|تحریر: آدم پال|
21 جنوری 2024ء کو عظیم انقلابی لینن کے انتقال کو ایک صدی بیت چکی ہے۔ ایک عہد ساز شخصیت جس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا اور پوری دنیا کو ایک نئی روشنی، ایک نئے جذبے اور ایک نئی سوچ سے روشناس کروایا۔ لینن کی وفات کے ایک صدی بعد بھی اس کے نظریات، اس کی جدوجہد اور اس کا انقلابی طریقہ کار پوری دنیا کے محنت کشوں کے لیے مشعل راہ ہے اور اس کے رستے پر چلتے ہوئے آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
پوری دنیا میں محنت کش طبقے کے لیے آج اس کے نظریات اور جدوجہد کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی سرمایہ دارطبقہ اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ تیز کرتا جا رہا ہے تاکہ اس عظیم انقلابی کے تشخص کو مسخ کیا جاسکے۔ آج بھی پوری دنیا کا سرمایہ دار طبقہ اور سامراجی طاقتیں جس شخص سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں وہ لینن ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لینن کے خلاف پوری دنیا کے تعلیمی اداروں، میڈیا اور کتابوں میں جب بھی ذکر ملے گا وہ اس کی کردار کشی پر مبنی ہی ہوگا اور اسے جھوٹ بولتے ہوئے ایک خونی ڈکٹیٹر، ایک آمر اور ایک جمہوریت کے دشمن شخص کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اسی طرح اس کے ساتھ جھوٹ پر مبنی قصے کہانیاں جوڑ دی جائیں گی اور لاکھوں لوگوں کا قتل بالکل غلط طور پر اس کے سر تھوپ دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب روس کو بھی مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ دنیا بھر کے محنت کش اور مظلوم طبقات اس سے جذبہ اور جوش نہ حاصل کر سکیں اور اسی رستے پر دوبارہ نہ چل سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں کے گماشتہ دانشوروں اور تاریخ دانوں کی جانب سے لینن کی زندگی بھر کی جدوجہد، اس کی قربانیوں اس کی نظریاتی پختگی اور زار روس جیسی بد ترین جابر ریاست کے خلاف لڑائی کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور اس کی انقلابی قیادت کو انتہائی بھونڈے انداز میں ایک سازش قرار دے کر نت نئی کہانیاں تیار کی جائیں گی جن سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ لینن نے انقلاب روس کی قیادت اور سوویت یونین کی سربراہی ایک طویل صبر آزما جدوجہد کے بعد نہیں بلکہ اچانک کسی سازش اور سامراجی طاقت کی پشت پناہی سے حاصل کی تھی۔
اسی طرح بیسویں صدی کی انتہائی عوام دشمن شخصیات کو لینن کے مقابلے میں زیادہ بڑا بنا کر پیش کیے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور سامراجی طاقتوں کے سربراہوں سے لے کر سرمایہ دار طبقے کے مختلف گماشتوں کو صدی کے عظیم ترین افراد بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ان کی حقیقت انتہائی غلیظ اور عوام دشمن ہے۔ کسی بھی ملک کے بانی کا موازنہ لینن کے ساتھ کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر یا کسی ملک کی تحریکِ آزادی کے لیڈر کا موازنہ اگر لینن سے کیا جائے تو اس میں لینن اور اس لیڈر میں مشترکہ خصوصیات تلاش کرکے ان سے تقابلی جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب انتہائی بھونڈے طریقہ کار ہیں اور لینن کا موازنہ بیسویں صدی کے کسی بھی دوسرے لیڈر سے ان بنیادوں پر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ لینن اور ٹراٹسکی کا موازنہ صرف تاریخ کے ان افراد سے کیا جا سکتا ہے جنہوں نے انقلاب کی قیادت کی اور تاریخ کا دھارا مکمل طو رپر تبدیل کر دیا۔ ان میں بھی لینن کا کردار ان سب سے الگ اور بلند نظر آتا ہے کیونکہ انقلاب روس تاریخ کا ایسا انقلاب تھا جس میں پہلی دفعہ امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور سماج کی اکثریت نے پہلی دفعہ ایک انقلاب کے ذریعے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ اس سے پہلے صرف1871ء میں پیرس کمیون میں کچھ مہینوں کے لیے یہ واقعات وقوع پذیر ہوئے تھے لیکن وہاں بھی بالشویک پارٹی اور لینن و ٹراٹسکی جیسی قیادت موجود نہیں تھی۔
اسی طرح انقلاب روس کے بعد دنیا بھر میں برپا ہونے والے انقلابوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں چین سے لے کر کیوبا تک درجنوں ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا گیا اور منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا گیا۔ لیکن ان تمام انقلابات کے لیے انقلاب روس اور بالشویک پارٹی کی مثال پہلے سے موجود تھی اور اس کے باوجود انقلاب روس معیاری طور پر ان سب سے بلند بھی تھا۔ آئندہ بھی اکیسویں صدی میں جو انقلابات برپا ہوں گے ان کے لیے بھی 1917ء کے انقلاب روس کی مثال ایک مشعلِ راہ کے طور پر موجود رہے گی اور اس میں لینن کا قائدانہ کردار اور اس کے نقش قدم موجود رہیں گے۔ اسی لیے لینن کی شخصیت اور اس کی قیادت میں تعمیر ہونے والی انقلابی پارٹی کی تاریخی طور پر اپنی اہمیت ہے جسے بالکل بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
مارکس اور اینگلز کے کمیونسٹ نظریات پر ان کی زندگی میں ہی ایک عالمی مزدور تنظیم کی تعمیر کا آغاز ہو گیا تھا اور اس کے تحت دنیا کے بہت سے ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں کی تعمیر کا کام بھی شروع ہو چکا تھا۔ اس تمام جدوجہد میں مارکس اور اینگلز براہ راست دلچسپی بھی لیتے تھے اور اس کی راہنمائی بھی کرتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی تحریروں کے تراجم بھی دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوتے تھے جن میں روسی زبان بھی شامل تھی۔ لیکن آغاز میں مارکس اور اینگلز کے نظریات کی پہنچ انقلابیوں کی چھوٹی پرتوں تک محدود تھی۔ لینن اور اس کی بالشویک پارٹی کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ان نظریات کو عملی جامہ پہنایا اور ان کا نہ صرف روس کے حالات کے مطابق جائزہ لیا بلکہ انقلابی جدوجہد میں انہیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک انقلابی پارٹی تعمیر کی۔اس انقلابی پارٹی نے جب ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا کیا اور وہاں پر ایک مزدور ریاست تعمیر کر کے دکھائی تو یہ نظریات پوری دنیا کے محنت کش طبقے تک تیزی سے پہنچے اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں پوری دنیا میں لرزنے لگیں۔
سوویت یونین کا قیام اور دنیا کی تمام سامراجی طاقتوں کی مخالفت اور دشمنی کے باوجود اس کا مستحکم ہو جانا اور پورے سماج کو ترقی کے نئے رستے پر گامزن کر دینا تاریخ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔امیر اور غریب کی تقسیم کے بغیر سماج کو چلایا جا سکتا ہے، اس کو ترقی دی جا سکتی ہے اور لوگ ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ سب سوچنا ہی ناممکن لگتا ہے اور ایسا کوئی خیال سامنے آئے تو لوگ اسے ہنس کر ایک یوٹوپیا قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے بعد یہ خیال ایک حقیقت میں تبدیل ہوگیا اور اس کرۂ ارض پر ایک ایسا سماج تخلیق ہوا جس میں بھوک اور بیماری کا مستقل خاتمہ ہوگیا، بے روزگاری قصہ پارینہ بن گئی، ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان مزدور ریاست کی جانب سے دیا گیا۔ علاج اور تعلیم کو ہر شخص کے لیے مکمل طور پر مفت قرار دے دیا گیا۔ خواتین کو صنفی جبر سے نجات ملی اور مظلوم قومیتوں پر قومی جبر کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا اور انہیں آزادی نصیب ہوئی۔ یہ سب سوچنا آج کے عہد میں ایک جرم قرار دے دیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بیوقوفانہ خیال ہے اور اسے سوچنا ہی نہیں چاہیے۔ بلکہ صرف اگلی دیہاڑی کے بارے میں سوچنا چاہیے، سرمایہ داروں سے اپنی اگلی اجرت وصول کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے اور اس امیر اور غریب پر مبنی نظام کو ختم کرنے کے متعلق غور و فکر ہی نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب لینن کی شخصیت کا ذکر آئے گا تو یہ خیال بھی ساتھ ہی آئے گا کہ اس نظام کو اکھاڑا جا سکتا ہے، امیر اور غریب پر مبنی نظام ختم کیا جا سکتا ہے اور دنیا سے بھوک، بیماری اور غربت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے حکمران طبقات لینن کی شخصیت کو مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور سوویت یونین کی یاد اجتماعی حافظے سے ہی کھرچ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر مزدور تحریک میں ایسے خیالات اور سوچیں پروان چڑھائی جاتی ہیں جس میں مزدوروں کو صرف فوری معاشی مطالبات تک ہی محدود رکھا جائے اور انہیں انقلابی نظریات اور ماضی کی انقلابی حاصلات سے لاعلم رکھا جائے۔ اسی لیے آج کے انقلابیوں کا فریضہ بن جاتا ہے کہ لینن کے نظریات اور اس کی جدوجہد کو مزدور طبقے تک نہ صرف لے کر جائے بلکہ ان کے گرد ان مزدوروں کو منظم کرتے ہوئے اسی طرز کی انقلابی پارٹی تعمیر کریں جیسی انقلابی پارٹی لینن نے بالشویک پارٹی کی شکل میں تعمیر کی تھی۔
سٹالنزم اور لینن کی شخصیت
لینن کی شخصیت اور جدوجہد کے ساتھ ایک دوسرا جرم اس کے نام نہاد ماننے والوں نے بھی کیا۔ لینن کی عظمت اور اس کے تاریخی کردار کی گردان کرتے ہوئے اس کے بہت سے نام لیوا درحقیقت اس کے نظریات سے انحراف کرتے چلے گئے اور اس کے انقلابی طریقہ کار کو ترک کر دیا۔ لینن کی وفات کے بعد سوویت یونین میں بیوروکریسی کی پرت ابھرنا شروع ہو گئی جو روس کے محنت کشوں میں لینن کی محبت اور عزت کو فوری طور پر نکال نہیں سکتی تھی اور نہ ہی لینن کے تعمیر کردہ سوویت یونین میں مزدور طبقے کو ملنے والی حاصلات واپس لے سکتی تھی۔ لیکن انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کر دی اور لینن کے نظریات سے بتدریج انحراف شروع کر دیا۔ سٹالن کی قیادت میں برپا ہونے والے سیاسی رد انقلاب نے درحقیقت سوویت یونین کے انہدام کے عمل کا آغاز کر دیا۔ سٹالن کی قیادت میں بیوروکریسی نے عالمی سوشلسٹ انقلاب کے نظریات کی جگہ ”ایک ملک میں سوشلزم“ جیسے غیر مارکسی نظریات کو اپنا لیا اور اسی طرح ”مرحلہ وار انقلاب“ کے غلط نظریے کے تحت دنیا کی بہت سی انقلابی تحریکوں کو سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس تمام عمل میں انہوں نے لبادہ مارکسزم اور لینن ازم کا ہی اوڑھ کر رکھا اور دنیا بھر کی مزدور تحریک کے سامنے خود کو لینن کے نام لیواؤں کے طور پر ہی پیش کیا۔
اس حوالے سے لینن کی شخصیت اور جدوجہد کا جو خاکہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا اس میں بھی جہاں انتہائی غیر ضروری مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے لینن کو ایسے کردار کے طور پر پیش کیا جو عام انسانوں سے بالکل مختلف تھا اور جو بچپن سے لے کر جوانی تک غلطیوں سے پاک رہا اور ہمیشہ کامیابیاں سمیٹتا ہوا انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے امر ہو گیا۔ اس تمام کہانی میں لینن کی جدوجہد کے سائنسی طریقہ کار کو فراموش کر دیا گیا اور اس کے مارکسزم کے نظریات کے گہرے مطالعے اور اس سے اہم نتائج اخذ کرتے ہوئے ان کو روس کے حالات کے مطابق عملی جامہ پہنانے کے عمل کا ذکر ہی ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح لینن نے کس طرح جدلیاتی طریقہ کار سے اپنی عملی سرگرمی کے دوران مختلف اسباق حاصل کیے اور ان سے سیکھتے ہوئے پہلے سے بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا اس عمل کو کاٹ کر ایک یکطرفہ مارچ بنا دیا گیا جو آغاز سے انجام تک صرف کامیابیوں پر ہی مبنی تھا۔ درحقیقت اس میں سے اس کا انقلابی جوہر نکال دیا گیا جس کے بعد لینن کی شخصیت کا بے جان بت بنا کر دنیا بھر کے مزدوروں کے سامنے پیش کیا گیا جس کی پرستش تو کی جاتی رہی لیکن اس سے عملی طور پر سیکھتے ہوئے مزدور تحریک کو موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق آگے نہ بڑھایا جا سکا۔
ایک سچا کمیونسٹ جب بھی تاریخ کی کسی عظیم شخصیت یا انقلاب کے بارے میں رائے دیتا ہے تو اس شخصیت یا انقلاب کی کمیوں اور کوتاہیوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی شخصیت یا انقلابی عمل غلطیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک سائنسی طریقہ کار پر عمل کرنے والا لیڈر کیسے ان مشکلات پر قابو پاتا ہے اور کیسے ان کوتاہیوں کے باوجود یا ان پر عبور حاصل کرتا ہوا کامیابی حاصل کرتا ہے۔ یہی تاریخ کا اہم سبق ہے اور یہی آنے والی نسلوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان سے سیکھتے ہوئے آنے والی جدوجہدوں کو منظم کیا جا سکے۔ لیکن لینن کے ان نام لیواؤں نے اس تاریخی فریضے سے انحراف کیا اور لینن کاایک ایسا خاکہ تخلیق کیا جو حقیقت سے بہت دور تھا۔ اس حوالے سے لینن کی شخصیت اور اس کی جدوجہد کو جاننے کے لیے ان دونوں انتہاؤں سے بچنے کی ضرورت ہے اور سرمایہ دار طبقے کے زہریلے حملوں کے ساتھ ساتھ اس کے نام نہاد سٹالنسٹ نام لیواؤں سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایک صدی بعد بھی لینن کے نظریات کی اہمیت
1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد کمیونزم کے انقلابی نظریات کے خلاف حملوں میں شدت آ گئی تھی اور کمیونزم کا نام لینے والے بہت سے لوگ بھی اس کے خلاف بر سرپیکار ہو گئے تھے۔ ایسے میں جہاں کمیونزم اور مارکسزم کو رد کرنے کی کوششیں تیز ہو گئیں وہاں لینن کی شخصیت کے خلاف ہرزہ رسانی کرنا بھی آسان ہو گیا۔ اس دوران انقلاب روس کے تاریخی واقعے کو ہی غلط قرار دینے کی کوششیں کی گئیں اور کہا گیا کہ لینن اور ٹراٹسکی کا انقلاب کرنے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ اس حوالے سے عالمی مارکسی رجحان نے ٹیڈ گرانٹ کی قیادت میں جہاں سوویت یونین کی حاصلات کا مکمل دفاع کیا وہاں انقلاب روس کی عظمت اور تاریخی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے رہے۔ اس دوران سوویت یونین کے انہدام کی سائنسی توضیحات پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ اس انہدام کی وجہ سوشلزم یا مارکسزم کے نظریات نہیں بلکہ سٹالنزم کی غداری ہے اور لینن کو اس مسخ شدہ مزدور ریاست کا الزام دینا بالکل غلط ہے۔ لیکن اس کے باوجود سوویت یونین کے انہدام کا ملبہ جہاں سرمایہ دار طبقہ اور سامراجی طاقتیں لینن پر ڈالتی رہیں وہاں نام نہاد بائیں بازو کے بہت سے لوگ بھی لینن کی شخصیت کو مسخ کرنے کے در پے ہو گئے۔
اس حوالے سے لینن کے نظریات، اس کی پارٹی کی تعمیر کے طریقہ کار، جمہوری مرکزیت اور دیگر امور پر بہت سے اعتراض اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ آج کے عہد میں لینن کی ضرورت ختم ہو چکی ہے۔ لیکن وقت اور حالات نے ان تمام نام نہاد نظریہ دانوں کو غلط ثابت کر دیا اور لینن کا طریقہ کار، اس کی جدوجہد اور اس کے نظریات آج بھی زندہ ہیں اور پوری دنیا میں نوجوانوں کی ایک نئی نسل تیزی سے ان نظریات کی جانب راغب ہو رہی ہے۔
لینن کو سٹالنزم کے آمرانہ طرز حکومت سے نتھی کرنے میں جہاں سرمایہ دار طاقتیں اور ان کے گماشتے پیش پیش رہے وہاں سٹالنزم نے بھی اپنے اس مجرمانہ فعل کو لینن ازم کا تسلسل قرار دے کر لینن کے جمہوریت پسند کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ لینن ساری زندگی جمہوریت کا علمبردار رہا اور مشکل ترین حالات میں بھی پارٹی اور مزدور ریاست کے تمام فیصلے انتہائی جمہوری انداز میں کرنے پر کاربند رہا۔ خواہ عالمی جنگ چل رہی ہو یا پھر ملک میں خانہ جنگی ہو، انقلاب کے دن فیصلہ کن کاروائی کرنی ہو یا پھر سامراجی طاقتوں کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ تمام مراحل پر لینن نے پارٹی میں جمہوری انداز میں بحثوں کے نتیجے میں فیصلے لیے اور اپنی سیاسی اور نظریاتی اتھارٹی کے ساتھ پورے ادارے کو قائل کرتے ہوئے عملی سرگرمی کی جانب بڑھا۔
درحقیقت انقلاب روس کو اس کے دشمن اکثر ایک سازش یا پھر ایک خفیہ واردات بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ درحقیقت اس انقلاب میں روس کے لاکھوں محنت کش براہ راست شریک تھے اور یہ تاریخ کا سب سے جمہوری انداز میں برپا ہونے والا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کے دوران ابھرنے والی کمیٹیاں جنہیں سوویت کا نام دیا گیا تھا انتہائی جمہوری انداز میں تمام فیصلے کرتی تھیں جس میں تمام لوگوں کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا۔ یہ سوویتیں مزدوروں کے علاوہ کسانوں، سپاہیوں اور دیگر شعبوں میں بھی پھیل گئی تھیں اور ہر سوویت میں شامل افراد انتہائی جمہوری انداز میں فیصلہ کر کے عملی جامہ پہناتے تھے۔ انقلاب روس میں لینن نے یہی نعرہ دیا تھا کہ اقتدار مکمل طور پر انہی سوویتوں کے حوالے کیا جائے۔ ان مقامی سوویتوں نے روس میں ملکی سطح پر نمائندے منتخب کر کے ایک اجلاس کا انعقاد کیا جسے روسی سوویتوں کی دوسری کانگریس قرار دیا گیا تھا۔ اس کانگریس میں بالشویک پارٹی کے سیاسی پروگرام کو بحث کے بعد واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی جس کے بعد اس ملک کا اقتدار بالشویک پارٹی کے حصے میں آیا تھا۔ اس حوالے سے یہ مکمل طور پر ایک جمہوری اور انتخابی عمل تھا جس میں لاکھوں لوگ براہ راست شریک تھے۔اس کے بعد بھی سوویتوں کے اجلاس باقاعدگی سے جاری رہے اور انتخابی عمل انتہائی جمہوری انداز میں آگے بڑھتا رہا۔
اسی طرح لینن کی اپنی پارٹی میں بھی جمہوری مرکزیت کے تحت تمام قیادت باقاعدگی سے منتخب ہوتی رہی اور تمام فیصلے سنجیدہ بحثوں کے بعد جمہوری انداز میں ہی لیے جاتے رہے۔ اس حوالے سے پارٹی کی کانگریسیں اور مرکزی کمیٹی کے اجلاس بھی باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے جن کی تمام تفاصیل تاریخ میں محفوظ ہیں۔ اس سب کے بعد لینن کو ایک آمر یا ڈکٹیٹر یا جمہوریت کا مخالف بنا کر پیش کرنا ایک بہت بڑا جھوٹ اور غلاظت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
لینن کی آخری جدوجہد
لینن کی وفات کے بعد سٹالن نے اس مزدور جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے عمل کا آغاز کیا اور سامراجی جنگ کے دوران لینن کی قیادت میں سوویت یونین میں جو عارضی طور پابندیاں عائد کی گئی تھیں انہیں مستقل کر دیا گیا۔ اس عمل میں سوویت یونین کے بنیادی نظریات سے انحراف کیا گیا جس کے متعلق لینن نے کہا تھا کہ مزدور ریاست کے لیے جمہوریت ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے آکسیجن۔ لینن اپنی زندگی کے آخری سالوں میں سوویت یونین میں ابھرنے والی بیوروکریسی کے خلاف لڑتا رہا اور سٹالن کی قیادت پر شدید اعتراض اٹھاتا رہا تاکہ اس مزدور ریاست میں لگنے والی اس دیمک کا صفایا کرسکے اور اسے دوبارہ درست نظریات اور صحت مند بنیادوں پر استوار کرسکے لیکن زندگی نے اسے مہلت نہ دی اور سٹالن نے اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے لینن کے تمام احکامات کو پس پشت ڈال دیا۔
اس حوالے سے لینن کی آخری وصیت اور اس کی زندگی کے آخری سال میں کی جانے والی خط و کتابت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس خط و کتابت میں لینن واضح طور پر سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے عمل کی تشخیص کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے خلاف عملی طور پر سرگرم دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے لینن ٹراٹسکی کے ساتھ مل کر اس کے خلاف لڑنے کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ لیکن سٹالن اور اس کے حواریوں نے لینن کی بیماری اور پھر اس کی وفات کو اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے استعمال کیا اور لینن کی ہدایات کو منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا اور اس طرح یہ دھڑا مزدور ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا گیا۔ ٹراٹسکی نے اس زوال پذیری کے خلاف بھرپور جدوجہد کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس دوران سٹالن نے لینن کی پارٹی کے وفادار ساتھیوں کو بتدریج قتل کروانا شروع کر دیا اور مزدور ریاست کی زوال پذیری کے عمل کا آغاز ہو گیا جس کا انجام سوویت یونین کے انہدام تک پہنچا۔
لینن بطور سوویت یونین کے سربراہ
انقلاب روس کے بعد جب مزدور ریاست کی تعمیر کا عملی طور پر آغاز ہوا تو لینن کو اس کا قائد منتخب کیا گیا۔ اس حوالے سے لینن کا کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور تاریخ میں ایسے کردار کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انقلاب کے نعرے لگانے والے یا اس کی جدوجہد کرنے والے لوگ خیالی دنیا میں رہتے ہیں اور ان کے پاس اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ لیکن انقلاب روس کے بعد ہمیں یہ تمام خیالات رد ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک مزدور ریاست کی تعمیر کا عمل سائنسی انداز میں آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس عمل میں جہاں امیر اور غریب کی تقسیم ختم کر کے ایک نئی مزدور ریاست تعمیر کرنے کا آغاز نظر آتا ہے وہاں اخلاقی، سیاسی، سماجی اور تاریخی لحاظ سے ہر پہلو میں اس عمل کی عظمت اور برتری واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس تمام عمل کے خلاف دنیا بھر کے حکمران طبقات کا زہریلا پراپیگنڈہ اس وقت سے لے کر آج تک جاری ہے لیکن اس کے باوجود اس تمام عمل میں کسی بھی حوالے سے کوئی ایسا پہلو تلاش نہیں کیا جا سکا جس سے اس کی عظمت کو داغ لگایا جا سکے۔
اسی طرح بہت سے انقلابات برپا ہونے کے بعد مشکلات کا شکار ہوئے اور ان کی قیادتوں نے مخالف طبقات یا طاقتوں سے مفاہمت کر کے اس عمل کو بچانے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے دشمنوں کے حملوں، جنگوں، قحط سالی اور دیگر مشکلات کا ذکر کر کے اس مفاہمت اور زوال پذیری کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انقلابی تحریک کے دوران کیے گئے بہت سے وعدوں سے انحراف کا جواز بھی انہی مشکلات کو ہی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عوام کے مفادکے لیے انقلابی قیادتوں کو ایسی مفاہمتیں کرنی پڑتی ہیں۔
لیکن انقلاب روس کی قیادت کرنے والوں کی مشکلات اور مصائب کو دیکھیں تو شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ تھا جو انہیں درپیش نہیں تھا لیکن اس کے باوجود بھی انقلاب کے مقاصد اور اس کے عزائم پر ذرہ برابر بھی کمپرومائز نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے بعد اس دوران کیے گئے تمام وعدوں کو عملی جامہ پہنایا گیا اور سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا جس کا عملی تجربہ پہلے سے ان کے پاس موجود نہیں تھا۔
انقلاب روس کی کامیابی کے بعد اکیس ممالک نے مختلف اطراف سے روس پر حملہ کر دیا اور اس نوازئیدہ مزدور ریاست کا قلع قمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسی طرح ملک کے اندر مزدور دشمن طاقتوں نے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا اور انقلاب کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ اسی طرح قحط سالی اور شدید معاشی مشکلات کا بھی انقلابی قیادت کو سامنا کرنا پڑا جبکہ ان کے پاس عوام کی حمایت کے علاوہ کوئی دوسری طاقت موجود نہیں تھی۔ اس تمام عمل میں سوویت یونین کے سربراہ کی حیثیت سے لینن کا کردار تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کردار نظر آتا ہے۔ ان تمام طوفانی حالات میں بھی وہ اپنے نظریات اور اپنے سائنسی طریقہ کار پر ڈٹا رہا اور انہی نظریات کے تحت انقلاب اور مزدور ریاست کو تمام مشکلات سے نکالتا چلا گیا۔ اس نے دنیا بھر کے محنت کشوں سے اس انقلاب کے دفاع کی اپیل کی اور کہا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے حکمران طبقات کے خلاف ہڑتالوں اور انقلابی تحریکوں کا آغاز کریں تا کہ اس انقلاب کا دفاع کیا جا سکے۔ اسی طرح ٹراٹسکی کی قیادت میں سرخ فوج کے قیام نے بھی انقلاب کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔
اس دوران تمام تر مشکلات کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نجی ملکیت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا۔ تمام صنعتیں، ذرائع پیداوار مزدوروں کی اجتماعی ملکیت میں دے دی گئیں اور مزدور جمہوریت کا آغاز کر دیا گیا۔ زمینیں جاگیرداروں سے لے کر کسانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ جنگ کو ختم کرنے کے وعدے پر پوری طرح عمل درآمد کا آغاز کر دیا گیا اور جرمنی سمیت دشمن ممالک سے مذاکرات اور امن معاہدوں کی جانب پیش رفت کا آغاز کیا گیا۔ ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان دینے کے وعدے پر بھی عملی طور پر آغاز ہوا اور منڈی کی معیشت کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ تمام بینک، مالیاتی کمپنیاں، بیرونی تجارت اور معیشت کے دیگر کلیدی شعبے مزدور ریاست کے جمہوری کنٹرول میں لے لیے گئے۔ منصوبہ بند معیشت کی بنیادیں استوار کرنے کا آغاز کیا گیا۔ مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت دیے جانے کے سمیت ہر طرح کے قومی جبر کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے اہم قوانین تشکیل دیے گئے جس سے طلاق کے حق سمیت دیگر حقوق بھی وہ بآسانی حاصل کر سکتی تھیں۔علاج اور تعلیم کی مفت فراہمی سے لے کر مزدور طبقے کی حاکمیت کو عملی شکل دینے تک ہر اقدام انقلاب کے دوران یا اس سے قبل کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا۔ دشمن طبقات یا طاقتوں سے کسی بھی قسم کی مفاہمت یا رعایت کے بارے میں سوچنا بھی جرم تھا۔
اسی طرح لینن نے ذاتی حیثیت میں کسی بھی قسم کی مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا اور پہلے کی طرح ایک انقلابی کی طرح انتہائی مشکل معاشی حالات کے تحت ہی اپنی ذاتی زندگی کو جاری رکھا۔ انقلاب کے بعد مزدور ریاست کے سربراہ کی حیثیت کے باوجود بھی اس نے کسی بھی قسم کا پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا۔ ایک مزدور کی اجرت کے برابر تنخواہ لینا، لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنا، انتہائی خستہ حال فرنیچر کو استعمال کرنا اور ایک مزدور کو ملنے والا کھانا اور لباس ہی استعمال کرنا خود لینن کے کردار کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ یہ عمل اقتدار کے بعد کے تمام سالوں تک جاری رہا اور دنیا میں کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کے بہت سے دشمن بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔یہ تمام عمل لینن کے نظریات کی سچائی اور اس کے کردار کی بڑائی کا ثبوت بھی دیتے ہیں جو ہمیں اس کے بہت سے نام لیواؤں میں دور دور تک بھی نظر نہیں آتے۔
کمیونسٹ انٹرنیشنل کا قیام
لینن کے نظریات کی بنیاد ہی انٹرنیشنلزم ہے اور مارکسزم میں سے اگر انٹرنیشنلزم نکال دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کو انہوں نے روس کے محنت کشوں کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں کا انقلاب قرار دیا۔ اسی لیے اس انقلاب کے تحفظ کے لیے بھی پوری دنیا کے محنت کشوں سے اپیل کی۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ انقلابی لیڈر اپنے ملک یا مخصوص جغرافیے تک ہی خود کو محدود کر لیتے ہیں اور انقلاب کی کوششوں کو بھی اس مخصوص خطے تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرمایہ داری کے عالمگیر نظام کی موجودگی میں یہ ایک فاش غلطی بھی بن جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مارکس اور اینگلز نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجا کرنے کا نعرہ لگایا۔ لینن بھی اسی نظریے پر پختہ یقین رکھتا تھا اور اس کے لیے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی منزل ہی اس کی جدوجہد کی حتمی منزل تھی۔ اسی لیے لینن اپنی جدوجہد کے آغاز سے ہی انٹرنیشنل مزدور تحریک کے ساتھ نہ صرف وابستہ رہا بلکہ اس میں سرگرمی سے حصہ لیتا رہا۔ بالشویک پارٹی دوسری انٹرنیشنل کا باقاعدہ حصہ تھی اور عالمی مزدور تحریک سے نہ صرف اہم اسباق حاصل کرتی تھی بلکہ ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ضروری تنقید بھی کرتی تھی۔ خاص طور پر پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر دوسری انٹرنیشنل کی قیادت نے جب کاؤتسکی کے زیر اثر غداری کی تو لینن نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور دنیا بھر میں بچ جانے والے چند انٹرنیشنلسٹوں کے ساتھ مل کر سوئٹزرلینڈ کے ایک قصبے زیمروالڈ میں ایک کانفرنس کے انعقادکو بھی یقینی بنایا۔
یہی جذبہ اور تحرک ہمیں روس کے سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی نظر آتا ہے۔ روس جیسے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں انقلاب کرنے کے بعد بھی لینن نے اس عالمگیریت کے نظریے کو ترک نہیں کیا اور نہ ہی روس میں انقلاب کو درپیش شدید ترین مشکلات کے باوجود عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو پس پشت ڈال دیا۔ بلکہ لینن نے ٹراٹسکی کے ساتھ مل کر فوری طور پر کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور روس میں جاری خانہ جنگی اور معاشی بحرانوں کے باوجود اس کے ہر سال باقاعدگی سے اجلاس منعقد کروائے۔
مارچ 1919ء میں اس کا تاسیسی اجلاس منعقد کروایا گیا جس میں دنیا بھر سے 34 پارٹیوں کے مندوبین نے شرکت کی۔اسی طرح 1920ء میں دوسری، 1921ء میں تیسری اور 1922ء میں چوتھی ورلڈ کانگریس منعقد کروائی گئی۔ لینن کی وفات کے بعد یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا اور بعد ازاں سٹالن نے اس عظیم الشان ادارے کو معطل کر دیا اور بالآخر دوسری عالمی جنگ کے موقع پر اس کو باقاعدہ تحلیل کر کے اقوام متحدہ کے ادارے کی بنیاد رکھنے میں شامل ہو گیا۔لینن کی زندگی میں کمیونسٹ انٹرنیشنل عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ہروال دستے کی شکل اختیار کر گئی اور اس کے تحت پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں انتہائی تیزی سے عوامی حمایت حاصل کرتی چلی گئیں۔ اس حوالے سے بہت سے ممالک میں انقلاب کو کامیاب کرنے کے مواقع بھی ابھرے جبکہ عالمی سطح پر قومی آزادی کی تحریکوں کو بھی ایک نیا جوش اور ولولہ ملا۔ عالمی مزدور تحریک کے اس قیمتی اثاثے کے پہلے پانچ سال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے اجلاسوں میں ہونے والی بحثیں، تقریریں اور پاس ہونے والی قراردادیں آج بھی انقلابیوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور ان سے سیکھنے کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔
تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی انقلابی لیڈر ہو جس نے کسی ایک ملک میں انقلاب برپا کرنے کے بعد اسے پوری دنیا میں پھیلانے کے حوالے سے عملی جدوجہد منظم کی ہو اور اس حوالے سے انتہائی کامیابی سے کومنٹرن جیسا ادارہ تخلیق کیا ہو۔ یہ اعزاز بھی تاریخ میں ہمیں لینن اور ٹراٹسکی کو ملتا ہی نظر آتا ہے۔ عام طور پر لیڈر انقلاب کو روکنے کی کوششیں کرتے ہی نظر آتے ہیں جبکہ زیادہ تر انقلابات کی کامیابی کی وجہ عوام کا موجود نظام کے خلاف شدید غم و غصہ ہوتا ہے جو اس انقلاب کی حادثاتی قیادتوں کو دھکیلتا ہوا انقلاب کو کامیاب کرنے کی جانب لے جاتا ہے۔ ایسے میں تاریخ کے تمام تر انقلابی لیڈر انقلاب کو آگے لے جانے کی بجائے معروضی حالات اور اس انقلابی ریلے کے رحم و کرم پر موجود حادثاتی کردار ہی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک خطے میں جب وہ انقلابی تحریک عوام کی شاندار قربانیوں اور جوش و جذبے کے تحت جزوی کامیابی بھی حاصل کرتی ہے تو اس کے لیڈر فوری طور پر اس کو روکنے کے عمل کا آغاز کر دیتے ہیں اور اس عمل سے خود خوفزدہ ہو کر اسے محدود کرنے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے بہت سی جگہوں پر انقلاب کے لیڈر ہمیں انقلاب لانے والوں کے خلاف سب سے زیادہ حملے کرتے بھی نظر آتے ہیں تاکہ انقلابی تحریک اور جوش و جذبے کو کچلا جا سکے۔
لیکن یہاں پر ہمیں لینن اور ٹراٹسکی کا کردار انتہائی مختلف نظر آتا ہے۔ یہ لیڈر انقلاب کے دوران بھی سب سے زیادہ باشعور اور سب سے زیادہ جرات مند نظر آتے ہیں اور انقلاب کے ریلے میں بہنے کی بجائے اس کو ایک واضح رستہ اور منزل دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنی نظریاتی اور سیاسی سمجھ بوجھ کے ذریعے انقلاب کے کردار پر خود فیصلہ کن انداز میں ایک رائے ترتیب دیتے ہیں جو ان کی تحریروں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اور پھر اس نظریے کے تحت انقلابی قوتوں کو منظم کرتے ہوئے اور محنت کش طبقے کی قیادت کرتے ہوئے وہ منزل حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں جو عوام کی حمایت سے بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن یہاں پر بھی ان کا انقلابی جوش و جذبہ ماند نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ کسی بھی مقام پر انقلاب کی حاصلات کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ نظام کو مکمل اکھاڑے جانے کے پروگرام پر پوری قوت کے ساتھ عملدرآمد کرتے نظر آتے ہیں اور پھر اس انقلاب کو پوری دنیا میں پھیلانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور اس کے لیے عملی سرگرمی کا باقاعدہ آغاز کر دیتے ہیں۔ ایسی انقلابی شخصیات اور کردار تاریخ میں نظر نہیں آتی اور اس کی بنیاد پھر کوئی غیر انسانی یا معجزاتی طاقت یا غیر مرئی قوت نہیں بلکہ مارکسزم کا انقلابی نظریہ ہے جس پر یہ انقلابی پوری دیانت داری اور ایمانداری کے ساتھ کاربند رہے اور اس کے تحت نتائج اخذ کرتے ہوئے زندگی کی آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھی۔
انقلاب روس کی قیادت
لینن کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ انقلاب روس کی قیادت کرنا تھا۔ ایک ایسا انقلاب جس نے امیر اور غریب کی تقسیم کا خاتمہ کر دیا اور مزدور طبقے کی حاکمیت کا آغاز کیا۔ 1917ء کے انقلابی سال کے آغاز پر لینن جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا اور اسے لگتا تھا کہ شاید اس کی زندگی میں کبھی بھی روس میں انقلاب برپا نہ ہوسکے۔ لیکن اس سال کے تاریخی واقعات نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
فروری 1917ء میں روس کی عوام نے زار روس کی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور صدیوں سے موجود جابر ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ ایسے میں لینن نے انتہائی نا مساعد حالات میں جلا وطنی سے واپسی کا پروگرام بنایا اور جرمنی کے رستے واپس روس پہنچا۔ اس دوران اس نے اپریل تھیسس جیسی تاریخی دستاویز بھی لکھی جس میں روس میں انقلاب کے سوشلسٹ کردار کے حوالے سے اہم نتائج اخذ کیے۔ اپریل کے مہینے میں روس واپس پہنچ کر اکتوبر میں انقلاب کامیاب کرنے تک لینن کی زندگی کے تمام واقعات انتہائی اہم ہیں۔ اس دوران ایک نام نہاد عبوری حکومت روس میں قائم ہو جاتی ہے جو سرمایہ دار طبقے کی حاکمیت کو قائم رکھنے کی پوری کوششیں کرتی ہے اور زار روس کی ہی جابر ریاست کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھتی ہے۔ اس دوران سوویتیں بھی ایک متبادل ادارے کے طور پر آگے بڑھ رہی تھیں اور انقلاب اور رد انقلاب کی جدوجہد عروج پر تھی۔ ملک میں دوہرا اقتدار جنم لے چکا تھا اور مزدور طبقے کی قیادت منشویکوں کے پاس تھی جو مفاہمتی پالیسیوں پر گامزن تھے۔ اسی طرح بالشویک پارٹی کے اندر کچھ لوگ انقلاب کے سوشلسٹ کردار سے متفق نہیں تھے اور عبوری حکومت کا حصہ بننے کا درس بھی دے رہے تھے۔ ایسے میں لینن نے ٹراٹسکی کے ساتھ مل کر بالشویک پارٹی کی سمت کو درست کیا اور اسے سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل کو حاصل کرنے کی جانب بڑھنے پر قائل کیا۔ اسی طرح سوویتوں کے اجلاسوں میں بالشویکوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے درست نعرے اور سیاسی پروگرام تشکیل دیا۔
اس دوران عبوری حکومت میں موجود دشمنوں سے خود کو بچانے کے لیے روپوش ہونا اور اسی روپوشی سے ہی انقلاب کی فیصلہ کن لڑائی کی ہدایات دینا اور خط و کتابت کے ذریعے پارٹی کو تمام امور سرانجام دینے پر قائل کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انقلاب کے فیصلہ کن دن پر مسلح کاروائیوں کی ترتیب بنانا اور سوویتوں کے اجلاس میں اکثریت حاصل کرنے پر تاریخی اہمیت کے اعلانات کرنا۔ یہ سب آج کے انقلابیوں کے لیے انتہائی سبق آموز واقعات ہیں جن کا جتنا بھی مطالعہ کیا جائے کم ہے۔ اس دوران جولائی کے دنوں میں رد انقلابی قوتوں کے ابھار کے خلاف درست سیاسی حکمت عملی اپنانا اور انقلابی سرکشی کو اکتوبر تک مؤخر کرنے جیسے اہم اقدامات بھی شامل ہیں۔ ان تمام تاریخی واقعات میں لینن اور ٹراٹسکی کی قائدانہ صلاحیتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کس طرح عوام کی حمایت جیتتے ہوئے یہ انقلاب کامیاب کیا گیا جس کی ماضی میں مثال کہیں نہیں ملتی۔
انقلابی پارٹی کی تعمیر
1917ء کے تاریخی واقعات میں عملی طور پر سرگرم ہونے سے پہلے لینن اور روس کے دیگر انقلابی کئی دہائیوں سے ان واقعات کی تیاری کر رہے تھے۔ اس کے لیے نظریاتی اور سیاسی محاذ پر لڑائی لڑنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر ایسی نظریاتی قوت کی تعمیر بھی کر رہے تھے جو ان انقلابی واقعات میں ایک منظم انداز میں مداخلت کرتے ہوئے اسے کامیابی سے ہمکنار کر سکے۔ اس حوالے سے لینن کا بالشویک پارٹی کی تعمیر میں تاریخی کردار الگ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور آج بھی دنیا بھر کے انقلابی اس سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر کا عمل کبھی بھی سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھا اور نہ ہی یہ کسی غلطی اور کوتاہی کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے رہے اور کبھی اس پارٹی کے ممبران کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں تک جا پہنچی اور پھر حالات کے تھپیڑوں کے نتیجے میں دوبارہ درجنوں تک آگئی۔ اسی طرح اس کاروان میں شامل ہونے والے تمام افراد ہی آخری دن تک اس کا حصہ نہیں رہے۔ بلکہ اس پارٹی کو کئی دفعہ پھوٹ کا سامنا کرنا پڑا، کئی دفعہ ہم خیال قوتوں سے اتحاد بنانے کی کاوشیں کی گئیں اور کبھی تو انتہائی محدود قوتوں کے ساتھ انٹرنیشنل کی قیادت کے خلاف ہی لڑائی کا آغاز کرنا پڑا۔
اسی طرح اس سفر میں ریاستی جبر کا سامنا کرنا، جلا وطنی، جیلیں، پولیس کے تشدد، اخبار کی بندش یا پابندی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا ایک معمول سمجھا جاتا تھا اور لینن اور اس کے ساتھی اپنے انقلابی نظریے اور جذبے کے تحت ہی ان تمام مشکلات کو عبور کرتے رہے۔ انقلابی تحریک کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے سے لے کر ریاستی جبر کا سامنا کرنے تک کسی بھی ایک موقع پر انہوں نے اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا اور کبھی دشمن نظریات سے مفاہمت نہیں کی۔ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ اپنے نظریے پر ڈٹے رہے اور ہر طرح کے حالات میں انقلابی قوتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی طرح انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنے اخباروں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا اور جلاوطنی سے بھی اپنی تحریریں ان اخبارات کے ذریعے مزدور تحریک تک پہنچاتے رہے۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا اور مواصلات کا نظام آج کی نسبت بہت پسماندہ تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ انقلابی جذبے اور ولولے کے تحت اخبارات اور پمفلٹ شائع کر کے مزدوروں اور انقلابی نوجوانوں تک پہنچاتے رہے۔
اسی طرح پارٹی کے اجلاسوں کا انعقاد بھی باقاعدگی سے جاری رہا۔ پارٹی کی کانگریسوں، مرکزی کمیٹیوں کے اجلاس اور دیگر اداروں کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پہلی عالمی جنگ ہو یا زار روس کی جابر ریاست کی کاروائیاں لینن اور اس کے انقلابی ساتھیوں نے کبھی بھی ان مشکلات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔
1905ء کی انقلابی تحریک کی ناکامی کے بعد حالات کہیں زیادہ مشکل ہو گئے تھے۔ عمومی طور پر مایوسی پھیل رہی تھی اور بہت سے نوجوان انقلابی خود کشی جیسے عمل کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے۔ بہت سے کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا، لینن کو خود جلا وطنی اختیار کرنا پڑی اور پارٹی کی ممبر شپ میں تیزی سے کمی ہونے لگی۔ اس دوران جو لوگ لینن کے ساتھ رابطے میں رہ گئے تھے ان کی تعداد چند درجن رہ گئی تھی۔ یہ سب کچھ ایسے واقعات کے بعد ہو رہا تھا جب پورے روس کے محنت کش انقلابی بغاوت میں ابھر آئے تھے، زار روس کی حاکمیت کو چیلنج کیا گیا تھا، سوویتوں کے ادارے تخلیق ہو گئے تھے اور پیٹروگراڈ جیسے کلیدی شہر کی سوویت کا سربراہ ٹراٹسکی کو منتخب کر لیا گیا تھا۔ لیکن انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ انقلاب کامیاب نہیں ہو سکا تھا اور زوال پذیری میں چلا گیا تھا لیکن اس سب کے باوجود لینن نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں جلا وطنی میں جتا رہا۔ یہاں تک کہ 1912ء کے دوران دوبارہ سے مزدور تحریک کا احیا ہوا اور ہڑتالوں کے ایک بڑے سلسلے کا پھر سے آغاز ہوا۔ انقلابی نظریات کی رسائی دوبارہ لاکھوں مزدوورں تک ہونے لگی اور مزدور تحریک دوبارہ سے اٹھان لینے لگی۔ایسے میں لینن نے پارٹی کو واضح شکل دی بالشویک دھڑے کو باقاعدہ پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور اس کی الگ سے کانگریس منعقد کی اور اس تحریک میں واضح طور پر مداخلت کا آغاز کر دیا۔
اس دوران پہلی عالمی جنگ کے آغاز نے دوبارہ سے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ مزدوروں اور کسانوں پر حب الوطنی کے نظریات مسلط کیے گئے اور انہیں سرحد پر مرنے کے لیے بھیجنے کے عمل کا آغاز ہو گیا۔ اس دوران مزدور تحریک بھی پسپائی کا شکار ہونے لگی اور زار روس کی جابرانہ گرفت پھر سے مضبوط ہونے لگی۔ اس دوران دوسری انٹرنیشنل نے بھی کاؤتسکی کی قیادت میں غداری کر دی اور عالمی مزدور تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا۔ اس دوران بھی لینن نے پارٹی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور مشکل ترین حالات میں بھی انقلابی نظریات پر ڈٹا رہا۔
بالشویک اور منشویک کی پھوٹ
انقلابی پارٹی کی تعمیر کا ایک فیصلہ کن مرحلہ 1903ء میں آیا جب روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں پھوٹ کا آغاز ہوا اور یہ بالشویک اور منشویک نام کے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ بالشویک دھڑے کی قیادت لینن کر رہا تھا اور اس کا سب سے قریبی دوست اور جدوجہد کا ساتھی مارٹوف منشویکوں کی قیادت کر رہا تھا۔ لینن کا استاد پلیخانوف بھی بعد ازاں منشویکوں کے ساتھ شامل ہوگیا۔ یہ مرحلہ شاید لینن کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ بظاہر یہ پھوٹ انتہائی معمولی نکات پر ہوئی تھی اور پارٹی کے اکثر ممبران صحیح طور پر دونوں دھڑوں کے مؤقف کے فرق کو جان بھی نہیں پا رہے تھے۔ لیکن درحقیقت یہ انقلاب اور ردِ ِانقلاب کی لڑائی تھی جو 1917ء میں جا کر واضح ہوئی تھی۔ لیکن 1903ء میں یہ فرق صرف ایک بیج کی شکل میں ہی موجود تھا اور کوئی بھی اسے ٹھیک طریقے سے پہچان نہیں پا رہا تھا۔ اکثر لوگوں کے لیے یہ لیڈروں کی ذاتی لڑائی تھی لیکن لینن درست طور پر اس لڑائی کے جوہر کو جانتا تھا اور اس کے لیے یہ انقلاب کو کامیاب کرنے یا نہ کرنے کی لڑائی تھی۔
لینن چاہتا تھا کہ انقلابی پارٹی کو پروفیشنل بنیادوں پر منظم کیا جائے۔ اس کی ممبرشپ کی بنیاد واضح بنیادوں پر ہو اور کسی بھی قسم کے کنفیوزڈ عناصر کو ممبر شپ نہ دی جائے۔ جبکہ دوسری جانب ڈھیلی ڈھالی تنظیم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کا رجحان تھاتاکہ ہم خیال لوگوں کی زیادہ تعداد حاصل کی جا سکے خواہ وہ پوری طرح متفق نہ بھی ہوں۔ اسی طرح لینن نے پروفیشنل انقلابی کا خیال پیش کیا اور کہا کہ انقلابی پارٹی کی قیادت کرنے والوں کو اپنی تمام قوتیں اس پارٹی کی تعمیر کے لیے وقف کر دینی چاہیے اور اس کام کو ایک باقاعدہ پروفیشن کے طور پر اپنانا چاہیے۔ اسی طرح اس نے پارٹی کے مرکزی اخبار کے بطور آرگن (منتظم) کردار کی اہمیت پر بھی زور ڈالا۔ یہ تمام خیالات اس کی 1902ء کی اہم تصنیف ”کیا کیا جائے؟‘‘ میں موجود ہیں۔
انقلابی پارٹی کی تعمیر کے حوالے سے جمہوری مرکزیت کے اصول کو وضع کرنے کے حوالے سے بھی لینن کا تاریخی کردار ہے اور آج بھی انقلابی پارٹی تعمیر کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جمہوری مرکزیت کے اہم اصول کو اکثر سٹالن کے زیر اثر بیوروکریٹک مرکزیت کے طرز اقتدار سے گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے اور اس کا الزام بھی لینن کے سر تھونپ دیا جاتا ہے۔ لیکن لینن کے وضع کردہ جمہوری مرکزیت کے اصول کا سٹالنسٹ طرز حکومت اور آمریت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی لینن نے کبھی بھی بیوکرویٹک طرز کی حمایت کی تھی خواہ پارٹی میں ہو یا مزدور ریاست میں۔ اسی طرح جمہوری مرکزیت کو جامد اصول بنا کر بھی لینن کے متحرک اور جدلیاتی طریقہ کار سے رو گردانی کی جاتی ہے جس کا پھر لینن بالکل بھی ذمہ دار نہیں۔ لینن اس اصول کو جس طرح مختلف حالات میں بروئے کارلایا اس میتھڈ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کو اپناتے ہوئے اس اہم طریقہ کار کو پارٹی کی تعمیر کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اصول میں جہاں ممبران کے جمہوری فیصلوں کی اہمیت پوری طرح موجود ہے وہاں فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے مضبوط مرکز کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔
اسی طرح انقلابی پارٹی کے نمائندہ اخبار کا خاکہ بھی لینن کی پارٹی سے مستعار لیا جاتا ہے جبکہ مزدور تحریک میں مداخلت سے لے کر انقلابی واقعات میں شمولیت تک کے لیے ہمیں لینن کی تحریروں اور عملی سرگرمی سے راہنمائی ملتی ہے۔ مزدور تحریک میں مداخلت کے لیے پمفلٹ لکھنے کی روایت کو بھی لینن نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے ترویج دی۔ اس طرح کے بہت سے پہلو ہمیں اس سارے سفر میں نظر آتے ہیں جن کا ایلن ووڈز کی شاندار کتاب ”بالشویزم:راہِ انقلاب“ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
لینن کی نظریاتی بنیادیں
لینن کی تمام تر سیاسی جدوجہد کی بنیاد اس کے انقلابی نظریات تھے۔ انقلابی تحریک میں شمولیت کے وقت سے لے کر آخری سانس تک لینن مارکسزم کے انقلابی نظریات کے مطالعے اور ان سے اہم نتائج اخذ کے عمل میں سرگرم رہا۔ لینن جب انقلابی تحریک کا حصہ بنا تھا اس وقت روس میں نرودنک نقطہ نظر انقلابی نوجوانوں میں زیادہ مقبول تھا اور مارکسزم کے نظریات صرف چند لوگوں کے چھوٹے گروپوں تک ہی محدود تھے۔ لینن کا اپنا بھائی نرودنک نظریات کا پیروکار تھا اور اسی وجہ سے اس کو زار روس کی ریاست کی جانب سے سزائے موت بھی دی گئی تھی۔ نرودنک مسلح سرگرمیوں اور زار روس کو قتل کر کے اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن لینن جلد ہی ان کے طریقہ کار کی محدودیت کو جان گیا تھا۔ اس نے مارکسزم کے نظریات کا شوق سے مطالعہ شروع کیا اور ان کی درستگی پر اس کا یقین مستحکم ہوتا چلا گیا۔ اس نے جب انقلابی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو ساتھ ہی اپنے مطالعے کو جاری رکھا۔ اس دوران قید و بند کی صعوبتوں اور سائبریا میں جلا وطنی جیسے جبر کا بھی سامنا کیا لیکن داس کیپیٹل سمیت مارکسزم کی اہم تصانیف کا مطالعہ بھی جاری رکھا۔ اس دوران مارکسی فلسفے اور مارکسی معیشت کی بنیادی تحریروں کا مطالعہ بھی اہمیت کا حامل ہے جس کی بنیاد پر لینن نے روس کے نوزائیدہ سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیا۔ اس حوالے سے انیسویں صدی کی آخری دہائی میں لینن کی تصنیف اہمیت کی حامل ہے۔
اس کے بعد بھی مارکسزم پر معیشت پرستوں کے حملے ہوں یا پھر اس کی اپنی پارٹی میں سے خیالی پرستی اور تجربی تنقید جیسے رجعتی خیالات کا پرچار ہو لینن نے مارکسزم کی فلسفیانہ بنیادوں کا بھرپور دفاع کیا اور مارکسزم کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ 1907ء میں لکھی گئی اس کی تصنیف ”مادیت پسندی اور تجربی تنقید“ اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح پہلی عالمی جنگ کے دوران جلاوطنی کے دوران اس نے ہیگل کے فلسفے کا گہرائی میں مطالعہ کیا اور اس کی ”منطق کی سائنس“ کا نہ صرف دلچسپی سے مطالعہ کیا بلکہ اس کے نوٹس بھی بنائے۔ یہ نوٹس آج بھی ہیگل کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر ہیگل کے عینیت پرستانہ فلسفے کو مادی نقطہ نظر سے سمجھنے کے لیے یہ نوٹس انتہائی اہم ہیں۔ ہیگل کے فلسفے کو گہرائی میں سمجھنے کے بعد لینن نے مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف ”داس کیپیٹل“ کو بھی دوبارہ سمجھنے کی تلقین کی خاص طور پر اس کے پہلے باب کو۔
اسی طرح ”ریاست اور انقلاب“ اور ”سامراج: سرمایہ داری کی آخری منزل“ اس کی اہم تصنیفات ہیں جنہیں مارکسزم کے علمی خزانے میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جاتا ہے۔ بیسویں صدی میں سامراج کے ابھرتے کردار پر کاؤتسکی سمیت بہت سے بائیں بازو کے لیڈر کنفیوژن کا شکار تھے اور اس کی غلط تشریح پیش کر رہے تھے۔ ایسے میں لینن کی اس تصنیف نے مارکسزم کے نظریات کی بنیاد پر اس نئے مظہر کا ایک درست تجزیہ پیش کیا اور اس کے خلاف انقلابی جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی طرح ”ریاست اور انقلاب“ میں سرمایہ دارانہ ریاست کے حقیقی کردار کو بے نقاب کیا اور واضح کیا کہ مزدور طبقے کی نجات کا واحد رستہ اس ریاست کو اکھاڑ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
لینن کی مارکسی فلسفے پر مضبوط گرفت اور مارکسی معیشت اور تاریخی مادیت کے نظریات پر عبور کے باعث ہی اسے سوشلسٹ انقلاب کے مستقبل پر غیر متزلزل یقین حاصل ہوا۔ انہی نظریات کی بدولت وہ روس جیسے پسماندہ ملک میں بھی پرولتاریہ کی آمریت پر پختہ یقین رکھتا تھا اور اس کے لیے جدوجہد منظم کرتے ہوئے اس کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا۔ لینن کے نزدیک نظریات پر ذرہ برابر بھی مفاہمت کی گنجائش موجود نہیں تھی اور وہ نظریات سے معمولی سے بھی انحراف کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتا تھا اور نظریاتی دشمنی خواہ اس کے قریب ترین ساتھی بھی کرتے ان کو فوری طور پر اپنے سے کاٹ کر الگ کر دیا کرتا تھا۔لیکن دوسری طرف درست نظریات کی بدولت وہ کسی کے ساتھ بھی اتحاد بنانے پر یقین رکھتا تھا اور اسے انقلا ب کے سفر میں اپنا ساتھی اور کامریڈ گردانتا تھا۔
لینن اور ٹراٹسکی کے نظریاتی اختلافات کو سٹالنسٹوں نے ہمیشہ بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ لوگ لینن کے طریقہ کار سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے۔ لینن اور ٹراٹسکی کے درمیان سنجیدہ اختلافات موجود تھے اور دونوں روس میں انقلاب کے کردار کے حوالے سے مختلف بحثوں میں ایک دوسرے پر تند و تیز حملے بھی کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود 1917ء میں جب دونوں نظریاتی طور پر ایک نکتے پر پہنچ گئے اور روس میں پرولتاریہ کے قائدانہ کردار اور انقلاب کی سوشلسٹ منزل پر دونوں کا اتفاق ہو گیا تو ان کی ایک مثالی جڑت اور اتحاد نظر آیا۔ ٹراٹسکی اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت بالشویک پارٹی میں شامل ہوگیا اور دونوں نے مل کر انقلاب کی قیادت کی۔ انقلاب کے بعد بھی دونوں مل کر مزدور ریاست کی تعمیر میں مشغول رہے اور لینن کی وفات تک یہ تعلق قائم رہا۔ دوسری جانب پلیخانوف کی استاد کے طور پر تمام تر تعظیم اور عزت کے باوجود لینن اس کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم نہیں کرسکا یہاں تک کہ 1917ء میں پلیخانوف انقلاب کے دشمنوں کے ساتھ کھڑا تھا۔
لینن کی نظریات پر اسی مضبوط گرفت کا اظہار اس کی سیاست اور عملی جدوجہد میں بھی نظر آتا ہے اور انہی نظریات کی بدولت وہ نہ صرف ہر قسم کی ذاتی قربانی دیتا ہوا اور مشکلات کا سامنا کرتا نظر آتا ہے بلکہ انقلابی تحریک کو منظم کرنے کا عمل بھی ان نظریات کے بغیر ناممکن تھا۔
لینن کی ذاتی زندگی
لینن کی ذاتی زندگی بھی قربانیوں اور جدوجہد سے عبارت ہے۔ کروپسکایا کے ساتھ اس کی شادی جوانی میں ہی 1898ء میں ہو گئی تھی اور آخری دم تک اس نے اس ازدواجی تعلق کو نبھایا۔ اپنی زندگی کی تمام تر مشکلات میں یہ دونوں انقلابی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے اور ہر طرح کے حالات کا مل کر مقابلہ کیا۔ لینن کے آخری سالوں میں کروپسکایا کو سٹالن کی جانب سے تنگ کرنے کے عمل کا آغاز ہو گیا تھا جس پر لینن نے احتجاج بھی کیا تھا لیکن اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔ لینن کی وفات کے بعد اس کی بیوی کروپسکایا سٹالن کی جانب سے مزید عتاب کا شکار ہوتی چلی گئی اور اس کی نقل و حرکت اور تحریروں پر سخت پابندیاں لگا دی گئیں۔ لینن کی زندگی میں بھی کروپسکایا نے مشکل ترین معاشی حالات کے باوجود اپنی جدوجہد کو جاری رکھا جس میں لینن کے انقلابی عزم اور حوصلے کا بھی اہم کردار ہے۔ لیکن اس سارے عمل میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ انقلابی نظریات پر غیر متزلزل یقین کسی بھی انقلابی کی ذاتی زندگی پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسے وہ صلاحیت دیتا ہے کہ وہ معاشی و ذاتی مشکلات کا مقابلہ کر سکے اور اسے وہ جرات دیتا ہے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر قربانی دے سکے۔ لینن کی زندگی میں یہ عمل واضح طور پر نظر آتا ہے۔
لینن ذاتی زندگی میں ادب، موسیقی اور تھیٹر کا بھی دلدادہ تھا۔ روسی ادب کا اس کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور ٹالسٹائی جیسے شہرہ آفاق ادیب کی وفات پر اس نے بہت ہی شاندار مضمون لکھا تھا۔ روس کا معروف ادیب میکسم گورکی لینن کا قریبی دوست تھا اور دونوں وقت ملنے پر ساتھ وقت گزارتے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے۔ گورکی کبھی بھی بالشویک پارٹی کا ممبر نہیں بنا لیکن اس کے باوجود وہ لینن کا اچھا دوست تھا۔ انقلاب کے موقع پر اس نے لینن کی شدید مخالفت کی اور انقلابی سرکشی کی منصوبہ بندی اپنے اخبار میں پہلے ہی شائع کر دی تاکہ لینن کو اس سے روک سکے۔ لیکن بعدازاں انقلاب کی کامیابی کے بعد لینن نے اسے معاف کردیا۔ اسی طرح مایاکووسکی جیسے انقلابی شاعر بھی لینن کے مداحوں میں شامل تھے۔ لینن تھیٹر جانے کا بھی بہت شوقین تھا اور گورکی سمیت دیگر ادیبوں کے تھیٹر نہ صرف شوق سے دیکھتا تھا بلکہ بالشویک پارٹی کی جانب سے کچھ ڈرامے خصوصی طور پر منعقد بھی کروائے جاتے تھے۔ لینن موسیقی سننے کا بھی شوق رکھتا تھا اور فارغ اوقات میں خوبصورت سمفنیوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔
لینن کی حس مزاح اس کی شخصیت کا اہم پہلو تھی اور وہ مشکل ترین حالات میں بھی اداس اور غمگین ہونے کی بجائے خوشگوار احساس اور ماحول بنائے رکھتا تھا۔ لینن کو ڈکٹیٹر ثابت کرنے کی دشمنوں کی بہت سی کوششوں کے باعث اس کی شخصیت کے لطیف پہلو تاریخ کی کتابوں سے محو ہو گئے ہیں۔ لیکن جن صحافیوں اور عالمی سطح کے لیڈروں کی لینن سے ملاقات رہی وہ لینن کی حس مزاح کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ایک انگریز صحافی آرتھررینسم نے اپنی کتاب میں اس کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ روس کے بارے میں 1919ء کی اپنی کتاب میں اس نے لینن سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ لینن کی حس مزاح سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے لکھا، ”لینن مجھے ایک خوش انسان لگا۔ جب میں کریملن سے واپس گھرجا رہا تھا تو یہ سوچ رہا تھا کہ عالمی سطح پر لینن کے قد اور علمی سطح کا کون سا شخص ہو گا جو ایسا خوشگوار مزاج رکھتا ہوگا۔ میرے ذہن میں ایک بھی ایسا نام نہیں آ سکا“۔
لینن کا جنم 22 اپریل 1870ء کو روس کے ایک گاؤں سمبرسک کے ایک متوسط خاندان میں ہوا تھا اور اس کے والدین کی طرف سے ہی اسے بنیادی تعلیم اور تربیت کے مواقع ملے تھے جس کے تحت اس نے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کی والدہ جرمن اور فرانسیسی بھی روانی سے بول لیتی تھیں جس کی وجہ سے لینن بھی ان زبانوں پر جلد ہی عبور حاصل کر گیا۔ اسی طرح اس کا بڑا بھائی الیگزینڈر انقلابی نظریات رکھتا تھا گو کہ اس کا والد اسے پسند نہیں کرتا تھا۔اس کے بڑے بھائی کو 1887ء میں زار کے خلاف قتل کی سازش میں ملوث ہونے پر سزائے موت دے دی گئی۔ اسی ساللینن نے کازان یونیورسٹی میں قانون کے شعبے میں داخلہ لے لیا جبکہ چند ماہ بعد ہی اسے طلبہ کے احتجاجوں میں حصہ لینے پر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ اسی ماحول میں پرورش پاتے ہوئے اس نے اپنی تعلیم مکمل کی اور وہ کازان کے چھوٹے شہر سے پیٹرزبرگ کے مرکزی شہر میں پہنچا جہاں اس کا تعارف مارکسی نظریات رکھنے والے انقلابیوں سے ہوا اور پھر وہ 1893ء سے باقاعدہ اس تحریک کا حصہ بن گیا۔
ایک عام نوجوان اور سیاسی کارکن سے انقلاب کے قائد اور مزدور ریاست کے سربراہ تک کاسفر یقینا سیدھی لکیر میں نہیں ہوا اور اس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ لیکن درست نظریات، بے لوث اور دیانتدارانہ جدوجہد، انقلابی عزم اور حوصلے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے باعث لینن نے تاریخ میں وہ مقام حاصل کیا جو آج تک کوئی بھی انقلابی حاصل نہیں کر سکا۔ آج اس کی وفات کے ایک صدی بعد بھی اس کے نظریات اور جدوجہد پوری دنیا کے کروڑوں محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ کمیونسٹوں کا فریضہ ہے کہ وہ مزدوروں، کسانوں اور طلبہ تک لینن کا پیغام لے کر جائیں اور انہیں اس کی انقلابی شخصیت سے روشناس کرواتے ہوئے ایک انقلابی تحریک منظم کریں جو لینن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکے اور جو سفر لینن کی وفات کے بعد ادھورا رہ گیا اسے مکمل کرتے ہوئے پوری دنیا میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے اس کرۂ ارض سے سرمایہ دارانہ نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے۔
سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہی ہوگی!