|تحریر: زلمی پاسون|
43 سال پہلے افغانستان کے انتہائی پسماندہ نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ سماج میں ایک تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا جسے ثور انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں 27 اپریل 1978ء کو رونما ہونے والے ثور انقلاب کو اس خطے کی تاریخ سے دیگر انقلابات کی طرح بالکل غائب کر دیا گیا ہے، جیسے کچھ ہوا نہیں تھا۔ بورژوا دانشوروں اور مؤرخین نے ثور انقلاب کے تاریخ سازکردار کو طرح طرح کے غلیظ پروپیگنڈوں کے ذریعے مسخ کرنے کی حتی الوسع کوششیں کی ہیں۔ درحقیقت ثور انقلاب افغانستان کے مظلوم عوام کی تباہ حال زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کاوش تھی۔ اس نے عوام کو صدیوں کے وحشیانہ استبداد اور سامراجی یلغار سے آزادی حاصل کرنے کی ہمت اور جستجو فراہم کی۔ آج بھی یہ انقلاب سرمایہ داری اور سامراجی تسلط کے تحت اس اذیت ناک سرزمین کے محنت کش عوام کے لئے ماضی کا انتہائی اہم سبق اور مستقبل میں جاری مصائب اور تباہی سے نجات کا واحد راستہ ہے۔
بورژوازی کے وظیفہ خوار اور کرائے کے دانشوروں نے سوویت فوجوں کی افغانستان میں مداخلت کو جان بوجھ کر ثور انقلاب کی کامیابی سے تعبیر کر دیا ہے، یعنی کہ ثورانقلاب بنیادی طور پر سوویت فوجوں کی مداخلت کی بنیاد پر رونما ہوا۔ مجرمانہ طور پر یہ بات چھپائی جاتی ہے کہ درحقیقت روسی افواج 29 دسمبر 1979ء کو انقلاب کے اٹھارہ ماہ بعد افغانستان میں داخل ہوئیں۔ ثور انقلاب کے بعد افغانستان کے پہلے دو صدور اور (پی ڈی پی اے) خلق دھڑے کے قائدین، نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کو سوویت بیوروکریٹک حکومت پر بہت کم اعتماد تھا اور وہ سوویت یونین سمیت کسی بھی غیر ملکی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتے تھے۔ اسی لیے نور محمد ترکئی کو پہلے ہی قتل کر دیا گیا اور یہ بھی قوی امکان ہے کہ (کے جی بی) یا پی ڈی پی اے کے ماسکو نواز دھڑے یعنی ’پرچم‘ نے روسی مداخلت کے موقع پر حفیظ اللہ امین کو قتل کروایا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کا قیام
ثور انقلاب کی بنیادیں بہت پہلے سے تیار کی جارہی تھیں اور انقلابی قوتیں دنیا بھر میں جاری بائیں بازو کی عوامی تحریکوں اور نظریات سے سیکھ رہی تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد پوری دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ اس ضمن میں عالمی حالات کے زیر اثر افغانستان میں پہلی مرتبہ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی۔ اسی دوران مختلف ترقی پسند مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، جن میں نور محمد ترہ کئی، میر غلام محمد غبار، گل باچا الفت، عبدالرؤف بینوا، فیض محمد انگار، ضمیر صافی، صدیق اللہ ریشتین، محمد صدیق فرہنگ اور دیگر شامل تھے۔ انہوں نے”ویشن زلمیان (بیدار نوجوانان)“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے مقاصد میں اجتماعی اصلاحات لانے کے لئے کوشش کرنا اور ان طبقات کے مفادات کے لئے آواز اٹھانا شامل تھا جنہیں طویل عرصہ سے مستقل استبدادی صورتحال اور استحصال کا سامنا تھا۔ تاہم اس تنظیم میں مختلف نظریات کے حامل لوگ اکھٹے ہوئے تھے۔ ویش زلمیان ایک جریدے ’انگار‘ کا بھی باقاعدگی سے اجرا کرتی تھی۔ ویش زلمیان سے وطن اور ندائے خلق کے نام سے دیگر سیاسی تنظیمیں بھی نکلیں۔ 1949ء میں بلدیاتی شوریٰ کے انتخابات کرائے گئے تو 120 میں سے 50 نشستیں انہی تنظیموں کے پاس چلی گئیں۔ ریاست نے جب اس کامیابی اور ویش زلمیان کے نمائندوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی تنقید کو دیکھا تو ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی اور اکثر نمائندوں کو گرفتار کرکے قید خانوں میں ڈال دیا۔ 1953ء میں شاہ محمود کی جگہ داؤد خان وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوا اور 1963ء تک اس عہدے پر رہا۔ ان دس برسوں میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں پشتونستان کے مسئلے پر شدید کشیدگی آئی۔ پاکستان کی جانب سے بارڈر بند کر دیا گیا جس سے افغانستان میں سنگین معاشی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ظاہر شاہ نے داؤد سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ 1964ء میں ظاہر شاہ نے نیا آئین نافذ کیا اور آزاد انتخابات کا اعلان کیا۔
یکم جنوری 1965ء کو نور محمد ترہ کئی کے گھر پر ببرک کارمل، ڈاکٹر شاہ ولی، ڈاکٹر محمد ظاہر طوطا خیل، عبدالکریم میثاق، ظاہر افق، طاہر بدخشی، عطا محمد شیرازی، عبدالحکیم جوزجانی، محمد عیسیٰ کارگر اور دیگر کی موجودگی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی تاسیسی کانگریس منعقد ہوئی۔ پارٹی میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو ویش زلمیان سے وابستہ رہے تھے اور جن کی شعوری سطح اب اتنی بلند ہو چکی تھی کہ وہ پی ڈی پی اے کی بنیاد مارکسسٹ لینن اسٹ اصولوں پررکھنا چاہتے تھے۔ پارٹی کی تشکیل کے بعد اس کے پروگرام اور جدوجہد کو کابل سے باہر افغانستان کے دیگر حصوں میں پھیلایا گیا۔ تاہم پارٹی کا اثرورسوخ درمیانے طبقے کے ان پڑھے لکھے لوگوں میں زیادہ رہا جو مختلف تعلیمی اداروں سے بطور طالب علم یا استاد منسلک تھے۔ افغانستان میں نہ تو کوئی کلاسیکی بورژوازی وجود رکھتی تھی نہ ہی پرولتاریہ اُس طرح سے موجود تھا۔ لہٰذا پارٹی درمیانے طبقے تک محدود رہی۔ تاہم پارٹی نے فوج میں اپنے لئے جگہ بنا لی تھی۔ فوج میں زیادہ تر کام حفیظ اللہ امین کے ذریعے ہوا جو پارٹی کے تاسیسی اجلاس کے دوران امریکہ میں زیر تعلیم تھا۔
افغانستان میں مارکسی نظریات پر مبنی ایک منظم پارٹی کے دیر سے پروان چڑھنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سطح پر سٹالنزم کا ابھار ہے جو پسماندہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے امکانات کو رد کرتا ہے اور اس طرح نظریہ انقلاب مسلسل سے انحراف کرتا ہے، جس کے تحت لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں انقلاب برپا ہوا تھا۔ اسی باعث افغانستان میں بننے والی بائیں بازو کی پارٹی پر بھی ان نظریات کے اثرات موجود تھے۔ تاہم پارٹی کی پہلی تاسیسی کانگریس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ پارٹی کا ہدف مارکسزم کے اصولوں پر افغانستان میں ایک سوشلسٹ معاشرے کی تعمیرکرنا ہوگا۔ اس وقت دنیا کی تقریباً تمام کمیونسٹ پارٹیاں سوشلسٹ مستقبل کا ذکر کرنے کی بجائے مرحلہ واریت کے غلط سٹالنسٹ نظریے کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جمہوری بنیادوں کو مضبوط کر کے سماجی و معاشی ترقی حاصل کرنے کے طریقہ کار پر کاربند تھیں۔ اس حوالے سے افغانستان میں سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کے حوالے سے کسی پارٹی کے پروگرام میں بحث کا آغاز ہونا یقینا آگے کا قدم تھا۔ گوکہ پی ڈی پی اے کے قیام میں سوویت یونین براہ راست ملوث نہیں رہا تھا، مگر پارٹی پر سوویت یونین کی سیاسی اتھارٹی اور نظریات کی ایک واضح چھاپ موجود تھی۔ پارٹی کی تاسیسی کانگریس میں نور محمد ترکئی کے آخری کلمات یہ تھے:
”پچھلے دو سالوں میں ہم ایک دوسرے کے نظریے کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں اور ہمیں ہمارا راستہ واضح طور پر معلوم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کچھ طبقات کے خلاف اور کچھ طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اور ہماری جدوجہد کا مقصد ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرتی اصولوں پر مبنی معاشرے کا قیام ہے“۔
ریاستی جبر اور انقلاب
جب 1966ء میں پی ڈی پی اے کے جریدے”خلق“ پر محض چھ شمارے شائع ہونے کے بعد ہی پابندی لگی تو ظاہر شاہ حکومت کے ساتھ اِس معاملے پر پی ڈی پی اے کے اپنے اندر اختلافات پیدا ہونے لگے۔ دوسر ا اہم ایشو ایک متحدہ قومی محاذ بنانے کا سوال تھا۔ 1967ء میں پارٹی میں ان داخلی اختلافات کی بنا پر دھڑے بندی ہوئی اور وہ ’خلق‘ اور ’پرچم‘ کے دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین خلق کی قیادت کرنے لگے جبکہ ببرک کارمل، میراکبر خیبر، عنایت راتب زادہ و دیگر پرچم دھڑے کی۔
17 اپریل 1978ء کو کابل میں میر اکبر خیبر، جن کا تعلق پی ڈی پی اے کے ’پرچم‘ دھڑے سے تھا، کو قتل کر دیا گیا۔ 19 اپریل کو جنازے کی رسوم میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے جن میں خلق اور پرچم کے کارکنان کی بہت بڑی تعداد بھی شامل تھی اور پوری پارٹی لیڈرشپ موجود تھی۔ نور محمد ترہ کئی اور دیگر نے تعزیتی اور احتجاجی تقاریر کیں جس میں پارٹی قیادت نے کُھل کر اس قتل کو حکومت کے استبدادی اور آمرانہ اقدامات کی ایک کڑی قرار دیا۔ حکومت نے بوکھلاہٹ میں آکر پارٹی کی لیڈرشپ اور دیگر کارکنان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا عمل شروع کر دیا۔ دوسری جانب پی ڈی پی اے نے حالات کے تقاضے کو بھانپتے ہوئے فیصلہ کن اقدام کے طور پر انقلابی سرکشی کی کال دے دی۔ زمینی افواج اور فضائیہ میں موجود خلقی افسران اور کیڈرز کی کثیر تعداد حرکت میں آگئی۔ ائیرچیف کے معاون جنر ل عبدالقادر نے کابل سے 30 میل دور بگرام کے ہوائی اڈے سے سوویت ایس یو بمبار طیاروں کے ذریعے صدارتی محل پرحملے شروع کر دئیے۔ جبکہ زمینی محاذ پر محمد اسلم وطنجار نے ٹینکوں سے صدارتی محل پر گولے داغے۔ صدارتی محل پرمسلسل چار گھنٹے تک طیاروں نے بم برسائے۔ اندر سے اٹھارہ گھنٹے تک مزاحمت جاری رہی۔ اس کے بعد 27 اپریل 1978ء کو انقلابی افواج محل کے اندر داخل ہوگئیں۔ یوں نہ صرف داؤد آمریت بلکہ افغانستان میں نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ظلم و استبداد، معاشی بدحالی اور پسماندگی کے ثور انقلاب کے ہاتھوں خاتمے کا آغاز ہوا۔ یہ نہ صرف افغان عوام بلکہ خطے بھر میں مظلوم و محکوم طبقوں کی استبدادی حکمران طبقے کے خلاف ایک ایسی جیت تھی جس کی پوری افغان تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ ثور انقلاب کی گونج ہزاروں میل دور تک سنی گئی اور حکمران طبقات خوفزدہ ہوگئے۔ انقلابی تبدیلی کے بعد فوج نے اقتدار جلد ہی پی ڈی پی اے کے انقلابی رہنماؤں کے حوالے کر دیا۔ عوامی سطح پر انقلاب کا پر جوش خیر مقدم کیا گیااور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی انقلابی حکومت کو خوش آمدید کہا گیا۔
انقلابی حکومت کے تاریخی اقدامات
اگرچہ یہ کوئی کلاسیکی پرولتاری انقلاب نہیں تھا اور نہ ہی اس میں محنت کش عوام نے بڑے پیمانے پر ملک گیر سطح پر شمولیت کی تھی لیکن اس کے باوجود نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے یہ انتہائی ترقی پسندانہ اقدام تھا۔ انقلابی حکومت کی کابینہ نے اپنی منصوبہ بندی اور پروگرام کو مختلف فرمانوں (Decrees) کے ذریعے جاری کرنا شروع کیا۔ انقلابی فرمان نمبر 6 کے تحت محروم طبقات پر استحصال کرنے والے طبقات کی بالا دستی اور برتری کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور خلق پارٹی کی رہنمائی میں ایک نئے جمہوری معاشرے کی بنیاد ر کھنے کا عندیہ دیا گیا۔ اس حکم نامے کے تحت سود اور رہن کے خاتمے کا انقلابی اقدام اُٹھایا گیا اور تمام سود معاف کر دیا گیا۔ 1973ء کے بعد سے قرضہ جات اور گروی شدہ اراضی کو واگزار کرنے کا اقدام بھی اسی حکم نامے کے تحت ہوا۔ انقلابی فرمان نمبر 7 کے تحت ولور (جہیز) کا خاتمہ کیا گیا، عورتوں کی مساوی حیثیت کی ضمانت دی گئی اور انہیں قانون کی رو سے برابر قرار دیا گیا۔ ازدواجی رشتوں میں جبر کے عنصر کا خاتمہ کیا گیا۔ اس حکم نامے کے آرٹیکل نمبر 4 کے تحت کسی بیوہ کو شادی سے روکنے یا زبردستی شادی کرانے کو ممنوع قرار دیا گیا جیسا کہ عام طور پر مختلف قبائلی رشتوں وغیرہ کو محفوظ اور برقرار رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے جبکہ اس میں عورت کی مرضی شامل نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب تک کسی لڑکی کی عمر 16 برس اور لڑکے کی 18 برس نہ ہوجائے ان کی منگنی یا شادی پر پابندی لگا دی گئی۔ حق مہر کی رقم 10 درہم جو تب تین سو افغانی بنتے تھے، رکھی گئی۔ اس حکم نامے نے افغان سماج میں نہایت پسماندہ، فرسودہ اور استبدادی رسوم و اقدار کو تاریخ میں پہلی مرتبہ چیلنج کیا اور باقاعدہ طور پر پسے ہوئے طبقات خصوصاً عورت کو ان سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا۔ اسی طرح فرمان نمبر 8 کے تحت اراضی کی نیشنلائزیشن اور زرعی وسائل کی منصفانہ تقسیم وغیرہ سے متعلق اقدامات کیے گئے۔
انقلابی حکومت کے ان اقدامات سے گیارہ ملین کسانوں کو نسل در نسل چلے آ رہے سود سے نجات ملی۔ عورتوں کو ان کے حقوق دلوانے کی منصوبہ بندی کی گئی اور یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں شادی کر سکتی ہیں جس سے پہلی مرتبہ انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں بلکہ خود مختار انسان ہیں۔ دیگر انقلابی اقدامات میں حاکم طبقات کی مختلف پرتوں مثلاً پیروں، خوانین، شاہوں، ملکوں، سرداروں، نوابوں و دیگر کو نکیل ڈالی گئی۔ جہالت کا خاتمہ کرنے کے لئے نہ صرف درسگاہیں کھولی گئیں بلکہ ان میں تنقیدی اور تعمیری اقدار و انقلابی روایات کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ناخواندگی کے تیز اور مکمل خاتمے کے لئے تعلیم بالغاں کے وسیع منصوبے شروع کیے گئے۔
ڈالر جہاد اوررد ِانقلاب
ایسے اقدامات کے خلاف علاقائی اور عالمی سامراجی قوتوں کا یکجا ہونا ناگزیر تھا۔ امریکہ، برطانیہ، ایران، سعودی عرب اور پاکستان سمیت ساری دنیا کے حکمران طبقات اور سرمایہ دارانہ ریاستیں اس انقلاب سے سخت خطرات محسوس کرنے لگیں۔ چنانچہ پی ڈی پی اے حکومت روزِ اول سے داخلی اور خارجی سطح پر سازشوں کا شکار رہی۔ ماسکو کی سٹالنسٹ بیوروکریسی نے انقلاب، جو اُن کی مرضی اور معلومات کے بغیر ہوا تھا، کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی شرمناک مداخلت سے حفیظ اللہ امین اور نور محمد ترہ کئی کے درمیان رخنے ڈالے۔ نور محمد ترہ کئی کو قتل کروا دیا گیا اور پھر جب حفیظ اللہ امین ان کے قابو میں نہ آپایا تو 27 دسمبر 1979ء کوافغانستان میں فوجیں داخل کر کے اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ ان کی جگہ پرچم دھڑے کے لیڈر ببرک کارمل کو افغانستان کا صدر بنادیا گیا۔ سویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت نے امریکی سامراج کی مداخلت، جو کئی مہینے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی، کو جواز فراہم کیا اور سامراج کی گماشتہ مقامی رجعتی قوتوں کو بھی اپنے زہریلے پراپیگنڈے کے لئے ریفرنس پوائنٹ مل گیا۔ ڈالر جہاد میں بیش بہا پیسہ لگا کر نام نہاد مجاہدین گروہوں کو تخلیق کیا گیا۔ ان کی مستقل فنانسنگ کے لئے منشیات کی تیاری اور ترسیل کا پورا نیٹ ورک بچھایا گیا۔ سینکڑوں مدرسے اور ٹریننگ کیمپ قائم کیے گئے (بالخصوص پاکستان میں) جن میں پڑھایا جانے والا زہریلا نصاب امریکہ سے چھپ کے آتا تھا۔ یہ بنیاد پرستی، منشیات اور کلاشنکوف کلچر پاکستانی معاشرے کی رگوں میں بھی سرایت کر کے ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا گیا۔ سوویت یونین کے انخلا تک اس جنگ (دسمبر 1979ء تا فروری 1989ء) کے دوران 15 ہزار روسی فوجی ہلاک ہوئے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پی ڈی پی اے (جس کا نام اب بدل کے حزبِ وطن رکھ دیا گیا تھا) کی حکومت انتہائی تنہائی اور معاشی بدحالی کا شکار ہو گئی اور اپنے داخلی تضادات اور غداریوں کی وجہ سے 1992ء میں آخری صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے استعفیٰ کے بعد ختم ہوگئی۔
اس کے بعد افغان خانہ جنگی کا سب سے خونی دور شروع ہوا جب مجاہدین کے مختلف گروہ کالے دھن اور اقتدار کی بندر بانٹ پر آپس میں دست و گریبان ہو گئے اور افغانستان کو کھنڈر بنا کے رکھ ڈالا۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، ڈاک، رہائش اور پانی کی فراہمی وغیرہ کا جو انفراسٹرکچر پی ڈی پی اے کے دور میں بنا تھا، برباد کر دیا گیا۔ سوویت فوجوں کے نکل جانے کے بعد امریکیوں کی دلچسپی تو اِس خطے میں کم ہو گئی لیکن بنیاد پرستی اور منشیات کے کالے دھن کے جس عفریت کو انہوں نے یہاں پیدا کیا تھا وہ پھلتا پھولتا رہا۔ 1995ء میں امریکی سی آئی اے اور پاکستانی ریاست کی پشت پناہی سے طالبان کو تیار کر کے افغانستان پر ننگی رجعت کو مسلط کر دیا گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی سامراج دنیا کی واحد سُپر پاور بن گیا اور اس نے دنیا بھر میں دہشت گردی، بنیاد پرستی اور وحشت کا ایسا جال بچھایا جس میں آج امریکی سامراج خود بُری طرح پھنس چکا ہے۔ بالخصوص 9/11 کے سانحے کے بعد نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام پر امریکی سامراج نے نہ صرف افغانستان میں سامراجی مداخلت کی، بلکہ عراق سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی کُھلی جارحیت کی۔
امریکی فوجوں کا انخلا؟
اس وقت امریکی سامراج افغانستان کے اندر اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں بری طرح شکست کھا چکا ہے۔ اس شکست کا اظہار ہم پچھلے دو سال سے نام نہاد افغان امن مذاکرات کے نام پر ڈھونگ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ اس طویل ترین جنگ کے اندر امریکی سامراج نے سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے، مگر بالآخر ان کو اپنے بنائے گئے بتوں کے آگے جھکنا پڑا۔ گو کہ یہ بحث الگ ہے کہ اس وقت افغانستان کے اندر درحقیقت طالبان کی اپنی حمایت موجود نہیں ہے بلکہ طالبان کی طاقت کا راز امریکی سامراج کی کمزوری ہے۔ یہ کمزوری 2008ء کے عالمی معاشی بحران سے شروع ہوئی، جس نے امریکی سامراج کی معیشت سمیت عالمی اقتصادی صورتحال کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ بالخصوص کرونا وبا اور نئے عالمی مالیاتی بحران کے بعد جو حالات بنے ہیں انہوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے خصی پن کو محنت کش طبقے کے سامنے واشگاف الفاظ میں ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ فروری 2020ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات کرتے ہوئے یہ معاہدہکیا تھا کہ یکم مئی 2021ء تک افغانستان سے امریکی فوجوں کا مکمل انخلاء ہو جائے گا، جبکہ اس کے جواب میں طالبان کے ساتھ معاہدے کی چار شرائط بھی شامل تھیں اور یہ معاہدہ یکم مئی 2021ء کو نافذ العمل ہونا تھا۔ نومبر 2020ء میں امریکی صدارتی انتخابات کے بعد صدر جوبائیڈن کے انتخاب کے بعد افغانستان کے حوالے سے امریکی سامراج کی پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے جب کہ وہی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کا ایک تسلسل جاری ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کے انتخاب کے حوالے سے لبرلز اور قوم پرست بڑے پُرجوش اور خوش نظر آرہے تھے کہ اب افغانستان کے حوالے سے ان کی خواہشات کے مطابق فیصلہ جات ہوں گے، کیونکہ جو بائیڈن ایک لبرل ڈیموکریٹ ہے، اور وہ ٹرمپ کے جانے کے بعد جمہویت اور لبرلزم کا علَم پھر سے بلند کرے گا۔ اور ان کی جوبائیڈن سے یہی توقعات تھیں جو ان نادان لبرلز اور قوم پرستوں کی 2001ء میں امریکی سامراج کی افغانستان میں جارحیت کے وقت تھیں۔ جب کہ مارکس وادیوں نے امریکی سامراج کی جارحیت کو اس وقت بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ہم آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی کے مسائل کے حل کا امریکی سامراج کی موجودگی یا انخلاء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ در حقیقت امریکی سامراج کا افغانستان میں فوجیں بھیجنے کا واحد کا مقصد افغانستان سے لوٹ مار اور خطے میں اپنے سامراجی تسلط کو قائم رکھناتھا، اس سے بڑھ کر اس کا قطعاََ کوئی اور ارادہ نہیں تھا۔ امریکی سامراج دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا موجد ہے، اور افغانستان کی تباہی کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ اگر امریکی سامراج افغانستان میں بھی موجود رہتا ہے تو شکست اس کا مقدر ہے اور دوسرا یہ کہ وہ کبھی بھی یہاں ترقی اور خوشحالی نہیں لا سکتا بلکہ پہلے کی طرح خونریزی اور بربادی ہی پھیلا سکتا ہے۔ اسی طرح امریکی سامراج کے انخلاء کے بعد بھی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کوئی بھی قوت امن اور استحکام نہیں لا سکتی اور اسی خونی بربریت کو جاری رکھنے کا موجب بنے گی۔
نام نہاد امن مذاکرات بھی ایک ڈھونگ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ان مذاکرات میں امریکی سامراج کی مکمل بے بسی اور لاچارگی پوری دنیا کے سامنے واضح طور پر نظر آئی جب طالبان اس کی ایک بھی شرط ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور پھر ان ہی کی شرائط پر مذاکرات کا آغاز کیا گیا۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ اس کی کٹھ پتلی اشرف غنی کی حکومت سے مذاکرات کیے جاتے لیکن وہ شرط تسلیم نہیں ہو سکی اور نہ ہی یہ گماشتہ حکومت افغان عوام کی کسی بھی طرح نمائندہ ہے۔ اسی طرح جنگ بندی کی بنیادی شرط بھی تسلیم نہیں ہوئی اور پھر بھی مذاکرات کا یہ ناٹک جاری رہا جس میں بد ترین قتل و غارت کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے۔ طالبان کے خلاف بھی افغانستان کے عوام کی بد ترین نفرت موجود ہے اور وہ کسی بھی طرح عوام کے نمائندے نہیں۔ لیکن خطے کی دوسری سامراجی طاقتوں، بالخصوص ایران اور روس کی پشت پناہی سے وہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں اور اسی لیے امریکی سامراج ان سے مذاکرات بھی کر رہا ہے۔ عوام کی حقیقی تحریکوں، تنظیموں اور نمائندوں کو تمام سامراجی طاقتیں ملک کر کچلتی ہیں اور اپنے گماشتوں کو مذاکرات کے میدان میں اتارتی ہیں تاکہ اقتدار کا کھیل حکمران طبقات کے ہاتھوں میں ہی رہے۔
مذاکرات میں ابھی تک طالبان کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے، جس کا اظہار ہمیں 24 اپریل 2021ء کو ترکی کے دارالحکومت استنبول میں دس روزہ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے عالمی کانفرنس کے انعقاد سے بائیکاٹ کی صورت میں دکھائی دیا، اور طالبان کے مذکورہ بائیکاٹ کے بعد اس کانفرنس کو مئی کے وسط تک ملتوی کر دیا گیا۔ مذاکرات سے بائیکاٹ کا بہانہ تو یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ یکم مئی 2021ء تک امریکی فوج کا انخلا ہونا تھا مگر موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گیارہ ستمبر 2021ء تک امریکی فوج کے انخلا میں توسیع کی ہے۔ اس پر طالبان کی جانب سے یہ ردعمل آیا ہے کہ جب تک امریکی فوج کا مکمل انخلاء نہیں ہوتا تب تک وہ کسی بھی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ مگر اس ضمن میں طالبان اور ان کی پشت پر موجود سامراجی طاقتیں بلاواسطہ امریکی سامراج پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ ان کے بقایا سات ہزار گرفتار ساتھیوں کو رہا کرے، ان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرے، جبکہ دہشت گردی کی لسٹ سے ان کی تمام تر قیادت کے نام نکال دے اور انہیں دنیا بھر میں سفر کرنے کی اجازت دے۔ تب جاکروہ مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں گے، جبکہ دوسری جانب انٹرا افغان مذاکرات بھی محض ایک ڈرامہ تھا، جوکہ اب مختلف ڈرافٹس کی شکل میں تبدیل ہوچکا ہے۔
اس حوالے سے رسہ کشی جاری ہے کہ بازی کون لے جائے گا۔ مگر ا بھی تک کسی کے پاس بھی واضح برتری نہیں اور نہ ہی کسی کے پاس اتنی طاقت اور وسائل ہیں کہ مکمل کامیابی حاصل کر سکے۔ اگر طالبان کے پاس واقعی عوامی حمایت ہوتی تو وہ ابھی تک امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کو گرا چکے ہوتے اور امریکی افواج کو باہر نکال چکے ہوتے۔ درحقیقت دونوں جانب انتہائی کمزور قوتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں جس کے باعث یہ جنگ خونریز اور زہریلی ہونے کے ساتھ ساتھ طویل بھی ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں امریکی پشت پناہی کے بغیر کابل حکومت اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ پائے گی اور کسی بھی وقت گر سکتی ہے وہیں دوسری طرف طالبان کے پاس بھی اتنی قوت اور وسائل نہیں کہ وہ پورے ملک پر اپنا تسلط جما سکیں اور نہ ہی ان کی پشت پناہی کرنے والی سامراجی طاقتوں میں اتنی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے علاوہ طالبان بھی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کو تسلیم کرتے ہیں اور ہمیشہ سرمائے کے خدا کے سامنے سر بسجود رہے ہیں، اس لیے اس نظام میں رہتے ہوئے وہ امریکی سامراج اوراس کے اتحادیوں کے ہی رحم و کرم پر رہتے ہیں جس کی مدد کے بغیر اس نظام کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ اس صورتحال میں اقتدار کی رسہ کشی مزید خونریز ہو جاتی ہے اور بربریت کا باعث بنتی ہے جو ہم اس وقت افغانستان میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں افغانستان میں موجود بائیں بازو کی قوتیں بھی شدید انتشار اور کنفیوژن کا شکار ہیں۔ تنگ نظر قوم پرستی کی حدود میں قید ان قوتوں کی اکثریت اب بائیں بازو کی بجائے لبرل نظریات کی پیروکار بن چکی ہے اور امریکی سامراج کو اپنا آقا تسلیم کر چکی ہے۔ دیگر گروپوں میں بھی تنگ نظر قوم پرستی کا زہر جڑوں تک سرایت کر چکا ہے اور محنت کش طبقے کی عالمگیر جڑت کے مارکسی نظریات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ قومی بنیادوں پر افغانستان کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی رجعتی اور عوام دشمن قوت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ خطے کے سامراجی ممالک کی جارحیت کا مقابلہ بھی ان ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی جڑت بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے جس کے لیے پرولتاری بین الاقوامیت کے انقلابی نظریات کو ہی جدوجہد کی بنیاد بنانا ہو گا۔ اس حوالے سے مارکسزم کے حقیقی نظریات پر اہم بحثیں اس وقت انتہائی اہمیت کی حامل ہیں جن کے بغیر کوئی بھی سیاسی سرگرمی ایک یا دوسری کھائی میں گرنے کا سبب بنے گی۔
کٹھ پتلی افغان حکومت کا مستقبل
امریکی سامراج کی ایما پر بننے والی افغان حکومت کا حشر سب دیکھ چکے ہیں اور اس کے خلاف عوام کی نفرت بھی انتہاؤں پر موجود ہے۔ اس عوام دشمن حکومت نے سامراجی طاقت کی حمایت سے گزشتہ دو دہائیوں سے لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا ہے اور اس جنگ زدہ ملک کا ایک بھی مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ابھی بھی وہ سامراجی طاقتوں سے انخلاء نہ کرنے کی بھیک مانگ رہی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ انخلاء کے بعد وہ حالات کے رحم و کرم پر ہو گی اور ان کا اقتدار بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن ان کی تمام تر منت سماجت کے باوجود امریکی سامراج کے لیے یہاں اپنی موجودگی کو قائم رکھنا مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے صدر اشرف غنی کو جو خط لکھا ہے اس کے متن سے تمام تر حقائق معلوم پڑ جاتے ہیں کہ اس وقت امریکی سامراج افغانستان سے اپنی دُم نکال کر بھاگنے پر تُلا ہوا ہے، جس طرح وہ عراق سے دُم دبا کر بھاگ گیاتھا۔ اس ملک میں بد ترین بربادی پھیلانے کے بعد پورے خطے کو غیر مستحکم کر دیا گیا اور کروڑوں لوگوں کو بربریت میں دھکیل دیا گیا جس سے کئی سال گزرنے کے بعد بھی وہ باہر نہیں نکل سکے۔ اس وقت عراق مشرق وسطیٰ کے اندر ایک ایسی جگہ ہے جہاں پرریاست کا کنٹرول مکمل طور پر موجود نہیں اوربہت سے علاقوں میں انارکی کی کیفیت موجود ہے۔
موجودہ افغان حکومت کے حوالے سے لوگوں، بالخصوص لبرلز اور قوم پرستوں میں، ایک رجحان پایا جاتا ہے کہ افغان حکومت افغانستان کے اندر ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوسکتی ہے۔ مگر یہ نادان نظریاتی دیوالیہ پن کے شکار اور کم فہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت افغان حکومت امریکی سامراج اور دیگر عالمی سامراجیوں کے بیساکھیوں پر چلتی ہوئی ایک کٹھ پتلی حکومت ہے۔ افغان حکومت کے اندر موجود تمام تر دھڑوں کے اپنے الگ الگ مفادات ہیں، مختصر یہ کہ اس وقت افغان حکومت ایک پیج پر نہیں ہے اور نہ ہی ایک پیج پر ہو سکتی ہے کیونکہ افغان حکومت کے اندر پرانے جنگجو سردار اور مجاہدین کی بھرمار ہے جو کہ دنیا کے مختلف سامراجی ممالک کی پراکسیز کے طور پر افغانستان کے اندر کام کرتے ہیں۔ آج اگر ان سامراجی ممالک کا آشیرباد ختم ہوجاتا ہے، تو افغان حکومت دو گھنٹے بھی اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔
امریکی سامراج سمیت دیگر تمام تر عالمی سامراجیوں نے افغانستان میں 20 سالہ جارحیت کے دوران کوئی بھی بنیادی ضروریات زندگی کے لئے انفراسٹرکچر تعمیر کیا ہے اور نہ ہی ان کی مظلوم افغان عوام کے حوالے سے کوئی سنجیدہ ترجیحات موجود تھیں۔ افغان عوام بے روزگاری، غربت، لاعلاجی، ناخواندگی، اور دیگر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جس میں سے اگر صرف ایک مسئلہ کے اوپر بھی بات شروع کی جائے تو جگہ کم پڑ جائے گی۔ سوشل میڈیا پر بعض اداروں کی تصاویر کو بنیاد بنا کر جدید افغانستان کا خواب دیکھنے والے بھی اگر حقیقت کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر دیکھیں تو یہ واضح نظر آئے گا کہ اس طرح کے ادارے بھی عام مظلوم افغان عوام کی دسترس سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ ان اداروں کے اندر بھی اگر علاج اور تعلیم کی سہولت دی جاتی ہے تو وہ افغانستان کے ان تمام تر اشرافیہ کے لیے ہی ہے جنہوں نے سامراجی ممالک کے دلالوں کی حیثیت سے افغانستان کو تاراج کیا ہے۔ اس ضمن میں صرف ایک مثال کافی ہے کہ جب گزشتہ سال کرونا وبا کے نتیجے میں لگنے والے لاک ڈاؤن کے بعد افغانستان سے پاکستان آنے کے لیے سفارتی ویزے پر پابندی ختم ہوگئی تو جلال آباد کے اندر ایک گراؤنڈ میں ویزوں کے حصول کے لیے ہزاروں کی تعداد میں مجمع کے اندر انتشار پھیلنے سے 12 خواتین بھگدڑ میں پاؤں تلے آکر کر جاں بحق ہو گئیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بے روزگاری، غربت، بھوک، جہالت اور زندگی کی تلاش میں اندرونی طور پر ہجرت کرنے والوں کے بے شمار واقعات سمیت بے تحاشہ مسائل موجود ہیں جن کا ذکر یہاں پر نہیں ہو سکتا۔
اس وقت افغانستان کے اندر ایک ایسی تیسری قوت بھی موجود ہے جو اس ملک کے محنت کش عوام ہیں۔ اس قوت کے حوالے سے لبرلز اور قوم پرست حضرات بات تک نہیں کرتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان کے نام نہاد نظریات عوامی حمایت کھو چکے ہیں لہٰذا انہیں افغان عوام بھی نظر آنا بند ہو گئے ہیں۔ طالبان، جنگجو سردار، داعش سمیت امریکی سامراج اور دیگر عالمی سامراجیوں کے دلال حکمرانوں کو جو قوت اپنی اوقات یاد لاسکتی ہے وہ تیسری قوت مظلوم افغان عوام ہے۔ مستقبل کے تناظر کے حوالے سے جہاں ہم افغانستان میں خانہ جنگی کی بات کررہے ہیں تو وہیں ہم مظلوم افغان عوام کی جدوجہد کو کبھی بھی خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے۔ نام نہاد امن مذاکرات کا ڈھونگ ہو یا سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے چلنے والی طالبان اور امریکہ کی جنگ، اب اپنے تلخ تجربات کے ذریعے محنت کش ان کی عوام دشمن حقیقت جان چکے ہیں۔ ان کی زندگیاں تباہ و برباد ہیں اور انہیں موجودہ نظام میں مستقبل سیاہ ہی نظر آ رہا ہے، وہ ابھی تک نہیں جانتے کہ وہ کس دن سکون اور خوشی کا سانس لیں گے۔ عوام کی بے چینی کا اظہار مختلف تحریکوں اور احتجاجوں میں بھی نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ ہفتہ ہلمند میں خواتین کی ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد ہوا جس میں برقعہ پوش خواتین طالبان کے اوپر لعن طعن کر رہی تھیں کہ”آپ لوگ امن نہیں چاہتے، اگر آپ لوگ امن چاہتے تو آج آپ لوگ ہماری فریاد سنتے“۔ اس طرح کے مظاہرے افغانستان میں معمول بنتے جارہے ہیں، جس سے افغان عوام میں طالبان سے نفرت اور اپنی جدوجہد پر بھروسے میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن ہی واحد حل ہے!
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے زوال نے پوری دنیا کو بربادی میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک پاکستان، ایران، چین، روس یا خطے کا کوئی اور ملک ہو، کے محنت کش طبقے کے اندر ایک سنجیدہ ارتعاش موجود ہے جس کا اظہار مختلف احتجاجی تحریکوں کی شکل میں ہو چکا ہے۔ اس طرح کا اظہار افغانستان کے اندر بھی خارج از امکان نہیں۔ افغانستان کے اندر کسی بھی موقع پر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے اور وہ اپنے غم و غصے کا اظہار مختلف احتجاجی تحریکوں کی شکل میں کر سکتے ہیں۔ مگر ان تحریکوں کا خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ جڑنا ناگزیر ہے جو بظاہر ایک مشکل عمل معلوم ہوتا ہے مگر اس خطے میں موجود انقلابی عنصر اور مزدور تحریک کے آپسی تعلق کی بنیاد پر اسے بہت آسانی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ثور انقلاب کے وقت بھی یہی غلطی کی گئی تھی اور پورے خطے کے محنت کش طبقے کے ساتھ یکجہتی بنانے کی بجائے قومی بنیادوں پر اسے استوار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس غلطی کی بنیاد سٹالنزم کے غلط نظریات میں تھی جس میں قومی مسئلہ کے حل کے لیے انقلابی جدوجہد کوطبقاتی مسئلہ سے جدلیاتی انداز میں جوڑنے کی بجائے قوم پرستی کو ابھارا گیا۔ اگر قومی سوال پر لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات پر عمل کیا جا تا تو آج اس خطے کی تاریخ مختلف ہو سکتی تھی۔ آج کے انقلابی نوجوان یقینا تاریخ کے اس اہم ترین سبق سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔
اس کے علاوہ افغان عوام کے پاس ماضی کے بہت سے دیگر تجربات بھی موجود ہیں۔ آج وہ تمام تر جنگجو سردار اور نام نہاد مجاہدین جنہوں نے مختلف سامراجی ممالک کے دلالوں کی حیثیت سے 1980 اور 90 کی دہائی میں افغانستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا کی عوامی حمایت مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں جو اب کسی بھی صورت عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتے اور اگر وہ کسی عوامی تحریک پر خود کو مسلط کرنے کی کوشش کریں گے تو عوام انہیں اٹھا کر باہر پھینکیں گے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے اندر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فرقہ واریت کو ایک بار پھر سے فروغ دیا جا رہا ہے جس میں داعش کو لانچ کیا جا چکا ہے۔ مگر عہد کی تبدیلی اور عوامی شعور اب اس نہج پر ہے کہ وہ سامراجی عزائم کو بخوبی جانتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے اندحقیقی تبدیلی نام نہاد مذاکرات یا طالبان کو حکومت سونپنے سے بالکل بھی نہیں آئے گی۔ اگر طالبان کو حکومت سونپ بھی دی جاتی ہے توخانہ جنگی کے سوال سے ہٹ کر اگر یہ سوال کیا جائے کہ، اگر نام نہاد جمہوریت یا قومی حکومت کے تحت طالبان کو اقتدار میں لایا جاتا ہے تو کیا طالبان افغانستان کے مظلوم عوام کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بالکل نفی میں ہے، کیونکہ امریکی انخلاء کے بعد امریکی سامراج کا پھر افغانستان کے ساتھ ایسا کوئی تعلق واسطہ نہیں رہے گا جس کا وہ اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ امریکی سامراج کی اقتصادی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ مزید افغانستان کے اخراجات برداشت کرسکے۔ اسی بنیاد پر چین، روس، انڈیا اور بالخصوص ایران بھی مکمل امریکی انخلاء کے حق میں نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ یہاں سے انخلاء کر جاتا ہے تو افغانستان میں ان تمام تر مسائل کی ذمہ داری ان کے اوپر عائد ہوگی جو کہ وہ کسی بھی صورت میں پورا نہیں کر سکتے۔
لہٰذا مظلوم افغان عوام کی تقدیر کا فیصلہ نہ صرف ان کے اپنی جدوجہد کے ساتھ جڑا ہوا ہے بلکہ اس کا ناگزیر حل خطے کے دیگر ممالک کے محنت کش طبقے کی تحریکوں کے ساتھ نامیاتی جڑت پر بھی ہے۔ اس ضمن میں افغانستان کی تاریخ میں ثور انقلاب ہی وہ سنہرا باب ہے جس کی روشنی میں نئی نسل کو اپنا مستقبل تخلیق کرنا ہو گا۔ انہیں پورے خطے کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی یکجہتی سے ایک نیا ثور انقلاب برپا کر کے ادھورا تاریخی فریضہ ادا کرنا ہو گا۔ تاکہ جبر، ظلم، وحشت، استحصال، دہشت گردی اور بربریت کا خاتمہ کر کے حقیقی معنوں میں انسان دوست معاشرے کی قیام کا خواب ممکن ہوسکے۔