|تحریر: پارس جان|
رواں برس بر صغیر کے نامور شاعر ساحر لدھیانوی کے جنم کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے۔ ساحرؔ کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ ساحر کا جنم بلاشبہ ایک متلاطم اور غیر معمولی عہد میں ہوا تھا۔ ساحر کی زندگی، شخصیت اور فن پر بہت سی تصانیف دستیاب ہیں مگر ان میں سے شاذو نادر ہی کسی نے ساحرکے فنی تجربات کو اس کے عہد کے ساتھ دو طرفہ جدلیاتی تعلق میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ تنقید نگاری کے مروجہ تمام سرکاری و ’نیم سرکاری‘ مکاتب ویسے ہی ادب کو ادیب کی مجرد انفرادیت کا جمالیاتی اظہار قرار دے چکے ہیں۔ یوں معیاری یا غیر معیاری ادب کی تعیین کا پیمانہ خالص صوابدیدی اور لسانی داؤ پیچ ہی قرار پاتے ہیں گویا ہرمخصوص ادبی رجحان محض حادثاتی طور پر ہی تخلیق ہوتا ہے اور ادیب کی ’خداداد‘صفات ہی اس کے فن کے اسلوب اور مواد کا تعین کرتی ہیں۔ یعنی ادب ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ادیب ایسا ہے۔ اور ادیب ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ادب ایسا ہے۔ یوں ہم ادب اور ادیب دونوں کے بارے میں درحقیقت کچھ بھی جان ہی نہیں پاتے۔
نیو لبرل یلغار کے بعد تو تنقید کاانتہائی سادہ اورمرغوب معیار بس یہی قرار پایا ہے کہ ’جوجتنا بکتا یا بک سکتا ہے وہ اتنا ہی بڑا ادب ہے‘۔ اس معیار کی سادگی کو دلکشی بخشنے کے لیے نت نئی اصطلاحات کی کھوج ہی رواں عہد کی تنقید کا مقصد اور مدعا ہے۔ حقیقت میں تنقید کا یہ معیار اور پیمانہ خود بھی حادثاتی طورپر غالب نہیں آیا ہے بلکہ اس عہد کے مخصوص معاشی و ثقافتی حالات میں ایسی ہی تنقید نگاری کو سرکاری سند میسر آ سکتی تھی۔ ماحول ادیب کے حساس دماغ کو مشاہدے کی وساطت سے اہم اور مخصوص پیغامات کی ترسیل کرتا ہے اور پھر ادیب ان پیغامات میں گزشتہ نسلوں سے موصول کردہ جمالیاتی ورثے کی روشنی میں باطنی تجربات کی آمیزش کر کے ماحول کو واپس لوٹا دیتا ہے۔ ساحر کے فن کی گہرائی اور عظمت کو بھی اس کی انفرادی صفات کے ساتھ ساتھ اس کے معروض کے نشیب وفراز میں تلاش کرنا چاہیے۔ ساحر نے خود بھی اپنے فن کی تعریف کچھ اسی انداز میں کی ہے:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں
پہلی عالمی جنگ کی ہولناک تباہی نے بالعموم ساری دنیا اور بالخصوص نو آبادیاتی معاشروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ روس میں اقتدار پر محنت کشوں کے قبضے نے دنیا بھر میں ایک نئی انقلابی لہر کو جنم دیا۔ بر صغیر میں بھی برطانوی سامراج سے آزادی کی تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ سامراجی آقا تحریک کو کچلنے کے لیے جہاں ننگے جبر پر اتر آئے تھے وہیں اس جبر کے خلاف مزاحمت نئے سے نئے شعوری راستے تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب آزادی کی تحریک میں مختلف نظریاتی رجحانات کی تشکیل کا عمل برق رفتاری سے جاری تھا۔ برصغیر میں پہلے ہی شعر و ادب کی مضبوط اور مستحکم روایات موجود تھیں اور ادیبوں کی ہر پرت بھی اس نظریاتی بھٹی میں پک رہی تھی۔ ساحر نے 1930ء کی دہائی میں شعور کی آنکھ کھولی تو پہلے ہی علامہ اقبال اور مولانا الطاف حسین حالی جیسے نظریاتی شعرا اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ ان شعرائے کرام کے ہاں پایا جانے والا ’مشرقیت‘کامغرب مخالف رجحان نوآ بادیاتی نظام کے زوال کے عہد کی پیداوار تو تھا مگر اس کی شعوری بے راہروی سے جنم لینے والے قومیت کے تصوریا ملی جذبات کو بھی انگریز سامراج نے بہت مکاری سے اپنی ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘کی پالیسی کے سانچے میں ڈھال لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک انگریز نقاد نے اس عہد کو عصرِ اقبال یعنی اقبال کا زمانہ بھی قرار دیا تھا۔ سامراجیوں نے مشرق کے تقدس کو اپنی اطاعت کی شر ط پر اس وقت بھی خوب پذیرائی دی تھی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، جس کا اظہار ہمیں مابعد نو آبادیاتی نظریات کی یورپ کی جامعات میں بھرپور پذیرائی کی شکل میں ملتا ہے۔ پسماندگی کو تقدس کا لبادہ پہنا دینے سے وہ پہلے سے بھی زیادہ متعفن اور ضرر رساں ہو جاتی ہے۔ ساحر نے اسے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔ اس نے بڑی دیدہ دلیری سے قومیت کے اس تصور کو رد کیا اور ثقافت کو طبقاتی نکتہ نظر سے دیکھا اور دکھانے کی کوشش کی۔ ’ثناخوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں‘ایک ایسا تازیا نہ ہے جو آج بھی رومانوی انقلابیوں اور ما بعد نو آبادیوں کی روح اور ضمیر پر مسلسل برس رہا ہے بشرطیکہ مبینہ روح اور ضمیر آج بھی زندہ ہوں۔
ساحر کا تصور جمالیات خالصتاً اشتراکی ہے۔ وہ ایک علی الاعلان مارکس وادی تھا۔ غیر جانبداری جسے آجکل ادب کی لازمی شر ط قرار دیا جاتا ہے، ساحر کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ مگر اس جانبداری نے ساحر کے فن کو جمالیاتی تاثیر سے ہرگز محروم نہیں کیا تھا بلکہ اسے وہ اٹھان اور مقام بخشا تھا جو صرف اور صرف ساحر کا ہی خاصہ ہے۔ اس کے بدترین دشمن بھی اس کے فن کی انفرادیت سے انکار نہیں کر سکے۔ ساحر کی بات دل میں فوری طور پر اترتی ہے اور احساسات اور جذبات میں بھونچال پیدا کر دیتی ہے۔ ساحر کے عہد میں انڈین فلمی صنعت بھی تیزی سے پھل پھول رہی تھی۔ ساحر نے بہت جلدی بھانپ لیا تھا کہ اس وقت اپنے نظریات کی ترویج کے لیے اس سے بہتر میڈیم ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر کے ہاں غزل اپنے بہت سے ہم عصروں کے مقابلے میں وہ مقام نہیں رکھتی جو نظم اور بالخصوص فلمی گانوں کو حاصل ہے۔ ساحر کے لکھے ہوئے درجنوں فلمی گیت ایسے ہیں جو نسلوں تک گائے اور یاد رکھے گئے۔
ساحر کی جمالیاتی اقدار قابل رشک ہیں۔ اس کے خوبصورتی اور عشق کے تصورات کو ہی لے لیجیے۔ اس کے ہاں سماجی بدصورتی، عدم مساوات، بے ترتیبی اور بد انتظامی کے خاتمے کی سعی ہی جمالیاتی نصب العین ہے۔ درسی کتب میں عشق کے تصور کو مجازی اور حقیقی کی دقیانوسی بحثوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ اس کے ردِ عمل میں کچھ ترقی پسند دوسری انتہا پر جا کر مجاز کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔ ساحر کا محبوب کوئی مجرد خیال نہیں بلکہ جیتا جاگتا انسان ہے۔ وہ اپنے محبوب کو محض جنسی میلان کی عینک سے نہیں دیکھتا بلکہ اس کے ماحول کو بھی اس کے قابل اور موافق بنانے کی تلقین اور اصرار کرتا ہے۔ وہ اس کے خال و خد کا دیوانہ تو ہے مگر وہ طبقاتی شعور سے اس کی زیبائش و آرائش میں لگا رہتا ہے۔ وہ اسے تلقین کرتا ہے کہ میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب تاج محل کی بنیادوں میں شامل انسانی خون کی بو کے تعفن کو محسوس کرے تاکہ وہ حقیقی انسا ن کے درجے پر فائز ہو سکے۔ وہ لمس کو بدعت نہیں سمجھتا بلکہ باشعور محبوب کے لمس اور نظارے سے اس توانائی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے جو اسے اس غیر انسا نی سماج کی بد سلوکیوں کے خلاف مسلسل اور موثر صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے درکار ہے۔ تاج محل کو جس طرح ساحر نے دیکھا اور اپنے محبوب کو دکھایا ہے، یہ منفرد زاویہ نظر اسے اپنے ہم عصر ترقی پسند ادیبوں میں بھی بلند مقام عطا کرتا ہے۔ اس نے ایک مثالی باپ کی جو تصویر کشی کی ہے، آج بھی ہمارے سماج کو لاحق دہشت گردی اور مذہبی تعصبات کا حل باپ کے اسی کردار میں پنہاں ہے۔ آج بھی ہر باپ کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو ہندو یا مسلمان بنانے سے پہلے سہی معنوں میں انسان بنانے کی کوشش کرے۔
دوسری عالمی جنگ کے تباہ کن سماجی و ثقافتی مضمرات کوبہت خوبصورتی سے ساحر نے اپنی طویل نظم پرچھائیاں میں پیش کیا ہے۔ ”اے شریف انسانو“بھی اس موضوع پر ایک شاہکار ہے۔ ”مادام، 26جنوری، گریز، انتظار، رد عمل، چکلے، آواز آدم“ اور ایسی ہی بے شمار نظمیں ساحر کے فنی معیار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کی ہر نظم اس کے بلند سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔ اس نے جبر کی ہر شکل کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ پدر شاہانہ ثقافت کی طرف ساحرکا رویہ انتہائی حقارت آمیز تھا۔ ”عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا“ اس نظم میں جو تلخی ہے، وہ کئی نسلوں کی اذیتوں کا عرق ہے۔ وہ ہر سچے کمیونسٹ کی طرح عورت کی آزادی کا نڈر وکیل تھا۔ اس نے اپنی محبوبہ کو بھی محبت کی ریشمی زنجیروں میں باندھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے وہ اعتماد اور جرأت بخشی جس کے دم پر وہ تمام تر ثقافتی جبر سے ٹکرا سکے۔ یہ شعر ملاحظہ کریں:
تو مجھے چھوڑ کے، ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
ترے ہاتھوں میں مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں
کمیونسٹ نظریات پر غیر متزلزل یقین ہونے کے باوجود ساحر نے فیض احمد فیضؔ کی طرح بائیں بازو کی عملی سیاست میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بیورو کریٹک سٹرکچر بھی ہو سکتے ہیں۔ ساحر کی شاعری میں کہیں کہیں ایسی علامتی تنقید موجود ہے جس کا نشانہ روایتی بائیں بازو یا سوویت یونین کی افسر شاہی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ساحر کے پورے کلام میں مایوسی کی ایک رمق تک دکھائی نہیں دیتی۔ اس نے ٹھوک بجا کر کہا کہ’’وہ صبح ہمیں سے آئے گی“۔ یعنی انسانیت کے سوشلسٹ مستقبل پر اس کا یقین آخری وقت تک قائم رہا۔ ساحر کی شاعری میں رتی برابر بھی احساس محرومی نہیں۔ وہ خود لدھیانہ کے ایک خوشحال زمیندار گھرا نے میں پیدا ہوا تھا، اور اس نے اپنی زندگی میں شہرت اور عزت کی بلندیوں کو چھوا۔ سرمایہ دارانہ معاشرتی ڈھانچے پر اس کی تنقیدکیتھارسس نہیں ہے بلکہ اس کی قوتِ محرکہ ایک آفاقی جذبہئ تعمیر ہی ہے۔ مارکس نے ادیبوں کو نصیحت کی تھی کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے پیسے کمانے چاہئیں، پیسے کمانے کے لیے زندہ نہیں رہنا چاہیے، ساحر نے جس طریقے سے سر مایہ دارانہ تعیش اور اسٹیٹس کو دھتکارا اورمسترد کیا ہے، اور جیسے سرمایہ داروں کے وظیفہ خوار بکاؤ ادیبوں کو ادبی زبان میں تھپڑ رسید کیے ہیں، اس سے مارکس کے شاگرد کی حیثیت سے اس کی سچائی اور کمٹمنٹ کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مرے سامنے سے اٹھا لو یہ دنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے