|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
آج 2فروری2018ء ہے۔ دو سال پہلے آج کے دن پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز(PIA) کے بہادر کارکنان نے نجکاری مخالف تحریک کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے جناح ٹرمینل کراچی کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مارچ کے دوران کارکنان پر آنسو گیس شیلنگ اور واٹر کینن کے ساتھ ساتھ ڈنڈے بھی برسائے گئے۔ موقع پر تعینات رینجرز اہلکاروں کی طرف سے فائرنگ کے دوران دو کارکنان اسسٹنٹ منیجر IT عنایت رضا اور ائیرکرافٹ انجینئرسلیم اکبر شہید ہو گئے۔ نام نہاد مزدور دوست پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر کراچی میں مزدوروں پر گولیاں چلوا کر اپنے ماضی کے’’ کارناموں‘‘ کی یاد تازہ کر دی۔ شہادت کی خبر پھیلتے ہی مشتعل پی آئی اے ورکرز نے پورے پاکستان میں آٹھ دن تک قومی ائرلائن کی تاریخ کی سب سے طویل مکمل ہڑتال کئے رکھی جس میں ایک جہاز اندرون یا بیرون ملک نہ اڑ سکا۔ لیکن مختلف یونین قیادتوں کی ملی بھگت، مزدور لیڈرشپ کی غداریوں، واضح لائحہ عمل کی عدم موجودگی اور دیگر اداروں کے مزدوروں کے ساتھ جڑت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک شکست سے دو چار ہوئی۔ یاد رہے کہ نہ جناح ٹرمینل کی طرف مارچ کرنے والوں میں صف اول کی یونین قیادت شامل تھی، نہ ہی قیادت نے مکمل ہڑتال کا اعلان کیا تھا اور نہ ہی بعد کے آٹھ دنوں میں قیادتوں نے کوئی فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ عام محنت کشوں نے مختلف یونینوں اور ایسو سی ایشنوں کی حد بندیوں سے بالا تر ہو کرادارے کے ملازم ہونے کے احساس کی جڑت کے ساتھ تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔ اس کوشش میں بہرحال دوسرے اور تیسرے درجے کی یونین قیادتوں کی کچھ پرتیں شامل تھیں جنہیں تحریک کے ختم ہونے کے بعد تادیبی کاروائیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے محنت کشوں نے جان کی بازی تک لگا دی لیکن بزدل اور غدار قیادت اور حکومتی سازشوں نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
آج اس واقعے کو دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ شہید کارکنان کے قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ نجکاری کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ 15 جنوری 2018ء کو نجکاری کے وزیر دانیال عزیز نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کو کوئی نہیں روک سکتا اور 15 اپریل تک ائرلائن کے ’’مرکزی‘‘ کاروبار کو بیچ دیا جائے گا۔ کسی صحافی نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی پارٹی دلچسپی رکھتی ہو تو یہ عمل کتنا وقت لے گا جس کے جواب میں دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ اگر پیسے ہیں تو کل صبح ہی آ کر خرید لو۔ ریاست کا ہر دھڑا اور ہر ادارہ نجکاری کے عمل کی لوٹ مار میں شامل ہے اور اپنا حصہ لینے کے لئے بیقرار ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق کویت اور عمان کے شہر سلالہ کے روٹ بھی یکم فروری سے بند کئے جا چکے ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں 56 سال کے بعد نیویارک کا روٹ بھی بند کر دیا گیا۔ 93-1992ء میں لاگو کی گئی اوپن سکائی پالیسی کے بعد سے اب تک غیر ملکی اور نجی ائرلائنز کو اندرون ملک کام کرنے اور اندرون اور بیرون ملک منافع بخش ترین روٹ بیچنے کا عمل جاری ہے۔ نجکاری کی وجہ پی آئی اے کا بے قابو ہوتا ہوا خسارہ بتایا گیا ہے جو کہ 300 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ نجی اور انٹرنیشنل ائرلائنز کو کاروبار کرنے کی اجازت دینے سے پہلے پی آئی اے کتنے خسارے میں تھا اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ باقی دیگر ائرلائنز، جن میں موجودہ وزیراعظم اور سابق چیئرمین پی آئی اے کی ائرلائن بھی شامل ہے، دیو ہیکل منافعے کیسے سمیٹ رہی ہیں۔ 29 جنوری 2018ء کی ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق پانچ نئی ائر لاینز کو لائسنس جاری کر دیئے گئے ہیں جن میں عسکری ائر، ائر سیال، گو گرین، لبرٹی ائر اور عفیف زارا ائر ویز شامل ہیں۔ ان سے پہلے شاہین، ائر بلیو اور سیرین ائر ملک میں کام کر رہی ہیں۔ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے چیف ایگزیکٹیو افسرشہزاد دادا کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ملک میں ہوائی سفر کرنے والوں کی تعداد 2 کروڑ ہو چکی ہے۔ انٹرنیشنل ائر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA) کے مطابق پاکستان کی ائر لائن انڈسٹری 2020ء تک 9 فیصد سالانہ کی شرح نمو کے ساتھ بڑھے گی۔ اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کاروبار اتنا نقصان دہ اور خسارہ زدہ ہوتا تو نئے کھلاڑی کبھی بھی اس منڈی میں گھسنے کی کوشش نہ کرتے۔ پہلے ہی اماراتی، گلف اور ترک ائرلائنز پی آئی اے کے روٹ اور اثاثہ جات خریدنے کے لئے بیقرار ہیں۔
ریاست نے پی آئی اے کو بیچنے کا وعدہ آئی ایم ایف سے 6.2 ارب ڈالر کے قرضے کے بدلے میں کیا تھا۔ لیکن نئی ائر لائنز کے اجرا، جن میں فوجی ائرلائن بھی شامل ہے، سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست، اشرافیہ، کاروباری وغیرہ سب کی ائرلائن اور ائرپورٹوں کی کھربوں روپے کی مالیت سے بھی کہیں زیادہ کے اثاثوں پر کتنی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد تمام شعبہ جات صوبوں کی صوابدید بن چکے ہیں جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ ملکی سلامتی اور صوبائی امور چلانے کے لئے انتہائی اہم قدم تھا۔ لیکن اب ہر صوبے میں مختلف سیاسی پارٹی کی حکومت ہے۔ ہر صوبے کے تمام سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، ریاستی انفراسٹرکچر، میونسپلٹیوں، اداروں وغیرہ کی نجکاری سے محنت کش طبقے اور سنجیدہ نوجوانوں پر یہ آشکار ہو رہا ہے کہ یہ ترمیم دن دھاڑے ڈاکے اور چوری کے مال میں اپنے اپنے حصے کی سازش تھی۔ اس کے علاوہ نجکاری کے ان تمام اقدامات اور اعلانات کے باوجود یونین اور ایسوسی ایشن قیادتوں کی خاموشی بہت معنی خیز ہے۔ عام کارکنان اور محنت کشوں نے ہمیشہ ثابت کیا کہ وہ جدوجہد، تحریک اور قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہیں جبکہ عام مزدوروں کو بے حسی کا طعنہ دینے کی جرأت کرنے والی نام نہاد مزدور قیادتوں پر خود حالات کا آئینہ ان کی بزدلی عیاں کر رہا ہے جو نہ کوئی لائحہ عمل دینے کے قابل ہیں اور نہ ہی کسی لائحہ عمل پر عمل کرنے کے قابل ہیں۔
اکتوبر 2017ء میں حکومت نے پھر سے نجکاری کے لئے پاکستان کے 70 بڑے اداروں کی ایک نئی فہرست شائع کی ہے جن میں سر فہرست پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور واپڈا ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں، سرمایہ دار، فوجی اشرافیہ، بیوروکریسی اور ریاستی مشینری نجکاری کے پروگرام پر نہ صرف متفق ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ بڑا حصہ لوٹنے کے لئے ایک دوسرے کو ننگا بھی کر رہے ہیں۔ 2 فروری2016 ء کو پی آئی اے محنت کشوں کی شہادت کے بعد کئی اداروں کے محنت کشوں نے بغیر اپنی قیادت کی منشا کے پی آئی اے کے محنت کشوں کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے طبقاتی جڑت اور یکجہتی کا واضح اظہار کیا تھا۔ دو سال کا عرصہ گزر جانے اور روایتی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادتوں کی طرف مسلسل دھوکے بازی کے بعد مختلف اداروں کے محنت کش اب ادراک حاصل کر رہے ہیں کہ صرف طبقاتی جڑت کی بنیاد پر ہی ان تمام دشمنوں سے لڑا جا سکتا ہے۔ اور محنت کش طبقے کا سب سے بڑا ہتھیار، سب سے بڑی طاقت ایک ملک گیر عام ہڑتال ہے۔ آج کا دن مزدور تحریک کے شہدا سے تجدید عہد کا دن ہے کہ تمام اداروں کے محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر جدوجہد کرنا ہو گی جس کا مقصد نجکاری کی پالیسی، نجکاری کمیشن اور وزارت نجکاری کا خاتمہ اور تمام بیچے گئے اداروں کی قومی تحویل میں واپسی ہو۔ صرف اسی طریقے سے آگے بڑھا جا سکتا ہے، صرف اسی طریقے سے لڑا جا سکتا ہے۔ سچے جذبوں کی قسم، فتح ہماری ہو گی!
نجکاری مردہ باد! نجکاری پالیسی مردہ باد! نجکاری کمیشن اور وزارت کا خاتمہ کرو!
تمام بیچے گئے اداروں کو قومی تحویل میں واپس لو! شہید مزدوروں کے قاتلوں کو پھانسی دو!
نجکاری کے حملے کا جواب۔۔۔ عام ہڑتال!
مزدور اتحاد زندہ باد!