آج سے ایک سو سال قبل انسانی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ رونما ہوا تھا۔ فروری 1917ء میں روس کے عوام نے ایک انقلاب کے ذریعے بادشاہ کا تختہ الٹ دیا اور صدیوں پرانی زار شاہی کا خاتمہ کیا۔ اکتوبر 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے تمام اقتدارسوویتوں کو منتقل کر کے روس سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور سوشلسٹ سماج کا آغاز کیا۔ پورے روس سے نجی ملکیت کے بیہودہ تقدس کی پامالی پر عملدرآمد کروایا گیا۔ امیر اور غریب کے طبقاتی تضاد پر مبنی ہزاروں سال پرانی تفریق کا خاتمہ ہوا اور غیر طبقاتی نظام کی ابتدا کی گئی۔ تمام ذرائع پیداوار اور معیشت کے کلیدی شعبے سوویتوں کے ذریعے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیے گئے اور روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات ہر شخص کو فراہم کرنا اس مزدور ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔ خواتین ‘ مظلوم قومیتوں اور اقلیتوں سمیت سماج کے پسے ہوئے طبقات کو محرومی سے نجات دلائی گئی اور ان کے تمام حقوق ان کی دہلیز پر فراہم کرنے کا نظام رائج کیا گیا۔ بڑے بڑے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی تمام دولت اور جائیدادیں ضبط کر لی گئیں اور انہیں محنت کش طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس دوران دنیا کے دیگر سامراجی ممالک کے درمیان عالمی جنگ جاری تھی جنہوں نے محنت کشوں کے اس انقلاب کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتے ہوئے اس پر مختلف سمتوں سے حملہ کر دیا۔ اکیس سے زائد سرمایہ دار ممالک کی افواج نے محنت کشوں کی اس نومولود مزدور ریاست پر ہلا بول دیا۔ اس کے خلاف جہاں ٹراٹسکی کی قیادت میں مزدوروں کی سرخ فوج بنا کر ان کا مقابلہ کیا گیا وہاں لینن نے امریکہ سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کو خطو ط لکھے کہ یہ انقلاب صرف روس کے محنت کشوں کا انقلاب نہیں بلکہ دنیا بھر کے مزدوروں کا انقلاب ہے اور اس کا دفاع ان پر فرض ہے۔ اس کے جواب میں امریکی محنت کشوں سمیت مختلف ممالک کے محنت کشوں نے جنگی ساز و سامان بھجوانے والے اداروں میں ہڑتالیں کر دیں جس کے باعث ان ممالک کے حکمران طبقات کو اپنی افواج واپس بلانی پڑیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لینن اور ٹراٹسکی نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بھی بنیاد رکھی تا کہ پورے کرۂ ارض سے سرمایہ داری کی نجاست کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں ظلم اور استحصال سے پاک سوشلسٹ سماج کا آغاز کیا جا ئے۔ ہر سال کمیونسٹ انٹرنیشنل کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے گئے اور پوری دنیا میں انقلاب کے لیے درکار قوتوں کو منظم کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ ہندوستان سے لے کر امریکہ تک اس انقلاب کی روشنی پھیلانے کا عمل تیزی سے شروع ہوا۔
تاریخ کا المیہ ہے کہ جرمنی سمیت دیگر ترقی یافتہ مغربی ممالک میں انقلاب کے بھرپور مواقع میسر آنے کے باوجود موضوعی کمزوریوں کے باعث انقلاب کو فتح یاب نہیں کیا جا سکا جس کے باعث روس کا انقلاب تنہا رہ گیا۔ اسی باعث روس کی مزدور ریاست میں ایک بیوروکریٹک پرت ابھر کر آئی جس نے مارکسی نظریات سے انحراف کرتے ہوئے انقلاب کے اس سفر میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کر دیں جس کی قیادت سٹالن کر رہا تھا۔ مارکسی بین الاقوامیت کے نظریات کی جگہ ایک ملک میں سوشلزم کا انقلاب دشمن نظریہ متعارف کروایا گیا اور سوشلسٹ جمہوریت کا خاتمہ کرتے ہوئے افسر شاہی کی غاصبانہ آمریت قائم کی گئی۔ ٹراٹسکی سمیت انقلاب کے تمام دیگر قائدین کو قتل کروا دیا گیا اور انقلاب کو تباہی کے رستے پر گامزن کر دیا جس کا انجام ہمیں سوویت یونین کے انہدام کی شکل میں نظر آتا ہے۔ لیکن اس تمام تر عرصے میں مزدور ریاست اور اس کی منصوبہ بند معیشت نے مسخ شدہ شکل اور زوال پذیر سٹالنسٹ قیادت کے باوجود وہ تاریخی کارنامے سر انجام دیے جو آج تک کسی بھی سماج میں نہیں کیے جا سکے۔
جب روس میں انقلاب برپا کیا گیا اس وقت وہ آج کے پاکستان سے زیادہ پسماندہ کیفیت میں تھا لیکن چند دہائیوں میں وہ خلا میں پہلا شخص بھیجنے والا ملک بنا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اتنی تیز رفتار ترقی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ معیشت کی شرح نمو بھی تاریخ میں سب سے زیادہ تھی۔ دنیا کے سب سے زیادہ ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان سوویت یونین میں پیدا کیے گئے۔ خواتین کو مکمل آزادی دی گئی اور سائنس سمیت تمام اہم شعبوں میں ان کی شرکت پوری دنیا میں سب سے زیادہ تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام سرمایہ دار ممالک ہٹلر کے سامنے بے بس ہو چکے تھے لیکن سوویت یونین نے برلن پر سرخ جھنڈا لہرا کر ہٹلر اور فاشسٹوں کے خاتمے کا نقارہ بجایا۔ اس کی وجہ سوویت یونین کی منصوبہ بند معیشت تھی جس نے سٹالن کے مجرمانہ فیصلوں کے باوجودمزدور ریاست کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ان غلط فیصلوں کا انجام محنت کشوں کو بھگتنا پڑا جس میں سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا جس کے ایک کروڑ سے زائد فوجی مارے گئے جبکہ دو کروڑ کے قریب عام شہریوں نے قربانی دی۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد سوشلزم کے خلاف ایک طرف دنیا بھر میں سامراجی ممالک کے گماشتوں کی جانب سے غلیظ پراپیگنڈہ کیا گیا جبکہ دوسری جانب سٹالنزم کے غیر مارکسی نظریات پر قائم بائیں بازو کی قوتیں زوال پذیر ہو کر بکھر گئیں۔ ایسے میں یہ نظریہ پروان چڑھایا گیا کہ ’’تاریخ کا خاتمہ ‘‘ ہو چکا ہے اور آئندہ آنے والے وقت کے لیے ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام قائم کرے گا۔ بائیں بازو کے نام نہاد دانشور اور سر گرم کارکن بھی اس پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے اور اس بیہودہ اور غیر سائنسی نظریے پر ایمان لے آئے۔
لیکن گزشتہ ایک دہائی میں ہونے والے واقعات نے اس سامراجی نظریے کے پرخچے اڑا دیے ہیں اور پوری دنیا طبقاتی کشمکش کی ایک نئی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ 2008ء کے عالمی اقتصادی بحران سے لے کر عرب انقلابات تک اور آکو پائی وال سٹریٹ سے لے کر ٹرمپ کیخلاف ہونے والے لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہروں نے ایک نئے عہد کا آغاز کر دیا ہے۔ اس نئے عہد میں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جس کے کندھوں پر ماضی کی غداریوں کا کوئی بوجھ نہیں اور نہ ہی اس کے رستے میں کسی مایوسی کی گنجائش ہے۔ وہ ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ہے جس کے لیے سوشلزم کے علاوہ کوئی رستہ نہیں۔
انقلاب روس کی ایک صدی بعد پھر دنیا سرمایہ دارنہ نظام کے منافعوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے اور اس سے نجات صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی دلا سکتا ہے۔ اس اہم موقع پر سرمایہ داری کے دلال تجزیہ نگار اورکرائے کے دانشور اس عظیم انقلاب کے خلاف زہریلا پراپیگنڈازیادہ شدت سے اگلیں گے کیونکہ خود انہیں یہ نظام ٹوٹتا اور بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس موقع پر مارکس وادیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے اس اہم ترین واقع اور اس کی حاصلات کا بھرپور دفاع کریں اور انقلابی سوشلزم کے نظریات نوجوانوں اور محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں تک لے کر جائیں۔ اسی صورت میں یہاں بالشویک پارٹی کی طرز پر ایک ایسی پارٹی تعمیر کی جا سکتی ہے جو محنت کش طبقے کی جدوجہد میں شامل ہو کرکلیدی کردار ادا کرے اور یہاں سرمایہ داری کے فیصلہ کن انجام کا اعلان کرتے ہوئے سرخ سویرا طلوع کرے۔
ہم ہوں گے کامیاب!