سربیا کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج!

|تحریر: ریوولوشیونارنی کمیونستکی ساویز، RCI کا یوگوسلاویہ سیکشن|

15مارچ کو بلغراڈ، سربیا میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج منعقد ہوا۔ آرکائیوز برائے عوامی اجتماعات کے مطابق اس احتجاج میں 3 لاکھ افراد موجود تھے اور کئی مبصرین کے مطابق اس سے بھی زیادہ افراد احتجاج میں موجود تھے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

بلغراڈ میں ایک کلیدی ٹریفک انٹرچینج آٹوکومانڈا (Autokomanda) اور نووی ساد (Novi Sad) میں فریڈم برِج (Freedom Bridge) پر فروری میں بڑے اجتماعات کے بعد ہفتہ کے دن احتجاجوں کی تیاری میں طلبہ کراگوجیواک (Kragujevac) اور نیس (Niš) میں نئے اجتماعات کرتے رہے۔ اگرچہ طلبہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ ہفتہ کی ریلی آخری نہیں ہو گی لیکن کئی افراد کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اس دن الیکسانڈر ووچک (Aleksandar Vucic) کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

بڑے احتجاج سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر گاڑیوں کی طویل قطاروں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر ہو رہی تھیں جو بلغراڈ کی جانب شاہراہ کے ٹال پلازوں پر جمگھٹا لگائے کھڑی تھیں۔ کیونکہ ایک دیوہیکل اجتماع متوقع تھا، اس لیے کئی افراد نے ایک دن پہلے بلغراڈ پہنچنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ احتجاج کے دن ٹریفک جام میں پھنس نہ جائیں۔

پورے سربیا سے طلبہ اور سرگرم کارکنان نے دارالحکومت کی جانب مارچ منظم کر رکھے تھے۔ ہر گاؤں اور ہر شہر میں شہریوں کی جانب سے ان کو سورماؤں جیسا استقبال اور حمایت ملی۔ بلغراڈ پہنچنے پر خاص استقبال کیا گیا جہاں طلبہ نے ہزاروں بستروں کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ سربیا کے طول و عرض سے آنے والے کامریڈز کے لیے احسن انتظامات کیے جائیں۔

احتجاج کے دن مغربی اور شمالی شاہراہوں سے آنے والوں نے اپنی گاڑیاں نیو بلغراڈ میں لگائیں جو احتجاج کی جگہ سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ صبح کے وقت خوشگوار موڈ میں افراد شہر کے اس حصے سے شہر کی جانب رواں دواں رہے۔ ساتھ ہی وہ سیٹیاں اور ووزیلا بجاتے ہوئے ”پمپ اِٹ!“ (Pump it) کے نعرے لگا رہے تھے جو احتجاج کا خاصہ بن چکا ہے۔ عوام کی ایک مستقل قطار برانکو (Branko) پل پار کر رہی تھی جو نیو بلغراڈ کو بلغراڈ سے جوڑتا ہے۔ بلغراڈ میں آنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ پورا شہر ٹریفک نے بند کر رکھا ہے اور پولیس نے ہر چند قدم پر چیک پوائنٹ لگا رکھے تھے۔

جیسے جیسے مقررہ وقت قریب آ رہا تھا ہجوم کا سمندر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ کچھ جگہوں سے گزرنا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔ احتجاجیوں نے ہمارے لیفلیٹ بڑے اشتیاق سے پڑھنے کے لیے پکڑے جس سے ہماری انقلابی سیاست میں عوامی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

احتجاج دو کلیدی جگہوں پر منعقد ہو رہا تھا۔۔ سلاویجا چوک اور پارلیمنٹ۔۔ لیکن حقیقتاً ہجوم کا آغاز اور اختتام جاننا ناممکن تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ احتجاج ایک دیوہیکل لامتناہی جشن ہے جو بھرپور توانائی سے دمک رہا ہے۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر مختلف اطراف میں گردش کر رہا تھا اور کیونکہ ایک بڑی تعداد بلغراڈ سے نہیں تھی اس لیے وہ بس ہجوم کی پیروی کر رہے تھے کہ منزل تک پہنچ جائیں۔

جنگی تجربہ کار اور سائیکل سوار اکٹھ کی بحفاظت رہنمائی میں مدد کر رہے تھے۔ سلاویجا چوک میں تقریریں ہوئیں۔ احتجاجوں کی روایت کے مطابق لاکھوں عوام نے یکم نومبر 2024ء کو نووی ساد میں ریلوے اسٹیشن کی چھت گر جانے کے نتیجے میں پندرہ افراد کی ہلاکت کے احترام میں پندرہ منٹ خاموشی اختیار کی۔ اس حادثے کی ذمہ دار حکومت تھی اور وہی اس کے لیے جوابدہ ہے۔

غلیظ ووچک حکومت

اس دیوہیکل احتجاج کی تیاریوں کے دوران غلیظ ووچک حکومت کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے ننگا تھا۔ جب سے اسٹیشن کی چھت گری ہے جس کے نتیجے میں پندرہ معصوم جاں بحق ہوئے، اس کے بعد اس حکومت نے کامیابی کے ساتھ پورے سربیا کو اپنے خلاف کر لیا ہے کیونکہ ہر قدم پر اپنے دفاع میں ہر اوچھا اور گھٹیا ہتھکنڈہ اور جھوٹ استعمال کیا گیا ہے۔

ریاستی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے اور صورتحال کو قابو میں رکھنے سے قاصر ہے۔ اپنے ہی بوجھ تلے دب جانے کے ڈر سے اس نے انتہائی ہیجانی اور بیوقوفانہ اقدامات کیے ہیں۔ 15 مارچ کو مقابلہ کرنے کی کوشش میں ووچک نے اعلان کیا کہ شدید تشدد یقینی ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ یہی ایک شخص ہے جو یہ کام کرے گا۔

اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کی بھونڈی کوشش میں سب سے گھٹیا ہتھکنڈہ ووچک کی حمایت میں ”حامیوں“ کا ایک کیمپ منظم کرنا تھا۔ ریاست نے ان افراد کو اکٹھا کر کے ایسے طلبہ بنا کر پیش کیا جو یونیورسٹیوں میں احتجاجی کیمپوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ وہ پڑھائی جاری رکھ سکیں۔ احتجاج کا دن قریب آتا جا رہا تھا اور کیمپ میں مسلسل لمپن عناصر (سماج کی پچھڑی اور پسماندہ شعور پرتیں) کو بھرتی کیا جا رہا تھا جن میں سے کئی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پریشان اور تباہ حال افراد تھے۔ اس کے علاوہ کئی افراد جنہیں حکمران پارٹی نے نوکریاں دی تھیں، دباؤ کا شکار تھے کہ اس کیمپ میں شامل ہوں۔ کوسوو (Kosovo) کے شمال سے بھی سربوں کو لایا گیا حالانکہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ان میں سے کئی اپنی مرضی کے خلاف یہاں بیٹھے ہیں۔

کیمپ میں شمولیت کے لیے روزانہ اچھی خاصی اجرت دی جا رہی تھی۔ کیمپ میں نجی سکیورٹی بھی تھی اور بالآخر اس کیمپ کو گھیرے میں لے لیا گیا۔۔ اس لیے نہیں کہ شرکاء کی حفاظت کرنی ہے بلکہ مقصد ان کی کیمپ سے فراری کو روکنا تھا۔ اس کے علاوہ پولیس بھی کیمپ کی حفاظت کر رہی تھی لیکن انہوں نے احتجاجیوں پر کیمپ میں موجود غنڈوں کے حملوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ کیمپ پارلیمنٹ کے بالکل سامنے تھا تاکہ حکومت مظاہرین کا گھیراؤ کر سکے، پولیس کو مخصوص مقامات پر تعینات کر سکے اور پارلیمنٹ کی ”حفاظت“ کے لیے بدمعاش ہر وقت میسر ہوں۔

احتجاج سے ایک دن پہلے حکومت نے کئی طلبہ اور مخالف سرگرم کارکنان کو گرفتار کر لیاجس کی بنیاد ایک چھوٹی حزب اختلاف پارٹی کے دفتر میں بنائے گئے کچھ خفیہ آڈیو ریکارڈ تھے۔ یعنی حکومت ان کی مخبری کر رہی تھی اور پھر میڈیا کے ذریعے ان ریکارڈز کو افشاں کر دیا گیا۔ ان آڈیو ریکارڈنگز میں بحث ہو رہی تھی کہ 15 مارچ کو کیسے منظم کرنا ہے اور حکومت نے کچھ زیر بحث تجاویز اور منصوبہ بندی کو استعمال کرتے ہوئے گرفتاریاں کیں اور کارکنان پر آئین کو سابوتاژ کرنے کا الزام لگا دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اور ان کا مقصد دیگر سرگرم افراد کو ڈرانا تھا۔

پندرہ منٹ کی خاموشی کے دوران ایک قابل ذکر واقعہ بھی رونما ہوا۔ انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں احتجاج کے ایک حصے میں ایک ہجوم کو اچانک اور بغیر کسی اشتعال انگیزی کے بھگدڑ مچاتے اور فٹ پاتھ پر پناہ لیتے دکھایا گیا ہے۔ کئی افراد نے بیان دیا ہے کہ اچانک تیز آوازیں اور لرزشیں شروع ہو گئیں۔ لوگ پہلے ہی گاڑیوں کے ذریعے مظاہرین کو کچلنے کے واقعات سے گھبرائے ہوئے تھے اور اس لیے وہ فوری طور پر ہٹ گئے۔ بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ایک ہجوم کش صوتی ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔ ایک پرامن احتجاج پر اس طرح کے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کرنا خود ایک بہت بڑی چارج شیٹ ہے۔

احتجاج میں ایک مرحلے پر تناؤ تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا۔ کیمپ کے قریب کچھ نقاب پوش اکٹھے ہونے شروع ہو گئے اور کیمپ سے پتھراؤ شروع ہو گیا۔ ووچک کی دھمکیوں کی وجہ سے کئی افراد کو ادراک تھا کہ کوئی بھی جسمانی یا جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی واقعہ کے پیش نظر طلبہ کی رہنمائی کرنے والے افراد نے مارکروں سے اپنے والدین کے فون نمبر اور اپنا بلڈ گروپ اپنے بازوؤں پر لکھا ہوا تھا۔ جب ایسا لگنا شروع ہوا کہ حالات سب کے کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں تو طلبہ نے کسی قسم کے تشدد سے بچنے کے لیے احتجاج کو ختم کر دیا۔

احتجاج کا تجزیہ

احتجاج کو اچانک ختم کرنے کا فیصلہ اکثریت کے لیے حیران کن تھا لیکن زیادہ تر نے کسی اعتراض کے بغیر یہ فیصلہ قبول کر لیا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی توانائی ہوا میں فنا ہو گئی۔ لوگ اپنے گھروں کو جانے لگے اور چند گھنٹوں میں ہفتے کا یہ دن ایک عمومی بلغراڈ رات میں تبدیل ہو گیا۔ لیکن اگلے دن یہ واضح تھا کہ سربیا میں جدوجہد کی روح پوری طرح توانا اور پُرعزم ہے۔ فضاء میں ایک جذبہ موجود تھا کہ سربیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور کامیاب احتجاج منعقد ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو محبت اور یکجہتی سے سرشار تھا۔

طلبہ نے ایک نیا ناکہ لگا دیا تاکہ ووچک سمیت سب کو واضح ہو جائے کہ وہی فیصلہ کریں گے کہ تحریک کی راہ کیا ہے۔ ووچک کو کسی قسم کا گمان نہ ہو کہ وہ پندرہ مارچ میں سے بچ نکلا ہے تو یہ اس کی کامیابی ہے۔ نیس میں واپس آنے والے طلبہ کا بطور ہیرو استقبال کیا گیا اور اوبرینوواک (Obrenovac) میں میونسپل محنت کشوں پر انڈے برسائے گئے کیونکہ ان میں سے کچھ ووچک کے کیمپ میں شامل ہوئے تھے۔

اس احتجاج نے کچھ اہم سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ مرکزی سوال یہ ہے کہ ووچک اقتدار نہیں چھوڑے گا چاہے کتنی دیوہیکل مزاحمت کا سامنا ہو۔ یہ ممکن ہے کہ 15 مارچ کے احتجاج میں سربیا کی 5 فیصد آبادی ایک شہر میں اکٹھی ہو گئی ہو۔

دوسری طرف سوال یہ ہے کہ طلبہ کو ایک واضح سیاسی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ 15 مارچ کو احتجاج کی مرکزی جگہ کو تیزی کی ساتھ کئی مرتبہ تبدیل کیا گیا جس کے بعد ایک سمجھوتے کے تحت سلاویجا چوک اور پارلیمنٹ دونوں جگہ احتجاج رکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی واضح طلبہ قیادت موجود نہیں ہے۔ اگرچہ براہِ راست جمہوریت نے ایک وسیع پرت کی شمولیت کے ذریعے تحریک کو متحد رکھا ہوا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ایک منتخب قیادت کی عدم موجودگی میں ایک خلاء موجود ہے۔ اس خلا کو سرگرم طلبہ پُر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جس سے کنفیوژن پیدا ہو رہا ہے۔ ایک واضح طلبہ قیادت کی موجودگی میں یہ واضح ہوتا کہ کون کس لمحے میں کس کام کا ذمہ دار ہے۔

یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ اگرچہ طلبہ اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی واضح سیاسی پروگرام یا اہداف کا تعین نہیں کیا ہے۔ ساڑھے تین مہینوں سے وہ ریلوے اسٹیشن کی چھت گرنے کے واقعے پر دستاویزات کو شائع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ان تین مہینوں کی قابل تعریف جدوجہد اور کوششوں کے باوجود کوئی نتائج برآمد نہیں ہو سکے ہیں۔ ووچک حکومت خوفزدہ ضرور ہے لیکن فی الحال قائم و دائم ہے۔

اس کی ایک وجہ اس تحریک میں محنت کش طبقے کی قابل ذکر تعداد میں عدم شمولیت ہے جو ابھی تک اتنی پُراعتماد نہیں ہے کہ زیادہ فیصلہ کن انداز میں میدان عمل میں اتر سکے۔ دوسری طرف محنت کش طبقے کی نظروں میں طلبہ ہی وہ واحد پرت ہے جو قابل اعتماد ہے، اس لیے وہی ایک واضح سیاسی راستہ اور پروگرام دے سکتے ہیں جس کے نتیجے میں محنت کش طبقہ پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہو۔ تاحال ایسا نہیں ہو سکا ہے۔

جرأت مند اور شاندار جدوجہد کے نتیجے میں طلبہ نے سماج میں دیوہیکل اثر و رسوخ حاصل کیا ہے اور اس وقت وہ سیاسی طور پر بھی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ ایک عام ہڑتال کا مطالبہ کر کے وہ عمومی طور پر درست سمت کی جانب گامزن ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے محنت کشوں اور شہریوں کی عام اسمبلیوں کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے۔

لیکن اپنی کال کو سماج کی ہر پرت میں پھیلانے اور منظم کرنے کے لیے انہیں اپنی میٹنگوں میں سے ایک مرکزی ڈھانچہ تشکیل دینا پڑے گا جس کی ایک قومی قیادت اور ایک سیاسی پروگرام ہو۔ میٹنگوں کے اس سلسلے کو یونیورسٹیوں سے بڑھا کر شہروں اور قومی سطح پر مستقل مشترکہ سرکاری ڈھانچے تشکیل دینے چاہیے جنہیں طلبہ کی امنگوں کو عملی جامہ پہنانے کا حق حاصل ہو۔ اس طرح سربیا کی محنت کش عوام میں ساکھ مضبوط ہونے کے ساتھ ووچک حکومت کے خاتمے کے لیے سیاسی قیادت فراہم کرنے کی صلاحیت کا بھی براہ راست اظہار ہو گا۔

محنت کش طبقہ زیادہ سے زیادہ ہڑتالی سرگرمیوں میں شامل ہو رہا ہے۔ اس کا اظہار ہم نے سکولوں، عدلیہ، نکولا ٹیسلا ایئرپورٹ، پوسٹ آفس، GSP بلغراڈ اور الیکٹروپریوریدا سربجے (Elektroprivreda Srbije) میں دیکھا ہے۔ ان ہڑتالوں میں سے محنت کشوں کی ایک دیوہیکل تحریک کا جنم عین ممکن ہے۔

ووچک حکومت اپنی ساکھ تقریباً راکھ کر چکی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایک خطرناک رجحان یہ بھی ہے کہ اس کے اقتدار میں مزید دوام سماج کی رگوں میں مزید زہر بھر دے گا۔ وقت آ چکا ہے کہ محنت کش طبقہ، وہ واحد طبقہ جو پورے سماج کا معاشی نظام چلاتا ہے، اپنے بچوں اور طلبہ کی مدد کرتے ہوئے ووچک اور اس کی جرائم پیشہ حکومت کا خاتمہ کر دے۔

Comments are closed.