|تحریر: فضیل اصغر|
ویسے تو پاکستان کے محنت کش عوام ملک بننے سے لے کر آج تک ذلت اور محرومی سے بھرپور زندگی ہی گزارتے آئے ہیں مگر موجودہ دور میں تو ایک وقت کی روٹی پوری کرنا بھی ناممکن بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے وہیں دوسری طرف بے روزگاری بھی پہلے نہ دیکھی گئی سطح پر ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے اجرتیں انتہائی کم ہیں، اور بالخصوص پرائیویٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کو تو وہ بھی نہیں ملتیں، اُلٹا مندی کا بہانہ بنا کر مالکان نے مزدوروں کے استحصال میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور جہاں پہلے ہفتے میں ایک دن اگر چھٹی ہوتی تھی تو اب وہاں ہفتے کے ساتوں دن کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر مزدوروں پر جرمانے لگائے جاتے ہیں اور مالکان ان کی تنخواہوں سے مزید کٹوتی کر لیتے ہیں۔ چھوٹے کسان اور دیہاڑی دار زرعی مزدور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور زرعی اجناس کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ اور فصل کے ریٹ میں کمی آتی جا رہی ہے۔ چھوٹے کاروبار بھی تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ لوگ جو پہلے سفید پوش کہلاتے تھے آج علی الاعلان اپنی حالت زار کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ طلبہ کی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ ہونے کے باعث بہت بڑی اکثریت یونیورسٹیوں تک پہنچنے سے ہی قاصر ہو چکی ہے اور جو طلبہ یونیورسٹیوں میں موجود ہیں وہ بھی فیسیں نہیں ادا کر پا رہے اور آئے روز فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نوجوان نسل کیلئے روشنی کی کوئی کرن موجود نہیں اور بے روزگاروں کے خوفناک سیلاب میں شدت آتی جا رہی ہے۔ خواتین پر گھریلو تشدد، کام کی جگہوں پر ہراسانی سمیت سماج کے ہر شعبے میں کیے جانے والے جبر میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مظلوم قومیتوں پر ریاستی جبر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ الغرض محنت کش عوام کیلئے یہ دنیا ایک جہنم بن چکی ہے جہاں بغیر کسی گناہ کے آئے روز وہ جلتے ہیں۔ ایسے میں رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں، ان کی پروردہ اسٹیبلشمنٹ سمیت ان سب کے سامراجی آقاؤں کے پاس اس بحران سے نبٹنے کا ایک ہی حل ہے کہ بڑے سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹیں دی جائیں اور محنت کش عوام پر سارے بحران کا بوجھ ڈالا جائے، جس کی وجہ سے بحران مزید بڑھتا جا رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان کے محنت کش عوام آج اس غلیظ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ایک خوبصورت انسانی زندگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کی خاطر وہ کوئی بھی قیمت چکانے کیلئے بھی تیار ہیں مگر بد قسمتی سے پاکستان میں رائج الوقت کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی ایسی موجود نہیں جو موجودہ سرمایہ دارانہ کو اکھاڑ پھینکنے اور ایک مزدور ریاست قائم کرنے کے پروگرام کے تحت سیاست کر رہی ہو اور سوشلزم کے انقلابی نظریات محنت کشوں تک لے کر جا رہی ہو۔ بہت سے مزدور لیڈر اور این جی اوزبھی مالکان اور حکمرانوں کے دلال بنی ہوئی ہیں اور انتہائی مزدور دشمن کردار ادا کر رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ملک بھر کے سرکاری و نجی اداروں کے محنت کش اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد کا رستہ اپنائے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً احتجاج اور ہڑتالیں کرتے رہتے ہیں، البتہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہونے، درست سیاسی پروگرام نہ ہونے اور قیادتوں کی غداریوں کی وجہ سے بڑی کامیابیاں حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔
آج پاکستان کے محنت کش طبقے کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کے گرد منظم ہونا ہوگا۔ بالکل ویسے جیسے آج سے 104 سال پہلے روس کے محنت کشوں نے کیا۔ یہ ایک عظیم الشان جدوجہد اور قربانیوں کی داستان ہے جسے تاریخ سے ایسے مٹا دیا گیا ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ آج بھی سرمایہ داروں کے دلال یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ مزدور تو ہیں ہی جاہل، وہ تو کچھ کر ہی نہیں سکتے، ان کے حالات بدلنے تو کوئی مسیحا اور عظیم لیڈر ہی آئے تو آئے یہ خود کوئی انقلاب نہیں کر سکتے۔ جبکہ روس انقلاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ مزدور، کسان اور نوجوان جب اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا ٹھان لیتے ہیں پھر وہ صرف تنخواہوں میں معمولی اضافے یا کوئی قانون پاس کروانے تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ پھر وہ سب تاج اچھال ڈالتے ہیں، سب تخت گرا ڈالتے ہیں، پھر سرمایہ داروں کے پورے نظام کو اکھاڑ پھنکتے ہیں اور اپنی ریاست بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔
آج سے 104 سال پہلے اگر روس کی حالت کو دیکھا جائے تو بالکل ایسے معلوم ہوتا جیسے موجودہ پاکستان ہو۔ اسی طرح مہنگائی، غربت، لاعلاجی، لاقانونیت، ریاستی جبر اور حکمران طبقے کی عیاشیاں ایک معمول تھا۔ اوپر سے روس پہلی عالمی جنگ کا بھی حصہ تھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں باقی دنیا سمیت روس میں بھی خوفناک تباہی پھیلی تھی اور سپاہیوں سمیت ساری آبادی اس جنگ سے تنگ تھی مگر روسی حکمران طبقہ برطانیہ، فرانس، بیلجیئم اور امریکہ کا مقروض ہونے کی وجہ سے اور اپنے سامراجی مفادات کی بنیاد پر جنگ جاری رکھنا چاہتا تھا۔ قحط نما صورت حال میں غریب عوام بھوکے مر رہے تھے، ان کے پاس کھانے کو روٹی تک دستیاب نہ تھی۔ مزدور اپنی تنخواہوں میں بے تحاشا کٹوتیوں اور بلاوجہ کے جرمانوں سے تنگ آ کر سراپا احتجاج تھے۔ چھوٹے کسان بھی شدید مالی مشکلات کا شکار تھے۔ ایک طرف فصل کی کاشت شدید گراوٹ کا شکار تھی اور وہ تیزی سے مقروض ہوتے جا رہے تھے جبکہ دوسری جانب بڑے جاگیرداروں کی آمدن میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں کسانوں میں بھی شدید غصہ پایا جاتا تھا۔ مگر اس تمام تر ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے والے کو ملک و قوم کا غدار قرار دے دیا جاتا تھا، اور ہر طرح کی جمہوری آزادیوں پر قدغنیں تھیں۔
اس تمام تر ماحول میں 23 فروری (موجودہ کیلنڈر کے مطابق 8 مارچ) کو ٹیکسٹائل صنعت سے تعلق رکھنے والی ہزاروں محنت کش خواتین پیٹروگراڈ کی سڑکوں پر نکل آئیں۔ انہیں دیکھ کر بے شمار مرد محنت کش بھی میدان میں اتر آئے۔ اب لاکھوں کی تعداد میں محنت کش پیٹروگراڈ کی سڑکوں پر تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کے محنت کش اور فوج کے سپاہی بھی (جو جنگ سے تنگ تھے) ان محنت کشوں کے ساتھ ہوگئے۔ اس ہڑتال کے محض پانچ دن بعد روس کے بادشاہ زار کا تختہ الٹ ڈالا گیا۔ یہ انقلاب تھا، جسے کیا تو محنت کشوں نے تھا، مگر طاقت ان کے ہاتھ میں نہ آسکی۔ عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس عبوری حکومت میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نمائندے موجود تھے۔ محنت کشوں کی پارٹی، بالشویک پارٹی (وہ پارٹی جس نے روس میں محنت کشوں کا انقلاب کرتے ہوئے پہلی مزدور ریاست بنائی، جسکا لیڈر لینن تھا) کی اعلیٰ قیادت جلا وطن تھی۔ یہ وہ واحد پارٹی تھی جو روس میں سوشلسٹ انقلاب کیلئے جدوجہد کر رہی تھی اور کئی دہائیوں سے نظریاتی بحثوں کو جاری رکھے ہوئے تھی جس میں انقلاب کے کردار کے حوالے سے لینن اور ٹراٹسکی کے درمیان اہم بحثیں بھی موجود تھیں۔ اس دوران انقلابی نظریات پر کیڈرز کی تربیت کا عمل بھی جاری رہا جس میں اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے اور ریاستی جبر بھی انقلابی قوتوں پر اپنے حملے کرتا رہا۔ لیکن اس کے باوجود درست نظریات اور حکمت عملی کی بدولت یہ پارٹی باقی تمام پارٹیوں کی نسبت زیادہ آہنی ڈسپلن اور پارٹی ڈھانچے کے ساتھ کام کرتی رہی۔
فروری انقلاب کے بعد اس پارٹی کی قیادت اور بہت سے کارکنان جلا وطنی سے واپس آئے اور اپنی بھرپور سرگرمی کا آغاز کرتے ہوئے انقلاب کے عمل میں براہ راست شرکت کرنے لگے۔آغاز میں فروری میں جب زار کا تختہ عوامی انقلاب نے الٹ دیا تو اس کے بعد اقتدار بالشویک پارٹی کے پاس نہ جا سکا اور منشویک پارٹی، سوشلسٹ ریولوشنریز اور دیگر اصلاح پسندوں کو سوویتوں میں اکثریت ملی لیکن انہوں نے غلط نظریات اور حکمت عملی کے باعث اقتدار پھر پرانے حکمران طبقے کو لوٹا دیا۔ ان اصلاح پسندوں کی کبھی بھی نظام تبدیل کرنے کی خواہش نہ تھی۔ یہ تو در حقیقت آئینی بادشاہت چاہتے تھے، یعنی کہ بادشاہ تو رہے مگر آئین ساز اسمبلی بن جائے اور روس میں بادشاہ کے رہتے ہوئے جمہوریت لائی جائے (برطانیہ کی طرح)۔ بادشاہت کے خاتمے کا سہرہ روس کے محنت کشوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے جرات مندانہ جدوجہد کے ذریعے بادشاہ کا تختہ الٹا۔ اسی عرصے میں 1905ء کی طرح فروری انقلاب میں بھی دھڑا دھڑ سوویتیں (فیکٹریوں اور علاقائی سطح پر بننے والی محنت کش عوام کی کمیٹیاں) بننا شروع ہوگئیں۔ در اصل اس سے پہلے 1905ء میں بھی ایک انقلاب اٹھا جو قیادت کی عدم موجودگی کے باعث سماج کی وسیع ترین پرتوں کو منظم نہ کر پایا اور بالآخر عظیم الشان قربانیوں اور جدوجہد کے بعد پسپائی کا شکار ہوا۔ اس انقلاب میں بھی عوام محلوں اور فیکٹریوں کی سطح پر سوویتوں کی شکل میں منظم ہوئے تھے۔ ان میں پیٹرزبرگ کی سوویت بہت مشہور ہوئی۔ اس سوویت کا چیئر مین لیون ٹراٹسکی بنا۔ 1905ء کے انقلاب میں اس سوویت کا اہم ترین کردار تھا۔ درحقیقت یہی وہ تجربہ تھا جس کا بلند پیمانے پر اظہار پھر فروری 1917ء میں ہوا تھا۔
بظاہر تو فروری 1917ء میں بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا تھامگر زمین پر اس عرصے میں روس میں ایک جانب عبوری حکومت تھی جو اوپر سے ملک کا نظام چلا رہی تھی، جبکہ دوسری جانب سوویتیں تھیں جو زمین پر سارے فیصلے کر رہی تھیں۔ اس عرصے کو ’دوہری طاقت‘ کا دور کہا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں جب ایک ریاست میں بیک وقت دو طاقتیں موجود ہوں (خاص طور پر اصل طاقت نیچے محنت کشوں کے پاس ہو) تو چیزوں کا پر سکون انداز میں آگے بڑھنا ناممکن ہوجا تا ہے۔ فروری سے لے کر اکتوبر تک کا عرصہ ایسے ماحول کا عرصہ تھا۔ اس ماحول کا زیادہ دیر چل پانا ممکن نہیں تھا۔
دوہری طاقت کے توازن کو بالآخر محنت کش طبقے کے پلڑے میں ڈالنے کا سہرہ پھر مزدور تحریک کے عظیم قائدین لینن اور ٹراٹسکی، اور بالشویک پارٹی کے سر جاتا ہے۔ دراصل جنگ سے تنگ آئے سپاہی ’امن‘ چاہتے تھے، بھوک سے مر رہے عوام ’روٹی‘ چاہتے تھے اور زندہ رہنے کیلئے کسان ’زمین‘ چاہتے تھے۔ عبوری حکومت کے نمائندے (اصلاح پسند) عوام سے یہ سب مہیا کرنے کے جھوٹے وعدے کر کے اقتدار حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گئے مگر حقیقت میں وہ نہ تو یہ سب ’دینا چاہتے تھے‘ اور نہ یہ ’دے سکتے تھے‘۔ بظاہر یہ سب دینا کوئی اتنا مشکل کام نہیں لگتا، تو پھر عبوری حکومت یہ سب کیوں نہیں دے پائی؟ درحقیقت روس کا سرمایہ دار طبقہ انتہائی پسماندہ تھا اور وہ روس میں جدید سرمایہ دارانہ ریاست قائم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تھا۔ وہ کسانوں کو زمین اس لیے نہیں دے سکتا تھا (یا دینا چاہتا تھا) کیونکہ ایک تو اس نے خود کئی زمینیں خریدی ہوئی تھیں اور دوسری اور سب سے اہم وجہ کہ اس سے بحیثیت مجموعی ’نجی ملکیت‘ خطرے میں پڑ جاتی تھی۔ وہ سپاہیوں کو امن نہیں دے سکتا تھا کیونکہ روس سر سے لے کر پاؤں تک قرضے میں ڈوبا ہوا تھا اور خود سامراجی عزائم رکھتا تھا اور مقبوضہ علاقوں کے براہ راست استحصال اور لوٹ مار سے زار کی دولت میں اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ برطانیہ، فرانس، بیلجیم اور امریکہ کا مقروض روسی حکمران طبقہ خود سے امن کا کوئی معاہدہ طے نہیں کر سکتا تھا۔ وہ بھوکی عوام کو روٹی نہیں دے سکتا تھا کیونکہ روٹی دینے کیلئے اسے روس میں امن قائم کرنا پڑنا تھا اور زرعی اصلاحات کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کرنا ضروری تھی، جو اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ لہٰذا عبوری حکومت عوام سے کیے ہوئے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہ کر پائی اور پھر محنت کش عوام نے اسے بھی خیر باد کہنا شروع کر دیا۔ عبوری حکومت در حقیقت اپنے جنم سے ہی ہوا میں معلق تھی۔ اس کی سماجی بنیادیں بھی ہوا میں ہی موجود تھیں جو فروری انقلاب کے دو مہینوں میں ہی بالکل ختم ہوتی نظر آئیں۔ اب محنت کش عوام کی نظریں اور امیدیں لینن کی بالشویک پارٹی پر لگنے لگیں۔
اس عرصے میں لینن کا متعارف کردہ نعرہ ”روٹی، امن، زمین“اور”تمام اقتدار سویتوں کو منتقل کرو!“ ملک بھر میں موجود سویتوں میں ایسے پھیلا جیسے جنگل میں آگ۔ مزدور، چھوٹے کسان، سپاہی اور سماج کی دیگر مظلوم پرتیں دھڑا دھڑ اس نعرے اور بالشویک پارٹی کے گرد منظم ہوتی چلی گئیں۔ بالآخر 26 اکتوبر (7 نومبر) 1917ء کو بالشویک پارٹی کی قیادت میں روسی محنت کشوں نے سرما محل (زار کے محل) پر قبضہ کر لیا۔ محنت کشوں کے بہت بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے انہیں کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس طرح روسی محنت کشوں نے صدیوں سے پہنا غلامی کا طوق اتار پھینکا۔ تمام فیکٹریوں، جاگیروں اور بینکوں کو محنت کشوں کے جمہوری اداروں یعنی سوویتوں کے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ اس طرح تمام سماجی وسائل کے محنت کش عوام اور ان کی نمائندہ ریاست کے کنٹرول میں آنے کے بعد سارے خزانے کا رُخ چند امیر زادوں کی عیاشیوں کی بجائے تعلیم، صحت، روزگار، ٹیکنالوجی اور سماجی ترقی کی جانب موڑ دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند دہائیوں میں انتہائی پسماندہ روس دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا۔ خلاء میں سب سے پہلا شخص بھیجنے سے لے کر بے روزگاری کے مکمل خاتمے اور خواتین، مظلوم قومیتوں اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کو بے مثال آزادی دینے تک مزدور ریاست کی جانب سے وہ تمام کارہائے نمایاں سرانجام دیے گئے جن کا سرمایہ دارانہ دنیا میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کے پاس اس ذلت اور محرومی میں غرق زندگی سے چھٹکارا پانے کا واحد طریقہ سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔