’’فلسفیوں نے اب تک دنیا کی تشریح کی ہے‘ جبکہ اصل کام اس کو تبدیل کرنا ہے‘‘
کارل مارکس کے یہ الفاظ آج بھی اسی طرح درست ہیں جتنے اس وقت تھے جب یہ لکھے گئے۔ بلکہ آج دنیا کو تبدیل کرنے کی جتنی ضرورت ہے شاید کبھی بھی نہیں تھی۔ لیکن اس جملے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا ساکت و جامد ہے اور کوئی بڑا لیڈر آ کر اس کو حکم دے گا اور یہ تبدیل ہو جائے گی۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ بلکہ دنیا سمیت پوری کائنات مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اور تبدیلی کا یہ عمل لا امتناعی اور کبھی نہ ختم ہونے والا ہے۔ یہی تبدیلی کا عمل جو اس کائنات کے ذرے ذرے میں جاری ہے وہ اس سماج میں بھی جاری ہے اور مسلسل اس کو تبدیل کرتا جا رہا ہے۔ سماج میں جاری یہ عمل کبھی سست ہو جاتا ہے اور کبھی تیز، کبھی مخفی ہو جاتا ہے اور کبھی ظاہر لیکن یہ مسلسل سماج، اس کے تمام رشتوں، پیداواری تعلقات اور ان پر بننے والے تمام سماجی ڈھانچوں کو مسلسل تبدیل کرتا رہتا ہے۔ مارکس کے مطابق کسی بھی عمل میں موجود چھوٹی چھوٹی معمولی مقداری تبدیلیاں ایک مدت تک مجتمع ہوتی رہتی ہیں اور پھر ایک مخصوص وقت میں ایک معیاری تبدیلی کے طور پر اپنا اظہار کرتی ہیں۔
اگر اس اصول کو آج کے سماج پر لاگو کریں تو نظر آتا ہے کہ ایک طویل عرصے تک حکمرانوں کے مظالم اور جبر عوام میں جس غم و غصے اور نفرت کو جنم دیتے ہیں وہ فوری طور پر کھل کر اپنا اظہار نہیں کرتا بلکہ عوام کے دلوں میں اور ان کے ذہنوں میں مجتمع ہوتا رہتا ہے۔ لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہر حملے کو برداشت کرتے چلے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے ملنے والی ہر تحقیر، ہر زیادتی اور ہر نفرت کو اپنے دامن میں سمیٹتے رہتے ہیں۔ یہ حملے انہیں گھائل ضرور کر دیتے ہیں، تھوڑی بہت آہ و بکا ضرور ہوتی ہے لیکن حکمران طبقے کی حاکمیت قائم رہتی ہے اور ان کا اقتدار اور عیش و عشرت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس تمام عرصے میں محنت کش عوام کی زندگیاں تلخ تر ہوتی چلی جاتی ہے اور زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے لیکن پھر بھی اس بوجھ کو کسی نہ کسی طرح محنت کش گھسیٹتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس تمام عمل میں ایک ایسا مخصوص مرحلہ ضرور آتا ہے جب یہ تمام غم و غصہ اور یہ تمام تلخیاں ایک لاوے کی طرح پک کر تیار ہو جاتی ہیں اور سماج ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتا ہے۔ یہی انقلاب ہوتا ہے۔
جیسے ایک بہت بڑے طوفان کی آمد سے قبل ہر جانب مکمل سکوت طاری ہو جاتا ہے ویسے ہی ایک انقلاب سے پہلے پورا سماج ایسے رواں دواں نظر آتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور سب کچھ ویسے ہی معمول کے مطابق جاری رہتا ہے جیسا کہ حکمران طبقہ چاہتا ہے۔ لیکن جیسے کوئی ایک چنگاری پورے جنگل کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے ایسے ہی کوئی ایک معمولی سا واقعہ سماج میں موجود اس آتش فشاں کو پھاڑ کر رکھ دیتا ہے جو پہلے ہی پھٹنے کے لیے پک کر تیار ہو چکا تھا۔
کسی بھی سماج میں انقلاب کا مطلب ہے کہ محنت کش عوام کی اکثریت سیاست کے میدان میں قدم رکھ کر حکمرانی کی باگ ڈور خود سنبھال لیتی ہے۔ لاکھوں لوگ جنہیں حکمران گلے سڑے ڈھانچے قرار دے کر ظلم و جبر کے کوڑے برسا رہے ہوتے ہیں وہی ڈھانچے ان استحصال کرنے والوں سے اقتدار چھین کر خود اپنی حکمرانی کا آغاز کرتے ہیں۔ تمام فیصلے اقتدار کے ایوانوں اور حکمران طبقے کے مخصوص افراد کے درمیان ہونے کی بجائے سڑکوں اور کارخانوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں ہونے لگتے ہیں۔ ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ انقلاب سڑکوں پر آنے سے پہلے لوگوں کے رگ و پے میں آتا ہے، ان کی خون کی حرارت میں آتا ہے اور پھر وہاں سے وہ امنڈ کر سڑکوں پر نکلتا ہے اور سماج کے کونے کونے میں پھیل جاتا ہے۔
اس انقلابی عمل کے دوران سماج کا تمام تانا بانا بکھر جاتا ہے، تمام پرانی روایتیں دم توڑ دیتی ہیں، بڑے بڑے بت پاش پاش ہو جاتے ہیں، بڑے بڑے نام مٹی میں مل جاتے ہیں، بڑے بڑے لیڈر گمنامی کے اندھیروں میں غرق ہو جاتے ہیں اورایک لمبے عرصے سے سماج پر حکمرانی کرنے والے نظریات، سوچیں اور سیاست کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ تمام سماجی تعلقات، ریاستی ادارے اور ان پر ترتیب دیا گیا پورا نظام ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ نجی ملکیت جیسا’’ مقدس‘‘ ترین سماجی رشتہ بھی چیلنج کر دیا جاتا ہے اور محنت کش صنعتوں پر قبضے شروع کر دیتے ہیں جبکہ کسان جاگیروں کو اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔
لیکن اگر یہ تمام عمل سماج میں معروضی طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے تو پھر مارکس نے یہ کیوں کہا کہ دنیا کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب میں ابھرے ہوئے عوام ہر موجود چیز سے نفرت کرتے ہیں اور اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں خواہ وہ حکمران طبقے کا ظلم و جبر ہو یا اس کے بنائے ہوئے آئین و قانون اور دیگر ریاستی ادارے۔ لیکن یہ تمام تر استحصالی نظام ختم کرنے کے بعد سماجی و معاشی انصاف پر مبنی سماج کیسے قائم ہو گا۔ اس سوال کا جواب کوئی بھی دوسرا فلسفی، انقلابی راہنما، معیشت دان یا سماجی سائنسدا ن نہیں دے سکا۔ کارل مارکس کے عہد میں اس سوال پر بہت سی بحث جاری تھی اور باقی انقلابی راہنما اور دانشور سمجھتے تھے کہ اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں یا یہ اہمیت کا حامل نہیں۔ انہی غلط نظریات کی بنیاد پر 1871ء میں پیرس کمیون کا محنت کش طبقے کا انقلاب سرمایہ داروں نے خون میں ڈبو دیا تھا۔
کارل مارکس نے نہ صرف اس اہم ترین بنیادی سوال کا جواب دیا بلکہ اسے ایک سائنسی انداز میں حاصل کرنے کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ اس کے نزدیک آج کے عہد میں صرف مزدور طبقہ نئے سماج کی تشکیل میں قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اس کو ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو اس انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے ظلم و استحصال سے پاک سماج قائم کرسکے۔ یہ انقلابی پارٹی اس سماج کی تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور انقلاب کے دوران جو اقتدار محنت کش عوام حکمران طبقے سے چھینتے ہیں اسے منظم انداز میں استعمال کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست کی تشکیل کرتی ہے۔ اس انقلابی پارٹی کا امتیازی وصف یہ ہوتا ہے کہ جب باقی تمام افراد سماج میں جاری ظلم و ستم کیخلاف آگ اگل رہے ہوتے ہیں اور پرانی ہر ایک چیز کو اکھاڑ پھینک رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ نئے سماج کا ایک حقیقی متبادل پیش کرتی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے تمام ظلم و استحصال کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ انقلابی پارٹی صرف سماج کی تشریح نہیں کرتی بلکہ اس کو تبدیل بھی کر دیتی ہے۔ اگر یہ انقلابی پارٹی موجود نہ ہو تو انقلابی تحریک کی شدت میں کمی آتے ہی حکمران طبقہ دوبارہ اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دیتا ہے اور عوام کے لیے تھوڑی بہت اصلاحات کے بعد ظلم اور نا انصافی پر مبنی وہی پرانا نظام بحال ہو جاتا ہے۔
آج پاکستان میں بھی حالات ایک انقلابی تبدیلی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پشتونوں کی قومی جبر کیخلاف ابھرنے والی بغاوت سے لے کر سرکاری و نجی اداروں کے محنت کشوں کی پھیلتی ہوئی احتجاجی تحریکوں تک ہر جانب ایک وسیع عوامی بغاوت کے آثار ابھر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مارکسی نظریات پر مبنی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر وقت کی اولین ضرورت ہے تا کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمائے کی آمریت پر مبنی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ مارکس کے جنم کو دو صدیاں گزرنے کے بعد اسے خراج تحسین پیش کرنے کا یہی سب سے بہتر انداز ہے۔