|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|5 جنوری 2018ء
ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کا استقبال اپنے ہی نرالے انداز میں کیا: فلوریڈا میں امرا کی تسکین کے لئے اپنے پر تعیش تفریحی ’مار آ لاگو‘ کلب میں اپنے سیاسی اور سماجی حواریوں کے ساتھ جس میں امریکی سماج کی اشرافیہ کے تمام نمائندگان، فلمی ستاروں سے لے کر ارب پتیوں تک، موجود تھے۔
To read this article in English, click here
’’2018ء کا سال انتہائی شاندار ہو گا‘‘، کلب کے شاندار رقص ہال سے نکلتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے مہمانوں کو یقین دلایا۔ اس کے ہمراہ ہمیشہ کی طرح ایک مصنوعی مسکراہٹ سجائے میلانیا ٹرمپ اور اس کا کاٹھ کا بندر نما بیٹا بیرن بھی تھے۔ ٹرمپ نے پیش گوئی کی کہ اسٹاک مارکیٹ زیادہ سے زیادہ منافع کماتی جائے گی اور کاروبار امریکہ کی طرف ’’بڑی تیزی کے ساتھ‘‘ واپس لوٹے گا۔
یہ تمام بڑھکیں اس کے امیر دوستوں کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں، اپنے فیاض ہیرو کی اعلان کردہ ٹیکس کٹوتیوں اور ممکنہ ہوشربا منافعوں کا سوچ سوچ کر ان کی رالیں ٹپکے جا رہی تھیں۔ یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا جسے فلم ’’گاڈ فادر‘‘ کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔
سال 2017ء
نئے سال کو خوش آمدید کہنے سے قبل ہمارا فریضہ ہے کہ ہم گزشتہ سال کو ایک لاش کی طرح باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہوئے دفنائیں۔ پچھلے سال جنوری میں برائن کلاس، لندن اسکول آف اکانومکس کے فیلو نے CNBC کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’میرا خیال ہے کہ یہ سال دوسری عالمی جنگ کے بعد سیاسی عدم استحکام کا سب سے خطرناک سال ہے‘‘۔ وہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ صرف پچھلے بارہ مہینوں میں ہونے والے ناقابل یقین واقعات کو ہی لے لیں۔ بیتا سال سیاسی زلزوں کا سال تھا۔ اور وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کی گیدڑ بھبکیوں کے باوجود، 2018ء کا سال عالمی سرمایہ داری کے لئے اور بھی کٹھن ثابت ہو گا۔
ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ تھیوری کی وضاحت کی تھی کہ یہ حیرانی پر پیش بینی کی برتری ہے۔ لیکن 2017ء میں بے تحاشہ حیران کن واقعات رونما ہوئے اور سب سے زیادہ حیران بورژوازی کے نام نہاد ماہرین تھے۔ بارہ مہینے پہلے کون یہ سوچ سکتا تھا کہ لیبر پارٹی پر 20 اشاریوں کی برتری کے باوجود برطانوی کنزرویٹیوپارٹی عام انتخابات میں شرمناک شکست کھائے گی اور سال کا اختتام جیرمی کوربن کے بطور برطانیہ کے مقبول ترین سیاست دان کے طور پر ہو گا؟
کس نے سوچا تھا کہ سال کے آخر تک کیٹالونیا کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے قائد جیل میں بیٹھے کسی انتخابات میں حصہ لے رہے ہوں گے اور کیٹالونیا کا صدر برسلز میں سیاسی جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہو گا؟
کس نے سوچا تھا کہ فرانسیسی عام انتخابات میں دو مرکزی پارٹیاں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں سرے سے موجود ہی نہیں ہوں گی؟ اور کس نے سوچا تھا کہ امریکی رپبلیکن پارٹی الاباما میں انتخابات ہار جائے گی، جو قدامت پسند مذہبی دائیں بازو کا ایک محفوظ قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔
کس نے سوچا تھا کہ موگابے کو دہائیوں حکومت کرنے کے بعد تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا اور جیکب زوما ANC پر اپنی گرفت کھو دے گا؟
یہ پچھلے بارہ مہینوں کے انگنت سیاسی زلزلوں میں سے محض چند ایک ہیں۔ یہ واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن مارکسی تناظر میں یہ عالمی سرمایہ داری کے عمومی بحران کی علامات ہیں جن کا اظہار، سب سے طاقتور سرمایہ دار ملک امریکہ سمیت ہر جگہ سیاسی انتشار میں ہو رہا ہے۔
بورژوازی کی قنوطیت
سرمائے کے سنجید ہ حکمت کار اکثر انہی نتائج پر پہنچ جاتے ہیں جن پر مارکس وادی پہنچتے ہیں، لیکن فطری طور پر اپنے طبقاتی مفادات کی عینک سے۔ مسٹر ٹرمپ نے جس طرح کی دلکش منظر کشی کی ہے، اس سے کوئی سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگار اتفاق نہیں کرتا۔ ۔ بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔
یوریشیا گروپ ایک اچھی شہرت والا مشاورتی ادارہ ہے جو سرمایہ داروں کو پوری دنیا میں ممکنہ خطرات سے آگاہ کرتا رہتا ہے، حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ میں اولین جیو پولیٹیکل خطرات کے حوالے سے خبردار کرتا ہے کہ پوری دنیا ایک بحران اور ’’جیو پولیٹیکل انحطاط‘‘ کی جانب بڑھ رہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت بذات خود اس عدم استحکام کا موجب بن رہی ہے: اندرونی، بیرونی اورعالمی تفرقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور دہائیوں میں تعمیر کردہ عالمی نظم کو تیزی سے تباہ و برباد کر رہا ہے۔
یوریشیا گروپ نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ لبرل (یعنی بورژوا) جمہوریں ’’عالمی جنگ کے بعد سے سب سے زیادہ عدم اعتماد ‘‘ کا شکار ہیں، لیڈر حقیقت سے بالکل لاتعلق ہیں اور اس سیاسی انتشار کی وجہ سے ایسے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں کہ کوئی بھی ایک بڑا واقعہ عالمی معیشت اور منڈی پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
رپورٹ ایک ایسے جملے کے ساتھ شرع ہوتی ہے جسے مسٹر ٹرمپ کے معیشت کے حوالے سے تعریفی کلمات کے ممکنہ جواب کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے(لیکن شاید یہ الفاظ ٹرمپ کی نئے سال کی پارٹی سے پہلے لکھے گئے تھے): ’’ہاں، منڈیوں میں تیزی کا رجحان ہے اور معیشت کی حالت بھی ٹھیک ہے لیکن عوام بٹی ہوئی ہے۔ حکومتوں کے پاس حکومت برائے نام ہے۔ اور عالمی نظم بکھر رہا ہے۔ ‘‘
اس رپورٹ کے اخذ کردہ نتائج اور وائٹ ہاؤس میں موجود شخص کی پیش گوئیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے: ’’یورو ایشیا گروپ کو بنے 20 سال گزر چکے اور اس دوران عالمی ماحول میں اونچ نیچ ہوتی رہی ہے۔ لیکن اگر ہمیں دیو ہیکل غیر متوقع بحرانات کے لئے کوئی ایک سال چننا پڑے۔ ۔ 2008ء کے معاشی بحران کے مصداق جیو پولیٹیکل بحران۔۔۔تو وہ 2018ء ہے۔
ٹرمپ کا کردار
2017ء کا آغاز 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے ہوا۔ یہ واقعہ بذات خود ایک زبردست سیاسی زلزلہ تھا۔ ظاہر ہے دنیا کے تمام مسائل کے لئے ایک شخص کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو بحران کا حل بہت سادہ ہوتا: ٹرمپ سے جان چھڑاؤ اور اس کی جگہ کسی ’’ذمہ دار‘‘ صدر (یعنی ڈیموکریٹ) کو لگا دیا جائے۔ لیکن کوئی ایسی وجہ موجود نہیں کہ یہ سوچا جائے کہ ہیلری کلنٹن یا کسی بھی ’’سیاسی مرکز‘‘کے ہیرو کی موجودگی میں حالات مختلف ہوتے۔
دیو ہیکل تاریخی عوامل کو کسی شخصیت کے کردار میں پرکھنا تاریخ کے ساتھ شدید ناانصافی ہے۔ معمولی سطحی تحقیق بھی اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ مارکسزم انسانی تاریخ کے ان عوامل کی تحقیق کا نام ہے جو سطح سے نیچے پنپ رہے ہوتے ہیں اور وہ بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں جن پر افراد اپنا کردار ادا کر تے ہیں۔ لیکن حتمی طور پر یہ فیصلہ کن بنیادی تجزیہ اس محرک کا مکمل حل نہیں ہے۔
اگر افراد کے کرداروں کے ذریعے تاریخ کی تشریح کرنا اس قدر سادہ ہے کہ اسے سنجیدہ ہی نہیں لیا جا سکتا تو دوسری طرف شخصیات کے کردار کو مکمل طور پر رد کر دینا بھی اتنا ہی سادہ اور غلط ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن مکمل آزادی کے ساتھ نہیں بلکہ ان معروضی عوامل کے تحت جو ان کے کنٹرول میں نہیں ہوتے، یہاں تک کہ انہیں ان کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ اپنے عمل سے انفرادی کردار کے صورتحال پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے واقعات کے نتائج تبدیل ہو سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس مظہر کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ امریکی حکمران طبقہ ڈونلڈ ٹرمپ سے خوش نہیں تھا۔ وہ ابھی بھی ناخوش ہیں اور اس سے جان چھڑانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ پچھلے سو سالوں سے امریکی سیاست کے دو بنیادی ستون تھے: ریپبلیکن اور ڈیموکریٹس۔ پورے نظام کا استحکام اس توازن پر منحصر تھا۔
ٹرمپ ارب پتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوفناک انا پرست اور ماہر فتنہ پرور ہے۔ لیکن تضاد یہ ہے کہ ٹرمپ نے خاص طور پر غریب ترین پرتوں کو اپنی طرف مائل کیا ہے۔ وہ محنت کش طبقے کے بارے میں بہت کچھ کہتا ہے؛ ایک ایسا عنصر جس کا امریکی سیاست میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ظاہر ہے یہ تمام لفاظی جھوٹ ہے لیکن جب وہ بند فیکٹریوں اور کانوں کی بات کرتا ہے تو پریشان حال لوگوں میں امید کی کرن جاگ اٹھتی ہے۔ لاکھوں امریکی اس حوالے سے اس کی طرف مائل ہوئے جو اس نظام سے تنگ آ چکے ہیں جس کے تحت وہ غربت اور بیروزگاری کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔
حقیقت میں ٹرمپ بڑے کاروبار کا حقیقی نمائندہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کا اصلی، مکروہ اور بدنما چہرہ ہے، جبکہ معتدل سرمایہ داری اپنے جوہر کو ایک مسکراتے بہروپ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ ٹرمپ نے یہ دھوکہ فاش کر دیا ہے اور اس وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اس سے نفرت کرتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سوچتی تھی کہ وہ اس شخص کو کنٹرول کر سکتی ہے جس کی وہ ہر ممکن شکست چاہتے تھے پر ایسا نہ کر پائے۔ انہیں زیادہ عرصہ سوچنا نہیں پڑا۔ امریکہ کے پینتالیسویں صدر کو امر ہونے کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ اس نے ’’مختلف انداز میں کام ‘‘ کرنے کے وعدے پر انتخابی مہم لڑی۔ فی الحال وہ اپنے وعدے پر مستعدی سے پابند ہے۔
اس نے انتہائی کامیابی کے ساتھ عالمی تضادات کو اور زیادہ گہرا اور گھمبیر کر دیا ہے: امریکہ اور چین کے درمیان؛ امریکہ اور یورپ کے درمیان؛امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے درمیان۔ اس نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تضاد کو مزید تیز کر دیا ہے اور شمالی کوریا کے ساتھ بے قابو بدمعاشی کی ایسی فضا بنا دی ہے جس کی وجہ سے جنوبی کوریا اور جاپان، پینگ یانگ کے ’’راکٹ مین‘‘ کے اہداف بن گئے ہیں۔
امورخارجہ میں ٹرمپ کی مہم جوئیوں کی پوری عالمی سفارتکاری کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وہ کانچ کی دکان میں بے قابو بھینسا نہیں بلکہ ہاتھی ہے۔ پریشان کن، متضاد اور اکثر ناقابل فہم خارجہ پالیسی کی فاش غلطیوں کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ اس وقت مایوسی اور شاک کاشکار ہے جبکہ اس کے وحشیانہ ٹوئٹ مستقل کسی نئی مصیبت کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔
سب سے پہلے امریکہ کا نظریہ پرانی تنہائی پسندی کا نیا نام ہے جو ہمیشہ امریکی سیاست کا خاصہ رہی ہے۔ لیکن امریکہ کے قریبی ترین حلیف پریشان ہیں کہ جب ٹرمپ یہ کہتا ہے کہ وہ ’’امریکہ کو دوبارہ عظیم‘‘ بنا دے گا تو اس کے مطلب ہے کہ اس کی قیمت انہیں چکانی پڑے گی۔ اور وہ غلط نہیں سوچ رہے۔ اگر پہلے نام نہاد مغربی اتحاد میں کچھ دراڑیں موجود تھیں تو وہ اب پھیل کر خلیج بن چکی ہیں۔
یوریشیا گروپ کے صدر ایان بریمر اور چیئرمین کلف کوپچان نے تنبیہ کی ہے کہ امریکی عالمی قوت ’’جھٹکے کھاتے ہوئے رک ‘‘ رہی ہے اور ٹرمپ کے فلسفۂ تخفیف اور یکطرفہ کاروائیوں سے دوست اور دشمن دونوں کنفیوژ ہو رہے ہیں۔ یوریشیا گروپ کا کہنا ہے کہ، ’’’سب سے پہلے امریکہ‘ اور اس نظرئیے سے پیدا ہونے والی پالیسیاں، ایسی کیفیت میں جب کوئی دوسرا ملک یا ملکوں کا گروہ اس کوشش کے لئے تیار نہیں ہے، عالمی خطرات کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں۔ ‘‘ یہ حقیقت کا درست تجزیہ ہے۔
امریکہ میں ریڈیکلائزیشن
صرف بارہ مہینوں کے عرصے میں یہ وائٹ ہاؤس کی یقیناًقابل ذکر کامیابیاں ہیں۔ ٹرمپ کی عالمی سٹیج پر آمد یقیناًامریکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ لیکن ایک اور بھی وجہ ہے جس نے حکمران طبقے کو ٹرمپ کے حوالے سے مایوس کیا ہوا ہے۔ بنیادی میکانکس ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہر عمل کا برابر رد عمل ہوتا ہے۔ امریکی سماج اور سیاست میں تضادات پہلے ہی موجود تھے۔ انہیں مسٹر ٹرمپ نے تخلیق نہیں کیا۔ لیکن اس کے الفاظ اور عمل نے امریکی سماج میں موجود تضادات کو اور زیادہ شدید کر دیا ہے اور اس کی وجہ سے وہاں قابل ذکر ریڈیکلائزیشن ہورہی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی آمد کے بعد پورے ملک میں ان دیکھے عوامی احتجاج ہوئے۔ خواتین کے احتجاج شاید امریکی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج ہیں۔ لاس اینجلس، واشنگٹن ڈی سی، نیو یارک، شکاگو، سیاٹل اور دیگر امریکی شہروں اور قصبوں میں 33-46 لاکھ لوگوں نے احتجاجی مارچ کئے۔ یہ احتجاج آنے والے وقت کی نوید ہیں۔
سال کا اختتام الاباما میں رپبلیکن پارٹی کی حیران کن شکست کے ساتھ ہوا: ایک قدامت پسند اور روایتی رپبلیکن سینیٹ سیٹ جسے ٹرمپ نے عام انتخابات میں 30 فیصد ووٹوں کی برتری سے جیتا تھا۔ یہ پھر ایک سیاسی زلزلہ تھا جس کی کوئی بھی ’’ماہر‘‘ یا رائے شماری پیش گوئی کرنے سے قاصر تھی۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ٹرمپ کتنا عرصہ قائم دائم رہ سکتا ہے۔ اس وقت اس کی سب سے بڑی حمایت ڈیموکریٹس کا سیاسی دیولیہ پن اور محنت کش طبقے کے تحرک میں تاخیر ہے۔ حکمران طبقے کی بے مثال کھلے عام لڑائیوں کے باوجود موجودہ حکومت لڑکھڑاتی چلتی رہے گی۔ پہلے کب ہم نے ایک امریکی صدر اور میڈیا، CIA، FBI اور تمام امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان کھلم کھلا لڑائی دیکھی ہے؟
مسٹر ٹرمپ کے پر اعتماد شیخیاں بگھارنے کے باوجود سال 2018ء میں ہم اس طرح کے اور واقعات ہوتے دیکھیں گے جو حقیقت میں موجودہ عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کی حقیقی عکاسی ہے۔
فرانس اور برطانیہ
مارکس وادیوں کے لئے ان سیاسی زلزوں کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ سرمایہ داری کا بحران اپنا اظہار عمومی سیاسی، سماجی اور معاشی عدم استحکام میں کرتا ہے۔ 2008ء کے عالمی بحران کے دس سال بعد بھی بورژوازی کے پاس کوئی حل موجود نہیں ہے۔ تمام حکومتوں کی معاشی توازن کو از سر نو قائم کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور ان کا نتیجہ مزید سماجی اور سیاسی توازن کو تباہ کرنا ہی نکلا ہے۔
ہم یہ عمل یکے بعد دیگرے تمام ملکوں میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی مکمل نفی ہونے کے باوجود ٹرمپ اور برنی سینڈرز اسی عمل کے مختلف مظاہر ہیں۔ ان میں جیرمی کوربن، فرانس کا میلنشوں، یونان میں سائریزا اور اسپین میں پوڈیموس بھی شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل سماج کی تہوں میں موجود عمومی عدم اطمینان، غصے اور پریشانی کا اظہار ہیں۔ اس کی وجہ سے بورژوازی اور ا س کے پالیسی سازوں میں انتہائی سنجیدہ پریشانی پھیل رہی ہے۔
ہر لمحہ ’’بڑھتے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات‘‘ کی وجہ سے جمہوری ممالک کے سیاسی اداروں میں عدم اعتماد بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے جس میں میڈیا اور انتخابی عمل بھی شامل ہو چکا ہے۔ ان اداروں میں کمزوریوں کا نتیجہ عدم استحکام، آمریت، انہونی پالیسیوں اور تصادم میں نکل سکتا ہے۔
ہم امریکہ میں اور باقی ہر جگہ سیاسی اعتدال پسندی کا انہدام دیکھ رہے ہیں۔ غیر منتخب مٹھی بھر امرا کے لئے یہ صورتحال خوش آئند نہیں ہے۔ وہ درست طور پر دائیں اور بائیں بازو کی بڑھتی پولرائزیشن کو اپنے مفادات کے لئے خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اسی لئے وہ مئی میں خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے جب ایک واجبی ’’اعتدال پسند ‘‘ امیدوار ایمانوئل میکرون، مارین لی پین کو شکست دے کر فرانس کی تاریخ کا سب سے کم عمر صدر بن گیا۔ روایتی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک بھی انتخابی عمل کے دوسرے مرحلے تک نہیں پہنچ سکیں۔ میڈیا نے اس حوالے سے بہت زیادہ شور مچایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ میکرون مکمل انتخابی برتری حاصل کر چکا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ مکمل برتری درحقیقت یہ تھی کہ 70 فیصد عوام نے انتخابات میں ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ نہ ہی میڈیا نے اس بات پر دھیان دیا کہ فرانس کا سب سے زیادہ مقبول بائیں بازو کا سیاست دان جان لاک میلنشوں ہے۔
درحقیقت سیاسی اعتدال پسندی ایک دھوکہ ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ سماج میں دو گروہوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے؛ ایک مٹھی بھر گروہ جو نظام کو کنٹرول کرتا ہے اور دوسری طرف عوام جو غریب سے غریب تر ہونے کے ساتھ ساتھ کھلم کھلا نظام کے خلاف بغاوت پر اتر آئی ہے۔ ’’سیاسی اعتدال پسندی کو گرفت میں لینا‘‘ ٹونی بلیئر کا منصوبہ تھا(’نیو لیبر‘ کا بانی اور 2007-1997ء میں برطانیہ کا وزیر اعظم)۔
یہ منصوبہ بچگانہ حد تک سادہ ہے؛ مختلف طبقات کی نمائندہ پارٹیوں کے درمیان کسی افہام و تفہیم سے کسی معاہدے تک پہنچا جائے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے۔ ایسا کوئی بھی معاہدہ ناممکن ہے کیونکہ طبقات کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ معاشی بڑھوتری کے دور میں اس تفرقے پر وقتی طور پر پردہ تو ڈالا جا سکتا ہے لیکن موجودہ صورتحال کی طرح یہ تفاوت کھل کر عیاں ہو جاتی ہے جب سرمایہ داری شدید بحران میں ہو۔
جون 2016ء میں بریگزٹ کا ووٹ برطانیہ کے لئے اندھے کنویں میں چھلانگ ثابت ہوا۔ یہ ایک اور دیوہیکل سیاسی زلزلہ ثابت ہوا جس کے نتائج اب آنا شروع ہو گئے ہیں۔ برطانیہ کی کمزور ہوتی مذاکراتی پوزیشن کو بہتر کرنے کے لئے تھریسا مے نے سراسیمگی میں اچانک انتخابات کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ اس مفروضے پر کیا گیا تھا (جس سے ہر شخص متفق تھا) کہ کنزرویٹیو پارٹی کو شکست ہو ہی نہیں سکتی۔
بیشتر رائے شماریوں میں ٹوری پارٹی کو لیبر پارٹی پر 20عشاریوں کی برتری حاصل تھی۔ میڈیا اپنی رائے میں متفق تھا کہ بائیں بازو کے جیرمی کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کبھی انتخابات جیت ہی نہیں سکتی۔ یاد رہے کہ لیبر کے دائیں بازو کی پارلیمانی لیبر پارٹی میں دیوہیکل اکثریت ہے اور وہ پچھلے دو سالوں سے ہر ممکن طریقے سے اسے پارٹی سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں میڈیا ان کے ساتھ لیبر پارٹی لیڈر کے خلاف بے مثال بدنامی مہم چلائے ہوئے ہے۔
ان کی تمام محنت رائیگاں گئی۔ لیکن وہ ایک مرتبہ پھر لیبر پارٹی کی شکست کے نتیجے میں کوربن کو نکالنے کی کوشش کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس کے لئے ان کی تمام خواہشات اور کوششیں عروج پر تھیں۔ لیکن تمام لوگوں کی امیدوں کے برعکس لیبر پارٹی نے ایک بائیں بازو کے پروگرام پر انتخابات لڑے اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ پارلیمنٹ میں کنزرویٹیو پارٹی اپنی اکثریت کھو بیٹھی اور ناقابل منتخب جیرمی کوربن برطانیہ کا مقبول ترین سیاست دان بن گیا۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب برطانیہ یورپ کے مستحکم ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ اس وقت وہ سب سے زیادہ غیر مستحکم ممالک میں سے ایک ہے۔ بریگزٹ کے نتائج اور سکاٹ لینڈ میں سلگتی بغاوت، دونوں شدید مایوسی اور بیزاری کی علامات ہیں جنہیں پہلے اپنا اظہار کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ جیرمی کوربن کی ذات میں اس عوامی غم و غصے کو سیاسی اظہار کا موقعہ مل گیا ہے جو اس حقیقت کی ٹھوس دلیل ہے کہ بائیں بازو کی سیاست کی جانب عوامی جھکاؤ سے برطانوی عالمی مارکسی رجحان کے لئے شاندار انقلابی مواقع کھل رہے ہیں۔ ان مواقع کی سمجھ بوجھ صرف اسی رجحان کو ہے جبکہ دیگر نام نہاد ٹراٹسکائیٹ فرقے دہائیوں سے ان ممکنات سے انکاری ہیں۔
کیٹالونیا
کیٹالونیا کا بحران ہسپانوی سرمایہ داری کے بند گلی میں پھنس جانے کی عکاسی ہے اور یہ مظہر بذات خود سٹالن ازم اور اصلاح پسندی کی غداری کی عکاسی ہے جس کے نتیجے میں 1978ء کے آئین کا قتل ہو گیا۔ اس غداری کے نتیجے میں گلے سڑے ہسپانوی حکمران طبقے کو فرانکو آمریت کی اہم باقیات کو ’’جمہوریت‘‘ کے پردے میں چھپانے کا موقع مل گیا۔
اب 40 سال بعد مکافات عمل جاری ہے۔ کیٹالونی عوام نے اس وقت ہسپانوی جمہوریت کا مزہ چکھ لیا جب ان نہتے اور غیر محفوظ لوگوں، مرو زن، بچوں اور بوڑھوں پر بلاتخصیص پولیس ڈنڈے برسا رہی تھی۔ جن کا ایک ہی ’’جرم‘ تھا کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے لئے ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہتے تھے۔
اس تحریک کے قائدین نے پوری کوشش کی کہ وہ میڈرڈ میں دائیں بازو کی راجوئے حکومت کو کسی طرح یہ یقین دلا دیں کہ وہ آزادی کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک آزاد کیٹالونیا کا ’’اعلان‘‘ تو کر دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا کہ ’’اس پر عمل نہیں کیا جائے گا‘‘۔ انہوں نے بالکل جرنیلوں والی حرکت کی جو فوج کو متحرک کر کے، جنگ کا طبل بجا کر، دشمن کو رد عمل پر مجبور کر کے سفید جھنڈا لہرانا شرو ع کر دیتے ہیں۔ فوج کو اس سے زیادہ مایوس کرنے کا طریقہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
لیکن اگر کیٹالونی قائدین کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس چالبازی سے وہ اپنے مخالفین کے عتاب سے بچ جائیں کہ تو یہ ان کی بھول ثابت ہوئی۔ کمزوری تشدد کے لئے دعوت عام ہے۔ میڈرڈ کی قوتوں نے آزادی تحریک کے مرکزی قائدین کو گرفتار کر لیا، آزاد کیٹالون حکومت کے دائرہ اختیار کو ختم کر دیا اور آزادی تحریک کو کچلنے کے لئے براہ راست حکومت مسلط کر دی۔ کیٹالونی صدر کارلز پجڈیمونٹ کو بلجیم بھاگنا پڑا۔
کیٹالون قوم پرست بورژوازی کی بچگانہ خام خیالی تھی کہ اس معاملے میں وہ یورپی یونین کی معاونت حاصل کر لیں گے لیکن جلد ہی ان کی طبیعت صاف ہو گئی۔ برسلز اور برلن نے انہیں واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ کیٹالون ریاست کو یورپ کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ یورپی یونین کے نام نہاد جمہوری قائدین کی حقیقت ہے!
لیکن اگر حکمران پارٹی PP کا خیال تھا کہ وہ شدید تشدد کر کے اس مسئلے کو حل کر لیں گے تو ان کا خیال بھی غلط ثابت ہوا۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ انقلاب کو رد انقلابی چابک کی ضرورت ہوتی ہے۔ 21اکتوبر کو 4 لاکھ 50 ہزار لوگوں نے بارسلونا میں مارچ کیا جبکہ ہزاروں لاکھوں لوگوں نے پورے کیٹالونیا کے دیگر شہروں اور قصبوں میں اکٹھے ہو کر قید قائدین کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔
21 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کا نتیجہ ہسپانوی حکومت کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ثابت ہوئے۔ یہ انتخابات ایسے غیر معمولی حالات میں منعقد کئے گئے جب ہسپانوی ریاست کیٹالون حکومت کو برخاست کر کے کیٹالون پارلیمنٹ کو تحلیل کر چکی تھی۔ حریت پسند پارٹیوں کے آٹھ قائدین یا تو جیلوں میں ہیں یا پھر جلا وطن ہیں اور اس وجہ سے وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے۔ انہیں جیل اتھارٹی کی طرف سے انتخابی مہم کے لئے اسمگل کئے گئے پیغامات کی سزا بھی دی گئی۔ یہ تمام تر اقدامات 1978ء کے بنائے گئے آئین کے آرٹیکل 155 کے تحت کئے گئے۔
اس سب کے باوجود، 81.94 فیصد شمولیت کے ساتھ یہ نہ صرف کیٹالون کی تاریخ بلکہ اسپین کی تاریخ میں سب سے زیادہ عوامی شمولیت والے انتخابات ثابت ہوئے۔ ہسپانوی حکمران پارٹی PP کی کیٹالونیا میں صرف تین سیٹیں رہ گئیں اور حریت پسند بلاک نے ایک بار پھر کیٹالون پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لی۔ یعنی اس وقت تمام شامل عناصر کو اسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں سے چلے تھے۔
اگلے چند مہینوں میں جو بھی ہو، کیٹالون اور اسپین ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایسی قوتیں بے قابو ہو چکی ہیں جو جھوٹے اور دوغلے ’’اتفاق رائے‘‘کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گی جس کی وجہ سے عوام کو دھوکہ دے کر ایک حقیقی جمہوریت کے بجائے فرانکو کی نفرت زدہ آمریت کو قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ راجوئے اور PP اس آمریت کے حقیقی جانشین ہیں جس نے ماضی میں عوام کو کچل کر رکھ دیا اور آج بھی کچل رہی ہے۔
کیٹالونیا میں عوامی تحریک اس آمریت کے خلاف بغاوت کی شروعات ہیں۔ اس بغاوت کی پرجوش اور سرگرم روح جلد یا بدیر پورے ملک میں اپنا اظہار کرے گی۔
امارت اور غربت
ہر جگہ مسلسل بڑھتا غم و غصہ شدید تفاوت کی علامت ہے: عرصہ دراز پہلے مارکس کی سرمائے کے ارتکاز کی پیش گوئی جس کی معیشت دان اور سماجی سائنسدان پہلے دن سے مخالفت کرتے آ رہے ہیں۔
آج کون ہے جو مارکس کی پیش گوئی کی سچائی کو جھٹلا سکتا ہے؟ سرمائے کا ارتکاز کسی لیبارٹری میں کامیاب تجربے کی طرح ہوا ہے۔ 200 سے کم دیو ہیکل کمپنیاں ساری دنیا کی تجارت پر قابض ہیں۔ مکروہ حد تک دولت چند ہاتھوں میں جمع ہے۔ صرف 2017ء میں دنیا کے تمام ارب پتیوں نے اپنی دولت میں پانچویں حصے کے برابر اضافہ کیا۔
UBS بینک کے الٹرا ہائی نیٹ ورتھ ڈویژن کے عالمی سربراہ جوزف سٹیڈلر کے مطابق، آج ’’1905ء کے بعد سے دولت کی غیر مساوی تقسیم سب سے زیادہ ہے۔ ‘‘ امیر ترین لوگوں اور عوام کے درمیان عدم مساوات کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کے 1 فیصد امیر ترین لوگ آدھی دنیا کی دولت پر قابض ہیں۔
کریڈٹ سوئس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد دنیا کے امیر ترین لوگوں نے اپنی دولت 42 فیصد سے بڑھا کر 2017ء میں 50.1فیصد کر لی (140 ٹریلین ڈالر)۔ رپورٹ آگاہ کرتی ہے کہ:
’’1فیصد کا دولت میں حصہ بحران کے بعد سے مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے، جس میں 2013ء میں 2000ء کی سطح کو عبور کر لیا گیا اور اس کے بعد سے ہر سال ایک نئی سطح عبور ہو رہی ہے‘‘۔ بینک نے کہا کہ، ’’عالمی سطح پر دولت کی غیر مساوی تقسیم یقیناًبہت زیادہ ہے اور بحران کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ‘‘
پہلے سے بے تحاشہ امیر لوگوں میں اضافے کی وجہ سے پچھلے سال 23 لاکھ نئے کروڑ پتی بنے جس کے بعد پوری دنیا میں کروڑ پتیوں کی تعداد 3.6 کروڑ ہو چکی ہے۔ ’’کروڑ پتیوں کی تعداد 2008ء میں گر گئی تھی لیکن بحران کے بعد تیزی سے بحال ہو کر اس وقت 2000ء کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ ‘‘
یہ کروڑ پتی، جو کہ پوری دنیا کی بالغ آبادی کا 0.7 فیصد بنتے ہیں، پوری دنیا کی دولت کا 46 فیصد کنٹرول کرتے ہیں جو کہ 280ٹریلین ہوشربا ڈالر بنتا ہے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسری طرف، دنیا کے 3.5 غریب ترین بالغان کے انفرادی اثاثہ جات 10 ہزار ڈالر سے کم ہیں (7600پونڈ)۔ مجموعی طور پر یہ لوگ دنیا کی کام کرنے والی آبادی کا 70 فیصد ہیں جن کے پاس پوری دنیا کی صرف 2.3فیصد دولت ہے۔ کروڑوں لوگوں کے لئے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔
2017ء میں 45 ممالک کے اندازاً 8.3 کروڑ لوگوں کو ہنگامی اشیا خوردونوش کی فراہمی کی ضرورت پڑی جو کہ 2015ء کے مقابلے میں 70فیصد زیادہ ہے۔ 2018ء میں 7.6 کروڑ لوگوں کو اس امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
یمن خاص طور پر برباد ہو رہا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے حلیفوں کی بربریت زدہ مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے 1.7 کروڑ یمنی بھوکے ہیں اور 30 لاکھ سے زیادہ بچے، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دوہرے معیار کے حامل مغربی میڈیا نے جان بوجھ کر اس ہولناک صورتحال پر پردہ ڈالا ہوا ہے جس میں سعودی بدمعاش غذائی قلت کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
موضوعی عنصر کی اہمیت
مشرق وسطیٰ کی حالیہ سالوں کی تاریخ رجعتی رد عمل سے بھری پڑی ہے؛ جنگ، خانہ جنگی، خون خرابہ، مذہبی انتہا پسندی، قتل عام اور انتشار۔ ان خوفناک مسائل کا حل تین ملکوں کے پاس ہے: مصر، ترکی اور ایران۔ یہ ہ ممالک ہیں جہاں اس خطے کا شاندار انقلابی روایات کا حامل، سب سے زیادہ مضبوط محنت کش طبقہ ہے۔ سطحی حوالے سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تینوں ممالک میں ردانقلاب کی مضبوط جڑیں ہیں۔ لیکن ایسا اندازہ لگانا بنیادی طور پر غلط ہے۔
مصری عوام نے سماج کی تبدیلی کے لئے تمام تر کوششیں کر ڈالیں۔ یہ صرف انقلابی قیادت کا فقدان تھا، صرف انقلابی قیادت کا، جس کی وجہ سے 2011ء کی شاندار تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اور کیونکہ قدرت میں خلا اپنا وجود رکھ نہیں سکتا، یہ خلا السیسی اور اس کے ساتھی رجعتی جرنیلوں نے پر کیا۔ اس وجہ سے مصری محنت کشوں اور کسانوں کو رد انقلاب کے تلخ تجربے سے گزرنا پڑا۔ لیکن جلد یا بدیر وہ پھر عمل کے میدان میں اتریں گے۔ السیسی کی آمریت کمزور ترین بنیادوں پر کھڑی ہے۔ اس کی سب سے خطرناک کمزوری معیشت ہے۔ مصری عوام کو روٹی، روزگار اور رہائش چاہئے۔ یہ ضروریات پوری کرنے کی جرنیلوں میں سکت موجود نہیں۔ مستقبل میں بڑے سماجی دھماکے نا گزیر ہیں۔
ترکی میں بھی عوام کے انقلابی امکانات کی ایک جھلک ہم نے 2013ء میں دیکھی تھی۔ اس تحریک کو حتمی طور پر کچل دیا گیا تھا اور اردگان نے ترک قوم پرستی کو ابھار کر اور کردوں کے خلاف سفاک جنگ کا آغاز کرکے کامیابی کے ساتھ عوام کا دھیان وقتی طور پر ہٹا دیا۔ لیکن قوم پرستی لاکھوں غریب ترکوں کے پیٹ نہیں بھر سکتی۔ جلد یا بدیر حکومت کے خلاف رد عمل آئے گا۔ اور ایسے اشارے موجود ہیں کہ یہ اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ آنے والے وقت میں ہمیں ترکی پر نظر رکھنی چاہیے کیونکہ یہ ملک، مشرق وسطیٰ کی کنجیوں میں سے ایک ہے۔
دنیا کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور پوری دنیا میں 24-15سال کی عمر کے تقریباً 60 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہ نوجوانوں کے اندر سلگتا عدم اطمینان ہی تھا جس کی وجہ سے چند سال پہلے عرب انقلاب بھڑک اٹھا تھا۔
اب یہی کیفیت ہم ایران کے شہروں اور قصبوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح تحریک اچانک ہی بھڑک اٹھی۔ اس تحریک نے نام نہاد ماہرین کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا، خاص طور پر نام نہاد بائیں بازو کے تھکے ہارے شکست خوردہ ماہرین کو جن کا دھندہ ہی مایوسی اور کامل یقین ہے کہ کبھی کچھ تبدیل نہیں ہو گا اور عوام کبھی انقلاب میں نہیں اترے گی۔ یہ تمام ’’عقل مند‘‘ لوگ اس تحریک کے پھٹنے پر منہ کھولے پریشان بیٹھے تھے۔
’’لیکن یہ احتجاج 2009ء میں ہونے والے احتجاجوں سے چھوٹے ہیں‘‘، مایوس حضرات ہمیں دلاسہ دیتے ہیں۔ ہاں چھوٹے ہیں لیکن زیادہ ریڈیکل، زیادہ بے باک اور کم محتاط۔ بجلی کی تیزی کے ساتھ مظاہرین کے مطالبے معاشی سے سیاسی مطالبوں میں تبدیل ہو گئے، بے روزگاری اور بے پناہ مہنگائی کے خلاف نعرے بازی سے پوری ملا ریاست کی تبدیلی کے مطالبے میں تبدیل ہو گئے۔ مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے پوسٹر پھاڑ دیے۔ ایران میں سب سے زیادہ خطرناک اور انہونی چیز کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔ ایسی بھی خبریں آئیں کہ سابق آیت اللہ خمینی کے پوسٹر بھی پھاڑ دئیے گئے۔
کون تھے یہ مظاہرین؟ زیادہ تر نوجوان، غریب، بے روزگار؛ پہلے کے احتجاجوں کی طرح یونیورسٹی طلبا نہیں تھے۔ یہ غیر منظم تھے، کسی سیاسی گروہ سے ان کا تعلق نہیں تھا اور ان کا کوئی نصب العین یا نظریہ نہیں تھا سوائے ایک کے: تبدیلی کی سلگتی خواہش۔ لیکن ہر انقلاب کا کوئی نہ کوئی نکتہ آغاز ضرور ہوتا ہے۔
ریاست اپنی جڑوں تک ہل کر رہ گئی۔ ریاست اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ تحریک اپنے طبقاتی کردار کی وجہ سے 2009ء کی تحریک سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جس میں لاکھوں لوگ تہران کی سڑکوں پر آئے تھے۔ ان کا تذبذب پہلے تو غیر منطقی لگ رہا تھا۔ احتجاجوں کے چھوٹے حجم کے مقابلے میں ملاؤں کے پاس جبر کا دیو ہیکل ریاستی آلہ موجود تھا اور وہ بڑی آسانی سے ان احتجاجوں کو کچل سکتے تھے۔ ۔ جیسے چیونٹی کو کچلا جاتا ہے؟
لیکن، اس تحریر کو لکھنے کے دوران بھی، ابھی تک ریاست نے تحریک کو کچلنے کی کوئی سنجیدہ کاوش نہیں کی ہے۔ کتے بھونک رہے ہیں لیکن کاٹ نہیں رہے۔ کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت اس وقت دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور ہے۔ دوسرا، وہ جانتے ہیں کہ احتجاج کرتے نوجوانوں کے پیچھے لاکھوں ایرانی موجود ہیں جو دہائیوں سے غربت، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی اشیا خوردونوش کی چکی میں پسے چلے آ رہے ہیں۔
عوام ملاؤں میں اپنا اعتماد کھو چکی ہے جو دہائیوں سے ایمانداری اور پاکیزگی کا پرچار کرتے آ رہے ہیں لیکن اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے شاہ پہلوی کے حکومتی اہلکار ہوا کرتے تھے۔ مظاہرین کے خلاف کوئی بھی سخت اقدام لاکھوں لوگوں کو سڑک پر لانے کا باعث بن سکتا ہے جن میں پھر صرف طلبا اور درمیانے طبقے کے لوگ نہیں ہوں گے۔
اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس بغاوت کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری اس کا غیر منظم ہونا ہے۔ ایک واضح لائحہ عمل اور حکمت عملی پر مضبوط گرفت کے بغیر تحریک آسانی سے اپنی قوت چند غیر منظم افعال میں کھو سکتی ہے جو محض فسادات پر منتج ہو سکتے ہیں۔ اور اسی کا حکومت کو شدت سے انتظار ہے۔ ایک بار پھر ہم مرکزی سوال کی طرف آتے ہیں: انقلابی قیادت۔
1938ء میں لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ انسانیت کا بحران درحقیقت پرولتاریہ کی قیادت کا بحران ہے۔ موجودہ دور میں کئی بڑی انقلابی تحریکیں برپا ہوئی ہیں: مصر، ترکی، ایران، یونان۔ لیکن ہر جگہ عوام کی انقلابی کاوشوں کی ناکامی کی ایک وجہ تھی، موضوعی عنصر کی عدم موجودگی: ایک انقلابی پارٹی اور قیادت۔ اگر مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار سے نکالنے کے وقت ایک چھوٹی انقلابی پارٹی بھی موجود ہوتی تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔
ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ فروری 1917ء میں 15 کروڑ آبادی کے ایک پسماندہ ملک میں بالشویک پارٹی کے 8 ہزار ممبران تھے۔ لیکن صرف نو ماہ میں انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی طاقتور پارٹی میں تبدیل کر لیا جو محنت کشوں اور کسانوں کو اقتدار پر براجمان کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
نئے سال میں داخل ہوتے ہوئے ہم پراعتماد ہیں کہ یکے بعد دیگرے ہر ملک میں نئے انقلابی امکانات میسر ہوں گے۔ ایران کی صورتحال نے واضح کر دیا ہے کہ تیز تر تبدیلیاں آج کے عہد کا خاصہ ہیں۔ ہمیں ہر لمحہ مارکسزم کے نظریات کا پرچار، اپنی قوتوں کی تعمیر، سب سے باشعور پرتوں سمیت عوام کے ساتھ جڑت اور ہر جگہ مارکسی قوتوں کی تعمیر کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
جہاں تک ان بزدل، غدار اور شک پرستوں کا تعلق ہے جو انقلاب کے تناظر سے ہی انکاری ہیں، ہم صرف اپنے کندھے اچکاتے ہوئے گلیلیو گلیلی کے باغیانہ الفاظ ہی دھرا سکتے ہیں: ’’لیکن بہرحال، وہ گردش میں ہے۔ ‘‘