|تحریر: راب سیول، ترجمہ: اختر منیر|
10 سال پہلے 15 ستمبر 2008ء کو لیہمن برادرز، جو دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا انویسٹمنٹ بینک ہے، نے غیر ادا شدہ قرضوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد دیوالیہ پن کی درخواست دائر کر دی۔ لیہمن برادرز کے انہدام سے ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں دوسرے بینک، مالیاتی ادارے اور انشورنس کمپنیاں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں یکے بعد دیگرے تاش کے گھر کی طرح گرنے لگے۔
جارج ڈبلیو بش، امریکہ کے جنگی جنونی صدر، کو قوم سے خطاب کرنا پڑا جس میں اس نے وال سٹریٹ کو بچانے کے لیے حکومتی مداخلت کے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود بش نے سرمایہ داری کا دفاع کرنا ضروری سمجھا، ایک ایسا نظام جو بظاہر (مکمل طور پر) ناکام ہو چکا تھا۔
ماہرین کی ٹامک ٹوئیاں
بیس سال قبل کمیونسٹ مینی فیسٹو کی 150 ویں سالگرہ کے موقع پر نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ مارکس اور اینگلز نے ’’سرمایہ داری کی دولت پیدا کرنے کی بے قابو قوت کو بھانپتے ہوئے پیش گوئی کی تھی کہ یہ دنیا کو اپنے غلبے میں لے لے گی اور یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ قومی معیشت اور ثقافت کی ناگزیر عالمگیریت کے انقسامی اور تکلیف دہ نتائج برامد ہوں گے‘‘۔ (نیویارک ٹائمز، 27 جون 1998ء)
دس سال بعد 2008ء میں ’’انقسامی اور تکلیف دے نتائج‘‘ سب کی آنکھوں کے سامنے برہنہ پڑے تھے۔ سرمایہ داری 1930ء کی دہائی کے بعد اپنے سب سے گہرے بحران سے دوچار تھی۔ اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر بے روزگاری، تنخواہوں میں کٹوتی اور’’کفایت شعاری‘‘ کے عفریت بھی لوٹ آئے۔ لڑکھڑاتے ہوئے بینکاری کے نظام کو ٹیکس ادا کرنے والوں کے اربوں پاؤنڈ بیل آؤٹ پیکیج میں دے دیے گئے۔
سرمایہ داری کے معذرت خواہان کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ بحران نے انہیں تذبذب کی کھائیوں میں پھینک دیا تھا۔
مثال کے طور پر انسٹی ٹیوٹ آف نیو اکنامک تھنکنگ کی افتتاحی تقریب، جسے ارب پتی سرمایہ کار جارج سوروس نے سپانسر کیا تھا، اس میں 5 نوبل انعام یافتہ افراد کو بطور پینلسٹ بلایا گیا تھا۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق وہ حواس باختہ شریکین ’’نہ تو بحران کی وجوہات پر متفق ہو سکے اور نہ ہی اس کے حل کی تدابیر پر۔‘‘
حتیٰ کہ ایلن گرین سپین، جو امریکی فیڈرل ریزرو کا سابق سربراہ ہے اور اسے ایک زمانے میں ’’استاد‘‘ مانا جاتا تھا، اس نے بعد میں (بحران کے متعلق) اعتراف کیا کہ ’’میں ابھی تک مکمل طور پر یہ نہیں سمجھ پایا کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔‘‘
کٹوتیوں کا دور
آج اس دیوہیکل بحران کے دس 10 سال بعد بھی ہم اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ 2008ء کا بحران اپنے ساتھ کٹوتیوں کا ایک دور لے کر آیا، کیونکہ پوری دنیا کے سیاست دانوں نے (جن میں تمام سیاسی رنگ و نسل کے سیاستدان شامل ہیں) بینکوں کو بیل آؤٹ پیکیج دینے کا فیصلہ کیا۔جیسا کہ بتایا جارہا تھا کٹوتیاں محض چند سالوں کے لیے تھیں۔ پھر 5 سال 10 سال بن گئے اور اب یہ مستقل ہو چکی ہیں۔
ایک دہائی کے بعد اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ سالوں کی کٹوتیوں اور معیار زندگی پر حملوں کے باوجود قرضے ابھی بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ سرمایہ کاری اور پیداواریت رک کر ایک دلدل میں پھنس چکی ہیں۔مالکان وحشی ہو گئے ہیں۔ وہ تنخواہوں اور کام کی جگہوں پر دی جانے والی سہولیات پر حملے کر رہے ہیں تا کہ اپنا منافع بڑھا سکیں۔ برطانیہ میں 2008ء سے اب تک حقیقی معنوں میں اجرتیں گری ہیں اور اب تک گر رہی ہیں۔ میکسیکو اور یونان کے بعد حقیقی اجرتوں میں سب سے زیادہ کمی برطانیہ میں آئی ہے۔ محنت کش طبقے کو اس بحران کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے جس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی آمدنی کا وہ حصہ جو محنت کش طبقے کے پاس آتا ہے کم سے کم ہوتا گیا اور اسی دوران سرمایہ داروں کو ملنے والا حصہ بڑھتا گیا۔
برطانیہ میں لاکھوں بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، جن کی تعداد میں 2010ء سے لے کر اب تک دس لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ فوڈ بینکوں پر انحصار کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ علاقے جہاں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جانے والی یونیورسل کریڈٹ سکیم متعارف کرائی گئی ہے وہاں فوڈ بینک استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے انتہائی بے شرمی سے کٹوتیوں اور فوڈ بینک استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے درمیان کسی قسم کے تعلق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔باقی جگہوں پر، جوزف رونٹری فاؤنڈیشن کے مطابق، 15 لاکھ لوگ مفلسی کھائی میں گرے ہیں، جو تقریباً ہر 50 افراد میں سے ایک کا تناسب بنتا ہے، ان میں سے سب سے زیادہ لوگ مانچسٹر، لیورپول اور مڈلزبراگ سے تعلق رکھتے ہیں۔
زائد پیداوار کا بحران
2008ء کے بحران کی وجہ زائد پیداوار تھی۔ جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں پیش گوئی کی تھی۔
’’ان بحرانوں میں ایک ایسی وبا پھوٹتی ہے جو پچھلے تمام ادوار میں ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی، زائد پیداوار کی وبا۔ معاشرہ بربریت میں واپس جاتا معلوم ہوتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے قحط پڑ گیا ہو، ایک آفاقی جنگ کی بربادی سے ضرورت کی اشیا کی ترسیل رک گئی ہو اور صنعت اور تجارت تباہ ہوگئی ہو۔‘‘
سرمایہ داری ایک نظام کے طور پر اپنی حدوں کو پہنچ چکی ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت نے منڈی کی حدود کو پار کر لیا ہے۔ ایک پورے عرصے کے دوران سرمایہ دار قرضوں کے ذریعے منڈی کو اس کی حدود سے آگے لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سے بحران ٹل تو گیا لیکن وقت آنے پر اس کی شدت میں بہت اضافہ ہو گیا۔
حالیہ نام نہاد بحالی تاریخ کی کمزور ترین بحالی ہے۔ عوام کے لیے کسی بھی طرح کی کوئی بحالی نظر نہیں آ رہی۔ اس کے برعکس حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جو نوکریاں موجود ہیں وہ کم اجرت والی اور کم ہنر کی متقاضی ہیں۔مالکان پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے سستی محنت پر انحصار کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پیداواریت بہت کم ہے۔ لیکن سٹاک مارکیٹ پھلتی پھولتی دکھائی دیتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
وال سٹریٹ کے مطابق بعد از جنگ دور میں یہ تاریخ کی سب سے طویل ’’bull‘‘مارکیٹ (اوپر جاتی ہوئی منڈی) ہے۔ باقیوں کے مطابق یہ ’’بل شٹ‘‘ مارکیٹ ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں نظر آنے والے ابھار کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ، اس کی وجہ نظام میں منڈلاتا ہوا سستا پیسہ ہے۔ پھلتی پھولتی سٹاک مارکیٹ، جو سمندری لہروں پر جھاگ کی طرح ہے، کے باوجود حقیقی معیشت نیچے کی طرف جا رہی ہے۔
مجتمع ہوتے تضادات
معاشی ’’بحالی‘‘ میں اب مزید سکت نہیں رہی۔ ایک نیا عالمی بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔ فنانشل ٹائمز میں IHS Markit کے چیف بزنس اکانومسٹ کرس ولیمسن نے حال ہی میں لکھا:’’خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، گزشتہ اعداد و شمار کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں موجودہ پیداوار برقرار رکھنے اور روزگار بڑھانے کے لیے طلب میں اضافہ ناگزیر ہے۔ مگر یہ نیچے جاتی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘ (فنانشل ٹائمز، 24اگست18ء)
لیکن اجرتوں میں کٹوتی کے ساتھ طلب میں کمی آ رہی ہے۔ کاروباری اشیاء کی منڈی سکڑتی جا رہی ہے، اور سکڑتی ہوئی منڈی کے ساتھ سرمایہ کاری میں بھی کمی آ رہی ہے۔ مسٹر ولیمسن نے کہا کہ سیاسی خدشات، قیمتوں میں اضافہ اور آڈرز کی کمی اس سب کی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑھ کر تجارتی جنگ کے خطرات، جو برآمدات میں کمی سے بڑھ رہے ہیں، کا سب سے زیادہ بوجھ صنعت کاروں پر پڑا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی با آسانی ایک کھلم کھلی تجارتی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ امریکہ نے کئی اشیاء پر 200 ارب ڈالر کے 25 فیصد تک محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے جن میں سٹیل اور ایلومینیم بھی شامل ہیں۔
یہ دنیا کی معیشت کو ایک نئے بحران میں دھکیل سکتا ہے۔ 31۔1929ء کی گراوٹ عظیم کساد بازاری کا باعث نہیں بنی تھی، بلکہ اس کے نتیجے میں کیے جانے والے تحفظاتی اقدامات اس کا باعث بنے تھے۔
اس کے علاوہ ترکی اور ارجنٹائن کا معاشی بحران دوسری نام نہاد ابھرتی ہوئی منڈیوں میں ہلچل کا باعث بن رہا ہے۔ سرمایہ دار ایک وبائی صورتحال سے خوف زدہ ہیں۔
کوئی صورت نظر نہیں آتی
فیڈرل ریزرو کی آخری میٹنگ کی تفصیلات کے مطابق ایک ممکنہ بڑے بحران کے صورت میں کیے جانے والے اقدامات کو لے کر کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ درحقیقت قرضے پہلے سے ہی آسمان کو چھو رہے ہیں (اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے)، اس وجہ سے وہ اپنے تمام ہتھیار پہلے ہی استعمال کر چکے ہیں اور اب وہ آنے والے بحران کے سامنے بالکل نہتے ہیں۔ ایسا صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ایسے ہی حالات ہیں۔
ایک نیا بحران ناگزیر ہے۔ اس کے درست وقت کا تعین کرنا ناممکن ہے۔ مگر یہ زیادہ دور نہیں اور کسی بھی واقعہ سے اس کا آغاز ہو سکتا ہے۔ہم نے ابھی تک کٹوتیوں اور حملوں کی شکل میں جن چیزوں کا سامنا کیا ہے، وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں جو کچھ آگے آنے والا ہے۔نظام کی چھوٹی موٹی مرمت کرنا کوئی متبادل نہیں ۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں خرابی ہے، جو لالچ اور منافعوں میں اضافے کی بنیاد پر چلتا ہے۔
آج کا بحران ایک عالمی بحران ہے۔ ہر جگہ پر حکومتیں کسی نہ کسی طرح کٹوتیوں اور محنت کش طبقے پر حملوں کا سہارا لے رہی ہیں۔ سرمایہ داری اب ماضی میں کی جانے والی اصلاحات کی متحمل نہیں ہے۔ وہ وقت کب کا جا چکا۔ معیار زندگی پر بے دریغ حملے اب ایک عام سی بات ہے۔یہ سرمایہ دارانہ نظام کی وحشی منطق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سوشلزم کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔