|تحریر: آدم پال|
آج پوری دنیا انسانی تاریخ کے بدترین بحران کی زد میں ہے۔ ہر طرف موت کا رقص نظر آتا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد کورونا وباء کی وجہ سے پوری دنیا میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس سے کئی گنا زیادہ اس بیماری کا شکار ہوئے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک سے ہلاکتوں کی درست رپورٹنگ نہیں ہو سکی اس لیے اس وباء کے حقیقی اثرات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر تاریخ کا بد ترین مالیاتی بحران بھی جاری ہے جس کی پہلے سے پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ اگر کورونا وباء نہ بھی پھیلتی تو تب بھی یہ مالیاتی بحران اسی شدت سے برپا ہونا ناگزیر تھا۔ اس مالیاتی بحران کے باعث پوری دنیا میں دو ارب سے زائد افراد کا روزگار تباہ ہو چکا ہے جبکہ کروڑوں افراد بھوک، بیماری اور غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ بھوک سے ہونے والی ہلاکتیں بھی انسانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ رہی ہیں جبکہ کورونا کے علاوہ دیگر بیماریوں کے باعث بھی ہلاکتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے کیونکہ صحت کی سہولیات اس وقت آبادی کی ضرورت سے بہت زیادہ کم ہیں۔ عالمی سطح پر حکمران طبقات دنیا میں جاری اس موت کے رقص کی حقیقت دنیا سے چھپا رہے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر صورتحال کی درست تصویر پیش نہیں کی جا رہی۔ جتنے بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی کا آغاز ہو چکا ہے اس کا چند ماہ قبل اس نظام کے دانشور اور تجزیہ نگار شاید تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سال 2019ء میں دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات بھی اپنی نوعیت کے حوالے سے تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ دنیا کے درجنوں ممالک میں ابھرنے والی عوامی تحریکیں اور انقلابات، آسٹریلیا اور ایمازون کے جنگلات میں لگنے والی آگ جس نے پورے کرہئ ارض کی بربادی میں اہم کردار ادا کیا اور دیگر ایسے ہی ہوشربا سانحات۔ لیکن 2020ء کا سال اس سے کہیں آگے نکل گیا۔ صرف تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر ہونے والی گراوٹ کو ہی لے لیں تو یہ پوری دنیا کو چونکا دینے والا واقعہ تھا جس میں یہ قیمت ایک وقت میں منفی چالیس ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہو گئی تھیں۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی بحران اور اس کے دنیا بھر میں اثرات جس میں دنیا کی ترقی یافتہ ترین معیشتیں بھی منفی دس یا بیس کی شرح ترقی تک گر گئیں جبکہ کچھ معیشتیں منفی چالیس فیصد سے بھی زیادہ گراوٹ کا شکار ہوئیں۔
اس ساری صورتحال کے سیاسی اور سماجی اثرات پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ ہر سماجی رشتہ، ناطہ، تعلق ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ خاندانی نظام جو اس سماج کی بنیادی اکائی ہے وہ اس وقت شدید ترین خلفشار کا شکار ہے اور اپنے ہی بوجھ تلے سسک رہا ہے۔ اخلاقیات اور ثقافت کا جنازہ نکل رہا ہے جبکہ ہیجان انگیزی بڑھ رہی ہے، میانہ روی کا درس دینے والے خود انتہاؤں تک پہنچے ہوئے ہیں، ہر قسم کا تعصب اور نفرت سماج پر مسلط کیا جا رہا ہے جبکہ نظام کی گراوٹ کے باعث لالچ، ہوس، جنسی جبر، تشدد، جرائم اور بے دریغ لوٹ مار سماج کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں کمزوروں اور پسے ہوئے طبقات پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ جبر اور استحصال کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ بالادست طبقے اپنی حکمرانی اور مراعات کی بقا کے لیے ماضی کی تمام حدود پھلانگتے ہوئے عوام کی جیبوں کے بعد اب ان کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں۔ سیاست میں گالم گلوچ معمول بن چکی ہے خواہ وہ امریکہ کے صدارتی انتخابات ہوں یا پاکستان کے فرسودہ حکمرانوں کی سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈروں کی تقریریں۔ کسی کے پاس مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس پروگرام اور متبادل نہیں اور سب ماضی میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اب انہیں نہیں مل سکتی۔
درحقیقت، ایک پرانی دنیا دم توڑ رہی ہے اور اس کی جگہ ایک نئی دنیا جنم لینے کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نئی زندگی کا جنم انتہائی تکلیف دہ اور خون میں لتھڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہی کچھ ہمیں ارد گرد دکھائی دیتا ہے۔ بہت سے دانشور ہمیں یہ بھی بتانے کی کوشش کریں گے کہ شاید دنیا ہی ختم ہو رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک پرانا اور بوسیدہ سماجی معاشی نظام ختم ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال اس وقت پوری دنیا میں ہر جگہ جاری ہے اور اس سماج کے ہر ریشے سے، ہر حصے سے یہ بوسیدگی اور تعفن اپنا اظہار کر رہی ہے اور پراگندگی سماج کے ہر خلیے تک پھیل چکی ہے۔ سرمایہ دارانہ کینسر کی آخری سٹیج تک پہنچا یہ سماج اس نظام کے بوجھ تلے دب کر چیخ و پکار کر رہا ہے اور ہر طرف مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ لیکن اس پر براجمان حکمران اس نظام کی بقا کی ابھی بھی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں خواہ اس کے لیے کروڑوں افراد کی بلی ہی کیوں نہ چڑھانی پڑے۔
ایسی صورتحال میں انقلابِ روس اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی بحث انتہائی اہمیت حاصل کر لیتی ہے اوریہ انسانیت کی بقاکا سوال بن جاتا ہے۔ آج انسانیت کو درپیش تمام مسائل کی جڑیں اس سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں جس کے تحت پوری دنیا کا سماجی معاشی نظام ترتیب دیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کی تمام تر معاشی پالیسیاں سامراجی طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے طے کرتے ہیں اور یہاں کے عوام کے خون اور پسینے کی کمائی لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ یہ تمام پالیسیاں اسی سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں کے تحت ہی ترتیب دی جاتی ہیں جن میں حکمران طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ غریب موت کے منہ میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ممالک جنہیں جنت ارضی بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہاں بھی آج حالات زیادہ مختلف نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں آج کروڑوں لوگ بیروزگاری، شدید غربت اور بھوک کا شکار ہیں اور دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں رہنے کے باوجود وہ زندگی کی تمام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں اور بہت سے لوگ کوڑے میں رزق تلاش کرتے ہیں۔ ان ممالک کے امیر ترین افراد کی دولت کورونا وباء کے دوران بھی کئی گنا بڑھی ہے جبکہ دوسری جانب لاکھوں لوگوں کو کرایہ یا قرضے کی قسطیں ادا نہ کرنے کی وجہ سے گھروں سے باہر نکال کر فٹ پاتھوں پر پھینک دیا گیا ہے۔ شدید سردی کے باعث بہت سے لوگ فٹ پاتھوں پر ہلاک بھی ہوئے ہیں جبکہ بہت سے بھوک اور بیماری میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے طاقتور سرمایہ دارانہ ملک امریکہ میں کورونا وباء کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں گوکہ یہاں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ہم نے زمین کے مسائل کو قابو پا لیا ہے اور اب ہم خلا کی تسخیر میں مصروف ہیں۔ لیکن اس وباء کے دوران دنیا نے وہاں صحت کی سہولیات کو بخوبی دیکھا کہ کیسے نیویار ک جیسے امیر ترین شہر کے ہسپتالوں میں مریضوں کو بغیر علاج کے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اس شہر میں تدفین کا بھی بندوبست موجود نہیں تھا اور گڑھے کھود کر لاشوں کو تلف کیا گیا۔
اس ساری صورتحال میں حکمران طبقات اور ان کے کرائے کے دانشور تمام تر بحران کی ذمہ داری ایک یا دوسری پالیسی پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کی جگہ کوئی دوسرا صدر ہوتا تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہسپتالوں کی آبادی کے تناسب سے قلت ایک دن میں نہیں ہوئی بلکہ ایک طویل عرصے کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح وباء کی پیش گوئی نہ کر سکنا بھی ادویات کی تحقیق میں منافع خوری اور حکومتی وسائل کی فراہمی میں کٹوتی کے باعث ہی ہوا۔ یہی صورتحال دیگر ممالک کی بھی ہے جہاں پرتمام تر ذمہ داری نظام پر ڈالنے کی بجائے چند شخصیات یا سیاسی پارٹیوں پر ڈال دی جاتی ہے اور نظام کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن نظام کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے جس کے باعث پورے کا پورا سیاسی ڈھانچہ ہی ایکسپوز ہو رہا ہے اور ایک پارٹی کے بجائے تمام پارٹیاں ہی رد ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک میں حالیہ عوامی تحریکوں میں یہ صورتحال زیادہ واضح ہو کر دکھائی دی۔
اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے تحت بنائی گئی عوام دشمن جابرانہ ریاست بھی ہر جانب زمین بوس ہو رہی ہے اور اس کے تمام ادارے بشمول پولیس، عدلیہ، ضلعی یا شہری انتظامیہ اور پارلیمنٹ عوام کے سامنے رد ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں پولیس کے محکمے کو ختم کرنے کا عوامی مطالبہ اسی سال انتہائی شدت کے ساتھ نظر آیا۔ اسی طرح ہانگ کانگ سے لے کر ہندوستان تک پولیس کے جبر کیخلاف عوامی تحریکیں ہر طرف نظر آئیں۔ بہت سی کمزور ریاستیں تو ٹوٹ کر بکھرتی بھی نظر آئیں جن میں مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ آنے والے عرصے میں یہ عمل زیادہ شدت کے ساتھ نظر آئے گا اور ماضی میں مضبوط نظر آنے والی ریاستیں ہوا میں تنکوں کی طرح بکھرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ یوکرائن سے لے کر لیبیا اور شام تک پچھلی دہائی میں ایسی بہت سی خانہ جنگیاں اور ریاستوں کا انہدام نظر آیا جو 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے اثرات کے تحت مرتب ہوا لیکن موجودہ عالمی مالیاتی بحران بڑے اور بظاہر مضبوط سرمایہ دارانہ ممالک کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دے گا۔
اس عمل میں متبادل کی ضرورت اور اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور وہ ایک سوشلسٹ نظام کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس نظام کا عملی تجربہ 1917ء کے روس میں ہو چکا ہے جس نے انسان کو ترقی کی ایک نئی معراج پر پہنچایا جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت بھی پہلی عالمی جنگ کے دوران کروڑوں افراد آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیے گئے تھے جس کا مقصد مختلف ممالک کے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ تھا۔ کروڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے جبکہ اس دوران پوری دنیا ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزر رہی تھی۔ اس دوران دنیا کے بہت سے ممالک میں انقلابات بھی برپا ہوئے اور عوام نے حکمران طبقے کا تخت اکھاڑ کر پھینک دیا۔ لیکن صرف روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں ایسی ایک بالشویک پارٹی موجود تھی جس کے پاس نہ صرف ایک واضح متبادل نظریہ موجود تھا بلکہ اس نے انتہائی عظیم الشان جرأت اور ہمت کے ساتھ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا۔
پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق 26اکتوبر 1917ء کو روس میں سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا گیا اور بالشویک پارٹی کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا گیا۔ اس انقلاب کے حالات ایک لمبے عرصے سے تیار ہو رہے تھے لیکن فروری 1917ء کے انقلاب کے دوران عوام نے صدیوں سے موجود زار روس کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس دوران مزدوروں، کسانوں اور سپاہیوں کی خود رو طور پر کمیٹیاں بھی ابھر کر سامنے آ گئیں تھی جنہیں روس میں ’سوویت‘ کہا جاتا تھا۔ یہ سوویتیں جمہوری ادارے تھے جن میں شامل تمام افراد کی اکثریتی رائے سے تمام فیصلے کیے جاتے تھے۔ ان سوویتوں نے پہلے فیکٹریوں اور کارخانوں کا کنٹرول سنبھالا اور پھر شہروں کا مکمل کنٹرول بھی اپنے ذمے لے لیا۔ اس دوران زار روس کے عہد کے بنائے گئے ریاستی ادارے موجود تو تھے لیکن عملی طور پر فعال کردار ادا نہیں کر پارہے تھے اور سوویتیں متوازی ریاستی اداروں کے طور پر اپنا کام سرانجام دے رہی تھیں۔ فروری انقلاب کے بعد منشویکوں کو سوویتوں میں اکثریت ملی لیکن وہ کوئی ایک بھی عوامی مسئلہ حل نہیں کر سکے اور نہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکے بلکہ وہ سرمایہ داری کو روس میں مضبوط کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ اس دوران لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے روس جیسے پسماندہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب کو ہی آگے کی جانب جانے کا واحد رستہ قرار دیا اوراسی پروگرام کے تحت محنت کش طبقے میں اکثریت حاصل کی۔ لینن نے نعرہ دیا کہ تمام اقتدار سوویتوں کو منتقل کر دیا جائے اور پرانے تمام ریاستی ادارے بشمول عدلیہ، پولیس، فوج، پارلیمنٹ اور دیگر انتظامیہ کے ادارے مکمل طور پر ختم کر دیے جائیں۔ یہ نعرہ سوویتوں میں بہت مقبول ہوا اور بالشویکوں کو سوویتوں کے مرکزی اجلاس میں واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ اسی طرح لینن نے پروگرام دیا کہ سرمایہ دارانہ نظام ختم کر کے یہاں تمام افراد کو روٹی سمیت بنیادی ضروریات فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ اس کے علاوہ سامراجی جنگ کا خاتمہ کیا جائے گا اور جاگیریں ختم کر کے زمین کسانوں میں تقسیم کی جائے گی۔ ان بنیادوں پر سماج کی ایک اکثریت کو ساتھ جوڑتے ہوئے روس میں سوشلسٹ انقلاب کامیاب ہوا۔
یہ انقلاب انسان کی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ ہے جب صرف ایک سماجی معاشی نظام کی جگہ نیا نظام ہی نہیں آیا بلکہ طبقات پر مبنی ہزاروں سال پرانی تقسیم کا بھی خاتمہ ہوا اورایک ایسے سماج کی بنیاد رکھی گئی جس میں امیر اور غریب کی تقسیم کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ تمام تر وسائل اجتماعی ملکیت میں لے لیے گئے اور تمام تر صنعتیں، بینک اور ادارے سرمایہ داروں کی نجی ملکیت سے لے کر محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت میں دے دیے گئے جنہیں وہ جمہوری طریقے سے کنٹرول کرتے تھے۔ سماج میں موجود تمام دولت کے مالک وہاں کے عوام خود بن گئے اور ایک مزدور ریاست کی تشکیل کے عمل کا آغاز ہوا جس میں ہر قسم کے ریاستی جبر، پولیس، تشدد اور دیگر ایسے ہتھکنڈوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ مظلوم قومیتوں کے لیے یہ انقلاب قومی محرومی اور ظلم سے نجات کا باعث بنا اور انہیں قومی اور معاشی آزادی حاصل ہوئی۔ تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا اور ہر جگہ بنیادی تعلیم کو مقامی زبانوں میں رائج کیا گیا۔ اس کے علاوہ کم ترقی یافتہ زبانوں میں تحقیق کا آغاز کیا گیا اور ان کو ترقی دی گئی۔ بالشویک پارٹی کی قیادت میں بننے والی اس مزدور ریاست میں علاج اور تعلیم کی مفت سہولیات ہر شخص کو فراہم کرنا لازمی قرار دیا گیا اور بنیادی صحت کے اداروں سے لے کر جدید ترین ہسپتالوں تک، ہر جگہ صحت کی اعلیٰ ترین سہولیات ہر شخص کو مفت فراہم کی گئیں۔ تعلیم ہر سطح پر مفت قرار دی گئی اور اس دوران ہونے والے تمام اخراجات اور رہائش وغیرہ بھی ریاست کی جانب سے فراہم کی گئی۔
روٹی، کپڑا اور مکان ہر شخص کو فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری قرارپایا اور اس مقصد کے لیے چار کروڑ سے زائد گھر عوام کو بنا کر مفت مہیا کیے گئے۔ ان گھروں میں بجلی، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات بھی مزدور ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ خواتین کی زندگیوں میں اس انقلاب نے واقعی ہی ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ نہ صرف یہ کہ پہلی دفعہ خواتین کو ووٹ کا حق ملا بلکہ انہیں گھریلو غلامی سے بھی نجات ملی اور مزدور ریاست کی جانب سے انہیں اجتماعی کھانا گھر، اجتماعی لانڈری اور نرسریوں کی سہولیات بھی ملیں جس کے باعث وہ سماجی زندگی میں بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل ہوئیں۔ زچگی کے دوران چھ ماہ کی رخصت بمعہ تنخواہ سمیت تمام صحت کی سہولیات کی مفت فراہمی ریاست کی ذمہ داری تھی۔
یہ تمام تر حاصلات سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کو رائج کرکے حاصل کی گئیں جس کے تحت ایک پسماندہ ملک چند دہائیوں میں دنیا کی سب سے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور کسی بھی دوسرے ملک سے پہلے خلا میں پہلا انسان بھیج سکا۔ اسی طرح خلا میں پہلی خاتون بھی سوویت یونین سے ہی گئی تھی۔ اس دوران سوویت یونین میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدانوں کی تعدادبھی نصف درجن سرمایہ دارانہ ممالک کی کل تعداد سے زیادہ تھی۔ اس دوران سوویت یونین نے دوسری عالمی جنگ میں فاشزم کو بھی شکست دی اور جرمنی جیسی ترقی یافتہ صنعت کے مقابلے میں زیادہ اسلحہ اور ساز و سامان پیدا کر کے اپنی برتری کو نہ صرف ثابت کیا بلکہ تمام دشمنوں کو شکست بھی دی۔ یہ تمام حاصلات صرف منصوبہ بند معیشت کے باعث ہی ممکن ہوئیں جس میں نہ کوئی عروج و زوال کا چکر تھا اور نہ ہی امارت اور غربت کی تفریق موجود تھی۔
اس بحث میں سوویت یونین کے زوال پر بحث کرنا بھی انتہائی ضروری ہے جسے حکمران طبقات سوشلزم کی ناکامی کہہ کر اس نظریے کو رد کرتے ہیں۔ حقیقت میں سوویت یونین کا انہدام سٹالنزم کی ناکامی ہے جس کا سوشلزم کے حقیقی نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔ لینن کی وفات کے بعد سوویت یونین کی افسر شاہانہ زوال پذیری کے عمل کا آغاز ہو گیا تھا جس کی قیادت سٹالن کر رہا تھا۔ یورپی انقلابات کی ناکامی اور روسی انقلاب کی انتہائی پسماندگی کے حالات میں روس کی حدود میں مقید رہ جانے نے افسر شاہی کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار کی۔ سٹالن نے انقلاب روس کے بعد بننے والی اس مزودر ریاست کو مسخ کرنا شروع کر دیا تھا جس کے خلاف انقلاب کے قائد ٹراٹسکی نے تاریخ کی اہم ترین لڑائی لڑی۔ سٹالن نے مزدور ریاست میں جمہوریت کے عمل کو ختم کر دیا تھا اور اپنا ایک آمرانہ تسلط قائم کر دیا۔ گوکہ اس دوران سماجی معاشی نظام تو سوشلسٹ طرز پر موجود رہا اور منڈی کی معیشت کی جگہ منصوبہ معیشت ہی موجود رہی لیکن سیاسی اقتدار بیوروکریسی کی ایک بالائی پرت کے کنٹرول میں رہا جس کے باعث یہ معیشت گھٹن زدہ رہی اور بالآخر دم توڑ گئی۔ ٹراٹسکی نے اس زوال پذیری کیخلاف ایک سیاسی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہیں مل سکی اور پہلے اسے پارٹی سے نکالا گیا اور پھر جلا وطن کر دیا گیا اور بالاآخر ایک سٹالنسٹ ایجنٹ کے ہاتھوں 1940ء میں اس کا قتل کروا دیا گیا۔ لیکن ٹراٹسکی کے نظریات کو قتل نہیں کیا جاسکا اور وہ آج بھی پوری سچائی کے ساتھ موجود ہیں۔ انہی نظریات کے تحت ٹراٹسکی نے واضح کیا تھا کہ اگر سٹالنسٹ زوال پذیری سے چھٹکارا نہیں مل سکا تو سوویت یونین منہدم ہو جائے گا۔ لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی واضح کیا کہ منصوبہ بند معیشت نے اپنی فوقیت سرمایہ دارانہ معیشت پر واضح کر دی ہے اور انسانیت کے پاس مستقبل میں آگے بڑھنے کا واحد رستہ سوشلزم ہی ہے۔
آج ایک صدی سے زائد عرسے کے بعد اس انقلاب کے بارے میں حقائق کو جاننا اور اس کی بنیاد میں موجود نظریات سے راہنمائی حاصل کرنا انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی، اٹلی اور دیگر کئی ممالک میں بھی انقلابی تحریکیں ابھری تھیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ لیکن ان ممالک میں ایسی قیادت موجود نہیں تھی جو سوشلسٹ نظریات سے لیس ہوتی اور اس انقلاب کو حتمی منزل تک پہنچاتی۔ اسی باعث وہاں فاشسٹ قوتوں کو مجتمع ہونے اور ابھرنے کا موقع ملا جنہوں نے انسانی تہذیب کی بربادی کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کا قلع قمع بھی آخر کار سوویت یونین کی جانب سے ہی ہوا تھا۔ اگر روس میں بھی انقلابی پارٹی اور قیادت موجود نہ ہوتی تو اس کی تاریخ بھی جرمنی اور اٹلی سے زیادہ خوفناک فاشسٹ قوتوں کی تاریخ ہوتی جنہوں نے ہٹلر اور مسولینی سے زیادہ بربادی پھیلانی تھی۔
آج پھر دنیا ایسے ہی ایک دوراہے پر آن کھڑی ہوئی ہے گوکہ آج کے حکمرانوں کے پاس بربادی پھیلانے کی طاقت ماضی کے کسی بھی دور سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن دوسری طرف دنیا میں محنت کش طبقے کا حجم بھی انسانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے اور اس کے پاس اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی طاقت اور صلاحیت بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں ابھرنے والی وسیع عوامی تحریکیں بھی اس نظام کی بنیادوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ کمی صرف ایک ایسی انقلابی قوت کی ہے جو درست سائنسی نظریات سے لیس ہو اور ان تمام عوامی تحریکوں اور انقلابات کو منظم کرتے ہوئے اس نظام کے خاتمے کی جانب بڑھے۔ انقلابِ روس کی طرح اس کا آغاز کسی بھی ایک ملک سے ہو سکتا ہے لیکن اس کا منطقی انجام عالمی سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل سے ہی ہو گا جب اس پورے کرۂ ارض سے اس خون آشام نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ دنیا کی تمام دولت ارب پتی سرمایہ داروں اور سود خور بینکوں کے پنجوں سے نکال کر عوام کے اجتماعی کنٹرول میں دے دی جائے گی۔ امیر اور غریب کی تقسیم کا پوری دنیا سے خاتمہ ہوگا۔ پوری دنیا سے رنگ، نسل، قوم، زبان اور مذہبی تعصبات کا خاتمہ ہو گا اور غربت، محرومی، لاعلاجی اور بیروزگاری ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔ 1917ء کا انقلاب روس ہمیں یہ یاد دہانی کرواتا رہتا ہے کہ یہ سب صرف ایک خواب ہی نہیں ہے بلکہ اس میں حقیقت کا روپ دھار لینے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ انقلابِ روس کے بعد چین، کیوبا اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوا تھا گوکہ عالمی سوشلسٹ انقلاب مکمل نہیں ہوسکا۔ آج یہ کرنا ممکن ہے لیکن صرف درست سائنسی نظریات کی بنیاد پر ہی یہ تعبیر حاصل کی جاسکتی ہے اور حکمران طبقے کے تمام تر حربوں اور مزدوروں کو تقسیم کرنے کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ان سائنسی نظریات کی بنیاد مارکس اور اینگلز کا ہی نعرہ ہے کہ ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ“۔ اس نعرے کے تحت پاکستان سمیت اس پورے خطے کے محنت کشوں کی یکجہتی ہی آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے جو یہاں موجود جنگوں، خانہ جنگیوں اور دیگر عوام دشمن پالیسیوں کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ اسی یکجہتی کی بنیاد پر ہی اس نظام کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے اور اس کی جگہ ایک صدی سے زائد عرصے بعد دوبارہ ایک مزدور ریاست قائم کر کے عوام کو تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل کے بعد مزدور ریاست کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور بقول لینن یہ ریاست خود کو سماج میں تحلیل کر دے گی۔ انسان کی بنیادی ضروریات کے حصول سے آزادی کے بعد کروڑوں لوگ تحقیق اور تخلیق کے عمل میں پہلی دفعہ شامل ہوں گے اور انسان تسخیر کائنات کے سفر کا باقاعدہ آغاز کرے گا۔ اسی منزل کا حصول آج کے عہد کا عظیم ترین مقصد ہے اور اسی کے لیے جدوجہد کرنا آج کے با شعور انسانوں کا سب سے اہم فریضہ۔