11 اکتوبر پشتون قومی عدالت: راہِ نجات کیا ہے؟

|انقلابی کمیونسٹ پارٹی|

 

11اکتوبر کو پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام تین روزہ پشتون قومی عدالت کے نام سے ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہو رہا ہے۔ اس جرگے میں پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت کے بقول پچھلی پانچ دہائیوں سے پشتون قوم پر ہونے والے مختلف مظالم کے نتیجے میں جو تباہی اور بربادی ہوئی ہے ان کی ایک مفصل اور جامع رپورٹ پیش کی جائے گی جس کے بعد جرگے میں شرکت کرنے والے لوگوں کے مختلف اضلاع کی بنیاد پر کیمپس قائم کیے جائیں گے، جہاں وہ اپنے علاقوں میں در پیش مسائل اور ان کے مجوزہ حل کے حوالے سے جرگے کے فورم پر بات کریں گے۔

جبکہ پشتون قوم میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ان کو بھی موقع دیا جائے گا جہاں پر وہ پشتون قوم کو در پیش چیلنجز کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پشتون قوم میں انٹیلی جنشیہ اور ٹریڈ یونینز کے ساتھیوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے جو کہ اس جرگے میں اپنی نقطہ نظر کے مطابق مسائل اور ان کے حوالے سے مجوزہ حل پیش کریں گے۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی جو کہ روزِ اول سے نہ صرف پشتون تحفظ موومنٹ بلکہ ریاستی مظالم کے خلاف ہر اٹھتی ہوئی آواز کے ساتھ ان کی جدوجہد میں ہر اول دستے کے طور پر موجود رہی ہے، اور ہمارا یہ واضح مؤقف ہے کہ پاکستان برطانوی سامراج کی پیداوار ایک جابرانہ اور مصنوعی فیڈریشن ہے جہاں پر روز اول سے مظلوم اقوام کو بزور طاقت مطیع رکھا گیا ہے اور ان پر مظالم ڈھائے گئے ہیں۔

یہ جابرانہ ریاست اپنی آغاز سے لے کر آج تک ایک طرف تو عالمی سامراج کی گماشتہ رہی ہے تو دوسری طرف خطے کی مظلوم اقوام کے حوالے سے اس کے اپنے سامراجی اور قبضہ گیر عزائم بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کے خلاف امریکی پشت پناہی کے ساتھ پیٹرو ڈالر جہاد کے نام پر پشتون سماج کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا، اس کے نتائج آج تک پشتون سماج بھگت رہا ہے۔ پورے پشتون سماج کو مذہبی انتہا پسندی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا۔

بعد ازاں 2001ء میں امریکہ کی سامراجی مداخلت اور نام نہاد وار آن ٹیرر میں امریکہ کے اتحادی بن کر پاکستان کے فوجی جرنیل ڈالرز کی بہتی گنگا میں اشنان کرتے رہے اور ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم بھی کھیلتے رہے جبکہ اس سب کھلواڑ کے خونریز نتائج بالعموم پورے پاکستان اور بالخصوص پشتون عوام کو بھگتنے پڑے۔

پھر سابقہ فاٹا اور پختونخواہ کے دیگر علاقوں میں فوجی آپریشنز اور امریکی ڈرون حملوں کے طویل سلسلے کی پشتون قوم پرست پارٹیوں کی جانب سے حمایت اور پشتون عوام کی حالت زار پر مجرمانہ خاموشی نے جس خلا کو جنم دیا اس خلا کو پی ٹی ایم نے پُر کیا۔ یاد رہے کہ انہی قوم پرستوں نے فساد کی اصل جڑ یعنی افغانستان میں امریکی سامراج کی مداخلت کو بھی خوش آمدید کہتے ہوئے اس سے افغانستان کو ایک جدید قومی ریاست بنانے کی امیدیں لگائیں تھیں۔

دہشتگردی سے نجات:

اس وقت خیبر پختونخواہ سمیت دیگر پشتون علاقوں میں ایک طرف تو ریاستی ظلم و جبر موجود ہے تو دوسری طرف ماضی میں اپنے ہی تخلیق کردہ طالبان کے ساتھ ریاست کی نام نہاد لڑائی بھی جاری ہے جبکہ اس تمام قتل و غارت گری میں خون پشتون عوام کا بہہ رہا ہے۔

مگر موجودہ دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑا جائے؟ اس پر انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ایک واضح مؤقف ہے کہ ہم فوجی آپریشنز کے نام پر مزید ریاستی قتل و غارت گری کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف جمہوری طور پر منتخب کردہ عوامی کمیٹیوں کے ذریعے ہی دہشت گردی کے ناسور کے خلاف لڑا جا سکتا ہے اور ان منتخب عوامی کمیٹیوں میں محنت کش طبقے کو فوقیت دینا لازمی ہو گا کیونکہ محنت کش طبقہ سماج کی قوت محرکہ ہے، اور محنت کش طبقے کا ایک اشارہ ہی ریاست کو جام کر سکتا ہے۔ یہ عوامی کمیٹیاں اس وقت پاکستان کی ہر اس جگہ پر بن سکتی ہیں جہاں پر کوئی عوامی تحریک موجود ہے۔

وسائل کی لوٹ مار

قدرتی و معدنی وسائل پر انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا واضح مؤقف ہے کہ ملک کے کسی بھی علاقے میں جہاں پر قدرتی و معدنی وسائل موجود ہوتے ہیں ان پر حقِ ملکیت وہاں کے محنت کش عوام کو دیا جائے، جبکہ ان قدرتی و معدنی وسائل سے مقامی باسیوں کو استفادہ دینے کے لیے محنت کش طبقے کی قیادت میں جمہوری طور پر منتخب عوامی کمیٹیاں ہی حکمران طبقے، ریاستی اشرافیہ اور اس کے دلال مقامی سرمایہ داروں سے اپنا حق چھین سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقہ جات میں جنگلات کی بھرپور کٹائی جاری ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے، مگر اس عمل میں پشتون اشرافیہ بھی شامل ہے۔ ان اشرافیہ کے ہاتھوں کو روکنے کے لیے وہاں کے محنت کش عوام ہی عوامی کمیٹیوں کی صورت میں منظم ہوتے ہوئے سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

بجلی اور دیگر انفراسٹرکچر کے مفت اور معیاری حصول کے لیے حکمران طبقے کے جبر کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد ہی راہِ نجات ہے، کیونکہ اس وقت نہ صرف پشتون سماج بلکہ پورے پاکستان میں موجود تمام محنت کش عوام حکمران طبقے کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لیے طبقاتی جدوجہد ہی ان چیزوں کے حصول کو ممکن بنا سکتی ہے۔

پشتون قوم کا ’اتحاد‘

ہر قوم کی طرح پشتون قوم کے اندر بھی مختلف طبقات واضح طور پر موجود ہیں جس میں بلاشبہ پشتون اشرافیہ کو اس وقت نہ صرف ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ افغانستان پر براجمان مذہبی بنیاد پرست پشتون اشرافیہ عالمی و علاقائی سامراجیوں کی ایک دلال نمائندہ ہے، جس کے ہاتھ پشتون اور دیگر اقوام کے عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

انہی قوتوں نے پشتون سماج میں مذہبی بنیاد پرستی کی جڑوں کو مضبوط کرنے اور پشتون سماج کو تخت و تاراج کرنے میں ہمیشہ ریاستی و سامراجی قوتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کیا ہے۔ جبکہ ایسے عوام دشمن عناصر جنہوں نے پشتون قوم کے وسائل کو لوٹنے میں پاکستانی سول و فوجی اشرافیہ کی ہر قسم کی معاونت کی ہے اور ان کی ایما پر یہاں دہشت گردی کی نرسریاں قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان تمام کی جرگے میں شمولیت یا شرکت کی بنیاد پر پشتون قوم کا ’اتحاد‘ محض ایک فراڈ اور یوٹوپیا ہے۔

جرگے کی ممکنہ حاصلات

بنیادی طور پر جرگہ انتہائی قدیم، فرسودہ اور رجعتی ادارہ رہا ہے جہاں پر محض قبائلی تنازعات کو نمٹایا جا سکتا تھا۔ مگر قوم پرستانہ نظریات کی تنگ نظری اور واضح لائحہ عمل کی عدم موجودگی میں یہ قدیم اور فرسودہ ادارہ پشتون سماج پر دوبارہ سے مسلط کیا جا رہا ہے، جس کے کوئی خاص نتائج حاصل ہونے کے بہت محدود امکانات ہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی جرگے ہوئے ہیں مگر ان کے فیصلہ جات کو کبھی بھی قابل عمل نہیں بنایا گیا۔

اب پی ٹی ایم ایسے حالات میں جرگہ کرنے جا رہی ہے جہاں پر پشتون عوام نے ایک واضح فیصلہ کیا ہے اور قومی جبر سے لے کر معاشی استحصال اور دیگر ریاستی مظالم کے خلاف انہوں نے دو ٹوک پیغام دیا ہے۔ لہٰذا اب اس جرگے میں جو بھی فیصلہ جات ہوں گے ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نظریات کی بحث انتہائی اہم ہو جاتی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ قوم پرستی کے نظریات کے تنگ نظر دائرے میں اس وقت پشتون قوم کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں اور قوم پرستی کے نظریات مختلف اقوام کے مابین نفرتوں کو بڑھاوا دے کر اس وقت ریاست پاکستان کی جابرانہ فیڈریشن کو تقویت دے رہے ہیں۔

قوم پرستی ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی زوال کے اس عہد میں ان نظریات کا نتیجہ دو انتہاؤں یعنی موقع پرستی یا مہم جوئی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ ان نظریات کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ اسی لیے جرگے کے فیصلہ جات اور اُن پر عمل در آمد درست نظریات اور لائحہ عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو آج کے عہد میں صرف کمیونزم کے انقلابی نظریات ہی ہو سکتے ہیں، جن کی بنیاد پر ہی پاکستان کی مصنوعی فیڈریشن میں قید مختلف اقوام کے محنت کش عوام ایک دوسرے کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت بناتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس ظالمانہ ریاست اور لوٹ مار و استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

اس وقت پشتون قوم بحیثیت ایک مظلوم قوم کے ریاستِ پاکستان کی جابرانہ اور مصنوعی فیڈریشن کے اندر موجود ہے، اور پشتون قوم پر ہونے والے قومی جبر کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہمیشہ اپنے واضح مؤقف کے ساتھ بھرپور مذمت کرتی آئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پشتون قوم پر ہونے والے ریاستی جبر کا خاتمہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحفظ کے لیے موجود جابرانہ اور مصنوعی فیڈریشن کے انقلابی خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

جب کہ عمومی طور پر پشتون قوم کے قومی سوال کو مکمل طور پر حل کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان، جس میں بھی کئی اقوام بستی ہیں، میں بھی ایک سوشلسٹ انقلاب درکار ہے، جس کے نتیجے میں اس خطے کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی تخلیق ہی پشتون اور دیگر مظلوم اقوام کے قومی سوال کو حتمی طور پر حل کر سکتی ہے۔

Comments are closed.