جلیانوالہ باغ قتلِ عام کے سو سال

|تحریر: آدم پال|

جلیانوالہ باغ کے قتل عام کو ایک صدی بیت چکی ہے لیکن وہ زخم اب بھی تازہ ہیں۔ 13اپریل 1919ء کے روز برطانوی سامراج کی جانب سے مقامی آبادی کا ہونے والا یہ قتل عام آج بھی نہ صرف ان خون آشام حکمرانوں کے خلاف نفرت، حقارت اور غم و غصے کو ابھارتا ہے بلکہ آج بھی ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد کا پیغام دیتا ہے۔ جنرل ڈائر کے حکم پر جب باغ میں موجود نہتے اور پرامن افراد پر گولی چلائی گئی، جس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں، تو نہ صرف برطانوی سامراج کا گھناؤنا چہرہ کھل کر سامنے آ گیا بلکہ اس سامراج سے چند قانونی اور آئینی مراعات کی بھیک مانگنے والوں کی بھی قلعی کھل گئی جو درحقیقت اس سامراجی جبر کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر چکے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ قتل عام برطانوی سامراج کیخلاف جاری تحریک آزادی میں نہ صرف ایک کلیدی موڑ تھا بلکہ ایک بہت بڑی عوامی مزاحمت اور انقلابی تحریک کا آغاز بھی تھا جس نے پورے ہندوستان میں اس سامراج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اس وقت ایک جرأت مند اور درست انقلابی قیادت موجود ہوتی تو انگریزوں سے نہ صرف مکمل آزادی حاصل کی جا سکتی تھی اور جبر و استحصال کی مزید دو دہائیوں سے زائد عرصے سے نجات مل سکتی تھی بلکہ بعد ازاں ہونے والے خونی بٹوارے اور قتل و غارت سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ ایسی قیادت کے فقدان کے باعث یہ سب کچھ تو حاصل نہ کیا جا سکا گوکہ آزادی کی بنیادیں استوار ہو گئیں۔ ان تمام واقعات میں ایک دفعہ پھر ثابت ہوا کہ عوام کسی بھی قیادت سے سینکڑوں گنا زیادہ انقلابی ہوتے ہیں اور جبر و استحصال سے نہ صرف نجات حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں بلکہ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن قیادتوں کی غداریاں، موقع پرستی، تنگ نظری اور مخصوص مفادات کے لیے سودے بازی عوام کی ان انقلابی تحریکوں کو حکمرانوں کے سامنے فروخت کر دیتی ہیں اور جبر کے نظام کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔

اس قتل عام کے سو سال بعد اس تاریخی واقعے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور بہت سی سیاست بھی نظر آتی ہے۔ گوکہ پاکستان میں اس کا چرچا کم ہی ہوا ہے جس کی وجہ اس ریاست کے مخصوص مفادات ہیں جس کے باعث یہاں کے عوام کی تاریخی جدوجہد کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لیکن ہندوستان اور برطانیہ میں اس پر کافی کچھ لکھا گیا ہے جبکہ برطانوی حکومت سے مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ اس قتل عام پر معافی مانگے۔ لیکن ایک صدی بعد بھی اس واقعے کو حکمران طبقات اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آج بھی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سب سے پہلا حملہ اس واقعے کو اس تمام عمل سے کاٹنے کا ہے جس کے باعث یہ واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت پنجاب سمیت پورے ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف نفرت اپنی انتہا تک پہنچ چکی تھی اور ایک عام ہڑتال کا نعرہ ملک کے طول وعرض میں سنائی دے رہا تھا۔ ڈیڑھ سال قبل 1917ء میں روس میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب نے خطے میں طاقتوں کے توازن کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا جبکہ پہلی عالمی جنگ کے اثرات بڑے پیمانے پر نہ صرف محسوس کیے جا رہے تھے بلکہ سماج کو مکمل طور پر تبدیل بھی کر چکے تھے۔ انہی تبدیلیوں کااظہار اس انقلابی تحریک میں ابھر کر سامنے آیا تھا جس کو کچلنے کے لیے یہ قتل عام کیا گیا تھا۔ لیکن آج تاریخ دانوں اور سیاست دانوں کی اکثریت اس واقعے کو اس تمام عمل سے کاٹ کر پیش کرتی ہے اور اسے ایک اکلوتا واقعہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اسی طرح حکمران طبقے کے کاسہ لیس تاریخ دانوں کی ایک بڑی تعداد اس واقعے کو جنرل ڈائر کا ذاتی فیصلہ قرار دیتی ہے اور اس کی شخصیت کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے اسے فرد ِواحد کاواقعات کی رو میں بہہ جانے کا نتیجہ قرار دے دیتی ہے۔ اس طرح نہ صرف اس وقت کی تمام ریاستی مشینری اور سامراجی جبر کو بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے بلکہ سماج میں جاری تمام تر عمل اور انقلابی تحریک کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ مارکسزم کبھی بھی فرد کے کردار سے انکار نہیں کرتا بلکہ مخصوص فیصلہ کن لمحات میں فرد کے کردار کی کلیدی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ اس فرد کے کردار کو کبھی بھی معروضی صورتحال سے کاٹ کر الگ تھلگ پیش نہیں کرتا بلکہ اسے ایک جدلیاتی تعلق میں جوڑ کر ایک باہمی ربط میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی سائنسی طریقہ کار سے نہ صرف کسی بھی فرد کے اعمال اور اہم فیصلوں کا درست تجزیہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس عہد کے معروض کو بھی درست طور پر سمجھتے ہوئے اس سے اہم نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح کچھ جگہوں پر یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ اس انقلابی تحریک اور بالخصوص اس واقعے کے تمام تر اثرات کو گاندھی کی شخصیت میں زائل کر دیا جائے اور شخصیت پرستی کوہی مطمع نظر بنا لیا جائے۔ یہ کہنا درست ہے کہ گاندھی کی شخصیت کا اس تحریک میں کلیدی کردار تھا بلکہ اسے پہلی دفعہ پورے ہندوستان کا سیاسی لیڈر اسی تحریک نے ہی بنایا تھا اور وہ ملک گیر سطح پر ایک فیصلہ کن شخصیت بن کر ابھرا تھا۔ لیکن اس میں گاندھی سے زیادہ اس تحریک کا کردار تھا جسے اس وقت ایک لیڈر کی ضرورت تھی۔ وقت کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اس تحریک کو آزادی کی منزل سے دور رکھنے میں بھی گاندھی کا ہی کردار نظر آتا ہے جو بعد ازاں انگریزحکمرانوں کا کاسہ لیس بن گیا اور تحریک کوزائل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ گاندھی نے ہندوستان کے ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کے نمائندے کا کردار ادا کیا جو درحقیقت خود اس انقلابی تحریک سے خوفزدہ ہو گیا تھا اور انگریزوں کے ساتھ مل کر بپھرے ہوئے عوام کو قابو کرنے کی کوششیں کرنے لگا تھا۔ اس عمل میں جہاں بہت سے مقامی دولت مند افراد حکمرانوں کے براہ راست گماشتے کا کردار ادا کر رہے تھے وہاں کانگریس مزاحمت کی قیادت کرتے ہوئے اسے سامراجی ریاستی ڈھانچے کی حدود میں مقید رکھنا چاہتی تھی تاکہ مقامی سرمایہ دار طبقہ اس سے اپنے مفادات حاصل کر سکے۔

آج ایک صدی گزرنے کے باوجود پاکستان اور بھارت میں وہی ریاستی ڈھانچہ بدستور موجود ہے جس کے تحت یہ قتل عام ہوا تھا اور اسی طرز پر ریاستی جبر آج بھی جاری ہے۔ اس جیسے کئی واقعے اس کے بعد بھی رونما ہوئے ہیں اور اس دور میں جو مارشل لاء نافذ کیا گیا اور جس طرح مقامی افراد کو سزائیں دی گئیں وہ طرز عمل اس کے بعد بھی کئی دفعہ یہاں دہرایا گیا۔ آج بھی اس ملک کے تمام تر قوانین وہی ہیں جو یہاں پر انگریزوں نے مقامی آبادی کو غلام بنانے کے لیے تشکیل دیے تھے اور پولیس، عدلیہ اور ضلعی انتظامیہ سے لے کر قانون ساز اداروں تک تمام تر ڈھانچے وہی ہیں جن کی بنیاد انگریز سامراج نے رکھی تھی۔ اسی نظام اور ریاستی ڈھانچے کے تحت انگریزوں کے یہاں سے جانے کے بعد بھی عوام پرظلم و ستم ختم نہیں ہوا بلکہ بدستور جاری ہے اور خون کی ندیاں بہانے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ انگریزوں کے پٹھوؤں کو اقتدار منتقل ہونے کے بعد نہ یہاں پر ان قوانین میں تبدیلی کی گئی اور نہ ہی اس ریاستی ڈھانچے کو مقامی آبادی کی فلاح کے لیے از سر نو تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔ بلکہ یہاں پر براجمان حکمرانوں نے انگریزوں کے ان مظالم کے سلسلے کو زیادہ شدت سے جاری رکھا اور آج تک عوام پر مظالم کے پہاڑ اسی طرز پر توڑے جا رہے ہیں جس طرح انگریز وں کے دور میں توڑے جاتے تھے۔ ان مظالم کے خلاف بغاوتیں بھی ابھری ہیں اور قربانیوں کی لازوال داستانیں بھی رقم ہوئی ہیں لیکن وہ نظام اور ریاستی ڈھانچہ آج بھی اسی طرح موجود ہے اور جلیانوالہ باغ قتل عام کے ایک سوسال بعد بھی عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے ہے۔ آج بھی امیر ترین افراد پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں جبکہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے محنت کشوں پر جبر اور تشدد کیا جاتا ہے اوربوقت ضرورت ان پر گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔

آج ایک صدی گزرنے کے باوجود پاکستان اور بھارت میں وہی ریاستی ڈھانچہ بدستور موجود ہے جس کے تحت یہ قتل عام ہوا تھا اور اسی طرز پر ریاستی جبر آج بھی جاری ہے

واقعہ
13اپریل کے روزامرتسر کے جلیانوالہ باغ میں بیس سے پچیس ہزار کے قریب افراد جمع تھے۔ اس میں ایک بڑی تعداد مقامی افراد کی تھی لیکن بہت سے لوگ قریبی دیہاتوں سے بھی آئے تھے اور بیساکھی کے روایتی میلے میں شریک ہونے کی غرض سے موجود تھے۔ تمام افراد نہتے تھے اور یہ اکٹھ ہر لحاظ سے پر امن تھا۔ اسی اثنا میں جنرل ڈائر اپنے سپاہیوں کے ساتھ باغ کے صدر دروازے پر آیا اور سپاہیوں کو ترتیب سے کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ باغ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ باغ سے باہر نکلنے کا مرکزی رستہ وہی صدر دروازہ تھا جس پر اب سپاہی موجود تھے جبکہ چند بہت چھوٹے دروازے تھے جو انتہائی تنگ گلیوں میں نکلتے تھے۔ ڈائر نے مجمع کو کسی بھی قسم کی وارننگ دیے بغیر سپاہیوں کو ان پر گولی چلانے کا حکم صادر کر دیا۔ اس کے بعد اس مجمع کو خون میں نہلا دیا گیا اور معصوم اور بے گناہ افراد کا قتل عام ہوا۔ مجمع میں بھگدڑ مچ گئی اور افرا تفری میں لوگوں نے بھاگنا شروع کر دیا لیکن سپاہیوں کی جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ جاری رہی۔ پہلے ڈائر نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ مجمع کے بالکل مرکز میں گولیاں چلائی جائیں اورجب لوگ افراتفری میں بھاگتے ہوئے دیواروں کے ساتھ لگنا شروع ہوئے تو ڈائر نے فائر کا رخ دیواروں کی جانب موڑ دیا، کچھ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی تو ڈائر نے ان پر بھی فائرنگ کا حکم صادر کیا۔ بہت سے لوگ باغ کے درمیان کنویں میں گر کر بھی ہلاک ہوئے اور کچھ افرا تفری میں جان بچانے کے لیے خود ہی کنویں میں کود گئے۔ اس دوران قیامت کا منظر تھااور ہر طرف لاشوں کا ڈھیر لگا تھا لیکن فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک سپاہیوں کی تمام گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور باغ میں خون میں لت پت چھوٹے بچوں کی لاشیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق اس دن 1650راؤنڈ فائر کیے گئے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد سرکاری رپورٹ کے مطابق 379بتائی جاتی ہے۔ لیکن اس واقعے کے بعد کانگریس کی جانب سے بنائی جانے والی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق1 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ3 ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو کسی بھی قسم کی طبی امداد نہیں دی گئی اور نہ ہی انہیں ہسپتال پہنچانے کا بندوبست کیا گیا۔ بہت سے زخمی، جن میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔

جنرل ڈائر

جنرل ڈائر نے انکوائری کمیٹی کے سامنے اس تمام تر جرم کا اعتراف کیا اور کہا کہ اس نے یہ سب برطانوی سامراج کو قائم رکھنے کے لیے کیا۔ اس نے کہا کہ وہ صرف وہاں موجود لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ پورے پنجاب میں برطانوی سامراج کیخلاف ابھرنے والے ”غداروں“ کو پیغام دینا چاہتا تھا اور ان پر خوف اور دہشت مسلط کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ باغ میں داخلے کے لیے گلیاں انتہائی تنگ اور چھوٹی ہیں جس کی وجہ سے وہ بکتر بند گاڑیاں باغ میں نہیں لے جا سکاجن پر مشین گنیں نصب تھیں۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ اگر وہ مشین گن اندر لے جا پاتا تو کیا اس سے بھی فائرنگ کرتا تو اس نے کہا کہ ہاں بالکل وہ ایسا ہی کرتا اور مشین گن سے وہاں موجود لوگوں پر فائرنگ کرتا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ اس نے زخمیوں کو طبی امداد کیوں نہیں دی اور انہیں فوری ہسپتال کیوں نہیں پہنچایا گیا تو اس نے کہا کہ اسے اس قسم کی طبی امداد کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی۔

پس منظر
پہلی عالمی جنگ نے برطانوی سامراج کو کمزور کردیا تھا اور اس کی بنیادیں ہل رہی تھیں۔ اس جنگ کے دوران سامراجیوں نے ہندوستان کے افرادی اور قدرتی وسائل کو پوری قوت کے ساتھ نچوڑا تھا اور یہاں کے عوام کو بد ترین غربت اور بدحالی میں دھکیل دیا تھا۔ اس تمام عمل کے خلاف شدید ترین نفرت موجود تھی اور ایک بغاوت سلگ رہی تھی۔ اس سامراجی جنگ میں ہندوستان سے دس لاکھ سے زائد فوجیوں نے دنیا بھر کے مختلف محاذوں میں حصہ لیا تھا اور ایک لاکھ کے قریب ہلاک یا زخمی ہوئے۔ جنگ کے بعد فوج میں بھی بہت سی بغاوتوں کا آغاز ہو گیا تھا جبکہ جنگ کے وسیع تجربات سے لیس بڑی تعداد میں فوجی واپس غربت اور ذلت کی زندگی کا رخ کر رہے تھے۔ روس میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب نے دنیا بھر کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور وہ اس کے پھیلاؤ سے خوفزدہ تھے۔ افغانستان کے رستے ہندوستان میں داخل ہونے والے تمام افراد کی کڑی نگرانی کا آغاز کر دیا گیا تھا اور کسی بھی قسم کے بالشویک پراپیگنڈے کیخلاف سخت کاروائی کی جاتی تھی اور مقدمات بھی قائم کیے جارہے تھے۔

اس دوران ہندوستان کے معاشی بحران میں بھی شدید اضافہ ہو چکا تھا اور برطانوی حکمران نہ صرف بڑے پیمانے پر نئے جابرانہ ٹیکس لاگو کر رہے تھے بلکہ عوام سے جنگ کے لیے قرضہ بھی لیا جارہا تھا۔ اس تمام تر صورتحال میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو چکا تھا جبکہ حقیقی اجرتوں میں کمی ہوئی تھی۔ 1912ء میں لاہور شہر میں ایک روپے کی بارہ سیر سے زائد گندم ملتی تھی جو 1919ء میں چھ سیر رہ گئی تھی۔ دیگر اشیائے ضرورت کی صورتحال بھی ایسی ہی بد تر تھی۔ لیکن اس دوران اجرتوں میں صرف پچاس فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اس کے اثرات دیہات کے علاوہ صنعتی مزدوروں پر بھی مرتب ہو رہے تھے۔ خاص طور پر ریلوے کے محنت کشوں میں بے چینی پائی جاتی تھی اور لاہور میں ریلوے میں ہڑتال کی تیاری جاری تھی۔ ہندوستان میں ریلوے کی ایک کامیاب ہڑتال برطانوی راج کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی تھی۔

اسی طرح جنگ کے بعد فوج میں بھرتیوں کا سلسلہ ختم ہونے کی بجائے بڑھ گیا تھا اور پنجاب سمیت پورے ہندوستان سے فوج میں جبری بھرتیاں کی جا رہی تھیں۔ اس حوالے سے افغانستان میں نئی جنگ کے امکان کو بنیاد بنایا جا رہا تھا۔ پنڈت پیارے موہن نے اپنی تصنیف میں ان بھرتیوں کے لیے ہونے والی ریاستی اہلکاروں کی بدمعاشی اور لوٹ مار کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بہت سی جگہوں پر نوجوانوں کو جبری بھرتی کرنے کے لیے ان کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا تھا اور ان کو کہا جاتا تھا کہ اگر بچنا چاہتے ہو تو فوج میں بھرتی ہو جاؤ۔ اسی طرح بہت سی جگہوں پر پیسے لے کر جان بخشی بھی کی جاتی تھی۔ اس دوران دیہاتوں اور شہروں میں دولت مند افراد خوب مال بناتے تھے اور ریاستی اہلکاروں کے ساتھ مل کر اپنے جبر کو جاری رکھتے تھے۔ اس تمام عمل میں فوج کے اندر بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا جو پہلے ہی جنگ کی ہولناکیوں کے باعث تھکاوٹ کا شکار تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کا بھوت بھی برطانوی حکمرانوں کے سر پر منڈلا رہا تھا اور انہیں لگتا تھا کہ اگر فوج میں منظم بغاوت ہو گئی تو یہ پہلے سے کئی زیادہ بڑے پیمانے پر خونریز ہوگی۔ جنگ کے دوران غدر پارٹی کی تشکیل اور ہندوستان میں کاروائیاں اس حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں بجا چکی تھی گو کہ اسے کچلا جا چکا تھا۔ اسی خطرے کے پیش نظر فوج میں بھرتی ہونے والے سپاہیوں پر جبر اور احکامات کی فوری تعمیل کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ اس جبر سے بھگوڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا تھا جو انگریزافسروں کے لیے لمحہ فکریہ تھا۔

اس تمام بے چینی کو جبر کے ذریعے کچلنے کے لیے برطانوی سامراج کی طرف سے قانون سازی بھی کی جا رہی تھی اور جنگ کے دوران نافذ کیے گئے قوانین کو وسعت دی جارہی تھی۔ اسی تسلسل میں مارچ 1919ء میں ہندوستان میں ’رولٹ ایکٹ‘ کو نافذ کیا گیا جس کے خلاف ملک گیر نفرت اور غم و غصہ موجود تھا۔ اس ایکٹ کے تحت تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیے گئے تھے اور پولیس کو جبر کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا تھا، اس پر مقدمہ بنا کر سزا دی جا سکتی تھی جس کے خلاف اسے وکیل یااپیل کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ نہ ہی کسی مدعی کو عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی کوئی گواہ یا ثبوت درکار تھے۔ کسی کو بھی کوئی بھی سزا دی جا سکتی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ فوجی مارشل لا کی راہ ہموار کی جا رہی تھی اور جلیانوالہ باغ کے واقعے کے بعد بہت سے علاقوں میں مارشل لا نافذ بھی کر دیا گیا تھا۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف عوامی غم و غصہ تحریک کی شکل میں ابھرا اور پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ گاندھی نے بھی اس ایکٹ کی مخالفت کی جس کے باعث اسے ملک گیر سطح پر پذیرائی ملنی شروع ہوئی۔

اس ایکٹ کے خلاف سب سے پہلے 30مارچ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی گئی۔ یہ ہڑتال کافی حد تک کامیاب رہی جس میں ملک بھرکے اہم شہروں میں کاروبار زندگی معطل رہا۔ اس دوران بہت بڑے احتجاج اور ریلیاں بھی نکلیں جس میں ہزاروں افراد نے برطانوی سامراج کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس روز دہلی میں ہونے والے احتجاج میں بیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی اور پرامن ریلی نے سوامی شردھاآنند کی قیادت میں شہر کا چکر لگایا۔ لاہور اور امرتسر میں بھی یہ ہڑتال کامیاب رہی۔ امرتسر میں اس مزاحمت کی قیادت کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو کر رہے تھے جبکہ ان کے ساتھی ستیہ پال بھی شانہ بشانہ موجودتھے۔ اس کامیاب ہڑتال کے بعد چھ اپریل کے روز دوبارہ ملک گیر عام ہڑتال کی کال دی گئی جو بڑے پیمانے پر کامیاب رہی۔ اس روز صرف پنجاب میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر باہر نکلے اور برطانوی سامراج کے خلاف احتجاج کیا۔ بمبئی، کلکتہ اوراحمدآبادسمیت پورے ہندوستان میں ایسی ہی شدت موجود تھی اور لاکھوں افراد سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ امرتسر میں رولٹ ایکٹ کے خلاف اس دوران چھ بڑے جلسے ہو چکے تھے جبکہ سب سے بڑے جلسے میں لگ بھگ 35ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں سمیت پورے ہندوستان میں ایسے ہی جلسے جلوس منعقد ہو رہے تھے اور ان کا حجم بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ گاندھی نے بھی ملک گیر دوروں کا آغاز کر دیا تھا اور اب وہ پہلی دفعہ اس تحریک میں پنجاب کا رخ کر رہا تھا جہاں اسے ایک ”رشی“ یا ”ولی“ کے طور پر خوش آمدید کہنے کی تیاری جاری تھی۔ لیکن9 اپریل کو اسے پنجاب داخل ہونے سے روک دیا گیا اور گرفتار کر کے واپس بمبئی پہنچا دیا گیا۔

کانگریس پوری طرح اس تحریک کی حمایت کر رہی تھی اور اس کے دونوں دھڑے دوبارہ متحد نظر آ رہے تھے۔ ایک دھڑا جسے انگریز انتہا پسند کہتے تھے وہ داخلی خودمختاری کا نعرہ لگاتا تھا جبکہ دوسرا دھڑا، جسے معتدل کہا جاتا تھا، وہ خود مختاری کی بجائے انگریزوں کے تحت ہی مزید مراعات کا مطالبہ کرتا تھا۔ یہ دھڑے درحقیقت ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے کے دو حصوں کی نمائندگی کرتے تھے لیکن جنگ کے بعد یہ متحد ہو گئے تھے اور خاص کر اس تحریک کو منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے جو بہت تیزی سے پورے ملک میں پھیل رہی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں پہلی دفعہ ہندوستانی قوم کا تشخص ابھر کر سامنے آیا تھا لیکن پہلی عالمی جنگ نے اس تشخص کو ایک نئے معنی دیے تھے اور اب یہ زیادہ شدت سے قومی آزادی کی تحریک میں اپنا اظہار کر رہا تھا۔ اس دوران ہندوستان کا سرمایہ دار بھی پہلے سے زیادہ توانا ہو چکا تھا اور زیادہ بڑے مطالبات کر رہا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ جرأت مند اور انقلابی کردار محنت کش عوام کا تھا جو اس جبرکے خلاف فیصلہ کن لڑائی کے لیے میدان میں اتر رہے تھے۔

انہی عوام کی شرکت کے باعث یہ تحریک حکمرانوں کو خوفزدہ کر رہی تھی اور وہ اسے کچلنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ لیکن ابھی تک یہ تحریک پر امن تھی اور اس پر حملہ کرنے کا ابھی تک کوئی جواز مہیا نہیں ہو سکا تھا۔9 اپریل کو امرتسر میں ایک ہندو تہوار کے موقع پر بہت بڑا جلوس نکلا جس میں ہندو مسلم فساد کا خدشہ تھا۔ لیکن سیف الدین کچلو، ستیہ پال اور دیگر قائدین کی حکمت عملی کے باعث یہ جلوس پر امن انداز میں اختتام پذیر ہوا بلکہ اس میں ہندو مسلم اتحاد کا بے مثال مظاہرہ نظر آیا۔اس صورتحال سے انگریز ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام مزید پریشانی میں مبتلا ہو گئے اور قائدین کو سزا دینے کی حکمت عملی پر غور شروع کر دیا۔ 9اپریل کی رات کو امرتسر میں تحریک کے قائدین ڈاکٹر کچلو اور ستیہ پال کی شہر بدری اورنظر بندی کے احکامات جاری کیے گئے اور اگلے دن 10اپریل کو انہیں دھرم شالا کے مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ اس سے پورے شہر میں بے چینی پھیل گئی اور اس حکم کے خلاف ایک بہت بڑا جلوس ڈپٹی کمشنر کے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ اس جلوس کے شرکا کی تعداد دس سے بیس ہزار کے درمیان تھی اور وہ ڈپٹی کمشنر سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کرنے جا رہے تھے۔ لیکن رستے میں ہی اس جلوس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس میں بیس کے قریب افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد جلوس میں بھگدڑ مچ گئی اور ہجوم مشتعل ہو گیا۔ اس مشتعل ہجوم نے شہر کے مختلف مقامات پر جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیا اور انگریزوں کے خلاف کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ اس نفرت کا زیادہ تر مرکز بینکوں کی عمارات تھیں جنہیں جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ اس دوران چار انگریزوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں جبکہ ایک انگریز خاتون مس شیرووڈ کے ساتھ شدید بدسلوکی بھی کی گئی۔

اس صورتحال میں 12اپریل کو خفیہ طور پر مارشل لا نافذ کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے اور عوام کو اس سے بے خبر رکھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ 13اپریل کو جلیانوالہ باغ میں جمع ہونے والے افراد اس حکم نامے سے بے خبر تھے اور وہاں مقررین کی تقریروں کو سن رہے تھے۔ بہت سے لوگ دیہاتوں سے صرف بیساکھی کے میلے کی غرض سے آئے تھے اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں تھے۔ اس کے علاوہ وہاں چھوٹے بچے اور خواتین بھی موجود تھیں جنہیں ایک دفعہ بھی وہاں سے ہٹنے کا نہیں کہا گیا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا گیا۔ صرف براہ راست فائرنگ کا حکم دیا گیا تھا۔

اثرات

اس قتل عام کی خبر پھیلتے ہی ملک گیر سطح پر غم و غصہ پھیل گیا اور تحریک کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ یہ”تحریک عدم تعاون“ کا آغاز تھا جو آئندہ تین سال تک پورے ملک میں جاری رہی جس میں پورے ملک میں لاتعداد ہڑتالیں اور احتجاج ہوئے۔ فوری اقدامات کے طور پر دیگر علاقوں میں بھی مارشل لا نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے اور برطانوی سامراج کی جانب سے بد ترین تشدد اور جبر کی کاروائیوں کا وسیع پیمانے پر آغاز ہو گیا۔ قتل عام کے اگلے روزلاہور میں ہزاروں افراد نے احتجاجاًمال روڈکا رخ کیا جو یورپی افراد کی رہائش کا مرکز تھی۔ یہاں پر پولیس کی جانب سے جلوس پر گولی چلائی گئی اور لاٹھی چار ج کرتے ہوئے جلوس کو انار کلی تک اور پھر وہاں سے لوہاری دروازے تک دھکیلا گیا جو مقامی افراد کی رہائش کا علاقہ تھا۔ لیکن اس تمام تر جبر کے باوجود تحریک کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور شہر بھر میں کئی دن تک کاروبار زندگی معطل رہا۔ بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں پر بڑے بڑے اجلاس منعقد ہوئے جن میں ”انقلابی کمیٹی“ کے نام سے قیادت کی تشکیل دی گئی۔ اس دوران مقامی افراد میں موجود انگریزوں کے گماشتوں نے تحریک کی قیادت حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں انہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ایک شخص سر عمر حیات خان ٹوانہ بھی تھا جسے عوام نے ”سرکار کا ماما“ کا لقب دیا۔ اسی طرح دہلی میں بھی احتجاج کا دائرہ کار وسعت اختیار کر گیا۔ قصور میں قتل عام کے اگلے روز ریلوے اسٹیشن پر مقامی افراد نے ٹرین میں سوار انگریزوں پر حملہ کر دیا اور انہوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ دو انگریزوں نے ہجوم پر فائرنگ کردی جس پر مشتعل ہجوم نے انہیں جان سے مار دیا۔

گوجرانوالہ میں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے غلیظ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ شہر کے ایک طرف گائے کو کاٹ کر پھینک دیا گیا جبکہ دوسری جانب خنزیر کو ریلوے کے کھمبے کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔ عوام فوری طور پر اس ریاستی سازش کو بھانپ گئے اور احتجاج کا آغاز ہو گیا۔ پولیس کی جانب سے فائرنگ کے بعد ہجوم مشتعل ہو گیا اور اس نے تار گھر، تحصیل دفاتر، عدالت اور دیگر اہم عمارتوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اس موقع پر لاہور سے طیارے بھیجے گئے جنہوں نے شہر پر بمباری کی جبکہ طیارے میں موجود مشین گن سے بھی ہجوم پر فائرنگ کی گئی۔ کل آٹھ بم گرائے گئے جن میں سے تین شہر میں گرے جبکہ باقی مضافات میں گرائے گئے۔ کسی بھی سویلین آبادی پرامن کے عرصے میں فضا سے بم پھینکنے کا یہ دنیا بھرمیں پہلا واقعہ تھا جو برطانوی سامراج کے خونی کردار کی وضاحت کرتا ہے۔ اسی طرح گجرات، حافظ آباد، لائل پور اور دیگر شہروں میں بھی فوری طور پر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔

اس تحریک کو کچلنے کے لیے عوام کو کوڑے مارنے کا بھی آغاز کیا گیا۔ مختلف شہروں میں عوامی مقامات پر یہ گھناؤنا عمل کیا گیا اور لکڑی کے ایک تکونی ڈھانچے پر لوگوں کو رسیوں سے جکڑ کر ان کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاتے۔ امرتسر، لاہور، قصور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں ایسے سینکڑوں افراد کو کوڑے مارے گئے۔ ان افراد کی بڑی تعداد کا کوئی بھی جرم نہیں تھا اور انہیں صرف عبرت کا نشان بنانے کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس جبر کے دوران اگر کوئی بے ہوش ہوجاتاتو اس کے چہرے پر پانی پھینک کر ہوش میں لایا جاتا اور پھر کوڑے مارنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا۔ اسی طرح بہت سے مقامی وکلا، ڈاکٹروں اور پروفیسروں کو زنجیروں میں جکڑ کر شہر کا چکر لگوایا جاتا اور انہیں کئی کئی گھنٹے سخت گرمی اور دھوپ میں کھڑا رکھا جاتا۔ انگریز مرد اور خواتین کے سامنے ان کی خصوصی تذلیل کی جاتی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں قید کر دیا جاتا۔ لاہور میں شاہی قلعے کو اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر استعمال کیا گیا اور وہاں پر بہت سے انقلابیوں کو قید کیا گیا اور سخت سزائیں دی گئیں۔ انگریز سرکار کی جانب سے سب سے زیادہ سخت سزائیں ان افراد کو دی گئیں جنہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں کی اور مشترکہ طور پر انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا نعرہ بلند کیا۔ درحقیقت تحریک میں مذہبی بنیادوں پر کوئی تفریق موجود نہیں تھی اور پورے ملک کے عوام برطانوی سامراج کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کے میدان میں اتر ے تھے۔ ان میں ہر مذہب، قوم، زبان اور نسل کے افراد شامل تھے اور ان کا مقصد انگریزوں سے حقیقی نجات حاصل کرنا تھا۔ اسی جرم کی پاداش میں انہیں سخت ترین سزاؤں کے ذریعے محکوم رکھنے کی کوشش کی گئی۔

اس دوران خصوصی سلام کا قانون بھی نافذ کیا گیا۔ اس میں ہر مقامی شخص کے لیے ضروری تھا کہ وہ رستے میں گزرنے والے ہر انگریز کو سلام کرے۔ اگر انگریز نے اس سلام کو دیکھا یا سنا نہیں تو مقامی شخص کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا جس میں کوڑوں کی سزا بھی شامل تھی۔ اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کروایا گیا اور انتہائی پڑھے لکھے مقامی افراد کو بھی اس دوران شدید تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح دو مقامی افراد کوشانہ بشانہ سڑک کے کنارے چلنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ انگریزوں کو دیکھتے ہی رستہ چھوڑ کر کھڑے ہو جائیں اور انہیں پورے عزت واحترام کے ساتھ گزرنے کا موقع دیں۔ امرتسر کی جس گلی میں انگریز خاتون کے ساتھ بد سلوکی کی گئی تھی اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ وہاں پر مقامی افراد کو رینگ کر گزرنے کے احکامات دیے گئے۔ دس دن تک گلی کو دونوں اطراف سے بند رکھا گیا اور اس میں سے گزرنے والے ہر مقامی شخص کے لیے لازمی تھا کہ وہ مٹی اور غلاظت سے بھری اس گلی میں سے رینگ کر گزرے۔ اس دوران انگریز فوجیوں کی ہنستے ہوئے تصاویر آج بھی موجود ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں کو جیلوں سے لا کر اس گلی میں سے زبردستی گزارا گیا اور یہ سب ریاستی احکامات کے تحت ہوا۔

طلبہ کے اوپر جبر کی ایسی مثال بھی کم ہی ملتی ہے جو اس دور میں کیا گیا۔ امرتسر اورقریبی شہروں جن میں لاہور اور قصور شامل ہیں، کے ہزاروں طلبہ کو بد ترین سزاؤں کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں روزانہ شدید دھوپ اور گرمی میں سولہ میل تک پیدل چلنے کی سزا دی گئی جبکہ روزانہ صبح مختلف تعلیمی اداروں کے سینکڑوں طلبہ کو چھڑی کے ساتھ تشددکا نشانہ بنایا جاتا۔ جن تعلیمی اداروں میں طلبہ کی بڑی تعداد موجود تھی وہاں پر یہ تشدد زیادہ گھناؤنے انداز میں کیا جاتا۔ بہت سے طلبہ کو لاہور کے شاہی قلعے میں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح طلبہ پر بغیر کسی وجہ کے بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے اورانہیں انگریزوں کا وفادار رہنے کا سبق بلند آواز میں مسلسل دہرانے کی سزائیں بھی دی گئیں۔

ایسے بہت سے مظالم کی ایک لمبی فہرست ہے جو انگریزوں کی جانب سے عوام پر بغاوت کے جرم میں برپا کیے گئے۔اس کیخلاف جہاں ہندوستان کے اندر شدید نفرت اور بغاوت کا لاوا ابل رہا تھا وہاں برطانیہ کے محنت کشوں میں بھی اس کیخلاف نفرت پائی جاتی تھی۔ برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی اس وقت تیسری انٹرنیشنل کا حصہ تھی جس کی بنیاد انقلاب روس کے قائدین لینن اور ٹراٹسکی نے رکھی تھی۔اس انٹرنیشنل نے دنیا بھر نوآبادیاتی ممالک کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا اور ان کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی تھی۔ اسی پالیسی کے تحت اس وقت برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ہندوستان کے عوام کی مکمل حمایت کی گئی تھی اور برطانوی سامراج کیخلاف جدوجہد کا آغاز کیا گیا تھا۔محنت کش طبقے کی اس نظام اور اس کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد آج بھی ختم نہیں ہوئی اور پوری دنیا میں جاری ہے۔

ایک جانب حکمرانوں کے مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ایک صدی بعد بھی انگریزوں کی بنائی ہوئی ریاست اور ان کے گماشتے اس خطے میں حکمران ہیں۔ آج یہاں پر ایک ایسی انقلابی قوت منظم کرنے کی ضرورت ہے جو عوامی تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہوئے نہ صرف حکمرانوں کے جبر کا خاتمہ کرے بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ اس جابرانہ ریاست اور اس کے عوام دشمن قوانین کا بھی مکمل خاتمہ کر ے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے جو اس قتل عام اور دیگر ایسے سینکڑوں مظالم کا واحد انتقام ہے۔

Comments are closed.