دکی میں 21 کان کنوں کا قتل عام: قاتل کون اور قاتلوں کی گرفتاری پر مجرمانہ خاموشی کیوں؟

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، بلوچستان|

گزشتہ ماہ 10 اور 11 اکتوبر کی رات دکی میں نامعلوم مسلح افراد نے مختلف کوئلہ کانوں کو حملوں میں نشانہ بنایا جہاں 21 کان کن ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں قتل ہونے والے مزدوروں کی اکثریت لورالائی، قلعہ سیف اللہ، ژوب، ہرنائی اور کچلاک، جبکہ تین محنت کشوں کا تعلق افغانستان سے تھا۔

اس حملے میں مسلح افراد کے کول مائینز ایریا میں مزدوروں پر ملزمان نے راکٹ لانچرز، ہینڈ گرنیڈ و دیگر بھاری اسلحہ کااستعمال کیا، جس کے نتیجے میں 21 کان کن موقع ہی پر جاں بحق ہو گئے۔ جبکہ سات مزدور تاحال مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

اس واقعے میں کون ملوث ہیں کون نہیں بہرحال حسب معمول ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے اور اس پورے قصے پر مٹی ڈالنے کے لیے نااہل صوبائی حکومت کی جانب سے وزراء پر مشتمل کمیٹی بھیجی گئی جنہوں نے ہلاک شدگان اور زخمی ہونے والے کان کنوں کے لواحقین میں 10 سے 15 لاکھ روپے تقسیم کیے اور پورے معاملے کو رفع دفع کیا۔

یاد رہے کہ بلوچستان کے پشتون علاقے بھی اس وقت دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں ہیں، جس میں گزشتہ دو سالوں سے وقتاً فوقتاً اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بالخصوص اگر محض کول مائینز ایریا کے حوالے سے بات کی جائے تو مچھ، ہرنائی، دکی اور کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں میں مسلسل کان کنوں کی جبری گمشدگی، اغوا برائے تاوان اور ان کے مارنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہاں تک کہ کان کنوں کو کول مائنز کے اندر بھی نہیں بخشا جاتا۔

بالخصوص اگر ہم مچھ کے واقعے کے حوالے سے بات کریں جہاں پر 11 ہزارہ محنت کشوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ذبح کیا گیا تھا اور ان تمام تر واقعات کی اطلاعی رپورٹوں میں نامعلوم افراد کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے لواحقین میں چند لاکھ روپے تقسیم کر کے معاملے کو رفع دفع کیا جاتا ہے اور دکی میں ہونے والی واقعے کے دوران بھی یہی فارمولا لاگو کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں نکلتی ہیں، جس میں اگر ہم صرف دکی کے واقعے کو مدنظر رکھتے ہیں، تو معمول کے اوقات میں دکی سے نکلنے والی 200 سے زیادہ ٹرک گاڑیاں نکلتی تھیں جن میں 35 ٹن سے لے کر 40 ٹن کی گاڑیاں شامل ہیں اور فی ٹن 230 روپے سیکیورٹی کی مد میں فرنٹیئر کور کو ادا کیے جاتے ہیں۔ یعنی 35 ٹن گاڑی پر 8050 اور 40 ٹن گاڑی پر 9200 روپے صرف سیکیورٹی کی مد میں (ایف سی) وصول کرتی ہے۔

جبکہ یہی ادارے کول مائنز کے کان کنوں اور ٹرانسپورٹرز کو سیکیورٹی دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے کول مائنز میں پرائیویٹ سیکیورٹی رکھنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

اگر مخصوص واقعے کے حوالے سے ذکر کیا جائے، تو ریاستی اداروں نے تمام تر ملبہ بلوچ مسلح حریت پسند تنظیم پر ڈال دیا، جنہوں نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے مکمل انکار کیا۔ عینی شاہدین اور کول مائنز سے منسلک لوگوں کے مطابق اس واقعے میں بلوچ مسلح حریت پسند تنظیم ملوث نہیں ہے بلکہ وہ اس واقعے میں ریاستی اداروں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

کیونکہ ان کے پاس ایسے کئی شواہد موجود ہیں، جن میں بھتہ لینے، گاڑیوں کو جلانے اور اغواء برائے تاوان کے واقعات سیکیورٹی اداروں کے چیک پوسٹوں کے قریب ہوتے ہیں، جن میں کافی حد تک سیکیورٹی اداروں کو کلین چٹ نہیں دیا جا سکتا۔

سیکیورٹی ادارے معمول کے اوقات میں 200 گاڑیوں کے حساب سے ایک دن میں 16 لاکھ روپے سیکیورٹی کی مد میں لیتے ہیں، مگر سیکیورٹی نہیں دی جاتی۔ بلکہ الٹا سیکیورٹی اداروں کی جانب سے لوگوں کو تنگ کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا مؤقف یہی ہے کہ سیکیورٹی ادارے کول مائنز ورکرز اور ان سے منسلک دیگر لوگوں کو سیکیورٹی دینے میں مکمل طور ناکام ہو چکے ہیں، لہٰذا کول مائنز ورکرز کو اپنی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے دفاعی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی۔ جس میں کول مائنز سے ملحقہ علاقوں کے عام نوجوانوں کو بھی اس کا حصہ بنانا ہو گا۔

اس کے علاوہ کول مائنز ورکرز کی آزادانہ بنیادوں پر یونینز بنانے کی آزادی ہونی چاہیے، تاکہ روزانہ کی بنیاد پر کول مائنز میں کان کنوں کی دیگر وجوہات کی بنیاد پر ہلاکتوں کا بھی سد باب کیا جا سکے۔

Comments are closed.