|تحریر: گرِش ملہوترا، ترجمہ: رائے اسد|
13 اپریل 2019ء کوبرطانوی نوآبادی پنجاب میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے سو سال بیت چکے ہیں۔
کرنل ریجنالڈ ڈائر کے حکم پر برطانوی فوج کی ایک کمپنی نے محض دس منٹوں میں لگ بھگ ایک ہزار نہتے لوگوں کو انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ 15سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
جلیانوالہ باغ کی بلند چاردیواری کے اندر اکٹھے ہونے والوں کے لیے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور احتجاج کو ختم کرنے کے لیے آئے برطانوی فوجی مرکزی دروازے پر موجود تھے۔ بارود کے کم از کم 1650 راؤنڈ داغے گئے اور سپاہیوں کے پاس موجود تمام ذخیرہ ختم ہوگیا۔ باغ میں موجود کچھ افراد نے گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کیلئے کنویں میں کودنے کی کوشش کی لیکن دوسرں کی زد میں آکر کچلے گئے جو یہی کوشش کر رہے تھے۔
برطانوی حکومت آج بھی مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کو ماننے سے انکاری ہے۔دہائیوں تک برطانوی حکام نے خال ہی کبھی اس جرم کا عتراف کیا اور 2013ء میں ڈیوڈ کیمرون نے طوحاً و کرہاً اس واقعے کو ’افسوسناک‘ قرار دیا۔
انقلاب کا خوف!
اس ہولناک واقعے کے پیچھے پنجاب میں اٹھنے والی انقلابی تحریک کا ڈر تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران انڈیا کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا اور پنجاب خاص طور پر متاثر ہوا۔ 1917ء سے 1919ء کے دوران اناج کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا اور اس خطے سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد جنگ کی بھینٹ چڑھی۔ اس کی وجہ ان کو برطانوی سامراج کی جانب سے دیا جانے والا ’جنگجو قوم‘ کا درجہ تھا۔
مزید برآں، روس میں ہونے والے بالشویک انقلاب نے برطانوی نوآبادی حکومت کو باؤلا کردیا اور انہوں نے 10 مارچ 1919ء کو رولٹ ایکٹ نافذ کرکے اندھے جبر کے ذریعے حقوق سلب کرنے شروع کردئیے۔
اس ایکٹ کے ذریعے عملاً مارشل نافذ کردیا گیا اور نوآبادی حکومت کسی بھی شخص کو ’دہشت گردی‘ کا مرتکب ٹھہرا کر بغیر کسی عدالتی کاروائی کے دو سال تک قید کرسکتی تھی۔ 1915ء میں منظور کیے گئے جنگی قوانین کو توسیع دے دی گئی تاکہ قومی آزادی کی تحریک کا گلا گھونٹاجا سکے جو سامراجی جنگ کیلئے ایک خطرہ تھی۔ سب سے بڑھ کر بنا کسی عدالتی کاروائی کے قید کرنے کے ساتھ ساتھ، پریس کی آزادی کو سلب کر لیا گیا اور پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ اس قتل عام سے قبل بھی متعدد چھوٹے چھوٹے احتجاج ہوتے رہے جس پر فوج نے گولیاں چلائیں اور کئی مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان واقعات کے جواب میں آنے والے ردعمل کو بنیاد بناتے ہوئے ڈائر نے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔
غم و غصے کی لہر
13 اپریل 1919ء کا دن پنجاب میں ہونے والے بیساکھی کے تہوار کا دن تھا، جو سکھوں کے لیے مذہبی عقیدت کا حامل بھی ہے۔ لہٰذا اس دن مقامی انقلابیوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے علاوہ کئی زائرین بھی اپنے احباب کے ہمراہ تہوار منانے باغ میں پہنچے۔ اس بد قسمت دن کرنل ڈائر 90 فوجیوں کے ہمراہ باغ میں کھلنے والی تنگ گزرگاہ سے دھاوا بول دیا۔
نہ کوئی پیشگی اطلاع دی گئی اور نہ ہی کسی کو تنبیہ کیا گیا۔ بس اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ بعد میں عدالتی کاروائی میں کرنل نے واضح طور پر بیان دیا کہ وہ مجمع کو منتشر کرنے کی بجائے انہیں سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اسے بس اس بات کا افسوس تھا ان کے پاس گولیاں ختم ہوگئیں اور راستہ تنگ ہونے کا باعث وہ بکتر بند گاڑی استعمال کرنے سے قاصر تھا۔
اس بہیمانہ قتلِ عام کی خبر سے ہندوستان کے طول و عرض میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور اسی تسلسل میں اگلے سال چلنے والی عدم تعاون کی ملک گیر احتجاجی تحریک کو بڑے پیمانے پر حمایت ملی۔ اس الم ناک سانحے نے بھگت سنگھ اور ادھم سنگھ جیسے انقلابیوں کے جذبات کو مزید مہمیز دی کہ وہ منظم ہوتے ہوئیہندوستان کو نوآبادیاتی چنگل سے نجات دلائیں۔
اس زخم پر نمک چھڑکنے کیلئے کرنل ڈائر کا وطن واپسی پر پرجوش استقبال کیا گیا۔رڈیارڈ کپلنگ نے اسے ’’وہ شخص جس نے ہندوستان کو بچایا‘‘ کا خطاب دیا اور اس کی فاتحانہ وطن واپسی پر خراجِ تحسین کے طور پر ملنے والے 26ہزارپاؤنڈ کے انعام میں 50 پاؤنڈ نذرانے کے طور پر دیے۔
انقلاب زندہ باد!
اس قتلِ عام نے ہندوستان میں برطانوی سامراج کے ننگے جبر کو بے نقاب کر دیا او رواضح کیا کہ مستقبل میں ہندوستان کے بیش قیمتی وسائل لوٹنے کیلئے برطانوی سامرج کس حد تک جا سکتا ہے۔
اس وجہ سے ہم انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ہم کبھی اس سانحے کو فراموش نہیں کرسکتے۔
انقلاب زندہ باد!