|تحریر: ولید خان|
گزشتہ سال دو فروری کو کراچی ائر پورٹ پر نجکاری کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے پی آئی اے کے سینکڑوں محنت کشوں پر ریاستی اداروں کی فائرنگ کے نتیجے میں دو محنت کش ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ اس سے قبل سندھ پولیس کی جانب سے بد ترین لاٹھی چارج کیا گیا لیکن جب اس کے ذریعے محنت کشوں کے غم و غصے کو نہ روکا جا سکا تو رینجرز کو متحرک کیا گیا جنہوں نے احتجاج کرنے والوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک سال گزرنے کے باوجود اس واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکی اور نہ ہی کسی کو سزا دئیے جانے کا امکان ہے۔ دوسری جانب احتجاج کرنے والے محنت کشوں کو بد ترین انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بغاوت کی یہ آگ ٹھنڈی ہونے کے بجائے سلگ رہی ہے اور دوبارہ سے ابھرنے کے لیے تڑپ رہی ہے۔ درحقیقت پی آئی اے کے محنت کشوں کی یہ جدوجہد پوری دنیا میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کا ہی تسلسل ہے۔
2016ء کا سال 2008ء کے بعد سرمایہ دارنہ بحران کے حوالے سے اکیسویں صدی کا اہم ترین سال رہا۔ سال کا آغاز عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں تباہ کن گراوٹ سے ہوا جس سے بہت سی معیشتوں کو دھچکے لگے۔ اس کے علاوہ بھی اہم تاریخ ساز واقعات رونما ہوئے جن میں یورپ میں مختلف ممالک میں انتہائی دائیں بازو اور بائیں بازو کے ابھار، برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج اور فرانس میں لیبر قانون کے خلاف لاکھوں افراد کی تحریک، امریکہ میں برنی سینڈرز کا ابھار اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور صدر انتخاب اور اس کے خلاف تحریک، جنوبی کوریا میں صدر پارک کے خلاف دیو ہیکل تحریک کے بعد اس کا استعفیٰ، چین میں مزدوروں کی ہڑتالوں میں اضافے، مشرقِ وسطیٰ میں طاقتوں کے توازن میں تبدیلی، ہندوستان میں بڑھتی ہوئی تحریکیں، لاطینی امریکہ میں برازیل اور دیگر ممالک میں تحریکیں، جنوبی افریقہ میں طلبہ تحریک اور وسطی افریقی ممالک میں تحریکیں جن کے نتیجے میں متعدد حکومتیں تبدیل ہو گئیں۔ غرضیکہ کسی خطے، کسی علاقے، کسی ملک کو دیکھا جائے، ہر طرف سرمایہ داری کی تباہیاں اور ان کے خلاف عوامی مزاحمت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس ساری عالمی صورتحال میں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو عالمگیر منڈی میں منسلک ہونے کی وجہ سے یہاں کی سماجی، معاشی اور سیاسی صورتحال پر عالمی کیفیت اور مقامی حالات کی تابڑ توڑ یلغار ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کی رجعتی اور سرمایہ داروں کی کاسہ لیس ن لیگ کی حکومت 2013ء میں منتخب ہونے کے بعد کٹوتیوں، نجکاریوں اور ٹیکسوں کے کمر توڑ بوجھ کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اسی پروگرام کے ذریعے حکمران طبقے کے تمام دھڑوں نے کمیشن، کک بیکس اور لوٹ مار کا ماحول گرم کر رکھا ہے جس میں فوجی و سول افسر شاہی سے لے کر مقامی سرمایہ دار، عدلیہ وغیرہ سب شامل ہیں۔ وقت کم ہے اور بیچنے کیلئے بہت کچھ۔ لیکن سب سے بڑا رخنہ مزدور طبقے کا ہے جس نے اس تمام تر یلغار کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کیا ہوا ہے جس کی جھلک ہمیں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکل سٹاف، مختلف اداروں میں نچلے درجے کے ملازمین، اساتذہ، طلبہ، واپڈا، ریلوے، پی ٹی سی ایل، نادرا، کسان، پی آئی اے، پورٹ قاسم کے محنت کشوں، پاکستان اسٹیل مل سمیت تقریباًہر ادارے میں نظر آتی ہے۔ کسی بھی ادارے کو دیکھا جائے، محنت کش اور طلبہ نجکاری اور اپنے گرتے ہوئے معیار زندگی کے خلاف غم و غصے کی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔ گو کہ یہ تحریکیں ایک دوسرے سے ابھی تک الگ ہیں اور اپنا سیاسی اظہار نہیں کر پائیں جس کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں۔ اسی لیے مختلف اداروں میں نجکاری کا عمل وقتی طور پر تعطل کا شکار تو ہوتا ہے لیکن اس کے بعد زیادہ شدت سے جاری کیا جاتا ہے۔ لیکن جو ہڑتال 2فروری 2016ء کے دن شروع ہوئی اس نے معروضی طور پاکستان میں محنت کش طبقے کے اتحاد اور عام ہڑتال کا سوال طبقے کے سامنے کھڑا کر دیا۔
PIA کے محنت کشوں نے نجکاری کے خلاف آٹھ دن ہڑتال جاری رکھی جس میں ایک بھی مقامی یا انٹرنیشنل فلائٹ کو اڑنے نہ دیا گیا۔ علامتی احتجاج تقریباً دو ماہ سے وقتاً فوقتاً جاری تھا لیکن 2فروری کو جناح ٹرمینل کراچی کی طرف مارچ کرتے ہوئے احتجاج پر ریاست نے گولیاں چلا کر دو محنت کشوں قتل کر دیا جس کے بعد پورے ملک میں PIA کے مزدوروں نے خود رو انداز میں ہڑتال کر دی۔ اس ہڑتال میں مزدوروں نے مختلف یونینوں کے ممبر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو صرف PIAکا ملازم جانا اور اکٹھے مل کر ہڑتال جاری رکھی۔ بہت سے یونین لیڈر اس اہم موقع پر بھی تذبذب کا شکار تھے اور کھل کر ہڑتال کی حمایت نہیں کر رہے تھے جبکہ کچھ تو ہڑتال کے مخالف تھے لیکن محنت کشوں کے شدید ترین دباؤ کے نتیجے میں یہ ہڑتال کامیابی سے آٹھ دن تک جاری رہی جس نے پاکستان کی مزدور تحریک میں ایک نئے باب کا آغاز کر دیا۔ پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین پر ریاست کے بد ترین جبراور انتقامی کاروائیوں، یونین اشرافیہ کی بد ترین غداری اور ہڑتال کی اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے محنت کش اپنی مطلوبہ منزل حاصل نہ کر سکے۔ لیکن اس کے باوجودایک لمبے عرصے کے بعد محنت کشوں کی ایسی دلیرانہ جدوجہد کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس ہڑتال کے کامیاب نہ ہونے کی وجوہات اور اسباب کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے تا کہ درست نتائج اخذ کیے جا سکیں اور آنے والی جدوجہدوں کے لیے درست لائحہ عمل بنایا جا سکے۔ حکومت نے ہڑتال کے بعد اپنے وعدوں کے برعکس یونین اشرافیہ کی ملی بھگت سے اپنے حقوق کیلئے لڑنے والے محنت کشوں پر بدترین انتظامی ڈسپلن کے تحت کریک ڈاؤن کیا۔ لیکن جہاں ہمیں ہڑتال کی کمزوریوں کا ادراک ہونا چاہیے وہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دو مزدوروں کی شہادت اور ہڑتال کی وجہ سے حکومت کو نجکاری بالآخر مؤخر کرنا پڑی۔ دوسری جانب ہڑتال کے دوران نجکاری کا شکار دیگر اداروں کے مزدوروں نے اپنی اپنی یونین قیادتوں کی نصیحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئےPIA کے ملازمین کی ہڑتال کے حق میں خودرو احتجاج کر کے یہ ثابت کیا کہ شعوری طور پر بحیثیت طبقہ پاکستان کے محنت کشوں میں یہ احساس تیزی کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے کہ اگر حکمران طبقے کے استحصال، لوٹ مار اور جبر کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کیلئے تمام ادار ے کے محنت کشوں کویونین اشرافیہ کے بوجھ سے آزاد ہو کر متحد ہونا پڑے گا۔
اس وقت نجکاری کیلئے واپڈا، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل سر فہرست ہیں۔ مزاحمت سے بچنے کیلئے حکومت نے ان اداروں کوشئیرز کے ذریعے اسٹاک ایکسچینج میں بیچنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پی آئی اے کے مزدوروں کی مزاحمت توڑنے کیلئے ناکام ’’PIA Premier‘‘ کا اجرا کیا جا چکا ہے۔ یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور جونک کی طرح ادارے کا خون چوس رہا ہے۔ حالیہ اعلانات کے مطابق 2017ء کے آخر تک PIA سے 3500 ملازمین کو فارغ کر دیا جائے گا۔ جبکہ جنوری 2017ء سے ائرلائن کے چار یونٹوں کیٹرنگ، فلائٹ ٹریننگ، انجینئرنگ اور کارگو کو بزنس یونٹس بنا کر 2017ء کے آخر تک بیچ دیا جائے گا۔ حکومت سال 2017ء کے آخر تک ائرلائن کے 49فیصد حصص بیچنے کیلئے کوشاں ہے جس کی مکمل منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ عوام دشمن حکومت کامؤقف یہ ہے کہ ائر لائن کئی دہائیوں سے مسلسل خسارے میں ہے جو کہ ریاست اب مزید برداشت نہیں کر سکتی اور خرچہ بے پناہ ہے جس سے ریاست کو جان چھڑانا ضروری ہے۔ ائرلائن چلانے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے فلائٹ PK-661 کی طرح کے حادثات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
PIA کی حالیہ کیفیت کو دیکھ کر کوئی شخص یہ یقین نہیں کر سکتا کہ 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں یہ ادارہ دنیا کی بہترین ائر لائینز میں گنا جاتا تھا۔ PIA ایک ایسا ادارہ ہے جس میں ایک ائر لائن کے ہر شعبے، بنیادی ٹریننگ سے لے کر تمام تر منٹیننس اورمینجمنٹ کا مکمل نظام اور شعبے موجود ہیں۔ یہ ادارہ اپنے آغاز سے لے کر 90ء کی دہائی کے اوائل تک منافع بخش اور سستی عوامی سفری سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں ملک کا سفارتی نمائندہ بھی تھا۔ لیکن پھر ’’اوپن سکائی‘‘ پالیسی کے تحت بیرونی اور نجی ائر لائنز کوپاکستان میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ انتہائی منافع بخش اندرونی اور بیرونی ائر روٹ بیچ دئیے گئے جس کی وجہ سے بے پناہ مالی خسارہ ہو رہا ہے۔ ائر پورٹس کے بہت سارے شعبوں کی نجکاری کر دی گئی اور بہت سارے اندرون ملک ائر پورٹ بند بھی کر دئیے گئے۔ نئے جہاز خرید کر موجودہ فلیٹ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا اور جہاں جہاز خریدے بھی گئے وہ یا تو استعمال شدہ ہیں یا پھر انتہائی مہنگے اور مالیاتی نقصان دہ معاہدوں پر لئے گئے جن میں حکمرانوں کی بڑے پیمانے پر بد عنوانی شامل ہے۔ تمام حکومتوں نے ادارے میں من پسند لوگوں کی تعیناتی کی گئی جنہوں نے اتنی لوٹ مار کی کہ اب ان میں سے کوئی اپنی ائر لائن کا مالک ہے تو کوئی ائر پورٹ کے کسی شعبے کو ٹھیکے پر چلا رہا ہے۔ اس ملک کے حکمران عوام کے اس ادارے کو ذاتی ٹیکسی کے طور پر استعمال کرتے ہے اور باقی رہی سہی کثر متعلقہ شعبوں میں نئی بھرتیاں اور جدید ٹریننگ نہ کر کے نکالی جا رہی ہے۔ حکمران طبقے کے کاسہ لیس میڈیا میں دن رات پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ جہازوں کے تناسب سے PIA میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ محنت کش ہیں پر یہ نہیں بتایا جاتا کہ گراؤنڈ کریو سے لے کر کیبن کریو، ٹاور کنٹرول سے لے کر کارگو تک تمام شعبوں کے لوگوں کو اس اعدادو شمار میں شامل کر کے بے ایمانی اور جھوٹ کی بہترین مثال قائم کی جاتی ہے۔ یہ بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ تنخواہوں کا خرچہ بے پناہ ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ تنخواہوں کا بڑا حصہ اور مراعات مینجمنٹ ہڑپ کر جاتی ہے اور مجموعی طور پر محنت کشوں کی تنخواہوں کا خرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تمام اقتصادی اور تکنیکی فیصلے مینجمنٹ کرتی ہے جس میں عام مزدور کو رائے دینے یا اثر انداز ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں لیکن مورد الزام پورے ادارے کو بحیثیت مجموعی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دنیا کی دیگر ائر لائنز اس وجہ سے منافع بخش ہیں کیونکہ وہ نجی طور پر کام کر رہی ہیں سراسرجھوٹ، فریب اور عوام کو گمراہ کرنے کی سازش ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر ائر لائن انڈسٹری سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے خسارے میں ہے اور اگر کوئی ائر لائنز منافع بخش ہیں بھی، جیسے مشرق وسطیٰ کی ائر لائنز (سعودی، قطر، ایمیریٹس ائر لائنز وغیرہ)، تو اس کی وجہ ریاستی سرپرستی اور بے پناہ ریاستی سبسڈی ہے۔
پی آئی اے میں جاری حکمرانوں کی بد عنوانی اور نجکاری کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ادارے کو نقصان پہنچانے والی پالیسیوں کے باعث دہائیوں سے چلتے آ رہے ان مسائل نے بڑھتے بڑھتے اب خوفناک شکل اختیار کرنی شروع کر دی ہے۔ ا سٹاف کی کمی اور موجود اسٹاف سے زیادہ سے زیادہ اوقات کار میں کام، نجی ائر لائنز کو ترجیح، پرانے جہازوں اور دہائیوں سے کم ہوتی ریاستی سرمایہ کاری کے نتیجے میں PK-661 فلائٹ کا 7دسمبر 2016ء کا اندوہناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک ATR جہاز چترال سے اسلام آبادجاتے ہوئے حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں پی آئی اے کے عملے سمیت 47 افراد کی موت واقع ہوئی۔ جہاں پر ایک معروف شخصیت کی موت کی انتہائی بھونڈے انداز میں تشہیرکرتے ہوئے جہاز کی تباہی کی جواب طلبی اور الزام سے بچا گیا وہاں پی آئی اے کے ہلاک ہونے والے ملازمین کی موت کے بعد مستقبل میں ملازمین کے جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔ بلکہ اس کے بر عکس اس واقعے کو استعمال کرتے ہوئے حکومت نجکاری کیلئے اپنے جھوٹے مؤقف کو مزید مضبوط بنانے کیلئے کوشاں ہے جس کے نتیجے میں مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ حکومت پہلے ہی اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے ائر لائن کو پارلیمنٹ میں ایک قانونی بل کے ذریعے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا چکی ہے تاکہ اسے آسانی سے بیچا جا سکے۔ اس جرم میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر حکومت اتنے بڑے دیو ہیکل ادارے کو، جسے کوئی ایک نجی کمپنی یا کنسورشئم بھی نہیں خرید سکتا، اونے پونے داموں بیچنے پر کیوں تلی ہوئی ہے؟ اس کی واضح وجہ ٹھیکے، کک بیکس، قطر اور ترکی کے جابر فرمانرواؤں سے گٹھ جوڑ، مقامی نجی ائر لائن مالکان کے ساتھ ساز باز، ائر لائن کی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور پلازوں کے خواب، ائر لائن کی سرمایہ کار کمپنیوں کی لوٹ مار اور دنیا کے مختلف ممالک اور اندرون ملک موجود ہوٹلوں کو ہتھیانا ہے۔ اس مقصد کیلئے کسی بکرے کے پارچوں کی طرح ائر لائن اور ائر پورٹس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیچا جائے گا۔ فروری 2016ء میں ائر لائن مزدوروں کی طرف سے شدید مزاحمت سے پہلے یہ جھوٹ بولے جاتے رہے کہ نجکاری کے نتیجے میں کسی ایک مزدور کو بھی نوکری سے نہیں نکالا جائے گا اور یہ کہ ادار ہ نجی ہاتھوں میں منافع بخش ہو جائے گا۔ لیکن اس فریب کی حقیقت جاننے کیلئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ 2005ء میں جب PTCLکی نجکاری کی گئی تو اس وقت بھی یہی جھوٹ بولے گئے۔ لیکن پچھلے گیارہ سالوں میں جہاں 46,000 ملازمین کو اونے پونے دام دے کر نکالا جا چکا ہے وہیں پر 2005ء میں 30ارب روپے کا منافع گھٹ کر 8ارب روپے ہو چکا ہے جو سیدھا اتصلات کی جیب میں جاتا ہے۔ جو ملازمین نکالے گئے تھے ان میں سے اکثریت ابھی بھی بیروزگار ہے اور انتہائی غربت کا شکار ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں یہاں جو تھوڑی بہت جو بھرتیاں کی گئی ہیں وہ یا تو کنٹریکٹ پر ہیں یا دیہاڑی پر جس میں کم سے کم محنت کشوں سے زیادہ سے زیادہ اوقات کار میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور مستقل ملازمت کی بنیادی مراعات سے محروم ہیں۔ پی ٹی سی ایل کے 26فیصد حصص بیچ کر اور منیجمنٹ کنٹرول دے کر جتنے پیسے کمائے گئے ان میں سے تقریباً سارے ہی ملازمین کو نکالنے، قرضے اتارنے، ٹیکنیکل فیسوں اور دیگر کاموں میں خرچ ہو چکے ہیں۔ مالیت 358ارب روپے سے گھٹ کر 53ارب روپے تک گر چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو باقی بچے ہوئے حصص کی مالیت کی مد میں225ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اسٹاک کی قیمت کی بھی دگر گوں حالت ہے جبکہ نجی کمپنیوں مثلاً ورلڈ کال، ٹیلی نار، موبی لنک، زونگ وغیرہ نے نہ صرف منڈی میں اپنا حصہ بڑھایا ہے بلکہ اب منڈی کا اکثریتی منافع بھی انہی کی جیبوں میں جاتا ہے۔ جو حال PTCL کا پچھلے گیارہ سالوں میں ہو چکا ہے وہ پاکستان کے ہر مزدور کی آنکھیں کھولنے اور ریاست کی مزدور دشمن پالیسیوں کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہے۔ PIA میں تحریک مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی جس کے بعد جہاں ایک طرف نئی ابھرتی قیادت کو حکومت مینجمنٹ اور یونین اشرافیہ کے ساتھ مل کر دبانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف ملازمین کو برطرف کرنے کے حالیہ اعلانات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس حکومت کے پی آئی اے کے ملازمین سے متعلق کیا عزائم ہیں۔
پاکستان میں نجکاری کے عمل کا آغاز بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں کیا گیا لیکن اس کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے اس عمل کو جاری رکھاخواہ وہ آمریت تھی یا نام نہادجمہوریت۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی نیشنلائزیشن کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بڑے پیمانے پراصلاحات اور نیشنلائزیشن کر کے سرمایہ داری کو ایک انقلابی تحریک سے تحفظ دیا گیا۔ سوشلزم کا نعرہ لگانے کے باوجود اس پروگرام کو مکمل نہیں کیا گیا۔ ضیا الباطل کی بد ترین آمریت کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی مزدور دشمن پالیسیوں پر عملدرآمد کا آغا زکیااور نجکاری کے مزدور دشمن پروگرام کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پوری دنیا میں مزدور تحریک پسپائی کا شکار تھی۔ یہاں بھی یکے بعد دیگر ے مزدور قیادتیں بد عنوانی اور مفاد پرستی کی کھائی میں گرتی چلی گئیں اور محنت کشوں کو ملازمتوں سے نکالنے کے ساتھ ساتھ ان کی 60ء اور70ء کی دہائیوں میں ایک لڑائی کے ذریعے حاصل کی گئی مراعات بھی چھینی جاتی رہی۔ یہ عمل ایک سیدھی لکیر میں رونما نہیں ہوا بلکہ اس دوران بہت شدید مزاحمتیں بھی دیکھنے میں آئیں لیکن عمومی رجحان پسپائی کا ہی تھا۔ مزدور تحریک کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی سیاست بھی پسپائی اور غداریوں کا شکار رہی جبکہ پیپلزپارٹی بھی بتدریج تعفن زدہ اور بدبودار ہوتی گئی جس کے باعث محنت کش طبقہ اس سے دور ہوتا چلا گیا۔ پی آئی اے کی گزشتہ سال کی ہڑتال نے اس صورتحال میں ایک معیاری جست لگائی ہے اور نئی یونینوں اور مزدوروں کی اپنی سیاسی پارٹی کا سوال ابھر ا ہے۔
2017ء کا سال پاکستان میں نجکاری کی زد میں آئے اداروں کیلئے انتہائی اہم سال ہے۔ حکومت نے IMF کے ساتھ معاہدے کو پورا کرتے ہوئے PIA، واپڈا کی مختلف کمپنیوں اور پاکستان اسٹیل مل کی تیز ترین نجکاری کرنی ہے۔ 2013ء سے حکومت مختلف طریقوں سے اداروں کی نجکاری کرنے کی کوشش کررہی ہے جس میں جہاں صحت، تعلیم، میونسپلٹی کی نجکاری اور بینکوں کے شئیر وغیرہ بیچنے میں اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے وہیں پر بہت سارے اداروں میں مزاحمت کی وجہ سے ناکامی بھی ہوئی ہے۔ محنت کشوں پر اب یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ علیحدہ علیحدہ اپنے اداروں اور اپنا تحفظ کرنے کے بجائے جدوجہد کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے طبقے کی وسیع تر پرتوں کے ساتھ جڑنا پڑے گا اور حکومت کی نجکاری، کٹوتیوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی عوام دشمن پالیسی کا متحد ہو کر مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ جہاں تمام اداروں کے مزدور متحد ہو کر ذمہ دار اور مزدور دوست قیادت کے تلے اکٹھے ہوں وہیں پر دیگر اداروں کے ساتھ ایک مشترکہ لائحہ عمل اور پروگرام پر جڑت بنائیں جس کے مطابق حکومت نہ صرف نجکاری کی پالیسی اور وزارت کا خاتمہ کرے بلکہ وہ تمام ادارے جن کی نجکاری کی جا چکی ہے انہیں دیگر نجی کمپنیوں اور اداروں سمیت واپس ریاستی تحویل میں لیا جائے۔ ہر مزدور کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے، یونین سازی کا مساوی اور بھرپور حق دیا جائے اور ریاستی پلاننگ اور سرمایہ کاری کرتے ہوئے اداروں کو نہ صرف مزید ترقی دی جائے بلکہ نوجوانوں کو معیاری ملازمتوں کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے۔ 2فروری 2017ء کے دن جہاں PIA کی تحریک کا ایک سال مکمل ہو گا وہیں پر ادارے کے دو شہیدوں عنائت رضا اور سلیم اکبر کی برسی کا بھی دن ہو گا۔ یہ دن جہاں دونوں شہدا اور PIA کے محنت کشوں سے نجکاری کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے تجدید عہد کا دن ہے وہیں پر یہ دن آنے والے سالوں میں مزدور مفادات کے تحفظ کی جدوجہد میں اہم سنگ میل بھی ثابت ہو گا۔