|تحریر: راب سیول، ترجمہ: ولید خان|
(ایک صدی قبل 2تا6 مارچ 1919ء کو ماسکو شہر میں تیسری انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس منعقد ہوئی۔ یہ کمیونسٹ انٹرنیشنل کا آغاز تھا جو مستقبل میں انقلابی نظریات اور حکمتِ عملی کی اہم درسگاہ ثابت ہوئی۔ راب سیول (ایڈیٹر سوشلسٹ اپیل) اس اہم تاریخی واقعے کے خدوخال قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔)
”میں تھیٹر تقریباً پانچ بجے پہنچا اور صحافی کا اسپیشل ٹکٹ ہاتھ میں ہونے کے باوجود اندر داخلے میں خاصی دشواری ہوئی۔ تمام دروازوں کے باہر طویل قطاریں تھیں۔ ماسکو سوویت، مجلس عاملہ، ٹریڈ یونینز اور فیکٹری کمیٹیوں کے نمائندگان وغیرہ سب موجود تھے۔
دیوہیکل تھیٹر اور پلیٹ فارم کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے، یہاں تک کہ لوگ راہداریوں اور سٹیج کے احاطے میں بھی موجود تھے۔ کامینیف نے انتہائی سنجیدگی سے کریملن میں تیسری انٹرنیشنل کی تاسیسی میٹنگ کے آغاز کا اعلان کیا۔ لوگ انتہائی گرمجوشی سے اعلان کا استقبال کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ’انٹرنیشنل‘ ایسے جوش و جذبے سے گایا جس کی آخری جھلک میں نے کل روسی اسمبلی میں دیکھی تھی جب بریسٹ مذاکرات کے دوران جرمنی سے ہڑتالوں کی خبریں پہنچی تھیں۔“
یہ الفاظ ایک چشم دید گواہ اور برطانوی صحافی آرتھر رانسوم کے ہیں جو مارچ 1919ء میں بولشوئی تھیٹر میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ(تیسری) انٹرنیشنل کے تاسیسی اجلاس میں موجود تھا۔
ماسکو ابھی بھی شدید سردی کی گرفت میں تھا۔ ایک فرانسیسی مندوب کے مطابق، ”ماسکو ایندھن کی شدید قلت کا شکار ہے۔ کانگریس کے مندوبین سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ ماسکو پچھلے دو سالوں سے انتہائی قلیل راشن پر گزارا کر رہا ہے۔ غیر ملکی مندوبین کو ہمیشہ پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں ہوتا۔۔۔“
دو درجن سے زائد ممالک سے آئے 51 مندوبین، جن میں سے اکثریت سامراجی ناکہ بندی اور خاردار تاروں کو عبور کر کے آئے تھے، ماسکو میں نئی انٹرنیشنل کے تاسیسی اجلاس میں شریک تھے۔ ان گنتی کے افراد کا اکٹھا ہونا ہی ایک حیران کن معجزہ تھا کیونکہ ناکہ بندی کرنے والوں کے لئے یہ اکٹھ ”غیر قانونی“ تھا۔ نتیجتاً کچھ مندوبین گرفتار بھی ہوئے اور اس وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔
پہلی اور دوسری انٹرنیشنل
تیسری انٹرنیشنل کا جنم پہلی عالمی جنگ کی عظیم غداری اور اکتوبر 1917ء کے تاریخ ساز روسی انقلاب کے نتیجے میں ہوا۔ جیسا کہ نام سے واضح ہے، اس سے پہلے بھی دو انٹرنیشنلز بنی تھیں، پہلی اور دوسری، جن کی تاریخ میں ہم مارکسزم کا ارتقاء اور ان اٹوٹ دھارا تلاش کر سکتے ہیں۔
پہلی انٹرنیشنل (جسے محنت کشوں کی عالمی ایسوسی ایشن کے نام سے جانا جاتا ہے)کی بنیاد 1864ء میں مارکس اور اینگلز کی براہِ راست شرکت سے پڑی۔ یہ تنظیم چھوٹی ہونے کے باوجود عالمی سوشلزم کے لئے مزدور جدوجہد میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔ لیکن تنظیم 1871ء میں پیرس کمیون کی ناکامی کے بعد یورپ میں پھیلنے والی رجعت کا شکا رہو گئی۔ بالآخر اسے 1876ء میں تحلیل کر دیا گیا۔
ایک دہائی بعد دوسری انٹرنیشنل کی بنیاد رکھنے میں اینگلز شامل تھا۔ اپنے پیشرو کے برعکس، اس میں شامل محنت کش عوام کی پارٹیاں لاکھوں افراد کی نمائندہ تھیں۔ لیکن اس انٹرنیشنل کی تعمیر سرمایہ داری کے ابھار کے کے دور میں ہوئی جس میں کوئی بڑی انقلابی جدوجہد موجود نہیں تھی۔ اس معروضی صورتحال میں قیادت موقع پرستی کا شکار ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ انقلابی جدوجہد پیچھے رہ گئی جبکہ اصلاحات کے لئے جدوجہد نے مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ لیکن جیسا کہ روزا لکسمبرگ نے کہا تھا کہ اصلاحات اور انقلاب کی جدوجہد کے سوال کو علیحدہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے تھا۔
بالآخر مسحور کن تقاریر کے باوجود اس اصلاح پسندی نے عالمی مزدور تحریک کو اگست 1914ء میں عظیم دھوکہ دیا جب سوشلسٹ قیادت نے عالمگیریت کو ترک کر کے آنے والی ہولناک عالمی جنگ میں اپنے اپنے حکمران طبقات کی حمایت کی۔
زِمروالڈ
اس مایوس اور پریشان کن صورتحال میں عالمی انقلاب پر یقین رکھنے والے انقلابی مٹھی بھر ہی رہ گئے۔ عالمی سوشلزم کے جذبے سے سرشار روس میں لینن اور ٹراٹسکی، جرمنی میں روزا لکسمبرگ اور کارل لیبنیخت، سکاٹ لینڈ میں جان میک لین، آئرلینڈ میں جیمز کونولی، امریکہ میں جیمز لارکین اور یوجین ڈیبز اور دیگر گنتی کے افراد ہی رہ گئے تھے۔ جب 1915ء میں زِمروالڈ میں ان افراد کی پہلی میٹنگ میں ہوئی تو لینن نے چٹکلا چھوڑا کہ پوری دنیا کے بین الاقوامیت پسند بس دو بگھیوں میں ہی پورے آ جائیں گے۔ یہ مذاق ان کی خوفناک تنہائی کا عکاس ہے۔
زِمروالڈ میں اس مٹھی بھر گروہ نے ایک مینی فیسٹو شائع کیا جس میں سامراجی جنگ کی شدید مذمت کی گئی، ”قومی دفاع“ کے نام پر حکمران طبقے کی اس جنگ کو مسترد کیا گیا اور مزدوروں سے اپیل کی کہ امن، آزادی اور سوشلزم کے لئے جدوجہد کی جائے۔
اس کے بعد 1916ء میں کینتھال میں ایک میٹنگ رکھی گئی۔ زِمروالڈ اوراور کینتھال میں لینن اور بالشویک انتہائی بائیں جانب کھڑے تھے۔ انہوں نے دوسری انٹرنیشنل (اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کے برخلاف) سے مکمل ناطہ توڑتے ہوئے ایک نئی تیسری انٹرنیشنل کے قیام کا مطالبہ کیا۔ یہی وہ بائیں بازو کا انقلابی رجحان تھا جس کے ارد گرد مارچ 1919ء میں نئی انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی گئی۔
اکتوبر انقلاب
نئی انٹرنیشنل کے لئے سب سے اہم موڑ اور مہمیز روس میں اکتوبر 1917ء کے انقلاب کی شاندار کامیابی تھی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ (پیرس کمیون کے انتہائی مختصر واقعہ کے علاوہ) محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ بالشویک انقلاب کو کبھی بھی محض ایک روسی انقلاب کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔ اس طرح کا خیال ہی ناقابلِ فہم تھا، خاص کر ایک پسماندہ ملک میں۔ اگر انقلاب تنہا رہ گیا تو وہ برباد ہو جائے گا۔ بالشویک اچھی طرح جانتے تھے کہ سوشلسٹ انقلاب صرف عالمی سطح پر ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔
روسی انقلاب کی کامیابی کے بعد عالمی بورژوازی نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر نومولود مزدور ریاست کو کچلنے کے لئے ناکہ بندی اور فوج کشی کی۔ لیکن روسی انقلاب کے پورے یورپ میں دیو ہیکل انقلابی اثرات پڑے تھے۔ ان میں سب سے اہم نومبر 1918ء کا جرمن انقلاب تھا جس نے پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ 1919ء کے اوائل میں باویریااور ہنگری میں سوویت جمہوریاؤں کا قیام عمل میں آیا۔ اس انقلابی دور میں نئی انقلابی پارٹیوں نے جنم لیا۔۔کمیونسٹ پارٹیاں۔۔جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ہالینڈ اور پولینڈ میں۔ دیگر ممالک میں پرانی عوامی پارٹیوں میں بالشویک نواز رجحانات تیزی سے پنپنے لگے۔ 1918ء کے اختتام پر روس میں بالشویک اس نتیجے پر پہنچے کہ عالمی انقلاب کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک نئی انقلابی انٹرنیشنل وقت کی اہم ضرورت ہے جو دوسری انٹرنیشنل کی ہر قسم کی موقع پرستی اورغداری سے آزاد ہو۔ عالمی مزدور تحریک میں ہر طرح کے انقلابی، اصلاح پسند اور اعتدال پسند رجحانات منظم ہو رہے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کی ہولناکیوں اور سرمایہ داری کے بحران سے نجات حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا کے کروڑوں مزدور بالشویک انقلاب کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے لینن نے تجویز پیش کی کہ ایک عالمی کانفرنس منعقد کرتے ہوئے صرف انہی مندوبین کو دعوت دی جائے جو:
1۔ وطن پرستوں سے مکمل ناطہ توڑیں (یعنی وہ افراد جنہوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ1914-18ء کی سامراجی جنگ میں اپنے حکمران طبقات کی حمایت کی تھی)۔
2۔ ابھی سوشلسٹ انقلاب اور مزدور طبقے کی آمریت چاہتے ہوں۔
3۔ اصولی طور پر ”سوویت طرز حکومت“ کے حامی ہوں جو ”سوشلزم سے قریب تر ہے“۔
لینن نے تجویز دی کہ کانفرنس یکم فروری 1919ء کو ”برلن (کھلے عام) یا ہالینڈ (خفیہ)“ میں منعقد کی جائے لیکن یہ خواہش کچھ زیادہ ہی رجائیت پسند تھی۔ درحقیقت کانفرنس تجویز کردہ تاریخ سے ایک ماہ بعد ماسکو میں ہی منعقد ہوئی۔
قیادت
جرمن کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد دسمبر کے آخر میں رکھی گئی اور ایک وقت آنے پر یہ روس سے باہر سب سے زیادہ طاقتور اور سیاسی اثرورسوخ کی حامل کمیونسٹ پارٹی بن گئی۔ ”سپارٹے سسٹ ہفتے“ کے بعد اس پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے دو مرکزی قائدین لکسمبرگ اور لیبنیخت کو قتل کر دیا گیا۔ پارٹی کی تخلیق تیسری انٹرنیشنل کی بنیادیں کھڑی کرنے میں اہم ترین ثابت ہوئی اگرچہ پارٹی قیادت کو اس کاوش کے وقت کے تعین پر اختلافات تھے۔ ان اختلافات کو بحث مباحثے کے ذریعے حل کیا گیا اور ایک بھی مندوب نے فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔
تیسری انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس کا یہ تاریخی فریضہ تھا کہ تمام شکوک و شبہات اور ابہام کو ختم کرتے ہوئے عالمی سوشلزم کے اصول نئے سرے سے وضع کئے جائیں جنہیں پرانی غدار قیادت نے اپنے پیروں تلے روند دیا تھا۔ یہی وہ نام نہاد قائدین تھے جنہوں نے سرمایہ داری کو تاریخ کے کوڑے دان میں جانے سے بچا یا تھا۔ جرمنی میں نوسکے، ایبرٹ اور شائیڈمن نے بادشاہت کے ساتھ مل کر انقلاب کو تباہ و بربادکرنے اور مزدوروں اور سپاہیوں کی کونسلوں کو کچلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جن کے ہاتھوں میں تمام حقیقی طاقت مرتکز تھی۔ پھر جنکرز (جرمن زمیندار اشرافیہ) کے ساتھ مل کر ردِ انقلاب کی راہ ہموار کی۔ اس غداری کا حتمی نتیجہ ہٹلر کی خوفناک خون آشام آمریت کی شکل میں نکلا۔
تیسری انٹرنیشنل کا قیام اس غداری کا نتیجہ تھا۔ یورپ میں تیزی سے پھیلتی انقلابی لہر انقلابی قیادت کا تقاضا کر رہی تھی۔
بنیادیں
کانگریس میں فوری طور پر درپیش مسائل پر بحث کی گئی۔ سرمایہ داری کی موجودہ ارتقائی سطح، اصلاح پسندی کا کردار اور مزدور انقلاب کی ممکنہ اشکال زیرِ بحث آئیں۔
شرکاء کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ محنت کش طبقے کی خودرو تحریک سرمایہ داری کے پہاڑ کو مسخر کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ ٹراٹسکی کے مطابق:
”پہلی کانگریس ایک ایسے وقت میں ہوئی جب کمیونزم کا ایک یورپی تحریک کے طور پر جنم ہو رہا تھا اور کچھ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر امید کی جا رہی تھی کہ اس سے پہلے کہ حکمران طبقہ عالمی جنگ کے بعد نئی رخ بندی اور حمایت کے نئے ستون حاصل کرے، محنت کش طبقے کی نیم خودرو تحریک شاید بورژوازی کا تختہ الٹ دے۔ اس وقت کے معروضی حالات میں اس طرح کی امید اور سوچ کچھ جائز بھی تھی۔۔۔
بہرحال، اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی کانگریس (1919ء) کے دور میں ہم میں سے کئی ایک کا خیال تھا، کچھ کا زیادہ اور کچھ کا کم، کہ مزدوروں اور کسی حد تک کسانوں کی خودرو تحریک مستقبل قریب میں بورژوازی کا تختہ الٹ دے گی۔“ (کمیونسٹ انٹر نیشنل کے پہلے پانچ سال،جلد دوم)
تیسری انٹرنیشنل اپنے آپ کو ابھی تک موجود دوسری انٹرنیشنل کے مدِ مقابل کے طور پر دیکھنے کی بجائے عالمی سوشلزم کا حقیقی وارث سمجھتی تھی۔ اس کی تعمیر پہلی اور دوسری انٹرنیشنل کی نظریاتی بنیادوں پر ہوئی تھی۔ لینن نے وضاحت کی:
”تیسری انٹرنیشنل کی عہد ساز اہمیت یہ ہے کہ اس نے مارکس کے سب سے اہم نعرے کو جلا بخشی، وہ نعرہ جو سوشلزم اور محنت کش طبقے کے صدیوں پر محیط ارتقاء کا نچوڑ ہے، وہ نعرہ جو محنت کش طبقے کی آمریت کے نظریئے کا اظہار ہے۔ یہ قبل از وقت بصیرت اور یہ نظریہ، ایک غیر معمولی صاحبِ فہم کی قبل از وقت بصیرت اور نظریہ،حقیقت بن رہے ہیں۔ عالمی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہو چکا ہے۔“
لینن اور ٹراٹسکی
ایک انٹرنیشنل سب سے پہلے ایک پروگرام، نظریہ اور روایت ہوتی ہے اور اس کے بعد ایک ایسی تنظیم جو ان سب کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ یہی وہ حقیقت تھی جس کو واضح طور پر بیان کرنا اور اس کا دفاع کرنا سب سے اہم کام تھا۔
انٹرنیشنل نے اپنا نام ”کمیونسٹ“ رکھا تاکہ اپنے آپ کوسوشلزم کے غدار سوشل ڈیموکریٹس سے ممتاز کیا جاسکے۔ یہ مارکس اور اینگلز اور کمیونسٹ مینی فیسٹو کی روایات کا احیاء تھا؛ایک صاف شفاف انقلابی جھنڈا۔
روسی قائدین کے اثرورسوخ میں اکتوبر انقلاب کی شان وشوکت کی جھلک واضح تھی۔ لینن اور ٹراٹسکی نے کلیدی سیاسی رپورٹیں دیں جن کا تعلق بنیادی سوالات سے تھا۔
لینن نے ”بورژوا جمہوریت اور پرولتاریہ کی آمریت کا مقدمہ“ پر رپورٹ دی۔ ٹراٹسکی نے اپنے تصنیف کردہ ”پوری دنیا کے محنت کشوں کے لئے کمیونسٹ انٹرنیشنل کا مینی فیسٹو“ کا تعارف کرایا۔
لینن نے وضاحت کی کہ ”جمہوریت“ کی بحث طبقاتی نکتہ نظر کے بغیر بے معنی اور ادھوری ہے۔ یہاں تک کہ سب سے زیادہ جمہوری ریاست بھی مٹھی بھر سرمایہ داروں کے محنت کش طبقے کے بدترین استحصال کے لئے محض ایک پردہ ہے۔ سرمایہ دار ریاست کی جگہ محنت کش طبقے کے مفادات کی علمبردار ریاست کا قیام ہی سوشلسٹ انقلابیوں کا فریضہ ہے۔ لینن کے مطابق اس کا ماڈل پیرس کمیون ہے جہاں محنت کش طبقہ مختصر عرصے کے لئے ہی سہی لیکن حاکم بنا۔
کمیون کوئی پارلیمانی ادارہ نہیں تھا بلکہ عوام کو براہ راست طور پر جواب دہ ایک ایسا ادارہ تھا جس میں قانون ساز اور عاملہ طاقت کے درمیان کوئی تقسیم موجود نہیں تھی۔
لینن نے وضاحت کی:
”سرمایہ داروں کے نزدیک ’آزادی‘ کا مفہوم ہمیشہ خود امیر سے امیر تر ہونے اور مزدوروں کو بھوکا مارنارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ اصطلاح میں آزادیئ صحافت کا مطلب امیروں کا صحافیوں کو رشوت دینے اور اپنی دولت کو استعمال کرتے ہوئے نام نہاد عوامی رائے کو تبدیل کرنے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی آزادی ہے۔“
لینن نے وضاحت کی کہ ہم حقیقی آزادی چاہتے ہیں۔ ”پیرس کمیون نے اس حوالے سے پہلا تاریخ ساز قدم اٹھایا تھا۔ سوویت نظام نے دوسرا اٹھایا ہے۔“
سوویت طاقت
سوویتوں کا قیام بالشویک پارٹی نے نہیں کیا تھا بلکہ یہ محنت کش طبقے کی منظم ہونے کی کاوش کا عملی اظہار تھیں۔ روسی زبان میں سوویت کا مطلب ایک مزدور کونسل ہے۔ یہ مزدور حکومت کی بنیاد تھی۔ لینن نے وضاحت کی:
”ریاستی قوت کا خاتمہ ہر سوشلسٹ کا اولین فریضہ ہے، سب سے بڑھ کر یہ مارکس کا اولین فریضہ تھا۔ حقیقی جمہوریت، یعنی آزادی اور مساوات اس مقصد کے حصول کے بغیر ناممکن ہے۔ لیکن اس کا عملی حصول صرف سوویت یا پرولتاری جمہوریت کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں عوامی تنظیمیں بھرپور انداز میں شرکت کرتے ہوئے ریاستی امور کو مسلسل اور غیر متزلزل انداز میں چلائیں۔اس کے نتیجے میں ریاست کے رفتہ رفتہ مکمل طور پر مٹ جانے کا عمل فوری طور پر شروع ہو جاتا ہے۔“
سرمائے کی آمریت کے برعکس بالشویکوں نے مارکس کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے پرولتاریہ کی آمریت کی ترویج کی۔ یہ ”آمریت“ محنت کش طبقے کا جمہوری اقتدار ہے، نہ اس سے کم، نہ اس سے زیادہ۔
ظاہر ہے کہ آج ”آمریت“ کا مطلب مارکس اور لینن کے دور سے یکسر مختلف ہے۔ ہٹلر اور سٹالن کی آمریتوں نے اس لفظ کے معنی ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیئے۔آج ”پرولتاریہ کی آمریت“ کی بجائے ہم ”مزدور جمہوریت“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
پس 1919ء میں بالشویک پارٹی نے اپنے پروگرام میں سوویت طاقت کے مشہورِ زمانہ چار سنہری اصول وضع کئے:
1۔ آزاد جمہوری انتخابات اور تمام مندوبین کو فوری واپس بلانے کا حق۔
2۔ کسی بھی حکومتی اہلکار کی تنخواہ ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی۔
3۔ پیشہ ور فوج کی جگہ مسلح عوام۔
4۔ بتدریج تمام ریاستی امور کو تمام مزدور باری باری ادا کریں گے۔”جب ہر کوئی افسر ہے تو پھر کوئی بھی افسر نہیں ہے۔“
عالمی انقلاب
ٹراٹسکی نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی انقلاب کے مینی فیسٹو کے خدوخال وضع کئے۔ اس نے کہا”محنت کش طبقے کے انقلابی تجربے کو عمومیت بخشنا، تحریک سے زہریلی موقع پرستی اوروطن پرستی کو خارج کرنا، دنیا کے تمام مزدوروں کی حقیقی انقلابی پارٹیوں کی جدوجہد کو متحد کرتے ہوئے ان کی معاونت اور عالمی کمیونسٹ انقلاب کو مہمیزفراہم کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔“
ٹراٹسکی کی یہ بات آج بھی اتنی ہی اہم ہے:
”تضادات کے مدہم ہونے کے نظرئیے کا دم بھرنے والے ماہرین شماریات اور نظریاتی جادوگر دہائیاں پوری دنیا کے چاروں کونوں سے حقیقی یا فرضی مثالیں لا کر پیش کرتے رہے کہ محنت کش طبقے کے کئی حصوں اور پرتوں کی زندگیاں بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ بورژوا دانشور ہیجڑوں اور سوشلسٹ موقع پرست دلالوں کے شور شرابے میں مان لیا گیا کہ عوامی غربت و افلاس کی بات دفن ہو چکی ہے۔موجودہ عہد میں یہ غربت و افلاس نہ صرف سماجی ہے بلکہ حیاتیاتی اور نفسیاتی بھی ہو چکی ہے اور ہمارے سامنے اپنی پوری ہولناکی کے ساتھ ابھر آئی ہے۔“
لینن نے تیسری انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس کی پر اعتمادی کا احاطہ اپنے اختتامی کلمات میں یوں کیا:
”کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پوری دنیا کی بورژوازی کتنے پیچ و تاب کھا رہی ہے، اب اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس کا نتیجہ عوامی شعور کی بلندی، پرانے بورژوا جمہوری تعصبات کا خاتمہ اور جدوجہد کے لئے تیاری کی صورت میں ہی نکلے گا۔ پرولتاری انقلاب کی عالمی فتح اٹل ہے۔ ایک عالمی سوویت جمہوریہ کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے۔“
فاتحینِ عالم
پہلی کانگریس کے بعد ہر سال ایک عالمی کانگریس منعقد کی جاتی رہی۔ ان سلسلہ وار کانگریسوں کے ذریعے انقلابی مارکسزم کا نظریاتی اسلحہ تیار کیا گیا، بائیں بازو کے انتہا پسند رجحانات کے خلاف، ایک متحدہ محاذ کی ضرورت پر، عوامی کمیونسٹ پارٹیوں کی ضرورت اور دیگر ایسے سوالات کے لئے جو آج بھی سلگ رہے ہیں۔
تیسری انٹرنیشنل وہ سکول یا پارلیمنٹ ثابت ہوئی جہاں نظریات اور خیالات پر جامع بحث مباحثوں کے بعد مشترکہ پوزیشنیں اختیار کی گئیں۔ پہلی چار کانگریسیں سنگِ میل ثابت ہوئیں۔ ان کے بعد 1923ء میں جرمن انقلاب کی ناکامی اور 1924ء میں لینن کی وفات کے بعد روسی انقلاب تنہا رہ گیا۔ معاشی پسماندگی اور ابتری کے حالات میں سٹالن ازم کا مکروہ جنم ہوا۔
”ایک ملک میں سوشلزم“ کے نظرئیے نے تیسری انٹرنیشنل کو اصلاح پسند ی اور قوم پرستانہ انحطاط کے راستے پر دھکیل دیا۔ عالمی انقلاب کا ہراول دستہ بننے کی بجائے سٹالن اور اس کے حواریوں کے تحت انٹرنیشنل نے اپنے بہترین عناصر کو نکال باہر کیا اور محض سٹالن اسٹ افسر شاہی کی خارجہ پالیسی کا آلہ کار بن کر رہ گئی۔ان اقدامات کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے ہونے والی تباہ کن شکستوں نے عالمی مزدور تحریک کو شل کر کے رکھ دیا۔چین، جرمنی، اسپین اور دیگر ممالک کے انقلابات افسر شاہی کی غداریوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بالآخر 1943ء میں مغربی اتحادیوں کو خیر سگالی کا پیغام دینے کے لئے سٹالن نے باقاعدہ طور پر کمیونسٹ انٹرنیشنل کو تحلیل کر دیا۔
آج سرمایہ داری کا بحران گہرا تر ہوتا جا رہا ہے اور انقلابی واقعات عہد کا معمول بن چکے ہیں۔1919-23ء کے عظیم دن ایک بار پھر زندہ ہو کر رہیں گے۔ایک نئی نسل کو ان ناقابلِ فراموش واقعات سے اسباق حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ہمیں آنے والے واقعات کے لئے تیار ہونا ہے۔ تیسری انٹرنیشنل کی روایات آج ہمارے جھنڈے پر آویزاں ہیں۔۔دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!