|تحریر: رزاق غورزنگ|
”انقلاب ”جنگ“ کی وہ واحد شکل ہے جس میں حتمی جیت شکستوں کے لمبے سلسلے کے بعد ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک انقلابی جدوجہد وں کی بات ہے، تو سوشلزم کا پورا سفر ہی بدترین شکستوں سے لبریز ہے۔ مگر اس کے ساتھ تاریخ دھیرے دھیرے ناگزیر طور پر حتمی جیت کی جانب بھی بڑھ رہی ہے! جن شکستوں کے ذریعے ہم قیمتی نتائج کی صورت میں تاریخی تجربہ حاصل کرتے ہیں، ہمت اور جذباتی قوت حاصل کرتے ہیں، ان کے بغیر آج ہم کہاں کھڑے ہوتے؟ آج جبکہ ہم پرولتاریہ کی طبقاتی جنگ کے آخری معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں، ماضی کی یہی ناکامیاں ہماری رہنمائی کر رہی ہیں؛ اور ان میں سے ہر ایک اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وہ ہماری قوت اور سمجھ میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
مگر ناکامیوں کی وجوہات کو جاننا لازمی ہے۔ کیا ناکامی کی وجہ ناسازگار تاریخی حالات کی رکاوٹ تھی جس سے عوام کی آگے بڑھنے کی لڑاکا توانائی ماند پڑ گئی، یا اس کی وجہ فیصلہ لینے میں ہچکچاہٹ، تذبذب اور اندرونی کمزوریاں تھیں جس نے انقلابی تحرک کو اپاہج بنا دیا؟“ (روزا لکسمبرگ)
اس سال افغان ثور انقلاب کی 44 ویں سالگرہ کو اس خطے کی انقلابی تاریخ میں ایک افتخار اور عظمت کے طور پرہم ایسے وقت میں منانے جارہے ہیں جہاں پر امریکی سامراج کی شکست اور ذلت آمیز انخلاء کے بعدطالبان کے خون آشام اقتدار کی سنگینوں میں افغانستان کی مظلوم عوام معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی محاذ پر تاریخ کی مشکل ترین آزمائش سے گزرہی ہے۔ بھوک، ننگ اور استبداد سے نڈھال افغان مہاجرین کا سیلاب ہے جو ایران، پاکستان اور یورپ کی طرف انتہائی پرپیج اور خطرناک راستوں سے جارہاہے لیکن خطے کی یہ ہمسایہ سامراجی ریاستیں ان بے بس مہاجرین پر ظلم کے ایسے پہاڑ توڑ رہی ہیں جسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت برسر اقتدار مذہبی جنونی ٹولہ کسی بھی مخالف سیاسی آواز اور احتجاج کو دبانے کیلئے ہر قسم کے متشدد طریقہ کار استعمال کررہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آج سے 43 سال پہلے برپا ہونے والے انقلاب کو منانے اوریاد کرنے کا کیا فائدہ جس کا منطقی انجام نہ صرف ناکامی پر منتج ہوا بلکہ افغان انقلاب پر ردانقلابی قوتوں نے غلبہ پاکر افغان سماج کوپتھر کے زمانے میں دھکیل دیا۔ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آج تو افغانستان کی معروضی صورتحال بہت تبدیل ہوچکی ہے توہمیں ایک ایسے انقلاب کو یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے جو خود کو کامیابی سے قائم نہ رکھ سکا؟ افغانستان کے پچھلے چالیس سالہ تاریخ کے پس منظر میں اگر اس سوال کو دیکھا جائے تو یہ سوال بظاہر معقول لگتاہے لیکن تاریخ کو محنت کش عوام کے نقطہ نظر سے دیکھنے اور طبقات پر مبنی معاشرے اور اس میں ظالم و مظلوم کی نامیاتی کشمکش کے سامنے یہ معقولیت تضادات کا شکارہوجاتی ہے۔
ہزاروں سال پر مشتمل انسانی تاریخ ظالم و مظلوم، آقا و غلام، جاگیردار و کسان، سرمایہ دار و مزدور اور سامراج و محکوم اقوام کے درمیان خون ریز معرکوں سے بھری پڑی ہے جس میں کبھی بالادست طبقے جیت جاتے ہیں اور کبھی محکوم طبقے جیت کر نیا سماج تشکیل کردیتے ہیں۔ محنت کشوں اور کچلے ہوئے طبقات کی انقلابی سرکشیوں سے بھرپور یہ تاریخ ان کی قیمتی متاع ہے۔ یہ انقلابی تاریخ ان کی یادداشت ہوتی ہے اور اس یادداشت میں یہ تاریخی تجربات وہ رہنما ریفرنس ہوتے ہیں جن سے اسباق اور رہنمائی لے کر یہ محکوم و مقہور عوام اپنی غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ شعوری طور پرہمت و جرات سے سرشار ہوکر اپنے آپ کو دوبارہ دریافت کرتے ہیں اور انقلابی کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ اس خطے کی انقلابی تاریخ میں آزادی اور سامراج کے خلاف لڑنے والے سب سے ریڈیکل رجحانات کو ہم اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ اس جدوجہد کے تاریخی کرداروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد سے زندہ اسباق حاصل کرکے مستقبل کی جدوجہد کیلئے صف بندی کرتے ہیں۔
برصغیر میں انگریز سامراج کے خلاف کامریڈ بھگت سنگھ کی جدوجہد اور انقلاب کے نعروں سے پھانسی کو گلے لگاناہو یا پشتونخوا میں سامراج کے خلاف سرخ پوشوں کی مزاحمت اور کسانوں کی بغاوتیں ہوں، ایوبی آمریت اور اس کے قومی و طبقاتی استحصال کے خلاف ڈھاکہ سے لے کر کراچی تک طالب علموں، محنت کشوں، کسانوں اور مظلوم قومیتوں کی سرکشی ہو یا سندھ کی گلیوں اور چوراہوں میں ضیاء الباطل کی بنیاد پرست آمریت کے خلاف استقامت اور مزاحمت کا نقارہ ہو، بلوچستان میں ریاست کی سامراجی قبضے کے خلاف ترقی پسند نظریات پر قومی آزادی کی جدوجہد ہو یا سابقہ فاٹا اور پشتون علاقوں سے عسکری ستم و استبداد کے خلاف نوجوانوں کی دلیرانہ جدوجہد ہو، یہ ہماری اس خطے کی پچھلی صدی کی وہ مزاحمتی میراث ہے جس کو سنجیدگی سے مطالعہ کرکے وہ علم کشیدکیا جاسکتا ہے جس کی بنیاد پر مستقبل کا لائحہ عمل استوار کر کے محنت کشوں و محکوموں کی متحدہ جدوجہد کے ذریعے اس ظالمانہ سماجی اور معاشی بندوبست کو ختم کیا جاسکتاہے۔
افغان ثور انقلاب اوراس کی انقلابی قیادت، اور یہ انقلاب برپا کرنے والی خلق پارٹی کے خلاف پچھلے چار عشروں سے سامراجی اور مقامی ردِ انقلابی قوتوں نے اتنا شدید پراپیگنڈا کیا تاکہ اس پورے انقلابی عمل کو ایک المیے کے طور پر پیش کیا جا سکے اور افغانستان کی تمام تر بربادی کی ذمہ داری اس انقلاب اور اس کی انقلابی قیادت پر ڈال دی جائے۔ بے پناہ وسائل استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ جریدوں، اخبارات اور کارپوریٹ میڈیا میں زرخرید دانشوروں اور صحافیوں کے ذریعے مسلسل حقائق کو مسخ کرکے اور تاریخ کا قتل عام کرتے ہوئے عوام کے شعور پر جھوٹ ٹھونسا گیا۔ افغانستان کے نوخیز انقلاب کے خلاف عالمی سامراج اور پٹرو ڈالر جہاد کی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن اور رد انقلابی جنگ کو اس پورے پراپیگنڈے میں چھپایا گیا اور ان کو”مقدس جنگ“ کے نام پر پیش کیا گیا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 27 اپریل 1978ء کو خلق پارٹی سے جڑے انقلابی افغان فوجی افسران نے 6 سے 7 گھنٹے میں اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی قیادت کو جیلوں سے رہا کرکے منصب پر بٹھایا۔ انقلابی فوجی افسروں کی یہ سرکشی اور اقتدار پر قبضہ بہت پرامن تھا اور اسے کابل سمیت بہت سے دوسرے شہروں سے عوامی حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے اس میں انتہائی کم جانی نقصان ہوا تھا اور محض 7 لوگ مارے گئے تھے۔ نور محمد ترکئی کی قیادت میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد خلق پارٹی نے افغانستان کی تاریخ میں انتہائی جرات کے ساتھ سب سے ریڈیکل اصلاحات کیے تاکہ افغانستان کو ہر قسم کی پسماندگی اور بربریت سے نکال کر جدید، خوشحال اور ترقی کی راہ پر گامزن معاشرہ بنایا جاسکے۔ پہلی بار خواتین کو افغان معاشرے میں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرکے ان کے تمام حقوق کو تسلیم کیا گیا۔ لاکھوں بے زمین کسانوں میں زمینیں تقسیم کی گئیں اور وحشی جاگیرداروں اور سود خوروں کے کسانوں پر تمام قرضوں کو معاف کیا گیا۔ تمام مظلوم قومیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی زبانوں کو ترقی دی گئی، ان کی ثقافت کو ترقی دی گئی اور بڑے پیمانے پر ان کی مادری ربانوں میں لٹریچر چھاپا گیا اور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے دس سالوں میں پوری آبادی کو تعلیم یافتہ بنانے کا انقلابی منصوبہ بنایا گیا۔ پورے خطے میں سامراج، رجعت اور سرمایہ داری کے خلاف تحریکوں سے رشتہ اور تعلق استوار کرنے کی بنیادیں ڈالی گئیں۔ انقلابی جذبات سے سرشار خلق پارٹی کی قیادت اور ان سے جڑے کارکنوں کی ایک بہت ہی مقدس اور معصوم خواہش تھی کہ ہر قسم کے ستم و جبر سے پاک معاشرہ تشکیل کریں۔ یہ وہ جدوجہد تھی جس کے خلاف سامراج اور خطے و پوری دنیا میں اس کے رجعتی اتحادیوں نے اس انقلاب کے خلاف ردانقلابی قوتوں کو منظم کرنا شروع کیا اور پورے خطے کو مذہبی بنیاد پرستی، ہیروئن اور اسلحہ کلچر کی بھینٹ چڑھا کر بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔
اس دوران انقلاب کی قیادت سے بھی اہم غلطیاں سرزد ہوئیں اور خطے کے دیگر محنت کشوں کے ساتھ اس انقلابی تحریک کی جڑت مستحکم نہیں ہو سکی۔ افغانستان میں آنے والی انقلابی تبدیلی ایران اور پاکستان سے لے کر پورے خطے کے محنت کش طبقات کے لیے نجات کا پیغام تھی اور ان محنت کشوں کی یکجہتی حاصل کرتے ہوئے خطے کے حکمران طبقات اور سامراجی طاقتوں کے خلاف بھی جدوجہد کو آگے بڑھایا جاسکتا تھااور دنیا بھر کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کی جا سکتی تھی۔ اس موقع پر سوویت یونین کی زوال پذیر سٹالنسٹ بیوروکریسی کے مجرمانہ کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے اس انقلاب کو محدود کرنے کی کوششیں کیں اور اس کی قیادت کو رستے سے ہٹانے میں کردار ادا کیا۔ لیکن اس سب کے باوجود اس انقلاب نے افغانستان کے پسماندہ سماج میں ترقی اور خوشحالی کے بہت سے نئے باب رقم کیے جو اس سے پہلے نا ممکن دکھائی دیتے تھے۔ علاج اور تعلیم سے لے کر زبان اور ثقافت تک کے شعبوں میں ترقی اور تمام بنیادی سہولیات کی عوام کو فراہمی کے منصوبوں کی مثال اس سے پہلے اور بعد میں کہیں نظر نہیں آتی۔ امریکی سامراج نے اپنی دو دہائی کی خونریز جنگ میں تعمیر نو اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کا بہت واویلا کیا اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ اس پسماندہ سماج کو ترقی دے رہا ہے لیکن یہ سب جھوٹ کا پلندہ تھا اور امریکی سامراج کے انخلا سے پہلے ہی اس کی تعمیر کردہ کرپشن اور لوٹ مار میں لتھڑی عوام دشمن ریاست منہدم ہو گئی اور امریکہ کے ہی پالے ہوئے طالبان کی وحشت دوبارہ سماج پر مسلط کر دی گئی۔ امریکہ کی اس خونی جنگ میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا موازنہ اگر ثور انقلاب کے بعد ہونے والے انقلابی اقدامات سے کیا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ انتہائی محدود وسائل کے باوجود اس وقت کی انقلابی قیادت نے سماج کی بنیادوں کو تبدیل کرنا شروع کر دیا تھا اور عوام تک مفت علاج اور تعلیم تک رسائی کو ممکن بنایا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے اقدامات کیے تھے جن سے خواتین پر جبر والی قدیم روایات اور رواجوں کا خاتمہ ہوا تھا جس میں خواتین کی خرید و فروخت پر پابندی شامل تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ کی طرح سرمایہ داری، اور بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کی بجائے ایسی ریاست تعمیر کرنے کا آغاز ہوا تھا جو مزدور کا استحصال کرنے کی بجائے اس کی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ ثور انقلاب کے بعد آنے والی مشکلات کا مقابلہ لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات پر عملدرآمد کر کے کیا جا سکتا تھا لیکن اس وقت ایسی کوئی تنظیم موجود نہیں تھی جو روس کی بالشویک پارٹی کی طرز پر نظریات سے مسلح کارکنان کی وسیع اکثریت کے ساتھ موجود ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سامراجی طاقتوں کے حملوں اور دوسری جانب سوویت یونین کی زوال پذیر قیادت کی غلط پالیسیوں کے باعث وہ انقلاب مشکلات کا شکار ہو کر پسپائی کی جانب بڑھتا چلا گیا اور انقلاب دشمن قوتیں غالب آ گئیں۔ لیکن آج بھی ان تمام تاریخی واقعات سے اسباق سیکھتے ہوئے ایک ایسی انقلابی قوت تعمیر کی جا سکتی ہے جو خطے سمیت دنیا بھر کے محنت کش طبقے کے ساتھ جڑتے ہوئے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کا آغاز کرے۔
اس وقت افغانستان کے عوام مذہبی بنیاد پرستوں کی حکمرانی میں بے پناہ مشکلات کا شکار ہیں۔ پوری آبادی شدید غذائی قلت کا شکارہے۔ دو وقت کی روٹی پوری کرنے کیلئے لوگ گھر کی ضروری اشیاء سے لے کرگردے اور بیٹیوں تک بیچی جا رہی ہیں۔ خواتین سے لے کرمظلوم قومیتوں پر طالبان رجیم جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ ایسے میں پورا افغان معاشرہ ایک مکمل انتشار کی حالت میں ہے لیکن پچھلے سینکڑوں سالوں کی تاریخ میں ہندوکش کی سنگلاخ چٹانیں اس کی گواہ ہیں کہ یہاں پر جبر اور ستم کے کی بنیاد پر کبھی بھی حکمرانی مستحکم نہیں رہی۔ سکندر مقدونی سے لے کر انگریز اور امریکی سامراج تک یہاں سے ناشاد و نامراد گئے ہیں۔ ثور انقلاب برپا کرنے والے ہزاروں کارکنوں نے انقلابی افغانستان کے دفاع میں مسلسل 14 سال سامراجی ردِ انقلاب کے خلاف جس طرح خون کے نذرانے دے کر انقلابی تاریخ کو سیراب کیا ہے وہ ہمارا عظیم اثاثہ ہے۔ وہ جدوجہد اور قربانیاں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں اور یہ قربانیاں اور خون کے یہ نذرانے ہمارے اوپر ایک قرض ہیں اور اس انقلاب کی سامراجی ردِ انقلاب کے ہاتھوں ناکامی ہمارے اندر انتقام کے جذبات کو جگاتی ہے اور اس انتقامی جذبے کوہم ایک طاقت میں بدلتے ہوئے ایک منظم انقلابی جدوجہد کے ذریعے سامراج، مذہبی بنیاد پرستی اور ہر قسم کی بربریت کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے کہ ہم ثور انقلاب برپا کرنے والے ان ہزاروں کارکنوں کا حق ادا کرسکتے ہیں اور ان کی جدوجہد کی عظمت کو صحیح تاریخی مقام دے سکتے ہیں۔