید بھڑکا دیا۔
درحقیقت چار ماہ کے مذاکراتی عمل کے دوران بارہا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومتی وعدہ خلافیوں کے خلاف جرات مندانہ جدوجہد کرنے کی بجائے ضرورت سے زیادہ مصالحانہ رویے کا مظاہرہ کیا تھا اسی لیے اس نوٹیفکیشن کو عوام نے رد کرتے ہوئے پانچ فروری کو لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے پہیہ جام ہڑتال کی کال واپس لینے کے باوجود عوام نے زیادہ تر علاقوں میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کے ساتھ ہزاروں کے جلوس اور ریلیاں منعقد کیں۔
اس عوامی تحریک کے درحقیقت آٹے پر سبسڈی کی بحالی اور مفت بجلی کی فراہمی جیسے دو بنیادی مطالبات ہیں جن کے لیے کشمیر کے عوام گزشتہ دس ماہ سے مسلسل چوکوں اور چوراہوں میں سراپا احتجاج ہیں۔ 4 فروری کے مذاکرات میں طے پانے والے معائدے میں بجلی کے حوالے سے کچھ بھی طے نہیں پا سکا جبکہ آٹے پر ٹارگٹڈ سبسڈی دینے پر اتفاق ہوا۔ عوام نے ٹارگٹڈ سبسڈی کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے 5 فروری کی احتجاجی ریلیوں میں سب سے زیادہ جو نعرہ لگایا وہ یہ تھا،”ٹارگٹڈ سبسڈی نا منظور“!
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جس واحد مطالبے کی منظوری کو اپنی کامیابی بنا کر پیش کر سکتی تھی عوام نے اس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اس پر کمیٹی کی مذمت اور سرزنش کر دی۔ یوں 5 فروری کی ہڑتال نے ایک جانب حکمرانوں کے ”یوم یکجہتی“ کے منافقانہ ناٹک کو مکمل طور پر مسترد کیا اور دوسری جانب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کال واپس لیے جانے کے باوجود ایک زبردست ہڑتال کی اور اس ہڑتال کے دوران کمیٹی کے ساتھ حکومتی معائدے کو بھی مسترد کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ عوام اس تحریک کی نہ صرف قوت محرکہ ہیں بلکہ شعوری طور پر تحریک کی قیادت پر بھی اپنا اجتماعی کنٹرول حاصل کرنے کی جانب بڑھ چکے ہیں۔
اسی حوالے سے 5 فروری کی ہڑتال کی اہمیت اس سے قبل ہونے والی تمام ہڑتالوں سے مختلف اور منفرد ہے۔ یہ ہڑتال دس ماہ سے جاری عملی جدوجہد کے دوران عوامی شعور میں ہونے والی معیاری تبدیلیوں کی عکاس ہے۔ اس سے قبل بھی چند مواقع ایسے آئے جن میں یہ دکھائی دے رہا تھا کہ کمیٹی کے اراکین عوام سے پیچھے کھڑے ہیں لیکن اس ہڑتال نے مکمل صفائی کے ساتھ یہ دکھا دیا کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین عوام کے لڑاکا موڈ کی ترجمانی اور عکاسی نہیں کرتے۔
تحریک اور قیادت
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی تحریک کی قیادت پر بائیں بازو کی جانب سے ہمیشہ ہی یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ حادثاتی قیادت ہے اسی لیے یہ تحریکوں کی ناکامی کا باعث بنتی ہے۔ اگر ہم مارکسی سائنس کی انتہائی بنیادی تعلیمات کی بنیاد پر اس نوع کے مظاہر کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں جدلیات کے دو عظیم اساتذہ، ہیگل اور اینگلز کے دو اقوال کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہیگل نے کہا تھا کہ ”ضرورت اپنا اظہار حادثات کی شکل میں کرتی ہے“ جبکہ اینگلز نے اسی بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بیان کیا تھا کہ ”ہر حادثہ لمبے عرصے سے چلی آنی والی گہری تاریخی ضرورت کا نتیجہ ہوتا ہے“۔
کسی بھی تحریک کی قیادت کو حادثاتی کہہ دینا سماج میں جاری معروضی اور موضوعی عوامل کے باہمی تعلق اور ربط کو نظر انداز کرتے ہوئے تاریخی عوامل کی تشریح کو مابعدالطبعیاتی بنا دینے کے مترادف ہے۔ ہر تحریک کے کسی خاص مرحلے پر ایسے عناصر کا ابھار جن کے کردار کو،طویل دورانیے پر مشتمل پورے انقلابی عمل کے دوران، ان کے مقابلے میں زیادہ ریڈیکل قیادت کے ابھار کے حوالے سے حادثاتی قرار دیا جاتا ہے، اس کی نوعیت نسبتی ہوتی ہے۔ اس تجزیے کی بنیاد معروضی عوامل کے ایسے موضوعی سائنسی ادراک کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں کسی بھی تحریک کی بڑھوتری اور ترقی کے تمام تاریخی مراحل اور ناگزیر منطقی انجام کے لیے درکار معیارات کو سامنے رکھا گیا ہو۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک جب ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو پرانی قیادت کو کلی یا جزوی طور پر تبدیل کر کے نئے مرحلے کے تقاضوں سے ہم آہنگ قیادت کو سامنے لے آتی ہے جس کے مقابلے میں پچھلے مرحلے سے ہم آہنگ قیادت کا کردار نسبتی طور پر حادثاتی بن جاتا ہے اور یہ عمل انقلابی تحریک کے اپنے انتہائی مقام تک پہنچنے تک جاری رہتا ہے جس کے دوران نہایت تیزی کے ساتھ قیادتوں کی تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ لیکن، ہیگل کی زبان میں کہا جائے توہر مرحلے پر سامنے آنے والی قیادت حادثاتی ہونے کے باوجود بڑھوتری کے اس تمام تر نامیاتی عمل کا ناگزیر حصہ بھی ہوتی ہے اور ہر مرحلے پر حادثاتی ہی اس وقت تک حقیقی قیادت رہتی ہے جب تک کہ تحریک کی بڑھوتری اور موضوعی عناصر کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں کوئی دوسرا اس سے زیادہ ریڈیکل عنصر اس کی جگہ نہیں لے لیتا۔
مختلف خطوں کی انقلابی تحریکوں کی تاریخ کے اسباق یہی ہیں کہ جہاں ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی موجودگی اور کردار، مختلف افراد یا پارٹیوں کے کردار کو اپنے تعلق کے حوالے سے حادثاتی بنا دیتا ہے وہیں ایسی پارٹی کی عدم موجودگی انہی حادثاتی افراد یا پارٹیوں کو ہی حقیقی قیادت بنا دیتی ہے۔ اس حوالے سے یہ ضروری ہے کہ بڑھوتری اور ترقی کے عمل سے گزرتی ہوئی ایک زندہ اور حقیقی تحریک پر بالشویک انقلاب کی تاریخ سے رٹے رٹائے فقرے فتوے کی طرح مسلط کرنے کی بجائے آنکھوں کے سامنے جاری زندہ سماج کے تاریخی و نامیاتی عمل کو اس کی زندگی کی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس میں مداخلت کے ذریعے اس کی مزید بڑھوتری میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔
قیادت کے حادثاتی کرداروں کی وضاحت پر مبنی تجزیہ کسی انقلابی عمل کی پوری تاریخ کی وضاحت کے حوالے سے نہایت معاون ہوتا ہے لیکن کسی جاری تحریک کے ایک حقیقی مرحلے پر قیادت کی کمزوریوں اور طرزعمل کی وضاحت کے لیے اس قسم کا مجرد تجزیہ ٹھوس صورتحال کی وضاحت کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس حوالے سے مارکس وادیوں کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی زندہ و جاری تحریک اور اس کی قیادت کی کمزوریوں اور خا میوں پر مجرد فارمولوں کا اطلاق کرنے کی بجائے پورے عمل کے ہر ٹھوس و حقیقی مرحلے کی تاریخی و مادی وضاحت کرنے کی کوشش کریں۔ اس قسم کا تجزیہ نہ صرف کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں اس وقت جاری عوامی تحریکوں کے ارتقائی عمل اور بڑھوتری کے تمام مراحل کی درست سمجھ بوجھ فراہم کرے گا بلکہ ان تحریکوں کے نئے مراحل کا درست سائنسی تناظر تخلیق کرنے کے ساتھ مستقبل میں ابھرنے والی تحریکوں کے حوالے سے بھی درست سمجھ بوجھ فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔
کشمیر میں جاری موجودہ تحریک اور اس کی قیادت کے باہمی تعلق میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے میں ناکام افراد کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ تحریکوں اور ان کی قیادتوں کے تعلق کو یا تو کتابی فارمولوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کے تجزیے کی بنیاد مابعد الطبعیاتی طرز فکر ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی صورت میں سامنے آنے والی قیادت معروضی طور پر ہر علاقے میں اس تحریک کے ابتدائی مراحل میں ایک متحرک اور جرات مندانہ کردار ادا کرنے والے افرادمیں سے ہی سامنے آئی ہے۔ یہ قیادت خود عوامی شعور میں بیداری کے ایک ابتدائی مرحلے سے کافی حد تک ہم آہنگ تھی۔ لیکن گزشتہ دس ماہ کے دوران تحریک میں عملی اور متحرک شمولیت اور قیادت کے حکومت کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل کے تجربات و اسباق خود عوامی شعور یا عوام کی متحرک اور ہر اول پرتوں کے شعور میں جن تبدیلیوں اور ترقی کا موجب بنے ہیں ان کا اظہار قیادت کے ساتھ عدم مطابقت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
5 فروری کی ہڑتال نے مکمل صفائی کے ساتھ یہ دکھا دیا ہے کہ دس ماہ کے سیاسی عمل نے عوام کے شعور کو زیادہ گہرا، وسیع اور زیرک بنا دیا ہے جبکہ دوسری جانب قیادت اپنے شعور اور عوام کے ساتھ تعلق کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ قیادت ماضی کے زیر اثر ہے اور ابھی تک یہ سمجھتی ہے کہ عوام بغیر کچھ سوچے سمجھے ان کی کال پر احتجاجوں اور ہڑتالوں میں شمولیت اختیار کرتے رہیں گے اور جب قیادت چاہے گی تو عوام خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں گے۔ اس کے برعکس عوام سیاسی عمل میں سرگرمی سے شمولیت اختیار کرتے ہوئے مسلسل نتائج اخذ کررہے تھے اور انہوں نے ماضی کی طرح تحریک کی حکمت عملی اور دیگر امور کو کلی طور پر قیادت کے سپرد کرنے کی بجائے اب ان پر نہ صرف نظر رکھنا شروع کر دی ہے بلکہ قیادت کی غلطیوں اور کمزوریوں کے خلاف کھل کر احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔ قیادت کے زیادہ تر حصے عوام کے شعور میں رونما والی تبدیلی کے عمل سے ناواقف ہیں اسی لیے وہ عوام کی امنگوں کی درست ترجمانی کرنے کے قابل نہیں رہے اور ان کی یہ نا اہلی عوام کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔ یہی قیادت چند ماہ قبل تک عوام کی خواہشات کی نمائندہ تھی لیکن اب عوام کے ذہنوں میں ان کے حوالے سے بے شمار شکوک و شبہات اور بد اعتمادی جنم لے چکی ہے۔ قیادت اور تحریک کی عدم مطابقت ایک مختلف انداز میں اس نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی سوچ اور نظام، دونوں کی تاریخی نا اہلی کا بھی اظہار کر رہی ہے۔ قیادت کی مصالحت پسندی میں اس نظام کی مسائل کو حل کرنے کی تاریخی نا اہلیت اور قیادت کی اپنی فکری و سیاسی فرسودگی کا عکس دکھائی دے رہا ہے جبکہ دوسری جانب عوام کی بغاوت اس نظام کی تنگ حدود کو پھاڑ کر باہر نکلنے اور نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت کا اعلان کر رہی ہے۔ یہ تضاد مسائل سے نجات پانے کی حقیقی جدوجہد کے عمل کی ترقی و بڑھوتری کے ذریعے ہی حل ہو گا۔
یہ درحقیقت تحریک کی حقیقی بڑھوتری کا نتیجہ ہے کہ عوام کا شعور زیادہ جرات مند اور ناقدانہ ہوتا جا رہا ہے۔ تمام باشعور سیاسی کارکنان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس عمل کو تیز تر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن اس میں چند بنیادی چیزوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ سب سے اول یہ کہ قیادت کی سبھی کمزوریوں پر بے رحمانہ مگر دوستانہ تنقید کی جائے لیکن اس میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ تنقید کا یہ عمل تحریک میں کسی پھوٹ کا باعث نہ بنے یعنی عوامی جڑت کو برقرار رکھتے ہوئے قیادت کی کمزوریوں اور غلطیوں کی نشاندہی کی جائے اور انہیں دور کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھایا جائے۔ کمیٹی کی کمزوریوں کو جواز بنا کر فرقہ پرور گروہوں کی تحریک پر اپنی اپنی گروہی قیادت مسلط کرنے کی ہر کوشش کے خلاف نا قابل مصالحت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف دائیں بازو اور حکمرانوں کے گماشتے اس تاک میں ہیں کہ قیادت اور عوام کے درمیان کسی قسم کی پھوٹ پیدا کرتے ہوئے تحریک پر اپنی قیادت مسلط کی بجائے بلکہ اسی قسم کے عزائم رکھنے والے بے شمار فرقہ پرور تحریک کے پہلو میں بھی موجود ہیں جو کچھ ناکام کوششیں کرنے کے بعد کسی حد تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک ڈھکے چھپے الفاظ میں قیادت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے پورے جوش و خروش کے ساتھ تحریک میں حصہ لیتے ہوئے اس کو منظم و متحد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس کے بعد تحریک کی قیادت کی غلطیوں اور کمزوریوں پر کھل کر مگر دوستانہ تنقید کی جانی چاہیے۔
تحریک میں ابھی تک قیادت کے چناؤ کا عمل جمہوری بنیادوں پر نہیں ہوا اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اب علاقائی کمیٹیوں کو زیادہ منظم کرنے کی کوشش کی جائے اور ان کمیٹیوں میں باقاعدہ جمہوری عمل کے ذریعے قیادت کا انتخاب کیا جائے۔ ہر سطح پر جمہوری عمل کے ذریعے کمیٹیوں کے اراکین کا چناؤ کرتے ہوئے ہی ان اراکین کو عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جا سکتا ہے۔ فرقہ پرستوں کی تمام تر نظر محض سب سے بالا کمیٹی پر ہے اور وہ تحریک کو منظم کرنے میں کوئی کردار ادا کیے بغیر محض بالائی کمیٹی کے ممبران کی کمزوریوں اور خامیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خود اس کمیٹی یعنی قیادت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان فرقہ پرستوں کی طرح ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ موجودہ کمیٹی کے ممبران کو ہٹا کر ان کی جگہ نئے ممبران (یعنی ان فرقہ پرستوں) کو اسی طرح غیر جمہوری انداز میں لایا جائے بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر سطح پر کمیٹیوں کی تشکیل کرتے ہوئے ان کے اندر سے جمہوری طور پر منتخب ممبران کے ذریعے ہر سطح کی کمیٹیوں کی قیادت کا انتخاب کیا جائے۔ہر کمیٹی کے اراکین عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اور بالائی کمیٹی کے ممبران اس بات کے پابند ہوں کہ حکومت کے ساتھ کسی بھی معائدے کو حتمی شکل دینے سے قبل اسے عوام کے سامنے پیش کر کے عوام سے رائے اور منظوری لینے کے بعد حتمی فیصلے کیے جائیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تحریک کے اگلے مراحل اور اقدامات کے حوالے سے بھی تجاویز کو عوام کے سامنے رکھا جائے اور اجتماعی عوامی مشاورت کے ذریعے مکمل جمہوری انداز میں تحریک کو آگے بڑھانے کے اقدامات کا فیصلہ کیا جائے۔
ٹارگٹڈ سبسڈی کا سوال اور کمیٹی کے اختیارات
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے ٹارگٹڈ سبسڈی کے حصول کو کامیابی قرار دیا جا رہا ہے لیکن درحقیقت یہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی درحقیقت آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے کی پالیسی ہے۔ پاکستان سمیت اس کے تمام زیر کنٹرول و زیر قبضہ علاقوں میں آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت سبسڈی کو ختم کر کے ٹارگٹڈ سبسڈی کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت نے بھی سبسڈی کا خاتمہ کرکے ٹارگٹڈ سبسڈی کی پالیسی لاگو کرنے کی کوشش کی جس کے خلاف جی بی کے عوام نے ایک انتہائی شاندار اور جرات مندانہ تحریک چلائی اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا کہ وہ سبسڈی کو بحال کرے۔ جی بی کے عوام نے سبسڈی کی بحالی کی جرات مندانہ جدوجہد کی اور ایک زبردست کامیابی حاصل کی جس کے لیے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں اور ہمیں بھی ان کی جدوجہد سے سیکھنے اور رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت پاکستان کے حکمران طبقات اور سامراجی آقا ؤں کی وحشیانہ لوٹ مار نے اس ملک کے وسیع تر عوام کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں غربت اور بیروزگاری سے تنگ غریب عوام کی خودکشیاں ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ لیکن اس تمام بربادی کے باوجود حکمرانوں اور سامراجی آقاؤں کی لوٹ مار کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور اسی لوٹ مار کو مزید بڑھانے کے لیے جو دو چار بنیادی ضروریات پر تھوڑی بہت سبسڈی محنت کشوں کو ملتی تھی اس کو بھی ٹارگٹڈ سبسڈی کے نام پر ختم کیا جا رہا ہے۔
ٹارگٹڈ سبسڈی درحقیقت آئی ایم ایف کی بھیک دینے کی ایک پالیسی ہے اور اس پالیسی اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے خیراتی پروگرام میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اس لیے کمیٹی کے ارکین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ٹارگٹڈ سبسڈی عوامی تحریک کی فتح نہیں ہے بلکہ عوامی تحریک کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق کیا ہے حکومت نے جسے کمیٹی اپنی فتح بنا کر پیش کرنی کی کوشش کرتے ہوئے حکومت کے اس جرم میں برابر کی شریک بن گئی ہے۔
ٹارگٹڈ سبسڈی کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد پہلے اس بدعنوان ریاست کے سامنے یہ ثابت کرے کہ وہ غریب و نادار ہے اور اسے حکومتی بھیک دی جائے۔ جس طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لائنوں میں چند ہزار روپے کے لیے غریب عوام اور خواتین کی تذلیل کی جاتی ہے اسی طرح کی تذلیل آٹے کی ٹارگٹڈ سبسڈی کی لائنوں میں کی جائے گی۔ اسی بنیاد پر ہم ٹارگٹڈ سبسڈی کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ پہلے ہی کشمیر میں حکمران اور فلور مل مالکان گندم کی خریداری، ٹرانسپورٹ اور پسوائی پر سبسڈی کے نام پر اربوں روپے کی بدعنوانی میں مصروف ہیں۔ ٹارگٹڈ سبسڈی کے نام پر یہ حکمران مزید اربوں روپے بٹورنے کے درپے ہیں جبکہ دوسری جانب غریب عوام کو ان کے ایک جائز حق سے محروم کر کے ان کو بھیک کے چند ٹکڑے دینے کے لیے ذلیل و رسوا کرنے کا راستہ اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دوسری جانب آٹے پر سبسڈی کی بحالی کا مطالبہ کشمیر کے متنازعہ خطہ ہونے کے باعث عالمی قوانین کے تحت تسلیم شدہ ہے اور اس وقت ہماری جدوجہد اسی تسلیم شدہ حق کی بنیاد پر دی جانے والی سبسڈی (جو پہلے دی جاتی تھی اور چند سال پہلے ختم کر دی گئی تھی) کی بحالی کے لیے ہے اور وہ آٹے سمیت تمام اشیائے خورد نوش کی سبسڈی کی بحالی کی جدوجہد ہے نہ کہ آبادی کے غریب و نادار حصوں کے لیے سبسڈی کا حصول۔
اس حوالے سے کمیٹی کے اراکین کو عوامی تحریک کے مطالبات کی حقیقی نوعیت کا اداراک کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی ضرورت ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو اپنی اس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور عوامی امنگوں کے مطابق نہ صرف آٹے بلکہ تمام اشیائے خوردونوش پر سبسڈی کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
یہاں پر بنیادی سوال کمیٹی کے اختیارات کا بھی ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اراکین نے غلط طور پر یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ وہ عوام کے مسیحا ہیں اور حکمرانوں سے عوام کے لیے کچھ حاصل کر لیں گے تو یہ ان کا عوام پر احسان ہو گا۔ حقیقت اس کے برعکس اور یہ ہے کہ عوام نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو بنیادی مطالبات پر جاری تحریک کے حوالے سے کچھ احتجاجی امور طے کرنے، احتجاجوں کا شیڈول جاری کرنے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے جو ان سے کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کمیٹی کے ممبران کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریک کے وارث ”عوام“ سے مشاورت کے بعد ہی حکومت کے ساتھ اپنے امور کو حتمی شکل دیں دوسری صورت میں کمیٹی ممبران کو 5 فروری سے کئی گنا بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تحریک کا مستقبل
گزشتہ دس ماہ کے دوران ہر فیصلہ کن مرحلے پر عوام کی سرگرم شمولیت اور مداخلت نے نہ صرف تحریک کو آگے بڑھایا بلکہ ریاستی طاقت اور جبر کو شکست فاش دیتے ہوئے حکمرانوں کو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات چیت کرنے پر مجبور کیا۔ عوام کی مداخلت ہی وہ فیصلہ کن عنصر ہے جس نے اس تحریک کا ابھی تک زندہ و توانا رکھا ہوا ہے۔ حکمرانوں نے پہلے جبر اور پھر طویل مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر تحریک کو تھکانے اور عوام کو مایوس و بد ظن کرکے تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن حکمرانوں کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ تحریک تمام تر ابتدائی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اب جس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے وہاں پر تحریک کو ریاستی حملوں سے توڑا نہیں جا سکتا بلکہ ہر نیا ریاستی حملہ تحریک کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرے گا۔ دوسری جانب اب تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار قیادت کی سیاسی بصیرت، جدوجہد کو آگے بڑھانے کے فن سے واقفیت اور سب سے بڑھ کر تحریک کو اگلے مرحلے کی جانب لے جانے کی جرات پر ہے۔
عمومی طور پر کشمیر جیسے خطوں میں عوامی تحریکیں احتجاجوں، پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں اور دھرنوں جیسے طریقہ کار سے آگے بڑھائی جاتی ہیں۔ دس ماہ کے دوران نصف درجن سے زائد انتہائی کامیاب ایک روزہ پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتالیں کی جا چکی ہیں اور 5 فروری کو قیادت کی پسپائی کے باوجود ہونے والی کامیاب ہڑتال اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ عوام اب اس سے اگلے اقدامات کی جانب بڑھنے کو بیتاب ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کون سا اگلا اقدام ہو سکتا ہے؟ لیکن اگلے اقدامات کی جانب بڑھنے سے قبل تحریک میں موجود خامیوں اور کمزوریوں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
تحریک کی یوں تو ہر علاقے میں الگ نوعیت کی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں لیکن بعض کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو دور کرنا تحریک کے اگلے مرحلے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ کشمیر کی اس جاری تحریک کے دوران جن علاقوں سے کچھ کمزوریاں ظاہر ہوئی ہیں ان میں مظفرآباد پہلے نمبر پر آتا ہے۔ مظفر آباد میں تحریک کے ساتھ عوامی ہمدردیاں اور عوام کی تحریک میں شمولیت کے حوالے سے کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ مظفرآباد میں تحریک کو منظم کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹیوں کی عدم موجودگی تحریک کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ نچلی سطح پر ان کمیٹیوں کی عدم موجودگی کے باعث چند متحرک افراد کا حد سے زیادہ بڑا کردار اس علاقے کی تحریک میں سب سے بڑی خامی بن چکی ہے۔ اس وجہ سے اس ڈویژن سے کمیٹی کے بعض ممبران کا رویہ مکمل طور پر مصالحت پسندانہ ہے۔ اس کی عملی مثالیں موجود ہیں کہ 21 دسمبر کے احتجاجی پروگرام سے قبل بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اس احتجاج کی کال واپس لے لی گئی تھی جبکہ بعدازاں تیس رکنی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں احتجاج کی کال واپس لینے کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے احتجاج منظم کرنے کی کال برقرار رکھی۔ کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں بھرپور احتجاج ہوئے لیکن مظفرآباد میں کوئی پروگرام نہیں کیا گیا۔ اسی طرح 5 فروری کو کشمیر کے ہر علاقے میں ہزاروں کے اجتماعات کیے گئے لیکن مظفرآباد میں چند درجن افراد نے ایک چھوٹا سا احتجاج کیا۔
مظفر آباد میں یہ کمزوریاں کھل کر سامنے آئی ہیں لیکن اس کا ہر گز مطلب نہیں ہے کہ کمزوریاں صرف مظفرآباد میں ہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسی سے ملتی جلتی کمزوریاں دیگر کچھ علاقوں میں بھی موجود ہیں جبکہ عمومی طور پر ہر علاقے میں مختلف نوعیت کی کمزوریاں اور خامیاں موجود ہیں جن کو سامنے لاتے ہوئے دور کرنے کی کوشش کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
جن علاقوں میں ہزاروں لوگ مسلسل احتجاجوں اور ہڑتالوں میں سرگرم شمولیت اختیار کرتے ہیں تو اس کی واحد وجہ ان علاقوں میں دیہاتوں کی سطح پر متحرک و منظم عوامی ایکشن کمیٹیوں کی موجودگی اور ان کا کردار ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مظفرآباد سمیت ہر علاقے میں نچلی سطح پر علاقائی کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے آگے بڑھنے کی حکمت عملی بنائی جائے۔ انہی مقامی جمہوری طور پر منتخب کمیٹیوں کے ذریعے موجودہ مصالحت پسند قیادت کو تبدیل کرتے ہوئے یا ان کو عوامی کمیٹیوں کے نظم و ضبط کا پابند بناتے ہوئے تحریک کے اگلے مراحل کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔
دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ تا حال عوامی ایکشن کمیٹیاں اپنے علاقوں میں محنت کشوں کی یونینز اور ایسو سی ایشنز کے ساتھ کسی بھی قسم کا ربط قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کو اپنی منظم تنظیمیں تعمیر کرنے کے ساتھ محنت کشوں کی تنظیموں کے ساتھ ایک عملی اور حقیقی جڑت بنانے کی جانب بڑھنا پڑے گا تا کہ محنت کشوں کے چند عمومی مطالبات کو شامل کرتے ہوئے ایک عمومی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے اور ایک عام ہڑتال کی تیاری کی جائے۔ کشمیر کی سطح کی ایک عام ہڑتال ہی پورے نظام کو مکمل طور پر بند کر سکتی ہے اور اسی طاقت کے ذریعے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ محنت کشوں کی تنظیموں کی شمولیت کے بغیر ایک عام ہڑتال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اس لیے ہر علاقے کی عوامی ایکشن کمیٹیوں کو محنت کشوں کے ساتھ جڑت بنانے کے حوالے سے فوری طور پر عملی کاوشوں کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ خدمات اور دیگر شعبوں کو چلانے والے محنت کشوں کی اس تحریک میں شمولیت تحریک کی کامیابی کے لیے سب سے ضروری اور فیصلہ کن اقدام ہے۔ منظم محنت کشوں کی اس تحریک میں عملی شمولیت تو دور کی بات ہے ان کی محض یکجہتی اور حمایت ہی حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا کر رکھ دے گی۔
کشمیر کی سطح پر تحریک کو منظم و متحد کرتے ہوئے ہی ہم گلگت بلتستان سمیت دیگر علاقوں کے عوام اور محنت کشوں کے ساتھ عملی جڑت بنانے کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ کشمیر ہو یا گلگت کسی بھی علاقے کی تحریک اپنے تئیں محض کچھ جزوی کامیابیاں ہی حاصل کر سکتی ہے۔ ان علاقائی سطح کی جزوی کامیابیوں کی اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ کامیابیاں وہ سنگ بنیاد ثابت ہوں گی جن پر ان خطوں کے محنت کش عوام کی حقیقی نجات ممکن ہو پائے گی لیکن دوسری جانب ہمیں خود کو محض ان چھوٹی چھوٹی کامیابیوں تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ ہمارے عہد کا اصل سوال یہی ہے کہ اگر کسی خطے کے عوام کو کوئی جزوی کامیابی ملتی بھی ہے تو اس کے ذریعے محنت کش عوام کی زندگیوں میں کوئی آسانی پیدا نہیں ہو تی چونکہ اس نظام کا بحران جیتی ہوئی حاصلات کو جلد ہی واپس چھین لیتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی لڑائی کو ان چھوٹی چھوٹی حاصلات کی عملی جدوجہد کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی انقلابی لڑائی میں ڈھالنا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریک کو عملی طور پر منظم کرنے کے ساتھ پوری تحریک کو سیاسی بحث و مباحثے کے ذریعے شعوری طور پر بھی بلند معیار کی جانب لے جانے کی جدوجہد کی جائے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران اور اس کے اثرات کے تمام پہلوؤں پر بحث و مباحثے کے ساتھ ریاست کے تاریخی کردار اور محنت کشوں کے ساتھ اس کے تعلق، دولت کی پیداوار اور اس کی تقسیم کی سرمایہ دارانہ طرز، دولت کے تمام ذرائع کو اجتماعی ملکیت میں لینے کی ناگزیر تاریخی ضرورت، سرمایہ دارانہ اور مزدور جمہوریت میں فرق سمیت تمام اہم نظریاتی اور سیاسی پہلوؤں پر بحث و مباحثے کو فروغ دیا جائے۔ گلگت بلتستان اور بلوچستان سمیت دنیا بھر میں ابھرنے والی محنت کشوں اور عوام کی جدوجہدوں کو زیر بحث لایا جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ بحث و مباحثہ کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام کو بجلی سمیت تعلیم، علاج اور دیگر سہولیات کس طرح مفت فراہم کی جا سکتی ہیں اور اس کے لیے کس قسم کی جدوجہد کرنے اور کون سی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ قابض اور سامراجی ریاست کی غلامی سے کس طرح آزادی حاصل کی جا سکتی ہے اور آج کے حالات میں آزادی کی اس جدوجہد کو کن بنیادوں پر منظم کرنا ضروری ہے۔
انہی تمام تر سوالات پر سیاسی و نظریاتی مباحثوں کے ذریعے ہم پوری تحریک کے سیاسی معیار کو اس قدر بلند کر سکتے ہیں جہاں تحریک شخصیات کے رحم و کرم پر نہیں رہے گی بلکہ باشعور عوام اور محنت کش اپنی اجتماعی قیادت کو سامنے لاتے ہوئے ایک انقلابی نظریے اور پروگرام کی بنیاد پر منظم ہو کر غلامی کی ہر زنجیر کو توڑ ڈالیں گے۔ پھر سوال ایک یا دوسری سہولت کے حصول کا نہیں رہے گا بلکہ تمام وسائل کو اجتماعی ملکیت اور کنٹرول میں لیتے ہوئے اس خطے کے عوام اور محنت کش ہر قسم کی غلامی، استحصال، محرومی اور تفریق کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک حقیقی انسانی معاشرے کی تعمیر کا آغاز کر سکیں گے۔
محنت کش عوام زندہ باد!
عوامی ایکشن کمیٹی زندہ باد!