ایک سو ایک سال قبل روس میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے سب سے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ محنت کش طبقے نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اورمٹھی بھردولت مند طبقے کی حاکمیت سے نجات حاصل کی تھی۔ اس انقلاب کے بعد نہ صرف پورے ملک میں امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ کر دیا گیا بلکہ نجی ملکیت کے عذاب سے بھی جان چھڑائی گئی ۔ معیشت کے تمام کلیدی شعبے مزدور ریاست کی تحویل میں لے لیے گئے اور سماج کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ بیروزگاری، بیماری، ناخواندگی اور دیگر سماجی مسائل کے خاتمے کا آغاز ہوا اور انسان نے حقیقی معنوں میں تسخیر کائنات کے سفر کا آغاز کیا۔
1917ء میں جب روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تھا اس وقت اس کی حالت آج کے پاکستان سے بھی کہیں زیادہ پسماندہ تھی۔ مظلوم قومیتوں، مذہبی اقلیتوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کی زندگیاں جہنم بن چکی تھیں۔ خواتین کی حالت زار انتہائی دگر گوں تھی اور گھروں میں خواتین پر مار پیٹ سے لے کر دیگر جرائم عام تھے۔خواتین کے پاس نہ تو ووٹ کا حق تھا اور نہ ہی طلاق کا۔ محنت کش طبقہ بد ترین استحصال کا شکار تھا اور انہیں زار روس کی سامراجی جنگوں کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا تھا۔ کسانوں کی اکثریت بھوک اور ننگ میں زندگی بسر کر رہی تھی جبکہ انہیں سامراجی جنگوں میں بادشاہت کے توسیع پسندانہ عزائم کی بھینٹ بھی چڑھایا جاتا تھا۔ ایسی صورتحال میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب نے صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے اس سماج کی از سر نو تعمیر کا آغاز کیا اور سماج کی حاکمیت بادشاہ یا حکمران طبقے کے دیگر افراد سے چھین کر خود محنت کش طبقے کے سپرد کی۔
انقلاب کے بعد ہونے والے اقدامات نے تمام تر پرانے ریاستی نظام، نام نہاد عدالتوں، پولیس، قوانین اور دیگر ریاستی مشینری کا مکمل خاتمہ کیا اور ایک نئی مزدور ریاست کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔اس مزدور ریاست میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی۔امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی سماج میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت نہیں پنپ سکتی اور ارب پتی دولت مند افراد اپنی رائے محنت کشوں پر مسلط رکھنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ایسے طبقاتی سماج میں موجود ریاست اور اس کے تمام ادارے بھی دولت مند افراد کی حکمرانی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہی موجود ہوتے ہیں۔اسی لیے حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی تفریق کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ انقلاب روس میں بھی ایسے ہی کیا گیا۔ روس جیسے پسماندہ ملک میں خواتین کو بھی ووٹ کا حق دیا گیا جبکہ اس وقت مغربی یورپ کے بہت سے سرمایہ دارانہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ اسی طرح مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت ملا تاکہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کر سکیں اور قومی جبر سے نجات حاصل کر سکیں۔
علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات جن میں روٹی، کپڑا اور مکان شامل تھے کی عوام کو فراہمی کا آغاز ہوا۔جاگیروں کا خاتمہ کیا گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑتے ہوئے سرمائے کی حاکمیت کا خاتمہ ہوا۔
مزدوروں کے اجتماعی کنٹرول کے ذریعے صنعتوں کو چلانے کا سلسلہ شروع ہوا اور منڈی کی معیشت کا خاتمہ کرتے ہوئے منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا گیا۔ اس کا موازنہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ہونے والی کسی نیشنلائزیشن سے بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ گوکہ نجکاری کے مقابلے میں نیشنلائزیشن آگے کا قدم ہے لیکن اس میں بھی بنیادی سماجی ومعاشی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوتا اور ریاست سرمایہ دار طبقے کی ہی مطیع رہتی ہے۔اس لیے مزدوروں کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہی خاتمہ کیا جائے۔ نیشنلائزیشن کے بعد اداروں کو بیوروکریٹوں کے کنٹرول میں دینے سے جہاں بد عنوانی میں اضافہ ہوتا ہے وہاں یہ ادارے اور صنعتیں مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں نہ ہونے کے باعث کامیابی سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اسی طرح منڈی کی معیشت کے تابع ہونے کے باعث بھی انہیں سرمایہ دار طبقے کی جانب سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے سوویت یونین میں واضح طور پر دیکھا گیا کہ مزدور طبقے کی حاکمیت میں منڈی کی معیشت کا مکمل خاتمہ ہوا اور تمام تر صنعتوں، خدمات کے اداروں اور زراعت کو ایک مرکزی منصوبہ بندی کے تحت تشکیل دیا گیا۔
اسی تمام تر بنیادی سماجی تبدیلیوں کے باعث سوویت یونین نے انسانی تاریخ کی سب سے تیزی ترین شرح ترقی حاصل کی اور انتہائی قلیل عرصے میں وہ دنیا کے نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگیا بلکہ دنیا کا دوسرا طاقتور ترین ملک بن گیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خلا میں پہلا انسان بھیجنے کا اعزاز بھی اسی مزدور ریاست کو ہی حاصل ہوا۔ اتنے کم عرصے میں اتنی جدید ٹیکنالوجی کا حصول منصوبہ بند معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔
اس موقع پر اس انقلاب کی زوال پذیری اور پھر انہدام کی وجوہات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے اس انقلاب کی زوال پذیری کا آغاز اس وقت ہوا جب مارکسزم کے حقیقی نظریات سے انحراف کرتے ہوئے اس منصوبہ بند معیشت کو غلط رستے پر گامزن کر دیا گیا۔ سٹالن کی قیادت میں شروع ہونے والی اس زوال پذیری میں مزدور ریاست میں جمہوری حقوق کا گلا گھونٹا گیا اور عوام پر افسر شاہی کی ڈکٹیٹر شپ مسلط کی گئی۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی قائم کردہ سرحدوں کو مقدس تسلیم کرتے ہوئے اس انقلاب کو ایک ملک میں مقید کر دیا گیا۔
انقلاب روس کے فوری بعد ہی 1918ء میں جرمنی میں ایک بہت بڑے سوشلسٹ انقلاب کے مواقع موجود تھے لیکن درست قیادت نہ ہونے کے باعث وہ انقلاب کامیاب نہ ہو سکا۔اسی طرح چین کا 27-1925ء کا انقلاب اور اسپین کی 1930ء کی دہائی کی انقلابی خانہ جنگی سمیت مختلف انقلابی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ اسی باعث روس کا انقلاب تنہا رہ گیا اور اس مزدور ریاست میں انقلاب دشمن بیوروکریسی کو ابھرنے کا موقع ملا۔ یہ بیوروکریسی ایک الگ طبقہ تو نہیں تھی لیکن اس نے اپنی سیاسی حاکمیت کو عوام پر مسلط کیااور جبر سے انقلاب کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا۔ گو کہ اس تمام عمل میں منصوبہ بند معیشت موجود رہی اور سماج کو ترقی کی نئی منازل کی جانب لے جاتی گئی۔ لیکن بیوروکریسی کی غلط پالیسیوں اور جکڑ بندی کے نتیجے میں بالآخر 1991ء میں سوویت یونین کا انہدام ہوا۔
اس انہدام پر امریکہ سمیت دنیا بھی کی سامراجی طاقتوں اور حکمران طبقے نے جشن منایا اورکہاکہ سوشلزم اور مزدور طبقے کے نظریات ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے ہیں۔لیکن آج دوبارہ دنیا بھر میں سوشلزم کے نظریات کا وسیع پیمانے پر ابھار ہو رہا ہے اور لاکھوں ، کروڑوں لوگ بالخصوص نوجوان ان نظریات کی جانب دوبارہ مائل ہو رہے ہیں۔ آج اکیسیوں صدی میں مزدوروں کے تمام مسائل سے نجات صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں بھی حکمران طبقے کی تمام تر دولت اور جائیدادوں کو ضبط کیے بغیر محنت کش طبقے کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ معیشت کے کلیدی شعبوں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لینا ہوگا، منڈی کی معیشت کا خاتمہ کرنا ہوگا اور امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی سماج کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ حکمران طبقہ مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کے حملے جاری رکھے گا اور اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرتے ہوئے محنت کشوں کو غربت اور ذلت میں دھکیلتا چلا جائے گا۔ آج ایک سو ایک سال بعد دوبارہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ظلم اور استحصال کے اس گھن چکر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور یہاں خوشحالی کے سفر کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔