منٹو کی 100ویں سالگرہ؛ منٹو کا مسخ شدہ وژن

تحریر: ابن حسن:-

ریڈیکل ہونے کا مطلب ہے چیزوں کو جڑ سے پکڑنا؛ تاہم انسانیت کی جڑ خود انسان ہے (مارکس)

’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر مقدمہ منٹو کے لئے اس وجہ سے خوش قسمتی کا باعث بنا کہ اس کے بعد کسی نے اسے فحش نگار کہنے کی جرات نہ کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو گواہان اسے فحش نگارثابت کرنے کے لئے پیش ہوئے ان کے دلائل لنگڑے لولے اور بیہودہ تھے۔لیکن اس کے حق میں دیے جانے والے دلائل بھی کسی بھی منطق سے عاری تھے۔ ان گواہان میں بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں لیکن کسی کی گواہی سے یہ نہیں پتہ چلتا کہ وہ منٹو کا کیا تجزیہ کرتا ہے۔فیض نے کہا کہ ’’اس افسانے میں مصنف نے فحش نگاری نہیں کی لیکن ادب کے اعلیٰ تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا۔ کیونکہ اس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا تسلی بخش تجزیہ نہیں‘‘  ہم کسی بھی ادیب پر یہ قدغن نہیں لگاسکتے کہ اس نے ہماری مرضی کے موضوع پر لکھا یا نہیں۔ فنکار کی مرضی ہے کہ وہ سوز نہاں پر لکھے یا حقیقی دنیا میں موجود حقیقی انسانوں کی زندگی کے بارے ۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ موضوع کا چناؤآسمان سے نہیں ٹپک پڑتا۔ انتہائی تجریدی موضوع بھی اپنے ساتھ ایسا پس منظر یا حالات واقعات،اوربیک گراؤنڈلاتے ہیں جو ادیب کی تخیلاتی دنیا پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ صرف ایک شخص، آئی -لطیف (جو پارٹیشن کے وقت ایف سی کالج میں نفسیات کے استاد تھے) نے انتہائی عمدہ بات کی، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ چند جملوں میں منٹوکے نام نہاد نفسیاتی یا جنسی افسانوں کی حقیقت بیان کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ایک غلط رسالے میں چھپا ہے ۔ میرا مطلب ہے ایک پاپولر رسالے میں نہیں چھپنا چاہئے۔ اگر یہ کسی سائنسی رسالے میں کیس ہسٹری کے طور پر چھپتا تواس پر فحاشی کا الزام عائد نہیں ہو سکتا تھا__جن الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، میں بولنے میں ان کو برا سمجھتا ہوں۔ لیکن کیس ہسٹری میں یہ الفاظ بڑی اہمیت رکھیں گے۔افسوس !آئی – لطیف کی بات نقادوں کی سمجھ میں نہ آ سکی، لیکن منٹو کوکچھ نہ کچھ تو ثابت کرنا ہی تھا، لہٰذا اس پر ” ترقی پسند‘‘ ہونے کا ٹریڈ مارک لگا دیا گیا۔لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ترقی پسندی سے مراد کیا لیتا ہے۔دوسرے گروہ،جس کے ساتھ ’’نفسیاتی‘‘کی دم لگی ہوئی ہے،نے فرائیڈ اور کئی دوسرے ماہرین نفسیات کی اصطلاحات رٹ کر منٹو کے کرداروں پر لاگو کرنا شروع کر دیں حتیٰ کہ اس شعوری، تحت الشعوری وغیرہ میں بہت سی بے شعوری شامل ہو گئی ۔
فرائیڈ کو اس کی سترھویں سالگرہ پر ’’لا شعور کا دریافت کنندہ‘‘کا خطاب دیا گیا تو اس نے مقرر کی تصحیح کی اور اس خطاب کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’شعرا اور فلاسفہ نے مجھ سے پہلے لاشعور کو دریافت کر لیا تھا، میں نے تو اس سائنسی طریق کار کو دریافت کیا ہے جس سے لاشعور کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
Quoted by Lionel Trilling: Literature and Freud. Liberl Imagination
اس سے قطع نظر کہ کوئی فرائیڈ کی نفسیات کا کس طرح سے تجزیہ کرتا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ نفسیاتی اصولوں، جو نارمل یا ایب نارمل اشخاص پر لاگو بھی کئے جا سکتے ہوں، ان میں اورفنکار کے تخلیق کردہ کرداروں میں فرق کا تعین کیا جائے۔ اگر تخیلاتی کردار بھی ویساہی ہے جیسا کہ کسی کیس ہسڑی کا تو ادب کی خود مختار حیثیت ختم ہو جائے گی اور نقاد کا کام صرف اتنا رہ جائے گا کہ وہ کسی ادب پارے کو اس طرح سے پرکھے کہ وہ نفسیاتی اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں، اس کے کتنا قریب یا دور ہے۔ اور اگر دور ہے تو فنکار کا نفسیاتی معائنہ کروایا جائے کہ اس نے نفسیاتی اصولوں سے ہٹ کر لکھنے کی احمقانہ اور ایب نارمل حرکت کیوں کی1؂۔
مسئلہ صرف لا شعور کا ہی نہیں، شعور کا بھی ہے۔ کسی بھی صورت حال میں فرد صرف کوئی رویہ ہی نہیں رکھتا وہ اس کا تجربہ بھی کرتا ہے۔ اس میں اپنا شعوری حصہ بھی ڈالتا ہے۔نفسیات میں انسانی شعور اپنے آپ میں، اپنے تئیں، موجود ہے ۔ یہ ایسے پھول کی مانند ہے جو کسی بیج سے اگتا اور کھلتا ہے۔یہ کسی سماجی ارتقا کا نتیجہ نہیں یا اس میں سماجی عوامل کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ ایسا سماجی ارتقا جو فعال اور حقیقی انسانوں کی تخلیق ہے، جسے انسان کا شعور حرکت دیتا ہے اور خود اس حرکت سے ارتقا پاتا ہے۔دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ خود فردمیں ’’آزاد عمل‘‘ کی صلاحیت یا اس کا سرچشمہ موجود ہے اور اس کا منبع آزاد ارادے، جبلت، خواہش، وغیرہ میں ہے۔یہ دو مفروضے اس نفسیات کے لئے اہم ہیں اور خفیہ مقناطیس کی طرح ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
نفسیات(بشمول فرائیڈ، یونگ اور ایڈلر ) میں انسان کاایسا تصور بنایا گیا ہے جو مصنوعی طریقے سے تنہا، علیحدہ ہے اور اس لئے تجریدی اور بغیر ارتباط کے ہے ۔ دوسرے عوامل میں تمام خارجی پہلو جیسا کہ سماجی، تاریخی شامل ہیں۔انسانی رویوں کی تخصیص ان ابدی اثرات کے تحت ہے جو ’’فطرت‘‘ نے لازماً بنانے ہوتے ہیں۔ولگر معاشیات، اورفلسفہ قانون اور سیاسیات کی طرح یہ ان سطحی بنتروں formsمیں دھنسا ہوا ہے جوسرمایہ دارانہ دور نے پیدا کی ہیں نتیجتاً ان سے آزادی ممکن نہیں۔اسی بنا پر یہ ان مسائل کو بھی حل نہیں کر سکتی جو خود نفسیات کو در پیش ہیں۔ اپنے ایک مضمون ’’ فرائیڈ کی عوامی نفسیات‘‘میں لوکاش لکھتا ہے کہ ’’نفسیات چیزوں کی ماہیت essenceکو الٹا دیتی ہے ۔ یہ انسان کے سماجی تعلقات کی انفرادی شعور (یا لا شعور) کے حوالے سے تشریح کرنے کی کوشش کرتی ہے، بجائے اس کے کہ فرد کی علیحدگی separateness کو کلیت اور اس کے دوسرے انسانوں سے تعلق کے حوالے سے جانے۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ بے چارگی کے عالم میں نام نہاد مسائل کے چکر میں پھنس جاتی ہے جو اس نے خود اختراع کئے ہوتے ہیں‘‘۔
(Lukac’s, Freud’s Psycology of Masses: Reviews and Articles; Merlin Press)
فرائیڈنے لاشعور میں آنے والی گڑبڑوں کا مطالعہ کیا اور کچھ تجرباتی دریافتیں بھی کیں۔ یہ تمام دریافتیں دیو مالا کے اندازمیں بیان کی گئی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ شعور خود تحلیل نفسی اور نفسیات کے اصول دریافت کر رہا ہے جس میں شعور کے لئے تمام لا شعوری چیزیں ایک طرح کے شیطان یا بھوت کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں، نہ کہ یہ وجوہاتی عوامل ہیں جن کی وہ جسمانی بنیاد ہے جو شعور کے اور آخر کار اس کے ساتھ ہم ذاتhomogeneous ہیں۔ جس طرح فطرتی واقعات کے بارے قدیم دور کا انسان یہ سوچتا تھا کہ وہ پر سکون دنیا میں دیوی دیوتاؤں کی مداخلت ہیں کیونکہ وہ ان کی اصل وجہ جاننے سے قاصر تھا، اسی طرح فرائیڈ کے ہاں لاشعور سے متعلقہ قوتوں کے لئےdistortion, inhibition, regression, obsession, the id, the censor, the pleasure principle, Eros, libido, the death instinct, the reality principle, a complex, a compulsion وغیرہ کے نام ہیں۔ تمام محرکاتی سانچے innervation patternsاندرونی رد عمل response یعنی جبلت میں کوئی تبدیلی inhibitionکی وجہ سے آتی ہے۔ اس لئے تمام تجرباتی پیٹرن اپنے اندر شعور اور لا شعور کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور رکھتے ہیں جن کا باہمی تعلق مختلف ہوتا ہے۔ لیکن ان کا سرکٹ رویے میں overtly ضرور نمایاں ہوتا ہے۔ بقول کاڈویل ’’اس نظریے کے حوالے سے فرائیڈ کے ہاں شعور کے بارے بڑا متعصب رویہ ہے ۔ وہ تمام لاشعوری اجزا کو گڑبڑ، مسخ کرنے والی قوتیں، یا مداخلت گردانتا ہے۔ لیکن جب وہ تہذیب اور معاشرے اور(بحیثیت مجموعی) انسان کی طرف آتا ہے تو اس کا نظریہ بالکل مخالف سمت میں جھول جاتا ہے۔ اب تجربہ اور شعور، یعنی ثقافت ہی ہے جو جبلت(یعنی لا شعور) کو مسخ کرنے والا عنصر ہے‘‘۔(Studies in European Realism)
شعور اور لاشعور جب علیحدہ چیزیں ہوں گی تو وہ تجرید بن جائیں گی۔ کسی بھی رویے کی تمام محرکاتی قوتیں مختلف تناسب سے مل کر شعور یا egoکی تشکیل کرتی ہیں۔ یہ علیحدہ یا مجرد نہیں؛ شعور کو لاشعوری محرکات ہی کوئی مافیہ دیتے ہیں جس کے اثر کو ہم صرف شعور ہی کے ذریعے جان پاتے ہیں۔ ایک طرف اگر کوئی سوچ جس کا اس سارے تانے بانے پر کوئی اثر ہی نہ ہو، کوئی سوچ نہیں کہلا سکتی۔ دوسری طرف کوئی لا شعوری تحریک یا اثر کوئی اثر نہیں اگر اس سارے سرکٹ کا حصہ نہیں اور اس میں اپنا حصہ نہیں ڈالتی۔شعور اور لاشعور ایک دوسرے سے علیحدہ، ہوابند خانوں میں فٹ نہیں۔ ایک کا دوسرے پر عمل اور رد عمل مل کر ہی کسی انسانی رویے کو شکل دیتا ہے۔ اس نقطے کی ووگٹسکی نے یوں تشریح کی ہے کہ ’’شعور کے مسائل کو نظر انداز کر کے نفسیات نے انسانی رویوں کے کچھ پیچیدہ مسائل سے اپنے آپ کو محروم کر لیا ہے۔یہ جیتے جاگتے انسان کے دنیا سے انتہائی ابتدائی نوعیت کے تعلقات تک ہی محدود ہے‘‘۔

Consciousness as a Problem in the Psychology of Behavior
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ منٹو کے افسانوں میں بیالوجی سماجیات کو نگل جاتی ہے اور حیاتیات physiology نفسیات کو غائب کر دیتی ہے۔منٹو انسانی جذبوں اور احساسات کووسیع معنوں میں انسانیاتی anthropologicalاور وجودیاتیontologicalکی وحدت کے بطور نہ جان سکا۔نفسیات کی طرح یہ اپنے حقیقی مافیہ سے بے نیاز ہی رہے۔نفسیاتی اصول فطرتی سائنس کی طرح ’سُچے‘ نرے pureحقائق یا اصولوں تک محدود رہتی ہے جو اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب حقیقی زندگی کا کوئی phenomenonسوچ یا حقیقت میں ایسے گرد و پیش یا حالات میں رکھ دیا جائے جہاں ان اصولوں کو کسی مداخلت کے بغیر جانا یا پرکھا جا سکے۔ اگر نفسیات سائنس ہونے کی دعویدار ہے تو اس کے لئے اس تضاد کو حل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے کہ خود اس کے اخذ کردہ اصول میکانکی ہیں اور صرف مقداری ماہیت رکھتے ہیں۔ ان کے حصول میں جیتا جاگتا، زندہ، فعال انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔جب ادب پارے میں اس طرح کے ’نفسیاتی اصول‘ آن دھمکتے ہیں تو ادب صرف ان اصولوں کی تشریح تک محدود ہو جاتا ہے جو ادب کو بے معنی اور ولگر بنانا ہے۔
خود نفسیات اس کوشش میں ہے کہ انسانی رویے کو ایک ’’کلیت‘‘ کے طور لیا جائے لہٰذا یہاں اس طرح کے نفسیاتی مفروضے دو وجوہات کی بنا پر ناکافی ہیں۔ ایک تو یہ فن میں ہر طرح کی موضوعیت تک محدود رہتے ہیں لیکن معروضی رجحانات معروضی بنیادکے متقاضی ہوتے ہیں۔ دوسرے ایک نئی نفسیات ظہور پذیر ہو رہی ہے جو ’’روح کے علوم‘‘کی بنیادوں کو از سر نو استوار کر رہی ہے۔مسئلے کی روح یہ ہے کہ فن کی نظریاتی اور اطلاقی نفسیات ان تمام پہلوؤں کو ارتباط کے ساتھ زیر بحث لائے جو فن میں اپنا اثر ڈالتے ہیں اور ان تمام disciplines کی بنیاد بھی بیان کرے جن کا فن سے کوئی تعلق ہے۔ اس طرح نفسیات دوسروں سے کٹا اورلاتعلق علم نہیں رہتا بلکہ اس ارتباط سے مزید تقویت پاتا ہے۔
ادب کا نفسیاتی اور میکانکی سماجی نظریہ جو انسان کو نفسیاتی محرکات یا سماجی قوتوں کی کٹھ پتلی بنا دیتا ہے خود ہیرو کی تذلیل ہے کیونکہ یہ اسے ہر قسم کی خود مختاری سے عاری کر کے اسے اپنے عمل کا ذمے دار نہیں رہنے دیتا۔اگرہیرو کی روح، فقط وہ میدان جنگ ہے جہاں نفسیاتی یا سماجی عوامل آپس میں بر سر پیکار ہیں تو ہیرو کی کیا ذمے داری رہ جاتی ہے؟ کیا اس کا عمل ان میکانکی عوامل کی تشریح ہے؟ کرداروں کی جانچ کا کوئی بھی انسانی پہلو ان معنوں میں ختم ہو جائے گاکہ انسان ان نفسیاتی یا سماجی قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا نہیں، یعنی وہ صرف اور صرف ان کے زیر اثر مجہول عامل نہیں، وہ ان میں اپنے عمل کا حصہ بھی ڈالتا ہے۔ انہیں بدلنے کی کوشش کرتا ہے، ان کو اپنے مقصد اور ارادے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹھنڈا گوشت، دھواں، بُو، اوپر نیچے درمیان اور اس طرح کے بہت سے افسانے اس زمرے میں آتے ہیں جن میں کردار ایک طرح کی کٹھ پتلیاں ہیں جن کو کوئی نام نہاد نفسیاتی اصول حرکت دے رہے ہیں۔وہ سماجی قوتیں جو اس طرح کے حالات پیدا کرتی ہیں، ان کی رمق شائد کسی ایک افسانے میں بھی نظر نہیں آتی۔منٹوکے کرداروں کے جنسی جذبے یا جنسی رویے سماجی بنیاد نہ ہونے کی بنا پرsocially pathological figuresکے بجائے psychopathological افراد بن جاتے ہیں۔ اسی بنا پر پروفیسر آئی۔لطیف نے کہا تھا کہ یہ کیس ہسٹری ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نفسیات کسی طرح سے بھی زندگی کے راز کھولنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ ’راز ‘ نفسیاتی نوعیت کے نہیں۔
منٹو کے افسانوں میں کردار عام، روز مرہ زندگی کے آمنے سامنے آتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے وہ جگہیں دکھائیں جہاں عام طور پر کوئی جانا پسند نہیں کرتا۔ یہ روز مرہ زندگی صرف ایک جزو تک محدود ہے اور بڑھ کر وسیع تر زندگی کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہ عام زندگی اپنی تمام تر خوبیوں یا خامیوں کے ساتھ نہیں، یعنی یہ اتنا چھوٹا حصہ ہے کہ یہ کل زندگی کے انتہائی معمولی حصے کی ہی نمائندگی کر پاتا ہے۔ اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ منٹو زندگی کا بہت ہی تھوڑا حصہ دکھا پایا اور اس میں بھی اس کی محدودات ہیں۔ جو ممنوعہ جگہیں منٹونے دکھائی ہیں ان کی مثال انسانی جسم میں کسی عضو کی سی ہے کہ ایک عضو گل سڑ جائے تویہ گلنا سڑنا تمام اعضا تک پہنچ جاتا ہے اور کوئی پیچیدہ مرض پیدا کرتا ہے۔یہ ’’سائنسی‘‘ نظریہ اس لحاظ سے یک طرفہ ہے کہ فطرت کے اصول معاشرے کے اصولوں سے مختلف ہیں۔ طبی سائنس دان کے لئے تو یہ میکانکی اصول بیان کرنا آسان ہے کہ کسی زہریلے پن کی وجہ سے دوسرے اعضا پر یہ اثر ہوا لیکن افسانہ جو بذات خود حقیقت کی بہت چھوٹی سی اکائی تک ہی پہنچ پاتا ہے اس کے لئے اس طرح کے زہریلے قانون ڈھونڈھ کر معاشرے پر لاگو کرنا نا ممکن توہے ہی، احمقانہ پن بھی ہے۔ معاشرے کا کوئی عضو اگر کسی دوسرے عضو کے زہر سے متاثر ہو رہا ہے تو ساتھ یہ بھی سوچنا ہو گا کہ وہ خود اس زہر کو پیدا کر رہا ہوتا ہے۔
پھریہ ممنوعہ جگہیں کسی اور خرابی کی وجہ سے وجود میں آئیں، یعنی اس نظام کی وجہ سے جویہ ممنوعہ جگہیں پیدا کرتا ہے۔یہاں آکر منٹو کی ترقی پسندی ختم ہو جاتی ہے اور اس کا رویہ زیادہ سے زیادہ ایک لبرل کا ساہو کر رہ جاتا ہے۔ یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی معاشرتی تنقید بورژوا تنگ نظری کے علاوہ اورکچھ نہیں، لیکن وہ تمام رومانوی(سوائے طوائف کے بارے)، تخیلاتی واہموں سے پاک ہوتے ہوئے بھی حقیقت نگار نہیں۔ اس کے افسانے کی بُنت اس طرح سے ہے کہ واقعات بڑی احتیاط سے چنے، اور ایک دوسرے سے ترتیب میں آتے ہیں۔ لیکن یہ واقعات عامیانہ قسم کے ہوتے ہیں۔ کہانی کے واقعات میں ہیرو کے اپنے احساسات کا اکثر اوقات کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسے ہیرو کی حیثیت اتنی زیادہ ختم کرنا پڑتی ہے کہ وہ یا تو ایک ڈھانچہ ہے جس پر کسی نفسیاتی اصول کا جال بننا ہوتا ہے یا وہ ایسا بانس ہے جس پر ’’سماجی حقیقتوں‘‘ کا خیمہ کھڑا کیا گیا ہے۔ دوسری طرف، ہیرو وہ پھلا یا ہوا کردار ہے، یا ایسی کٹھ پتلی ہے جسے ہوا بھر کر دیو کا روپ دیا گیا ہے۔ فطرت نگاری میں ایک صحیح اور اصلی کردار کی تخلیق ممکن ہی نہیں کیونکہ یاتو اس کے افسانے کا ہیرو مجہول دکھی ہے، جو صرف دوسروں کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہرقسم کے guilt سے مبرا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ خود اس نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا ہوتا جس میں اس کی تباہی یا خوشحالی کے بیج ہوں، یا یہ کسی صورت حال میں ہیرو کا اپنا عمل ہو جو واقعات کو کوئی بھی رخ دے۔ یہ خارجی عوامل ہی ہوتے ہیں جو اس پر کوئی بپتا لاتے ہیں، خود ہیرہ کے عمل کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس کی مثال سادہ سی ہے کہ اگر کوئی آدمی رستہ چلتے گاڑی کے نیچے آ جائے تو ہم اسے ادب نہیں کہیں گے اگرچہ اس سے ہمیں بڑا صدمہ بھی ہو گا۔ لیکن جب اپنی کسی غلطی یا اپنے کسی ناقص عمل کی بنا پر کوئی کردار دکھ اٹھا تا ہے یا زندگی کو جھیلتا ہے تو ہم اسے ادب کہتے ہیں۔ منٹو کے( المیہ )کردار اگرچہ سپر مین نہیں لیکن اس کی عظمت اور بڑائی اسی میں ہے کہ وہ شکست میں بھی فتح یاب ہیں۔ وہ اس لئے کہ وہ قاری کے دل میں ہمدردی اور تاسف کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ جیسے اخبار میں حادثے، قتل یا اغوا وغیرہ کی خبریں پڑھ کر ہمیں دکھ ہوتا ہے لیکن یہ ادب کے گہرے اور پائیدار غم و حزن کے جذبات سے بہت کم درجے کی چیز ہے۔ اس نقطے کو Yeatsنے کچھ یوں بیان کیاہے کہ ” اگر جنگ ضروری ہے، یا ہمارے دور میں اور ہماری جگہ ضروری ہے، تو بہتر ہو گا کہ ہم اس کی تکالیف کو بھول جائیں جیسا کہ ہم بخار کی تکلیف کو بھلا دیتے ہیں۔ ہیگل نے اس طرح کی ہمدردی اور تاسف اور حقیقی ہمدردی میں فرق کیا ہے کہ اس میں ’’حقیقی مافیہ‘‘ نہیں ہوتا، یعنیan accordant feeling with the ethical claim at the same time associated with the suffererسے مراد ہے سماجی ethical ادب میں صرف دکھ یا بے چارگی اہمیت نہیں رکھتی؛ بلکہ اس کی وجوہات۔ادب میں صرف اس دکھ کی اہمیت ہے جو فعال کرداروں کے اپنے عمل کی وجہ سے ہو۔ ادب میں اس دکھ کی سماجی نوعیت اس ایک فرد کے دکھ سے آگے لے جا کر اس پورے گروہ یا طبقے کے دکھ کی شکل میں دکھاتی ہے۔ اس طرح کردار اور یہ معروضی قوتیں جہد مسلسل بن جاتی ہیں اور اس سے منسلکہ اہم بات خود ہیرو کا اپنی غلطی یا خامی کا احساس ہے۔ یہاں آ کر منٹو کی ’’ترقی پسندی‘‘ ختم ہو جاتی ہے، بلکہ وہ حقیقت نگار بھی نہیں رہتا کہ اس کے پاس وہ وژن نہیں جو اس صورت حال سے باہرآنے کی وجہ بنے۔ اس کا ہیرو اس متحارب قوت کو جو خود اس کے تمام مصائب کی وجہ ہے کے سامنے بے بس ہے۔
حقیقت نگار ادب میں ایکشن بنیادی انسانی اقدار اور موجود سماجی ڈھانچے کے درمیان تضاد کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ اس طرح کا ادب ایسا ایکشن دکھاتا ہے جو ان کے تضاد پر مبنی ہے۔ مثلاً سچی محبت خاندانی فرائض کو توڑ کر رکھ دیتی ہے، اعلیٰ سماجی شعور فرد کو خود اپنے معاشرتی کردار سے بغاوت پر مجبور کر دیتا ہے۔ جاگیردارانہ سماج سے جدید سرمایہ دارانہ سماج میں تبدیلی کے دوران یہ تضاد المیے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تضاد اورافراتفری عام طور پر ایک اجتماع identificationکی شکل میں نظر آتے ہیں جن کو ہیرو کی غلطی گڈ مڈ یا مبہم کر دیتی ہے لیکن حقیقت نگار ادب کا ایکشن اصل صورت حال کو واضح کر دیتا ہے۔
منٹو کے لبرل رویوں میں سماجی ڈھانچے میں دڑاڑ تو نظر آتی ہے لیکن اعلیٰ انسانی اقدار کا فقدان ہے۔ وہ دو وجوہات کی بنا پر بورژوا لبرل ہے ۔ ایک تو اس کے افسانوں میں موجود سماجی ڈھانچے (حتیٰ کہ انگریزی غلامی ) سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی،دوسرے اس کے لئے موجود ڈھانچہ آخری ہے اور اپنی ساری خرابیوں کے باوجود موجود سماج میں فرد کی آزادی کا تصور صرف فرد تک محدود ہے۔اکثر یہ اونٹ پٹانگ حرکتیں کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ ہوا تو یوں ہی کہ عام طور پر لبرل سوچ کسی ازلی انسانی فطرت کو تسلیم نہیں کرتی جو کسی مافوق الفطرت نظریے پر مبنی ہو، نہ ہی ایسے سماجی ڈھانچے کو جس کی بنیاد اس طرح کے خیالات یا نظریات ہوں۔ اسی اکھاڑ پچھاڑ سے انقلاب کا نظریہ استوار ہوا کہ انسانی اور سماجی تبدیلی ممکن ہے ۔ بغاوت نے انقلاب کا روپ دھار لیا۔ اہم ترین انسانی اقدار کا تعلق اب موجود ڈھانچے سے نہیں تھا بلکہ ارتقا، ترقی اور نئے سماج کی تعمیر سے بن گیا۔ انقلاب، اس طرح، اس امکان کو لے کر آیا کہ انسان اپنی حالت بدل سکتا ہے۔ منٹو میں ایسا نہیں۔ منٹو کا انتخاب معاشرہ جیسا کہ یہ ہے بن گیا اور اسی تعلق سے اس کی ادبی تکنیک کا ارتقا ہوا۔
بورژوالبرل رویوں نے تقدیر اور حتمی ڈھانچے کے روایتی نظریوں کی تنسیخ کر دی۔ اورا س کی جگہ دلیل، عقل اور انسان کی صلاحیت کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کی تشریح کر سکتا ہے، کی برتری کو ثابت کیا۔ سیاست میں اس نے نئے سماجی شعور کو جنم دیا۔ فلسفے میں مذہبی نظریات اور سماجی تعصبات کا تجزیہ پیش کیا۔ ادب میں ٹھیک ٹھیک مشاہدے، اوربیانی تفصیل پر زرو دیا۔ یورپ میں فطرت نگاری کو روشن خیالی کا حرامی بچہ کہا گیا ہے۔ اس نے مشاہدے کی تکنیک اور بیانی تفصیل کو ان مقاصد سے بالکل علیحدہ کر دیا جس کے لئے یہ وجو دمیں آئی تھیں۔اس کو حقیقت نگاری سے یہ بات ممیز کرتی ہے کہ اس میں میکانکی تفصیل انسان کو اپنے حالات کا یا نفسیاتی اصولوں کاکھلونا بنا کر رکھ دیتی ہے۔ فطرت نگاری کا المیہ انسان کے مجہول طور پرمصیبتیں جھیلنے کا المیہ ہے یا ایسی قوتوں میں پھنس جانا ہے جو میکانکی طور پر اس پر اثر ڈالتی رہتی ہیں۔ یہ اس لئے مجہول ہے کہ انسان صرف جھیل سکتا ہے۔ نہ تو المیے کے ہیرو کی طرح وہ کسی گلٹ میں مبتلا ہوتا ہے، نہ ہی وہ اسے بدل سکتا ہے، نہ ہی اس کے پاس اس کا وژن ہوتا ہے۔
اس طرح کی فطرت نگاری،جس نے انتہائی معمولی نوعیت کے ادب کو جنم دیا، (بورژوا) لبرل سوچ میں شروع ہوئی اور موجودہ سماج کی مضحکہ خیز سمجھ میں ختم ہوئی۔ جس طرح نِری دہریت کا انجام ایمان کے مضحکہ خیز تصور میں ہوتا ہے۔ بنا بنایا ڈھانچہ، جو چاہے نفسیاتی اصولوں کا ہے یا میکانکی طور پر بنائے گئے سماجی اصولوں کا، زندگی اور انسان، سب کو ایک قسم کی میکانکی تقدیر کے تابع کر دیتا ہے ۔ یہ میکانکی شکنجہ انسان سے اتنا ہی دور ہے جتنا پہلے سے لکھے گئے لیکھ، یعنی تقدیر ۔ یہ سب انسانوں سے علاوہ، اس سے بُعد میں ہیں۔ ان سب میں نوع کا فرق ہوتے ہوئے بھی، تینوں اصلی اور حقیقی وجوہات سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش ہیں۔ آج کے دور میں یہ تینوں روشن سوچ اور موجود نظام کے خرابیاں جاننے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے شکار مختلف طبقات کے لوگ بنتے ہیں۔لبرل سوچ ایک نقطے پر آ کر دو راستے تو دکھاتی ہے جہاں انسان یا تو آگے جائے یا پیچھے کی طرف لڑھکنیاں کھائے۔ یہ لبرل سوچ کاالمیہ ہے کہ یہ انسان کو اس نظری کشمکش سے نکال کر اسے اپنے خیالات یا نظریات یا تعصبات کا جواز فراہم کرتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تو یہ کشمکش کسی مثبت انقلابی سمت کی نشان دہی کرتی تھی لیکن اب یہ بنے بنائے جواز کی دکان ہے جہاں سے ہرخام سوچ کا، ہر سمجھوتے کا، ہر منافقت کا وسیلہ مل اور اس کو منصفانہ ٹھہرانے کا جواز مل جاتا ہے۔ انسان کی آزادی کے آفاقی اصول اب پریشانی کا باعث ہیں کیونکہ جو لوگ اس قسم کی صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں انہیں وسیع تر انسانیت کی آزادی میں اپنی نئی نئی حاصل کی گئی شناخت کو زک پہنچتی نظر آتی ہے۔
دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے کہ ایسا ادب حقیقی زندگی کا عکس ہے۔ جدلیاتی سوچ پر یقین رکھنے والے نقاد بھی یہی کہتے ہیں کہ ادب کو سماجی ارتقا کے عمل سے علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ادب اور حقیقی دنیا کا آپس میں کونسا جدلیاتی تعلق ہے۔
حقیقی دنیا جس کا موازنہ ادب کی تخیلاتی دنیا سے کیا جاتا ہے کبھی بھی جامد نہیں رہتی، اسی لئے ادب اس کا سطحی اظہار نہیں ہو سکتا۔ اگر ادیب اصلی دنیا کی حرکت کو سمجھتا ہے تو جب وہ عام آدمی کی تقدیر بھی بیان کر رہا ہو تو وہ معاشرے کی بڑی حقیقتوں تک پہنچ رہا ہوتا ہے، یعنی ان فیصلہ کن، سماجی قوتوں تک جو ایک فرد یا معاشرے کی حرکت کی ذمے دار ہیں۔یہ سوال اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ہم اس بات پر غور کریں کہ جدلیاتی نقاد کسی حقیقت پسند فن پارے میں موجودفنی اقدار کو کس طرح جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ یہاں بھی بنیادی طریق کار عکس اور خارجی دنیا کے موازنے کا ہے۔ وہ ان نام نہاد نفسیاتی اور سوانحی تفصیلات کو رد کرتے ہیں جو ادیب کی مخصوص ذہنی ساختوں یا اس کی زندگی کے واقعات میں ادب کے معنی ڈھونڈتے ہیں۔ یہ رجحانات اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب فنی بنتروں formsاور محرک قوتوں، اور سماجی حقیقت میں تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ جدلیاتی نقادپراسرار ’آمد‘ کے ادبی نظریاتinspirational theories اور ایسے نظریات جو کسی ادب پارے کو اس کے تخلیق کرنے والے کی شخصیت سے علیحدہ یا مبرا مانتے ہیں، غلط مانتے ہیں۔ان دونوں نظریوں کے بر عکس قلم کولکھنے والے فرد سے،اور اس فرد کو تاریخی اور سماجی حالات سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں صورتیں وہ ہیں جن میں حقیقت پسند ادب کی اصلی بنیادگم ہو جاتی ہے اور اس کی پیچیدہ اور کثیر پہلو میں پروئی ہوئی معروضی اور موضوعی حقیقتیں اپنا اظہار نہیں پاتیں۔ موجود سماج میں چیزوں کے ظاہر سے ان کی اصلیت جاننا پانی کے بہاؤ کی مخالف جانا ہے کیونکہ ہر جگہ سطحی اور ظاہری صوت اصل کو چھپائے رہتی ہے۔
ان رویوں کی بنا پر ایک خاص تکنیک وجود میں آتی ہے جسے ہم اس کے مافیہ سے الگ کر سکتے ہیں۔ اس کی دو اہم خصوصیات ہیں۔ ایک تو منٹو پیش کرنے کے بجائے، بیان کرتا ہے۔اس کے کرداروں کے منہ کے ساتھ غبار ے بندھے نظر آتے ہیں جن میں کارٹونوں کی طرح وہ کردار دوسرے کرداروں کے بارے اور خود اپنے بارے وہ کچھ کہتے ہیں جو مصنف ایکشن میں نہیں دکھا سکا۔ انہیں مصنف کا ادبی ارادہ ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ انہیں کیونکر اس طرح عمل کرنے پر مجبور کیا گیا۔خود کرداروں کو مصنف کا سنسنی خیز یا میلو ڈرامے کا عنصر ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس کی مثالیں منٹو کے ہر صفحے سے مل سکتی ہیں۔ کچھ حاضر خدمت ہیں۔

رتی، ماشہ، تولہ، _ کہانی قابو میں نہیں رہی، اور کردار کا خاص وصف بیان نہیں کیا جا سکا تو ’’آخر ایک دن ایسا آیا کہ زینت شادی پر آمادہ ہو گئی‘‘_ جیسے مصنوعی فقرے لازمی طور پر تحریر میں آ جاتے ہیں۔ یہی کردار کہتا ہے ’’آپ مجھ سے یقیناًناراض ہو جاتے ہوں گے کہ میری طرف سے آپ کی محبت کا جواب تار کے سے اختصار میں ملتا ہے۔ لیکن میں مجبور ہوں، میری طبیعت ہی کچھ ایسی ہے۔ آپ کی محبت کی میں قدر کرتی ہوں۔ مجھے بھی آپ سے پیار ہے۔ لیکن پیار مصیبت نہیں بن جانا چاہئے۔ آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہئے‘‘

بسم اللہ_پورے افسانے میں کوئی کردار، کوئی مکالمہ ’’اداس اور سیاہ آنکھوں‘‘ کے ساتھ نہیں جڑا۔ اتفاقاً ہیرو کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بازو پر ہندو نام کھدا ہے۔ آخر ی چند فقرے سسپنس کو توڑتے ہیں۔ تمام افسانہ ایک کردار کی یک طرفہ محبت کے بارے میں ہے۔ خود بسم اللہ کی کیا کیفیت ہے، اس کے لئے دو الفاظ ’سیاہ آنکھیں‘ ہیں۔

دو قومیں_ ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکے کے درمیان محبت کی بنیادزندگی کی جسمانی بنیادanimal base of lifeہے، کہیں بھی کسی گلٹ کا شائبہ نہیں۔ جومکالمے منٹو کو مختار اور شارداکے کرداروں کے ساتھ غبارہ بنا کر چپکانا پڑے ہیں:’’میں ہندو ہو جاؤں؟‘‘ مختار کے لہجے میں حیرت تھی۔ وہ ہنسا ’’میں ہندو کیسے ہو سکتا ہوں؟‘‘ ’’میں کیسے مسلمان ہو سکتی ہوں‘‘شاردا کی آواز مدہم تھی۔ افسانے کا موضوع ’’زندگی کی جسمانی بنیاد‘‘ پر محبت ہے یا مذہبی کٹر پن؟ منٹو نے سستی اور گھٹیا سنسی خیزی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

نطفہ_ افسانہ گھریلو شادی اور کرائے کی شادی کے فوائد میں مکالمہ ہے۔ منٹو نے اپنا فلسفہ خان صاحب کے کردار کے منہ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اعتراضات دوسرے کردار صادق کے ساتھ غبارے میں لکھے نظر آتے ہیں۔اس تضاد کے متوازی ایکشن صرف اتنا ہے کہ ایک دو بیویاں ہوتے ہوئے بھی رنڈی سے شادی رچا لیتا ہے اور دلیل یہ دیتا ہے کہ ’’یہ دنیا جس میں ہم جیسے مخلص آدمی کو صوبہ بدر کرنے والے حاکم موجود ہیں، اس میں رنڈی کے کوٹھے ہی کو اپنا گھر بنانا چاہئے__ ہم کو تو یہاں بہت آرام ہے‘‘ خان صاحب سیاسی مخالفت اور ہراساں کئے جانے کے بدلے ایسا آدمی ہے جسے ’’سوسائٹی اپنے اور اپنے بنائے ہوئے قوانین کے منہ پر طمانچے کے طور پر کبھی کبھی مار سکے‘‘دونوں کردار منٹو کے ماؤتھ پیس ہیں۔
دوسرے کردار کے بارے منٹو لکھتا ہے کہ ’’وہ ڈیڑھ سال بعد ایک دن اچانک میرے پاس آیا۔‘‘لیکن اس کردار کا فیصلہ کہاں سے آگیا؟ چونکہ منٹو اس کو کردار کے ارتقا میں دکھانے سے قاصر ہے اس لئے:
’’اس نے جواب دیا ‘ ہاں میں شادی کر رہا ہوں‘‘
’’کس سے‘‘ ’’ایک رنڈی سے‘‘
….. ’’اس کے نطفہ ٹھہر گیا ہے‘‘
صادق نے اس رنڈی سے شادی کر لی۔ …. اس رنڈی کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کی پیدائش کے چھ مہینے بعد صادق کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ اس نے رنڈی کو طلاق دے دی اور اس سے کہا’’تمہار اصل مقام یہ گھر نہیں__ہیرا منڈی ہے__جاؤ اس لڑکی کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ__ اس کو شریف بنا کر میں تم لوگوں کے کاروبار کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہتا__میں خود کاروباری آدمی ہوں __یہ نکتے اچھی طرح سمجھتا ہوں __جاؤ، خدا میرے اس نطفے کے بھاگ اچھے کرے__لیکن دیکھو اسے نصیحت دیتے رہنا کہ کسی سے شادی کی غلطی کبھی نہ کرے__ یہ غلط چیز ہے‘‘
آخری نتیجہ بھی کردار کے منہ میں ڈالا گیا ہے، افسانے میں کرداروں کی ذہنی تبدیلی یا جن حالات میں وہ رہ رہے ہیں ان میں کسی قسم کا فرق نظر نہیں آتا۔
اس افسانے میں ایک اور مزیدار بات یہ ہے کہ ’’یہ خان…. بہت بڑا انقلاب چاہتا تھا جو ظلم و ستم کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے ۔ وہ چاہتا تھا کہ سرمائے کی لعنت سے دنیا آزاد ہو جائے__ان خیالات کی پاداش میں وہ اپنے وطن سے باہر نکال دیا گیا‘‘ منٹو نے یا تو ترقی پسندوں کا بھونڈا مذاق اڑایا ہے یا ان کو اس طرح کے آدمی بنا کر پیش کیا ہے جو معاشرے کے ظلم و ستم کو اس طرح سے ختم کرنا چاہتے ہیں کہ جنس اور محبت کے جذبوں اور شادی کے سماجی پہلو کو نظر انداز کر دیں۔ منٹو شادی کی اس سماجی بنیاد اور اس میں خرابیوں کو نہیں سمجھ پایا لہٰذا اس نے اس طرح کے بے سرو پا کردار گھڑے۔
منٹو کے ویژن کی کمزوری اور تفکر کا اتھلا پن اس کے افسانوں میں ’سادہ اور معصوم دل والی طوائف ‘ کی وجہ ہے۔پارٹیشن کے پس منظر میں لکھے جانے والے افسانے جن میں جنسیات وغیرہ کا موضوع رہتا ہے، اوپر زیر بحث لائے جانے والے ’نفسیاتی‘ افسانوں سے مختلف نہیں۔ کچھ میں عورت استحصال زدہ مخلوق ہے اور کچھ میں تقسیم ملک کے بعد ہونے والے فسادات میں اس ظلم کا شکار ہو گئی۔ اس طرح اس کی کردار نگاری دونوں شکلوں میں یک طرفہ رہ گئی۔ یہ بات یقیناًباعث صدمہ ہے کہ عورت کسی ظلم کا شکار ہو گئی لیکن بطور ایک ادبی کردار کے وہ خود ان حالات میں کس کرب سے گذر رہی ہے، منٹو کہیں نہیں دکھا سکا۔ سو کینڈل پاور کا بلب، کھول دو جیسے افسانے میلو ڈرامیٹک اثر سے بھرے ہونے کے با وجود اعلیٰ ادب نہیں کہلا سکتے کیونکہ ان میں موجود المیہ اتفاقی ہے، کرداروں کی کسی غلطی یا کَرنی کے باعث نہیں۔ جنسی استحصال کی ظالمانہ اشکال ہمارے معاشرے میں پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں اور اس سوال کا جواب نفسیات سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کا زیادہ تر شکار چھوٹے طبقات کی عورتیں ہی کیوں ہوتی ہیں جبکہ اعلیٰ طبقے میں یہ لبرل ازم یا موڈرن ازم کہلاتا ہے۔ مرد نے عورت کو ازلی ذلت دینے کا جو سب سے گھناؤنا طریقہ بنا رکھا ہے وہ یہی استحصال ہے، کیا اس کی وجہ صرف ایگو، لبیڈو، یا اس طرح کی کسی چیز میں گڑ بڑ ہے؟ہماری بحث نفسیات کے کھوکھلے پن سے نہیں، بلکہ فطرت نگار ادیب کے یک طرفہ پن اور اس کا کلیت سے قطع تعلق ہی ہمارا نکتۂ اعتراض ہے۔ دوسری طرف، طوائف کے بارے رومانوی متھ (جو بعض فلموں کا بھی موضوع رہی) کی نفی اس بات سے کی جاتی ہے کہ خاص کر طوائف ولگر، احساس سے عاری بھی ہوسکتی ہے اور اس کا مرد پر حاوی ہونا صرف جنسی جذبے کی وجہ ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ یہ جنسی مکاری sensuality تباہ کن اور رسوا کن ہے۔ منٹو میں اکثر مقامات پر نفسیاتی تعیین psychological determinismنظر آتا ہے لیکن وہ نہ تو طوائف کے کسی روپ کو ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے نہ ہی اس کا کہانی سے کوئی منطقی تعلق بنتا ہے۔ مثلاً اس کے کردار جا بجا نسوانی اعضا کی نمائش کرتے ہیں۔ یا جنسی جذبوں کے بارے میں سطحی سی گفتگو نظر آتی ہے۔ جنسی جذبے جو خدا نے انسان میں رکھے، ان کے بارے میں بات کرنا کوئی فحاشی نہیں، لیکن اگر وہ کہانی کے کردار یا واقعات کا منطقی حصہ نہیں تو کیا ہیں؟ کیا ان کی مثال فلموں میں عام پائے جانے والے سین جیسی نہیں جس میں ہیروئن اچانک بارش میں پھنس جاتی ہے اور پھر گانا بھی گاتی ہے؟نہ تو اس گانے میں کوئی موسیقیت ہوتی ہے جو دل کے تار چھیڑ سکے، نہ ہی اس رقص میں کوئی فن، جو صرف سفلی جذبوں کی تسکین کے لئے ہوتا ہے۔
لیکن ادب میں ’سہنا‘2؂ آخر ہے کیا؟ یہ کہاں سے آ جاتا ہے؟ کیا یہ اتنابیان کرنا ہے کہ کوئی مجہول طور پر کسی دوسرے کے عمل کے تحت ہے؟ صرف اس لئے کہ انسان حسیاتی، ادراکی، خیالی (خیال کی تشکیل کرنے والی) مخلوق ہے، فطرت اور معاشرے کے بہت سے پہلو اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چونکہ (ان وسیع معنوں میں)وہ جو کچھ سہتا ہے اسے محسوس بھی کرتا ہے اس لئے اس کے جذبے بھی ہیں۔ جذبہ وہ قوت ہے جو خود اس شے پر واپس آ تا ہے جو اس جذبے کی وجہ ہے۔ معنی بھی اسی لئے ممکن ہیں کہ انسان جو کچھ سہتا ہے وہ محسوس بھی کرتا ہے۔ اس جاننے اور محسوس کرنے کے عمل پر منحصر جذبے میں ہی انسانی کے قدیمی اقدار primitive valuesبھی قائم ہوئیں۔ ہر وہ چیز جو انسان کواس وسیع تر عمل میں ڈالتی ہے اس انسانی، سماجی تانے بانے میں اپنا مخصوص مقام رکھتی ہے اور اس طرح سہنا بذات خود اقدار کی تخلیق کرتا ہے لہٰذا مجہول نہیں بلکہ فعال ہے۔کوئی بھی سہنا بغیر جذبے کے نہیں؛ صر ف خارج کے میکانکی طور پر زیر اثر آنا نہیں۔اور جذبے کے بغیر احساس بھی بے معنی ہے کیونکہ انسان اپنے تمام تعلقات میں فعال ہے۔ سہنا، احساس اور جذبہ اس طرح جدلیاتی طور پر مربوط ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک کردار خود سے کسی عمل کا حصہ ہی نہیں، تو وہ فوٹو گرافی کی پلیٹ کی طرح ہے جس پر جیسی بھی چھاپ لگ جائے ا سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔یعنی اس طرح ہم کردارکے انسانی وصف نہیں جان سکتے۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ خود کسی قسم کے عمل کا نشانہ ہو، اور ایسی بے بسی کی حالت میں خود سے کچھ نہ کر سکتا ہو۔ خاص طور سے جب وہ کسی ظلم و ستم کا شکار ہو اور اس کو ختم کرنے یا اس کے خلاف کسی جدو جہد ناممکن ہو۔ یہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر پائی جانے والی حقیقی صورت حال ہے۔ ایسے میں ادیب کا کام کئی گنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ اس سارے تانے بانے کو اس طرح بیان کرے کہ ایک کردار کے تمام خد و خال اپنی پیچیدگی، کثیر پہلو تعلق میں واضح ہو جائیں اور اخبار کی طرح ایک فرد کی کہانی نہ رہیں بلکہ اس پورے گروپ یا طبقے کی نمائندگی کریں جس سے اس کا تعلق ہے۔

انقلاب پسند__ اس افسانے میں منٹو ہیرو کے ’’مضطرب دماغ‘‘ کی ’’نفسیات‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے۔اس کے پاگل پن کی علامات یہ ہیں کہ اس نے منٹو کے افسانے پڑھنے کے بجائے ’’غیر ملکی مصنفوں کی بھاری بھرکم تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا‘‘۔ پھر اس نے دو فلمی تصاویر باہر کوڑے میں پھینک دیں جو اسے روح کی بالیدگی یا شائد کوئی خاص قسم کی تسکین مہیا کرتی تھیں۔یا تو منٹو کا وژن کمزور ہے کہ وہ انقلاب سے مراد ذہنی پریشانی اور طبیعت میں عدم ٹھہراؤ سمجھتا ہے، یا وہ انقلابی سوچ کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے ۔گالی گلوچ اور برائی کو بے نقاب کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اسی لئے اس انقلابی کا کردار انتہائی قابل رحم اور مایوس کن صورت میں دکھایا ہے۔ اس کردار کے منہ میں بڑے انقلابی مکالمے بھی ڈالے ہیں لیکن ان کو ایک منفی رنگ دینا،کہ بجائے ارد گرد کی دنیا کی ٹھیک ٹھیک سمجھ میسر ہو، یہ انقلابی خیالات ذہنی گڑ بڑ کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا کی سمجھ، بجائے اس کے کہ ذہنی خلل پیدا کرے، ذہن کی تمام آلائشیں ختم کر دیتی ہے۔ وہ چیز جو پہلے دھندلی نظر آتی تھی اب صاف سجھائی دیتی ہے۔

بابو گوپی ناتھ__ کرداروں کا جمعہ بازار جو یہ دکھانے کے لئے ہے کہ وہ ’’عجیب وغریب‘‘ آدمی ہے۔اگر صرف یہ دکھایا جائے کہ وہ فضول خرچ اور عیاش ہے تو ’’عجیب وغریب‘‘ ثابت نہیں ہوتا، لہٰذا افسانے میں اسی طرح گھوم پھیر Twistآتا ہے جیسا کہ ’’نطفہ‘‘ میں آیا تھا۔سطحی قاری کو یہی احساس ہوتا ہے کہ بابو اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود بہت قابل تعریف کردار ہے اور اس کا عمل اچھائی کو بڑھوتری دینے کے لئے ہے۔ منٹو نے اپنے آپ کو تنگ نظر اخلاقی نکتۂ نظر سے بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف تو بابو اپنی برائیوں کی تلافی کرتا ہے، دوسرے وہ بوڑھے مرد اور عورتوں کی بوڑھی اور بانجھ اخلاقیات کی داد حاصل کرتا ہے ۔ نیکی کے جو منصوبے اس افسانے میں نظر آتے ہیں وہ موجود سماجی ڈھانچے کی غلط سمجھ پر مبنی ہیں۔اس درجے پر ہم منٹو کے کرداروں، واقعات اور ساخت کو ان کے خالق کی ناقص تنقید، اس کے اپنے ارادوں، کے مقابل نہیں لاتے بلکہ اس حقیقی زندگی کے سامنے لاتے ہیں جس کی یہ نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس مواز نے سے پتہ چل جاتا ہے کہ منٹو کی نفسیاتی یا ’ترقی پسندانہ‘ ادبی تخلیق کس حد تک سماجی سچائیاں بیان کرنے کے قابل ہے۔
یہ تضادات کسی ذہین مصنف کی ارادتاً بنائی گئی لطافتیں نہیں، ان کی وجہ وہ کھردری اور بھدی ادبی تکنیک ہے جو اسی طرح کے بھدے اور کھردرے احساسات اور مضحکہ خیز سوچ کے ساتھ متوازی چلتی ہیں جو آ ج سے کچھ عرصہ پہلے کے غیر سنجیدہ قاری میں پائی جاتی تھیں۔ اسی بنا پر منٹو کے اکثر افسانوں کے آخر میں ایک thrillگھوم پھیر twist آتا ہے جو اس کے برے کردار کو اچھا اور اچھے کردار کو برا بنا دیتا ہے۔ منٹو اپنے تخلیق کئے گئے کرداروں اور عام زندگی میں پائے جانے والے ایسے افراد کے مابین فرق نہیں کر پایا۔ اس وجہ سے یا تو وہ ہاتھی جتنے بڑے ہو جاتے ہیں لیکن آخر میں ایک سوئی اس ربڑ کے ہاتھی سے تمام ہوا نکال دیتی ہے۔ یا وہ چوہے جتنے چھوٹے نظر آتے ہیں اور ان میں ہوا بھر دی جاتی ہے۔ ہم کسی بھی ادب پارے کو نفسیات یا سماج کا مقالہ بنا کر نہیں پڑھ سکتے لیکن منٹو کے افسانوں میں سنسنی خیز thrillingواقعات، ناقابل یقین اتفاقات، میلو ڈرامہ کے اثرات، مضحکہ خیز طور پر مسخ کئے گئے کردار اور غباروں کے ساتھ جوڑے گئے کردار مل کر اس سماجی تنقید کو کھوکھلا اور بے رنگ بنا دیتے ہیں۔
برصغیر کی جدید تاریخ میں سب سے اہم واقعہ ملک کی تقسیم ہے۔ یہ اپنے ساتھ بہت سی معاشی، سیاسی، اور معاشرتی تبدیلیاں لے کر آیا۔مثلاً انگریزوں کے بنائے ہوئے سیاسی اداروں کا ارتقا ہندوستان اور پاکستان میں مختلف اشکال میں رونما ہوا۔ یہاں مذہب کا مثبت اور منفی روحانی کردار ختم ہو کر ایک بے روح معاشرے کی روح بن گیا۔ منٹو کا ملک وہ تھا جس میں پرانے سماج کی مثبت اقدار ختم ہو رہی تھیں لیکن منفی اقدار پوری شدت سے قائم تھیں؛ نیا سماج انسانی اقدار کی نشو و نما کرنے سے قاصر تھا، لیکن اس کی تمام گندگیاں اپنی پوری نحوست کے ساتھ آن دھمکی تھیں۔ جب معاشرہ انسانیت اور اچھائی کے معنی ہی متعین نہیں کر سکا تو لازمی طور پر غیر انسانی ادب ہی تخلیق ہو گا جس میں طنز و مزاح محروم طبقوں کا مذاق اڑانے یا مخالفین کی ہجو سرائی پر مبنی ہو گا۔ سنجیدہ ادب تجرید، دیو مالا، روحانیت، یا پر اسراریت جیسے ڈھکوسلوں تک گر جائے گا، بالکل اسی طرح جیسے قدیم معاشروں میں علم مافوق الفطرت جہالت تک گر جاتا تھا۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ کسی طرح کی انسان دوست علمی روایت کی عدم موجودگی میں علم اور فلسفے کو بیکار مشغلہ کہنا، بلکہ اس کا مذاق اڑایا جانا لازمی ہے اور اس تناظر میں سنجیدہ ادب لفظوں کے مداری پن تک محدود ہو جائے گا اور علم کے والی وارث وہ لوگ بن جائیں گے جن کا خود علم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ منٹو نے خود اپنی آنکھوں سے یہ کچھ ہوتے دیکھا۔ لیکن اس کا وژن یک طرفہ رہا اور وہ معاشرے کو وسیع تناظر میں نہ دیکھ پایا۔ منٹو دل سے ’تقسیم ملک ‘کے خلاف تھا، لیکن اسے خود معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں اس کے خلاف ہے۔ انگریزی راج مختلف چیز ہے۔ اس سے متعلقہ اس کا افسانہ ’نیا قانون‘ ایسے ہیرو کو سامنے لاتا ہے جو سادہ لوح فلسفی ہے۔ اس کی سوچ کا میعار صرف اتنا ہے کہ انپڑھ تانگے والوں کو متاثر کر سکے۔ افسانے میں اُس کی مہم جوئی کیا آزادی کی تحریک کے لئے جدو جہد کرنے والوں کا مذاق اڑانے کے لئے ہے؟ ایک اور اندازسے اس افسانے کو پڑھا جاسکتا ہے کہ منٹو نئے آئین سے غلط توقعات رکھنے کا کھوکھلا پن بتا رہا ہے۔آزادی قانون یا آئین سے حاصل نہ ہوگی تو کیسے جیتی جائے گی؟ منٹو کا کوئی ویژن نہیں۔ لیکن یہ وہ کچھ پڑھنے والی بات ہو گی جو افسانے میں نہیں۔ منگو تانگے والا حقیقت پا لیتا ہے لیکن اپنی احمقانہ تجربے کے ذریعے۔ یہ کسی ایسے شخص کا المیہ نہیں جو اس وقت کے سماجی حالات سمجھتا تھا،نہ ہی یہ ایسا کردار ہے جسے لاکھوں کروڑوں آزادی سے محبت کرنے والوں کا نمائندہ کہا جا سکے۔ آزادی حاصل کرنے میں ناکامی المیہ تو ہو سکتا ہے، ٹھٹھے یا مذاق والی بات نہیں!
نئے ملک تو بن گئے۔ ایک نئے ملک میں پیدا ہونے والی خرابیاں اس کی نظروں سے اوجھل تھیں۔ اس کے خیال میں مذہبی منافرت، بطور ایک تجرید کے ہی سب سے بڑی وجہ تھی جو ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے کے خلاف بھڑکا رہی تھی لیکن اس مذہبی منافرت کی بنیاد پر معاشرتی اور سیاسی ادارے جس طرح سے استوار ہو رہے تھے، اور جس طرح سے انسانی ذہن زہر آلود ہو رہا تھا اس کے بارے منٹو کے افسانوں میں ایک لفظ بھی ان کے بارے میں نہیں ملتا۔ اسی لئے منٹو کے وہ تمام افسانے جوپارٹیشن کے گرد گھومتے ہیں صرف ایک حیران کن یا میلو ڈرامیٹک تاثردینے تک محدود ہیں۔چونکہ اس میں فکری گہرائی کا فقدان ہے،وہ ان مسائل کو پورے پہلوؤں کے ساتھ سمجھ نہ سکا۔ پھراس کا تخیل کسی بھی درجے کا ادبی خاصہ نہیں لئے ہوئے، اس لئے جو حالات و واقعات اسے بُرے لگے، ان کے بارے اس کا رد عمل انتہائی نچلے درجے پرہی رہا اور گالیوں سے آگے نہ جا سکا۔ موتری،ٹینٹوال کا کتا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جیسے افسانوں میں زور اس بات پر ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، لیکن ان کی نفرت انسانیت سے نفرت کیسے ہے، کہیں بھی نظرنہیں آتا۔ دوسرے مذاہب سے نفرت توہر مذہب میں پائی جاتی ہے اور ہر مذہب والے یہی کہتے ہیں کہ صرف ان کا مذہب ہی خدا کا بنایا ہوا ہے اور باقی کے تمام انسانی ذہن کی پیداوار ہیں؛ صرف وہی لوگ اس سے بالا جاتے ہیں جو انسانیت کو اپنا دھرم مانتے ہیں، جن کے خیال میں سب سے بڑی سچائی خود انسان ہے۔ منٹو انسانیت کا ایسا کوئی وژن نہیں رکھتا،لیکن اپنے ناول ’غدار‘ میں کرشن چندر اس کی جھلک دکھاتا ہے۔ اس میں بھی موضوع دو مذاہب کے ماننے والوں کی آپسی نفرت ہے، لیکن ایک کی دوسرے سے نفرت، ایک مذہب کی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے نفرت نہیں؛ بلکہ ایک تعصب کے ہاتھوں انسانیت کی نفی ہے۔
’’مرنے والے کی زبان پر آخری نام خدا کا نام تھا اور مارنے والے کی زبان پر خدا کا نام تھا اور اگر مرنے اور مارنے ولوں کے اوپر، بہت دور اوپر، کوئی خدا تھا تو بلا شبہ بے حد ستم ظریف تھا!
اور (اگرچہ یہ مکالمے کسی کردار کے منہ میں ڈالنے کی ضرورت نہ تھی)
’’ارے یہ نامکمل، ناپختہ تہذیبیں اپنے دامن میں کتنے گہرے اندھیروں کو چھپا کر رکھتی ہیں۔ یہ ہندو تہذیب اور مسلم تہذیب، عیسائی تہذیب اور سکھ تہذیب، یورپی تہذیب اور ایشیائی تہذیب۔ ان چمکتی ہوئی تہذیبوں کے اندر کتنی کھائیاں، کیسی کیسی خوفناک تاریکیاں مستور ہیں لیکن وہ بتاتے نہیں ہیں۔ وہ جو شب روزن ان تہذیبوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، وہ بتاتے نہیں ہیں اور جو کچھ وہ بتاتے ہیں وہ بہت ہی خوب صورت، پر شکوہ اور شاندار ہوتا ہے اور اگر کوئی جرات کرکے اس تہذیب کی خوشنما قبا کر ہٹا کر دیکھنا چاہے تو اسے غدار سمجھ کر قتل کر دیا جاتا ہے یا اس کی پیٹھ میں بلم بھونک دیا جاتا ہے۔‘‘

منٹو اور اس قسم کے ادیبوں کی بھدی ادبی تکنیک کا دوسرا پہلو چیزوں کی نمائندگی کے بجائے ان کومحض بیان کرنا ہے۔ اور اس کا تعلق مصنف کی بیانی تکنیک سے ہے۔منٹو کے ہاں کسی بھی چیز جگہ یا شخص کی پوری منظر کشی کی جاتی ہے، ایک ایک تفصیل بیان ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ منظر نگاری یا جزئیات نگاری اور غیر ضروری تفصیل میں کیا فرق ہے۔ اسی سوال کو دوسرے الفاظ میں ہم ادا کریں گے کہ آیا کوئی بھی تفصیل یا بیان فن پارے میں موجود “ادبی خیال”کے لئے ناگزیر ہے یا فالتو قسم کی تفصیل ہے۔(یہ اردو تنقید کی پسماندگی ہے کہ جہاں مصنف غیر ضروری اور بے معنی تفصیل میں الجھ جاتا ہے اسے جزئیات نگاری یا منظر نگاری کہا جاتا ہے!) یا یوں کہیے کہ جو پس منظر، یا settingبنائی گئی ہے وہ فن پارے کی باقی کی چیزوں، جیسا کہ مکالمے، ایکشن، وغیرہ کا منطقی حصہ ہیں یا نہیں۔ منطقی حصہ سے مراد یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں مل کر کلیت organic whole بناتی ہیں کہ نہیں۔
کسی بھی اچھے مصنف میں ہم ان حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اس طرح سے کلیت میں جڑ کر اور کرداروں کے عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ وہ سماجی اہمیت ہے جس میں کردار رہتے ہیں۔ منٹو جیسے فنکاروں میں ہم صرف تماشائی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ واقعات میں تھوڑی بہت دلچسپی بنتی ہے۔ نتیجتاً اس کے افسانے ایک طرح کے ٹیبلو تک محدود ہو جاتے ہیں۔ اور ہم صرف ان کا مشاہدہ کر پاتے ہیں۔
تجربے اور مشاہدے کے مابین مخاصمت اتفاقی نہیں۔ یہ مصنوعی قسم کے ’’ہئت میں تجربوں‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی بنیاد زندگی کے بارے مختلف رویے، نکتۂ ہائے نظر، اور تجربے ہیں۔اردو میں شروع کے قصوں اور بعد ازاں فسانۂ آزاد وغیرہ میں جو بیان موجود ہے وہ غزل کی طرح لفظوں کا ’’بھٹیار خانہ‘‘ہے جس میں زندگی کی حقیقتیں نہ ہونے کے برابر ہیں یا انتہائی مشکل سے نکالنا پڑتی ہیں جسے دور کی کوڑی لانا کہا جاتا ہے۔ ان میں بیک گراونڈ کا سطحی بیان، اور کردار کی خارجی خصوصیات ہی کردار سازی کے لئے کافی سمجھی جاتی تھیں، یا زیادہ سے زیادہ واقعات کے بارے کردار کے رد عمل تک محدود تھیں۔ جدید دور میں یہ طریق کار ناکافی تھا۔ اسی لئے جب پریم چند ’’بیان‘‘ کرتا ہے تو اس کا بیان مختلف پہلو لیے ہوتا ہے کیونکہ پیچیدہ اور کثیر پہلو کردار نگاری اسی طرح ممکن ہے۔ منٹو میں ’’بیان‘‘ کا کام بالکل مختلف ہے۔ پریم چند میں یہ کثیر پہلو اس نئی دنیا سے آتے ہیں جس میں انسانی اور طبقاتی تعلقات اب پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ ان کی شکل تبدیل ہو رہی ہے۔پریم چند تو خود اس کا تجربہ رکھتا تھا۔ وہ ترقی پسند تحریک میں سر گرم رہا تھا۔ دوسری طرف منٹو نے اس طرح سرگرمی سے زندگی میں حصہ نہ لیا۔ وہ اپنی لذت پرستی کی دنیا میں کھویا رہا۔ وہ دنیا میں ہونے والے واقعات کا فقط تماشائی تھا۔ اس المیے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے سرمایہ دارانہ معاشرے میں محنت کی تقسیم کار کی وجہ سے پیدا ہونے والے مختلف پیشوں میں سے ایک، یعنی لکھنے کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اب مسئلہ صرف اتنا رہ گیا کہ لذت پرستی کی تسکین کیسے ہو! ایک شراب کی بوتل تمام زندگی کا مطمأ نظر بن گیا، تو نہ ادب رہا، نہ حقیقت نگاری، نہ زندگی، نہ اس میں شرکت۔لیکن وہ جانتاتھا کہ منڈی میں کون سا سودا بکتا ہے۔ یہ ہے جنسیات کے بارے گھٹیا قسم کا ادب۔
اپنے نقطۂ نظر کی تشریح کے لئے چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
’’امراؤ جان ادا‘‘ کا ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیں:
’’باپ کے مرنے کا حال سن کر مجھے بہت رنج ہوا۔ اس دن رات بھر رویا کی۔ دوسرے دن بے اختیار جی چاہا بھائی کو جا کے دیکھ آ ؤں۔ دو دن کے بعد مجرا آ گیا، اس کی تیاری کرنے لگی۔ جہاں کا مجرا آیا تھا، وہاں گئی۔ محلے کا نام یاد نہیں۔ مکان کے پاس ایک بہت پرانا املی کا درخت تھا، اسی کے نیچے نمگیرہ تانا گیا تھا۔ گرد قناتیں تھیں۔ بہت بڑا مجمع تھا۔ مگر لوگ کچھ ایسے ہی تھے۔ قناتوں کے پیچھے اور سامنے کھپریلوں میں عورتیں تھیں۔ پہلا مجرا کوئی نو بجے شروع ہوا، بارہ بجے تک رہا۔ اس مقام کو دیکھ کے وحشت سی ہوتی تھی۔ دل امنڈا چلا آتا تھا۔ صاف یہی جی چاہتا تھا کہ یہیں میرا مکان ہے۔ یہ املی کا درخت وہی ہے جس کے نیچے کھیلا کرتی تھی۔ جو لوگ محفل میں شریک تھے ۔ ان میں سے بعض آدمی ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے ان کو دیکھا ہے۔ شبہ مٹانے کے لئے قناتوں سے باہر نکلی۔ گھروں کی قطع کچھ اور ہو گئی تھی۔ اس سے خیال ہوا شاید یہ وہ جگہ نہ ہو۔ ایک مکان کے دروازے کو غور سے دیکھا کی۔ دل کو یقین ہو گیا تھا کہ یہی میر ا مکان ہے‘‘
ہمارے نقادوں کو ہر ادیب کے بارے ایک آدھ فقرہ چاہئے ہوتا ہے ۔ کسی نے یہ بیہودہ فقرہ اڑا دیا کہ یہ ناول لکھؤوٗ کی تہذیب کے بارے میں ہے۔لکھنؤ کے عروج کے زمانے میں کثرت سے طوائفیں تھیں، بڑے پیمانے پر عصمت فروشی ہوتی تھی۔ معاشرہ اگر کچھ اور نہیں تو اس کو پسندیدگی کی نظر سے تو دیکھتاہی تھا۔ لکھنوی ادب اور فنون لطیفہ میں عورت کی نمایاں حیثیت کی بنیاد اسی عصمت فروشی پرہے۔ وہ اپنی بناوٹی زندہ دلی اورخوش گوئی اور فنون لطیفہ کے ’اعلیٰ ‘ذوق کی بدولت قدیم نسائیت کی عام سطح سے اس قدر بلند تھیں جس قدر گھریلو عورتیں اپنے کردار کی بدولت وہ مقام حاصل کرنے سے قاصر تھیں۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس تہذیب میں گھریلو عورت کو کتنا پست مقام میسر تھا۔ لکھنؤ کے خاندانی نظام اور ثقافت کی پستی کا اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا کہ عورت کو اپنا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے پہلے طوائف بننا پڑتا تھا۔یا یوں کہئے کہ یہ ثقافت عورت کے بطور انسان معنی وضع کرنے میں ناکام رہی اور جو چیز اس کے لئے باعث ندامت ہوتی، وہی اس کے لئے فخر کا باعث بن گئی۔یہ اس تہذیب کے اتھلے پن اور بیہودگی کا ثبوت ہے کہ اس کی بنیاد طوائف کی مصنوعی مسکراہٹ اور جھوٹی اداؤں اور اس کے روغن شدہ چہرے پر قائم تھی۔لیکن عورتوں کی یہ گراوٹ مردوں کو بھی متاثر کئے بغیر نہ رہی۔ اس نے انہیں بھی اخلاقی پستی کے گڑھے میں گرا دیا یہاں تک کہ وہ لڑکوں سے محبت کے جنسی مرض میں مبتلا ہو گئے اور پھر بڑے طمطراق سے اس پر شعر کہنے لگے۔اس طرح انہوں نے خود کو بھی رسوا کیااور ادب و فن کو بھی ۔
لکھنؤ کی تہذیب ایک پس منظر ہے جس میں امراؤ جان ادا،ایک طوائف، جو صرف طوائف نہیں، ایک عورت بھی ہے، دنیا کو اس دہرے وژن سے دیکھتی ہے۔ اگر وہ صرف ایک طوائف ہے اور یہ ناول اس تہذیب کا قصیدہ ہے تو اسے فخر کرنا چاہئے کہ اسے کیا ’عظیم ‘مقام عطا ہوا، اور وہ کس اعلیٰ تہذیب کی نمائندہ ہے! اوپر دیے گیے اقتباس میں عورت طوائف پر حاوی ہے لیکن یہ بیک گراؤنڈ ختم نہیں ہو گئی۔ اس اقتباس کی تمام تفصیل موضوع سے ہم آہنگ ہے۔ اس میں کوئی بھی فالتو چیز نہیں بلکہ اس کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو اور بھی واضح کرتی ہے۔ منٹو کے بہت سے افسانے ’’طوائف‘‘ کے موضع پر ہیں۔ اکثر میں طوائف دکھی، پسی ہوئی، مظلوم مخلوق ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے اس اذیت میں مبتلا ہے۔ منٹو کا زور جنسی استحصال پر ہے۔ وہ کسی بھی افسانے میں اس موضوع کو پورے پس منظر میں بیان نہیں کر سکانہ ہی کردار کو اتنی وسعت کے ساتھ پیش کر سکا ۔کردار ایک بیک گراؤنڈ میں رکھ دیا جاتا ہے اور پھر اس سے نفسیاتی نزاکتیں ڈھونڈی جاتی ہے۔
اعتراض ہو سکتا ہے کہ امراؤ کا اس جگہ آنا اتفاقی امر ہے اور منٹو میں بھی کردار اتفاقیہ طور پر اپنے آپ کو کسی صورت حال میں پاتا ہے۔ (بلکہ کہنا چاہئے کہ ستر فیصد افسانوں میں ایک ہی سیٹنگ میں ہوتا ہے) اصل سوال یہ ہے کہ نثری ادب میں اتفاق سے کیا مراد ہے؟ اگر ادب میں اتفاقی نہ ہو تو زندگی کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اصل کام اتفاقی کو ناگزیر کے ساتھ جوڑنا ہے۔ یہ نمائندگی ہی ہے نہ کہ نرا بیان جو کسی چیز کو ناگزیر کی شکل دے سکتا ہے۔ یہ ناگزیر پن کردار کے اشیا اور واقعات کے ساتھ تعلق سے جنم لیتا ہے جس میں وہ واقعات میں فقط رکھے نہیں گئے بلکہ ان میں کچھ کرتے بھی ہیں اور دکھ بھی اٹھاتے ہیں۔عمل سے مراد ہ یہ نہیں کہ وہ کوئی لنکا ڈھاتے ہیں، بلکہ ان کے افعال کا اس سیٹنگ پر اور اس سیٹنگ کا ان پر اثر ہے۔سیٹنگ کی تفصیل سماجی گرد وپیش کے اظہار کے لئے ضروری ہے۔ اتفاقی سیٹنگ، کسی بھی سین کے لئے کوئی حادثاتی واقعہ، افسانے یا ناول میں اہم چیز ہوتا ہے ۔منٹو میں اس سیٹنگ کی آزاد حیثیت بن جاتی ہے ۔کردار اس سیٹنگ کا فقط مشاہدہ کرتے ہیں، وہ اس سے علیحدہ وجود نہیں رکھتے، وہ اس کا غیر ضروری پھیلاؤ بن جاتے ہیں ۔اسی لئے وہ تصویر میں رنگ کے بے ہنگم تھوبے لگتے ہیں _ایسی تصویر جس میں کوئی ” کُل ” نہیں۔اس کی اہمیت حالات کی موضوعیت پر منحصر نہیں، بلکہ یہ مصنوعی اسلوب نگاری کی ایک قسم بن جاتی ہے۔ منٹو کے افسانوں سے چند مثالیں حاضر ہیں۔

سڑک کے کنارے__ ایک نقاد نے اس میں’’ کائناتی وژن‘‘ اور منٹو کے وژن میں وسعت کی بات کی ہے جو اب جنس کے جسمانی نظریے سے آگے ’’انفرادی اور کائناتی میں تحلیل ہو چکا ہے‘‘۔اس نقاد کے خیال میں ’’ازلی گناہ‘‘ اور اس کا بنیادی کفارہ جو صرف عورت ادا کرتی ہے، پدر سری معاشرے کی وجہ سے نہیں، یعنی اس کا تعلق عورت کی اس معاشرے میں حیثیت سے نہیں، یہ تواس کے سر کسی انہونی، ان دیکھی طاقت نے تھوپ دیا ہے جو کہیں اس’’آفاقیت‘‘ سے برامد ہوئی ہے۔ پتہ نہیں ہمارے نقادوں کو ہر ادب پارے میں سے آفاقیت ڈھونڈنے کا اتنا شوق کیوں ہے۔ آفاقیت بغیر مخصوص، یا particularکے نہیں بنتی۔آفاقی تو صرف وہ تحریریں ہیں جو کسی مذہبی یا روحانی نظریے کی بنیاد پر ہوں۔ چونکہ وہ آفاقی اور کائناتی ہوتی ہیں،لہٰذا کسی چیز کے بارے کچھ نہیں بتاتی۔ زندگی روحوں کا سمٹ کر ایک ہو جانا صرف اس طرح سے ہے کہ’’دو روحیں سمٹ کر اس ننھے سے نقطے پر پہنچتی ہیں جو پھیل کر کائنات بن جاتا ہے‘‘ یہ افسانہ ایک عام سی فلمی کہانی لگتا ہے جس میں ایک عورت اس طرح کے واقعے کے بعد سماج کی دیواروں سے سر ٹکراتی پھرتی ہے۔کہانی میں جذبات کے بہاؤ کا یک طرفہ پن ہے، یعنی ماں بننے کے احساس کے ساتھ ساتھ احساس جرم جو اس معاشرے نے اسے دیا ہے پورے افسانے میں موجود نہیں۔ جیسا کہ اوپر بحث کی گئی ہے منٹو کے کردار خود سے کسی ایکشن میں شامل نہیں ہوتے بلکہ ایک بنی بنائی صورت حال میں اپنے آپ کو پاتے ہیں۔اس کہانی میں عورت کا کردار خود اپنے ایکشن کے بارے کوئی با معنی لفظ نہیں کہتا۔مرد کے کردار کو دیکھیں؛ایک دکان دار کی طرح یہ روحوں کا سمٹ کر ایک ہونا صرف ’’لینے‘‘کا عمل ہے۔ محبت، حتیٰ کہ جنسی عمل ’’دینے‘‘ کا عمل ہے۔ مرد کا کردار کہتا ہے: تمہارے وجود کے جس جس ذرے کی میری ہستی کی تعمیر و تکمیل کو ضرورت تھی، یہ لمحات چن چن کر دیتے رہے……. اب یہ تکمیل ہو گئی ہے تمہارا اور میرا رشتہ خود بخود ختم ہو گیا ہے۔”یہ کون سے ’’وژن کی وسعت‘‘ ہے جس میں انسان کے کسی پہلو کی تکمیل ہو گئی ہے؟ محبت صرف جسمانی بنیاد پر نہیں، فقط ایک جذبہ نہیں، یہ تو مرد اور عورت کے درمیان لازمی، ضروری، فطرتی، تجربہ ہے، ایک انسانی تجربہ جس کی خوبصورتی ہر ادیب نے اپنے اپنے انداز سے بیان کی ہے۔یک طرفہ جذبہ، یا یک طرفہ تکمیل، پاگل پن یا احمقانہ پن کے سوا کچھ نہیں۔
موازنے کے لئے پریم چند کے دو اقتباس نقل کر رہا ہوں۔ پہلے اقتباس میں بیٹا ماں کے بارے سوچ رہا ہے اور دوسرے میں ماں اپنی بیٹی کے بارے میں۔ (دونوں اقتباس نرملا سے ہیں):
وہ( منسا رام) ابھی سکول سے آیا تھا اور بغیر کپڑے اتارے ایک کتاب سامنے کھول کر سامنے کھڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ایک بھکارن پر جمی ہوئی تھی جو اپنے بچے کو گود میں لئے بھیک مانگ رہی تھی۔ بچہ ماں کی گود میں بیٹھا ہوا بہت خوش تھا۔ گویا کسی تخت شاہی پر بیٹھا ہو۔ منسا رام اس بچے کو دیکھ کر رو پڑا۔ یہ بچہ کیا مجھ سے زیادہ سکھی نہیں ہے اس تمام دنیا میں ایسی کون سی چیز ہے جسے وہ اس گود کے بدلے میں پا کر خوش ہو۔ ایشور بھی ایسی کسی چیز کو نہیں بنا سکتا ایشور ایسے بچے کو پیدا ہی کیوں کرتے ہو جسے ماں کی دائمی مفارقت کا دکھ بھوگنا پڑا ہو؟ آج مجھ سا بد نصیب اس دنیا میں اور کون ہے؟ کسے میرے کھانے پینے کی، مرنے جینے کی سدھ ہے۔ اگر آج مر بھی جاؤں تو کس کے دل کو صدمہ پہنچے گا۔
دوسرا اقتباس:
بارہویں روز زچہ خانہ سے نکل کر نرملا نوزائیدہ بچے کو گود میں لئے شوہر کے پاس گئی۔ وہ اس نامداری کی حالت میں بھی اتنی خوش تھی گویا اسے کوئی فکر نہیں ہے۔ ننھی بچی کو سینے سے لگا کر وہ اپنے سارے تفکرات بھول گئی تھی۔ لڑکی کی کشادہ اور پرمسرت آنکھوں کو دیکھ کر اس کا دل شگفتہ ہو رہا تھا۔ مامتا کے اس ظہور میں اس کے سارے دکھ درد دور ہو گئے تھے۔ وہ لڑکی کو شوہر کی گود میں دے کر خوش ہو جانا چاہتی تھی مگر منشی جی لڑکی کو دیکھ کر سہم گئے۔انہیں اس کو گودی میں لینے کا حوصلہ نہ ہوا مگر انہوں نے ایک بار اسے دکھ بھری نگاہوں سے دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔ لڑکی کی صورت منسا رام کے بالکل مشابہ تھی۔
نرملا نے ان کے دلی خیالات کی کچھ اور ہی تعبیر کی ۔ اس نے سو گنے پیار کے ساتھ لڑکی کو سینے سے لگا لیا، گویا کہہ رہی تھی اگر تم اس کے بوجھ سے دبے ہو تو آج سے میں اس پر تمہارا سایہ نہ پڑنے دوں گی۔ جس دُر بے بہا کو میں نے اتنی ریاضت کے بعد پایا ہے اس کی تحقیر کرتے ہوئے تمہار کلیجہ نہیں پھٹ جاتا؟
دونوں تفاصیل ناول کے پلاٹ سے منطقی طور پر جڑی ہوئی ہیں اور اس میں کرداروں کے رویوں اور پلاٹ کے واقعات کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ یہ خوامخوہ کی غیر ضروری تفصیل نہیں ۔ نہ ہی ایسی سیٹنگ جس میں کردار مجہول ہوں؛ ان کا اظہار ان کے ایکشن کے ذریعے ہو رہا ہے۔ایکشن اور مکالمے ایک لڑی میں جڑے ہوئے ہیں۔
عالمی ادب سے تین مثالوں کی طرف اشارہ کروں گا۔ ایک تو زولا کے ناول Nanaمیں، اور دوسرے ٹالسٹائی کے ناول اینا کرینا میں گھوڑوں کی دوڑہے۔ زولا نے گھوڑوں اور متعلقہ اشیا اور ہجوم کی ایک ایک چیز کی تفصیل دی ہے جو مشاہدہ کنندہ کے موقف سے ہے۔ دوڑ کا نتیجہ توقعات کے خلاف ہے۔ تاہم یہ ساری منظر نگاری پلاٹ سے بہت ڈھیلے ڈھالے طریقے سے جڑی ہوئی ہے ۔نینا نام کا گھوڑا ہی جیتتا ہے اور ہیروئن اسے پیرس کی سوسائٹی میں اپنی فتح سے تعبیر کرتی ہے۔
اینا کرینا میں ’’دوڑ‘‘ ناول کا کرائسس ہے۔ ورونسکی کا گرنا اینا کی زندگی کا الٹ جانا ہے۔ اس کے بعد اس کی اپنے خاوند سے گفتگو بہت معنی خیز ہے اور ورونسکی اور اس کے تعلقات نیا موڑ لیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو زولا کے مقابلے میں اس میں نام نہاد جزئیات نگاری نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ کتنی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے اور پلاٹ کا جزو لا ینفک ہے۔
تیسری مثال لو شون کی ’’آہ کیو کی سچی کہانی‘‘ ہے ۔ وہ ہماری بحث سے اس لئے بھی بہت زیادہ متعلق ہے کہ اس میں ایک نفسیاتی موضوع بیان ہوا ہے، لیکن ہیرو کی ذہنی بنت خود اپنے آپ میں موجود نفسیاتی اصولوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ جاگیردارانہ معاشرے میں اس کے پست مقام کی وجہ سے ہے۔ یہ پرانے جاگیردارانہ سماج کے خلاف اس لڑائی کا سلسلہ تھا جو ’پاگل کی ڈائری‘ سے شروع ہوا، اور لو شون کی کہانیاں اس سماج کی غیر انسانی بنت کی قلعی کھولتی ہیں جو انسان کو انسانی درجے پر رہنے کا موقع اور وسائل فراہم کرنے کی بجائے اسے تذلیل اور کرب میں رہنے پر مجبور کرتا ہے ۔ بظاہر کہانی کا ہیرو آہ کیوزندگی سے ہٹا ہوا معلوم ہوتا ہے اوریہی چیز اسے زندگی کی وسیع تر نمائندگی کے قابل بناتی ہے۔ وہ اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں کرداروں کی نمائندگی کر رہا ہے، اس لئے وہ صرف کسی ’ایک‘ جیسا نہیں ہو گا۔ وہ بیک وقت ’ایک ‘اور ’بہت ‘سوں کے نمائندہ خصائص لے کر، سب کو اپنے آپ میں سموئے گا۔ اس طرح حقیقت نگار ادیب کا زندگی کی کلیت سے تعلق بنے گا۔3؂
کوئی بھی ادب پارہ سماجی مقالہ نہیں ہوتا نہ ہی کوئی نفسیاتی تجزیہ۔ہمیں اصلی اور ادب کے تخیلاتی fictional کرداروں میں فرق قائم رکھنا ہو گا۔ جب ادیب متاثر کن اور ’نمائندہ‘ کردار تخلیق کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے،تو اس کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا تو ادیب نا اہل ہے، زندگی جیسے کردار تخلیق کرنے کی بجائے وہ صرف کٹھ پتلیاں بناتا ہے جو اپنے آپ کے بارے ادیب کی آواز میں باتیں کرتے ہیں۔ یا وہ اس معاشرے کا منافع خور یا تنخواہ دار ٹٹو ہے۔ وہ شعوری یا لا شعوری طور پر ایسا تب کرتا ہے جب وہ حقیقت کو یا اپنے کرداروں کی منطق کو اس سمت میں مسخ کرتا ہے جو حاوی طبقات کے فائدے میں جاتا ہو، یا ان طبقات کی اخلاقی خود غرضی کو منصفانہ ٹھہراتا ہو۔اس خود غرضی کو منصفانہ ٹھہرانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ وہ اسے بڑی مزیدار اور اتھلے جذبات کو تسکین دینے والی چیز بنا نے کی کوشش کرے۔چھوٹے بڑے مصنفین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو صرف نام کمانے یا کتابیں بیچنے کے لئے ایسا ادب تخلیق کرتے ہیں جن میں کرداروں یا واقعات کے محرکات انتہائی گھٹیا اور نچلے درجے کے ہوتے ہیں، لیکن یہ کسی نہ کسی گروہ میں اپنی مارکیٹ ضرور بنا لیتے ہیں۔ اور بعض تو اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب بن جاتے ہیں!!!
ناول کی مثالیں بات واضح کرنے کے لئے تھیں۔ منظوم ڈرامہ پورے عہد کی نمائندگی کرتا تھا تو ناول اس کے انتہائی چھوٹے حصے کو۔ افسانہ، چاہے تجریدی ہو یا پلاٹ والا، وہ زندگی کے اور بھی چھوٹے حصے تک محدود رہ جاتا ہے،لیکن مثال کے لئے میں نے پریم چند کا افسانہ ’’عید گاہ‘‘اس لئے چنا ہے کہ اس میں ’’تفصیلات‘‘بہت ہیں۔ عید کی تیاریاں، بچوں کا ذوق، اور اس کے contrast میں حامد کی محرومیاں۔ اس کے بعد عید گاہ کا پورا منظر، جس کی ironicتفصیل حامد کی زندگی کے ساتھ ایک contrast بناتی ہے۔ کردار کا تسلسل بھونڈے یا مصنوعی طریقے سے مسلط نہیں کیا گیابلکہ پریم چند نے اس کو ایکشن میں دکھایا ہے۔ کردار کی خصوصیات (یا ان کے نہ ہونے )کا سارا دار و مدار صرف ایکشن میں ہی ہے۔ نت نئے حالات و واقعات کسی کردار کی خصوصیات کی نئی نئی جہتیں دکھاتے ہیں۔ غیر ضروری اور فالتو جزئیات نگاری ادب پارے کی ان پرتوں کو دھندلا دیتی ہے جبکہ ادبی سچائی سے متعلقہ لازمیت صحیح معنوں میں حقیقت کی نمائندگی کرتی ہے۔یہاں اتنی جگہ نہیں کہ ہم مختلف اصناف میں بیانی طریق کار کی وضاحت کریں لیکن اتنا کہنا ضروری ہے کہ بیان کی خود مختاری، یعنی جزئیات کا کُل سے آزاد وجود رکھنا انسان اور انسانی زندگی کی نمائندگی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ ایک طرف تو مصنف تمام تفصیلات کو مکمل طور پر اور منظر کھینچتے ہوئے بیان کرتا ہے لیکن مسئلہ تب کھڑا ہو جاتا ہے جب اس تفصیل کا کرداروں کی زندگی سے تعلق نہیں بنتا۔ یہ تفصیل ناول یا افسانے کی کلیت میں ایک پھوڑے کی طرح ابھر آتی ہے ۔یعنی اس کا اور کرداروں کے عمل کا دائرہ کا ر علیحدہ اور غیر مربوط ہو جاتے ہیں۔مکالمے اتنے ہی فلیٹ؛ جذبات، اور سیٹنگ عام زندگی جیسے ہو جاتے ہیں۔ (چڑی مارکہ نقاد اسے “زندگی کا عکس‘‘کہتے ہیں) اس انحطاط کا اگلا مرحلہ ’’کرداروں کی نفسیات‘‘ بیان کرنا ہے۔ فنکار کا اپنا نکتۂ نظر اس جوہڑ میں مینڈکوں کی طرح جا بجا چھلانگیں مارتا نظر آتا ہے اور وہ خود اپنے ہی تخلیق کئے ہوئے کرداروں کی سطح تک آن گرتا ہے۔ اور اس کا علم اتنا ہی ہوتا ہے جتنا اس کے کرداروں کا! اسی بنا پر منٹو کے کرداروں کے منہ کے ساتھ غباے بندھے نظر آتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ کہانی کو twistدیتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض نقاد منٹو کوخود اس کے کرداروں سے جوڑتے ہیں۔ اسی وجہ سے منٹو کی تفاصیل اور کردار میں کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ حقیقت کا یہی مسخ شدہ وژن اسے نام نہاد نفسیات کی پستی تک اترنے تک مجبور کر دیتا ہے۔
تنقید ایسے اذعانی بیانات کا مجموعہ نہیں جسے ایک بار دریافت ہونے کے بعد صرف حفظ کر لینا اور پھر کسی ادب پارے پر لاگو کر دینا ہی باقی رہ جاتا ہے۔ تنقیدی عمل اور ادبی تخلیق کا عمل اس طرح سے ایک ہو جاتے ہیں کہ یہ معاشرے کی ایک سطح سے دوسری سطحوں تک پہنچتے رہتے ہیں لیکن ایسے نقطے تک کبھی نہیں پہنچتے جہاں سے وہ کسی نام نہاد مطلق سچائی، یا گھڑے گھڑائے فارمولوں، جو نقاد کے خود اپنے ذہن کی پیداوار ہیں، سے آگے نہ جا سکتے ہوں اوروہ محض ہاتھ باندھ کر ان کے آگے کھڑے ہو جائیں۔اگرچہ اس طرح کی تنقید بارِ خر دتو ہو سکتی ہے لیکن یہ کسی طرح سے بھی قوموں کی علمی، ادبی، ثقافتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔ یہ بات علم، چاہے وہ کسی بھی چیز کے بارے میں ہو، درست ہے ۔ تنقید اور ادبی تخلیق اس طرح حرکت پذیراور آپس میں مربوط عمل بن جاتے ہیں۔ تنقید کی سب سے بڑی کمی یہ رہی ہے کہ کسی ادبی تخلیق میں اسے انسان کی نفسانی سرگرمی، عملی یا داخلی حیثیت سے نہیں دیکھا گیا۔ کامل سوسائٹی، حتمی فلسفہ، کامل ادب، حتمی تنقید ایسی چیزیں ہیں جن کا وجود محض خیالی ہو سکتا ہے۔ دوسری اہم دلیل کہ تنقید اذعانی بیانات کا مجموعہ نہیں جو جامد و ساقط ہو، یہ ہے کہ حقیقت پسند ادب اس پیچیدہ اور کثیر پہلو تعلق سے حقیقت کا کلیت میں بیان ہے۔ یہ کلیت حرکت پذیر ہے اور جو تنقید یا تخلیق اس سچائی کو تسلیم نہیں کرتی، وہ غوغائی نقادوں کے بے معنی فقروں تک محدود ہو جاتی ہے۔ ہاں! کسی میں ہمت ہے تو بامعنی تنقید کے چند جملے لکھ کر دکھائے۔

حواشی

1؂۔ہمارے ہاں کسی بھی ادب پارے کو نفسیاتی تنقید، سوانحی تنقید، عمرانی تنقید جیسے بنے بنائے فارمولوں سے پرکھا جاتا ہے۔ اس پر تین اعتراض کئے جا سکتے ہیں۔ایک تو یہ کہ تنقید کے پاس بذات خود کچھ نہیں رہ جاتا۔ یہ ایسا تجریدی اصول ہے جس کا کوئی مافیہ نہیں، یا جو مطلق ہے۔ اگر اس کے پاس خود سے کچھ نہیں تو اسے چاہئے کہ ادب پارے کو پرکھنے کا کام دوسرے علوم کے سپر د کر دے۔ دوسرے، ایک ادب پارے کو جتنے حوالوں، جیسے نفسیاتی، سوانحی وغیرہ سے پرکھا جائے گا، اتنے ہی ادب پارے ہوں گے۔ یعنی ایک ہی ادب پارہ ہر حوالے سے مختلف معنی رکھے گا اور اس تفریق میں وحدت کا کوئی اصول نہ ہو گا۔تیسرے، اگر ادیب نفسیاتی یا اسی طرح کے کوئی اور اصول سامنے رکھ کر ادب کی تخلیق کرے گا تو ایک تو اسے تخلیق کی آزادی نہ ہو گی اور اس کا کام صرف ان اصولوں کی تشریح رہ جائے گا۔ ان اصولوں کی بہتر اور ’حقیقی‘شکل اصلی زندگی میں موجود کسی فرد میں زیادہو گی۔

2؂۔ فقط ایک کردار کی بہت سی خصوصیات صرف ایک تک محدود نہیں رہتیں کہ فن کار حقیقی زندگی سے ایک کردار لے کر اس کو پوری تفصیل اورباریک بینی سے بیان کر دے۔اس طرح سے وہ انفرادی کردار تو رہے گا ہی حقیقت نگاری نہ ہو گا کیونکہ اس طرح کے بے شمار لوگوں کی، اس پورے طبقے کی’نقل‘ نہ ہو گی۔جب کسی بھی شے یا کردار کی ’نقل‘ کی جاتی ہے تو خود اس کے ایسے خاصے ہونے چاہئیں جو اہمیت رکھتے ہوں اور ان کو فن کے ذریعے سے اور فن کی potentialities کے ساتھ بیان کیا جا سکے۔اس طرح فن اور حقیقت کا تعلق بنتا ہے ۔کسی بنے بنائے نظریے کے ذریعے کردار کے معروضی خاصوں کو شکل دینا اس اصول کو مسخ کرنا ہے۔بہ الفاظ دیگر، بیان کی جانے والی چیز اور فنکارانہ بنتر جس میں اس کا اظہار ہوتا ہے ادب کو پرکھنے کا معروضی پیمانہ ہے۔
تخیلاتی ادب پر بات کرتے ہوئے بہت پہلے ارسطو نے بتایا کہ حقیقی زندگی، تاریخ، ترتیب وار کہانی، یا صرف کہانی منطقی ترتیب کے بغیراور لا محدود ہوتی ہے، جبکہ فن پارہ organicشکل رکھتا ہے اور اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے۔ اس بات کو بار بار دہراتے ہوئے وہ ’کثیر پہلو، اپنے آپ میں مکمل، کلیت، وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔

3؂۔ یہ مثالیں صرف موازنے کے لئے ہیں، ان کا مقصد یہ دکھانا نہیں کہ منٹو کس سے متاثر تھا۔منٹو نے لارنس کے مشہورناول کا مرکزی خیال لے کر پورا ڈرامہ لکھ دیا۔وہ بڑی حد تک موپساں کے طوائف کے تصورسے (جیسا کہ Ball of Fat میں) متاثر تھا۔لیکن خاص طور پر لارنس کے زندگی اور جنس کے بارے نظریات اس سے بہت مختلف ہیں، بلکہ اس کے افسانوں میں اس جیسی گہرائی کا فقدان ہے۔یہ موضوع آئندہ کبھی زیر بحث لایا جائے گا۔

PDFفائل ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

Comments are closed.