|تحریر: راشد خالد|
آج سے 45سال قبل اس وقت کے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) نے موجودہ تاریخ کا بدترین قتل عام دیکھا۔ 69-1968ء میں ایک انقلابی تحریک کے نتیجے میں ایوب آمریت کا خاتمہ ہوا لیکن عنان اقتدار ایک اور خونخوار جنرل یحی خان کے سپرد کر دی گئی۔ اس نے تحریک کو کچلنے کے لیے بد ترین مظالم کیے لیکن جب تحریک کوختم کرنے میں ناکام رہا تو ملک کے پہلے عام انتخابات کا اعلا ن کیا گیا۔ سرمایہ داری کی ناکامی کو آمریت کی ناکامی قرار دے کر جمہوریت کے ناٹک ذریعے سرمایہ داری کو رواں دواں رکھنے کا بندو بست کیا گیا جس میں عوام کے غم و غصے کو انتخابات کے ڈھونگ کے ذریعے تحلیل کیا جا سکے۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس دھوکہ بازی کو قبول کیا۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان میں سٹالنسٹ قیادت کی تحریک سے غداری کے باعث قوم پرست مجیب الرحمٰن تحریک کو قومی بنیادوں پر زائل کرنے کی کوشش کر رہا تھااور ان انتخابات کے ذریعے اسے ابھرنے کا موقع ملا۔
ان انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان نے واضح اکثریت حاصل کی لیکن اسے اقتدار سونپنے کی بجائے مغربی پاکستان کی جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان ہتھکنڈوں سے طبقاتی بنیادوں پر ابھرنے والی انقلابی تحریک کو قومی بنیادوں پر زائل کرنے کی راہ مزید ہموار ہوئی۔ پاکستان کا حکمران طبقہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے قدیم فارمولے پر عمل پیرا ہو کر اپنی حکمرانی کو بچانے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ ایک جانب مشرقی پاکستان میں بد ترین فوجی آپریشن کیا جا رہا تھا جس کے ذریعے جماعت اسلامی کے دہشت گردوں کی مدد سے طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کرنے والی بائیں بازو کی مختلف قوتوں کو بے رحمی سے کچلا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب قومی تعصب کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق1971ء میں 9ماہ کی مدت میں تقریباً 20لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا گیا جبکہ 3لاکھ خواتین پاکستانی فوج کے جنسی جبر کا شکار ہوئیں۔ لیکن ان تمام تر مظالم کے باوجود پاکستانی فوج مشرقی پاکستان پر اپنا تسلط قائم نہیں رکھ پا رہی تھی۔ جبکہ یہ تحریک ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال میں بھی پھیل رہی تھی جہاں سے پورے ہندوستان میں اس کے پھیلنے کے امکانات بڑے پیمانے پر موجود تھے۔ اس وقت دنیا میں سوویت روس اور کمیونسٹ چین بھی تحریکوں کے لیے بغاوت کے ایک استعارے کے طور پر موجود تھے جبکہ ویت نام سے لے کر چلی تک عوامی تحریکیں مضبوط ہورہی تھیں۔ اسی باعث ہندوستان کی ریاست مشرقی پاکستان میں جاری اس عوامی بغاوت سے خوفزدہ ہو چکی تھی اور اسے کسی بھی طریقے سے ختم کرنا چاہتی تھی۔ اسی خطرے سے بچنے کے لیے آخر کار ہندوستانی افواج نے عالمی سامراجی طاقتوں کی پس پردہ حمایت سے پاکستانی افواج کو بنگلہ دیش کے عوام کے غیض و غضب اور شرمناک شکست سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور 90ہزار فوجیوں کو اپنی زیر نگرانی ہندوستان کی سرحدوں میں محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ جس دوستانہ انداز میں جنرل نیازی نے ہندوستانی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اسی شام ایک پر رونق محفل میں خوش گپیاں لگائی گئیں وہ اس باہمی اتفاق رائے کا ثبوت ہے۔ حتیٰ کہ اس تاریخی موقع پر دونوں افواج کے درمیان ایک کرکٹ میچ کے انعقاد کی بھی تیاری کی جار ہی تھی جسے عین وقت پر سیاسی مداخلت کے باعث کینسل کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہندوستانی افواج مدد نہ کرتیں تو پاکستانی فوج کی شکست ایک بغاوت کے ذریعے ہونی تھی جس کے شعلوں نے پورے خطے میں سرمایہ داری کو جلا ڈالنا تھا۔
سقوطِ ڈھاکہ کے حقائق پر پاکستان میں ہمیشہ ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں بھی مخصوص ریاستی مؤقف کے ذریعے اسے محض قومی آزادی کی جنگ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس میں مجیب الرحمٰن کے کردار کو مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس جانب پاکستان میں فوج کے سفاکانہ کردار کی بھی ہمیشہ پردہ پوشی کی جاتی ہے تا کہ اس نام نہاد مقدس ادارے کی آبرو پر آنچ نہ آ سکے۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ آج تک یہ نہیں جان سکے کہ اس دوران بنگال میں کیا ہوا۔ یہاں کی تاریخ کی کتابوں میں یک طرفہ ریاستی نکتہ نظر اور نصابی کتابوں میں انتہائی بھونڈے انداز میں من گھڑت کہانی پیش کی جاتی ہے، جس سے کبھی بھی حقائق کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ حقائق پر مبنی کوئی بھی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آنے دی گئی۔ حکومت پاکستان کے اپنے ہی بنائے گئے حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ تک کو منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا۔ اس کے کچھ حصے تاخیر کے ساتھ شائع ضرور ہوئے مگر یہ مکمل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود یہ مشرقی پاکستان میں ریاستی جبر کا ایک دھندلا سا عکس ضرور پیش کرتے ہیں۔ پاکستانی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران تقریباً 26ہزار اموات ہوئیں اور 20لاکھ لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ لیکن یہ حقیقت سے بہت کم ہے۔ آکسفورڈ کے ایک تاریخ دان کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50ہزار سے 1لاکھ کے درمیان تھی۔ جبکہ تاریخ دان آرجے رومل کے مطابق ’’ اس قتل عام میں یہ تعداد 3لاکھ سے 30لاکھ تک کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن اندازاً یہ 15لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ ‘‘پاکستانی حکمرانوں کے مشرقی پاکستان کی طرف رویے کا اندازہ اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل یحییٰ خان کے 22فروری1971ء کے اس ریکارڈ بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ان میں سے30لاکھ کو قتل کرو، اور باقی ہمارے تلوے چاٹیں گے۔ ‘‘ قتل عام تو ہوا لیکن بنگالی عوام نے پاکستانی حکمرانوں اور فوج کے تلوے چاٹنے سے انکار کر دیا۔ اور بالآخرپاکستان کی فوج کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی تعداد میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اس قتل عام اور بلادکار میں پاک فوج کے شانہ بشانہ جماعت اسلامی کے قاتل گروہ ’الشمس‘ اور ’البدر‘ بھی پیش پیش رہے ہیں۔ لیکن آج تک اس قتل عام اور بلادکار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکی۔ اس سلسلے میں 2008ء میں بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل تشکیل دیا گیا لیکن ابتدائی طور پر یہ ٹربیونل کچھ بھی نہیں کر سکا۔ 2013ء میں اس نے چند ایک افراد کو سزا دینے کا عمل شروع کیا جس میں جماعت اسلامی کے راہنما بھی شامل ہیں۔ ابھی تک چھ افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ یہ تمام لوگ اور ان کے بہت سے ساتھی براہ راست اس قتل عام میں ملوث تھے اور جنسی زیادتیوں کا شکار خواتین نے بھی ان کیخلاف عدالت میں گواہی دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود شیخ حسینہ کی یہ تمام تر کاروائی مذہبی بنیادی پرستی کو ختم کرنے کی بجائے مزید اکسانے کا باعث بن رہی ہے۔ آج بنگلہ دیش میں دنیا کی بدترین غربت موجود ہے جبکہ سرمایہ دار محنت کشوں کا بد ترین استحصال کر رہے ہیں۔ ایسے میں عوام کے غم و غصے اور نفرت کوکم کرنے اور سلگتے ہوئے حقیقی مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کے لیے مذہبی بنیادی پرستی کا بھوت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 71ء کے قتل عام اور جنسی زیادتیوں میں ملوث افراد یقیناً ایسی ہی سزا کے حقدار ہیں جو دی جا رہی ہیں لیکن ساتھ ہی بنگلہ دیش پر مسلط موجود حکمران طبقے کے دیگر افرادبھی ایسی ہی سزاؤں کے مستحق ہیں۔ فیکٹری حادثات میں قتل ہونے والے مزدوروں اور غربت، بیروزگاری اور قدرتی آفات میں مرنے والے عوام کے قاتل بھی یہی حکمران ہے۔ ان تمام کو سزا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی دی جا سکتی ہے۔ مذہبی بنیادی پرستی کی پسپائی کا شکار قوتوں کو دوبارہ ایندھن فراہم کرنے کے علاوہ ان مقدمات کی آڑ میں شیخ حسینہ قومی تعصبات کو بھی دوبارہ مسلط کر رہی ہے اور اپنی حکمرانی کو طوالت دینے کے لیے ایک دفعہ پھر 71ء کی قومی آزادی کی جنگ کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ اس لیے آج پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ 71ء کے واقعات کے اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے اور ان پر درست مارکسی تجزیہ پیش کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش قومی سوال کے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ناقابل حل ہونے کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
پاکستان تو پہلے ہی آزاد تھا، مشرقی بنگال بھی آزاد ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ لیکن ان 45سالوں میں کیا تبدیل ہوا؟ بنگلہ دیش کے عوام پاکستان کے ریاستی جبر اور فوج کے وحشیانہ مظالم سے آزاد تو ہو گئے، ایک پہچان تو مل گئی لیکن اس آزادی سے کس نے کیا کھویا اور کس نے کیا پایا؟ بنگلہ دیش میں آج بھی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 32فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ 5سال سے کم عمر42فیصد بچے جسمانی طور پر نامکمل پن(Stunted Growth) کا شکار ہیں، یعنی یہ بچے کبھی ایک مکمل انسان نہیں بن سکیں گے۔ 45سال بعد بھی محنت کشوں کی زندگیاں کسی طور سہل نہیں ہو سکیں۔ صنعتی حادثات بنگلہ دیش میں معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔ بالخصوص ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری نے بنگلہ دیش میں محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ اپریل 2013ء میں رانا پلازہ کا سانحہ بنگلہ دیش کی تاریخ کا بدترین صنعتی سانحہ تھا اور 1984ء میں بھوپال سانحے کے بعد سے دنیا کا بدترین۔ اس سانحے میں 1300سے زائد محنت کش فیکٹری کی عمارت میں آتشزدگی سے ہلاک ہو گئے تھے جبکہ اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی سالانہ سینکڑوں مزدور صنعتی حادثات میں اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں گارمنٹس ایکسپورٹ کرنے والے اس اہم ملک کے کئی محنت کش کام کام کرتے کرتے تھکاوٹ کے باعث ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
یہ کہانی ’آزاد پاکستان‘ سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہاں بھی زندگی گزارنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جہاں آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرہی ہے۔ تقریباً 80فیصد آبادی آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ محنت کشوں کے لئے کسی قسم کے قوانین نہیں ہیں اور اگر ہیں تو ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔ صنعتی حادثات یہاں بھی ایک معمول ہیں۔ اسی سال یکم نومبر کو سانحہ گڈانی میں سینکڑوں مزدور جل کر خاکستر ہو گئے لیکن اس کے باوجود حکمران طبقہ اس بارے میں بات تک نہیں کر رہا۔ اس سے قبل بھی لاہور کی سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں ایک عمارت کے منہدم ہونے سے تین سو سے زائد محنت کش جاں بحق ہو گئے تھے جب کہ کراچی میں بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آگ لگنے سے سینکڑوں مزدور جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستانی ریاست کا کردار نہ تو کل مختلف تھا اور نہ ہی آج تبدیل ہوا ہے۔ دو قومی نظریہ جو ہر نئی نسل کے دماغوں میں زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے، اس کا خاتمہ تو بنگلہ دیش بننے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا لیکن آج بھی یہ ریاست اسی نظریئے کے تحت پاکستان میں بسنے والی مختلف قومیتوں کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلوچستان میں جو عمل بار بار دہرایا جا رہا ہے وہ کسی بھی طور مشرقی بنگال میں کیے گئے جرائم سے کم نہیں۔ یہ ریاست ہر لمحے اپنے سامراجی اور استبدادی مقاصد کے حصول کے لئے انسانی زندگیوں کی ہولی کھیلتی ہے جبکہ اس ظلم کیخلاف ابھرنے والی حقیقی آوازوں کو دبادیا جاتا ہے۔ محنت کشوں کے جلسے جلوسوں اور احتجاجوں پر ایک غیر اعلانیہ پابندی ہے، اسی سال پی آئی اے کے محنت کشوں کے احتجاج پر گولی چلائے جانے کا واقعہ اس کا بین ثبوت ہے۔
سو کہانی ہر طرف ایک ہی ہے۔ کرداروں کے نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کردار ایک سے ہیں۔ قومی اور مذہبی بنیادوں پر آزاد ہونے والے ان ممالک میں طبقاتی استحصال ختم نہیں ہو سکا اور جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے یہ جاری رہے گا۔ اس تقسیم سے اگر کسی نے کچھ پایا ہے تو یہاں کا حکمران طبقہ ہے۔ جس نے یہاں کے کروڑوں محنت کشوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلتے ہوئے لوٹ مار کی انتہا کر دی ہے۔ ا س سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے میں اکثریتی انسانوں کی زندگیوں میں بہتری کا کوئی امکان موجود نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی امرا کی دولت اور حکمرانوں کی حکومت کو تحفظ دینے پر ہے۔ اور یہ تب ہی ہو سکتا جب محنت کشوں کی محنت کا استحصال کیا جائے۔ لیکن یہ عمل ہمیشہ چل نہیں سکتا۔ اس خطے میں محنت کشوں کا غصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ عوام اس نظام کے خلاف نفرت کا اظہار مختلف سطحوں پر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں آئے روز کسی نہ کسی ادارے میں احتجاج کا عمل چلتا نظر آتا ہے۔ بنگلہ دیش میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف نفرت کا اظہار مختلف اوقات میں احتجاجوں کی صورت میں ہو رہا ہے۔ طلبہ کی نفرت بھی مختلف تحریکوں میں ابل کر سامنے آ رہی ہے۔ ہندوستان میں بھی حال ہی میں ستمبر میں تاریخ کی سب سے بڑی ملک گیر عام ہڑتال دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ کشمیر میں نوجوانوں کی ایک انقلابی سرکشی پانچ ماہ سے جاری ہے اور ہندوستانی افواج کے بد ترین مظالم کے باوجود ختم نہیں ہو پارہی۔ آج پوری دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے جو انقلابات، رد انقلابات، جنگوں اور خانہ جنگیوں کا عہد ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ 1971ء کے واقعات سے درست اسباق حاصل کیے جائیں۔ قومی آزادی کی تحریکیں اگر سرمایہ داری کی حدود میں مقید ہو جائیں اور سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے لگیں تو ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح سٹالنسٹ قیادتوں کے مرحلہ وار انقلاب کے نظریے کی ناکامی اور ان کی غداریوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے بھی انہی واقعات سے آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جبکہ مغربی پاکستان میں اصلاح پسند قیادتوں کے بر سر اقتدار آنے کا نتیجہ بھی عوام بھگت چکے ہیں۔ ایسے میں آگے بڑھنے کا واحد رستہ ایک طبقاتی جڑت ہے جو رنگ، نسل، زبان، قوم، مذہب اور دیگر تمام تفریقوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کی جانب بڑھے۔ آج اشد ضرورت ہے کہ انہی بنیادوں پر ایک تنظیم تعمیر کی جائے جو قومی سرحدوں میں مقید ہونے کی بجائے محنت کش طبقے کی عالمگیر جڑت کے نعرے کو اپناتے ہوئے انہیں ایک لڑی میں پروئے۔ خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال اور عالمی سرمایہ داری کا بحران اس سماج کو دوبارہ ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرے گا جہاں بربریت اور سوشلزم میں سے ایک ممکن ہو گا۔ اگر درست نظریاتی بنیادوں پر ایک ایسی ایک قوت موجود ہوتی ہے تو یہ نسل اس خطے میں دوبارہ ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے ملنے والے مواقع کو ضائع نہیں کرے گی بلکہ اسے شرمندۂ تعبیر کر کے پورے جنوبی ایشیا سے ظلم اور جبر کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے گی۔