| تحریر: ایلن ووڈز |
’’پرانوں کو بھول جاؤ، نئے کو گلے لگاؤ۔۔۔‘‘ یہ ہمیشہ نئے سال کا حوصلہ افزا پیغام ہوتا تھا۔ لیکن تمام تر رقص و سرودکی محفلوں کے باوجود حکمران طبقات اور ان کے پالیسی سازوں کی محفلوں میں مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی امید یا رجائیت موجود نہیں تھی۔ اس کے برعکس بورژوا اخبارات کے مضامین میں مایوسی بھری ہوئی ہے۔
28 دسمبر کو فنانشل ٹائمز نے گیڈؤن راکمین کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان بہت دلچسپ تھا، ’’برباد، کچلا ہوا اور متلاطم… پوری دنیا تباہی کے دہانے پر‘‘ ۔ اس میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے کہ:
’’2015ء میں دنیا کی تمام بڑی طاقتوں پر پریشانی اور مایوسی چھائی رہی۔ بیجنگ سے واشنگٹن، برلن سے برازیلیا اور ماسکو سے لے کر ٹوکیو تک حکومت، میڈیااور شہری دگر گوں رہے۔ اس طرح کی عالمی بے چینی غیر معمولی ہے۔ پچھلے تیس سال سے زائد کے عرصے میں کم سے کم ایک عالمی طاقت ایسی موجود رہی ہے جو بہت زیادہ پرامید تھی۔ 80ء کی دہائی کے اواخر میں جاپان ابھی تک دہائیوں کی معاشی ترقی سے مستفید ہورہا تھا اور پراعتماد انداز میں پوری دنیا میں اثاثے خرید رہا تھا۔ نوے کی دہائی میں امریکہ سرد جنگ میں فتح اور طویل معاشی پھیلاؤ کے نشے میں دھت تھا۔ 2000ء کے شروع میں یورپی یونین پرجوش تھی، واحد کرنسی کا اجرا کیا اور اپنی رکنیت کو تقریباً دگنا کر دیا۔ اور پچھلی دہائی کے زیادہ تر عرصے میں چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی طاقت نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔تاہم موجودہ حالات میں تمام اہم کھلاڑی تذبذب کا شکار ہیں، حتیٰ کہ خوفزدہ ہیں۔ میرے خیال میں اس سال واحد استثنیٰ ہندوستان ہے جہاں کاروباری اور سیاسی ٹولے وزیر اعظم نریندرا مودی کے اصلاح پسند اقدامات کی وجہ سے خوش ہیں۔ اس کے برعکس جاپان میں یہ یقین دم توڑ رہا ہے کہ ’ایبنومکس‘ کے نام سے ریڈیکل اصلاحات ملک کے قرضوں اور تفریط زر کے چکر کو توڑ سکتی ہے۔ چین کے ساتھ تناؤ سے جاپان کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اس سال چین کے دورے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ملک بھی چند سال پہلے کی طرح مستحکم نہیں رہا۔ وہ دور اب گزر چکا جب حکومت آسانی سے 8 فیصد کی شرح نمو حاصل کرلیتی تھی۔ داخلی مالی استحکام کے بارے میں پریشانی بڑھ رہی ہے جیسا کہ پچھلی گرمیوں میں شنگھائی سٹاک ایکس چینج میں بھونچال نے واضح کردیا تھا۔ ‘‘
مشرق وسطیٰ میں نیا بھونچال
نئے سال کا آغاز ایک ہنگامے کے ساتھ ہوا اور جائے وقوعہ متوقع طور پر بھونچال کی زد میں آیا ہوا مشرق وسطیٰ تھا۔ یہ ہنگامہ ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر النمرکی پھانسی سے ہوا جو 2012ء میں اپنی گرفتاری تک مسلسل سعودی شاہی خاندان کا ناقد اور عرب بہار کے دوران سعودی عرب میں ابھرنے والے احتجاجوں میں پیش پیش رہا تھا۔
واشنگٹن ان واقعات کے حوالے سے متفکر اور بے بس ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے بے بس الفاظ میں کہا؛ ’’ہم خطے کی قیادت پر زور دیتے ہیں کہ وہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مؤثر قدم اٹھائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفارتی میل جول اور براہ راست گفتگو بہت اہم ہیں۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ نرمی کا مظاہرہ کرنے کی بات کررہا ہے، ریاض میں اس کے دوست اور اتحادی پہلے سے دھماکہ خیز صورت حال پر مزید تیل چھڑک رہے ہیں۔ کربی کی باتیں آدم خوروں کے سالانہ کنونشن میں ایک سبزی خورکی تقریر کی مانند ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جس شخص نے یہ تقریر کی ہے وہ خود دنیا کی سب سے آدم خور طاقت کا نمائندہ ہے۔
مشرق وسطیٰ میں لگی آگ عراق پر مجرمانہ حملے اور امریکی سامراج کی اس بد قسمت خطے میں مسلسل مداخلت کا براہ راست نتیجہ ہے۔عراق کو تباہ و برباد اور کھنڈرات میں تبدیل کرکے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام میں رجعتی قوتوں کو پروان چڑھایا جو اب ان کے اپنے مفادات کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ لیکن گزشتہ سالوں میں عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شروع کی گئی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔بزدل اور قابل رحم عراقی فوج، جو امریکہ کے ماتحت ہے، کا رمادی کو داعش سے چھڑانے کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا۔ان سطروں کی نگارش کے وقت جہادی قوتیں شہر(یا شہر کی باقیات) کے بڑے حصوں پر قابض ہیں اور لڑائی اب بھی جاری ہے۔ بلاشبہ عراقی فوج بالآخر ان کھنڈرات کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لے گی۔ لیکن رمادی کی ’’فتح‘‘ نے صرف عراقی فوج کی بیکاری کو ہی واضح کیا ہے۔ اس سے پینٹا گون کے تمام تر کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھلتی ہے جو ان فوجیوں کو تنخواہ دیتا ہے اور ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھماتا ہے اور جیسے ہی ان کو کوئی مناسب موقع میسر آتا ہے تو وہ اس اسلحے کو پھینک کر بھاگ جاتے ہیں۔
امریکہ، روس اور ایران
بالآخر بے قابو قوتوں کے خطرات کا احساس ہونے کے بعد امریکی لاچارگی کے عالم میں ایسی قوت کی تلاش میں ہیں جو ان کی اپنی لگائی ہوئی آگ کو بجھانے میں ان کی مدد کرے۔ لیکن وہ کون ہوسکتا ہے؟ ہچکچاتے ہوئے اور اپنے دانت پیستے ہوئے، امریکیوں کو مجبوراً سب سے غیر متوقع اور ان کی سب سے ناپسندیدہ قوتوں، روس اور ایران، کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑ رہا ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب امریکی اور ان کے نیٹو اتحادی مسلسل ’’روس کو تنہا‘‘ کرنے کی بات کرتے تھے۔’’ہاں! روس کو عالمی سطح پر تنہا کردیا گیا ہے‘‘ دن رات وہ اس منتر کا ورد کرتے تھے۔ لیکن اچانک، جیسے کسی جادو کے نتیجے میں، روس قطعاً تنہا نہیں ہے بلکہ نپے تلے انداز میں اس کی تعریفیں اور قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔’’ہم روس کو تنہا نہیں کرنا چاہتے،‘‘ ’’ہمیں روس کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہیے‘‘، وہ اس امید کے ساتھ یہ باتیں بار بار دہرا رہے ہیں کہ کوئی لہجے کی اس تبدیلی کو نوٹ نہیں کرے گا۔
سال 2015ء میں امریکہ نے صرف یہی ایک قلابازی نہیں لگائی۔ سفارتی میدان میں ایران کے معاملے میں اس سے بھی بڑی قلابازی لگائی گئی۔وہی ایران جس کے ساتھ (روس کی مانند)عالمی سطح پر اچھوت کی طرح رویہ رکھا گیا، اس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں اور ایک موقع پر تو اس پر فضائی حملہ کرنے کے بارے میں بھی سوچا گیا، اب امریکہ کا دوست بن چکا ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے!
ان حیرت انگیز سفارتی قلابازیوں کی وجہ تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ شام میں جہادیوں کے خلاف واحد سنجیدہ فوجی کاروائی بشارالاسد کی شامی فوج کے تعاون سے روسیوں نے کی ہے۔اور اسی طرح عراق میں داعش کے خلاف واحد سنجیدہ فوجی کاروائی (کُردوں کے علاوہ، جو صرف اپنے علاقوں میں ان کے خلاف لڑتے ہیں)نام نہاد عراقی فوج اور ان کے امریکی آقاؤں نے نہیں بلکہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشاؤں اور ایرانی فوج کے کچھ حصوں نے کی ہے۔
امریکہ کو عملی طور پر روس اور ایران کے اس مطالبے کو ماننا پڑا ہے کہ بشارالاسد کو کم از کم مستقبل قریب تک اقتدار میں رہنا چاہیے۔ لندن ریویو آف بُکس کی ایک رپورٹ میں ممتاز امریکی تفتیشی صحافی ’سیمور ہرش‘ نے کہا ہے کہ ’’امریکی جوائنٹ ملٹری سٹاف نے جرمنی، روس اور اسرائیل کے ذریعے شامی فوج کو خفیہ معلومات فراہم کیں۔‘‘ یہ بات امریکی ’ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی‘ کے سابقہ ڈائریکٹر مائیکل فلن کے بیانات سے مطابقت رکھتی ہے جس نے اسی میگزین میں کہا تھا کہ اس کی ایجنسی نے 2012ء اور 2014ء کے دوران بہت سے پیغامات بھیجے تھے جس میں بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے تباہ کن اثرات کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔اس کی ایجنسی نے بشار حکومت کو خفیہ معلومات دینا شروع کیں(ظاہری طور پر امریکی سیاست دانوں کی رضامندی کے بغیر) تاکہ ’’مشترکہ دشمن‘‘ کے خلاف جنگ کو تقویت دی جاسکے۔
امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو حالات سے مجبور ہو کر شام میں ’’معتدل اسلامی اپوزیشن‘‘ کی بیہودہ خام خیالی کو ترک کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ’’معتدل اپوزیشن‘‘ النصرہ فرنٹ، جسے امریکہ نے حمایت دی اور جو القاعدہ کی شامی برانچ ہے، جیسی شدت پسند جہادی تنظیموں پر مشتمل ہے۔ امریکی سامراج کا ایک دھڑا (سی آئی اے)اس پالیسی کو جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن یہ امریکہ کی ایران اور روس کی طرف تازہ پالیسی سے متصادم ہے۔ اسی دوران روس جی بھر کر جہادی تنظیموں پر بمباری کررہا ہے اور واشنگٹن کے احتجاجوں پر ذرا بھی کان نہیں دھر رہا۔
سعودی عرب اور ترکی
واشنگٹن میں یہ چپقلش تذبذب اور پس و پیش کو جنم دے رہی ہے جو صدر اوباما کی شخصیت میں منعکس ہوتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترکی کی جانب سے روسی طیارے کو مار گرانے کا کام اردگان کی ایک دانستہ اشتعال انگیزی تھی تاکہ امریکہ اور روس کے بیچ شگاف ڈالا جاسکے۔ جیسا کہ ہم نے پیش گوئی کی تھی، یہ چال مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔
شیخ نمر النمر کی سزائے موت، ایک عدالتی قتل جو سعودی شاہی ٹولے کے حکم پر ہوا، بھی اسی طرح کی چال تھی۔ یہ ایک دانستہ اشتعال انگیزی تھی تاکہ سنیوں اور شیعوں کے درمیان ایک جنگ بھڑکائی جائے اور تہران سعودی عرب پر حملہ کردے جو بعد میں مدد کے لیے امریکہ کو آواز دے گا۔
اس واضح عدالتی قتل کے فوری رد عمل میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا۔ سعودی عرب نے فوری طور پر ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ واقعات بیلے ڈانسر کی چالوں کی مانند آگے بڑھے۔ لیکن یہ موت کا رقص تھا۔ یہ مشکلات میں گھری ہوئی اور اکھاڑ پھینکے جانے کے خطرے سے دوچار حکومت کی ایک مایوس کن کوشش تھی۔سعودی غنڈوں نے یمن میں غلط اندازہ لگایا جہاں وہ ایک نا جیتی جا سکنے والی جنگ میں پھنس گئے ہیں۔ اب انہوں نے شیعوں کو مشتعل کیا ہے جو سعودی آبادی کا کم سے کم بیس فیصد ہیں اور سب سے غریب اور استحصال زدہ ہیں۔ ’’آل سعود کی موت‘‘ کے نعروں کے ساتھ سعودی شہروں میں عوامی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔سعودی حکمران ٹولے نے اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلائے اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کا بحران
اصلاح پسند نام نہاد مارکسی ہوبسبام نے ایک نظریہ پیش کیا، جسے کاؤتسکی نے اس سے بہتر انداز پیش کیا تھا، کہ عالمگیریت کے دور میں قومی سرحدیں بے معنی ہوجائیں گی اور جنگیں قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ اس کے برعکس، اکیسویں صدی ناختم ہونے والی جنگوں، تشدد اور ہر طرح کے قومی تنازعوں سے بھری ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ اس عمل کی صرف ایک مثال ہے۔
شام میں خونی انتشار ایک وسیع ہجرت کو جنم دے رہا ہے جو غالباً دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ سردی، تھکن اور بھوک کے مارے لاکھوں مہاجرین اپنے خالی ہاتھوں سے خاردار تاروں کی رکاوٹوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جنہیں تہذیب یافتہ یورپ نے کھڑا کیا ہے۔ یورپی بورژوازی کی منافقت کو ان کے مہاجرین کی طرف رویے سے زیادہ کوئی اور چیز واضح نہیں کر سکتی۔سالوں تک یورپ اور امریکہ کے عوام کو یہ جھوٹ باور کرایا گیا کہ تما م تر سامراجی جارحیت خالص ’انسانی جذبات‘ کے تحت کی جا رہی ہے۔ انہی ’’جذبات‘‘ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔شام میں اپنے حصے کا گند کرنے کے بعد یورپ کی حکومتیں اب جنگ کے شکار لوگوں کے لیے دروازہ بند کرنے کے مؤثر طریقے ڈھونڈ رہی ہیں۔
بحر اوقیانوس کے دوسری طرف بھی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ سو سال پہلے امریکہ نے اپنے مجسمہ آزادی پر یہ الفاظ کندہ کیے تھے:
’’اپنے تھکے ہوئے، درماندہ لوگوں کو
آزاد فضا میں سانس لینے کی خواہش رکھنے والوں کو
اپنے پرہجوم ساحل کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو
مجھے دے دو
ان بے گھر، طوفان زدہ لوگوں کو
میرے پاس بھیجو
ان کے لیے میرے دروازے کھلے ہیں‘‘
کل کی یہ باتیں آج طنز لگتی ہیں۔ وہی امریکہ اب پہلے سے بھی زیادہ اونچی دیواریں کھڑی کر رہا ہے تاکہ غریب لوگوں کو ’ریو گراندے‘ دریا کے اس پار رکھا جاسکے ۔ رپبلکن پارٹی کا اہم صدارتی امیدوار واضح طور پر امریکہ میں آنے کی خواہش رکھنے والے تمام مسلمانوں پر داخلے کی پابندی لگانے کی بات کرتا ہے۔یہ اکیسویں صدی کی سرمایہ داری کی حقیقی آواز ہے: کھلی رجعت، شاونزم، دیگر اقوام سے نفرت اور کھلی نسل پرستی کی آواز۔’بغیر سرحدوں کی دنیا‘ کے اصلاح پسند یوٹوپیا کے برعکس قومی سرحدوں کو ہرجگہ مضبوط کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف یورپ کے گرد بارڈر کنٹرول متعارف کیا جارہا ہے بلکہ شینجن معاہدہ میں شامل ممالک کے درمیان بھی۔ شائستہ اور جمہوری سویڈن اب شائستہ اور جمہوری ڈنمارک سے آنے والے مسافروں کی تلاشی متعارف کرارہا ہے! متحدہ یورپ کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے جو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہمیشہ سے ہی ناممکن تھا۔
یورپ بحران کی زد میں
یورپ پر افسردگی چھائی ہے۔ سال 2015ء اپنے آغاز اور اختتام میں پیرس میں دو خونخوار دہشت گرد حملوں سے داغدار تھا۔ میونخ اور برسلز کے لوگ دہشت گرد حملوں کے خوف کی وجہ سے نئے سال کو روایتی انداز میں نہیں منا سکے۔ پیرس میں آتش بازی کو معطل کیا گیا ۔ ہر جگہ خوف اور غیر یقینی کیفیت ہے۔
تمام تر سنجیدہ معاشی ماہرین عالمی معیشت میں ایک نئے زوال کی توقع کر رہے ہیں جو طاقتور چینی معیشت میں سست رفتاری کی وجہ سے ایشیا سے شروع ہوسکتا ہے۔لیکن یہ یورپ سے بھی شروع ہوسکتاہے۔ یورپ کی معاشی ترقی کے سابق معاشی انجن جرمنی کی معیشت رک چکی ہے اور مشرق وسطیٰ اور دوسرے جنگ زدہ علاقوں سے ایک ملین سے زائد مہاجرین کی آمد سے یہ بحران میں جا چکی ہے۔
یورو اور شین جن معاہدے، جنہیں معاشی یکجہتی کی بنیاد بننا تھا، اپنے الٹ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔جرمنی اور جنوبی یورپی ملکوں کے درمیان ایک بڑھتی ہوئی خلیج پیدا ہوگئی ہے جبکہ مہاجرین کے بحران نے جرمنی اور اس کے مشرقی ملکوں کے درمیان خلیج کو جنم دیا ہے۔یونان کی طویل اذیت جاری رہے گی کیونکہ کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ یورو سے یونان کا اخراج اب ہوا کہ اب ہوا۔۔۔اس سے یونانی عوام کی تکلیفوں میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ عمل دوسرے ممالک کے یورو سے اخراج کو مزید تیز کرے گا۔برطانیہ ایک ریفرنڈم منعقد کر رہا ہے جو اس کے یورپی یونین سے اخراج پر منتج ہو سکتا ہے۔ فرانس اور دوسرے ممالک میں یورپی یونین مخالف جذبات شدت پکڑ رہے ہیں۔ نہ صرف یورو بلکہ خود یورپی یونین کا مستقبل خطرے میں ہے۔
سیاسی بھونچال
بورژوازی کی قنوطیت بے وجہ نہیں ہے۔ لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ سرمایہ داری کا بحران ناگزیر طور پر اپنے متضاد کو جنم دیتا ہے؛ بغاوت کے ایک نئے جذبے کا جنم، صرف یہی انسانیت کو مستقبل کی نوید دیتا ہے۔آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر عوامی شعور جاگ رہا ہے۔ معاشی بحالی کی باتیں صرف ماہرینِ معیشت کی ذہنی اختراع ہیں لیکن انقلابی کیفیت کے ابھار کی پہلی علامات حقیقی اور واضح ہیں۔
یہ جدلیاتی مادیت کے بنیادی مفروضوں میں سے ایک ہے کہ انسانی شعور حالات کے پیچھے چلتا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر یہ ایک دوسرے سے آ ملتے ہیں۔ یہی انقلاب ہے اور جو کچھ ہم برطانیہ میں دیکھ رہے ہیں، یہ ایک سیاسی انقلاب کی شروعات ہے۔ راتوں رات سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ خود سماج میں ہونے والی گہری تبدیلی کی علامات ہیں۔ موجودہ حالات میں تیز اور اچانک تبدیلیاں مضمر ہیں۔
یہ سچ ہے کہ شعور بڑی حد تک ماضی کی یادوں سے تشکیل پاتا ہے۔ اصلاح پسندی کی پرانی غلط فہمیوں کو عوامی شعور سے ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ لیکن واقعات کے طاقتور تھپیڑوں کے نتیجے میں شعور میں اچانک اور تیز تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ قابل رحم ہیں وہ لوگ جو ایک ایسے ماضی کے شعور پر تکیہ کرتے ہیں جو پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔ مارکسسٹوں کو زندہ عوامل اور مستقبل کے تناظر پر تکیہ کرنا ہوگا۔
بحران سے نکلنے کے لیے عوام ایک کے بعد دوسری پارٹی کو آزماتے ہیں۔ پرانے لیڈران اور پروگرامز کو پرکھا جاتا ہے اور مسترد کردیا جا تا ہے۔ جو بھی پارٹیاں منتخب ہوں جب وہ لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیں، اپنے انتخابی وعدوں سے غداری کریں، پھر وہ تیزی سے مسترد ہوتی ہیں۔ جن نظریات کو عمومی سمجھا جاتا تھا وہ قابل نفرت بن جاتے ہیں۔ مشہور لیڈر وں سے نفرت کی جانے لگتی ہے۔ تیز اور اچانک تبدیلیاں اب معمول بن چکی ہیں۔
سیاسی جغادریوں، امیروں، طاقتوروں اور مراعات یافتہ لوگوں کے خلاف ایک روزافزوں غم و غصہ ہے۔ حالات کے خلاف یہ رد عمل، جس میں ایک انقلابی تبدیلی کے بیج موجود ہیں، معیشت کی بحالی کی علامات ظاہر ہونے کے بعد بھی جاری رہ سکتے ہیں۔ لوگ اب سیاست دانوں کی باتوں اور وعدوں پر یقین نہیں رکھتے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی پارٹیوں سے ایک عمومی بیزاری پائی جاتی ہے۔سماج میں معاشی بے چینی کا ایک گہرا اور عمومی احساس پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک راستے کی کمی ہے جو اس بیزاری کو ایک منظم اظہار دے۔
فرانس جہاں سوشلسٹ پارٹی نے پچھلے الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی، اب وہاں فرانسو الاند 1958ء کے بعد سب سے غیر مقبول صد ر ہے۔ یونان میں ہم نے پاسوک کا انہدام اور سائریزا کا ابھار دیکھا۔ سپین میں پوڈیموس اچانک نمودار ہوئی اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ سپین کی پارلیمنٹ میں 66 نشستیں حاصل کیں اور واحد اپوزیشن پارٹی کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہی عمل ہم نے آئرلینڈ میں حالیہ ریفرنڈم میں دیکھا۔ صدیوں تک آئرلینڈ یورپ میں سب سے زیادہ کیتھولک ملک تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک زندگی کے ہر شعبے پر چرچ کا تسلط تھا۔ ہم جنس شادی پر ریفرنڈم کے نتائج، جس میں 62فیصد نے ہاں کا ووٹ دیا، رومن کیتھولک چرچ پر ایک کاری ضرب تھی۔ یہ چرچ کی سیاست اور لوگوں کی زندگی میں مداخلت کے خلاف ایک وسیع احتجاج تھا۔ یہ آئرش سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کا اظہار تھا۔
برطانیہ میں تمام تر مشکلات کے باوجود جیرمی کوربن لیبر پارٹی کا الیکشن جیت گیا۔ یہ ایک سیاسی زلزلہ تھا جس نے راتوں رات برطانیہ کی صورتحال کو تبدیل کردیا۔ اس تبدیلی کا اظہار پہلے سکاٹ لینڈ میں ہوا جہاں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت سکوٹش نیشنل پارٹی (SNP) کے ابھار کی صورت میں ظاہر ہوئی، یہ دائیں جانب نہیں بلکہ بائیں جانب جھکاؤ کی علامت تھی۔ یہ قوم پرستی کا اظہار نہیں تھا بلکہ ویسٹ منسٹر میں حکمرانی کرنے والے فرسودہ اور خستہ حال ٹولے کے خلاف نفرت کا اظہار تھا۔ اپنی قیادت کی بزدلانہ طبقاتی مصالحت کی پالیسیوں کی وجہ سے لیبر پارٹی کو اسی ٹولے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
دائیں بازو کی قیادت میں لیبر پارٹی دہائیوں تک موجودہ نظام کا ایک ستون تھی۔ حکمران طبقہ ایک سخت لڑائی کے بغیر اسے ترک نہیں کرے گا۔سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع کی پہلی صف خود پارلیمانی لیبر پارٹی (لیبر پارٹی کی اشرافیہ) ہے۔ اس کشمکش میں پارلیمانی لیبر پارٹی کی بلیرائیٹ اکثریت بینکرز اور سرمایہ داروں کی براہ راست اور دانستہ دم چھلہ ہے۔ جیرمی کوربن سے جان چھڑانے کی ان کی تمام تر متعصبانہ کوششوں کے پیچھے یہی راز ہے۔لیبر پارٹی میں ایک تقسیم ہونے والی ہے جس سے برطانیہ میں ایک نئی صورت حال جنم لے گی۔ یہ سب سماج میں موجود گہری بے چینی کا اظہار ہے جو ایک سیاسی اظہار کی راہ دیکھ رہی ہے۔ پورے یورپ میں ایک خوف چھایا ہوا ہے کہ کٹوتیوں کی پالیسیاں ’’عارضی ایڈجسٹمنٹ‘‘ نہیں بلکہ معیارزندگی پر مسلسل حملے ہیں۔ یونان، پرتگال اور آئرلینڈ جیسے ممالک میں ان پالیسیوں کے نتیجے میں اجرتوں اور پنشن میں وسیع کٹوتیاں ہوئی ہیں جبکہ خسارے کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ یعنی عوام کی تمام تر اذیتیں اور بربادی رائیگاں چلی گئی۔ ہر جگہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہے ہیں۔
یہ عمل صرف یورپ تک محدود نہیں ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات ایک دلچسپ صورت حال کی غمازی کرتے ہیں۔ امریکی سیاست کی متذبذب اور غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے نتائج کی ٹھوس پیش گوئی فی الوقت ناممکن ہے۔ میڈیا کی زیادہ تر توجہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہے۔ اس بات کی توقع نہیں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اپنے معاملات کو ایک جاہل مسخرے کے ہاتھوں میں دے گا۔ لیکن ماضی قریب میں انہوں نے کم از کم دو مرتبہ ایسا کیا ہے۔ حکمران طبقے کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو ہیلری کلنٹن یقینی طور پر ’محفوظ جوا‘ ہے۔ لیکن کلنٹن یا ٹرمپ سے زیادہ اہم برنی سینڈرز کی وسیع حمایت ہے جو واضح طور پر سوشلزم کی بات کرتا ہے۔ برنی سینڈرز کا ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنا سماج میں گہری بے چینی اور اضطراب کی علامت ہے۔ اس کے ارب پتیوں کے خلاف حملوں اور ’’سیاسی انقلاب‘‘ کی باتیں لاکھوں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔
’’سوشلزم‘‘ کا لفظ اب مین سٹریم میڈیا میں کثرت سے استعمال ہونے لگاہے۔ 2011ء میں ایک رائے شماری کے مطابق امریکہ میں 18 سے 29 سال کے 49 فیصد لوگ سوشلزم کے بارے میں مثبت رائے رکھتے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں 47 فیصد لوگ سرمایہ داری کے حق میں تھے۔ ایک زیادہ حالیہ رائے شماری، جون 2014ء، کے مطابق 47 فیصد امریکی سوشلزم کو ووٹ دینے کے حق میں ہیں جن میں سے 69 فیصد کی عمریں تیس سال سے کم تھیں۔لوگوں کی بڑی تعداد، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، برنی سینڈرز کے پیغام کو سننا چاہتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اس کی باتیں حقیقی سوشلزم سے زیادہ سکینڈنیوین سوشل ڈیموکریسی سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ ایک اہم نشانی ہے کہ امریکہ تبدیل ہورہا ہے۔
روس کے حالات نے باقی یورپ کے ساتھ اختلافات کو واضح کیا ہے۔ظاہری طور پر یہ بات عجیب لگتی ہے کہ پیوٹن یوکرائن اور شام کے بحران کے نتیجے میں طاقتور ہوا ہے۔ مغرب کی اسے تنہا کرنے کی تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ شام میں اب وہی سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ حتیٰ کہ اگر امریکہ کریمیا اور یوکرائن کے معاملے پر روس پر پابندیاں جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہے تو ہم اعتماد سے یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ اس کے یورپی اتحادی خاموشی سے اپنی پابندیاں ہٹا لیں گے۔ بحران زدہ یورپی معیشت کو روسی منڈی اور گیس کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے یورپی بورژوازی کوشام میں اپنا گند صاف کرنے اور مہاجرین کے نہ ختم ہونے والے بہاؤ کو روکنے کے لیے روس کی ضرورت ہے۔
لیکن اگر ہم حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ واضح ہوگا کہ روس اتنا مستحکم بھی نہیں ہے جتنا یہ دکھتا ہے۔ روسی معیشت گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور مغربی معاشی پابندیوں کی وجہ سے مسلسل گر رہی ہے۔ حقیقی اجرتیں گر رہی ہیں۔ مڈل کلاس اب لندن اور پیرس میں مزید خوشگوار چھٹیاں نہیں منا سکتی۔ وہ شکایت کرتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں۔ روسی مزدور یوکرائن کے معاملے میں سرکاری پروپیگنڈے کے زیر اثر تھے۔ وہ یوکرائنی فاشسٹوں اور انتہا پسند قوم پرستوں کی سرگرمیوں سے متنفر تھے اور پیوٹن ان کی مشرقی یوکرائن میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے فطری ہمدردی کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوا۔
پیوٹن ایک خاص وقت تک طاقت پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور بالآخر تاریخ کو اپنا حساب لینا ہوتا ہے۔ معاشی بحران سے محنت کشوں، بالخصوص پیٹرزبرگ اور ماسکو کے باہر کے معیاری زندگی میں گراوٹ آئی ہے۔ عوام صابر ہیں لیکن ان کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس چیز کا ثبوت ہمیں 2015ء کے آخر میں نظر آیا جب طویل فاصلے کے ٹرک ڈرائیوروں نے ہڑتال کی۔ ایک چھوٹی سی نشانی لیکن جو اس چیز کی علامت ہے کہ جلد یا بدیر روسی محنت کش اپنے اضطراب کا اظہار بڑے مظاہروں میں کریں گے۔
مایوس کن مستقبل
بنیادی طور پر یہ تمام مظاہر اس بات کے عکاس ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے۔ عالمگیریت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرکے اپنے الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ معاشی نمو کے ایک طاقتور عامل سے اب یہ پورے غیر مستحکم معاشی نظام کو منہدم کرنے والی چیز میں تبدیل ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد معاشی بحالی، جو قطعاً بحالی نہیں ہے، اتنی کمزور اور لاغر ہے کہ کوئی بھی حادثہ، چاہے معاشی ہو، سیاسی یا عسکری، اس تمام بحالی کے عمل کو پچھاڑ دے گا۔
رکتی ہوئی چینی معیشت پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ چین، برازیل جیسے ملکوں سے اجناس کی بڑی مقدار درآمد کر رہا تھا۔ اب برازیلی معیشت 4.5 فیصد کے حساب سے سکڑ رہی ہے۔ BRICS کے دوسرے ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ سرمائے کے ترجمانوں کی مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں بہت ہی مایوس کن ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل نے ایڈم پارکرکو نقل کیا ہے؛ ’’ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک کم آمدنی والا ہیجان خیز سال ہمارے سامنے ہے اور ہمیں شک ہے کہ دوسرے بھی یہی سوچ رہے ہوں گے۔‘‘
ہونڈائی موٹرز کے ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ اس سال کا تناظر تاریک ہے۔ گروپ چیئر مین چنگ منگ کو نے بیرون ملک آٹو میکرز کے سربراہان کو بتایا کہ 2015ء میں نمو کو کمزور عالمی معیشت، دنیا کی دوسری سب سے بڑی آٹو مارکیٹ یعنی چین میں معاشی سست روی اور ابھرتی ہوئی منڈیوں میں طلب کی گراوٹ نے روکے رکھا۔ اس نے کہا، ’’اہم معاشی اعشاریوں کی روشنی میں اگلا سال آٹو مارکیٹ کے لیے زیادہ روشن نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔
گڈوئن راکمین نے انتہائی مایوس کن منظر کشی کی ہے؛’’عالمی بحران نے عالمی سیاسی نظام کو اس مریض کی طرح بنا دیا ہے جو ابھی تک ایک شدید بیماری سے صحت یاب ہونے کی کوشش کر رہا ہو جس کا آغاز 2008ء کے مالی بحران سے ہوا تھا۔ اگر مزید بھونچال نہ آئے تو بحالی بتدریج آگے بڑھے گی اور بد ترین سیاسی علامات غائب ہوجائیں گی۔ مریض کی حالت ابھی غیر مستحکم ہے۔ ایک اور شدید جھٹکا، جیسے کوئی بڑی دہشت گرد کاروائی یا ایک معاشی زوال شدید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔‘‘
یہ سرمائے کے پالیسی سازوں کی حقیقی آواز ہے۔ وہ مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہیں اور اپنے طبقاتی تناظر کے حوالے سے وہ غلط نہیں ہیں۔ 2016ء میں مزید انتشار، معاشی بحران، معیار زندگی پر حملے، مزید نابرابری، ناانصافی اور مزید خونریزی اور بربادی ہوگی۔
نیا سال پرانے کا چربہ ہوگا لیکن اس کی شدت کہیں زیادہ ہوگی۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا میں جنگیں انسانی بربادی کرتی رہیں گی جو پھر یورپ کی طرف جائے گی جہاں ان کے سامنے خاردار تاریں اور غیر انسانی سلوک منتظر ہو گا۔
دہشت گردی جو پوری دنیا میں ایک بے قابو وبا کی طرح پھیل رہی ہے، بذات خود اکیسویں صدی میں سرمایہ داری کی بیماری کی غمازی کرتی ہے۔ دہشت گردی کی مزید کاروائیاں ناگزیر ہیں۔ دہشت گردوں کو پولیس کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا۔ دنیا میں اتنے پولیس والے نہیں جتنے معصوم لوگوں کا خون بہانے کو تیار شدت پسند ہیں۔جب لینن نے یہ لکھا تھا کہ سرمایہ داری نہ ختم ہونے والی وحشت ہے تو وہ صحیح کہتا تھا۔ اس وحشت کے بارے میں شکایت کرنا ایسا ہی جیسے بچہ جننے کی تکلیف کے بارے میں شکایت کی جائے۔
مارکسسٹوں کا کام سرمایہ دارانہ زوال پذیری کے ناگزیر نتائج کے بارے میں ماتم کرنا نہیں ہے۔ یہ کام ہم مبلغوں اور امن پسندوں کے لیے چھوڑتے ہیں۔ہمارا فریضہ انتھک محنت سے محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس وحشت اور ذلت کی وجوہات سمجھانا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ سماج کی بنیادی تبدیلی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دیوہیکل مسائل کے حل کے لئے دیوہیکل اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف سوشلزم کے ذریعے ہی انسانیت کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ آج یہی وہ واحد مقصد ہے جس کے لیے لڑاجاسکتا ہے!