|تحریر: خالد قیام|
خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں چند روز قبل پولیس گردی کا ایک اور گھناؤنا واقعہ پیش آیا جس میں وارسک روڈ کے رہائشی اور ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ بچے شاہ زیب خان کی غربی تھانے کی حوالات میں پر اسرار طور پر موت واقع ہوئی۔ شاہ زیب خان ساتویں جماعت کا ایک طالب علم تھا جو اس کے والد کے مطابق امتحان کے کچھ لوازمات کے سلسلے میں دوپہر کے وقت گھر سے باہر نکلا اور اس دوران میں پولیس اس چھوٹے بچے کو گرفتار کرکے غربی تھانے لے گئی۔ تقریبا دو گھنٹے بعد بچے کا والد پولیس کی اطلاع پر تھانے پہنچا اور بچے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کی مگر تین گھنٹے تک پولیس اس کو کچھ بتانے کیلئے تیار نہ تھی۔ بچے کی خیر خیریت معلوم کرنے کیلئے والد کے بے ساختہ چلانے، گڑگڑانے اور منت سماجت کرنے پر اسے بتایا گیا کہ اس کے بچے نے پولیس حوالات میں خود کشی کرکے اپنی جان لے لی ہے۔
یہ خبر آس پاس کے رہائشی علاقے اور پورے شہر میں تیزی سے پھیل گئی جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر عوام کی طرف سے سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور رات ہوتے ہی اس علاقے کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ پشاور کی مختلف جگہوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے غربی تھانے کے سامنے بھرپور احتجاج کیا اور تھانے کے سامنے مسجد روڈ کو بلاک کرکے صدر سے آنے والی ٹریفک کو جام کردیا جس سے مرکزی صدر میں ٹریفک گھنٹوں تک جام رہی۔ احتجاجیوں نے تھانے کے ایس ایچ او اور پولیس گردی کے خلاف سخت نعرے لگائے اور بچے کے قتل کے ذمہ داران کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
پولیس گردی کے اس انسانیت سوز واقعے کے بعد عام لوگوں میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ یاد رہے کہ یہ پولیس گردی کا کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں بلکہ ایک لمبے عرصے سے جاری پولیس کے جعلی مقابلے، حوالات میں لوگوں کے قتل یا چوکوں چوراہوں پر لوگوں کو سرعام گولیاں مارنے کے واقعات کا ہی تسلسل ہے۔ کراچی میں نقیب محسود سمیت سینکڑوں غریب محنت کشوں کے جعلی پولیس مقابلوں میں قتل عام سے لے کر 2019ء میں ساہیوال کے ایک معصوم خاندان کو کچھ زیورات کی خاطر معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کرنے تک، اور دو ہفتے پہلے پشاور میں دلہ زاک روڈ پر وزیرستان سے داخلے کیلئے آئے ہوئے ایک طالب علم کو سرعام گولیاں مار کر قتل کرنے سے لے کر بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پانچ نوجوانوں کو لاپتہ کرکے جعلی پولیس مقابلے میں سفاکانہ طور پر قتل کرنے تک پولیس جبر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
پاکستان کی طرح دنیا کے ہر ملک کی پولیس ریاستی جبر کا ایک مستقل ادارہ ہے جس کو ریاست اور حکمران طبقہ بظاہر تو عوام کا محافظ بناکر پیش کرتا ہے لیکن تمام تر محنت کش، نوجوان اور کسان بہتر طور پر اپنی زندگی کے تجربات سے یہ بات جانتے ہیں کہ ریاست بوقت ضرورت اس کو طلبہ، محنت کشوں اور کسانوں پر گولیاں، لاٹھیاں اور آنسو گیس برسانے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ جنوری کے مہینے میں آن لائن امتحانات کیلئے طلبہ تحریک اور 10 فروری کو اسلام آباد میں پاکستان بھر کے محنت کشوں کے اپنے جائز مطالبات کے حق میں پرامن دھرنے پر لاٹھیاں اور آنسو گیس برسا نا، اور کچھ ماہ پہلے لاہورمیں کسانوں کے پرامن احتجاج پر گولیاں چلا کر ایک کسان رہنما کو شہید کرنا اس کی واضح مثالیں ہیں۔
محنت کشوں کی تحریکوں اور احتجاجوں کو کچلنے اور حکمران طبقے کا جبر مسلط کرنے کے علاوہ عام حالات میں بھی عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے اور اپنی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ذریعے انہیں دبا کر رکھنے کیلئے بھی پولیس کے ادارے کو مکمل چھوٹ ہوتی ہے۔ ان تمام قتل و غارت کے واقعات میں ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کہیں پر کسی پولیس افسر کو کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی سزا میں پھانسی دی گئی ہو یا عمر قید کیا گیا ہو۔
پشاور کے حالیہ سانحے میں بھی حکومتی وزراء اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے روایتی مذمتی بیان جاری ہوا اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں اس کے حکم پر وقتی طور پر غربی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او اور انسپکٹر کو معطل کیا گیا۔ مگر اس کا مقصد بھی محض عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنا تھا۔ چند دنوں بعد جب یہ خبر باقی ہزاروں خبروں میں غائب ہو جائے گی، تب ان افسران کو دوبارہ بحال کر دیا جائے گا۔ اسی طرح میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اس سانحے کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کی جائے گی۔
اس مہم کا آغاز ایک سی سی ٹی وی ویڈیو کلپ کے ذریعے کیا جا چکا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ وہ نوجوان ان حوالات میں پھندے پر خود لٹکا۔ لیکن پھندے پر لٹکنے سے پہلے حوالات میں اس کے ساتھ کیا ہوا، کس طرح تشدد کیا گیا، ایک کم عمر بچے سے کس قسم کی تفتیش کی گئی جس کی عمر بھی اٹھارہ سال سے بھی کم تھی، یہ سب کہیں نہیں دکھایا گیا۔ پولیس اہلکاروں اور غربی تھانے کے گرفتار کیے گئے اسی ایس ایچ او کے حق میں پچھلے دن شہر کے کچھ ڈرگ سمگلروں اور ڈاکوؤں کے ذریعے احتجاج بھی کروایا گیا۔ یہ سب ان قاتلوں کو بے گناہ ثابت کرنے کی ایک غلیظ مہم کا حصہ ہے، لیکن عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ 14 سال کے ایک معصوم بچے کو کس قانون کے تحت پولیس حراست میں لیا گیا اور اس کو کیوں کر پولیس حراست میں خود کشی کرنی پڑی؟ مگر ان تمام سوالات کو جھوٹ کے ملبے تلے دبانے کی ایک غلیظ کوشش جاری ہے۔
پولیس گردی کے یہ بڑھتے ہوئے واقعات اس سرمایہ دارانہ ریاست اور حکمران طبقے کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں۔ مگر اس جبر کا بلا شبہ ایک عوامی اور خاص طور پر منظم محنت کش طبقے، نوجوانوں اور کسانوں کی متحدہ طاقت کے ذریعے ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ آنے والے وقت میں مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی اور غربت کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں پر جبر کے ساتھ ساتھ بے لگام پولیس گردی کے اس طرح کے واقعات میں اضافہ نظر آئے گا جس کے خلاف ایک عوامی سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا ہے۔ محنت کش عوام کو محلوں اور کام کی جگہوں پر خود عوامی حفاظتی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ ان عوامی حفاظتی کمیٹیوں کے ذریعے عوام نہ صرف ریاستی جبر اور پولیس گردی کے ان واقعات کو روک سکتے ہیں بلکہ محنت کشوں کی ایک ایسی طاقت تعمیر کر سکتے ہیں جو سرمایہ دارانہ ریاست کے جبر کو نا صرف وقتی طور پر روکنے میں کامیاب ہو گی بلکہ سرمایہ دارانہ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں بھی ایک اہم کامیابی ہو گی۔ یہی قوت ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی اور ایک انسان دوست سوشلسٹ سماج تعمیر کرے گی۔