تحریر: |راشد خالد|
69سال پہلے برصغیر کی خونی تقسیم کے نتیجے میں دو ’’آزاد‘‘ ملک معرض وجود میں آئے؛ ہندوستان اور پاکستان۔ اور ان پچھلے تمام تر سالوں میں ان دونوں ممالک کے حکمران طبقات اپنی عوام کو یہ باور کروانے میں مشغول ہیں کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک ہیں۔ بالخصوص ہر سال 14اور 15اگست کو ان دونوں ممالکمیں ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا باؤلے ہو جاتے ہیں، اپنی اپنی قوم کی بہادری کی لازوال داستانوں کے نا ختم ہونے والے قصے سنائے جاتے ہیں، جری افواج کے کارناموں کی لمبی فہرستیں سنائی جاتی ہیں۔ یہ جنگ، وہ جنگ، اس نے اتنے مارے، اس نے اتنے مارے۔ 65ء اور 71ء کے واقعات سیما کے آر پار عوام کو اپنے اپنے سرکاری ورژن میں اتنی دفعہ سنائے گئے کے اب کچھ حقیقت سے لگتے ہیں۔ عمارات برقی قمقموں سے جگمگا ئی جا رہی ہیں، تمام بڑی شاہراہوں پر آزادی کے جشن کی رسیدیں لٹک رہی ہیں۔ افواج اور دیگر سرکاری اداروں سے لے کر سیاستدان اور کاروباری حضرات سب اس کھیل میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں۔
پاکستان کی سرکاری تاریخ ایک دو قومی نظریے کو پاکستان کی تشکیل کی بنیاد بتاتی ہے، جس کی رو سے برصغیر میں دو قومیں، ہندو اور مسلم آباد تھیں۔ ہندو چونکہ اکثریت میں تھے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کہ پہاڑ گرا رہے تھے اس لئے برصغیر کے مسلمانوں نے اجتماعی طور پر اپنی الگ ریاست تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک تحریک کا آغاز ہوا جس کی قیادت مسلم لیگ نے کی اور بالآخر 14اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ کم یا زیادہ تفصیلات کے ساتھ یہی تاریخ تمام تر نصابی کتابوں میں لکھی اور بچوں کو پڑھائی جاتی ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جو تاریخ ہمیں پڑھائی جاتی ہے اس کا حقیقت کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ تاریخ میں کسی بھی قوم کی تشکیل اتنے مختصر وقت میں صرف کتابوں میں ہی ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر جن دو ممالک کی تشکیل کی گئی وہاں آج تک دو قومیں نہیں بن سکیں۔ پاکستان تو بن گیا مگر پاکستانی قوم کا کہیں وجود نہیں، یہاں آج بھی پنجابی، سندھی، سرائیکی، بلوچ، پشتون اور نجانے مزید کتنی اقوام بستی ہیں اور اسی طرح بھارت کے بن جانے کے باوجود آج بھی بنگالی، میراٹھی، تامل، تیلگو، پنجابی، راجستھانی، بہاری، گجراتی اور دیگر ہندوستانی قوم نہیں بن سکے۔ اگر اس پار کشمیر، آسام، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ اور دیگر ریاستوں میں آج بھی فوج کشی ہو رہی ہے تو اس پار کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں، تقسیم کے فوری بعد پشتونوں کے ساتھ کیا کیا گیا اور بلوچوں کی آج تک جاری نسل کشی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تاریخ کے حوالے سے سب سے بڑا جھوٹ بھی یہیں پڑھایا جاتا ہے کہ برصغیر کا بٹوارا انتہائی پر امن تھا، جبکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس بٹوارے نے 27لاکھ انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ غریب دہقان جو کل تک ایک ساتھ زندگی گزار رہے تھے، اس تقسیم کے نتیجے میں ہندو اور مسلم ہو گئے۔ انہیں اپنا گھر بار، زمینیں، مال مویشی چھوڑ کر زندگی بچانے کے لئے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔
برطانوی سامراج نے جب برصغیر میں اپنا قبضہ جمایا تو اس وقت بھی ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی تھی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد جب وہ برصغیر کو چھوڑنے پر مجبور ہوا تو اس وقت بھی اس نے یہی پالیسی اپنائی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برطانوی سامراج کے آنے سے قبل ہندوستان میں بسنے والے عوام آپس میں گھل مل کے رہ رہے تھے اور تمام تر تہوار مل جل کر منائے جاتے تھے۔ دسہرا، عید، بیساکھی، ہولی، دیوالی؛ یہ تہوار کسی مذہب کے پیروکاروں کے نہیں بلکہ یہاں رہنے والوں کی ثقافت کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثریتی عوام مذہب کو ثانوی درجہ دیتے تھے اور رسوم و رواج کو اس سے بالاتر سمجھتے تھے۔ انگریز سامراج نے پہلی دفعہ 1881ء کی مردم شماری میں مذہب کا خانہ رکھا، تاکہ لوگوں کو مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے کاٹا جا سکے۔ مارکس نے لکھا تھا کہ ’’برطانوی سامراج کا ہندوستان میں دوہرا کردار تھا؛ ایک طرف تباہ کن اور دوسری طرف ترقی پسند۔‘‘ انگریز سامراج نے تاریخ میں پہلی دفعہ اس نے برصغیر کے لوگوں کو تار اور ریلوے کے ذریعے آپس جوڑ دیا اور ہندوستان میں ایک قومی شعور کو اجاگر کیا جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔اس کا اظہار 1857ء کی جنگ آزادی میں پہلی دفعہ ہوئی۔ مارکس نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ تار کا نظام جو برطانوی سامراج ہندوستان میں بچھا رہا ہے، یہی اس کے گلے کا طوق بنے گا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ریلوے اور تار کے نظام نے ہندوستان میں پرولتاریہ کو جنم دیا۔ پرولتاریہ کے جنم نے ہندوستان میں سامراج سے آزادی کی کشمکش کو تیز کیا جو اس سے قبل مختلف رنگوں میں بٹی ہوئی تھی۔ روس میں بالشویک انقلاب کے بعد ہندوستان میں بھی کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور انتہائی کم وقت میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو ہندوستان کے طول و عرض میں حمایت اور مقبولیت ملنا شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی سامراج کے خلاف نفرت کے نتیجے میں مختلف
تحریکیں پنپتی اور پروان چڑھتی رہیں، جن میں غدر پارٹی اور بھگت سنگھ شہید کی ہندوستان سوشلسٹ ریپبلیکن آرمی (HSRA) نے مقبولیت حاصل کی۔ ٹریڈ یونینز کے قیام نے کمیونسٹ پارٹی کو مزید شکتی دی اور محنت کشوں کی مختلف جدوجہدیں ہندوستان میں ایک نئی اٹھان کا باعث بنیں۔ 1930ء کی دہائی میں ریلوے کے محنت کشوں کی ہڑتالیں برطانوی سامراج کے لئے درد سر بن گئیں۔ لیکن 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت وہ فیصلہ کن لمحہ تھا جب برطانوی سامراج نے ہندوستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کر دیا۔ لیکن کمیونسٹ پارٹی کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث برطانوی سامراج ہندوستان میں اپنے کٹھ پتلی سیاستدانوں کی وجہ سے اسے تقسیم کرنے میں کامیاب رہا۔ کمیونسٹ پارٹی کی ماسکو میں بیٹھی سٹالنسٹ افسر شاہی قیادت کے برطانیہ سے یارانوں کا خمیازہ ہندوستان کے کروڑوں عوام کو بھگتنا پڑا۔
برصغیر تو تقسیم ہو گیا۔ لیکن اس تقسیم نے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دیا جو اس خطے میں ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔ اس خطے کے انسانوں کی ہزاروں سالوں کی مشترکہ تاریخ ہے اور اس تاریخ کو داغدار کرنے کے لئے اس تقسیم کو خون میں نہلا دیا گیا۔ برصغیر کے سینے پر جو لکیر کھینچی گئی اس میں پنجاب اور بنگال سب سے زیادہ متاثر ہوئے، اور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ لاشیں بھی یہاں بسنے والوں نے وصول کیں۔ پھر اس تقسیم نے اس خطے میں کبھی نہ بھرنے والازخم کشمیر کی صورت میں چھوڑ دیا۔ جس کے نام پر دونوں ممالک کے حکمران طبقات خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کا معاشی قتل عام کر رہے ہیں۔ کشمیر کو اپنی شہ رگ اور اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لئے دونوں ممالک نے ایٹم بم بنا لیے ہیں تاکہ بوقت ضرورت اپنے دشمن سے نبٹا جا سکے۔ لیکن کروڑوں لوگ بنیادی انسانی سہولیات سے بھی دور ہیں۔ دونوں ممالک میں کروڑوں انسانوں کے پاس رفع حاجت کے لیے بیت الخلا موجود نہیں، علاج اور تعلیم کی بنیادی سہولیات نہیں جبکہ ان غریب لوگوں کے ٹیکسوں سے ہر سال اربوں روپے اسلحے پر خرچ کیا جاتا ہے۔
ہر سال یہی سب دہرایا جاتا ہے۔ لیکن اس سب چکا چوند اور واویلے کو دیکھ کر کوئی بھی ذی شعور انسان کچھ وقت کے لئے پریشان ضرور ہو جاتا ہے، جشن آزادی؟ہاں۔ مگر کیسی آزادی؟ کس سے آزادی؟ 1947ء سے قبل جب یہاں بدیسی انگریز حکومت کرتے تھے، تب بھی اکثریتی غریب عوام کی زندگی کٹھن ہی تو تھی اور آج جب یہاں کے دیسی حکمران ہیں تو زندگی میں کو نسی آسانی آ گئی ہے۔ غربت، بھوک، بیماری، لاعلاجی، بیروزگاری۔۔۔ یہ سب عفریت تو آج بھی اس خطے کے کروڑ ہا لوگوں کی زندگیاں اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ محنت کشوں کو بنیادی حقوق تک میسر نہیں اور غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور کسان کبھی حکومتی پالیسیوں تو کبھی بنیوں کے قرضوں سے تنگ آکر اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے روزگار کے حصول کے لئے دھکے کھا رہے ہیں۔ خواتین کی زندگی تو جہنم بن چکی ہے۔ اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو یہاں کے حکمران طبقات کی زندگیوں میں۔ غریب فاقہ زدہ انسانوں کو جو جشن منانے کا کہا جاتا ہے وہ اسی حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی پرتعیش زندگی کا جشن ہے، بقول فیض؛ ’’اس جشن میں میں بھی شامل ہوں، نوحوں سے بھرا کشکول لیے‘‘ وگرنہ لوگ جانتے ہیں کہ جہالت، فاقہ کشی، لاعلاجی میں تڑپ تڑپ کر مرنے، قرض خواروں سے تنگ آ کرخودکشیوں کا جشن نہیں ہوتا۔ ہاں! ہم بر صغیر کے ڈیڑھ ارب غریب انسان بھی ایک دن جشن منائیں گے، حقیقی جشن۔ لیکن اس سے قبل اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد ڈال کر، بر صغیر جنوبی ایشیاکی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل دے کر جو یہاں کے باسیوں کے لئے ایک حقیقی انسانی زندگی کا آغاز ہو گا۔